مطالعے کا مضمون نمبر 25
”اِن چھوٹوں میں سے“ کسی کا دل نہ دُکھائیں
”آپ اِن چھوٹوں میں سے کسی کو کمتر خیال نہ کریں۔“—متی 18:10۔
گیت نمبر 113: امن کو فروغ دیں
مضمون پر ایک نظر *
1. یہوواہ خدا نے ہم سب کے لیے کیا کِیا ہے؟
یہوواہ خدا نے ہم میں سے ہر ایک کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔ (یوح 6:44) ذرا اِس بات کی گہرائی میں جائیں۔ ذرا سوچیں کہ جب یہوواہ کروڑوں لوگوں کو دیکھ رہا تھا تو اُس نے آپ میں ایک بڑی ہی خاص بات دیکھی۔ اُس نے دیکھا کہ آپ کا دل کتنا اچھا ہے اور آپ اُس سے محبت کر سکتے ہیں۔ (1-توا 28:9) یہوواہ آپ کی ایک ایک بات سے واقف ہے، وہ آپ کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے اور آپ سے محبت کرتا ہے۔ اِس بات سے ہمیں کتنی تسلی ملتی ہے!
2. یسوع مسیح نے ایک مثال کے ذریعے کیسے ظاہر کِیا کہ یہوواہ کو اپنے ہر بندے کی بڑی فکر ہے؟
2 یہوواہ آپ کی بہت فکر کرتا ہے اور اُسے آپ کے مسیحی بہن بھائیوں کی بھی بہت فکر ہے۔ اِس بات کو سمجھنے کے لیے یسوع مسیح کی ایک مثال پر غور کریں جس میں اُنہوں نے یہوواہ کو ایک چرواہے سے تشبیہ دی۔ یسوع نے بتایا کہ اگر ایک چرواہے کی 100 بھیڑوں میں سے ایک کھو جاتی ہے تو وہ کیا کرے گا۔ وہ ”اپنی 99 (ننانوے) بھیڑوں کو وہیں پہاڑوں پر . . . چھوڑے گا اور اپنی کھوئی ہوئی بھیڑ کو ڈھونڈنے . . . جائے گا۔“ اور پھر جب اُسے اُس کی بھیڑ مل جائے گی تو وہ اِس بات پر غصہ نہیں ہوگا کہ وہ کیوں غائب ہو گئی تھی۔ اِس کی بجائے وہ بہت زیادہ خوش ہوگا۔ اِس مثال سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ یہ کہ یہوواہ کی نظر میں اُس کی ہر بھیڑ بہت ہی قیمتی ہے۔ یسوع مسیح نے کہا: ”میرا آسمانی باپ . . . نہیں چاہتا کہ اِن چھوٹوں میں سے ایک بھی ہلاک ہو جائے۔“—متی 18:12-14۔
3. اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟
3 یقیناً ہم کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ ہماری کسی بات یا کام سے ہمارے کسی بہن یا بھائی کا دل ٹوٹ جائے۔ ہم اپنے بہن بھائیوں کا دل دُکھانے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ اور اگر کوئی ہمارا دل دُکھاتا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اِن سوالوں کے جواب اِس مضمون میں دیے جائیں گے۔ لیکن آئیں، پہلے یہ دیکھیں کہ متی 18 باب میں جن ”چھوٹوں“ کا ذکر کِیا گیا ہے، وہ کن کی طرف اِشارہ کرتے ہیں۔
”چھوٹوں“ سے مُراد کون لوگ ہیں؟
4. ”چھوٹوں“ کا اِشارہ کن کی طرف ہے؟
4 ”چھوٹوں“ کا اِشارہ یسوع کے تمام شاگردوں کی طرف ہے، چاہے وہ کسی بھی عمر کے ہوں۔ وہ اِس لحاظ سے بچوں کی طرح ہیں کیونکہ وہ یسوع سے تعلیم پانے کو تیار ہیں۔ (متی 18:3) حالانکہ وہ فرق فرق پسمنظروں اور ثقافتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اُن کی سوچ اور شخصیت ایک دوسرے سے فرق ہے لیکن وہ سب یسوع پر ایمان ظاہر کرتے ہیں۔ اور یسوع مسیح بھی اُن سے بہت پیار کرتے ہیں۔—متی 18:6؛ یوح 1:12۔
