شادی کے بندھن کا احترام کریں
”جسے خدا نے جوڑا ہے، اُسے کوئی اِنسان جُدا نہ کرے۔“—مرقس 10:9۔
1، 2. عبرانیوں 13:4 میں درج بات سے ہمیں کیا ترغیب ملنی چاہیے؟
ہم سب یہوواہ خدا کی تعظیم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ ہماری عزت کے لائق ہے۔ اُس نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ بدلے میں ہماری بھی عزت کرے گا۔ (1-سموئیل 2:30؛ امثال 3:9؛ مکاشفہ 4:11) وہ چاہتا ہے کہ ہم دوسرے لوگوں کی بھی عزت کریں، مثلاً حکومت کے اہلکاروں کی۔ (رومیوں 12:10؛ 13:7) لیکن ایک ایسا حلقہ ہے جس میں ہمیں خاص طور پر عزت ظاہر کرنی چاہیے۔ یہ شادی کا بندھن ہے۔
2 پولُس رسول نے لکھا: ”شادی کا بندھن سب لوگوں کی نظر میں باعزت ہو اور ازدواجی تعلقات پاک رہیں۔“ (عبرانیوں 13:4) اِس آیت میں وہ مسیحیوں کو نصیحت کر رہے تھے کہ وہ شادی کے بندھن کا دل سے احترام کریں اور اِسے نہایت قیمتی خیال کریں۔ کیا آپ اِس بندھن کو ایسا خیال کرتے ہیں، خاص طور پر اپنے ازدواجی بندھن کو؟
3. یسوع مسیح نے شادی کے بندھن کے سلسلے میں کون سی اہم ہدایت دی؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
3 شادی کے بندھن کا احترام کرنے سے آپ یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرتے ہیں جو خود بھی اِس بندھن کا احترام کرتے تھے۔ ایک بار جب فریسیوں نے اُن سے طلاق کے بارے میں سوال کِیا تو اُنہوں نے اُس بات کا حوالہ دیا جو خدا نے سب سے پہلی شادی کراتے وقت کہی تھی۔ اُنہوں نے کہا: مرقس 10:2-12 کو پڑھیں؛ پیدایش 2:24۔
”مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑ دے گا اور وہ دونوں ایک بن جائیں گے۔“ اِس کے بعد یسوع نے یہ بھی کہا: ”جسے خدا نے جوڑا ہے، اُسے کوئی اِنسان جُدا نہ کرے۔“—4. یہوواہ خدا ازدواجی بندھن کے سلسلے میں کیا چاہتا تھا؟
4 یسوع مسیح کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا ہی نے ازدواجی بندھن کی بنیاد ڈالی اور یہ ایک دائمی بندھن ہے۔ جب خدا نے آدم اور حوا کی شادی کرائی تو اُس نے اُن سے یہ نہیں کہا کہ وہ ایک دوسرے سے طلاق لے سکتے ہیں۔ اِس کی بجائے وہ چاہتا تھا کہ ”وہ دونوں“ ہمیشہ تک اِس بندھن میں بندھے رہیں۔
ازدواجی بندھن کے حوالے سے کچھ عارضی تبدیلیاں
5. موت کا ازدواجی بندھن پر کیا اثر پڑا؟
5 ہم جانتے ہیں کہ آدم کے گُناہ کے بعد بہت سی تبدیلیاں آئیں۔ ایک تبدیلی یہ تھی کہ اِنسان مرنے لگے جس سے ازدواجی بندھن بھی متاثر ہوا۔ پولُس رسول نے وضاحت کی کہ اگر ایک شادیشُدہ مسیحی کا جیون ساتھی فوت ہو جاتا ہے تو اُس کی شادی ختم ہو جاتی ہے اور وہ دوبارہ شادی کر سکتا ہے۔—رومیوں 7:1-3۔
موسیٰ کی شریعت پر غور کرنے سے ہم جان جاتے ہیں کہ خدا کے نزدیک شادی کا بندھن بہت ہی قیمتی ہے۔
6. موسیٰ کی شریعت سے ہم شادی کے بندھن کے سلسلے میں خدا کے نظریے کے بارے میں کیا سیکھ سکتے ہیں؟
