مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏خوش‌دل خدا“‏ کی عبادت کرنے والے خوش رہتے ہیں

‏”‏خوش‌دل خدا“‏ کی عبادت کرنے والے خوش رہتے ہیں

‏”‏مبارک ہے وہ قوم جس کا خدا [‏یہوواہ]‏ ہے۔‏“‏—‏زبور 144:‏15‏۔‏

گیت:‏ 38،‏  21

1.‏ یہوواہ کے گواہ خوش کیوں رہتے ہیں؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

یہوواہ کے گواہ خوش‌باش لوگ ہیں۔‏ وہ جب بھی اپنے اِجلاسوں یا اِجتماعوں پر ملتے ہیں یا آپس میں وقت گزارنے کے لیے اِکٹھے ہوتے ہیں تو وہ ہنستے مسکراتے نظر آتے ہیں۔‏ لیکن وہ اِتنے خوش کیوں رہتے ہیں؟‏ اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ”‏خوش‌دل خدا“‏ یہوواہ کو قریب سے جانتے ہیں،‏ اُس کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں اور اُس کی مثال پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ (‏1-‏تیمُتھیُس 1:‏11؛‏ زبور 16:‏11‏)‏ یہوواہ خوشی کا سرچشمہ ہے۔‏ اِس لیے وہ ہمیں شادمان دیکھنا چاہتا ہے اور ایسی بہت سی برکتیں دیتا ہے جن کی وجہ سے ہم خوش رہتے ہیں۔‏—‏اِستثنا 12:‏7؛‏ واعظ 3:‏12،‏ 13‏۔‏

2،‏ 3.‏ ‏(‏الف)‏ خوش رہنے کا کیا مطلب ہے؟‏ (‏ب)‏ خوش رہنا مشکل کیوں ہو سکتا ہے؟‏

2 اگر آپ سے پوچھا جائے کہ کیا آپ خوش ہیں تو آپ کیا جواب دیں گے؟‏ خوشی دراصل ایک ایسی کیفیت ہے جس میں اِنسان کا دل مطمئن اور شادمان ہوتا ہے اور اُس کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ یہ کیفیت برقرار رہے۔‏ بائبل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ حقیقی خوشی حاصل کر سکتے ہیں جنہیں یہوواہ کی برکت حاصل ہے۔‏ لیکن اِس دُنیا میں خوش رہنا آسان نہیں ہے۔‏ وہ کیوں؟‏

3 ہماری زندگی میں ایسے پریشان‌کُن حالات پیدا ہو سکتے ہیں جو ہمیں خوشی سے محروم کر سکتے ہیں،‏ مثلاً ہمارا کوئی عزیز وفات پا سکتا ہے یا کلیسیا سے خارج ہو سکتا ہے،‏ ہماری طلاق ہو سکتی ہے یا ہماری نوکری جا سکتی ہے۔‏ ہماری خوشی اُس وقت بھی ہم سے چھن سکتی ہے جب ہمارے گھر میں بات بات پر لڑائی جھگڑے ہوتے ہوں،‏ جب ہمارے ساتھ کام کرنے والے یا ہمارے ہم‌جماعت ہمارا تمسخر اُڑاتے ہوں یا جب ہمیں خدا کی خدمت کرنے کی وجہ سے اذیت کا نشانہ بنایا جائے یا قید میں ڈال دیا جائے۔‏ اِس کے علاوہ خراب صحت،‏ کوئی سنگین بیماری یا ڈپریشن بھی ہماری خوشیوں کا گلا گھونٹ سکتی ہے۔‏ لیکن حالات چاہے جیسے بھی ہوں،‏ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے ”‏خوش‌دل اور واحد حکمران“‏ یسوع مسیح نے دوسروں کو تسلی دی اور اُن کی خوشی کو بڑھایا۔‏ (‏1-‏تیمُتھیُس 6:‏15؛‏ متی 11:‏28-‏30‏)‏ اپنے پہاڑی وعظ میں یسوع نے بتایا کہ ہم شیطان کی دُنیا میں پریشانیوں کا سامنا کرتے وقت بھی خوش کیسے رہ سکتے ہیں۔‏

خدا کی دوستی دائمی خوشی کے لیے لازمی

4،‏ 5.‏ خوشی حاصل کرنے اور اِسے برقرار رکھنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏

