مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 52

والدین!‏ اپنے بچوں کو یہوواہ سے محبت کرنا سکھائیں

والدین!‏ اپنے بچوں کو یہوواہ سے محبت کرنا سکھائیں

‏”‏اولاد [‏یہوواہ]‏ کی طرف سے میراث ہے۔‏“‏‏—‏زبور 127:‏3‏۔‏

گیت نمبر 134‏:‏ اولاد خدا کی امانت ہے

مضمون پر ایک نظر *

1.‏ یہوواہ نے والدین کو کیا ذمےداری سونپی ہے؟‏

یہوواہ نے پہلے اِنسانی جوڑے کو اولاد کی خواہش کے ساتھ خلق کِیا۔‏ اور جیسے کہ بائبل میں لکھا ہے،‏ واقعی ”‏اولاد [‏یہوواہ]‏ کی طرف سے میراث ہے۔‏“‏ (‏زبور 127:‏3‏)‏ اِس بات کا کیا مطلب ہے؟‏ فرض کریں کہ آپ کا ایک دوست آپ کے پاس ایک بڑی رقم امانت کے طور پر رکھواتا ہے۔‏ آپ کو کیسا لگے گا؟‏ شاید آپ کو بڑی عزت محسوس ہو کہ اُس نے آپ پر اِتنا بھروسا کِیا ہے۔‏ لیکن شاید آپ کو یہ فکر بھی ہو کہ آپ اِتنی بڑی رقم کی دیکھ‌بھال کیسے کریں گے۔‏ یہوواہ ہمارا سب سے قریبی دوست ہے۔‏ اُس نے والدین کو ایک ایسی امانت سونپی ہے جو پیسوں سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔‏ اُس نے اُنہیں یہ ذمےداری دی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اچھے سے دیکھ‌بھال کریں اور اُن کی خوشی کا خیال رکھیں۔‏

2.‏ اِس مضمون میں کن سوالوں پر بات کی جائے گی؟‏

2 یہ فیصلہ کس کو کرنا چاہیے کہ آیا ایک شادی‌شُدہ جوڑا بچے پیدا کرے گا اور اگر کرے گا تو کب کرے گا؟‏ اور جن لوگوں کے بچے ہیں،‏ وہ اپنے بچوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں تاکہ وہ خوش‌گوار زندگی گزار سکیں؟‏ آئیں،‏ پاک کلام سے کچھ اصولوں پر غور کریں جن کی مدد سے مسیحی جوڑے اِن معاملوں میں اچھے فیصلے کر سکتے ہیں۔‏

ایک جوڑے کے فیصلے کا احترام کریں

3.‏ ‏(‏الف)‏ یہ فیصلہ کس کو کرنا چاہیے کہ ایک شادی‌شُدہ جوڑا بچے پیدا کرے گا یا نہیں؟‏ (‏ب)‏ شادی‌شُدہ جوڑوں کے گھر والوں اور دوستوں کو بائبل کے کون سے اصول یاد رکھنے چاہئیں؟‏

3 کچھ ثقافتوں میں نئے نویلے جوڑوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ جتنی جلدی ممکن ہو،‏ بچہ پیدا کریں۔‏ شاید اِس سلسلے میں اُن کے گھر والے اور دوسرے لوگ اُن پر دباؤ ڈالیں۔‏ ایشیا میں رہنے والے بھائی جےتھرو کہتے ہیں:‏ ”‏کلیسیا کے کچھ بہن بھائی جن کے بچے ہیں،‏ دوسرے جوڑوں پر بچے پیدا کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔‏“‏ ایشیا سے تعلق رکھنے والے ایک اَور بھائی جن کا نام جیفری ہے،‏ بتاتے ہیں:‏ ”‏جن جوڑوں کے بچے نہیں ہیں،‏ اُن سے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بڑھاپے میں اُنہیں سنبھالنے والا کوئی نہیں ہوگا۔‏“‏ لیکن ہر جوڑے کو خود یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ اولاد پیدا کرے گا یا نہیں۔‏ یہ فیصلہ کرنا اُن کی اپنی ذمےداری ہے۔‏ (‏گل 6:‏5‏)‏ یہ سچ ہے کہ نئے نویلے جوڑوں کے گھر والے اور دوست اُنہیں خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔‏ لیکن سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ اولاد پیدا کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ ایک جوڑے کا اپنا ہوتا ہے۔‏—‏1-‏تھس 4:‏11‏۔‏

