قارئین کے سوال
احبار 19:16 میں لکھے اِس حکم کا کیا مطلب ہے کہ ”اپنے ہمسایہ کا خون کرنے پر آمادہ [نہ] ہونا“ اور ہم اِس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
یہوواہ خدا نے بنیاِسرائیل سے کہا کہ وہ پاک ہوں۔ اِس حوالے سے اُن کی مدد کرنے کے لیے یہوواہ نے اُن سے کہا: ”تُو اپنی قوم میں اِدھر اُدھر لتراپن نہ کرتے پھرنا اور نہ اپنے ہمسایہ کا خون کرنے پر آمادہ ہونا۔ مَیں [یہوواہ] ہوں۔“—احبا 19:2، 16۔
اِس آیت میں جس عبرانی اِصطلاح کا ترجمہ ”خون کرنے پر آمادہ [نہ] ہونا“ کِیا گیا ہے، وہ دراصل عبرانی زبان میں ایک محاورہ ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے: ”کسی شخص کی جان کے خلاف کھڑے نہ ہونا۔“ احبار کی کتاب کے بارے میں یہودیوں کی ایک کتاب میں یہ لکھا ہے: ”آیت کے اِس حصے کو سمجھنا مشکل ہے کیونکہ یہ سمجھ نہیں آتا کہ [یہاں پر] جو عبرانی محاورہ اِستعمال کِیا گیا ہے، اُس کا اِشارہ کس طرف ہے۔“
کچھ عالم کہتے ہیں کہ اِس محاورے کا تعلق آیت 15 سے ہے جہاں لکھا ہے: ”تُم فیصلہ میں ناراستی نہ کرنا۔ نہ تو تُو غریب کی رعایت کرنا اور نہ بڑے آدمی کا لحاظ بلکہ راستی کے ساتھ اپنے ہمسایہ کا اِنصاف کرنا۔“ (احبا 19:15) اگر ایسا ہے تو آیت 16 کے مطابق ’کسی شخص کی جان کے خلاف کھڑے نہ ہونے‘ کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ خدا کے بندوں کو اپنے ساتھ کام کرنے والے کسی شخص کو عدالتی معاملوں، کاروباری معاملوں یا خاندانی معاملوں میں نقصان نہیں پہنچانا تھا اور نہ ہی اپنے فائدے کے لیے باتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا تھا۔ یہ سچ ہے کہ ہمیں یہ سب کام نہیں کرنے چاہئیں۔ لیکن آیت 16 میں لکھی اِس اِصطلاح کے مطلب میں اَور بھی باتیں شامل ہیں۔
ذرا اِس آیت کے شروع کے حصے پر غور کریں۔ خدا نے اپنے بندوں کو حکم دیا کہ وہ لتراپن نہ کریں یعنی وہ دوسروں کے بارے میں جھوٹی باتیں نہ پھیلائیں۔ دوسروں کے بارے میں جھوٹی باتیں پھیلانے کا مطلب صرف اُن کی چغلیاں کرنا نہیں ہے۔ (امثا 10:19؛ واعظ 10:12-14؛ 1-تیم 5:11-15؛ یعقو 3:6) جو شخص دوسروں کے بارے میں جھوٹی باتیں پھیلاتا ہے، وہ جان بُوجھ کر اُنہیں بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسا شخص دوسرے شخص کے بارے میں جھوٹی گواہی بھی دیتا ہے حالانکہ اُسے پتہ ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے دوسرے شخص کی جان بھی جا سکتی ہے۔ یاد کریں کہ کچھ آدمیوں نے نبوت پر جھوٹے اِلزام لگائے تھے جس کی وجہ سے نبوت کو سنگسار کر دیا گیا تھا اور اِس طرح اُن کے ساتھ نااِنصافی کی گئی تھی۔ (1-سلا 21:8-13) اِس سے پتہ چلتا ہے کہ دوسروں کے بارے میں جھوٹی باتیں کرنے والا شخص اُن کی جان کے خلاف کھڑا ہوتا ہے۔
اِس کے علاوہ کچھ لوگ دوسروں سے نفرت کی وجہ سے اُن کے بارے میں جھوٹی باتیں پھیلاتے ہیں۔ 1-یوحنا 3:15 میں ہم پڑھتے ہیں: ”جو شخص اپنے بھائی سے نفرت کرتا ہے، وہ قاتل ہے اور آپ جانتے ہیں کہ کسی قاتل کو ہمیشہ کی زندگی نہیں ملتی۔“ یہ بات غور کرنے والی ہے کہ 16 آیت میں لکھے حکم کے بعد خدا نے یہ حکم دیا: ”تُو اپنے دل میں اپنے بھائی سے بغض نہ رکھنا [یعنی نفرت نہ کرنا]۔“—احبا 19:17۔
لہٰذا احبار 19:16 میں خدا نے جو حکم دیا ہے، اُس میں ہمارے لیے ایک بہت اہم نصیحت پائی جاتی ہے۔ ہمیں اپنے ذہن میں دوسروں کے بارے میں غلط سوچ نہیں آنے دینی چاہیے اور اُن کے بارے میں جھوٹی باتیں نہیں پھیلانی چاہئیں۔ سادہ لفظوں میں کہیں تو اگر ہم اِس لیے ’کسی شخص کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں‘ یعنی اُس کے بارے میں جھوٹی باتیں پھیلاتے ہیں کیونکہ ہم اُسے پسند نہیں کرتے یا اُس سے حسد کرتے ہیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم اُس سے نفرت کرتے ہیں۔ مسیحیوں کو ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔—متی 12:36، 37۔