مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 51

آپ یہوواہ کو کتنی اچھی طرح جانتے ہیں؟‏

آپ یہوواہ کو کتنی اچھی طرح جانتے ہیں؟‏

‏”‏وہ جو تیرا نام جانتے ہیں تجھ پر توکل کریں گے کیونکہ اَے [‏یہوواہ]‏!‏ تُو نے اپنے طالبوں کو ترک نہیں کِیا ہے۔‏“‏‏—‏زبور 9:‏10‏۔‏

گیت نمبر 56‏:‏ سچائی کو تھام لیں

مضمون پر ایک نظر *

1،‏ 2.‏ اینجلیٹو کی مثال سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏

کیا آپ کے والدین یہوواہ کے گواہ ہیں؟‏ اگر ہاں تو یاد رکھیں کہ آپ صرف اِس وجہ سے یہوواہ کے دوست نہیں بن سکتے کیونکہ آپ کے والدین اُس کے دوست ہیں۔‏ چاہے ہمارے ماں باپ یہوواہ کی خدمت کرتے ہوں یا نہیں،‏ ہم سب کو ذاتی طور پر یہوواہ سے دوستی کرنی چاہیے۔‏

2 ذرا بھائی اینجلیٹو کی مثال پر غور کریں۔‏ اُن کے سب گھر والے یہوواہ کے گواہ تھے۔‏ لیکن جب وہ بڑے ہو رہے تھے تو وہ خود کو خدا کے زیادہ قریب محسوس نہیں کرتے تھے۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں صرف اِس لیے یہوواہ کی خدمت کر رہا تھا کیونکہ میرے گھر والے ایسا کر رہے تھے۔‏“‏ لیکن پھر اُنہوں نے یہ فیصلہ کِیا کہ وہ بائبل پڑھنے اور اِس پر سوچ بچار کرنے میں زیادہ وقت صرف کریں گے۔‏ اِس کے علاوہ وہ یہوواہ سے زیادہ مرتبہ دُعا کرنے لگے۔‏ اِس سے اُنہیں کیا فائدہ ہوا؟‏ وہ بتاتے ہیں:‏ ”‏مَیں جان گیا کہ اپنے شفیق باپ یہوواہ کے قریب جانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ مَیں خود اُسے اچھی طرح جانوں۔‏“‏ اینجلیٹو کی مثال پر غور کرنے سے ہمارے ذہن میں یہ اہم سوال آتے ہیں:‏ یہوواہ کی ذات سے محض واقف ہونے اور اُسے اچھی طرح جاننے میں کیا فرق ہے؟‏ اور ہم یہوواہ کو اچھی طرح جاننے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‏

3.‏ یہوواہ کو جاننے اور اُسے اچھی طرح جاننے میں کیا فرق ہے؟‏

3 اگر ایک شخص خدا کے نام سے واقف ہے اور اُس کے کچھ کاموں اور باتوں کا علم رکھتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ یہوواہ کو جانتا ہے۔‏ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ یہوواہ کو اچھی طرح جانتا ہے۔‏ یہوواہ کو اچھی طرح جاننے کے لیے ہمیں اُس کی ذات اور اُس کی شان‌دار خوبیوں کے بارے میں سیکھنے کے لیے وقت نکالنا چاہیے۔‏ پھر ہی ہم یہ سمجھنے کے قابل ہوں گے کہ وہ فلاں بات یا فلاں کام کیوں کرتا ہے۔‏ یوں ہم یہ جان پائیں گے کہ یہوواہ ہماری سوچ،‏ فیصلوں اور کاموں سے خوش ہے یا نہیں۔‏ ایک بار جب ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہوواہ ہم سے کن باتوں کی توقع کرتا ہے تو ہمیں اُن باتوں پر عمل بھی کرنا چاہیے۔‏

4.‏ بائبل میں درج مثالوں پر غور کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟‏

4 جب ہم لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ہم یہوواہ کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو شاید کچھ لوگ ہمارا مذاق اُڑائیں۔‏ اور جب ہم اِجلاسوں میں جانا شروع کرتے ہیں تو شاید دوسرے لوگ ہماری پہلے سے زیادہ مخالفت کرنے لگیں۔‏ لیکن اگر ہم یہوواہ پر بھروسا رکھتے ہیں تو وہ ہمارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گا۔‏ یوں ہم اُس کے ساتھ ایسی دوستی کی بنیاد ڈال رہے ہوں گے جو عمر بھر قائم رہے گی۔‏ مگر کیا ہم واقعی یہوواہ کو اِتنی اچھی طرح جان سکتے ہیں کہ اُس کے ساتھ ہماری ایسی دوستی قائم ہو سکے؟‏ بےشک!‏ خدا کے بہت سے بندوں نے یہ ثابت کِیا کہ عیب‌دار ہونے کے باوجود خدا کو اچھی طرح جاننا ممکن ہے۔‏ اِس مضمون میں ہم موسیٰ اور بادشاہ داؤد کی مثالوں پر غور کریں گے اور اِس سلسلے میں اِن دو سوالوں کے جواب حاصل کریں گے:‏ وہ یہوواہ کو قریب سے کیسے جان پائے؟‏ اور ہم اُن کی مثالوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

موسیٰ نے ’‏اَن‌دیکھے خدا کو گویا دیکھا‘‏

5.‏ موسیٰ نے کیا کرنے کا فیصلہ کِیا؟‏

5 موسیٰ نے خدا کی خدمت کرنے کا فیصلہ کِیا۔‏ جب موسیٰ تقریباً 40 سال کے تھے تو اُنہوں نے ”‏فرعون کی بیٹی کا بیٹا کہلانے“‏ کی بجائے خدا کے بندوں یعنی اِسرائیلیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کِیا۔‏ (‏عبر 11:‏24‏)‏ جب موسیٰ نے اپنے اعلیٰ مرتبے کو چھوڑ کر اِسرائیلیوں کی حمایت کی تو اُس وقت اِسرائیلی مصر میں غلام تھے۔‏ موسیٰ جانتے تھے کہ ایسا کرنے سے اُنہیں فرعون کے قہر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو کہ ایک طاقت‌ور حکمران تھا اور ایک دیوتا خیال کِیا جاتا تھا۔‏ لہٰذا اِسرائیلیوں کا ساتھ دینے سے موسیٰ نے بڑے مضبوط ایمان کا مظاہرہ کِیا۔‏ اُنہوں نے یہوواہ پر بھروسا کِیا اور اِسی بھروسے کی بِنا پر وہ یہوواہ کے ساتھ ایسی دوستی قائم کر پائے جو اُن کی پوری زندگی برقرار رہی۔‏—‏امثا 3:‏5‏۔‏

6.‏ موسیٰ کی مثال سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏

6 ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ موسیٰ کی طرح ہم سب کو بھی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم خدا کی خدمت کریں گے اور اُس کے بندوں کے ساتھ میل جول رکھیں گے۔‏ شاید ہمیں خدا کی خدمت کرنے کی خاطر قربانیاں دینی پڑیں۔‏ یا ہو سکتا ہے کہ ہمیں اُن لوگوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑے جو یہوواہ کو نہیں جانتے۔‏ لیکن اگر ہمارا بھروسا اپنے آسمانی باپ پر ہے تو ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہماری مدد ضرور کرے گا۔‏