4،‏ 5.‏ ‏(‏الف)‏ ایک جوڑے کو کن دو سوالوں پر بات‌چیت کرنی چاہیے؟‏ (‏ب)‏ بچے پیدا کرنے کے حوالے سے بات‌چیت کرنا کب بہتر ہوتا ہے؟‏ وضاحت کریں۔‏

4 جو جوڑا بچے پیدا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے،‏ اُسے اِن دو اہم سوالوں پر غور کرنا چاہیے:‏ پہلا یہ کہ وہ کب بچے پیدا کرنا چاہتا ہے؟‏ اور دوسرا یہ کہ وہ کتنے بچے پیدا کرنا چاہتا ہے؟‏ اِن سوالوں پر بات‌چیت کرنے کا بہترین وقت کون سا ہوتا ہے؟‏ اور یہ دونوں سوال اِتنے اہم کیوں ہیں؟‏

5 زیادہ‌تر صورتوں میں ایک جوڑے کے لیے اچھا ہوتا ہے کہ وہ شادی سے پہلے بچے پیدا کرنے کے حوالے سے بات‌چیت کرے۔‏ مگر کیوں؟‏ ایک وجہ یہ ہے کہ اِس معاملے پر اُن دونوں کی سوچ ایک جیسی ہونا ضروری ہے۔‏ اِس کے علاوہ اُنہیں اِس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کیا وہ بچوں کی ذمےداری اُٹھانے کے لیے تیار ہیں۔‏ کچھ جوڑے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ شادی کے کم از کم ایک یا دو سال تک بچے پیدا نہیں کریں گے کیونکہ بچوں کی پیدائش کے بعد میاں بیوی کا کافی وقت اور توانائی بچوں کی دیکھ‌بھال کرنے میں لگ جاتی ہے۔‏ وہ جوڑے یہ فیصلہ اِس لیے کرتے ہیں تاکہ اُنہیں شادی کے بعد زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کے مطابق ڈھلنے اور اپنے رشتے کو مضبوط بنانے کا موقع ملے۔‏—‏اِفس 5:‏33‏۔‏

6.‏ اِس مشکل وقت میں رہتے ہوئے کچھ جوڑوں نے کیا فیصلہ کِیا ہے؟‏

6 کچھ مسیحی جوڑے نوح کے بیٹوں اور اُن کی بیویوں کی مثال پر چلنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔‏ اُن تینوں جوڑوں نے شادی کے فوراً بعد اولاد پیدا نہیں کی۔‏ (‏پید 6:‏18؛‏ 9:‏18،‏ 19؛‏ 10:‏1؛‏ 2-‏پطر 2:‏5‏)‏ یسوع نے ہمارے زمانے کا موازنہ ”‏نوح کے زمانے“‏ سے کِیا اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ آج ہم ”‏مشکل وقت“‏ میں رہ رہے ہیں۔‏ (‏متی 24:‏37؛‏ 2-‏تیم 3:‏1‏)‏ اِس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کچھ جوڑے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ فی‌الحال بچے پیدا نہیں کریں گے۔‏ وہ ایسا اِس لیے کرتے ہیں تاکہ وہ یہوواہ کی خدمت میں زیادہ وقت صرف کر سکیں۔‏

سمجھ‌دار جوڑے لُوقا 14:‏28،‏ 29 میں درج اصول کو ذہن میں رکھ کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ بچے پیدا کریں گے یا نہیں اور اگر کریں گے تو کتنے کریں گے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 7 کو دیکھیں۔‏)‏ *

7.‏ لُوقا 14:‏28،‏ 29 اور امثال 21:‏5 میں درج اصول ایک جوڑے کے کام کیسے آ سکتے ہیں؟‏