6 خدا نے بنیاِسرائیل کو جو شریعت دی، اُس میں ازدواجی رشتے کے متعلق بھی قوانین تھے۔ ایک اِسرائیلی مرد کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اِجازت تھی۔ یہ رواج خدا کے خادموں میں شریعت کے آنے سے پہلے بھی چل رہا تھا۔ لیکن شریعت میں عورتوں اور بچوں کے حقوق کے حوالے سے قوانین دیے گئے۔ مثال کے طور پر اگر ایک اِسرائیلی مرد اپنی ایک غلام سے شادی کرتا اور بعد میں دوسری شادی کرتا تو اُسے آئندہ بھی پہلی بیوی کی ضروریات پوری کرنی اور اُس کی حفاظت اور دیکھبھال کرنی تھی۔ (خروج 21:9، 10) اگرچہ آج ہم موسیٰ کی شریعت کے پابند نہیں رہے لیکن اِس پر غور کرنے سے ہم جان جاتے ہیں کہ خدا کے نزدیک شادی کا بندھن بہت ہی قیمتی ہے۔ یوں ہمیں اِس بندھن کا احترام کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔
7، 8. (الف) اِستثنا 24:1 میں طلاق کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے؟ (ب) یہوواہ خدا طلاق کے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہے؟
اِستثنا 24:1 کو پڑھیں۔) اِس میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ایسی بےہودہ بات میں کیا کچھ شامل ہے۔ لیکن یقیناً اِس کا اِشارہ کسی شرمناک یا گندے کام کی طرف تھا، نہ کہ کسی چھوٹی موٹی بھول کی طرف۔ (اِستثنا 23:14) افسوس کی بات ہے کہ یسوع مسیح کے زمانے میں بہت سے یہودی ”کسی بھی وجہ سے“ اپنی بیوی کو طلاق دے رہے تھے۔ (متی 19:3) ہم اُن جیسا رویہ ہرگز نہیں اپنانا چاہتے۔
7 شریعت میں طلاق کے حوالے سے کیا بتایا گیا تھا؟ حالانکہ یہوواہ یہ کبھی نہیں چاہتا تھا کہ شوہر اور بیوی طلاق لیں لیکن شریعت میں ایک اِسرائیلی آدمی کو اِجازت تھی کہ اگر وہ اپنی بیوی میں ’کوئی بےہودہ بات پائے‘ تو وہ اُسے طلاق دے سکتا ہے۔ (8 ملاکی نبی کے زمانے میں بہت سے یہودی اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے رہے تھے۔ اِن میں سے کچھ یہودی کسی جوان عورت یا غیریہودی عورت سے شادی کرنے کے لیے ایسا کر رہے تھے۔ لیکن یہوواہ خدا نے صاف صاف بتایا کہ وہ طلاق کے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہے۔ اُس نے کہا: ”مَیں طلاق سے بیزار ہوں۔“ (ملاکی 2:14-16) ملاکی کے زمانے میں بھی شادی کے بارے میں یہوواہ کا نظریہ وہی تھا جو شادی کی بنیاد ڈالتے وقت تھا جب اُس نے کہا تھا کہ ”مرد . . . اپنی بیوی سے ملا رہے گا اور وہ ایک تن ہوں گے۔“ (پیدایش 2:24) یسوع مسیح نے بھی اپنے آسمانی باپ کے نظریے کی حمایت کرتے ہوئے کہا: ”جسے خدا نے جوڑا ہے، اُسے کوئی اِنسان جُدا نہ کرے۔“—متی 19:6۔
طلاق کی واحد جائز وجہ
9. مرقس 10:11، 12 میں درج یسوع مسیح کی بات کا کیا مطلب تھا؟
