مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏اگر آپ اِن باتوں پر عمل کرتے ہیں تو آپ کو خوشی ملے گی‘‏

‏’‏اگر آپ اِن باتوں پر عمل کرتے ہیں تو آپ کو خوشی ملے گی‘‏

‏”‏میرا کھانا یہ ہے کہ مَیں اُس کی مرضی پر چلوں جس نے مجھے بھیجا ہے اور اُس کا کام پورا کروں۔‏“‏‏—‏یوحنا 4:‏34‏۔‏

گیت:‏ 1،‏  42

1.‏ دُنیا کی سوچ کا ہماری خاکساری پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟‏

خدا کے کلام میں درج باتوں پر عمل کرنا مشکل کیوں ہوتا ہے؟‏ اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے کے لیے خاکساری کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ اِس ”‏آخری زمانے“‏ میں خاکسار رہنا آسان نہیں ہے کیونکہ بہت سے لوگ ”‏خود غرض،‏ پیسے سے پیار کرنے والے،‏ شیخی مارنے والے،‏ مغرور“‏ اور ”‏بےضبط“‏ ہیں۔‏ (‏2-‏تیمُتھیُس 3:‏1-‏3‏)‏ خدا کے بندوں کے طور پر ہم ایسی خصلتوں سے نفرت کرتے ہیں۔‏ پھر بھی شاید ہمیں لگے کہ جن لوگوں میں ایسی خصلتیں ہوتی ہیں،‏ وہ کامیاب ہوتے ہیں اور زندگی کا مزہ لُوٹتے ہیں۔‏ (‏زبور 37:‏1؛‏ 73:‏3‏)‏ اِس لیے شاید ہم سوچیں:‏ ”‏کیا اپنے فائدے سے زیادہ دوسروں کے فائدے کو اہمیت دینا گھاٹے کا سودا نہیں ہے؟‏ اگر مَیں خاکساری سے کام لوں گا تو کیا لوگوں کی نظر میں میری عزت کم نہیں ہو جائے گی؟‏“‏ (‏لُوقا 9:‏48‏)‏ اگر ہم دُنیا کے لوگوں کی سوچ کو خود پر حاوی ہونے دیتے ہیں تو اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ہمارے خوش‌گوار تعلقات خراب ہو سکتے ہیں اور دوسروں کے لیے یہ پہچاننا مشکل ہو سکتا ہے کہ ہم سچے مسیحی ہیں۔‏ لیکن جب ہم خدا کے خاکسار بندوں کی مثالوں پر غور کرتے ہیں اور اُن کے نقشِ‌قدم پر چلتے ہیں تو ہمیں فائدہ ہوتا ہے۔‏

2.‏ ہم ماضی میں رہنے والے خدا کے وفادار بندوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

2 ماضی میں خدا کے وفادار بندے اُس کے ساتھ دوستی کیسے کر پائے؟‏ اُنہیں خدا کی خوشنودی کیسے حاصل ہوئی؟‏ خدا کی مرضی کے مطابق چلنے کے لیے اُنہیں طاقت کہاں سے ملی؟‏ یہ جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم خدا کے اِن بندوں کی زندگی کے بارے میں پڑھیں اور اِس پر سوچ بچار کریں۔‏ دراصل ایسا کرنا روحانی کھانا کھانے کا ایک اہم طریقہ ہے۔‏

کیا صرف علم حاصل کرنا کافی ہے؟‏

3،‏ 4.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ ہمیں کیسے تعلیم دیتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ روحانی کھانا کھانے کا مطلب صرف علم حاصل کرنا نہیں ہے؟‏

3 بائبل،‏ اِس پر مبنی مطبوعات،‏ ہماری ویب‌سائٹ،‏ جےڈبلیو براڈکاسٹنگ اور اِجلاسوں اور اِجتماعات کے ذریعے ہماری اِصلاح اور تربیت کی جاتی ہے۔‏ لیکن یوحنا 4:‏34 میں درج یسوع کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ روحانی کھانا کھانے کا مطلب صرف علم حاصل کرنا نہیں ہے۔‏ اُنہوں نے کہا تھا:‏ ”‏میرا کھانا یہ ہے کہ مَیں اُس کی مرضی پر چلوں جس نے مجھے بھیجا ہے اور اُس کا کام پورا کروں۔‏“‏