7 سمجھ‌دار جوڑے لُوقا 14:‏28،‏ 29 میں درج اصول کو ذہن میں رکھ کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ بچے پیدا کریں گے یا نہیں اور اگر کریں گے تو کتنے کریں گے۔‏ ‏(‏اِن آیتوں کو پڑھیں۔‏)‏ جن لوگوں کے بچے ہیں،‏ وہ بتاتے ہیں کہ بچوں کی پرورش کرنے میں پیسوں کے ساتھ ساتھ وقت اور توانائی بھی خرچ ہوتی ہے۔‏ لہٰذا ایک جوڑے کے لیے اِن سوالوں پر غور کرنا ضروری ہے:‏ ”‏کیا گھر کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے ہم دونوں کو ملازمت کرنی پڑے گی؟‏ کیا ہم دونوں اِس بات پر متفق ہیں کہ ہماری بنیادی ضرورتیں کیا ہیں؟‏ اگر ہم دونوں ملازمت کریں گے تو ہمارے بچوں کی دیکھ‌بھال کون کرے گا؟‏ ہم کیا چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کی سوچ اور کاموں پر کن کا اثر ہو؟‏“‏ جب ایک جوڑا سکون سے بیٹھ کر اِن سوالوں پر بات‌چیت کرتا ہے تو وہ امثال 21:‏5 میں درج اصول پر عمل کر رہا ہوتا ہے۔‏‏—‏اِس آیت کو پڑھیں۔‏

جو شوہر اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے،‏ وہ اُس کی ہر ممکن مدد کرتا ہے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 8 کو دیکھیں۔‏)‏

8.‏ ‏(‏الف)‏ شادی‌شُدہ جوڑوں کو کن مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے؟‏ (‏ب)‏ جو شوہر اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے،‏ وہ کیا کرے گا؟‏

8 ماں اور باپ دونوں کو بچے کی دیکھ‌بھال میں کافی وقت اور توانائی صرف کرنی پڑتی ہے اور یہ اُن کا فرض بھی ہے۔‏ لہٰذا اگر ایک جوڑا بچوں میں زیادہ وقفہ نہیں دیتا تو شاید وہ ہر بچے کو ضروری توجہ نہ دے پائے۔‏ جن جوڑوں کے کئی چھوٹے بچے ہیں،‏ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اُن کے لیے اپنے بچوں کو سنبھالنا آسان نہیں ہے۔‏ ایسی صورتحال میں شاید ایک ماں جسمانی اور جذباتی طور پر بہت تھک جائے۔‏ ہو سکتا ہے کہ وہ تھکن کی وجہ سے باقاعدگی سے ذاتی مطالعہ،‏ دُعا اور مُنادی نہ کر پائے۔‏ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اُس کے لیے اِجلاسوں پر توجہ دینا اور اِن سے فائدہ حاصل کرنا مشکل ہو جائے۔‏ بےشک جو شوہر اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے،‏ وہ اِجلاسوں میں بھی اور گھر پر بھی بچوں کی دیکھ‌بھال کرنے میں اپنی بیوی کی ہر ممکن مدد کرتا ہے۔‏ مثال کے طور پر وہ گھر کے کام‌کاج میں اُس کا ہاتھ بٹاتا ہے۔‏ وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ اُس کے گھر والے باقاعدگی سے خاندانی عبادت کریں اور سب افراد اِس سے فائدہ حاصل کریں۔‏ اِس کے علاوہ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ باقاعدگی سے مُنادی کے کام میں حصہ لیتا ہے۔‏

اپنے بچوں کو یہوواہ سے محبت کرنا سکھائیں

9،‏ 10.‏ اپنے بچوں کی اچھی پرورش کرنے کے لیے والدین کو کون سا اہم کام کرنا چاہیے؟‏

9 والدین کیا کر سکتے ہیں تاکہ اُن کے بچے یہوواہ سے محبت کرنا سیکھیں؟‏ وہ اپنے بچوں کو اِس دُنیا کے بُرے اثر سے کیسے بچا سکتے ہیں؟‏ غور کریں کہ والدین اِس حوالے سے کون سے کام کر سکتے ہیں۔‏

10 یہوواہ سے دُعا میں مدد مانگیں۔‏ ذرا منوحہ اور اُن کی بیوی کی مثال پر غور کریں جو سمسون کے والدین تھے۔‏ جب منوحہ کو پتہ چلا کہ اُن کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہونے والا ہے تو اُنہوں نے اُس کی پرورش کے حوالے سے یہوواہ سے رہنمائی مانگی۔‏