9 کچھ لوگ شاید پوچھیں کہ ”کیا کوئی ایسی وجہ ہے جس کی بِنا پر ایک مسیحی طلاق لے کر کسی اَور سے شادی کر سکتا ہے؟“ غور کریں کہ یسوع مسیح نے کہا: ”جو شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے اور کسی اَور سے شادی کرتا ہے، وہ اپنی بیوی سے بےوفائی کرتا ہے اور زِنا کرتا ہے۔ اور اگر ایک عورت اپنے شوہر سے طلاق لے کر کسی اَور سے شادی کرے تو وہ زِنا کرتی ہے۔“ (مرقس 10:11، 12؛ لُوقا 16:18) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح شادی کے بندھن کا احترام کرتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ اُن کے پیروکار بھی ایسا کریں۔ اگر شوہر یا بیوی میں سے کوئی ایک اپنے وفادار جیون ساتھی کو طلاق دے کر کسی اَور سے شادی کرتا ہے تو وہ زِنا کرتا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کی نظر میں ایسی طلاق سے شادی کا بندھن ختم نہیں ہو جاتا بلکہ میاں بیوی ابھی بھی ’ایک ہیں۔‘ مگر یسوع مسیح نے کیوں کہا تھا کہ اگر ایک آدمی اپنی بےقصور بیوی کو طلاق دیتا ہے تو وہ اُسے زِنا کرنے کے خطرے میں ڈالتا ہے؟ کیونکہ اُس زمانے میں ایک طلاقشُدہ عورت کو شاید لگتا تھا کہ مالی تنگی سے بچنے کے لیے شادی کرنے کے علاوہ اُس کے پاس اَور کوئی راستہ نہیں ہے۔ البتہ ایسی شادی زِنا کرنے کے برابر تھی۔
10. مسیحی کس واحد وجہ کی بِنا پر طلاق لے سکتے ہیں جس کے بعد اُنہیں کسی اَور سے شادی کرنے کی آزادی ہے؟
10 یسوع مسیح نے طلاق کی واحد وجہ یہ بتائی: ”مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ جو شخص اپنی بیوی کو حرامکاری کے علاوہ کسی اَور وجہ سے طلاق دیتا ہے اور دوسری عورت سے شادی کرتا ہے، وہ زِنا کرتا متی 19:9) اُنہوں نے یہی بات پہاڑی وعظ میں بھی کہی تھی۔ (متی 5:31، 32) دونوں مرتبہ یسوع مسیح نے ”حرامکاری“ کا ذکر کِیا۔ اِس میں زِناکاری، جسمفروشی، غیرشادیشُدہ اشخاص کا ایک دوسرے سے جنسی ملاپ، ہمجنسپرستی اور جانوروں کے ساتھ جنسی تعلقات شامل ہیں۔ فرض کریں کہ ایک شادیشُدہ آدمی حرامکاری کرتا ہے۔ اِس صورت میں اُس کی بیوی طلاق لینے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ اگر وہ اُس سے طلاق لے گی تو اُن کا ازدواجی بندھن خدا کی نظر میں بھی ختم ہو جائے گا۔
ہے۔“ (11. اگر ایک مسیحی کا جیون ساتھی حرامکاری کرتا ہے تو شاید وہ مسیحی اُس کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیوں کرے؟
11 غور کریں کہ یسوع مسیح نے یہ نہیں کہا تھا کہ اگر ایک شادیشُدہ مسیحی حرامکاری کرتا ہے تو یہ لازمی ہے کہ اُس کا بےقصور جیون ساتھی اُسے طلاق دے۔ مثال کے طور پر اگر ایک عورت کا شوہر حرامکاری کرتا ہے تو شاید وہ عورت پھر بھی اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرے۔ کیوں؟ شاید وہ اُس سے ابھی بھی محبت کرتی ہے، اُسے معاف کرنے کو تیار ہے اور اُس کے ساتھ مل کر اپنے ازدواجی رشتے میں بہتری لانے کی کوشش کرنا چاہتی ہے۔ اِس کے علاوہ اگر وہ طلاق لے گی تو اُسے کچھ مسئلوں کا سامنا ہوگا۔ مثال کے طور پر اُس کی مالی اور جنسی ضروریات کیسے پوری ہوں گی؟ کیا وہ تنہائی کا شکار ہوگی؟ طلاق کا بچوں پر کیا اثر پڑے گا؟ کیا سچائی کی راہ میں اُن کی پرورش کرنا زیادہ مشکل ہو جائے گا؟ (1-کُرنتھیوں 7:14) بِلاشُبہ اگر ایک بےقصور بیوی یا شوہر اپنے جیون ساتھی سے طلاق لینے کا فیصلہ کرے گا تو اُسے سنگین مسئلوں کا سامنا ہوگا۔