4 یسوع مسیح نے پہاڑی وعظ میں سب سے پہلے جس چیز کا ذکر کِیا،‏ وہ بہت اہمیت کی حامل ہے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏وہ لوگ خوش رہتے ہیں جن کو احساس ہے کہ اُنہیں خدا کی رہنمائی کی ضرورت ہے کیونکہ آسمان کی بادشاہت اُن کی ہے۔‏“‏ (‏متی 5:‏3‏)‏ ہم یہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہمیں یہ احساس ہے کہ ہمیں خدا کی رہنمائی کی ضرورت ہے؟‏ ہمیں خدا کے کلام کا مطالعہ کرنا چاہیے،‏ اُس کے حکموں پر عمل کرنا چاہیے اور اُس کی عبادت کو زندگی میں پہلے مقام پر رکھنا چاہیے۔‏ یہ کام کرنے سے ہماری خوشی بڑھے گی اور اِس بات پر ہمارا ایمان مضبوط ہوگا کہ مستقبل کے حوالے سے خدا کے وعدے بہت جلد پورے ہوں گے۔‏ اِس کے علاوہ خدا ہمیں جو ”‏شان‌دار اُمید“‏ دیتا ہے،‏ اُس کی بدولت ہمیں ہمت ملے گی۔‏—‏طِطُس 2:‏13‏۔‏

5 دائمی خوشی حاصل کرنے کے لیے لازمی ہے کہ ہم خدا کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط کرتے رہیں۔‏ پولُس رسول نے لکھا:‏ ”‏اِس بات پر خوش ہوں کہ آپ مالک کے ساتھ متحد ہیں۔‏ مَیں دوبارہ کہتا ہوں،‏ خوش ہوں۔‏“‏ (‏فِلپّیوں 4:‏4‏)‏ ہم خدا کے قریبی دوست تبھی بن پائیں گے جب ہم اُس کی طرف سے ملنے والی دانش‌مندی حاصل کریں گے۔‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏مبارک ہے وہ آدمی جو حکمت کو پاتا ہے اور وہ جو فہم حاصل کرتا ہے۔‏ جو اُسے پکڑے رہتے ہیں وہ اُن کے لئے حیات کا درخت ہے اور ہر ایک جو اُسے لئے رہتا ہے مبارک ہے۔‏“‏—‏امثال 3:‏13،‏ 18‏۔‏

اگر ہم اپنی خوشی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اُن باتوں پر عمل کرنا چاہیے جو ہم بائبل سے سیکھتے ہیں۔‏

6.‏ خوش رہنے کے لیے اَور کیا کرنا ضروری ہے؟‏

6 اگر ہم اپنی خوشی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اُن باتوں پر عمل کرنا چاہیے جو ہم بائبل سے سیکھتے ہیں۔‏ یسوع مسیح نے اِس بات کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏اگر آپ اِن باتوں کو جانتے ہیں اور اِن پر عمل کرتے ہیں تو آپ کو خوشی ملے گی۔‏“‏ (‏یوحنا 13:‏17؛‏ یعقوب 1:‏25 کو پڑھیں۔‏‏)‏ لہٰذا دائمی خوشی اُن لوگوں کو ملتی ہے جنہیں نہ صرف یہ احساس ہے کہ اُنہیں خدا کی رہنمائی پر چلنا چاہیے بلکہ جو اُس کی رہنمائی پر چلتے بھی ہیں۔‏ لیکن ہم ایک ایسی دُنیا میں رہتے ہیں جس میں بہت سی چیزیں ہماری خوشی کا قتل کر سکتی ہیں۔‏ تو پھر ہم خوش کیسے رہ سکتے ہیں؟‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ یسوع نے پہاڑی وعظ میں آگے کیا کہا۔‏

