کیا آپ کو معلوم ہے؟
یسوع مسیح کے زمانے میں لوگوں کو کس طرح کے ٹیکس ادا کرنے پڑتے تھے؟
قدیم زمانے سے ہی بنیاِسرائیل یہوواہ کی عبادت کی حمایت کرنے کے لیے عطیے دیتے تھے۔ لیکن یسوع مسیح کے زمانے میں اُنہیں اَور بھی بہت سے ٹیکس ادا کرنے پڑ رہے تھے جن کی وجہ سے اُن کی زندگی کافی مشکل ہو گئی تھی۔
خیمۂاِجتماع اور بعد میں ہیکل میں یہوواہ کی عبادت کی حمایت کرنے کے لیے ہر یہودی کو آدھی مِثقال (دو دِرہم) ٹیکس کے طور پر ادا کرنے ہوتے تھے۔ یسوع مسیح کے زمانے میں اِس ٹیکس کو قربانیاں چڑھانے اور ہیرودیس کی بنائی ہوئی ہیکل کی دیکھبھال کرنے کے لیے اِستعمال کِیا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ کچھ یہودیوں نے پطرس سے پوچھا: ”کیا آپ کے اُستاد ہیکل کا ٹیکس نہیں دیتے؟“ یسوع نے پطرس سے اِس معاملے پر بات کرتے وقت یہ نہیں کہا کہ ایسا کرنا غلط ہے۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے خود پطرس سے کہا کہ وہ یہ ٹیکس ادا کریں اور اِسے ادا کرنے کے لیے اُنہیں سکہ کہاں سے ملے گا۔—متی 17:24-27۔
یہوواہ کے بندوں کو اُس زمانے میں ایک اَور طرح کا ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا جسے دہیکی کہا جاتا تھا۔ دہیکی دینے کا مطلب یہ تھا کہ لوگ اپنی فصل یا کمائی کا دسواں حصہ دیں۔ (احبا 27:30-32؛ گن 18:26-28) یسوع مسیح کے زمانے کے مذہبی رہنما لوگوں کو مجبور کرتے تھے کہ وہ ہر طرح کی سبزی کا دسواں حصہ ادا کریں، یہاں تک کہ ”پودینے، اجوائن اور زیرے کا دسواں حصہ“ بھی دیں۔ یسوع نے اِس بات پر اِعتراض نہیں کِیا کہ دہیکی دینا غلط ہے۔ دراصل اُنہیں اِس بات پر اِعتراض تھا کہ فریسی اور شریعت کے عالم اِس حکم کو جس طرح سے لاگو کر رہے ہیں، وہ صحیح نہیں ہے۔—متی 23:23۔
اُس زمانے میں یہودیوں کو رومی لوگوں کو بھی بہت سے ٹیکس دینے پڑتے تھے جو اُس وقت اُن پر حکومت کر رہے تھے۔ مثال کے طور پر جن لوگوں کی زمین جائیداد ہوتی تھی، وہ پیسے یا فصل دے کر ٹیکس ادا کر سکتے تھے۔ خیال کِیا جاتا ہے کہ اُنہیں فصل کا 20 سے 25 فیصد حصہ دینا ہوتا تھا۔ اِس کے علاوہ ہر یہودی مرد پر قیصر کو ٹیکس دینا بھی فرض تھا۔ اور اِسی ٹیکس کو لے کر فریسیوں نے یسوع سے سوال پوچھا تھا جس کا جواب یسوع نے یہ دیا: ”جو چیزیں قیصر کی ہیں، قیصر کو دو اور جو چیزیں خدا کی ہیں، خدا کو دو۔“ (متی 22:15-22) یوں یسوع مسیح نے ظاہر کِیا کہ ہمیں ٹیکس ادا کرنے کو کیسا خیال کرنا چاہیے۔
ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے والے سامان پر بھی ٹیکس لگایا جاتا تھا جسے بندرگاہوں، پلوُں، شہروں یا بازاروں میں داخل ہوتے وقت وصول کِیا جاتا تھا۔
رومیوں نے لوگوں پر جتنے بھی ٹیکس عائد کیے ہوئے تھے، اُن سب کو ادا کرنا لوگوں کے لیے ایک بہت بڑا بوجھ بن چُکا تھا۔ ایک رومی تاریخدان تستُس نے بتایا کہ شہنشاہ تِبریُس کی حکومت کے دوران جب یسوع بھی زمین پر تھے، ”سُوریہ اور یہودیہ کے لوگوں نے یہ مِنت کی کہ اُن پر لگائے گئے ٹیکسوں کو کم کِیا جائے کیونکہ اِنہیں ادا کرنا اُن کے لیے بہت مشکل ہو گیا تھا۔“
ٹیکسوں کو جس طرح سے وصول کِیا جاتا تھا، اُس کی وجہ سے لوگوں کو اِنہیں ادا کرنا اَور بھی زیادہ عذاب لگتا تھا۔ ٹیکس وصول کرنے کا کام اُسی بندے کو دیا جاتا تھا، جو اِس کام کے لیے سب سے موٹی رقم دیتا تھا۔ یہ بندہ آگے سے دوسروں کو ٹیکس جمع کرنے کے کام پر لگاتا تھا جس سے وہ لوگ بھی منافع کماتے تھے۔ لگتا ہے کہ ٹیکس وصول کرنے والے زکائی نے بھی کچھ لوگوں کو ٹیکس اِکٹھا کرنے کے کام پر لگایا ہوا تھا۔ (لُو 19:1، 2) لہٰذا اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ لوگ اِس بندوبست سے اُکتائے ہوئے تھے اور اُن لوگوں سے نفرت کرتے تھے جو اُن سے آ کر ٹیکس لیتے تھے۔