4 یسوع مسیح کے لیے خدا کی مرضی پوری کرنا کھانا کھانے جیسا تھا۔‏ جس طرح صحت‌بخش غذا کھانے سے ہمیں تازگی اور توانائی ملتی ہے اُسی طرح خدا کی مرضی پر چلنے سے ہمیں تازگی ملتی ہے اور ہمارا ایمان مضبوط ہوتا ہے۔‏ مثال کے طور پر کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ تھکے ہارے مُنادی کے اِجلاس کے لیے گئے ہوں مگر جب آپ مُنادی کے بعد گھر لوٹے ہوں تو آپ خوش اور تازہ‌دم ہوں؟‏

5.‏ ہمیں دانش‌مندی سے کام لینے کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟‏

5 جب ہم وہ کام کرتے ہیں جو یہوواہ چاہتا ہے تو ہم دانش‌مندی کا ثبوت دیتے ہیں۔‏ (‏یعقوب 3:‏13‏)‏ دانش‌مندی سے کام لینے کے بہت سے فائدے ہیں۔‏ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏مبارک ہے وہ آدمی جو حکمت کو پاتا ہے اور وہ جو فہم حاصل کرتا ہے .‏ .‏ .‏ وہ مرجان سے زیادہ بیش‌بہا ہے اور تیری مرغوب چیزوں میں بےنظیر۔‏ .‏ .‏ .‏ جو اُسے پکڑے رہتے ہیں وہ اُن کے لئے حیات کا درخت ہے اور ہر ایک جو اُسے لئے رہتا ہے مبارک ہے۔‏“‏ (‏امثال 3:‏13-‏18‏)‏ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏اگر آپ اِن باتوں کو جانتے ہیں اور اِن پر عمل کرتے ہیں تو آپ کو خوشی ملے گی۔‏“‏ (‏یوحنا 13:‏17‏)‏ یسوع مسیح کے شاگرد تبھی خوش رہ سکتے تھے اگر وہ اُن کی تعلیمات اور مثال پر عمل کرتے رہتے۔‏

6.‏ ہمیں اُن باتوں پر عمل کرتے رہنے کی ضرورت کیوں ہے جو ہم سیکھتے ہیں؟‏

6 آج ہمیں بھی اُن باتوں پر عمل کرتے رہنے کی ضرورت ہے جو ہم سیکھتے ہیں۔‏ ذرا ایک مکینک کی مثال پر غور کریں جس کے پاس تمام اوزار اور اپنے کام کا پورا علم ہے۔‏ لیکن اُسے اِن چیزوں کا فائدہ اُسی صورت میں ہوگا اگر وہ اِنہیں اِستعمال کرے گا۔‏ شاید وہ کافی سال سے یہ کام کر رہا ہو۔‏ مگر وہ تبھی اپنے کام کا ماہر رہے گا اگر وہ اِسے اُسی طرح کرتا رہے جس طرح اُس نے سیکھا ہے۔‏ اِسی طرح جب ہم نے پاک کلام کی سچائیوں کا علم حاصل کِیا تو ہمیں سیکھی ہوئی باتوں کو اپنی زندگی پر لاگو کرنے سے بہت خوشی ملی۔‏ لیکن اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری خوشی برقرار رہے تو ہمیں اُن باتوں پر عمل کرتے رہنا چاہیے جو یہوواہ ہمیں سکھاتا ہے۔‏

7.‏ بائبل میں درج خدا کے وفادار بندوں کی مثالوں سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏

7 اِس مضمون میں ہم کچھ ایسی صورتوں پر غور کریں گے جن میں ہمارے لیے خاکساری سے کام لینا مشکل ہو سکتا ہے۔‏ ہم سیکھیں گے کہ ماضی میں رہنے والے خدا کے وفادار بندے ایسی صورتوں میں خاکسار رہنے کے قابل کیسے ہوئے۔‏ لیکن آپ کو اِس مضمون میں دی گئی معلومات کا فائدہ تبھی ہوگا جب آپ اِسے صرف پڑھنے کی بجائے اِس پر سوچ بچار کریں گے اور اِسے اپنی زندگی پر لاگو کریں گے۔‏

خود کو دوسروں سے افضل نہ سمجھیں

8،‏ 9.‏ شہر لِسترہ میں پولُس رسول کی خاکساری کا اِمتحان کیسے ہوا اور اُنہوں نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

