قارئین کے سوال
شیطان نے حوا سے کہا تھا کہ اگر وہ نیکوبد کی پہچان کے درخت کا پھل کھائیں گی تو وہ نہیں مریں گی۔ کیا یہ کہنے سے شیطان اِس نظریے کو متعارف کرا رہا تھا کہ اِنسان کی روح کبھی نہیں مرتی جیسے کہ آجکل بہت سے لوگ مانتے ہیں؟
لگتا نہیں ہے کہ ایسا تھا۔ شیطان نے حوا سے یہ نہیں کہا تھا کہ اگر وہ اُس پھل کو کھائیں گی تو اُن کا جسم تو مر جائے گا لیکن جسم کے اندر موجود کوئی اَندیکھی شے (جسے آجکل کچھ لوگ غیرفانی روح کہتے ہیں) کسی اَور جہان میں زندہ رہے گی۔ سانپ کے ذریعے حوا سے بات کرتے ہوئے شیطان نے دعویٰ کِیا تھا کہ اگر وہ اُس درخت کا پھل کھائیں گی تو وہ مریں گی ہی نہیں۔ شیطان کی اِس بات کا مطلب یہ تھا کہ وہ زندہ رہیں گی اور زمین پر ایک ایسی زندگی جئیں گی جس میں خدا کی مرضی پر چلنے کی کوئی پابندی نہیں ہوگی۔—پید 2:17؛ 3:3-5۔
اگر غیرفانی روح کا عقیدہ باغِعدن میں شروع نہیں ہوا تو پھر یہ کب شروع ہوا؟ ہم اِس سلسلے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ہم جانتے ہیں کہ نوح کے زمانے میں جھوٹے نظریات کو ماننے والے سب لوگ طوفان میں ہلاک ہو گئے تھے۔ اُس وقت صرف نوح اور اُن کا خاندان ہی بچا تھا اور وہ لوگ سچے خدا کی عبادت کرتے تھے۔ اِس لیے جھوٹے نظریات پر یقین رکھنے والا کوئی نہیں رہا تھا۔
لہٰذا طوفانِنوح کے بعد ہی یہ نظریہ وجود میں آیا کہ اِنسان میں کوئی روح ہوتی ہے جو ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ جب خدا نے بابل میں لوگوں کی زبانوں میں اِختلاف ڈالا اور وہ لوگ ”تمام رویِزمین میں“ تتربتر ہو گئے تو اُن کے ساتھ یہ نظریہ بھی پھیل گیا کہ اِنسان کے اندر غیرفانی روح ہوتی ہے۔ (پید 11:8، 9) بہرحال چاہے یہ نظریہ جب بھی شروع ہوا تھا، بِلاشُبہ اِس کے پیچھے ’جھوٹ کے باپ‘ شیطان کا ہاتھ تھا اور وہ اِس نظریے کے پھیلنے پر بہت خوش تھا۔—یوح 8:44۔