کون لوگ خوش رہتے ہیں؟‏

7.‏ وہ لوگ خوش کیسے رہ سکتے ہیں جو ماتم کرتے ہیں؟‏

7 ‏”‏وہ لوگ خوش رہتے ہیں جو ماتم کرتے ہیں کیونکہ اُن کو تسلی ملے گی۔‏“‏ (‏متی 5:‏4‏)‏ شاید آپ سوچیں:‏ ”‏ماتم کرنے والا شخص خوش کیسے ہو سکتا ہے؟‏“‏ اصل میں یسوع سب ماتم کرنے والوں کی بات نہیں کر رہے تھے۔‏ چونکہ ہم ”‏آخری زمانے“‏ کے ”‏مشکل وقت“‏ میں رہ رہے ہیں اِس لیے بہت سے بُرے لوگ بھی مسائل کا سامنا کرنے کی وجہ سے ماتم کرتے اور کڑھتے ہیں۔‏ (‏2-‏تیمُتھیُس 3:‏1‏)‏ لیکن اُن لوگوں کو تو بس اپنی ذات کی فکر ہوتی ہے،‏ اُنہیں اِس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ اُنہیں یہوواہ سے دوستی کرنے کی ضرورت ہے۔‏ اِس لیے وہ لوگ خوش نہیں رہتے۔‏ متی 5:‏4 میں یسوع مسیح دراصل ایسے لوگوں کی بات کر رہے تھے جنہیں یہ احساس ہے کہ اُنہیں خدا کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔‏ ایسے لوگ اِس بات پر ماتم کرتے ہیں کہ بہت سے اِنسان خدا سے مُنہ موڑ چُکے ہیں اور اُس کے معیاروں کے مطابق نہیں چل رہے ہیں۔‏ اُن کے افسوس کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ عیب‌دار ہیں۔‏ اِس کے علاوہ وہ یہ دیکھ کر بھی دُکھی ہوتے ہیں کہ گُناہ کی وجہ سے دُنیا کی حالت کتنی بگڑ چُکی ہے۔‏ یہوواہ ایسے لوگوں پر نظر کرتا ہے،‏ اُنہیں اپنے کلام سے تسلی دیتا ہے اور اُنہیں خوشی اور زندگی بخشتا ہے۔‏‏—‏حِزقی‌ایل 5:‏11؛‏ 9:‏4 کو پڑھیں۔‏

8.‏ نرم‌مزاج بننے سے آپ کو خوشی کیسے مل سکتی ہے؟‏

8 ‏”‏وہ لوگ خوش رہتے ہیں جو نرم‌مزاج ہیں کیونکہ اُن کو زمین ورثے میں ملے گی۔‏“‏ (‏متی 5:‏5‏)‏ نرم‌مزاج بننے سے آپ کو خوشی کیسے مل سکتی ہے؟‏ اِس دُنیا میں بہت سے لوگ سخت‌مزاج اور جھگڑالو ہیں اور اِس وجہ سے مسائل میں گِھرے رہتے ہیں۔‏ لیکن جب وہ سچائی سیکھتے ہیں تو وہ ”‏نئی شخصیت“‏ کو پہن لیتے ہیں اور ”‏شفقت،‏ ہمدردی،‏ مہربانی،‏ خاکساری،‏ نرمی اور تحمل“‏ جیسی خوبیاں ظاہر کرنے لگتے ہیں۔‏ (‏کُلسّیوں 3:‏9-‏12‏)‏ یوں وہ پُرامن بن جاتے ہیں،‏ دوسروں کے ساتھ اُن کے تعلقات بہتر ہو جاتے ہیں اور اُن کی زندگی خوشیوں سے بھر جاتی ہے۔‏ اِس کے علاوہ اُنہیں یہ اُمید بھی ملتی ہے کہ وہ خدا کے وعدے کے مطابق ”‏زمین کے وارث ہوں گے۔‏“‏—‏زبور 37:‏8-‏10،‏ 29‏۔‏

9.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع کی اِس بات کا کیا مطلب تھا کہ نرم‌مزاج لوگوں کو ”‏زمین ورثے میں ملے گی“‏؟‏ (‏ب)‏ وہ لوگ خوش کیوں ہو سکتے ہیں ”‏جو نیکی کے لیے ترستے ہیں“‏؟‏