12، 13. (الف) ہوسیع اور جمر کی ازدواجی زندگی میں کیا مسئلے تھے؟ (ب) ہوسیع نبی جمر کو واپس اپنے گھر کیوں لے آئے؟ (ج) اِس واقعے سے ہم ازدواجی رشتے کے حوالے سے کون سا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
12 ہوسیع نبی کی زندگی پر غور کرنے سے بھی ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خدا شادی کے بندھن کو کتنا قیمتی خیال کرتا ہے۔ یہوواہ خدا نے ہوسیع سے کہا کہ وہ جمر نامی ایک عورت سے شادی کریں جو ”بدکار بیوی“ ثابت ہوگی اور ”بدکاری کی اولاد“ پیدا کرے گی۔ ہوسیع اور جمر کا ایک بیٹا ہوا۔ (ہوسیع 1:2، 3) بعد میں جمر کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہوا جو غالباً کسی اَور باپ سے تھے۔ حالانکہ جمر نے بار بار زِناکاری کی لیکن ہوسیع نے اُسے نہیں چھوڑا۔ کچھ عرصے بعد جمر نے ہوسیع کو چھوڑ دیا اور آخرکار وہ کسی کی غلام بن گئی۔ اِن سب باتوں کے باوجود ہوسیع اُسے مول کر واپس گھر لے آئے۔ (ہوسیع 3:1، 2) یوں یہوواہ نے ہوسیع نبی کے ذریعے ظاہر کِیا کہ وہ اِسرائیل کو معاف کرتا رہا حالانکہ اِس قوم نے بار بار اُس سے بےوفائی کی اور غیرمعبودوں کی عبادت کی۔ ہم اِس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
13 اگر ایک مسیحی کا جیون ساتھی حرامکاری کرتا ہے تو بےقصور مسیحی کو ایک فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ یسوع مسیح کے مطابق ایسی صورت میں بےقصور جیون ساتھی کے پاس طلاق لینے کی جائز وجہ ہے جس کے بعد وہ کسی اَور سے شادی کر سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ مسیحی اپنے جیون ساتھی کو معاف کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ بھی غلط نہیں ہوگا۔ یاد کریں کہ ہوسیع نبی نے جمر کو معاف کر دیا۔ جب جمر، ہوسیع کے پاس لوٹ آئی تو اُنہوں نے اُس سے کہا کہ وہ آئندہ کسی دوسرے آدمی سے جنسی تعلق نہ رکھے۔ ہوسیع بھی ’بڑی دیر تک اُس سے ہمبستر نہیں ہوئے۔‘ (ہوسیع 3:3، اُردو جیو ورشن) لیکن پھر اُنہوں نے جمر کے ساتھ دوبارہ سے جنسی تعلقات قائم کیے۔ اِس بات سے ظاہر ہوا کہ خدا اِسرائیلی قوم کو دوبارہ سے قبول کرنے اور اِس کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کو تیار ہے۔ (ہوسیع 1:11؛ 3:3-5) اِس سے ہم ازدواجی رشتے کے حوالے سے کون سا سبق سیکھتے ہیں؟ اگر ایک بےقصور مسیحی اپنے گُناہگار جیون ساتھی کے ساتھ دوبارہ سے جنسی تعلقات قائم کرے گا تو اِس سے ظاہر ہوگا کہ اُس نے اپنے جیون ساتھی کو معاف کر دیا ہے۔ (1-کُرنتھیوں 7:3، 5) اِس کے بعد طلاق لینے کی کوئی جائز وجہ نہیں رہے گی۔ پھر میاں بیوی کو ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ خدا کی مرضی کے مطابق شادی کے بندھن کو مضبوط کریں۔
مسئلوں کے باوجود شادی کے بندھن کا احترام کریں
14. پہلا کُرنتھیوں 7:10، 11 کے مطابق کچھ مسیحیوں کی ازدواجی زندگی میں کون سی صورتحال کھڑی ہوتی ہے؟
