مطالعے کا مضمون نمبر 49
ہم ہمیشہ تک زندہ رہ سکتے ہیں
”خدا کی نعمت ہمیشہ کی زندگی ہے۔“—روم 6:23۔
گیت نمبر 147: ہمیشہ کی زندگی کا وعدہ
مضمون پر ایک نظر a
1. جب ہم اِس بارے میں سوچ بچار کریں گے کہ یہوواہ نے ہمیں ہمیشہ کی زندگی دینے کا وعدہ کِیا ہے تو اِس کا ہم پر کیا اثر ہوگا؟
یہوواہ نے وعدہ کِیا ہے کہ جو لوگ اُس کی بات مانتے ہیں، اُنہیں وہ ”ہمیشہ کی زندگی“ دے گا۔ (روم 6:23) جب ہم یہوواہ کی اِس شاندار نعمت پر سوچ بچار کرتے ہیں تو اُس کے لیے ہمارے دل میں محبت اَور بڑھ جاتی ہے۔ ذرا سوچیں کہ ہمارا آسمانی باپ ہم سے اِتنی زیادہ محبت کرتا ہے کہ وہ یہ نہیں چاہتا کہ ہم کبھی اُس سے جُدا ہوں۔
2. ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کی وجہ سے ہم کیا کر پاتے ہیں؟
2 ہمیشہ کی زندگی کی اُمید کی وجہ سے ہم مشکلوں کو اچھے سے برداشت کر پاتے ہیں۔ ہم اُس وقت بھی یہوواہ کی عبادت کرنا نہیں چھوڑتے جب ہمارے دُشمن ہمیں جان سے مارنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ اِس کی کیا وجہ ہے؟ اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ اگر ہم موت تک یہوواہ کے وفادار رہیں گے تو وہ ہمیں زندہ کر دے گا اور ہمارے پاس یہ اُمید ہوگی کہ ہم ہمیشہ تک زندہ رہ سکیں۔ (یوح 5:28، 29؛ 1-کُر 15:55-58؛ عبر 2:15) ہم یہ یقین سے کیوں کہہ سکتے ہیں کہ ہم ہمیشہ کی زندگی پا سکتے ہیں؟ آئیے، اِس سلسلے میں کچھ باتوں پر غور کرتے ہیں۔
یہوواہ ہمیشہ سے ہے
3. ہم یہ یقین سے کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمیں ہمیشہ کی زندگی دے سکتا ہے؟ (زبور 102:12، 24، 27)
3 ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ ہمیں ہمیشہ کی زندگی دے سکتا ہے کیونکہ وہ زندگی کا سرچشمہ ہے اور وہ ہمیشہ سے ہے۔ (زبور 36:9) اِس سلسلے میں بائبل کی کچھ آیتوں پر غور کریں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہوواہ شروع سے ہے اور وہ ہمیشہ تک رہے گا۔ زبور 90:2 میں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ ”ازل سے ابد تک“ ہے۔ زبور 102 میں بھی ایسی ہی بات بتائی گئی ہے۔ (زبور 102:12، 24، 27 کو پڑھیں۔) حبقوق نبی نے ہمارے آسمانی باپ کے بارے میں کہا: ”کیا تُو قدیم سے [یہوواہ] میرا خدا میرا قدوس نہیں جو مر نہیں سکتا؟“—حبق 1:12، کیتھولک ترجمہ۔
4. اگر ہمیں یہ سمجھنا مشکل لگتا ہے کہ یہوواہ ہمیشہ سے ہے تو کیا ہمیں پریشان ہو جانا چاہیے؟ وضاحت کریں۔
4 کیا آپ کو یہ سمجھنا مشکل لگتا ہے کہ یہوواہ ”خدایِابدی“ ہے یعنی وہ شروع سے ہے؟ (یسع 40:28) اگر ایسا ہے تو پریشان نہ ہوں۔ آپ اکیلے نہیں ہیں۔ خدا کے بندے اِلیہو نے بھی خدا کے بارے میں کہا تھا کہ ”اُس کے برسوں کا شمار دریافت سے باہر ہے۔“ (ایو 36:26) لیکن اگر کوئی بات سمجھنا مشکل لگتی ہے تو اِس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ سچ نہیں ہے۔ اِس سلسلے میں ذرا اِس مثال پر غور کریں: شاید ہم یہ بات پوری طرح سے نہ سمجھ پائیں کہ ہوا کیسے چلتی ہے۔ لیکن کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہوا ہے ہی نہیں؟ بالکل نہیں۔ اِسی طرح شاید ہم کبھی یہ بات پوری طرح سے نہ سمجھ پائیں کہ یہوواہ شروع سے تھا اور ہمیشہ تک رہے گا۔ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا ابدی نہیں۔ ہمارے خالق کے بارے میں یہ سچائی اِس بات پر نہیں ٹکی ہوئی کہ ہم اِسے سمجھ سکتے ہیں یا نہیں۔ (روم 11:33-36) وہ تو پوری کائنات کے بننے سے پہلے بھی موجود تھا۔ یہوواہ نے ہمیں یقین دِلایا ہے کہ ”اُسی نے اپنی قدرت سے زمین کو بنایا“ اور وہ ”آسمان کو تان“ دینے سے بھی پہلے موجود تھا۔ (یرم 51:15؛ اعما 17:24) ہم اَور کس وجہ سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ہمیشہ تک زندہ رہ سکتے ہیں؟
یہوواہ نے اِنسانوں کو ہمیشہ تک زندہ رہنے کے لیے بنایا تھا
5. آدم اور حوا کے پاس کیا اُمید تھی؟
5 اِنسانوں کے علاوہ یہوواہ نے زمین پر جتنے بھی جانداروں کو بنایا، اُنہیں ایک نہ ایک دن ختم ہو جانا تھا۔ اُس نے صرف اِنسانوں کو ہی ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید دی تھی۔ یہوواہ نے آدم سے کہا تھا: ”[تُو] نیکوبد کی پہچان کے درخت کا [پھل] کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔“ (پید 2:17) اگر آدم اور حوا نے یہوواہ کی بات مانی ہوتی تو وہ نہ مرتے۔ یہ اندازہ لگانا غلط نہیں ہوگا کہ ایک وقت آنا تھا جب یہوواہ اُنہیں حیات یعنی زندگی کے درخت سے کھانے کی اِجازت دے دیتا۔ اور اگر ایسا ہوتا تو اِس سے اُنہیں اِس بات کی ضمانت مل جاتی کہ وہ ہمیشہ تک زندہ رہیں گے۔ b—پید 3:22۔
6-7. (الف) اَور کس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا نے اِنسانوں کو اِس لیے نہیں بنایا تھا کہ وہ ایک دن مر جائیں؟ (ب) آپ نئی دُنیا میں کیا کیا کرنا چاہتے ہیں؟ (تصویروں کو دیکھیں۔)
6 سائنسدانوں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص نے اپنی زندگی کے دوران جتنی معلومات اِکٹھی کی ہوتی ہے، اُس کے دماغ میں اُس سے بھی کہیں زیادہ معلومات محفوظ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ 2010ء میں امریکہ کے ایک رسالے میں بتایا گیا تھا کہ ہمارا دماغ تقریباً 25 لاکھ گھنٹوں کی ویڈیو جتنی معلومات اِکٹھی کر سکتا ہے جسے دیکھنے میں 300 سے زیادہ سال لگ سکتے ہیں۔ اور یہ تو بس ایک اندازہ ہے۔ ہمارے دماغ میں اِس سے بھی زیادہ معلومات اِکٹھی کرنے کی صلاحیت ہے۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا دماغ 70 یا 80 سالوں میں جتنی معلومات اِکٹھی کرتا ہے، یہوواہ نے اُس میں اِس سے بھی کہیں زیادہ معلومات اِکٹھی کرنے کی صلاحیت ڈالی ہے۔—زبور 90:10۔