9 یسوع کی اِس بات کا کیا مطلب تھا کہ نرم‌مزاج لوگوں کو ”‏زمین ورثے میں ملے گی“‏؟‏ مسح‌شُدہ مسیحیوں کو اُس وقت زمین ورثے میں ملے گی جب وہ اِس پر بادشاہوں اور کاہنوں کے طور پر حکمرانی کریں گے۔‏ (‏مکاشفہ 20:‏6‏)‏ لاکھوں دیگر لوگ جو آسمان پر جانے کی اُمید نہیں رکھتے،‏ زمین پر ہمیشہ زندہ رہنے کا موقع پائیں گے اور اِس لحاظ سے اُنہیں بھی زمین ورثے میں ملے گی۔‏ وہ گُناہ سے پاک ہو جائیں گے اور پُرامن اور خوشیوں بھری زندگی گزاریں گے۔‏ جن لوگوں کو زمین ورثے میں ملے گی،‏ اُن کے بارے میں یسوع نے یہ بھی کہا:‏ ‏”‏وہ لوگ خوش رہتے ہیں جو نیکی کے لیے ترستے ہیں۔‏“‏ ‏(‏متی 5:‏6‏)‏ جب یہوواہ بُرائی کا خاتمہ کر دے گا تو یہ لوگ نیکی کے لیے ترستے نہیں رہیں گے۔‏ (‏2-‏پطرس 3:‏13‏)‏ نئی دُنیا میں اُن کی زندگی خوشیوں کا گہوارہ بن جائے گی اور وہ پھر کبھی ماتم نہیں کریں گے کیونکہ بُرے لوگوں کا نام‌ونشان مٹ چُکا ہوگا۔‏—‏زبور 37:‏17‏۔‏

10.‏ رحم‌دل ہونے کا کیا مطلب ہے؟‏

10 ‏”‏وہ لوگ خوش رہتے ہیں جو رحم‌دل ہیں کیونکہ اُن پر رحم کِیا جائے گا۔‏“‏ (‏متی 5:‏7‏)‏ رحم‌دل ہونے کا مطلب اپنے دل میں دوسروں کے لیے نرمی،‏ ہمدردی اور ترس جیسے جذبات رکھنا ہے۔‏ لیکن رحم‌دلی صرف جذبات کا نام نہیں ہے۔‏ بائبل سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ جو شخص رحم‌دل ہوتا ہے،‏ وہ دوسروں کی مدد کرنے کے لیے قدم بھی اُٹھاتا ہے۔‏

11.‏ نیک‌دل سامری کی مثال میں ہمارے لیے کیا سبق پایا جاتا ہے؟‏

11 لُوقا 10:‏30-‏37 کو پڑھیں۔‏ یسوع مسیح نے نیک‌دل سامری کی مثال کے ذریعے بڑے خوب‌صورت طریقے سے رحم‌دلی کا مطلب سمجھایا۔‏ سامری آدمی نے ڈاکوؤں کے ہتھے چڑھنے والے شخص کے لیے ہمدردی اور ترس محسوس کِیا اور اِنہی جذبات نے اُسے اُس شخص کی مدد کرنے کی ترغیب دی۔‏ اِس مثال کو بیان کرنے کے بعد یسوع نے کہا:‏ ”‎جائیں اور ایسا ہی کریں۔‏“‏ لہٰذا ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں:‏ ”‏کیا مَیں اُس سبق پر عمل کر رہا ہوں جو یسوع مسیح نے اِس مثال کے ذریعے سکھایا؟‏ جب دوسرے کسی تکلیف سے گزر رہے ہوتے ہیں تو کیا مَیں اُن کے کام آنے کی کوشش کر سکتا ہوں؟‏ مثال کے طور پر کیا مَیں اپنی کلیسیا کے بوڑھے بہن بھائیوں،‏ بیوہ بہنوں یا ایسے نوجوانوں کی زیادہ مدد کر سکتا ہوں جن کے والدین یہوواہ کی عبادت نہیں کرتے؟‏ کیا مَیں اپنی باتوں سے ”‏بےحوصلہ لوگوں کو تسلی“‏ دے سکتا ہوں؟‏“‏—‏1-‏تھسلُنیکیوں 5:‏14؛‏ یعقوب 1:‏27‏۔‏