14 تمام مسیحیوں کو شادی کے بندھن کا احترام کرنا چاہیے، بالکل جیسے یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کرتے ہیں۔ لیکن کچھ مسیحی ایسا نہیں کرتے کیونکہ اِنسان عیبدار ہیں۔ (رومیوں 7:18-23) لہٰذا ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے کہ پہلی صدی میں بھی بعض مسیحیوں کی شادی میں سنگین مسئلے کھڑے ہو گئے تھے، یہاں تک کہ کچھ مسیحیوں نے اپنے جیون ساتھی کو چھوڑ دیا۔ اِس لیے پولُس رسول نے ہدایت دی کہ ”بیوی اپنے شوہر کو چھوڑ کر چلی نہ جائے۔“—1-کُرنتھیوں 7:10، 11 کو پڑھیں۔
15، 16. (الف) اگر میاں بیوی کے بیچ مسئلے کھڑے ہو جائیں تو اُن کی کیا کوشش ہونی چاہیے اور کیوں؟ (ب) اگر ایک مسیحی کا جیون ساتھی اُس کا ہمایمان نہیں ہے تو کون سا اصول لاگو ہوتا ہے؟
15 پولُس رسول نے یہ نہیں بتایا کہ اُن شادیشُدہ جوڑوں نے کن مسئلوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے علیٰحدگی اِختیار کی۔ لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اُنہوں نے حرامکاری کے سبب سے ایسا نہیں کِیا، ورنہ بےقصور جیون ساتھی علیٰحدگی اِختیار کرنے کی بجائے طلاق لے سکتا تھا اور دوبارہ سے شادی کر سکتا تھا۔ پولُس رسول نے لکھا کہ ”اگر [بیوی] اپنے شوہر سے علیٰحدگی اِختیار کر بھی لے تو دوسری شادی نہ کرے یا اپنے شوہر سے صلح کر لے۔“ لہٰذا خدا کی نظر میں وہ دونوں میاں بیوی ابھی بھی شادیشُدہ تھے۔ پولُس رسول نے کہا کہ اگر میاں بیوی میں سے کسی نے حرامکاری نہیں کی تو پھر چاہے اُن کے بیچ کوئی بھی مسئلہ ہو، اُن کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ اِسے سلجھائیں اور صلح کر کے دوبارہ سے ایک دوسرے کے ساتھ رہیں۔ اِس سلسلے میں وہ کلیسیا کے بزرگوں سے مدد لے سکتے ہیں۔ بزرگ کسی کی طرفداری نہیں کریں گے بلکہ وہ اُس جوڑے کو بائبل پر مبنی عملی مشورے دیں گے۔
16 لیکن کچھ مسیحیوں کے جیون ساتھی یہوواہ کی عبادت نہیں کرتے۔ ایسی صورت میں اگر اُن کے ازدواجی رشتے میں مسئلے کھڑے ہو جاتے ہیں تو کیا وہ اپنے جیون ساتھی سے علیٰحدگی اِختیار کر سکتے ہیں؟ جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چُکے ہیں، بائبل کے مطابق طلاق کی واحد جائز وجہ حرامکاری ہے۔ لیکن بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ مسیحی کن وجوہات کی بِنا پر علیٰحدگی اِختیار کر سکتے ہیں۔ پولُس رسول نے لکھا: ”اگر ایک بہن کا شوہر اُس کا ہمایمان نہیں ہے لیکن اُس کے ساتھ رہنے پر راضی ہے تو وہ بہن اُسے نہ چھوڑے۔“ (1-کُرنتھیوں 7:12، 13) یہ اصول آج بھی لاگو ہوتا ہے۔
17، 18. بہت سے مسیحیوں نے نہایت مشکل صورتحال کا سامنا کرنے کے باوجود اپنے غیرایمان جیون ساتھی کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیوں کِیا؟