7،‏ 8.‏ موسیٰ کیا سیکھتے رہے؟‏

7 موسیٰ یہوواہ کی خوبیوں کے متعلق سیکھتے رہے اور اُس کی مرضی پر چلتے رہے۔‏ یہوواہ نے موسیٰ سے کہا کہ وہ مصر کی غلامی سے نکلنے میں بنی‌اِسرائیل کی پیشوائی کریں۔‏ مگر موسیٰ نے اِعتماد کی کمی ظاہر کرتے ہوئے بار بار یہوواہ سے کہا کہ وہ یہ کام کرنے کے لائق نہیں ہیں۔‏ یہوواہ نے موسیٰ کے لیے گہری ہمدردی دِکھاتے ہوئے اُن کی مدد کرنے کا بندوبست کِیا۔‏ (‏خر 4:‏10-‏16‏)‏ اِس مدد کے نتیجے میں موسیٰ،‏ فرعون کو یہوواہ کی طرف سے سزا کے پیغام سنا پائے۔‏ پھر جب یہوواہ نے بنی‌اِسرائیل کو بچایا اور فرعون اور اُس کی فوجوں کو بحرِقلزم (‏بحیرۂاحمر)‏ میں غرق کر دیا تو موسیٰ نے یہوواہ کی زبردست طاقت کا مظاہرہ دیکھا۔‏—‏خر 14:‏26-‏31؛‏ زبور 136:‏15‏۔‏

8 موسیٰ کی پیشوائی میں مصر سے نکلنے کے بعد بنی‌اِسرائیل بات بات پر شکایتیں کرنے لگے۔‏ اُس وقت موسیٰ نے دیکھا کہ یہوواہ اپنی قوم کے ساتھ بڑے صبر سے پیش آیا جسے وہ غلامی سے نکال لایا تھا۔‏ (‏زبور 78:‏40-‏43‏)‏ اِس کے علاوہ ایک بار یہوواہ نے بنی‌اِسرائیل کو تباہ کرنے کا اِرادہ کر لیا۔‏ مگر پھر جب موسیٰ کے کہنے پر اُس نے اپنا اِرادہ ترک کر دیا تو موسیٰ نے یہوواہ کی بےمثال فروتنی بھی دیکھی۔‏—‏خر 32:‏9-‏14‏۔‏

9.‏ عبرانیوں 11:‏27 کے مطابق یہوواہ سے موسیٰ کی دوستی کتنی گہری تھی؟‏

9 مصر سے نکلنے کے بعد یہوواہ کے ساتھ موسیٰ کی دوستی اِس قدر مضبوط ہو گئی کہ جیسے وہ اپنے آسمانی باپ کو دیکھ سکتے ہوں۔‏ ‏(‏عبرانیوں 11:‏27 کو پڑھیں۔‏)‏ یہوواہ اور موسیٰ کی دوستی میں جو گہرائی تھی،‏ اُس کا اندازہ بائبل میں درج اِس بات سے ہوتا ہے:‏ ”‏جیسے کوئی شخص اپنے دوست سے بات کرتا ہے ویسے ہی [‏یہوواہ]‏ رُوبُرو ہو کر موسیٰؔ سے باتیں کرتا تھا۔‏“‏—‏خر 33:‏11‏۔‏

10.‏ یہوواہ کو اچھی طرح جاننے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏

10 ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ یہوواہ کو اچھی طرح جاننے کے لیے ہمیں نہ صرف اُس کی خوبیوں کے متعلق سیکھنا ہوگا بلکہ اُس کی مرضی پر بھی چلنا ہوگا۔‏ آج یہوواہ کی مرضی یہ ہے کہ ”‏ہر طرح کے لوگ نجات پائیں اور سچائی کے بارے میں صحیح علم حاصل کریں۔‏“‏ (‏1-‏تیم 2:‏3،‏ 4‏)‏ لہٰذا یہوواہ کی مرضی پر چلنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کو اُس کے بارے میں سکھائیں۔‏

11.‏ دوسروں کو یہوواہ کے متعلق سکھانے سے ہم اُسے اَور اچھی طرح جاننے کے قابل کیسے ہوتے ہیں؟‏

