مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

عدالتوں میں خوش‌خبری کا دِفاع کرنے کا اعزاز

عدالتوں میں خوش‌خبری کا دِفاع کرنے کا اعزاز

‏”‏مَیں نے اِس آدمی کو چُنا ہے کہ میرا نام غیریہودیوں اور بادشاہوں .‏ .‏ .‏  تک  پہنچائے۔‏“‏ (‏اعما 9:‏15‏)‏ یہ بات یسوع مسیح نے ایک ایسے یہودی کے بارے میں کہی جس نے مسیحی مذہب اپنایا تھا۔‏ یہ آدمی بعد میں پولُس رسول کے نام سے مشہور ہوا۔‏

پولُس رسول نے جن ”‏بادشاہوں“‏ کو خوش‌خبری سنائی،‏ اِن میں سے ایک روم کے شہنشاہ نیرو تھے۔‏ اگر آپ کو اِتنے بڑے حاکم کے سامنے اپنے ایمان کا دِفاع کرنا پڑے تو آپ کیسا محسوس کریں گے؟‏ بائبل میں مسیحیوں کی حوصلہ‌افزائی کی گئی ہے کہ وہ پولُس رسول کی مثال پر عمل کریں۔‏ (‏1-‏کُر 11:‏1‏)‏ پولُس نے اپنے زمانے کے قانونی اور عدالتی نظام کو جس طریقے سے اِستعمال کِیا،‏ اِس سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏

اُس زمانے میں اِسرائیل کے علا‌قے میں موسیٰ کی شریعت نافذ تھی۔‏ جو یہودی دوسرے علا‌قوں میں آباد تھے،‏ وہ بھی شریعت کی پابندی کرتے تھے۔‏ لیکن پنتِکُست 33ء کے بعد خدا کے بندے شریعت کے پابند نہیں رہے۔‏ (‏اعما 15:‏28،‏ 29؛‏ گل 4:‏9-‏11‏)‏ اِس کے باوجود پولُس رسول اور باقی مسیحی شریعت کا احترام کرتے تھے۔‏ اِس لیے وہ یہودی آبادیوں میں بِلا رُکاوٹ گواہی دے پائے۔‏ (‏1-‏کُر 9:‏20‏)‏ یہودی لوگ ابراہام کے خدا سے واقف تھے اور عبرانی صحیفوں پر ایمان رکھتے تھے۔‏ اِس لیے پولُس رسول بہت سے موقعوں پر یہودیوں کی عبادت‌گاہوں میں جا کر اُنہیں عبرانی صحیفوں سے دلیلیں دیتے تھے۔‏—‏اعما 9:‏19،‏ 20؛‏ 13:‏5،‏ 14-‏16؛‏ 14:‏1؛‏ 17:‏1،‏ 2‏۔‏

بارہ رسول یروشلیم سے مُنادی کے کام کی نگرانی کرتے تھے۔‏ وہ ہر روز ہیکل میں جا کر تعلیم دیتے تھے۔‏ (‏اعما 1:‏4؛‏ 2:‏46؛‏ 5:‏20‏)‏ پولُس وقتاًفوقتاً یروشلیم آتے تھے اور اِسی شہر میں اُنہیں گِرفتار کِیا گیا۔‏ اِس طرح عدالتی کارروائی کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں وہ آخرکار روم پہنچ گئے۔‏

پولُس رسول اور رومی قانون

کیا رومی حکومت کو اُن عقیدوں پر اِعتراض تھا جن کی پولُس رسول مُنادی کر رہے تھے؟‏ اِس سلسلے میں یہ جاننا اہم ہے کہ رومی حاکم مذہبوں کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔‏ رومی سلطنت میں بہت سی قومیں آباد تھیں۔‏ لیکن رومی حکومت اِن قوموں کو اپنا اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور نہیں کرتی تھی بشرطیکہ اِن مذاہب سے حکومت یا عوام کو کوئی خطرہ نہ ہو۔‏

