مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مہربانی—‏باتوں اور کاموں سے ظاہر ہونے والی خوبی

مہربانی—‏باتوں اور کاموں سے ظاہر ہونے والی خوبی

جب لوگ ہمارے ساتھ مہربانی سے پیش آتے ہیں تو ہمیں بہت اچھا لگتا ہے اور ہم اِس کی قدر کرتے ہیں۔‏ ہمیں اِس بات سے تسلی ملتی ہے کہ اُنہیں ہمارا خیال ہے۔‏ مگر ہم خود مہربانی کی خوبی کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

ایک مہربان شخص اپنی باتوں اور کاموں سے دوسروں کے لیے رحم‌دلی اور شفقت ظاہر کرتا ہے۔‏ وہ صرف اخلاق کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہی مہربانی ظاہر نہیں کرتا بلکہ محبت اور ہمدردی کی بِنا پر ایسا کرتا ہے۔‏ مہربانی خدا کی پاک روح کے پھل میں شامل ایک خوبی ہے۔‏ (‏گلتیوں 5:‏22،‏ 23‏)‏ یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم مہربانی کی خوبی ظاہر کریں۔‏ اِس لیے آئیں،‏ دیکھیں کہ اُس نے اور اُس کے بیٹے نے یہ خوبی کیسے ظاہر کی اور ہم اُن کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔‏

یہوواہ خدا سب کے ساتھ مہربانی سے پیش آتا ہے

یہوواہ خدا سب کے ساتھ،‏ یہاں تک کہ ”‏ناشکروں اور بُرے لوگوں کے ساتھ [‏بھی]‏ مہربانی سے پیش آتا ہے۔‏“‏ (‏لُوقا 6:‏35‏)‏ مثال کے طور پر وہ ”‏اچھے اور بُرے لوگوں پر سورج چمکاتا ہے اور نیکوں اور بدوں دونوں پر بارش برساتا ہے۔‏“‏ (‏متی 5:‏45‏)‏ واقعی یہوواہ خدا اُن لوگوں کو بھی اپنی نعمتوں سے محروم نہیں رکھتا جو اُسے خالق کے طور پر تسلیم نہیں کرتے۔‏

ذرا غور کریں کہ یہوواہ خدا نے آدم اور حوا کے لیے مہربانی کیسے ظاہر کی۔‏ جب اُن دونوں نے گُناہ کِیا تو ”‏اُنہوں نے اِنجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لئے لنگیاں بنائیں۔‏“‏ اُن کی نافرمانی کی وجہ سے زمین پر لعنت ہوئی اور ہر طرف ”‏کانٹے اور اُونٹ‌کٹارے“‏ اُگنے لگے۔‏ لہٰذا جب یہوواہ خدا نے اُنہیں باغِ‌عدن سے نکالا تو اُس نے ”‏چمڑے کے کُرتے بنا کر اُن کو پہنائے“‏ تاکہ وہ زخمی ہونے سے محفوظ رہیں۔‏ یوں وہ اُن کے ساتھ بڑی مہربانی سے پیش آیا۔‏—‏پیدایش 3:‏7،‏ 17،‏ 18،‏ 21‏۔‏