5. یہوواہ خدا کو اُس وقت کیسا لگتا ہے جب کوئی شخص اُس کے کسی بندے کا دل دُکھاتا ہے؟
5 یسوع مسیح نے جن چھوٹوں کا ذکر کِیا، وہ سب ہی یہوواہ کی نظر میں بہت بیشقیمت ہیں۔ اِس بات کو سمجھنے کے لیے کہ یہوواہ اُن کے بارے میں کیسے احساسات رکھتا ہے، اِس بارے میں سوچیں کہ ہم بچوں کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں۔ ہم بچوں کو ہر طرح کے نقصان سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ بہت نازک ہوتے ہیں اور اُن میں اِتنا تجربہ اور سمجھ نہیں ہوتی۔ عام طور پر ہمیں اُس وقت بہت دُکھ ہوتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایک شخص دوسرے شخص کو تکلیف پہنچا رہا ہے۔ لیکن جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص کسی بچے کو تکلیف پہنچا رہا ہے تو ہمیں اَور بھی زیادہ دُکھ ہوتا ہے، یہاں تک کہ اُس پر غصہ آتا ہے۔ یہوواہ بھی چاہتا ہے کہ ہمیں کسی طرح کا نقصان نہ ہو۔ اِس لیے جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ کوئی شخص اُس کے کسی بندے کا دل دُکھا رہا ہے یا اُسے تکلیف پہنچا رہا ہے تو اُسے بہت دُکھ ہوتا ہے، یہاں تک کہ غصہ آتا ہے۔—یسع 63:9؛ مر 9:42۔
6. پہلا کُرنتھیوں 1:26-29 کے مطابق یہ دُنیا یسوع کے شاگردوں کو کیسا خیال کرتی ہے؟
6 یسوع مسیح کے شاگرد اَور کس لحاظ سے چھوٹوں کی طرح ہیں؟ غور کریں کہ یہ دُنیا کن لوگوں کو بڑا سمجھتی ہے۔ اُنہی لوگوں کو جو امیر ہوتے ہیں، مشہور ہوتے ہیں یا جن کے پاس اِختیار ہوتا ہے۔ لیکن یسوع مسیح کے شاگرد عام طور پر ایسے نہیں ہیں۔ اِسی لیے یہ دُنیا اُنہیں بہت معمولی اور ’چھوٹا‘ خیال کرتی ہے۔ (1-کُرنتھیوں 1:26-29 کو پڑھیں۔) لیکن یہوواہ اپنے بندوں کے بارے میں ایسا نہیں سوچتا۔
7. ہمیں اپنے بہن بھائیوں کے بارے میں کیسے احساسات رکھنے چاہئیں جن سے یہوواہ خوش ہو؟
7 یہوواہ کو اپنے ہر بندے سے بہت محبت ہے پھر چاہے وہ کئی سالوں سے اُس کی خدمت کر رہا ہو یا پھر اُس نے حال ہی میں ایسا کرنا شروع کِیا ہو۔ ہمارا ہر بہن بھائی یہوواہ کی نظر میں بہت خاص ہے اِس لیے ہمیں اُن سب سے محبت کرنی چاہیے۔ ہمیں صرف کچھ بہن بھائیوں سے ہی نہیں بلکہ ”پوری برادری سے محبت“ کرنے کی ضرورت ہے۔ (1-پطر 2:17، فٹنوٹ) ہمیں اپنے بہن بھائیوں کو محفوظ رکھنے یا اُن کا خیال رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہونا چاہیے۔ اگر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم نے اپنے کسی بہن یا بھائی کا دل دُکھایا ہے یا وہ ہم سے ناراض ہے تو ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ وہ کچھ زیادہ ہی حساس ہے۔ کچھ بہن بھائی دوسروں کی بات کو فوراً اپنے دل پر کیوں لے لیتے ہیں؟ شاید جس طرح سے کچھ بہن بھائیوں کی پرورش ہوئی ہے، اُس کی وجہ سے وہ خود کو دوسروں سے کمتر سمجھتے ہیں۔ اور بعض بہن بھائی شاید نئے نئے یہوواہ کے گواہ بنے ہیں اور اُنہوں نے ابھی یہ نہیں سیکھا کہ اُنہیں دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنے کو تیار ہونا چاہیے۔ چاہے ہمارا یا پھر دوسروں کا دل کسی بھی وجہ سے دُکھا ہو، ہمیں صلح کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ اِس کے علاوہ اگر ایک شخص اکثر دوسروں کی باتوں کو دل پر لے لیتا ہے تو اُسے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اُسے اپنی اِس خامی کو دُور کرنا چاہیے۔ اُسے ایسا صرف اِس لیے نہیں کرنا چاہیے تاکہ اُس کے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ تعلقات اچھے ہو سکیں بلکہ اُسے اپنے ذہنی سکون کے لیے بھی ایسا کرنا چاہیے۔
دوسروں کو اپنے سے بڑا سمجھیں
8. یسوع مسیح کے شاگرد اپنے زمانے کے لوگوں کی کس سوچ سے متاثر تھے؟
8 یسوع مسیح نے کس وجہ سے ”چھوٹوں“ کا ذکر کِیا؟ دراصل اُن کے شاگردوں نے اُن سے پوچھا تھا: ”آسمان کی بادشاہت میں کون سب سے بڑا ہے؟“ (متی 18:1) یسوع مسیح کے زمانے میں بہت سے یہودی رُتبہ حاصل کرنے کو بہت اہم خیال کرتے تھے۔ اِس سلسلے میں ایک عالم نے کہا: ”دوسروں سے عزت پانے اور نام کمانے کی خاطر وہ لوگ کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھے۔“
9. یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کیا کرنے کو کہا؟
لُو 22:26) جب ہم ”دوسروں کو اپنے سے بڑا“ سمجھتے ہیں تو ہم خود کو ”چھوٹا“ بنا رہے ہوتے ہیں۔ (فل 2:3) اگر ہم ایسی سوچ اپنائیں گے تو ایسا بہت ہی کم ہوگا کہ ہم کسی کا دل دُکھائیں گے۔
9 یسوع مسیح کے زمانے میں بہت سے یہودی اِس کوشش میں رہتے تھے کہ وہ خود کو دوسروں سے بڑا ثابت کر سکیں۔ لہٰذا یسوع کے شاگردوں کو اِس سوچ کو بدلنے کے لیے سخت کوشش کرنے کی ضرورت تھی۔ یسوع نے اُن سے کہا: ”جو آپ میں سب سے بڑا ہے، وہ سب سے چھوٹا بنے اور جو پیشوائی کرتا ہے، وہ خادم بنے۔“ (10. ہمیں پولُس رسول کی کس ہدایت پر عمل کرنا چاہیے؟
10 ہمارے تمام بہن بھائی ہم سے کسی نہ کسی لحاظ سے بڑے ہیں۔ اگر ہم اُن کی خوبیوں پر دھیان دیں گے تو ہمیں یہ بات صاف نظر آئے گی۔ لہٰذا ہمیں پولُس رسول کی اُس ہدایت پر عمل کرنا چاہیے جو اُنہوں نے کُرنتھس میں رہنے والے مسیحیوں کو دی تھی۔ اُنہوں نے کہا: ”آپ خود کو دوسروں سے بہتر کیوں سمجھتے ہیں؟ کیا آپ کے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو آپ کو خدا سے نہ ملی ہو؟ اور اگر ساری چیزیں آپ کو خدا سے ملی ہیں تو پھر آپ شیخی کیوں مارتے ہیں گویا آپ نے اِن کو اپنی طاقت سے حاصل کِیا ہو؟“ (1-کُر 4:7) ہمیں کبھی بھی خود کو دوسروں سے بڑا نہیں سمجھنا چاہیے اور یہ خواہش نہیں کرنی چاہیے کہ دوسرے ہماری تعریفیں کریں۔ اگر ایک بھائی بڑی زبردست تقریریں کرتا ہے یا اگر ایک بہن دوسروں کو بائبل کورس شروع کرانے میں بڑی ماہر ہے تو اُسے تعریف کا سہرا فوراً یہوواہ کے سر باندھنا چاہیے۔
’دل سے معاف کریں‘
11. یسوع مسیح نے بادشاہ اور غلام کی مثال سے کون سی بات سمجھائی؟