11.‏ قضاۃ 13:‏8 کی روشنی میں بتائیں کہ والدین منوحہ کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔‏

11 ملک بوسنیا اور ہرزیگووینا سے تعلق رکھنے والے ایک جوڑے نحاد اور الما نے منوحہ کی مثال پر عمل کِیا۔‏ وہ بتاتے ہیں:‏ ”‏منوحہ کی طرح ہم نے بھی یہوواہ سے اِلتجا کی کہ وہ ہمیں اچھے والدین بننا سکھائے۔‏ اور یہوواہ نے فرق فرق طریقوں سے ہماری دُعاؤں کا جواب دیا۔‏ اُس نے ایسا اپنے کلام،‏ ہماری کتابوں اور رسالوں،‏ اِجلاسوں اور اِجتماعوں کے ذریعے کِیا۔‏“‏‏—‏قضاۃ 13:‏8 کو پڑھیں۔‏

12.‏ یوسف اور مریم نے اپنے بچوں کے لیے کیسی مثال قائم کی؟‏

12 اپنی مثال سے سکھائیں۔‏ آپ بچوں سے جو کچھ کہتے ہیں،‏ اُس کا اُن پر اثر ہوتا ہے لیکن آپ جو کچھ کرتے ہیں،‏ اُس کا اُن پر زیادہ گہرا اثر ہوتا ہے۔‏ بِلاشُبہ یوسف اور مریم نے اپنے بچوں کے لیے جن میں یسوع بھی شامل تھے،‏ بہت اچھی مثال قائم کی۔‏ یوسف نے اپنے گھر والوں کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے سخت محنت کی۔‏ اِس کے علاوہ اُنہوں نے اپنے گھر والوں کو یہوواہ کی عبادت کی اہمیت سکھائی۔‏ (‏اِست 4:‏9،‏ 10‏)‏ شریعت کے مطابق یوسف کے لیے یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ ”‏ہر سال“‏ عیدِفسح منانے کے لیے اپنے گھر والوں کو اپنے ساتھ یروشلیم لے کر جائیں۔‏ لیکن وہ ایسا کِیا کرتے تھے۔‏ (‏لُو 2:‏41،‏ 42‏)‏ شاید یوسف کے زمانے کے کچھ والد سوچتے ہوں کہ اپنے سب گھر والوں کو ایسے سفر پر لے جانا بہت مشکل ہے اور اِس میں کافی وقت اور پیسہ خرچ ہوتا ہے۔‏ مگر یوسف یہوواہ کی عبادت کو اہم خیال کرتے تھے اور اُنہوں نے اپنے بچوں کو بھی ایسا کرنا سکھایا۔‏ جہاں تک مریم کی بات ہے،‏ وہ پاک صحیفوں سے اچھی طرح واقف تھیں۔‏ بےشک اُنہوں نے اپنی باتوں اور کاموں سے اپنے بچوں کو خدا کے کلام سے محبت کرنا سکھایا ہوگا۔‏

13.‏ ایک جوڑے نے یوسف اور مریم کی مثال پر کیسے عمل کِیا؟‏

13 نحاد اور الما نے جن کا پہلے ذکر ہو چُکا ہے،‏ یوسف اور مریم کی مثال پر عمل کرنے کی کوشش کی۔‏ ایسا کرنے سے وہ اپنے بیٹے کے دل میں یہوواہ کے لیے محبت اور اُس کی خدمت کرنے کی خواہش پیدا کر سکے۔‏ وہ کیسے؟‏ وہ بتاتے ہیں:‏ ”‏ہم نے اپنے طرزِزندگی سے اپنے بیٹے کو یہ سکھانے کی کوشش کی کہ یہوواہ کے معیاروں کے مطابق زندگی گزارنے کے کتنے فائدے ہیں۔‏“‏ نحاد مزید کہتے ہیں:‏ ”‏ویسے ہی شخص بنیں جیسے آپ اپنے بچے کو بنانا چاہتے ہیں۔‏“‏