حالانکہ یہوواہ اچھوں اور بُروں سب کے ساتھ مہربانی سے پیش آتا ہے لیکن وہ خاص طور پر اپنے وفادار خادموں پر مہربان ہے۔‏ مثال کے طور پر زکریاہ نبی کے زمانے میں ایک فرشتہ بہت پریشان تھا کیونکہ بنی‌اِسرائیل نے یروشلیم میں ہیکل کی تعمیر کو ادھورا چھوڑ دیا تھا۔‏ یہوواہ خدا نے اُس فرشتے کی بات کو غور سے سنا اور پھر اُسے ”‏ملائم اور تسلی‌بخش جواب دیا۔‏“‏ (‏زکریاہ 1:‏12،‏ 13‏)‏ یہوواہ خدا ایلیاہ نبی کے ساتھ بھی ایسے ہی پیش آیا۔‏ ایک موقعے پر ایلیاہ نبی اِتنا تنہا اور افسردہ محسوس کر رہے تھے کہ اُنہوں نے یہوواہ سے کہا کہ وہ اُن کی جان لے لے۔‏ یہوواہ خدا کو ایلیاہ نبی کا اِتنا خیال تھا کہ اُس نے اُن کو ہمت دِلانے کے لیے ایک فرشتے کو بھیجا۔‏ یہوواہ نے ایلیاہ کو یہ یقین بھی دِلایا کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔‏ یہوواہ کی اِس مہربانی کی وجہ سے ایلیاہ کو آگے بھی خدا کی خدمت جاری رکھنے کا حوصلہ ملا۔‏ (‏1-‏سلاطین 19:‏1-‏18‏)‏ آپ کے خیال میں یہوواہ کے تمام خادموں میں سے کس نے اُس جیسی مہربانی ظاہر کرنے میں بہترین مثال قائم کی؟‏

یسوع مسیح—‏سب سے مہربان اِنسان

جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو وہ لوگوں کے ساتھ بڑی مہربانی سے پیش آئے۔‏ اُنہوں نے کبھی کسی کے ساتھ سختی سے بات نہیں کی اور نہ ہی کسی کو کوئی کام کرنے پر مجبور کِیا۔‏ اُنہیں دوسروں کا بڑا خیال تھا اِس لیے اُنہوں نے کہا:‏ ”‏آپ سب جو محنت‌مشقت کرتے ہیں اور بوجھ تلے دبے ہیں،‏ میرے پاس آئیں۔‏ مَیں آپ کو تازہ‌دم کر دوں گا۔‏“‏ (‏متی 11:‏28-‏30‏)‏ چونکہ یسوع مسیح بہت مہربان شخص تھے اِس لیے وہ جہاں کہیں بھی جاتے،‏ لوگ اُن کے پیچھے پیچھے جاتے۔‏ یسوع مسیح لوگوں کے لیے ہمدردی محسوس کرتے تھے اِس لیے اُنہوں نے لوگوں کو کھانا کھلایا،‏ اُنہیں شفا دی اور اپنے آسمانی باپ کے بارے میں ”‏بہت سی باتوں کی تعلیم“‏ بھی دی۔‏—‏مرقس 6:‏34؛‏ متی 14:‏14؛‏ 15:‏32-‏38‏۔‏

یسوع مسیح لوگوں کے احساسات کو نہ صرف سمجھتے تھے بلکہ اِنہیں خاطر میں لا کر اُن کے ساتھ مہربانی سے پیش بھی آتے تھے۔‏ وہ تب بھی لوگوں کی مدد کرنے کو تیار رہتے تھے جب ایسا کرنے کے لیے اُن کے پاس وقت نہیں ہوتا تھا۔‏ (‏لُوقا 9:‏10،‏ 11‏)‏ ذرا یاد کریں کہ وہ اُس عورت کے ساتھ کیسے پیش آئے جسے 12 سال سے خون آ رہا تھا۔‏ وہ عورت شفا پانا چاہتی تھی اِس لیے اُس نے یسوع کی چادر کو چُھوا۔‏ موسیٰ کی شریعت کے مطابق اُسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ وہ ناپاک تھی۔‏ (‏احبار 15:‏25-‏28‏)‏ مگر اِس پر یسوع مسیح کا کیا ردِعمل تھا؟‏ وہ دیکھ سکتے تھے کہ وہ عورت کتنی ڈری ہوئی ہے اِس لیے اُنہوں نے اُسے نہیں ڈانٹا۔‏ اُنہیں اُس پر بہت ترس آیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ 12 سال سے تکلیف اُٹھا رہی ہے۔‏ اُنہوں نے بڑے پیار سے اُس سے کہا:‏ ”‏بیٹی،‏ آپ اپنے ایمان کی وجہ سے ٹھیک ہو گئی ہیں۔‏ جیتی رہیں۔‏ یہ تکلیف‌دہ بیماری آپ کو پھر سے نہ لگے۔‏“‏ (‏مرقس 5:‏25-‏34‏)‏ واقعی یسوع مسیح بہت ہی مہربان شخص تھے!‏