11 جب یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو اِس بات سے خبردار کِیا کہ وہ دوسروں کا دل نہ دُکھائیں تو اِس کے بعد اُنہوں نے ایک بادشاہ اور غلام کی مثال دی۔ غلام کے سر پر بہت بڑا قرض تھا لیکن بادشاہ نے اُس کا قرض معاف کر دیا کیونکہ وہ غلام اِسے چُکا نہیں سکتا تھا۔ مگر بعد میں اِس غلام نے اپنے ساتھی کا چھوٹا سا قرض معاف نہیں کِیا۔ آخر میں بادشاہ نے اِس بےرحم غلام کو قیدخانے میں ڈلوا دیا۔ اِس مثال سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ یسوع مسیح نے کہا: ”اگر آپ ایک دوسرے کو دل سے معاف نہیں کریں گے تو میرا آسمانی باپ بھی آپ کے ساتھ اِسی طرح پیش آئے گا۔“—متی 18:21-35۔
12. جب ہم معاف نہیں کرتے تو اِس سے دوسروں کا دل کیسے دُکھ سکتا ہے؟
12 اُس غلام نے جو کچھ کِیا، اُس کی وجہ سے اُسے نہ صرف خود بلکہ دوسروں کو بھی تکلیف اُٹھانی پڑی۔ سب سے پہلے تو اُس نے بڑی بےرحمی سے اپنے ساتھی کو اُس وقت تک ”قیدخانے میں بند کروا دیا جب تک کہ وہ سارا قرض ادا نہ کر دے۔“ پھر اُس نے اُن لوگوں کا بھی دل دُکھایا جو یہ سب دیکھ رہے تھے۔ یسوع مسیح نے بتایا کہ ”جب اُس غلام کے باقی ہمخدمتوں نے یہ دیکھا تو اُنہیں بہت دُکھ ہوا۔“ اِسی طرح ہم جو کام کرتے ہیں، اِس کا دوسروں پر بھی اثر ہوتا ہے۔ اگر کوئی ہمارے ساتھ بُری طرح سے پیش آتا ہے اور ہم اُسے معاف نہیں کرتے تو کیا ہو سکتا ہے؟ سب سے پہلے تو اُس شخص کو معاف نہ کرنے سے ہم اُس کا دل دُکھا رہے ہوتے ہیں اور اُس کے لیے محبت ظاہر نہیں کر رہے ہوتے۔ اِس کے علاوہ ہم کلیسیا کے بہن بھائیوں کو بھی پریشانی میں ڈال رہے ہوتے ہیں جو یہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے اور اُس شخص کے بیچ میں مسئلے چل رہے ہیں۔
13. ہم ایک پہلکار بہن کے تجربے سے کیا سیکھتے ہیں؟
13 جب ہم اپنے بہن بھائیوں کو معاف کر دیتے ہیں تو اِس سے ہمیں بھی اور دوسروں کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ اِسی بات کا تجربہ ایک پہلکار بہن نے بھی کِیا جسے ہم کرسٹل کہیں گے۔ اُن کی کلیسیا کی ایک بہن نے اُن کا دل دُکھایا۔ بہن کرسٹل کہتی ہیں: ”اُس بہن کی باتیں کبھی کبھار میرے دل پر چھریوں کی طرح چلتی تھیں۔ مَیں تو اُس کے ساتھ مُنادی تک نہیں کرنا چاہتی تھی۔ مجھے مُنادی کرنے سے کوئی خوشی نہیں مل رہی تھی۔“ حالانکہ بہن کرسٹل کے پاس اُس بہن سے ناراض ہونے کی بالکل جائز وجہ تھی۔ لیکن اُنہوں نے اپنے دل میں اُس بہن کے لیے ناراضگی نہیں پلنے دی اور نہ ہی اِس بات پر زیادہ توجہ دی کہ اُن کے دل پر کیا بیتتی ہے۔ اُنہوں نے 15 اکتوبر 1999ء کے ”مینارِنگہبانی“ میں مضمون ”اپنے دل سے معاف کریں“ کو پڑھا اور اِس میں درج ہدایتوں پر عمل کِیا۔ بہن کرسٹل کہتی ہیں: ”اب مَیں یہ سمجھ گئی ہوں کہ ہم سب ہی نئی شخصیت کو پہننے کی سخت کوشش کر رہے ہیں اور جب ہم سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو یہوواہ ہمیں دل سے معاف کرتا ہے اور وہ ہر روز ایسا کرتا ہے۔ اُس بہن کو معاف کرنے سے مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرے کندھوں سے کوئی بھاری بوجھ ہٹ گیا ہو اور اب مَیں دوبارہ خوش رہنے لگی ہوں۔“
