قارئین کے سوال
کیا مسیحی خاندانی منصوبہبندی کے حوالے سے بچہدانی میں رکھنے والا چھلا اِستعمال کر سکتے ہیں؟
اِس سلسلے میں ایک مسیحی جوڑے کو یہ جاننا چاہیے کہ بچہدانی میں رکھنے والا چھلا کیسے کام کرتا ہے اور اِس معاملے پر بائبل کے کون سے اصول لاگو ہوتے ہیں۔ پھر اُس جوڑے کو ایسا فیصلہ کرنا چاہیے جس کے بعد وہ خدا کے سامنے صاف ضمیر برقرار رکھ پائے۔
یہوواہ خدا نے آدم اور حوا کو حکم دیا تھا: ”پھلو اور بڑھو۔“ (پیدایش 1:28) بعد میں خدا نے نوح اور اُن کے خاندان سے بھی کہا تھا: ”بارور ہو اور بڑھو۔“ (پیدایش 9:1) بائبل میں یہ نہیں کہا گیا کہ یہ حکم مسیحیوں پر لاگو ہوتا ہے۔ لہٰذا جب ایک مسیحی جوڑا یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ کتنے بچے پیدا کرے گا اور کب کرے گا تو اُسے یہ فیصلہ بھی کرنا چاہیے کہ وہ حمل کو روکنے کا کوئی طریقہ اِستعمال کرے گا یا نہیں۔ اِس سلسلے میں اُس جوڑے کو کن باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے؟
مسیحیوں کو خاندانی منصوبہبندی کے سلسلے میں کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت بائبل کے اصولوں کو مدِنظر رکھنا چاہیے۔ بائبل میں خدا کے بندوں کو کہا گیا ہے کہ وہ زندگی کا احترام کریں۔ اِسی لیے مسیحی کبھی حمل نہیں گِراتے۔ اگر حمل گِرا دیا جاتا ہے تو ایک ایسی زندگی کو ختم کر دیا جاتا ہے جو ماں کے رحم میں پَل رہی ہوتی ہے۔ (خروج 20:13؛ 21:22، 23؛ ایوب 31:15؛ یرمیاہ 1:5) لیکن کیا مسیحی حمل کو روکنے کے لیے بچہدانی میں رکھنے والا چھلا اِستعمال کر سکتے ہیں؟
”دی واچٹاور،“ 15 مئی 1979ء، صفحہ 30، 31 پر اِس معاملے کے بارے میں بات کی گئی۔ اُس زمانے میں اِستعمال ہونے والے زیادہتر چھلے پلاسٹک کے بنے ہوتے تھے۔ اِنہیں عورت کی بچہدانی میں رکھا جاتا تھا تاکہ حمل کو ٹھہرنے سے روکا جا سکے۔ اُس مضمون میں بتایا گیا کہ اُس وقت تک اِس حوالے سے مکمل تفصیل سامنے نہیں آئی تھی کہ یہ چھلے کیسے کام کرتے ہیں۔ بہت سے سائنسدانوں کے مطابق چھلے منی کے جرثوموں کو انڈوں تک پہنچنے سے روکتے تھے۔ اِس وجہ سے انڈا بارور نہیں ہوتا تھا یعنی حمل نہیں ٹھہرتا تھا۔
لیکن اِس بات کے کچھ ثبوت بھی ملے کہ کبھی کبھار انڈا بارور ہو جاتا تھا۔ یہ بارور انڈا یا تو بیضہدانی کی نالی میں نشوونما پاتا یا بچہدانی میں چلا جاتا۔ اگر یہ انڈا بچہدانی میں چلا جاتا تو چھلا اِسے بچہدانی کی دیوار کے ساتھ جُڑنے سے روک سکتا تھا اور یوں حمل کو ضائع کر سکتا تھا۔ یہ عمل اِسقاطِحمل کی طرح ہی ہوتا۔ لہٰذا ”دی واچٹاور“ کے مضمون کے آخر میں بتایا گیا: ”جن مسیحیوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اُنہیں چھلا اِستعمال کرنا ہے یا نہیں، اُنہیں چھلے کے حوالے سے اِن ساری معلومات کو ذہن میں رکھنا چاہیے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بائبل کے مطابق زندگی مُقدس ہے اور ہمیں اِس کا احترام کرنا چاہیے۔“—زبور 36:9۔
لیکن 1979ء میں اُس مضمون کے شائع ہونے سے اب تک سائنس اور طب کے میدان میں بہت ترقی ہو چُکی ہے۔
آجکل دو اَور قسم کے چھلے دستیاب ہیں۔ ایک قسم کے چھلے میں تانبا اِستعمال ہوتا ہے اور یہ 1988ء سے امریکہ میں عام دستیاب ہے۔ دوسری قسم کا چھلا ایک ہارمون خارج کرتا ہے اور یہ 2001ء میں بکنا شروع ہوا۔ یہ دونوں چھلے کس طرح کام کرتے ہیں؟