7 اِس کے علاوہ یہوواہ نے ہم میں زندہ رہنے کی بڑی شدید خواہش ڈالی ہے۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے ’ابدیت کو [اِنسان] کے دل میں جاگزین کِیا ہے۔‘ (واعظ 3:11) اِس وجہ سے بھی ہم موت کو اپنا دُشمن سمجھتے ہیں۔ (1-کُر 15:26) ذرا سوچیں کہ اگر ہمیں کوئی جانلیوا بیماری ہو جائے تو کیا ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں گے؟ نہیں۔ ہم ڈاکٹر کے پاس جائیں گے اور اُس بیماری سے لڑنے کے لیے دوائی لیں گے۔ ہم تو اپنی جان بچانے کے لیے اپنی طرف سے جو ہو سکے، کریں گے۔ اور جب ہمارا کوئی عزیز فوت ہو جاتا ہے پھر چاہے وہ جوان ہو یا بوڑھا، تو کیا ہمیں شدید دُکھ نہیں ہوتا؟ (یوح 11:32، 33) اگر ہمارے خالق کا یہ مقصد نہ ہوتا کہ ہم ہمیشہ تک زندہ رہیں تو وہ نہ تو ہم میں ہمیشہ تک زندہ رہنے کی خواہش ڈالتا اور نہ ہی صلاحیت۔ لیکن ہمارے پاس اِس بات پر یقین کرنے کے اَور بھی بہت سے ٹھوس ثبوت ہیں کہ ہم ہمیشہ تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ آئیے، دیکھتے ہیں کہ یہوواہ نے ماضی میں کیا کِیا اور وہ اب کیا کر رہا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اِنسانوں کے لیے اُس کا مقصد بدلا نہیں ہے۔
یہوواہ کا مقصد نہیں بدلا
8. یہوواہ کے مقصد کے حوالے سے ہم یسعیاہ 55:11 سے کیا سیکھتے ہیں؟
8 آدم اور حوا کے گُناہ کی وجہ سے اُن کی اولاد مرنے لگی۔ لیکن یہوواہ نے اِنسانوں کے حوالے سے اپنا مقصد نہیں بدلا۔ (یسعیاہ 55:11 کو پڑھیں۔) یہوواہ کا ابھی بھی یہ مقصد ہے کہ اُس کے بندے زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہیں۔ ہم یہ اِس لیے کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہوواہ نے ایسی باتیں کہی اور ایسے کام کیے ہیں جن سے اُس کا مقصد پورا ہو سکے۔
9. خدا نے کیا وعدہ کِیا ہے؟ (دانیایل 12:2، 13)
9 یہوواہ نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ مُردوں کو زندہ کرے گا اور اُنہیں ہمیشہ کی زندگی پانے کا موقع دے گا۔ (اعما 24:15؛ طط 1:1، 2) خدا کے بندے ایوب کو اِس بات پر پکا یقین تھا کہ خدا مُردوں کو زندہ کرنے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔ (ایو 14:14، 15) دانیایل نبی جانتے تھے کہ مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا تاکہ اُنہیں ہمیشہ کی زندگی پانے کا موقع ملے۔ (زبور 37:29؛ دانیایل 12:2، 13 کو پڑھیں۔) یسوع کے زمانے کے یہودی بھی یہ جانتے تھے کہ یہوواہ اپنے بندوں کو ”ہمیشہ کی زندگی“ دے سکتا ہے۔ (لُو 10:25؛ 18:18) یسوع نے بار بار یہوواہ کے اِس وعدے کا ذکر کِیا کہ یہوواہ مُردوں کو زندہ کر دے گا۔ اُن کے آسمانی باپ نے تو اُنہیں بھی مُردوں میں سے زندہ کر دیا تھا۔—متی 19:29؛ 22:31، 32؛ لُو 18:30؛ یوح 11:25۔
10. جب ماضی میں کچھ لوگوں کو زندہ کِیا گیا تو اِس سے کیا ثابت ہوا؟ (تصویر کو دیکھیں۔)
10 ہمیں زندگی یہوواہ نے دی ہے اور وہ مُردوں کو بھی زندہ کر سکتا ہے۔ اُس نے ایلیاہ نبی کو طاقت دی کہ وہ صارپت میں رہنے والی بیوہ کے بیٹے کو زندہ کر سکیں۔ (1-سلا 17:21-23) بعد میں یہوواہ کی مدد سے اِلیشع نبی نے شونیمی عورت کے بیٹے کو زندہ کر دیا۔ (2-سلا 4:18-20، 34-37) اِن واقعات اور اِس طرح کے دوسرے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہوواہ مُردوں کو زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو اُنہوں نے ثابت کِیا کہ یہوواہ نے اُنہیں مُردوں کو زندہ کرنے کی طاقت دی ہے۔ (یوح 11:23-25، 43، 44) اب یسوع مسیح آسمان پر ہیں اور خدا نے اُنہیں ”آسمان اور زمین کا سارا اِختیار“ دیا ہے۔ اِس لیے وہ اِس وعدے کو پورا کر سکتے ہیں کہ ”سب لوگ جو قبروں میں ہیں،“ زندہ ہو جائیں گے اور ہمیشہ کی زندگی پانے کا موقع حاصل کریں گے۔—متی 28:18؛ یوح 5:25-29۔