11 اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب ہم دوسروں کو یہوواہ کے بارے میں سکھاتے ہیں تو ہم خود بھی اُسے اَور بہتر طور پر جان پاتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر جب یہوواہ ایسے لوگوں کو تلاش کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے جو اُس کے بارے میں سچائی جاننا چاہتے ہیں تو ہم اُن کے لیے یہوواہ کی ہمدردی دیکھتے ہیں۔‏ (‏یوح 6:‏44؛‏ اعما 13:‏48‏)‏ جب بائبل کورس کرنے والے لوگ اپنی بُری عادتوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور نئی شخصیت پہننا شروع کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کے کلام میں کتنی طاقت ہے۔‏ (‏کُل 3:‏9،‏ 10‏)‏ اور جب یہوواہ بار بار ہمارے علاقے کے لوگوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ اُس کے متعلق سیکھیں اور اپنی جان بچائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہوواہ کتنے صبر سے کام لیتا ہے۔‏—‏روم 10:‏13-‏15‏۔‏

12.‏ خروج 33:‏13 کے مطابق موسیٰ نے یہوواہ سے کیا درخواست کی اور کیوں؟‏

12 موسیٰ نے یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کو قیمتی خیال کِیا۔‏ یہوواہ نے موسیٰ کے ذریعے بہت سے شان‌دار کام انجام دیے تھے۔‏ اِس لیے موسیٰ یہوواہ کو قریب سے جانتے تھے۔‏ لیکن پھر بھی موسیٰ نے یہوواہ کو اَور اچھی طرح جاننے کے لیے بڑے احترام سے اُس سے مدد مانگی۔‏ ‏(‏خروج 33:‏13 کو پڑھیں۔‏)‏ جب موسیٰ نے یہوواہ سے یہ درخواست کی تو اُس وقت اُن کی عمر 80 سال سے زیادہ تھی۔‏ لیکن وہ جانتے تھے کہ اُنہیں اب بھی اپنے شفیق آسمانی باپ کے متعلق بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔‏

13.‏ ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم یہوواہ سے اپنی دوستی کو قیمتی خیال کرتے ہیں؟‏

13 ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ چاہے ہم کتنے ہی سالوں سے یہوواہ کی خدمت کر رہے ہوں،‏ ہمیں ہمیشہ یہوواہ سے اپنی دوستی کو قیمتی خیال کرنا چاہیے۔‏ اِس دوستی کے لیے قدر ظاہر کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم یہوواہ سے دُعا کریں۔‏

14.‏ خدا کے متعلق اَور زیادہ جاننے کے لیے دُعا کرنا اِتنا ضروری کیوں ہے؟‏

14 کُھل کر بات‌چیت کرنا مضبوط دوستی کی جان ہوتا ہے۔‏ لہٰذا یہوواہ سے اپنی دوستی مضبوط کرنے کے لیے اُس سے بار بار دُعا کریں۔‏ اُسے اپنے احساسات اور جذبات کے بارے میں بتانے سے کبھی نہ ہچکچائیں۔‏ (‏اِفس 6:‏18‏)‏ ترکی میں رہنے والی کرسٹا کہتی ہیں:‏ ”‏مَیں جب بھی یہوواہ کو اپنے دل کی بات بتاتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ وہ میری مدد کر رہا ہے تو اُس کے لیے میری محبت اَور گہری ہو جاتی ہے اور مَیں اُس پر اَور زیادہ بھروسا کرنے لگتی ہوں۔‏ اِس بات پر غور کرنے سے کہ یہوواہ نے میری دُعاؤں کا جواب کیسے دیا ہے،‏ مَیں یہوواہ کو ایک باپ اور دوست خیال کرنے لگی ہوں۔‏“‏

‏’‏اُس سے میرا دل خوش ہے‘‏

15.‏ یہوواہ نے بادشاہ داؤد کے بارے میں کیا کہا؟‏

15 بادشاہ داؤد ایک ایسی قوم میں پیدا ہوئے جو یہوواہ خدا کی عبادت کرتی تھی۔‏ لیکن داؤد اِس وجہ سے یہوواہ کی عبادت نہیں کرتے تھے کیونکہ اُن کے گھر والے ایسا کرتے تھے۔‏ اُنہوں نے ذاتی طور پر یہوواہ سے دوستی کی۔‏ اور یہوواہ بھی اُن سے بڑی محبت کرتا تھا۔‏ یہوواہ نے داؤد کے متعلق کہا کہ ”‏[‏اُس]‏ سے میرا دل خوش ہے۔‏“‏ (‏اعما 13:‏22‏)‏ مگر داؤد یہوواہ کے اِتنے قریبی دوست کیسے بنے؟‏