دوسروں کی مدد کرنے میں پہل کریں اور خوشیاں بکھیریں۔‏ (‏پیراگراف 12 کو دیکھیں۔‏)‏

12.‏ جب ہم دوسروں کے ساتھ رحم سے پیش آتے ہیں تو ہمیں خوشی کیوں ملتی ہے؟‏

12 رحم‌دلی کا مظاہرہ کرنے سے ہمیں خوشی کیوں ملتی ہے؟‏ جب ہم اپنے کاموں سے دوسروں کے لیے رحم‌دلی ظاہر کرتے ہیں تو ہمیں وہ خوشی حاصل ہوتی ہے جو دوسروں کو دینے سے ملتی ہے۔‏ رحم‌دلی ظاہر کرنے سے ہمیں اِس لیے بھی خوشی ملتی ہے کیونکہ ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے ہم یہوواہ کو خوش کر رہے ہیں۔‏ (‏اعمال 20:‏35؛‏ عبرانیوں 13:‏16 کو پڑھیں۔‏‏)‏ بادشاہ داؤد نے رحم‌دل شخص کے بارے میں لکھا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ اُسے محفوظ اور جیتا رکھے گا اور وہ زمین پر مبارک ہوگا۔‏“‏ (‏زبور 41:‏1،‏ 2‏)‏ اگر ہم دوسروں کے ساتھ رحم اور ہمدردی سے پیش آئیں گے تو یہوواہ ہم پر بھی رحم کرے گا اور ہمیں دائمی خوشی سے نوازے گا۔‏—‏یعقوب 2:‏13‏۔‏

پاک‌دل لوگ خوش کیوں رہتے ہیں؟‏

13،‏ 14.‏ ‏”‏پاک‌دل“‏ ہونا کیوں ضروری ہے؟‏

13 یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏وہ لوگ خوش رہتے ہیں جو پاک‌دل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے۔‏“‏ (‏متی 5:‏8‏)‏ یہوواہ ہماری عبادت کو اُسی صورت میں قبول فرمائے گا اگر ہم پاک‌دل کے مالک ہوں گے۔‏ اور پاک‌دل بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی سوچ اور خواہشات کو پاک رکھیں۔‏‏—‏2-‏کُرنتھیوں 4:‏2 کو پڑھیں؛‏ 1-‏تیمُتھیُس 1:‏5‏۔‏

14 پاک‌دل لوگ یہوواہ کے قریبی دوست بن سکتے ہیں۔‏ ایسے لوگوں کے بارے میں یہوواہ نے کہا ہے:‏ ‏”‏وہ لوگ خوش ہیں جو اپنے چوغے دھوتے ہیں۔‏“‏ ‏(‏مکاشفہ 22:‏14‏)‏ اِس بات سے کیا مُراد ہے کہ وہ لوگ ”‏اپنے چوغے دھوتے ہیں“‏؟‏ اگر مسح‌شُدہ مسیحیوں کی بات کی جائے تو اِس کا مطلب ہے کہ وہ یہوواہ کی نظر میں پاک ہیں،‏ اُنہیں آسمان پر غیرفانی زندگی ملے گی اور وہ وہاں دائمی خوشی حاصل کریں گے۔‏ اور بڑی بِھیڑ میں شامل لوگ جو کہ زمین پر زندگی پانے کی اُمید رکھتے ہیں،‏ وہ اِس لحاظ سے اپنے چوغے دھوتے ہیں کہ یہوواہ اُنہیں نیک خیال کرتے ہوئے اپنے دوستوں کے طور پر قبول کرتا ہے۔‏ بائبل میں کہا گیا ہے کہ ”‏اُنہوں نے اپنے چوغوں کو میمنے کے خون میں دھو کر سفید کر لیا ہے۔‏“‏—‏مکاشفہ 7:‏9،‏ 13،‏ 14‏۔‏

15،‏ 16.‏ پاک‌دل لوگ خدا کو کیسے دیکھ سکتے ہیں؟‏

15 پاک‌دل لوگ خدا کو کیسے دیکھ سکتے ہیں جبکہ کوئی بھی ”‏اِنسان [‏خدا کو]‏ دیکھ کر زندہ نہیں“‏ رہ سکتا؟‏ (‏خروج 33:‏20‏)‏ متی 5:‏8 میں جس یونانی اِصطلاح کا ترجمہ ”‏دیکھیں گے“‏ کِیا گیا ہے،‏ اُس کا مطلب ہے:‏ ”‏ذہن کی آنکھ سے دیکھیں گے،‏ سمجھیں گے،‏ جانیں گے۔‏“‏ لہٰذا ’‏خدا کو دیکھنے‘‏ کا مطلب اُس کی شخصیت کو سمجھنا اور اُس کی خوبیوں کی قدر کرنا ہے۔‏ (‏اِفسیوں 1:‏18‏)‏ چونکہ یسوع مسیح نے وہ خوبیاں ظاہر کیں جو خدا میں ہیں اِس لیے وہ یہ کہہ سکتے تھے:‏ ”‏جس نے مجھے دیکھا ہے،‏ اُس نے باپ کو بھی دیکھا ہے۔‏“‏—‏یوحنا 14:‏7-‏9‏۔‏