ایک مہربان شخص دوسروں کی مدد کرتا ہے

ابھی تک ہم نے جن مثالوں پر غور کِیا ہے،‏ اُن سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مہربان شخص دوسروں کی مدد کرتا ہے۔‏ اِس بات کی اہمیت کو نمایاں کرنے کے لیے یسوع مسیح نے رحم‌دل سامری کی مثال دی۔‏ اُنہوں نے بتایا کہ ڈاکوؤں نے ایک یہودی کو ماراپیٹا،‏ اُسے لُوٹا اور پھر اُسے سڑک کے کنارے ادھ‌مؤا چھوڑ کر چلے گئے۔‏ جب ایک سامری وہاں سے گزرا تو اُسے اُس یہودی پر بڑا ترس آیا حالانکہ سامری اور یہودی ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے۔‏ مہربانی کے جذبے سے مجبور ہو کر اُس نے یہودی کی مدد کی۔‏ وہ اُس کے زخموں کو صاف کر کے اُسے مسافرخانے لے گیا اور وہاں کے مالک کو پیسے دیے تاکہ وہ زخمی یہودی کی دیکھ‌بھال کرے۔‏ اِس کے علاوہ سامری نے اُس کے علاج کا پورا خرچہ اُٹھانے کی ذمےداری بھی لی۔‏—‏لُوقا 10:‏29-‏37‏۔‏

اگر ہم میں مہربانی کی خوبی ہے تو ہم دوسروں کا لحاظ کریں گے اور اپنی باتوں سے اُن کی حوصلہ‌افزائی کریں گے۔‏ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏آدمی کا دل فکرمندی سے دب جاتا ہے لیکن اچھی بات سے خوش ہوتا ہے۔‏“‏ (‏امثال 12:‏25‏)‏ جب ہم مہربانی اور اچھائی سے ترغیب پا کر دوسروں کی ہمت بڑھاتے ہیں تو اُن کا دل خوش ہوتا ہے۔‏ * ہماری باتوں سے اُنہیں احساس ہوتا ہے کہ ہمیں اُن کی فکر ہے اور یوں اُنہیں مشکلوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔‏—‏امثال 16:‏24‏۔‏

ہم مہربانی کی خوبی میں نکھار کیسے لا سکتے ہیں؟‏

خدا نے ہمیں اپنی صورت پر بنایا ہے اِس لیے ہم سب اُس کی طرح مہربانی ظاہر کر سکتے ہیں۔‏ (‏پیدایش 1:‏27‏)‏ اِس سلسلے میں یُولیُس نامی فوجی افسر کی مثال پر غور کریں جو پولُس رسول کو روم لے جا رہے تھے۔‏ یُولیُس نے شہر صیدا میں پولُس پر ”‏مہربانی کر کے اُنہیں اُن کے دوستوں سے ملنے کی اِجازت دی جنہوں نے اُن کی خاطرتواضع کی۔‏“‏ (‏اعمال 27:‏3‏)‏ اِسی سفر کے دوران جب پولُس رسول کا جہاز مالٹا نامی جزیرے کے قریب ڈوب گیا تو وہاں کے باشندے اُن کے ساتھ ”‏بڑی مہربانی سے پیش آئے۔‏“‏ شدید سردی ہونے کی وجہ سے اُنہوں نے مسافروں کے لیے آگ جلائی اور اُن سب کی خاطرتواضع کی۔‏ (‏اعمال 28:‏1،‏ 2‏)‏ اِن لوگوں نے واقعی بھلائی کا کام کِیا۔‏ لیکن یہوواہ کو خوش کرنے کے لیے ہمیں صرف وقتاًفوقتاً ہی نہیں بلکہ ہمیشہ مہربانی سے کام لینا چاہیے۔‏

یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ مہربانی کی خوبی ہماری شخصیت اور زندگی کا حصہ ہو۔‏ اِس لیے اُس نے اپنے کلام میں ہمیں ہدایت دی ہے کہ ”‏مہربانی .‏ .‏ .‏ کا لباس پہنیں۔‏“‏ (‏کُلسّیوں 3:‏12‏)‏ لیکن مہربانی سے کام لینا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔‏ اِس کی کیا وجہ ہے؟‏ کبھی کبھار ہم اِس لیے مہربانی سے کام نہیں لیتے کیونکہ شاید ہم شرمیلے ہیں،‏ ہم میں اِعتماد کی کمی ہے یا ہم تھوڑے بہت خودغرض ہیں۔‏ یا پھر شاید ہمیں اُن لوگوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آنا مشکل لگتا ہے جو ہمارے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں۔‏ لیکن اگر ہم پاک روح کے لیے دُعا کریں گے اور یہوواہ کی مثال پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں گے تو وہ ہمیں ہر صورتحال میں مہربانی کی خوبی کو ظاہر کرنے کی توفیق بخشے گا۔‏—‏1-‏کُرنتھیوں 2:‏12‏۔‏

ہم مہربانی کی خوبی میں نکھار کیسے لا سکتے ہیں؟‏ خود سے پوچھیں:‏ ”‏کیا مَیں دوسروں کی باتوں کو دھیان سے سنتا ہوں اور اُن کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں؟‏ جب دوسروں کو مدد کی ضرورت پڑتی ہے تو کیا مَیں اِسے بھانپ لیتا ہوں؟‏ مَیں پچھلی بار کب کسی ایسے شخص کے ساتھ مہربانی سے پیش آیا جو میرا رشتےدار یا قریبی دوست نہیں تھا؟‏“‏ اپنا جائزہ لینے کے بعد خود میں بہتری لانے کے لیے یہ قدم اُٹھائیں:‏ دوسروں سے اور خاص طور پر کلیسیا کے بہن بھائیوں سے اچھی طرح واقف ہونے کی کوشش کریں۔‏ یوں آپ کو پتہ چلے گا کہ اُنہیں کن مشکلات کا سامنا ہے اور کن چیزوں کی ضرورت ہے۔‏ پھر اُن کے لیے ویسی ہی مہربانی ظاہر کریں جیسی آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے لیے ظاہر کی جائے۔‏ (‏متی 7:‏12‏)‏ آخر میں یہوواہ سے مدد کی اِلتجا کریں تاکہ وہ آپ کی کوششوں کو برکت دے۔‏—‏لُوقا 11:‏13‏۔‏

مہربانی کا اثر

جب پولُس رسول نے بتایا کہ خدا کے خادم کن خوبیوں سے پہچانے جاتے ہیں تو اُنہوں نے مہربانی کی خوبی کا بھی ذکر کِیا۔‏ (‏2-‏کُرنتھیوں 6:‏3-‏6‏)‏ لوگ پولُس رسول کو بہت پسند کرتے تھے کیونکہ وہ دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے تھے اور اُن کے لیے فکر رکھتے تھے۔‏ (‏اعمال 28:‏30،‏ 31‏)‏ اِسی طرح اگر ہم بھی دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں گے تو شاید اُن کے دل میں بائبل کی سچائیوں کے بارے میں سیکھنے کا شوق پیدا ہو۔‏ اور اگر ہم ایسے لوگوں کے ساتھ بھی مہربانی سے پیش آئیں گے جو ہم سے بُرا سلوک کرتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ اُن کے دل نرم ہو جائیں اور اُن کی سخت‌مزاجی پگھل جائے۔‏ (‏رومیوں 12:‏20‏)‏ پھر شاید وہ بائبل کے پیغام میں دلچسپی بھی لینے لگیں۔‏