11. فدیے کی وجہ سے ہمارے لیے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنا کیوں ممکن ہوا؟
11 یہوواہ نے اپنے پیارے بیٹے کو اِتنی تکلیفدہ موت کیوں سہنے دی؟ اِس سوال کا جواب یسوع مسیح نے یہ دیا: ”خدا کو دُنیا سے اِتنی محبت ہے کہ اُس نے اپنا اِکلوتا بیٹا دے دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان ظاہر کرے، وہ ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔“ (یوح 3:16) ہمارے گُناہوں کو ڈھانپنے کے لیے یہوواہ نے اپنے بیٹے کا فدیہ دیا تاکہ ہمارے لیے ہمیشہ کی زندگی پانا ممکن ہو جائے۔ (متی 20:28) پولُس رسول نے خدا کے مقصد کے اِس اہم پہلو کے بارے میں یہ کہا: ”جس طرح ایک آدمی کے ذریعے لوگ مرتے ہیں اُسی طرح ایک آدمی کے ذریعے مُردے زندہ ہوں گے۔ جیسے آدم کی وجہ سے تمام اِنسان مرتے ہیں، بالکل ویسے ہی مسیح کی وجہ سے تمام مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا۔“—1-کُر 15:21، 22۔
12. یہوواہ اپنی بادشاہت کے ذریعے اِنسانوں کے حوالے سے اپنا مقصد کیسے پورا کرے گا؟
12 یسوع نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا کہ وہ یہ دُعا کریں کہ خدا کی بادشاہت آئے اور اُس کی مرضی زمین پر پوری ہو۔ (متی 6:9، 10) اِنسانوں کے لیے خدا کا ایک مقصد یہ ہے کہ وہ زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہیں۔ اور اِس مقصد کو پورا کرنے کے لیے اُس نے اپنے بیٹے کو اپنی بادشاہت کا بادشاہ بنایا ہے۔ وہ زمین سے بھی 1 لاکھ 44 ہزار لوگوں کو اِکٹھا کر رہا ہے تاکہ وہ اُس کی مرضی کو پورا کرنے میں یسوع کا ساتھ دیں۔—مکا 5:9، 10۔
13. یہوواہ ابھی کیا کر رہا ہے اور آپ کو کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
13 یہوواہ ”لوگوں کی ایک بڑی بِھیڑ“ کو جمع کر رہا ہے اور اُنہیں سکھا رہا ہے کہ وہ اُس کی بادشاہت کے تحت کیسے رہ سکتے ہیں۔ (مکا 7:9، 10؛ یعقو 2:8) حالانکہ اِس دُنیا کے لوگ نفرت اور جنگوں کی وجہ سے بٹے ہوئے ہیں لیکن بڑی بِھیڑ میں شامل لوگ اپنے دل سے ہر طرح کی نفرت کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک طرح سے اُنہوں نے ابھی سے ہی اپنی تلواروں کو توڑ کر پھالیں (کھیتیباڑی میں اِستعمال ہونے والا اوزار) بنا لیا ہے۔ (میک 4:3) وہ جنگوں میں حصہ نہیں لیتے جن میں صرف خونخرابہ ہی ہوتا ہے۔ اِس کی بجائے وہ لوگوں کو خدا اور اُس کے مقصد کے بارے میں سکھاتے ہیں تاکہ اُنہیں ”حقیقی زندگی“ ملے۔ (1-تیم 6:19) خدا کی بادشاہت کی حمایت کرنے کی وجہ سے شاید اُن کے گھر والے اُن کے خلاف ہو جائیں یا اُنہیں پیسے کی تنگی کا سامنا ہو۔ لیکن یہوواہ اِس بات کا خاص خیال رکھتا ہے کہ اُن کی ساری ضرورتیں پوری ہوتی رہیں۔ (متی 6:25، 30-33؛ لُو 18:29، 30) اِن باتوں سے ہمیں پکا یقین ہو جاتا ہے کہ خدا کی بادشاہت ایک خواب نہیں ہے اور یہ یہوواہ کے مقصد کو پورا کرتی رہے گی۔