16 ہم اُس وقت بھی ’‏خدا کو دیکھتے‘‏ ہیں جب ہم اپنی زندگی میں اُس کی مدد کا تجربہ کرتے ہیں۔‏ (‏ایوب 42:‏5‏)‏ اِس کے علاوہ ہم اپنی آنکھیں اُن شان‌دار نعمتوں پر جمائے رکھتے ہیں جو یہوواہ نے اپنے وفادار اور پاک‌دل بندوں کو دینے کا وعدہ کِیا ہے۔‏ مسح‌شُدہ مسیحی اُس وقت حقیقی معنوں میں یہوواہ کو دیکھتے ہیں جب وہ زندہ ہو کر آسمان پر جاتے ہیں۔‏—‏1-‏یوحنا 3:‏2‏۔‏

ایسی خوشی جو مشکلات میں بھی ماند نہیں پڑتی

17.‏ صلح‌پسند لوگ خوش کیوں رہتے ہیں؟‏

17 پہاڑی وعظ میں یسوع نے آگے کہا:‏ ‏”‏وہ لوگ خوش رہتے ہیں جو صلح‌پسند ہیں۔‏“‏ ‏(‏متی 5:‏9‏)‏ جب ہم دوسروں کے ساتھ صلح کرنے میں پہل کرتے ہیں تو ہمیں خوشی حاصل ہوتی ہے۔‏ یسوع مسیح کے شاگرد یعقوب نے لکھا:‏ ”‏نیکی کے پھل کا بیج صلح‌پسند لوگوں کے لیے خوش‌گوار ماحول میں بویا جاتا ہے۔‏“‏ (‏یعقوب 3:‏18‏)‏ لہٰذا اگر کلیسیا کے کسی بہن بھائی یا گھر کے کسی فرد کے ساتھ آپ کی اَن‌بن ہو گئی ہے تو یہوواہ سے درخواست کریں کہ وہ اُس کے ساتھ صلح کرنے میں آپ کی مدد کرے۔‏ اگر آپ ایسا کریں گے تو یہوواہ آپ کو اپنی پاک روح دے گا جس کے ذریعے آپ مسیح جیسی خوبیاں ظاہر کر پائیں گے۔‏ یوں آپ کی خوشی بڑھ جائے گی۔‏ اِس بات پر زور دینے کے لیے کہ دوسروں کے ساتھ صلح کرنے میں پہل کرنا کتنا ضروری ہے،‏ یسوع نے کہا:‏ ”‏اگر آپ قربان‌گاہ پر نذرانہ پیش کرنے جا رہے ہوں اور آپ کو یاد آئے کہ آپ کا بھائی آپ سے ناراض ہے تو اپنا نذرانہ وہیں قربان‌گاہ کے آگے چھوڑ دیں۔‏ پہلے جا کر اپنے بھائی سے صلح کریں اور پھر واپس آ کر نذرانہ پیش کریں۔‏“‏—‏متی 5:‏23،‏ 24‏۔‏

یہوواہ آپ کو اپنی پاک روح دے گا جس کے ذریعے آپ مسیح جیسی خوبیاں ظاہر کر پائیں گے اور یوں آپ کی خوشی بڑھ جائے گی۔‏