8 خدا چاہتا ہے کہ ”‏ہر طرح کے لوگ نجات پائیں اور سچائی کے بارے میں صحیح علم حاصل کریں۔‏“‏ (‏1-‏تیمُتھیُس 2:‏4‏)‏ آپ اُن تمام لوگوں کو کیسا خیال کرتے ہیں جو اب تک سچائی سے ناواقف ہیں؟‏ پولُس رسول نے یہودیوں میں مُنادی کی جو پہلے سے یہوواہ خدا کے بارے میں کچھ علم رکھتے تھے۔‏ لیکن اُنہوں نے ایسے لوگوں کو بھی خدا کا پیغام سنایا جو جھوٹے دیوتاؤں کو پوجتے تھے۔‏ اِن لوگوں میں مُنادی کرتے وقت پولُس کی خاکساری کا اِمتحان ہوا۔‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ ایسا کیسے ہوا۔‏

9 پولُس اپنے پہلے مشنری دورے پر برنباس کے ساتھ شہر لِسترہ گئے۔‏ وہاں کے لوگوں نے پولُس اور برنباس کو دیوتا سمجھا اور اُنہیں اپنے معبودوں زیوس اور ہرمیس کے نام سے پکارنے لگے۔‏ کیا پولُس اور برنباس اپنی تعریفیں سُن کر پھول گئے؟‏ چونکہ اُنہیں اُن دو شہروں میں کافی اذیت سہنی پڑی تھی جہاں وہ لِسترہ آنے سے پہلے گئے تھے تو کیا یہاں اپنی آؤ بھگت دیکھ اُنہیں بہت اچھا لگا؟‏ کیا وہ یہ سوچنے لگے کہ اپنی اِس شہرت سے فائدہ اُٹھا کر وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو خوش‌خبری سنا سکتے ہیں؟‏ ایسا نہیں تھا۔‏ وہ بہت پریشان ہو گئے اور چلّا اُٹھے:‏ ”‏آپ یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہیں؟‏ ہم بھی آپ کی طرح عام سے اِنسان ہیں۔‏“‏—‏اعمال 14:‏8-‏15‏۔‏

10.‏ پولُس اور برنباس نے خود کو لِسترہ کے لوگوں سے افضل خیال کیوں نہیں کِیا؟‏

10 جب پولُس اور برنباس نے کہا کہ وہ بھی اِنسان ہیں تو اِس سے اُن کی مُراد یہ تھی کہ وہ عیب‌دار ہیں۔‏ اُن کی بات کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اُن کے عبادت کرنے کا طریقہ لِسترہ کے لوگوں جیسا ہے۔‏ خدا نے پولُس اور برنباس کو مشنریوں کے طور پر بھیجا تھا۔‏ (‏اعمال 13:‏2‏)‏ اُنہیں پاک روح سے مسح کِیا گیا تھا اور اُن کے پاس ایک شان‌دار اُمید تھی۔‏ لیکن وہ اِس وجہ سے خود کو دوسروں سے افضل خیال نہیں کرتے تھے۔‏ وہ اِس بات کو سمجھتے تھے کہ اگر لِسترہ کے لوگ خوش‌خبری کو قبول کر لیں تو اُنہیں بھی آسمان پر زندگی پانے کی اُمید مل سکتی ہے۔‏

11.‏ مُنادی کے دوران ہم پولُس کی طرح خاکساری کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

11 پولُس رسول کی مثال سے ہم خاکساری سے کام لینے کا ایک اہم طریقہ سیکھتے ہیں۔‏ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم خدا کی خدمت میں جو کچھ بھی کرتے ہیں،‏ وہ اُس کی طاقت سے کرتے ہیں۔‏ اِس لیے ہمیں یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ لوگ ہماری واہ واہ کریں اور اگر وہ ایسا کرتے بھی ہیں تو ہمیں اِترانا نہیں چاہیے۔‏ ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے:‏ ”‏جن لوگوں کو مَیں مُنادی کرتا ہوں،‏ اُن کے بارے میں میری کیا رائے ہے؟‏ کیا میرے دل میں اپنے علاقے میں رہنے والی کسی خاص قوم کے لوگوں کے لیے تعصب تو نہیں ہے؟‏“‏ پوری دُنیا میں یہوواہ کے گواہ اپنے علاقوں کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہاں کون کون سی زبانیں بولنے والے لوگ رہتے ہیں۔‏ وہ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک بادشاہت کا پیغام پہنچائیں۔‏ اور اِس مقصد کے لیے وہ ایسی قوموں کے لوگوں کی زبان بھی سیکھتے ہیں جنہیں کم‌تر خیال کِیا جاتا ہے اور اُن کے رسم‌ورواج سے واقفیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ وہ کبھی بھی خود کو اُن لوگوں سے بہتر نہیں سمجھتے جنہیں وہ مُنادی کرتے ہیں۔‏ اِس کی بجائے وہ ہر شخص کی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ بادشاہت کا پیغام اُس کے دل تک پہنچا سکیں۔‏

