اپنی ساری پریشانیاں یہوواہ پر ڈال دیں
”اپنی ساری پریشانیاں [یہوواہ] پر ڈال دیں کیونکہ اُس کو آپ کی فکر ہے۔“—1-پطر 5:7۔
1، 2. (الف) خدا کے خادموں کو پریشانیوں کا سامنا کیوں ہے؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔) (ب) اِس مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟
شیطان ”ایک دھاڑتے ہوئے ببر شیر کی طرح گھوم رہا ہے اور کسی کو پھاڑ کھانے کا موقع ڈھونڈ رہا ہے۔“ (1-پطر 5:8؛ مکا 12:17) اِس کے نتیجے میں لوگوں کو پریشانیوں نے گھیر رکھا ہے، یہاں تک کہ خدا کے بندے بھی اِن سے بچ نہیں سکتے۔ پُرانے زمانے میں بھی خدا کے خادم کبھی کبھار پریشان ہوا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر بائبل میں لکھا ہے کہ داؤد بادشاہ ”پریشانیوں میں مبتلا رہے۔“ (زبور 13:2، اُردو جیو ورشن) اور پولُس رسول کو ”کلیسیاؤں کی فکر ستاتی رہتی“ تھی۔ (2-کُر 11:28) اِس لیے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم پریشانیوں سے کیسے نمٹ سکتے ہیں؟
2 ہمارے آسمانی باپ نے ماضی میں اپنے خادموں کی مدد کی تاکہ وہ پریشانیوں سے نمٹ سکیں اور وہ آج بھی اپنے بندوں کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ اُس کے کلام میں لکھا ہے: ”اپنی ساری پریشانیاں اُس پر ڈال دیں کیونکہ اُس کو آپ کی فکر ہے۔“ (1-پطر 5:7) ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟ پریشانیوں سے نمٹنے کے لیے ہم اِن چار طریقوں کو آزما سکتے ہیں: (1) دُعا میں خدا کو اپنے دل کا حال بتائیں؛ (2) خدا کے کلام کو پڑھیں اور اِس پر سوچ بچار کریں؛ (3) یہوواہ سے پاک روح مانگیں؛ اور (4) کسی ایسے شخص کو اپنے احساسات اور جذبات کے بارے میں بتائیں جس پر آپ بھروسا کرتے ہیں۔ اِن چار طریقوں پر غور کرتے وقت یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ آپ کن حلقوں میں بہتری لا سکتے ہیں۔
’اپنا بوجھ یہوواہ پر ڈال دیں‘
3. آپ یہوواہ پر اپنا بوجھ کیسے ڈال سکتے ہیں؟
3 پریشانیوں سے نمٹنے کا پہلا طریقہ دُعا ہے۔ آپ کا آسمانی باپ چاہتا ہے کہ آپ پریشانی کی حالت میں اُس کے سامنے اپنا دل اُنڈیل دیں۔ داؤد نے ایک زبور میں یہ اِلتجا کی: ”اَے خدا! میری دُعا پر کان لگا۔“ اِسی زبور میں اُنہوں نے کہا کہ ”اپنا بوجھ [یہوواہ] پر ڈال دے۔ وہ تجھے سنبھالے گا۔“ (زبور 55:1، 22) لہٰذا ایک مسئلے کے بارے میں فکر کرنے کی بجائے اِسے حل کرنے کی بھرپور کوشش کریں اور پھر دُعا کر کے اِسے یہوواہ کے ہاتھ میں چھوڑ دیں۔ مگر دُعا کرنے سے ہماری پریشانی کیوں کم ہو جاتی ہے؟—زبور 94:18، 19۔
4. دُعا کرنے سے ہماری پریشانی کیوں کم ہو جاتی ہے؟
4 فِلپّیوں 4:6، 7 کو پڑھیں۔ جب ہم کسی مسئلے کے بارے میں دل کی گہرائیوں سے دُعا کرتے ہیں تو یہوواہ خدا ہماری مدد کرتا ہے تاکہ ہم اپنے دل سے منفی خیالات اور احساسات کو دُور کر سکیں۔ اُس کی مدد سے ہمارے دل پر ایسا اِطمینان طاری ہو جاتا ہے جو ہر پریشانی اور خدشے کو دُور کر دیتا ہے۔ ہمارے بہت سے بہن بھائیوں نے اِس طرح کے اِطمینان کو محسوس کِیا ہے۔ اگر آپ اپنا بوجھ یہوواہ پر ڈال دیں گے تو آپ بھی اِس اِطمینان کو محسوس کریں گے اور ہر پریشانی سے نمٹ پائیں گے۔ آپ پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا اپنا یہ وعدہ پورا کرے گا: ”تُو مت ڈر کیونکہ مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ ہراساں نہ ہو کیونکہ مَیں تیرا خدا ہوں مَیں تجھے زور بخشوں گا۔ مَیں یقیناً تیری مدد کروں گا۔“—یسع 41:10۔