14. متی 18:21، 22 کے مطابق پطرس رسول کو شاید کس مشکل کا سامنا تھا اور یسوع مسیح نے اُنہیں جو جواب دیا، اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
14 ہم یہ جانتے ہیں کہ جب ہم دوسروں کو معاف کر دیتے ہیں تو ہم بالکل صحیح کام کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھار ہمیں ایسا کرنا مشکل لگ سکتا ہے۔ لگتا ہے کہ پطرس رسول بھی کبھی کبھار ایسا ہی محسوس کرتے تھے۔ (متی 18:21، 22 کو پڑھیں۔) کون سی باتیں دوسروں کو معاف کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں؟ سب سے پہلے تو ہمیں اِس بات پر غور کرنا چاہیے کہ یہوواہ نے ہماری کتنی غلطیوں کو معاف کِیا ہے۔ (متی 18:32، 33) حالانکہ ہم اُس کی معافی کے لائق نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ ہمیں بار بار معاف کرتا ہے۔ (زبور 103:8-10) اِس کے علاوہ ”ہمارا فرض ہے کہ ہم . . . ایک دوسرے سے محبت کریں۔“ (1-یوح 4:11) لہٰذا یہ ہمارا فیصلہ نہیں ہے کہ ہم کسی کو معاف کریں گے یا نہیں۔ یہ ہم پر فرض ہے کہ ہم اپنے بہن بھائیوں کی غلطیوں کو معاف کریں۔ دوسری بات جو دوسروں کو معاف کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اِس بات پر غور کریں کہ جب ہم کسی کو معاف کر دیتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔ اِس سے اُس بہن یا بھائی کی مدد ہو سکتی ہے جو ہمارے ساتھ بُری طرح سے پیش آیا تھا، کلیسیا کا اِتحاد برقرار رہ سکتا ہے، یہوواہ کے ساتھ ہماری دوستی مضبوط رہ سکتی ہے اور ہمارے دل سے بھاری بوجھ ہٹ سکتا ہے۔ (2-کُر 2:7؛ کُل 3:14) دوسروں کو معاف کرنے کے حوالے سے جو تیسری بات ہمارے کام آ سکتی ہے، وہ دُعا ہے۔ شیطان کو کبھی یہ موقع نہ دیں کہ وہ اُس امن کو برباد کرے جو آپ کے اور آپ کے بہن یا بھائی کے بیچ ہے۔ (اِفس 4:26، 27) شیطان کے اِس پھندے سے بچنے کے لیے ہمیں یہوواہ کی مدد کی ضرورت ہے۔
کبھی بھی کسی کی بات سے ٹھوکر نہ کھائیں
15. اگر ہمیں اپنے کسی بہن یا بھائی کی کوئی بات بُری لگتی ہے تو کُلسّیوں 3:13 کے مطابق ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
15 اگر ہمیں اپنے بہن یا بھائی کی کوئی بات بُری لگتی ہے تو ہمیں لُو 6:28) اگر آپ اُس بات کو بھول نہیں پا رہے جس سے آپ کا دل دُکھا ہے تو اِس بارے میں سوچیں کہ آپ اُس بہن یا بھائی سے کیسے بات کریں گے۔ یہ یاد رکھنا ہمیشہ اچھا ہوگا کہ اُس بہن یا بھائی نے جان بُوجھ کر ہمارا دل نہیں دُکھایا تھا۔ (متی 5:23، 24؛ 1-کُر 13:7) لہٰذا اُس سے بات کرتے وقت اِس بات کو ذہن میں رکھیں۔ لیکن آپ اُس صورت میں کیا کر سکتے ہیں اگر وہ بہن یا بھائی آپ سے صلح نہ کرنا چاہے؟ بائبل میں بتایا گیا ہے: ”ایک دوسرے کی برداشت کریں۔“ (کُلسّیوں 3:13 کو پڑھیں۔) اُس کے ساتھ صبر سے پیش آتے رہیں۔ سب سے بڑھ کر اپنے دل میں ناراضگی کو گھر نہ کرنے دیں کیونکہ اِس طرح آپ کی یہوواہ کے ساتھ دوستی خراب ہو سکتی ہے۔ کبھی بھی کسی کی بات سے ٹھوکر نہ کھائیں۔ یوں آپ یہ ثابت کر رہے ہوں گے کہ آپ کسی بھی چیز سے زیادہ یہوواہ سے محبت کرتے ہیں۔—زبور 119:165۔