دُعا میں بہن بھائیوں کا بنام ذکر کریں

12.‏ اِپَفراس نے کیسے ظاہر کِیا کہ اُنہیں واقعی دوسروں کی فکر ہے؟‏

12 خاکساری ظاہر کرنے کا ایک اَور طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے بہن بھائیوں کے لیے دُعا کریں جنہیں ”‏اُتنا ہی قیمتی ایمان حاصل ہوا ہے جتنا ہمیں ہوا ہے۔‏“‏ (‏2-‏پطرس 1:‏1‏)‏ اِپَفراس نے ایسا ہی کِیا تھا۔‏ بائبل میں صرف تین بار اُن کا ذکر کِیا گیا ہے۔‏ جب پولُس روم میں اپنے گھر میں نظربند تھے تو اُنہوں نے کُلسّے کے مسیحیوں کو اِپَفراس کے بارے میں یہ لکھا:‏ ”‏وہ آپ کے لیے دل سے دُعا کرتے رہتے ہیں۔‏“‏ (‏کُلسّیوں 4:‏12‏)‏ اِپَفراس بہن بھائیوں سے اچھی طرح واقف تھے اور اُن کی بڑی فکر رکھتے تھے۔‏ پولُس نے کہا کہ اِپَفراس ”‏میری طرح .‏ .‏ .‏ قید ہیں۔‏“‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِپَفراس کو خود بھی مشکلات کا سامنا تھا۔‏ (‏فلیمون 23‏)‏ مگر پھر بھی وہ دوسروں کی بھلائی کا سوچتے تھے اور اِس حوالے سے وہ جو کر سکتے تھے،‏ اُنہوں نے کِیا۔‏ اُنہوں نے بہن بھائیوں کے لیے دُعا کی۔‏ ہم بھی اِپَفراس کی مثال پر عمل کرتے ہوئے بہن بھائیوں کے لیے دُعا کر سکتے ہیں۔‏ بِلاشُبہ ایسی دُعاؤں میں بڑی طاقت ہوتی ہے،‏ خاص طور پر اُس وقت جب ہم بہن بھائیوں کا بنام ذکر کرتے ہیں۔‏—‏2-‏کُرنتھیوں 1:‏11؛‏ یعقوب 5:‏16‏۔‏

13.‏ آپ اِپَفراس کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

13 ذرا ایسے بہن بھائیوں کے بارے میں سوچیں جن کا آپ اپنی دُعاؤں میں بنام ذکر کر سکتے ہیں۔‏ شاید آپ کی کلیسیا میں ایسے بہن بھائی ہوں یا شاید آپ ایسے خاندانوں کو جانتے ہوں جنہیں کوئی مشکل فیصلہ کرنا ہو،‏ آزمائشوں کا سامنا ہو یا دیگر مشکلات سے گزرنا پڑ رہا ہو۔‏ آپ ایسے بہن بھائیوں کے لیے بھی دُعا کر سکتے ہیں جو اپنے ایمان کی وجہ سے قید میں ہیں۔‏ (‏اِن بہن بھائیوں کے نام jw.org پر حصہ NEWSROOM کے تحت LEGAL DEVELOPMENTS میں مضمون ”‎Jehovah‎’s Witnesses Imprisoned for Their Faith‎“ میں دیے گئے ہیں۔‏)‏ آپ اُن بہن بھائیوں کو بھی اپنی دُعاؤں میں یاد رکھ سکتے ہیں جن کا کوئی عزیز فوت ہو گیا ہے،‏ جو کسی حالیہ قدرتی آفت یا جنگ سے متاثر ہوئے ہیں یا جنہیں مالی مسائل کا سامنا ہے۔‏ دراصل دُنیا بھر میں ہمارے ایسے ڈھیروں بہن بھائی ہیں جنہیں ہماری دُعاؤں کی ضرورت ہے۔‏ جب ہم اُن کے لیے دُعا کرتے ہیں تو ہم یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم صرف اپنے فائدے کا نہیں بلکہ دوسروں کے فائدے کا بھی سوچتے ہیں۔‏ (‏فِلپّیوں 2:‏4‏)‏ بےشک یہوواہ ایسی دُعاؤں کو سنتا ہے۔‏