خدا کے کلام سے اِطمینان پائیں
5. خدا کا کلام پریشانیوں سے نمٹنے میں ہمارے کام کیسے آ سکتا ہے؟
5 پریشانیوں سے نمٹنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم بائبل کو پڑھیں اور اِس پر سوچ بچار کریں۔ یہ اِتنا اہم کیوں ہے؟ دراصل بائبل خدا کا کلام ہے۔ اِس میں ہمارے خالق کی ہدایتیں اور نصیحتیں درج ہیں۔ لہٰذا جب بھی آپ کسی نہ کسی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں تو اُس کے کلام میں لکھی ہوئی باتوں پر سوچ بچار کریں اور دیکھیں کہ اِس میں آپ کے مسئلے کے متعلق کون سی ہدایتیں دی گئی ہیں۔ یوں آپ اپنی پریشانی سے نمٹ سکیں گے اور اِسے کم کر سکیں گے۔ یہوواہ نے ظاہر کِیا ہے کہ اُس کے کلام کو پڑھنے سے ایک شخص ’خوف کھانے اور بےدل ہونے‘ سے بچ سکتا ہے اور دلیر بن سکتا ہے۔—یشو 1:7-9۔
6. یسوع مسیح کی باتوں سے ہماری مدد کیسے ہو سکتی ہے؟
6 خدا کے کلام میں یسوع مسیح کی باتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ لوگ بڑے شوق سے اُن کی باتیں سنتے تھے کیونکہ اِن سے اُنہیں تسلی ملتی تھی اور وہ تازہدم ہو جاتے تھے۔ خاص طور پر ایسے لوگ اُن کی باتوں سے حوصلہ پاتے تھے جو پریشانیوں کے بوجھ تلے دبے تھے۔ (متی 11:28-30 کو پڑھیں۔) یسوع مسیح کو دوسروں کی ضروریات کا بڑا خیال تھا۔ (مر 6:30-32) ہم پورا یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہمارا بھی خیال رکھیں گے۔ لیکن یسوع مسیح تو آسمان پر ہیں۔ پھر وہ ہماری مدد کیسے کر سکتے ہیں؟ ہمارے بادشاہ کے طور پر وہ آسمان پر ہوتے ہوئے بھی ہم پر محبت نچھاور کرتے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ پریشان ہیں تو یقین رکھیں کہ یسوع مسیح ”ضرورت کے وقت“ آپ کی مدد کو آئیں گے۔ یوں آپ پُراُمید رہ سکیں گے اور دلیری سے اپنی پریشانیوں سے نمٹ سکیں گے۔—عبر 2:17، 18؛ 4:16۔
روح کا پھل پیدا کریں
7. خدا کی پاک روح ہماری مدد کیسے کر سکتی ہے؟
7 یسوع مسیح نے وعدہ کِیا تھا کہ جو شخص آسمانی باپ سے پاک روح مانگے گا، اُسے دی جائے گی۔ (لُو 11:10-13) یہی پریشانیوں سے نمٹنے کا تیسرا طریقہ ہے۔ لیکن پاک روح ہماری مدد کیسے کر سکتی ہے؟ اِس کے ذریعے ہم ”روح کا پھل“ پیدا کر سکتے ہیں اور یوں اپنی شخصیت کو خدا کی شخصیت کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔ (گلتیوں 5:22، 23 کو پڑھیں؛ کُل 3:10) جب ہم روح کے پھل میں شامل خوبیاں پیدا کرتے ہیں تو دوسروں کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہو جاتے ہیں اور ہم پریشانکُن صورتحال میں پڑنے سے بچ سکتے ہیں۔ آئیں، دیکھیں کہ روح کا پھل کن طریقوں سے ہمارے کام آ سکتا ہے۔
8-12. روح کا پھل پریشانیوں سے نمٹنے میں ہمارے کام کیسے آ سکتا ہے؟
8 ”محبت، خوشی، صلح (فٹنوٹ)۔“ جب آپ دوسروں کے لیے محبت، شفقت اور احترام جیسی خوبیاں ظاہر کرتے ہیں تو آپ بہت سی پریشانیوں سے بچ سکتے ہیں کیونکہ پھر ایسی صورتحال کم ہی پیدا ہوتی ہیں جو غصے، کشیدگی اور بدمزگی کا باعث بنتی ہیں۔ اِن خوبیوں کی بدولت آپ کو دوسروں کے ساتھ صلح صفائی سے رہنا زیادہ آسان لگے گا۔—روم 12:10۔