تانبے والے چھلے: جیسے کہ پہلے بتایا گیا ہے، چھلے منی کے جرثوموں کو بچہدانی سے گزر کر انڈے تک پہنچنے سے روکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ سائنسدانوں کو لگتا ہے کہ تانبے والے چھلوں میں موجود تانبا منی کے جرثوموں کو ختم کر دیتا ہے۔ * ساتھ ہی ساتھ یہ چھلے بچہدانی کی دیوار میں تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔
ہارمون والے چھلے: ہارمون والے چھلوں میں وہی ہارمون موجود ہوتا ہے جو مانعحمل گولیوں میں ہوتا ہے۔ یہ چھلے پُرانے زمانے میں اِستعمال ہونے والے چھلوں کی طرح ہی کام کرتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ بچہدانی میں * اِس کے علاوہ یہ بچہدانی کی گردن پر موجود مادے کو گاڑھا کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے منی کے جرثومے فرج سے بچہدانی میں داخل نہیں ہو پاتے۔
ہارمون بھی خارج کرتے ہیں۔ کچھ عورتوں میں تو یہ ہارمون بیضہدانی سے انڈا خارج ہونے ہی نہیں دیتا۔ اور چونکہ انڈا خارج نہیں ہوتا اِس لیے یہ بارور بھی نہیں ہوتا۔ یہ چھلے بچہدانی کی دیوار کو پتلا بھی کر دیتے ہیں۔جیسے کہ پہلے بتایا گیا ہے، تانبے والے چھلے اور ہارمون والے چھلے بچہدانی کی دیوار میں تبدیلی کا باعث بنتے ہیں۔ اِس کا مطلب ہے کہ اگر ایک عورت کی بیضہدانی سے انڈا خارج ہو جائے اور بارور ہو جائے تو شاید یہ انڈا بچہدانی میں داخل تو ہو جائے لیکن بچہدانی کی دیوار کے ساتھ جُڑ نہ پائے۔ یوں حمل شروع میں ہی ضائع ہو جاتا ہے۔ لیکن سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ ایسا بہت کم ہوتا ہے اور ایسا اُس صورت میں بھی ہو سکتا ہے جب مانعحمل گولیاں اِستعمال کی جاتی ہیں۔
لہٰذا کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ تانبے یا ہارمون والے چھلوں کے اِستعمال کے دوران انڈا کبھی بارور نہیں ہوتا۔ لیکن جیسے کہ اِس مضمون میں بیان کِیا گیا ہے، سائنسی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ چھلے مختلف طریقوں سے انڈے کو بارور ہونے سے روک سکتے ہیں اور اِس وجہ سے عورت کے حاملہ ہونے کا اِمکان بہت کم ہوتا ہے۔
جو مسیحی جوڑے چھلا اِستعمال کرنا چاہتے ہیں، وہ اِس سلسلے میں کسی ماہر ڈاکٹر سے بات کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر اُنہیں بتا سکتا ہے کہ اُن کے ملک میں کون سی قسم کے چھلے دستیاب ہیں اور اِن چھلوں کے اِستعمال کے کون سے فائدے ہیں اور اِن کی وجہ سے بیوی کو کون سے نقصان ہو سکتے ہیں۔ مسیحی جوڑے کو کسی کو بھی، یہاں تک کہ ڈاکٹر کو بھی یہ اِجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ اِس معاملے میں اُن کے لیے فیصلہ کرے۔ (رومیوں 14:12؛ گلتیوں 6:4، 5) چونکہ یہ اُن کا ذاتی معاملہ ہے اِس لیے اُنہیں خود اِس بارے میں فیصلہ کرنا چاہیے۔ اُن کی پوری کوشش ہونی چاہیے کہ وہ ایسا فیصلہ کریں جس سے اُن کا ضمیر صاف رہے اور خدا خوش ہو۔—1-تیمُتھیُس 1:18، 19؛ 2-تیمُتھیُس 1:3 پر غور کریں۔
^ پیراگراف 10 برطانیہ کے اِدارے نیشنل ہیلتھ سروس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا: ”جن چھلوں میں زیادہ تانبا اِستعمال ہوتا ہے، وہ 99 فیصد سے بھی زیادہ مؤثر ہوتے ہیں۔ اِس کا مطلب ہے کہ اگر 100 عورتیں اِن چھلوں کو اِستعمال کرتی ہیں تو اُن میں سے ایک سال کے اندر شاید ہی ایک عورت حاملہ ہو۔ جن چھلوں میں کم تانبا اِستعمال ہوتا ہے، وہ کم مؤثر ہوتے ہیں۔“
^ پیراگراف 11 چونکہ ہارمون والے چھلے بچہدانی کی دیوار کو پتلا کر دیتے ہیں اِس لیے ڈاکٹر اُن شادیشُدہ اور غیرشادیشُدہ عورتوں کو یہ چھلے اِستعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جنہیں ماہواری کے دوران بہت زیادہ خون آتا ہے۔