16.‏ یہوواہ کی بنائی ہوئی چیزوں پر غور کرنے سے داؤد نے اُس کے بارے میں کیا سیکھا؟‏

16 داؤد نے خدا کی بنائی ہوئی چیزوں پر غور کرنے سے اُس کے بارے میں سیکھا۔‏ جب داؤد نوجوان تھے تو وہ اپنے باپ کی بھیڑیں چرانے کے لیے کئی کئی گھنٹے کُھلے آسمان کے نیچے گزارتے تھے۔‏ شاید اِسی دوران وہ خدا کی بنائی ہوئی چیزوں پر سوچ بچار کرنے لگے تھے۔‏ مثال کے طور پر جب وہ رات کو آسمان پر نظر ڈالتے ہوں گے تو وہ صرف یہ نہیں دیکھتے ہوں گے کہ وہاں کتنے زیادہ ستارے ہیں۔‏ وہ اِن ستاروں کو بنانے والے کی خوبیوں پر بھی غور کرتے ہوں گے۔‏ غالباً اِسی لیے داؤد کو یہ لکھنے کی ترغیب ملی:‏ ”‏آسمان خدا کا جلال ظاہر کرتا ہے اور فضا اُس کی دست‌کاری دِکھاتی ہے۔‏“‏ (‏زبور 19:‏1،‏ 2‏)‏ جب داؤد نے غور کِیا کہ اِنسانوں کو کتنے حیرت‌انگیز طریقے سے بنایا گیا ہے تو وہ سمجھ گئے کہ یہوواہ نہایت دانش‌مند ہے۔‏ (‏زبور 139:‏14‏)‏ خدا کی بنائی ہوئی چیزوں پر غور کرنے سے داؤد کو محسوس ہوتا تھا کہ وہ خدا کی عظمت کے مقابلے میں کتنے چھوٹے ہیں۔‏—‏زبور 139:‏6‏۔‏

17.‏ خدا کی بنائی ہوئی چیزوں پر غور کرنے سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

17 ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ غور کریں کہ یہوواہ نے اِس دُنیا کو کتنی خوب‌صورتی سے بنایا ہے۔‏ آپ کے اِردگِرد قدرت کے بےشمار شاہکار پائے جاتے ہیں۔‏ اِن پر سرسری نظر ڈالنے کی بجائے اِن میں دلچسپی لیں۔‏ اِن کا اِس طرح سے مشاہدہ کریں کہ آپ اِن کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکیں۔‏ اپنی روزمرہ زندگی میں سوچ بچار کریں کہ یہوواہ نے پودوں،‏ جانوروں اور اِنسانوں کو کس طرح بنایا ہے اور اِن سے آپ اُس کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں۔‏ پھر آپ ہر روز اپنے شفیق باپ کے بارے میں اَور زیادہ سیکھ پائیں گے۔‏ (‏روم 1:‏20‏)‏ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اُس کے لیے آپ کی محبت اَور گہری ہوتی جائے گی۔‏