کیا کرنا چاہیے؟ ہمیں صلح کو برقرار رکھنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں دل کھول کر یہوواہ کو بتانا چاہیے کہ ہم کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ آپ یہوواہ سے دُعا کر سکتے ہیں کہ وہ اُس بہن یا بھائی کی مدد کرے جس نے آپ کا دل دُکھایا ہے اور وہ آپ کی بھی یہ مدد کرے کہ آپ اُس کی وہ خوبیاں دیکھ سکیں جن کی وجہ سے یہوواہ اُس سے محبت کرتا ہے۔ (16. ہم سب کا کیا فرض ہے؟
16 ہم اِس بات کی بہت قدر کرتے ہیں کہ ہم سب بہن بھائی ’ایک گلّے‘ کے طور پر ’ایک چرواہے‘ کے تحت ہیں۔ (یوح 10:16) کتاب ”آرگنائزڈ ٹو ڈو جیہوواز وِل“ کے صفحہ نمبر 165 میں لکھا ہے: ”ہم سب کلیسیا میں پائے جانے والے اِتحاد سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ اِس لیے یہ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اِس اِتحاد کو برقرار رکھیں۔ ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے بہن بھائیوں کو اُسی نظر سے دیکھیں جس نظر سے یہوواہ اُنہیں دیکھتا ہے۔“ یہوواہ کے نزدیک سب ’چھوٹے‘ یعنی اُس کے سب بندے بیشقیمت ہیں۔ کیا آپ بھی اپنے بہن بھائیوں کو ایسا ہی خیال کرتے ہیں؟ ہم اپنے بہن بھائیوں کی مدد کرنے اور اُن کا خیال رکھنے کے لیے جو بھی کرتے ہیں، یہوواہ اِسے دیکھتا ہے اور اِس کی بڑی قدر کرتا ہے۔—متی 10:42۔
17. ہم نے کیا کرنے کا عزم کِیا ہے؟
17 ہم اپنے بہن بھائیوں سے بہت محبت کرتے ہیں۔ اِس لیے ہم نے یہ عزم کِیا ہے کہ ”ہم کسی کے لیے ٹھوکر کا باعث یا رُکاوٹ نہیں بنیں گے۔“ (روم 14:13) ہم اپنے بہن بھائیوں کو اپنے سے بڑا سمجھیں گے اور اُنہیں دل سے معاف کریں گے۔ آئیں، کبھی بھی اپنے کسی بہن یا بھائی کی بات سے ٹھوکر نہ کھائیں۔ اِس کی بجائے ”ایسے کام کریں جن سے امن کو فروغ ملے اور دوسروں کی حوصلہافزائی ہو۔“—روم 14:19۔
گیت نمبر 130: دل سے معاف کریں
^ پیراگراف 5 عیبدار ہونے کی وجہ سے ہم کبھی کبھار ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں یا ایسے کام کر جاتے ہیں جس سے ہمارے کسی بہن یا بھائی کا دل دُکھتا ہے۔ جب ہم سے ایسا ہو جاتا ہے تو ہم کیا کرتے ہیں؟ کیا ہم اُس بہن یا بھائی سے صلح کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ کیا ہم اُس سے فوراً معافی مانگ لیتے ہیں؟ یا کیا ہم یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ”اگر میری کسی بات سے اُس کا دل دُکھا ہے تو یہ اُس کا مسئلہ ہے، میرا نہیں“؟ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ کسی بات سے ہمارا دل دُکھ جاتا ہے۔ کیا ہم اِسے دل پر لگا لیتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ ”مَیں تو ایسا ہی ہوں“؟ یا کیا ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ ایک خامی ہے جسے ہمیں دُور کرنے کی ضرورت ہے؟
^ پیراگراف 53 تصویر کی وضاحت: ایک بہن اپنی کلیسیا کی ایک بہن سے ناراض ہے۔ بعد میں وہ دونوں اکیلے میں صلح کر رہی ہیں اور خوشی سے مل کر یہوواہ کی خدمت کر رہی ہیں۔