14.‏ والدین کو یہ کیوں پتہ ہونا چاہیے کہ اُن کے بچے کن کے ساتھ وقت گزارتے ہیں؟‏

14 اچھے دوست بنانے میں اپنے بچوں کی مدد کریں۔‏ ماں اور باپ دونوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اُن کے بچے کن کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور وہ کیا کرتے ہیں۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ والدین کو یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ اُن کے بچے سوشل میڈیا یا اپنے فون کے ذریعے کن کے ساتھ بات کرتے ہیں۔‏ ایسے لوگوں کا بچوں کی سوچ اور کاموں پر گہرا اثر ہو سکتا ہے۔‏—‏1-‏کُر 15:‏33‏۔‏

15.‏ والدین جیسی کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

15 اگر والدین کمپیوٹر،‏ فون یا ٹیبلٹ وغیرہ کے متعلق زیادہ نہیں جانتے تو وہ کیا کر سکتے ہیں؟‏ ملک فلپائن میں رہنے والے ایک والد جن کا نام جیسی ہے،‏ کہتے ہیں:‏ ”‏ہمیں ٹیکنالوجی کے بارے میں اِتنا نہیں پتہ۔‏ لیکن پھر بھی ہم نے پوری کوشش کی کہ ہم اپنے بچوں کو فون اور ٹیبلٹ وغیرہ کے خطروں کے بارے میں بتائیں۔‏“‏ جیسی نے یہ سوچ کر اپنے بچوں کو یہ چیزیں اِستعمال کرنے سے نہیں روکا کہ وہ خود اِن چیزوں کو اِستعمال کرنا نہیں جانتے تھے۔‏ وہ بتاتے ہیں:‏ ”‏مَیں نے اپنے بچوں سے کہا کہ وہ اپنے موبائل وغیرہ کے ذریعے کوئی نئی زبان سیکھیں،‏ اِجلاسوں کی تیاری کریں اور روزانہ بائبل پڑھیں۔‏“‏ ہماری ویب‌سائٹ ®jw.org پر حصہ ”‏نوجوان‏“‏ میں میسج کرنے اور اِنٹرنیٹ پر تصویریں ڈالنے کے حوالے سے مفید معلومات دستیاب ہیں۔‏ اگر آپ کے بچے ہیں تو کیا آپ نے اِن معلومات کو اپنے بچوں کے ساتھ مل کر پڑھا ہے اور اِن پر بات‌چیت کی ہے؟‏ کیا آپ نے اُن کے ساتھ مل کر اِن ویڈیوز پر غور کِیا ہے:‏ ‏”‏کیا آپ اپنے فون کے غلام ہیں؟‏‏“‏ اور ‏”‏سوشل نیٹ‌ورکنگ سائٹس کو سمجھ‌داری سے اِستعمال کریں‏“‏؟‏ * اپنے بچوں کو موبائل وغیرہ کا اچھا اِستعمال سکھانے کے حوالے سے یہ معلومات آپ کے بڑے کام آ سکتی ہیں۔‏—‏امثا 13:‏20‏۔‏

16.‏ بہت سے والدین کیا کرتے ہیں اور اِس کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

16 بہت سے والدین اِس بات کا خاص بندوبست کرتے ہیں کہ اُن کے بچے ایسے بہن بھائیوں کے ساتھ وقت گزاریں جو اچھی طرح سے خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔‏ اِس سلسلے میں ذرا این‌ڈینی اور بومن کی مثال پر غور کریں جن کا تعلق ملک آئیوری کوسٹ سے ہے۔‏ وہ اکثر حلقے کے نگہبان کو اپنے گھر ٹھہراتے تھے۔‏ این‌ڈینی کہتے ہیں:‏ ”‏اِس کا ہمارے بیٹے پر بہت اچھا اثر ہوا۔‏ وہ پہل‌کار بنا اور اب وہ متبادل حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کر رہا ہے۔‏“‏ کیا آپ بھی اپنے بچوں کے لیے ایسے بندوبست بنا سکتے ہیں؟‏