دراصل رومی حکومت نے یہودیوں کو بہت سے حقوق دے رکھے تھے۔‏  کتاب مسیحی مذہب کا پس‌منظر ‏(‏انگریزی میں دستیاب)‏ میں لکھا ہے:‏ ”‏رومی سلطنت میں یہودی مذہب کو بہت آزادی حاصل تھی۔‏ .‏ .‏ .‏ یہودیوں کو اپنے مذہبی عقیدوں پر عمل کرنے کی پوری اِجازت تھی اور اُنہیں رومی دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرنے پر مجبور نہیں کِیا جاتا تھا۔‏ یہودیوں کو یہ اِجازت بھی تھی کہ وہ اپنی آبادیوں کے نظام کو شریعت کے مطابق چلا‌ئیں۔‏“‏ اُنہیں رومی فوج میں بھرتی ہونے پر مجبور نہیں کِیا جاتا تھا۔‏ * جب پولُس رسول رومی حاکموں کے سامنے مسیحی مذہب کا دِفاع کرتے تھے تو وہ اُنہی حقوق کا حوالہ دیتے تھے جو رومی آئین کے تحت یہودیوں کو حاصل تھے۔‏

پولُس رسول کے مخالفوں نے حکومت اور عوام کو اُن کے خلا‌ف بھڑکانے کے لیے مختلف حربے اِستعمال کیے۔‏ (‏اعما 13:‏50؛‏ 14:‏2،‏ 19؛‏ 18:‏12،‏ 13‏)‏ مثال کے طور پر وہ یروشلیم میں یہ افواہ پھیلا رہے تھے کہ پولُس رسول یہودیوں کو ”‏موسیٰ کی شریعت سے برگشتہ“‏ کر رہے ہیں۔‏ یہ بہت خطرناک افواہ تھی۔‏ اِس کی وجہ سے اُن یہودیوں کو جنہوں نے حال ہی میں مسیحی مذہب اپنایا تھا،‏ یہ تاثر مل سکتا تھا کہ پولُس رسول خدا کی شریعت کا احترام نہیں کرتے۔‏ اِس افواہ کی بِنا پر یہودیوں کی عدالتِ‌عظمیٰ دعویٰ کر سکتی تھی کہ مسیحی،‏ یہودی مذہب سے برگشتہ ہیں۔‏ ایسی صورتحال میں اُن یہودیوں کو کڑی سزائیں دی جا سکتی تھیں جو مسیحی بن گئے تھے۔‏ مثال کے طور پر اُن سے قطع تعلق کِیا جا سکتا تھا اور اُنہیں ہیکل اور عبادت‌گاہوں میں تعلیم دینے سے روکا جا سکتا تھا۔‏ اِس لیے یروشلیم کی کلیسیا کے بزرگوں نے پولُس رسول کو ہدایت دی کہ وہ ہیکل میں جا کر ایک مذہبی رسم ادا کریں تاکہ یہ افواہیں غلط ثابت ہو جائیں۔‏ اصل میں تو پولُس رسول کو ایسی رسم ادا کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ مسیحی اب شریعت کے پابند نہیں رہے تھے لیکن اِسے ادا کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں تھا۔‏—‏اعما 21:‏18-‏27‏۔‏

پولُس رسول نے بزرگوں کی ہدایت پر عمل کِیا۔‏ یوں واقعات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں اُن کو ”‏خوش‌خبری کا دِفاع کرنے اور اِسے قانونی حیثیت دینے“‏ کے بہت سے موقعے ملے۔‏ (‏فل 1:‏7‏)‏ ہوا یہ کہ جب یہودیوں نے پولُس رسول کو ہیکل میں دیکھا تو اُنہوں نے ہنگا‌مہ مچا دیا۔‏ اِس پر رومی فوجی کمانڈر نے پولُس رسول کو گِرفتار کر لیا۔‏ جب فوجی پولُس رسول کو کوڑے لگا‌نے والے تھے تو پولُس نے اُن کے افسر کو بتایا کہ وہ رومی شہری ہیں۔‏ اِس کے نتیجے میں اُنہیں شہر قیصریہ لے جایا گیا جہاں سے رومی حاکم صوبۂ‌یہودیہ پر حکومت کرتے تھے۔‏ وہاں پولُس رسول کو حاکموں کے سامنے دلیری سے گواہی دینے کے موقعے ملے۔‏ ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے ایسے لوگوں کو بھی گواہی دی ہو جن کو شاید ویسے خوش‌خبری سننے کا موقع نہ ملتا۔‏