18.‏ زبور 18 کی روشنی میں بتائیں کہ داؤد کس بات کو سمجھتے تھے۔‏

18 داؤد اِس بات کو سمجھتے تھے کہ یہوواہ اُن کی مدد کر رہا ہے۔‏ مثال کے طور پر ایک موقعے پر داؤد نے ایک شیر سے اور ایک دوسرے موقعے پر ایک ریچھ سے اپنے باپ کی بھیڑوں کو بچایا۔‏ وہ اِس بات کو سمجھتے تھے کہ اِن خون‌خوار شکاریوں سے لڑنے میں یہوواہ نے ہی اُن کی مدد کی تھی۔‏ جب داؤد نے جنگی سورما جولیت کو دھول چٹائی تو وہ اِس بات کو سمجھتے تھے کہ وہ یہوواہ کی مدد سے ہی ایسا کر پائے ہیں۔‏ (‏1-‏سمو 17:‏37‏)‏ اِس کے علاوہ جب داؤد،‏ بادشاہ ساؤل سے اپنی جان بچا کر بھاگے تو وہ اِس بات کو سمجھتے تھے کہ یہوواہ نے ہی اُنہیں بچایا ہے۔‏ (‏زبور 18 کی تمہید)‏ اگر داؤد ایک مغرور شخص ہوتے تو شاید وہ سوچتے کہ وہ یہ سب کچھ اپنے بل‌بوتے پر کر پائے ہیں۔‏ لیکن داؤد خاکسار تھے اِس لیے اُنہوں نے تسلیم کِیا کہ وہ یہوواہ کی مدد سے یہ سب کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔‏—‏زبور 138:‏6‏۔‏

19.‏ ہم داؤد کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

19 ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ ہمیں صرف یہوواہ سے مدد مانگنے کی بجائے کچھ اَور بھی کرنا چاہیے۔‏ ہمیں اِس بات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ یہوواہ کب اور کیسے ہماری مدد کرتا ہے۔‏ ہمیں خاکساری سے تسلیم کرنا چاہیے کہ ہم اپنے بل‌بوتے پر سب کچھ نہیں کر سکتے۔‏ یوں ہم سمجھ پائیں گے کہ یہوواہ ایسے کام کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے جو ہم اپنی طاقت سے نہیں کر سکتے۔‏ اور جب جب ہم دیکھیں گے کہ یہوواہ نے کیسے ہماری مدد کی ہے،‏ اُس کے ساتھ ہماری دوستی اَور مضبوط ہو جائے گی۔‏ آئزک نامی بھائی نے دیکھا ہے کہ یہ بات واقعی سچ ہے۔‏ وہ ملک فیجی میں رہتے ہیں اور کافی سالوں سے یہوواہ کی خدمت کر رہے ہیں۔‏ وہ بتاتے ہیں:‏ ”‏جب مَیں اپنی زندگی پر غور کرتا ہوں تو مَیں دیکھ پاتا ہوں کہ بائبل کورس شروع کرنے سے لے کر آج تک یہوواہ نے کیسے میری مدد کی ہے۔‏ اِس طرح مَیں خود کو یہوواہ کے بہت قریب محسوس کرتا ہوں۔‏“‏

20.‏ ہم یہوواہ کے ساتھ داؤد کی دوستی سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

20 داؤد نے یہوواہ کی مثال پر عمل کرتے ہوئے اُس جیسی خوبیاں ظاہر کیں۔‏ یہوواہ نے اِنسانوں کو یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ اُس جیسی خوبیاں ظاہر کریں۔‏ (‏پید 1:‏26‏)‏ ہم یہوواہ کی خوبیوں کے متعلق جتنا زیادہ سیکھیں گے،‏ ہم اِن خوبیوں کو اُتنا زیادہ ظاہر کر پائیں گے۔‏ داؤد اپنے آسمانی باپ کو اچھی طرح جانتے تھے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے دوسروں سے پیش آتے وقت یہوواہ کی مثال پر عمل کِیا۔‏ ذرا ایک مثال پر غور کریں۔‏ اگرچہ داؤد نے بت‌سبع سے حرام‌کاری کر کے اور پھر اُس کے شوہر کو قتل کروا کے یہوواہ کا گُناہ کِیا تھا مگر یہوواہ نے اُن پر رحم کِیا۔‏ (‏2-‏سمو 11:‏1-‏4،‏ 15‏)‏ اور یہوواہ نے ایسا اِس لیے کِیا کیونکہ داؤد یہوواہ کی مثال پر عمل کرتے تھے اور دوسروں کے ساتھ رحم سے پیش آتے تھے۔‏ یہوواہ سے داؤد کی دوستی بہت مضبوط تھی۔‏ اِس لیے اُن کا شمار بنی‌اِسرائیل کے مقبول‌ترین بادشاہوں میں ہوتا تھا اور یہوواہ اُن سے موازنہ کر کے بتاتا تھا کہ فلاں بادشاہ اچھا تھا یا بُرا۔‏—‏1-‏سلا 15:‏11؛‏ 2-‏سلا 14:‏1-‏3‏۔‏