فردوس میں سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں گے۔‏ جو لوگ مُردوں میں سے زندہ ہوں گے،‏ اُن میں سے کچھ کے لیے شاید یہ پہلی بار ہوگا کہ کوئی اُن کے ساتھ مہربانی سے پیش آئے۔‏ یوں اُنہیں بھی یہ خوبی ظاہر کرنے کی ترغیب ملے گی۔‏ جو لوگ مہربانی سے کام نہیں لیں گے اور دوسروں کی مدد نہیں کریں گے،‏ اُنہیں نئی دُنیا میں رہنے کی اِجازت نہیں ہوگی۔‏ صرف وہی لوگ ہمیشہ تک فردوس میں رہ سکیں گے جو محبت اور مہربانی جیسی خوبیاں ظاہر کریں گے۔‏ (‏زبور 37:‏9-‏11‏)‏ وہ واقعی ایک پُرامن اور محفوظ دُنیا ہوگی۔‏ لیکن نئی دُنیا کے آنے سے پہلے بھی اِس خوبی کو ظاہر کرنے سے ہمیں بہت فائدے ہوں گے۔‏ یہ کون سے فائدے ہیں؟‏

مہربانی ظاہر کرنے کے فائدے

بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏رحم‌دل [‏”‏مہربان شخص،‏“‏ ترجمہ نئی دُنیا‏]‏ اپنی جان کے ساتھ نیکی کرتا ہے۔‏“‏ (‏امثال 11:‏17‏)‏ لوگوں کو ایسے شخص کے ساتھ وقت گزارنا اچھا لگتا ہے جو اُن کے ساتھ مہربانی سے پیش آتا ہے اور بدلے میں وہ بھی اُس شخص کے لیے مہربانی ظاہر کرتے ہیں۔‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏جس حساب سے آپ دیتے ہیں،‏ اُسی حساب سے وہ بھی آپ کو دیں گے۔‏“‏ (‏لُوقا 6:‏38‏)‏ لہٰذا ایک مہربان شخص کو اچھے دوست بنانے اور اُن کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے میں دِقت نہیں ہوتی۔‏

پولُس رسول نے شہر اِفسس کی کلیسیا کے بہن بھائیوں کو یہ ہدایت دی:‏ ”‏مہربانی اور ہمدردی سے پیش آئیں اور دل سے ایک دوسرے کو معاف کریں۔‏“‏ (‏اِفسیوں 4:‏32‏)‏ جب کلیسیا کے تمام بہن بھائی مہربانی اور ہمدردی سے کام لیتے ہیں تو کلیسیا مضبوط ہو جاتی ہے اور اِس کا اِتحاد بڑھتا ہے۔‏ ہمیں کبھی اپنے بہن بھائیوں کی نکتہ‌چینی نہیں کرنی چاہیے اور اُن کے بارے میں افواہیں نہیں پھیلانی چاہئیں۔‏ ہمیں مذاق میں بھی اُن پر طنز کے تیر نہیں چلانے چاہئیں۔‏ اِس کی بجائے ہماری باتیں ہمیشہ حوصلہ‌افزا اور تسلی‌بخش ہونی چاہئیں۔‏ (‏امثال 12:‏18‏)‏ اگر ہم ایسا کریں گے تو کلیسیا کے بہن بھائی خوشی سے یہوواہ کی خدمت کریں گے۔‏

جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے،‏ مہربانی کی خوبی ہماری باتوں اور کاموں سے ظاہر ہوتی ہے۔‏ جب ہم دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے ہیں تو ہم اپنے شفیق آسمانی باپ کی مثال پر عمل کر رہے ہوتے ہیں۔‏ (‏اِفسیوں 5:‏1‏)‏ ایسا کرنے سے ہماری کلیسیا کا اِتحاد بڑھتا ہے اور دوسروں کو یہوواہ کی خدمت کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔‏ لہٰذا آئیں،‏ اِس خوبی کو نکھارنے کی بھرپور کوشش کریں تاکہ لوگ دیکھ سکیں کہ یہوواہ کے گواہ کتنے مہربان لوگ ہیں۔‏

^ پیراگراف 13 مضامین کے اِس سلسلے کے آنے والے ایک مضمون میں اچھائی کی خوبی پر بات کی جائے گی۔‏