9 ”تحمل، مہربانی، اچھائی۔“ پاک کلام میں لکھا ہے: ”ایک دوسرے سے مہربانی اور ہمدردی سے پیش آئیں اور دل سے ایک دوسرے کو معاف کریں۔“ (اِفس 4:32) جب ہم اِس ہدایت پر عمل کرتے ہیں تو دوسروں کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے ہو جاتے ہیں اور ایسے مسئلے کم ہی کھڑے ہوتے ہیں جو ہمارے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ اور اگر ہماری یا کسی اَور کی غلطی کی وجہ سے کوئی مسئلہ کھڑا بھی ہو جائے تو اِسے سلجھانا زیادہ آسان ہو جائے گا۔
10 ”ایمان۔“ ہم اکثر پیسوں اور مالواسباب کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں۔ (امثا 18:11) اِس طرح کی پریشانی سے بچنے کے لیے ہمیں پولُس رسول کی اِس ہدایت پر عمل کرنا چاہیے کہ ’اُن چیزوں سے مطمئن رہیں جو آپ کے پاس ہیں۔‘ اگر ہم یہوواہ خدا پر مضبوط ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں پکا یقین ہوگا کہ وہ ہماری ضروریات پوری کرے گا۔ اُس نے وعدہ کِیا ہے کہ ”مَیں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ مَیں تمہیں کبھی ترک نہیں کروں گا۔“ اِس لیے پولُس رسول کی طرح ہم بھی پورے اِعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ ”یہوواہ میرا مددگار ہے۔ مَیں نہیں ڈروں گا۔ اِنسان میرا کیا بگاڑ سکتا ہے؟“—عبر 13:5، 6۔
11 ”نرممزاجی اور ضبطِنفس۔“ یہ خوبیاں بہت ہی فائدہمند ہیں کیونکہ اِن کی بدولت ہم نہ تو ایسی باتیں کہیں گے اور نہ ہی ایسے کام کریں گے جو ہمارے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ ہم ”ہر طرح کی رنجش، غصے، غضب، چیخنے چلّانے، گالیگلوچ اور نقصاندہ باتوں سے باز“ رہیں گے۔—اِفس 4:31۔
12 ”خدا کے زورآور ہاتھ کے نیچے“ رہنے اور ’اپنی ساری پریشانیاں اُس پر ڈالنے‘ کے لیے ہمیں خاکساری پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ (1-پطر 5:6، 7) اگر ہم فروتن یعنی خاکسار ہوں گے تو ہم اِس بات کو تسلیم کریں گے کہ کچھ کام ہمارے بس میں نہیں ہیں۔ (میک 6:8) اِس لیے ہم اپنی طاقت پر بھروسا کرنے کی بجائے خدا پر بھروسا کریں گے۔ پھر جب ہم خدا کی محبت کو محسوس کریں گے اور دیکھیں گے کہ وہ ہماری مدد کر رہا ہے تو ہم پُرسکون رہیں گے اور پریشانیوں کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیں گے۔
”فکر نہ کریں“
13. یسوع کی اِس ہدایت کا کیا مطلب ہے کہ ”فکر نہ کریں“؟
13 متی 6:34 میں یسوع کی یہ ہدایت پائی جاتی ہے کہ ”فکر نہ کریں۔“ (اِس آیت کو پڑھیں۔) شاید ہمیں اِس ہدایت پر عمل کرنا مشکل لگے۔ لیکن کیا یسوع مسیح یہ کہہ رہے تھے کہ خدا کے خادموں کو کبھی فکرمند نہیں ہونا چاہیے؟ نہیں۔ یاد کریں کہ داؤد بادشاہ اور پولُس رسول بھی وقتاًفوقتاً فکرمند ہوئے۔ دراصل یسوع مسیح اپنے شاگردوں کو بتا رہے تھے کہ کسی معاملے کے بارے میں حد سے زیادہ فکر کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ مسیحیوں کو ہر دن کسی نہ کسی مسئلے کا سامنا ہوتا ہے۔ لہٰذا اُنہیں ماضی کے مسئلوں یا آئندہ کھڑے ہونے والے مسئلوں کے بارے میں فکر کرنے سے اپنی پریشانیوں میں اِضافہ نہیں کرنا چاہیے۔ آئیں، دیکھتے ہیں کہ یسوع مسیح کی اِس ہدایت پر عمل کرنے سے ہم حد سے زیادہ پریشان ہونے سے کیسے بچ سکتے ہیں۔
14. اگر ہم ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے پریشان ہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟
14 کچھ لوگ اُن غلطیوں کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں جو اُنہوں نے ماضی میں کی ہوتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اُن کی غلطی کو بہت سال بیت گئے ہوں لیکن پھر بھی وہ خود کو کوستے رہتے ہیں۔ کبھی کبھار بادشاہ داؤد بھی اپنی ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے دلبرداشتہ ہو جاتے تھے۔ ایک بار تو اُنہوں نے کہا: ”مَیں . . . نہایت کچلا ہوا ہوں اور دل کی بےچینی کے سبب سے کراہتا رہا۔“ (زبور 38:3، 4، 8، 18) داؤد پریشانی کے اِس عالم میں کیا کرتے تھے؟ وہ خود کو یاد دِلاتے تھے کہ یہوواہ رحیم ہے اور گُناہوں کو معاف کرتا ہے۔ یہ جان کر وہ پُرسکون ہو جاتے تھے۔—زبور 32:1-3، 5 کو پڑھیں۔
15. (الف) جب ہم اپنی حالیہ صورتحال کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں تو ہم داؤد سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ (ب) ہم پریشانی کو کم کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ (بکس ” پریشانی کو کم کرنے کے لیے کچھ مشورے“ کو دیکھیں۔)
15 کبھی کبھار ہم اپنی حالیہ صورتحال کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر بادشاہ داؤد نے زبور 55 کو ایسے وقت میں لکھا جب اُن کے دُشمن اُن کو مار ڈالنے کے درپے تھے۔ اِس زبور سے پتہ چلتا ہے کہ داؤد بہت خوفزدہ اور پریشان تھے۔ (زبور 55:2-5) لیکن اُنہوں نے یہوواہ خدا پر بھروسا کرنا نہیں چھوڑا بلکہ اُس سے مدد کی اِلتجا کی۔ اِس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے اِس گھمبیر صورتحال سے نمٹنے کے لیے خود بھی قدم اُٹھائے۔ (2-سمو 15:30-34) یوں اُنہوں نے ہمارے لیے بہت اچھی مثال قائم کی۔ اپنی پریشانیوں کے آگے ہتھیار ڈالنے کی بجائے مسئلے کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور پھر معاملے کو یہوواہ خدا پر چھوڑ دیں۔
16. خدا کے نام کا مطلب جان کر ہم پریشانیوں سے بہتر طور پر نمٹنے کے قابل کیوں ہو جاتے ہیں؟
16 کبھی کبھار ہمیں خدشہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں فلاں مسئلہ کھڑا ہوگا اور اِس لیے ہم پریشان ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہمیں اُن مسئلوں کے بارے میں پریشان نہیں ہونا چاہیے جو ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوئے۔ اکثر حالات اِتنے خراب نہیں ہوتے جتنا کہ ہمیں خدشہ تھا۔ یاد رکھیں کہ کوئی ایسی صورتحال نہیں جو خدا کی پہنچ سے باہر ہو۔ اُس کا نام ہی اِس بات کی ضمانت ہے۔ اُس کے نام کا مطلب ہے: ”وہ بناتا ہے۔“ (خر 3:14) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں مستقبل کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ خدا اپنے تمام فیصلوں اور اِرادوں کو حقیقت بنائے گا۔ وہ اپنے وفادار بندوں کو برکت دے گا اور اُنہیں ہر طرح کی پریشانی سے نمٹنے کی طاقت دے گا۔ لہٰذا ہمیں ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے، کسی حالیہ صورتحال کی وجہ سے یا پھر مستقبل کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
دوسروں سے مدد لیں
17، 18. پریشانیوں سے نمٹنے کے لیے ہم دوسروں سے مدد کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
17 پریشانیوں سے نمٹنے کا چوتھا طریقہ یہ ہے کہ ہم کسی ایسے شخص امثا 12:25) اِس میں یہ بھی لکھا ہے کہ ”صلاح کے بغیر اِرادے پورے نہیں ہوتے پر صلاحکاروں کی کثرت سے قیام پاتے ہیں۔“—امثا 15:22۔