17،‏ 18.‏ والدین کو اپنے بچوں کی تربیت کب شروع کرنی چاہیے؟‏

17 جتنی جلدی ہو سکے،‏ بچوں کی تربیت کرنا شروع کریں۔‏ والدین جتنی جلدی بچوں کی تربیت کرنا شروع کرتے ہیں،‏ اِس کا اُتنا ہی زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔‏ (‏امثا 22:‏6‏)‏ ذرا تیمُتھیُس کے بارے میں سوچیں جنہوں نے بڑے ہو کر پولُس رسول کے ساتھ مشنری کے طور پر خدمت کی۔‏ اُن کی ماں یُونیکے اور نانی لوئس نے اُن کی ”‏پیدائش“‏ سے ہی اُن کی تربیت کی تھی۔‏—‏2-‏تیم 1:‏5؛‏ 3:‏15‏،‏ فٹ‌نوٹ۔‏

18 آئیوری کوسٹ میں رہنے والے ایک اَور ماں باپ کی مثال پر غور کریں جن کے نام جان کلاڈ اور پیس ہیں۔‏ اُنہوں نے اپنے چھ کے چھ بچوں کی اِس طرح تربیت کی کہ وہ یہوواہ سے محبت کریں اور اُس کی خدمت کریں۔‏ وہ ایسا کرنے کے قابل کیسے ہوئے؟‏ اُنہوں نے یُونیکے اور لوئس کی مثال پر عمل کِیا۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏ہم نے اپنے بچوں کی پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد سے اُنہیں خدا کے کلام کی باتیں ذہن‌نشین کرانا شروع کر دیں۔‏“‏—‏اِست 6:‏6،‏ 7‏۔‏

19.‏ یہوواہ کی باتیں بچوں کے ”‏ذہن‌نشین“‏ کرانے سے کیا مُراد ہے؟‏

19 یہوواہ کی باتیں بچوں کے ”‏ذہن‌نشین“‏ کرانے سے کیا مُراد ہے؟‏ ”‏ذہن‌نشین کرانے“‏ کا مطلب ہے:‏ ”‏بار بار دُہرا کر کوئی بات سمجھانا اور یاد دِلانا۔‏“‏ ایسا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ باقاعدگی سے وقت گزاریں۔‏ کبھی کبھار والدین ایک ہی بات بار بار دُہرا کر تنگ پڑ جاتے ہیں۔‏ لیکن والدین یہ سوچ سکتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ پاک کلام کی باتیں سمجھنے اور اِن پر عمل کرنے میں اپنے بچوں کی مدد کر رہے ہوتے ہیں۔‏

والدین کو یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے فلاں بچے کی تربیت کیسے کریں گے اور فلاں کی کیسے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 20 کو دیکھیں۔‏)‏ *

20.‏ زبور 127:‏4 بچوں کی پرورش کرنے پر کیسے لاگو ہوتی ہے؟‏

20 اپنے ہر بچے کو اچھی طرح سمجھیں۔‏ زبور 127 میں بچوں کو تیروں سے تشبیہ دی گئی ہے۔‏ ‏(‏زبور 127:‏4 کو پڑھیں۔‏)‏ جس طرح تیر فرق فرق چیزوں سے بنائے جا سکتے ہیں اور اُن کا سائز بھی فرق فرق ہو سکتا ہے اُسی طرح ہر بچہ دوسرے بچے سے فرق ہوتا ہے۔‏ لہٰذا والدین کو یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے فلاں بچے کی تربیت کیسے کریں گے اور فلاں کی کیسے۔‏ جدید اِسرائیل سے تعلق رکھنے والے ایک جوڑے نے اپنے دونوں بچوں کی بڑے اچھے سے تربیت کی تاکہ وہ یہوواہ کی خدمت کریں۔‏ وہ بتاتے ہیں:‏ ”‏ہم اپنے دونوں بچوں کو الگ الگ بائبل کورس کراتے تھے۔‏“‏ ہر خاندان کا سربراہ یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ آیا اُس کے بچوں کے لیے اِس طریقے سے بائبل کورس کرنا ضروری یا ممکن ہے۔‏