اعمال 24 باب میں پولُس رسول پر چلا‌ئے گئے مُقدمے کی تفصیل بتائی گئی ہے۔‏ اِس کی سماعت صوبۂ‌یہودیہ کے رومی حاکم فیلکس نے کی جو مسیحی عقیدوں کے بارے میں تھوڑا بہت علم رکھتے تھے۔‏ یہودیوں نے اِلزام لگا‌یا کہ پولُس رسول نے تین رومی قوانین کی خلا‌ف‌ورزی کی ہے۔‏ پہلا اِلزام یہ تھا کہ پولُس رومی سلطنت میں یہودیوں کو بغاوت پر اُکسا رہے ہیں؛‏ دوسرا یہ کہ وہ ایک خطرناک فرقے کے پیشوا ہیں اور تیسرا یہ کہ اُنہوں نے ہیکل کو ناپاک کرنے کی کوشش کی جو کہ رومی حکومت کے زیرِنگرانی تھی۔‏ (‏اعما 24:‏5،‏ 6‏)‏ اگر اِن میں ایک بھی اِلزام سچ ثابت ہوتا تو پولُس رسول کو سزائےموت سنائی جا سکتی تھی۔‏

اِن اِلزامات پر پولُس رسول کا جو ردِعمل رہا،‏ آج بھی مسیحی اِس بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ وہ مُقدمے کے دوران پُرسکون رہے اور اُنہوں نے بڑے احترام سے بات کی۔‏ اُنہوں نے شریعت اور نبیوں کے صحیفوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ اُنہیں ”‏اپنے باپ‌دادا کے خدا“‏ کی عبادت کرنے کا حق ہے کیونکہ یہ حق رومی آئین میں باقی یہودیوں کو بھی حاصل ہے۔‏ (‏اعما 24:‏14‏)‏ وقت گزرتا گیا اور پولُس رسول کو صوبۂ‌یہودیہ کے اگلے حاکم پُرکیُس فیستُس اور بادشاہ ہیرودیس اگرِپا کے سامنے بھی اپنے ایمان کا دِفاع کرنے کا موقع ملا۔‏

آخرکار جب پولُس رسول کو لگا کہ اُن کے ساتھ نااِنصافی کی جانے والی ہے تو اُنہوں نے قیصر سے اپیل کی جو کہ اُس زمانے کے سب سے طاقت‌ور حکمران تھے۔‏—‏اعما 25:‏11‏۔‏

قیصر کی عدالت میں پیشی

ایک فرشتے نے پولُس رسول سے کہا:‏ ”‏آپ قیصر کے سامنے  ضرور  جائیں  گے۔‏“‏ (‏اعما 27:‏24‏)‏ اُس وقت کے قیصر کا نام نیرو تھا۔‏ شہنشاہ نیرو نے اپنی حکومت کے شروع میں کہا کہ وہ تمام مُقدموں کی سماعت خود نہیں کریں گے۔‏ اور پہلے آٹھ سال کے دوران اُنہوں نے زیادہ‌تر مُقدمے دوسرے ججوں کے سپرد کیے۔‏ کتاب مُقدس پولُس کی زندگی اور خطوط ‏(‏انگریزی میں دستیاب)‏ کے مطابق جب نیرو کسی مُقدمے کی سماعت کرنے پر راضی ہو جاتے تھے تو وہ اِسے اپنے ہی محل میں سنتے تھے اور اُن کے ساتھ تجربہ‌کار اور اثرورسوخ والے مشیر ہوتے تھے۔‏

بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ پولُس کی پیشی نیرو کے سامنے ہوئی یا پھر اِس مُقدمے کی سماعت کسی اَور نے کی اور بعد میں نیرو کو رپورٹ دی۔‏ بہرحال پولُس رسول نے مُقدمے کے دوران یہ ضرور کہا ہوگا کہ وہ یہودیوں کے خدا کی عبادت کرتے ہیں اور تمام لوگوں کو حکومت کے فرمانبردار اور تابع‌دار ہونے کا درس دیتے ہیں۔‏ (‏روم 13:‏1-‏7؛‏ طط 3:‏1،‏ 2‏)‏ پولُس رسول نے خوش‌خبری کا اِتنا اچھا دِفاع کِیا کہ شہنشاۂروم کی عدالت نے اُن کو ہر اِلزام سے بَری کر دیا۔‏—‏فل 2:‏24؛‏ فلیمون 22‏۔‏

خوش‌خبری کا دِفاع کریں

یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا:‏ ”‏میری وجہ سے آپ کو حاکموں اور بادشاہوں کے سامنے پیش کِیا جائے گا۔‏ پھر اُن کو اور قوموں کو گواہی ملے گی۔‏“‏ (‏متی 10:‏18‏)‏ جب ہم پر خوش‌خبری کی وجہ سے مُقدمہ چلا‌یا جاتا ہے تو ہمیں گواہی دینے کا موقع ملتا ہے جو کہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔‏ خوش‌خبری کا دِفاع کرتے وقت ہم کچھ مُقدمے جیت بھی جاتے ہیں لیکن ہمیں یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ ہمیں ہمیشہ اِنصاف ملے گا۔‏ صرف خدا کی بادشاہت زمین پر کامل اِنصاف لائے گی۔‏—‏واعظ 8:‏9؛‏ یرم 10:‏23‏۔‏

جب ہم کسی عدالت میں اپنے ایمان کا دِفاع کرتے ہیں تو یہوواہ کے نام کی بڑائی ہوتی ہے۔‏ پولُس رسول کی طرح ہمیں بھی پُرسکون رہنا چاہیے اور ہماری باتوں میں وزن ہونا چاہیے۔‏ یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں سے کہا کہ ”‏ٹھان لیں کہ آپ پہلے سے مشق نہیں کریں گے کہ آپ اپنی صفائی کیسے پیش کریں گے کیونکہ مَیں آپ کو ایسی زبان اور دانش‌مندی عطا کروں گا جس کا آپ کے سب مخالفین مل کر بھی مقابلہ نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی اِسے غلط ثابت کر سکیں گے۔‏“‏—‏لُو 21:‏14،‏ 15؛‏ 2-‏تیم 3:‏12؛‏ 1-‏پطر 3:‏15‏۔‏

جب ہم بادشاہوں،‏ حاکموں اور عہدےداروں کے سامنے اپنے ایمان کا دِفاع کرتے ہیں تو اکثر ہم ایسے لوگوں کو گواہی دے سکتے ہیں جن کو ہم ویسے گواہی نہیں دے پاتے۔‏ جب ایک ملک میں ہمارے حق میں فیصلہ ہوتا ہے تو اکثر اُس ملک میں دوسروں کو بھی بولنے کی آزادی اور مذہبی آزادی مل جاتی ہے۔‏ مُقدمے کا نتیجہ چاہے کچھ بھی ہو،‏ یہوواہ خدا یہ دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے کہ اُس کے خادم دلیری سے اپنے ایمان کا دِفاع کر رہے ہیں۔‏

جب ہم عدالت میں اپنے ایمان کا دِفاع کرتے ہیں تو یہوواہ کے نام کی بڑائی ہوتی ہے۔‏

^ پیراگراف 8 مصنف جیمز پارکس نے لکھا:‏ ”‏یہودیوں کو .‏ .‏ .‏ اپنے مذہبی عقیدوں پر عمل کرنے کا حق دیا گیا تھا۔‏ اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ رومی حاکم عموماً اپنی سلطنت میں رہنے والی قوموں کو ایک حد تک اپنے معاملا‌ت خود چلا‌نے کا اِختیار دیا کرتے تھے۔‏“‏