18،‏ 19.‏ مسیحی اذیت کا سامنا کرنے کے باوجود شادمان کیسے رہ سکتے ہیں؟‏

18 ‏”‏جب آپ کو میرے شاگرد ہونے کی وجہ سے طعنے دیے جاتے ہیں،‏ اذیت پہنچائی جاتی ہے اور آپ کے خلاف جھوٹی باتیں پھیلائی جاتی ہیں تو آپ خوش رہتے ہیں۔‏“‏ یسوع کی اِس بات کا کیا مطلب تھا؟‏ اُنہوں نے مزید بتایا:‏ ”‏لوگوں نے اِسی طرح سے اُن نبیوں کو بھی اذیت پہنچائی جو آپ سے پہلے آئے تھے۔‏ اِس لیے خوش ہوں اور خوشی سے جھومیں کیونکہ آپ کو آسمان میں بڑا اجر ملے گا۔‏“‏ (‏متی 5:‏11،‏ 12‏)‏ جب رسولوں کو مارا پیٹا گیا اور مُنادی کا کام بند کرنے کا حکم دیا گیا تو عدالتِ‌عظمیٰ کے سامنے سے جاتے وقت ”‏وہ بہت خوش تھے۔‏“‏ ایسا نہیں تھا کہ اُنہیں مار کھانے میں مزہ آیا تھا۔‏ وہ دراصل اِس لیے خوش تھے ”‏کیونکہ اُنہیں یسوع کے نام کی خاطر بےعزت ہونے کا شرف ملا“‏ تھا۔‏—‏اعمال 5:‏41‏۔‏

19 آج بھی یہوواہ کے بندے خوشی سے اُس اذیت کو برداشت کرتے ہیں جو اُنہیں یسوع کے شاگرد ہونے کی وجہ سے سہنی پڑتی ہے۔‏ ‏(‏یعقوب 1:‏2-‏4 کو پڑھیں۔‏)‏ رسولوں کی طرح ہمیں بھی اُس وقت مزہ نہیں آتا جب لوگ ہمیں مارتے پیٹتے اور اذیت پہنچاتے ہیں۔‏ لیکن اگر ہم یہوواہ کے وفادار رہتے ہیں تو وہ ہمیں ثابت‌قدم رہنے کے لیے دلیری دیتا ہے۔‏ اِس حوالے سے ذرا ہنرک ڈورنک اور اُن کے بھائی کی مثال پر غور کریں۔‏ اگست 1944ء میں اُنہیں ایک قیدی کیمپ میں بھیج دیا گیا۔‏ اُنہیں اذیت دینے والوں نے کہا:‏ ”‏اِن لوگوں کو کسی بھی بات پر قائل کرنا ناممکن ہے۔‏ اُن کی خوشی تو اِس بات میں ہے کہ اُنہیں شہید ہونے کا موقع ملے۔‏“‏ ہنرک نے بتایا:‏ ”‏مجھے شہید ہونے کا کوئی شوق نہیں تھا۔‏ مجھے تو اِس بات کی بڑی خوشی ہے کہ مَیں دلیری اور وقار کے ساتھ خدا کے لیے اپنی وفاداری پر قائم رہا۔‏ .‏ .‏ .‏ دل کی گہرائی سے یہوواہ کے حضور دُعائیں کرنے سے مَیں اُس کے قریب ہوتا گیا اور یہوواہ نے ہر صورتحال میں مجھے سہارا دیا۔‏“‏

20.‏ ہمیں ”‏خوش‌دل خدا“‏ یہوواہ کی خدمت کرنے سے خوشی کیوں ملتی ہے؟‏

20 چاہے ہمیں اذیت سہنی پڑے یا خاندان کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہو یا چاہے ہم بیمار یا بوڑھے ہو جائیں،‏ اگر ہمارا ”‏خوش‌دل خدا“‏ یہوواہ ہم سے خوش ہے تو ہم خوش رہ سکتے ہیں۔‏ (‏1-‏تیمُتھیُس 1:‏11‏)‏ ہمارے دل اِس وجہ سے بھی باغ باغ ہیں کیونکہ ہمارے خدا نے ”‏جو جھوٹ نہیں بول سکتا،‏“‏ ہم سے بہت سے شان‌دار وعدے کیے ہیں۔‏ (‏طِطُس 1:‏2‏)‏ جب یہوواہ اپنے وعدوں کو پورا کرے گا تو ہماری زندگی میں خوشیوں کے ایسے رنگ بھر جائیں گے کہ ماضی کی تلخ یادوں کی سیاہی بالکل مٹ جائے گی۔‏ دراصل ہم ابھی اِس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ نئی دُنیا میں ہماری زندگی کتنی حسین ہوگی۔‏ بےشک ہم اُس وقت ”‏سلامتی کی فراوانی سے شادمان رہیں گے۔‏“‏—‏زبور 37:‏11‏۔‏