‏”‏ہر ایک سننے میں جلدی کرے“‏

14.‏ دوسروں کی بات سننے کے حوالے سے یہوواہ کی مثال سب سے اعلیٰ کیوں ہے؟‏

14 خاکساری ظاہر کرنے کا ایک اَور طریقہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کی بات سننے کے لیے تیار رہیں۔‏ یعقوب 1:‏19 میں لکھا ہے:‏ ”‏ہر ایک سننے میں جلدی کرے۔‏“‏ اِس سلسلے میں یہوواہ کی مثال سب سے اعلیٰ ہے۔‏ (‏پیدایش 18:‏32؛‏ یشوع 10:‏14‏)‏ مثال کے طور پر خروج 32:‏11-‏14 میں یہوواہ اور موسیٰ کے درمیان ہونے والی بات‌چیت کو پڑھیں۔‏ ‏(‏اِن آیتوں کو پڑھیں۔‏)‏ حالانکہ یہوواہ کو موسیٰ کے مشورے کی ضرورت نہیں تھی پھر بھی اُس نے اُنہیں اپنے خیالات کا اِظہار کرنے کا موقع دیا۔‏ ذرا سوچیں کہ کیا آپ صبر سے کسی ایسے شخص کی بات سنتے جس کی رائے ماضی میں غلط ثابت ہوئی ہو اور پھر اُس کے مشورے پر عمل کرتے؟‏ البتہ یہوواہ صبر سے اُن تمام اِنسانوں کی بات سنتا ہے جو پورے ایمان کے ساتھ اُس سے دُعا کرتے ہیں۔‏

15.‏ دوسروں کو عزت دینے کے سلسلے میں ہم یہوواہ کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

15 خود سے پوچھیں:‏ ”‏اگر یہوواہ اِس قدر فروتن ہے کہ وہ اِنسانوں کی بات سنتا ہے جیسے اُس نے ابراہام،‏ راخل،‏ موسیٰ،‏ یشوع،‏ منوحہ،‏ ایلیاہ اور حِزقیاہ کی بات سنی تو کیا مجھے بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے؟‏ کیا مَیں تمام بہن بھائیوں کے مشوروں کو سننے اور جب ممکن ہو تو اِن پر عمل کرنے سے اُن کے لیے زیادہ عزت دِکھا سکتا ہوں؟‏ کیا میری کلیسیا یا گھر میں کوئی ایسا شخص ہے جسے میری زیادہ توجہ کی ضرورت ہے؟‏ مَیں اُس کی مدد کرنے کے لیے کیا کر سکتا ہوں؟‏“‏—‏پیدایش 30:‏6؛‏ قضاۃ 13:‏9؛‏ 1-‏سلاطین 17:‏22؛‏ 2-‏تواریخ 30:‏20‏۔‏

‏’‏شاید یہوواہ اُس ظلم پر جو میرے اُوپر ہوا ہے نظر کرے‘‏

داؤد نے سمعی کے بارے میں کہا:‏ ”‏اُسے چھوڑ دو۔‏“‏ اگر آپ داؤد کی جگہ ہوتے تو آپ کیا کرتے؟‏ (‏پیراگراف 16،‏ 17 کو دیکھیں۔‏)‏

16.‏ جب سمعی نے بادشاہ داؤد کے ساتھ بدتمیزی کی تو اُنہوں نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟‏

16 خاکساری کی خوبی اُس وقت اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے میں ہماری مدد کرتی ہے جب دوسرے ہمیں غصہ دِلاتے ہیں۔‏ (‏اِفسیوں 4:‏2‏)‏ اِس کی ایک عمدہ مثال 2-‏سموئیل 16:‏5-‏13 میں درج ہے۔‏ ‏(‏اِن آیتوں کو پڑھیں۔‏)‏ بادشاہ ساؤل کے ایک رشتےدار نے جس کا نام سمعی تھا،‏ داؤد اور اُن کے خادموں کے ساتھ بہت بدتمیزی کی اور اُن پر پتھر پھینکے۔‏ اگر داؤد چاہتے تو وہ اُسے سبق سکھا سکتے تھے۔‏ لیکن اُنہوں نے صبر سے سمعی کی بدتمیزی کو برداشت کِیا۔‏ داؤد اپنے جذبات پر قابو رکھنے کے قابل کیسے ہوئے؟‏ زبور 3 کا مطالعہ کرنے سے ہم اِس سوال کا جواب حاصل کر سکتے ہیں۔‏