ایک شاندار مستقبل
14-15. یہوواہ کا یہ وعدہ کیسے پورا ہو گا کہ موت ختم ہو جائے گی؟
14 اب یسوع مسیح آسمان پر بادشاہ ہیں اور وہ خدا کے اُن سب وعدوں کو پورا کر دیں گے جو اُس نے ہم سے کیے ہیں۔ (2-کُر 1:20) 1914ء سے وہ اپنے دُشمنوں میں حکمرانی کر رہے ہیں۔ (زبور 110:1، 2) یسوع مسیح اور اُن کے ساتھ حکمرانی کرنے والے اُن کے ساتھی بہت جلد مکمل فتح حاصل کر لیں گے اور بُرے کام کرنے والوں کو ختم کر دیں گے۔—مکا 6:2۔
15 اپنی ہزار سالہ حکمرانی کے دوران یسوع مُردوں کو زندہ کر دیں گے اور آہستہ آہستہ اُن لوگوں کو بےعیب بنا دیں گے جو یہوواہ کے وفادار ہوں گے۔ آخری اِمتحان کے بعد یہوواہ جن لوگوں کو نیک قرار دے گا، وہ ”زمین کے وارث ہوں گے اور اُس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔“ (زبور 37:10، 11، 29) ایک اَور خوشی کی بات یہ ہوگی کہ ”آخری دُشمن یعنی موت کو بھی ختم کر دیا جائے گا۔“—1-کُر 15:26۔
16. ہمارے لیے یہوواہ کی عبادت کرنے کی سب سے اہم وجہ کیا ہونی چاہیے؟
16 جیسا کہ ہم نے اِس مضمون میں دیکھا ہے، ہمیں ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی اُمید خدا کے کلام سے ملتی ہے۔ یہ اُمید مشکلوں میں یہوواہ کا وفادار رہنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے۔ لیکن ہمیں صرف اِس لیے یہوواہ کو خوش نہیں کرنا چاہیے کہ ہم ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے لیے یہوواہ اور یسوع کا وفادار رہنے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہم اُن سے محبت کرتے ہیں۔ (2-کُر 5:14، 15) اِس محبت کی وجہ سے ہم اُن کی مثال پر عمل کرتے ہیں اور دوسروں کو اپنی اُمید کے بارے میں بتاتے ہیں۔ (روم 10:13-15) جب ہم خود سے زیادہ دوسروں کا سوچیں گے اور کُھلے دل سے اُن کی مدد کریں گے تو ہم ایک ایسے شخص بن جائیں گے جس سے یہوواہ ہمیشہ تک دوستی رکھنا چاہتا ہے۔—عبر 13:16۔
17. ہم سب کو کیا فیصلہ کرنا ہے؟ (متی 7:13، 14)
17 کیا آپ کو بھی ہمیشہ کی زندگی ملے گی؟ یہوواہ نے یہ موقع سب کو دیا ہے۔ لیکن یہ ہم پر ہے کہ ہم زندگی کے راستے پر چلتے رہیں گے یا نہیں۔ (متی 7:13، 14 کو پڑھیں۔) ذرا سوچیں کہ جب ہم ہمیشہ تک زندہ رہیں گے تو ہماری زندگی کیسی ہوگی؟ اِس سوال کا جواب ہم اگلے مضمون میں دیکھیں گے۔
گیت نمبر 141: زندگی—خدا کی بیشقیمت نعمت
a کیا آپ ہمیشہ کی زندگی پانے کے منتظر ہیں؟ یہوواہ نے وعدہ کِیا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب ہم ہمیشہ تک زندہ رہیں گے اور ہمیں مرنے کا ڈر نہیں ہوگا۔ اِس مضمون میں ہم کچھ ایسی باتوں پر غور کریں گے جن سے ہمارا یہ بھروسا بڑھے گا کہ یہوواہ اپنا یہ وعدہ ضرور پورا کرے گا۔
b بکس ” بائبل میں لفظ ”ہمیشہ““ کو دیکھیں۔
c تصویر کی وضاحت: ایک بوڑھا بھائی کچھ ایسے کاموں کے بارے میں سوچ رہا ہے جو وہ نئی دُنیا میں کر پائے گا۔