17 لیکن کبھی کبھار ایک غیرایمان شوہر ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنی بیوی ”کے ساتھ رہنے پر راضی“ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر شاید وہ اُس پر اِتنا ظلموتشدد کرتا ہے کہ بیوی کو لگتا ہے کہ اُس کی صحت پر بُرا اثر پڑ رہا ہے یا جان خطرے میں ہے۔ یا پھر شاید شوہر اُس کی اور بچوں کی ضروریات پوری کرنے سے اِنکار کرتا ہے یا اُس کے لیے یہوواہ خدا کی خدمت کرنا ناممکن بنا دیتا ہے۔ اِس طرح کی صورتحال میں مسیحی بیوی کو شاید لگے کہ اُس کا شوہر اپنے اعمال سے ظاہر کر رہا ہے کہ وہ ”اُس کے ساتھ رہنے پر راضی“ نہیں ہے، چاہے وہ زبانی کلامی کچھ بھی کہے۔ لہٰذا اِس صورت میں بیوی فیصلہ کر سکتی ہے کہ وہ اپنے شوہر سے علیٰحدگی اِختیار کرے گی۔ لیکن اِسی طرح کی صورتحال میں کچھ اَور مسیحیوں نے اپنے جیون ساتھی کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کِیا ہے۔ اُنہوں نے صبر سے کام لیا ہے اور اپنے ازدواجی رشتے میں بہتری لانے کی کوشش کی ہے۔ اُنہوں نے یہ فیصلہ کیوں کِیا ہے؟
18 اگر میاں بیوی ایسی صورتحال میں علیٰحدگی اِختیار کرتے ہیں تو وہ پھر بھی یہوواہ کی نظر میں شادیشُدہ ہیں۔ اِس کے علاوہ ایک دوسرے سے الگ رہنے سے اُنہیں اُن مسئلوں کا سامنا ہوگا جن کا پہلے ذکر ہو چُکا ہے۔ پولُس رسول نے ایک اَور وجہ بتائی جس کی بِنا پر بہتر ہوگا کہ ایک مسیحی اپنے غیرایمان جیون ساتھی کے ساتھ رہے۔ اُنہوں نے کہا: ”غیرایمان شوہر اپنی بیوی کی وجہ سے پاک سمجھا جاتا ہے۔ اِسی طرح غیرایمان بیوی اپنے شوہر کی وجہ سے پاک سمجھی جاتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ کے بچے ناپاک ہوتے مگر اب وہ پاک ہیں۔“ (1-کُرنتھیوں 7:14) بہت سے مسیحیوں نے نہایت مشکل صورتحال کا سامنا کرنے کے باوجود اپنے غیرایمان جیون ساتھی کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کِیا۔ اِن میں سے کچھ نے دیکھا کہ اِس کا بڑا اچھا نتیجہ نکلا کیونکہ بعد میں اُن کا جیون ساتھی بھی یہوواہ کی عبادت کرنے لگا۔—1-کُرنتھیوں 7:16 کو پڑھیں؛ 1-پطرس 3:1، 2۔
19. مسیحی کلیسیا میں اِتنے زیادہ جوڑوں کی ازدواجی زندگی کامیاب کیوں ہے؟
19 یسوع مسیح نے طلاق کے بارے میں ہدایت دی اور پولُس رسول نے علیٰحدگی کے بارے میں۔ وہ دونوں چاہتے تھے کہ خدا کے خادم شادی کے بندھن کا احترام کریں۔ ہمارے زمانے میں مسیحی کلیسیا میں بہت سے جوڑے ہیں جن کی شادی بڑی کامیاب گزر رہی ہے۔ یقیناً آپ کی کلیسیا میں بھی بہت سے ایسے وفادار شوہر ہوں گے جو اپنی بیوی سے محبت کرتے ہیں اور ایسی بیویاں ہوں گی جو اپنے شوہر کا دل سے احترام کرتی ہیں۔ یہ جیون ساتھی اِس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں کہ شادی کا بندھن باعزت ہو سکتا ہے۔ ہمیں یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے کہ لاکھوں مسیحیوں کی ازدواجی زندگی کے بارے میں یہ الفاظ سچ ہیں: ”مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑ دے گا اور اپنی بیوی کے ساتھ جُڑا رہے گا اور وہ دونوں ایک بن جائیں گے۔“—اِفسیوں 5:31، 33۔