17.‏ داؤد اپنے جذبات کو قابو میں کیسے رکھ پائے اور ہم اُن کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

17 داؤد نے زبور 3 اُس وقت لکھا جب اُن کا بیٹا ابی‌سلوم اُن کی جان کا دُشمن بنا ہوا تھا۔‏ اِسی عرصے کے دوران سمعی نے داؤد پر حملہ کِیا مگر وہ پُرسکون رہے۔‏ وہ ایسا کرنے کے قابل کیسے ہوئے؟‏ زبور 3:‏4 میں داؤد نے لکھا:‏ ”‏مَیں بلند آواز سے [‏یہوواہ]‏ کے حضور فریاد کرتا ہوں اور وہ اپنے کوہِ‌مُقدس پر سے مجھے جواب دیتا ہے۔‏“‏ جب دوسرے ہمارے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں تو ہمیں داؤد کی طرح دُعا کرنی چاہیے۔‏ پھر یہوواہ ہمیں اپنی پاک روح دے گا تاکہ ہم غصے میں نہ آئیں۔‏ کیا آپ کے ذہن میں کوئی ایسی صورتحال آتی ہے جس میں آپ کو خود پر قابو رکھنے یا کسی ایسے شخص کو معاف کرنے کی ضرورت ہو جو آپ کے ساتھ بُری طرح سے پیش آیا ہو؟‏ کیا آپ کو یقین ہے کہ یہوواہ آپ کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی سے واقف ہے اور وہ آپ کی مدد کرے گا اور آپ کو برکت دے گا؟‏

‏”‏حکمت اعلیٰ‌ترین شے ہے“‏

18.‏ یہوواہ کی ہدایات پر عمل کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟‏

18 جب ہم یہوواہ کی مرضی کے مطابق کام کرتے ہیں تو ہم دانش‌مندی کا ثبوت دیتے ہیں اور یہوواہ سے برکتیں پاتے ہیں۔‏ امثال 4:‏7 میں لکھا ہے:‏ ”‏حکمت اعلیٰ‌ترین شے ہے۔‏“‏ ‏(‏نیو اُردو بائبل ورشن)‏ سچ ہے کہ دانش‌مند بننے کے لیے علم حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے مگر دانش‌مندی کا تعلق صرف معلومات کو سمجھنے سے نہیں ہے۔‏ ہماری دانش‌مندی دراصل ہمارے فیصلوں سے ظاہر ہوتی ہے۔‏ دانش‌مندی تو چیونٹیوں میں بھی پائی جاتی ہے۔‏ وہ سمجھ‌داری کا ثبوت دیتے ہوئے گرمیوں میں سردیوں کے لیے خوراک جمع کرتی ہیں۔‏ (‏امثال 30:‏24،‏ 25‏)‏ بائبل میں یسوع مسیح کو ”‏خدا کی دانش‌مندی“‏ کہا گیا ہے۔‏ اُنہوں نے ہمیشہ وہ کام کیے جو اُن کے باپ کو پسند تھے۔‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 1:‏24؛‏ یوحنا 8:‏29‏)‏ جب ہم دانش‌مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خدا کی مرضی پر چلیں گے اور خاکساری سے کام لیں گے تو خدا ہمیں برکت دے گا۔‏ ‏(‏متی 7:‏21-‏23 کو پڑھیں۔‏)‏ لہٰذا ہم سب کو کلیسیا میں ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس میں سب خاکساری سے یہوواہ کی خدمت کر سکیں۔‏ بعض صورتحال میں خدا کی مرضی پر عمل کرنے کے لیے تحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ لیکن جب ہم ایسا کریں گے تو اِس سے خاکساری ظاہر ہوگی اور خاکساری کا مظاہرہ کرنے سے ہمیں اب اور ہمیشہ تک خوشی ملے گی۔‏