21.‏ اِفسیوں 4:‏24 اور 5:‏1 کو ذہن میں رکھتے ہوئے بتائیں کہ ”‏خدا کی مثال پر عمل“‏ کرنے کے کون سے اچھے نتائج نکلتے ہیں۔‏

21 ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ ہمیں ”‏خدا کی مثال پر عمل“‏ کرنا چاہیے۔‏ ایسا کرنے سے ہمیں فائدہ ہوتا ہے اور ہم یہوواہ کو اَور اچھی طرح جاننے کے قابل ہوتے ہیں۔‏ جب ہم خدا جیسی خوبیاں ظاہر کرتے ہیں تو ہم ثابت کرتے ہیں کہ ہم اُس کے بچے ہیں۔‏‏—‏اِفسیوں 4:‏24؛‏ 5:‏1 کو پڑھیں۔‏

یہوواہ کو اَور اچھی طرح جانیں

22،‏ 23.‏ ہمیں اُن باتوں پر عمل کرنے کا کیا فائدہ ہوگا جو ہم سیکھتے ہیں؟‏

22 جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے،‏ ہم خدا کی بنائی ہوئی چیزوں اور اُس کے کلام کے ذریعے اُس کی ذات کے بارے میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ بائبل میں خدا کے بےشمار بندوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جنہوں نے ہمارے لیے بڑی اچھی مثالیں قائم کی ہیں۔‏ اِس مضمون میں ہم نے اُن میں سے دو بندوں یعنی موسیٰ اور بادشاہ داؤد کی مثالوں پر غور کِیا ہے۔‏ یہوواہ نے تو اپنی ذات کے بارے میں بہت کچھ ظاہر کِیا ہے۔‏ اب ہمیں چاہیے کہ ہم اُس کے متعلق جتنا زیادہ سیکھ سکتے ہیں،‏ سیکھیں۔‏

23 یہوواہ کے بارے میں سیکھنے کا سلسلہ ہمیشہ تک چلتا رہے گا۔‏ (‏واعظ 3:‏11‏)‏ لیکن زیادہ اہم بات یہ نہیں ہے کہ ہم اُس کے متعلق کتنا جانتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ ہم جتنا جانتے ہیں،‏ اُسے اپنی سوچ اور کاموں پر اثر کرنے دیں۔‏ اگر ہم اُن باتوں پر عمل کریں گے جو ہم سیکھتے ہیں اور اپنے شفیق آسمانی باپ کی مثال پر چلیں گے تو ہم اُس کے اَور قریب ہوتے جائیں گے۔‏ (‏یعقو 4:‏8‏)‏ بےشک یہوواہ اُن لوگوں کو کبھی ترک نہیں کرے گا جو اُس کے طالب ہیں اور اُسے اچھی طرح جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔‏

گیت نمبر 80‏:‏ آزما کر دیکھو کہ یہوواہ کتنا مہربان ہے

^ پیراگراف 5 بہت سے لوگ خدا کے وجود پر یقین تو رکھتے ہیں لیکن وہ اُسے قریب سے نہیں جانتے۔‏ یہوواہ کو جاننے کا کیا مطلب ہے؟‏ ہم یہوواہ سے قریبی دوستی قائم کرنے کے حوالے سے موسیٰ اور بادشاہ داؤد سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ اِس مضمون میں اِن سوالوں کے جواب دیے جائیں گے۔‏