یہوواہ آپ کی مدد کرے گا

21.‏ والدین کو یہوواہ کی طرف سے مدد کیسے مل سکتی ہے؟‏

21 کبھی کبھار شاید والدین کو لگے کہ بچوں کی تربیت کرنا بہت مشکل ہے۔‏ لیکن وہ یاد رکھ سکتے ہیں کہ بچے یہوواہ کی طرف سے نعمت ہیں۔‏ اور یہوواہ ہمیشہ والدین کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے۔‏ وہ اُن کی دُعائیں سنتا ہے اور اِن کا جواب دیتا ہے۔‏ اور وہ ایسا اپنے کلام اور ہماری مطبوعات کے ذریعے کرتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ وہ تجربہ‌کار مسیحی والدین کے ذریعے بھی ایسا کر سکتا ہے جن کی اچھی مثال اور مشورے بچوں کی تربیت کرنے میں اُن کے کام آ سکتے ہیں۔‏

22.‏ والدین اپنے بچوں کی بھلائی کے لیے کون سے اہم کام کر سکتے ہیں؟‏

22 کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایک بچے کی پرورش کرنے میں 20 سال لگتے ہیں۔‏ لیکن والدین اپنے بچوں کی فکر کرنا کبھی نہیں چھوڑتے۔‏ وہ بچوں کی بھلائی کے لیے جو کام کر سکتے ہیں،‏ اُن میں سے چند اہم کام یہ ہیں:‏ اپنے بچوں سے محبت کریں،‏ اُنہیں وقت دیں اور پاک کلام سے اُن کی تربیت کریں۔‏ والدین کی طرف سے ملنے والی تربیت پر ہر بچے کا ردِعمل فرق ہوتا ہے۔‏ لیکن جن بچوں کی تربیت یہوواہ سے پیار کرنے والے والدین نے کی ہے،‏ اُن میں سے بہت سے بہن جوانہ مے کی طرح محسوس کرتے ہیں۔‏ بہن جوانہ کا تعلق ایشیا سے ہے اور وہ کہتی ہیں:‏ ”‏مَیں اپنے والدین کی بڑی شکرگزار ہوں کہ اُنہوں نے میری بڑی اچھی تربیت کی۔‏ اُنہوں نے میری اِصلاح کی اور مجھے یہوواہ سے محبت کرنا سکھایا۔‏ اُنہوں نے مجھے صرف پیدا ہی نہیں کِیا بلکہ ایک بامقصد زندگی گزارنا بھی سکھایا۔‏“‏ (‏امثا 23:‏24،‏ 25‏)‏ ایسے ہی احساسات کا اِظہار لاکھوں اَور مسیحیوں نے بھی کِیا ہے۔‏

گیت نمبر 59‏:‏ میرے ساتھ یاہ کی حمد کرو!‏

^ پیراگراف 5 کیا یہ لازمی ہے کہ ایک شادی‌شُدہ جوڑا بچے پیدا کرے؟‏ اگر وہ بچے پیدا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اُس کے کتنے بچے ہونے چاہئیں؟‏ اور وہ اپنے بچوں کی تربیت کیسے کر سکتا ہے تاکہ وہ یہوواہ سے محبت کریں اور اُس کی خدمت کریں؟‏ اِس مضمون میں ہم اِن سوالوں کے جواب حاصل کریں گے۔‏ اِس سلسلے میں ہم جدید زمانے کی کچھ مثالوں اور بائبل کے چند اصولوں پر بات کریں گے۔‏

^ پیراگراف 15 ‏”‏جاگو!‏،‏“‏ اپریل-‏جون 2011ء میں مضمون ”‏کیا مَیں الیکٹرانک میڈیا کو حد سے زیادہ اِستعمال کرتا ہوں؟‏‏“‏ اور ‏”‏جاگو!‏،‏“‏ جولائی-‏ستمبر 2014ء میں مضمون ”‏بچوں کو اِنٹرنیٹ پر احتیاط برتنا کیسے سکھائیں؟‏‏“‏ کو بھی دیکھیں۔‏

^ پیراگراف 60 تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک میاں بیوی بات کر رہے ہیں کہ وہ بچے پیدا کریں گے یا نہیں۔‏ وہ بچوں کے ساتھ آنے والی خوشیوں اور ذمےداریوں کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں۔‏

^ پیراگراف 64 تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک جوڑا اپنے بچوں کی عمروں اور صلاحیتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اُنہیں الگ الگ بائبل کورس کرا رہا ہے۔‏