کو اپنے احساسات اور جذبات کے بارے میں بتائیں جس پر ہمیں بھروسا ہے۔ یہ شخص ہمارا جیون ساتھی، کوئی قریبی دوست یا پھر کلیسیا کا کوئی بزرگ ہو سکتا ہے۔ ایک ایسے شخص کی مدد سے ہم اپنی صورتحال کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ پاک کلام میں لکھا ہے: ”آدمی کا دل فکرمندی سے دب جاتا ہے لیکن اچھی بات سے خوش ہوتا ہے۔“ (18 باقاعدگی سے اِجلاسوں پر جانا بھی ہمارے لیے بہت فائدہمند ہوتا ہے۔ ہم ہر ہفتے اِجلاسوں پر اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ اِن لوگوں کو ہماری فکر ہے اور وہ ہماری حوصلہافزائی کرتے ہیں۔ (عبر 10:24، 25) ایک دوسرے کی حوصلہافزائی کرنے سے ہماری ہمت بڑھتی ہے اور ہم ہر طرح کی پریشانی سے نمٹنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔—روم 1:12۔
خدا کے ساتھ اپنی دوستی مضبوط رکھیں
19. خدا کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط رکھنے سے ہم پریشانیوں سے کیوں نمٹ سکیں گے؟
19 غور کریں کہ کینیڈا میں رہنے والا ایک بزرگ اپنی پریشانیاں یہوواہ پر کیسے ڈالتا ہے۔ وہ ایک سکول میں ٹیچر ہے جس کی وجہ سے اُس پر کام کا بہت دباؤ ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ اُسے ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جس کی وجہ سے وہ پریشانی میں مبتلا رہتا ہے۔ اُس نے اپنی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیا کِیا؟ وہ بتاتا ہے: ”مَیں یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہوں۔ میرے دوست اور کلیسیا کے بہن بھائی بھی مجھے سہارا دیتے ہیں۔ مَیں اپنی بیوی کو کُھل کر اپنے خدشوں اور پریشانیوں کے بارے میں بتاتا ہوں۔ میرے ساتھی بزرگوں اور حلقے کے نگہبان نے بھی میری مدد کی ہے تاکہ مَیں اپنی صورتحال کے بارے میں یہوواہ کی سوچ اپنا سکوں۔ اِس کے علاوہ مَیں اپنا علاج بھی کروا رہا ہوں اور مَیں نے اپنے معمول میں تبدیلیاں کی ہیں تاکہ میرے پاس آرام کرنے اور ورزش کرنے کے لیے وقت ہو۔ یوں مَیں نے آہستہ آہستہ اپنے احساسات پر قابو پانا سیکھ لیا ہے۔ اور جب کوئی ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے جس کے بارے میں مَیں کچھ بھی نہیں کر سکتا تو مَیں معاملے کو یہوواہ کے ہاتھ میں چھوڑ دیتا ہوں۔“
20. (الف) ہم خدا پر اپنی پریشانیاں کیسے ڈال سکتے ہیں؟ (ب) اگلے مضمون میں ہم کیا دیکھیں گے؟
20 اِس مضمون میں ہم نے دیکھا ہے کہ خدا پر اپنی پریشانیاں ڈالنے کے لیے ہمیں اُس سے دُعا کرنی چاہیے، اُس کے کلام کو پڑھنا چاہیے اور اِس پر سوچ بچار کرنا چاہیے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ہم خدا سے پاک روح مانگ سکتے ہیں اور کسی ایسے شخص کو اپنے دل کا حال بتا سکتے ہیں جس پر ہم بھروسا کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہمیں باقاعدگی سے اِجلاسوں پر جانے سے بھی بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ یہوواہ خدا نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ ”اُن سب کو اجر دے گا جو لگن سے اُس کی خدمت کرتے ہیں۔“ (عبر 11:6) اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ اِس وعدے کی بدولت ہم اپنی پریشانیوں سے کیسے نمٹ سکتے ہیں۔