مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

قارئین کے سوال

قارئین کے سوال

بائبل میں بتایا گیا ہے کہ کسی معاملے کو ثابت کرنے کے لیے کم سے کم دو گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔‏ (‏گن 35:‏30؛‏ اِست 17:‏6؛‏ 19:‏15؛‏ متی 18:‏16؛‏ 1-‏تیم 5:‏19‏)‏ لیکن شریعت کے مطابق اگر کوئی آدمی ”‏کسی میدان یا کھیت میں“‏ کسی منسوبہ (‏یعنی منگنی‌شُدہ)‏ لڑکی کی عزت لُوٹتا اور وہ لڑکی چیختی چلّاتی تو لڑکی بےگُناہ جبکہ آدمی مُجرم ٹھہرتا۔‏ شریعت میں ذکرکردہ صورتحال کے مطابق اِس جنسی زیادتی کا کوئی گواہ نہیں تھا۔‏ تو پھر لڑکی کو بےگُناہ اور آدمی کو مُجرم کیوں سمجھا جاتا تھا؟‏

اِستثنا 22:‏25-‏27 میں جس صورتحال کا ذکر کِیا گیا ہے،‏ اُس کا مقصد آدمی کا جُرم ثابت کرنا نہیں تھا کیونکہ اگر ایسا واقعہ ہوتا تھا تو آدمی کو ویسے بھی مُجرم خیال کِیا جاتا تھا۔‏ اصل میں یہ قانون لڑکی کی بےگُناہی ثابت کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔‏ ذرا اِن آیتوں کے سیاق‌وسباق پر غور کریں۔‏

اِن آیتوں سے پچھلی آیتوں میں ایک ایسے آدمی کے بارے میں بتایا گیا ہے جو ”‏شہر میں“‏ کسی منگنی‌شُدہ لڑکی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتا۔‏ ایسا کرنے سے وہ شخص زِناکاری کرتا کیونکہ اُس زمانے میں منگنی‌شُدہ لڑکی کو شادی‌شُدہ خیال کِیا جاتا تھا۔‏ لیکن کیا وہ لڑکی بےقصور ہوتی؟‏ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏وہ شہر میں ہوتے ہوئے نہ چلّائی۔‏“‏ اگر وہ ایسا کرتی تو یقیناً دوسرے لوگ اُس کی چیخ‌وپکار سُن کر اُسے بچانے آ جاتے۔‏ لیکن اُس نے کوئی شور نہیں مچایا تھا اِس لیے وہ بھی زِناکاری کے گُناہ میں برابر کی شریک ہوتی۔‏ لہٰذا آدمی کے ساتھ ساتھ لڑکی بھی سزا پاتی۔‏—‏اِست 22:‏23،‏ 24‏۔‏

اِس صورتحال کو بیان کرنے کے بعد شریعت میں ایک فرق صورتحال کا ذکر کِیا گیا ہے۔‏ اِس میں لکھا ہے:‏ ”‏اگر آدمی کو وہی لڑکی جس کی نسبت ہو چُکی ہو کسی میدان یا کھیت میں مل جائے اور وہ آدمی جبراً اُس سے صحبت کرے تو فقط وہ آدمی ہی جس نے صحبت کی مار ڈالا جائے۔‏ پر اُس لڑکی سے کچھ نہ کرنا کیونکہ لڑکی کا ایسا گُناہ نہیں جس سے وہ قتل کے لائق ٹھہرے اِس لئے کہ یہ بات ایسی ہے جیسے کوئی اپنے ہمسایہ پر حملہ کرے اور اُسے مار ڈالے۔‏ کیونکہ وہ لڑکی اُسے میدان میں ملی اور وہ منسوبہ لڑکی چلّائی بھی پر وہاں کوئی ایسا نہ تھا جو اُسے چھڑاتا۔‏“‏—‏اِست 22:‏25-‏27‏۔‏

ایسی صورتحال میں قاضی لڑکی کی بات پر یقین کرتے تھے۔‏ وہ سمجھتے تھے کہ ’‏لڑکی چلّائی ہوگی پر وہاں کوئی ایسا نہ تھا جو اُسے چھڑاتا۔‏‘‏ اِس لیے اُس لڑکی پر زِناکاری کا اِلزام نہیں لگتا تھا۔‏ لیکن آدمی زِناکاری اور جنسی زیادتی کا مُجرم ٹھہرتا تھا کیونکہ اُس نے ”‏جبراً [‏منگنی‌شُدہ لڑکی]‏ سے صحبت“‏ کی ہوتی تھی۔‏

لہٰذا اگرچہ یہ قانون بنیادی طور پر لڑکی کی بےگُناہی ثابت کرنے کے لیے بنایا گیا تھا مگر ساتھ ساتھ اِس میں یہ بھی واضح کِیا گیا تھا کہ آدمی زِناکاری اور جنسی زیادتی کا مُجرم ہے۔‏ ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ قاضی معاملے کی ”‏خوب تفتیش“‏ کرتے تھے اور خدا کے اُن اصولوں کو ذہن میں رکھ کر فیصلہ سناتے تھے جن کو وہ بار بار واضح کر چُکا تھا۔‏—‏اِست 13:‏14؛‏ 17:‏4؛‏ خر 20:‏14‏۔‏