کائنات کا حاکمِاعلیٰ اپنے بندوں کا لحاظ رکھتا ہے
”کیونکہ وہ ہماری سرِشت سے واقف ہے۔ اُسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں۔“—زبور 103:14۔
1، 2. (الف) بااِختیار اِنسانوں کے برعکس یہوواہ لوگوں کے ساتھ کیسے پیش آتا ہے؟ (ب) اِس مضمون میں ہم کیا سیکھیں گے؟
دُنیا کے بااِختیار لوگ اکثر دوسروں پر ”حکم چلاتے ہیں“ اور اُن پر ظلم کرتے ہیں۔ (متی 20:25؛ واعظ 8:9) لیکن یہوواہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ اگرچہ وہ کائنات کا حاکمِاعلیٰ اور سب سے بااِختیار ہستی ہے تو بھی وہ عیبدار اِنسانوں کا لحاظ رکھتا ہے۔ وہ اُن کے ساتھ شفقت سے پیش آتا ہے اور اُن کے جذبات اور ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔ چونکہ ”اُسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں“ اِس لیے وہ ہم سے کسی ایسے کام کی توقع نہیں کرتا جو ہمارے بس سے باہر ہو۔—زبور 103:13، 14۔
2 بائبل میں کئی ایسی مثالیں درج ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ اپنے بندوں کے جذبات اور صورتحال کا لحاظ رکھتا ہے۔ اِس مضمون میں ہم اِن میں سے تین مثالوں پر غور کریں گے۔ سب سے پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ یہوواہ نے اُس وقت سموئیل کی صورتحال کو کیسے مدِنظر رکھا جب اُس نے اُنہیں عیلی کو سزا کا پیغام سنانے کے لیے کہا۔ اِس کے بعد ہم سیکھیں گے کہ جب موسیٰ، بنیاِسرائیل کی پیشوائی نہ کرنے کے بہانے بنا رہے تھے تو یہوواہ اُن کے ساتھ صبر سے کیسے پیش آیا۔ آخر میں ہم یہ جائزہ لیں گے کہ یہوواہ نے بنیاِسرائیل کو مصر سے نکالتے وقت اُن کے لیے فکرمندی کیسے دِکھائی۔ اِن تینوں مثالوں
پر بات کرتے وقت ہم یہ دیکھیں گے کہ ہم اِن سے یہوواہ کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں اور ہم اُس کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔یہوواہ نے ایک چھوٹے لڑکے کی صورتحال کا لحاظ رکھا
3. ایک رات سموئیل کے ساتھ کون سی غیرمعمولی بات پیش آئی اور اِس حوالے سے کون سا سوال پیدا ہوتا ہے؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
3 جب سموئیل نے خیمۂاِجتماع میں خدمت کرنی شروع کی تو اُس وقت اُن کی عمر بہت کم تھی۔ (1-سموئیل 3:1) ایک رات جب سموئیل سو رہے تھے تو ایک غیرمعمولی بات پیش آئی۔ * (1-سموئیل 3:2-10 کو پڑھیں۔) اُنہوں نے سنا کہ کسی نے اُن کا نام لے کر اُنہیں پکارا ہے۔ سموئیل نے سوچا کہ عمررسیدہ کاہنِاعظم عیلی اُنہیں بلا رہے ہیں۔ اِس لیے وہ فرمانبرداری دِکھاتے ہوئے اُٹھے، بھاگ کر عیلی کے پاس گئے اور اُن سے کہنے لگے: ”تُو نے مجھے پکارا سو مَیں حاضر ہوں۔“ لیکن عیلی نے جواب دیا: ”مَیں نے نہیں پکارا۔“ پھر جب دو اَور بار ایسا ہی ہوا تو عیلی کو اندازہ ہو گیا کہ خدا، سموئیل کو پکار رہا ہے۔ لہٰذا عیلی نے سموئیل کو بتایا کہ اگلی بار جب آواز آئے تو اُنہیں کیا جواب دینا ہے۔ لیکن یہوواہ نے پہلی ہی بار میں سموئیل پر یہ ظاہر کیوں نہیں کِیا کہ وہی اُنہیں پکار رہا ہے؟ بائبل میں اِس کی وجہ نہیں بتائی گئی۔ مگر شاید اِس کی وجہ یہ تھی کہ یہوواہ، سموئیل کی صورتحال کا لحاظ رکھ رہا تھا۔ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟
4، 5. (الف) جب یہوواہ نے سموئیل کو ایک ذمےداری سونپی تو شروع میں اُنہوں نے کیسا ردِعمل دِکھایا اور بعد میں کیا ہوا؟ (ب) اِس واقعے سے ہمیں یہوواہ کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟
4 پہلا سموئیل 3:11-18 کو پڑھیں۔ یہوواہ کی شریعت میں بچوں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ بڑے بوڑھوں کا احترام کریں، خاص طور پر اُن کا جن کے پاس اِختیار ہے۔ (خروج 22:28؛ احبار 19:32) لہٰذا سموئیل جیسے کمعمر لڑکے کے لیے یہ کوئی آسان کام نہیں تھا کہ وہ عیلی کے پاس جاتے اور اُنہیں خدا کی طرف سے سزا کا پیغام سناتے۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ”سموئیلؔ عیلیؔ پر رُویا ظاہر کرنے سے ڈرا۔“ لیکن یہوواہ نے عیلی پر یہ ظاہر کِیا کہ وہ سموئیل کو پکار رہا ہے۔ اِسی لیے عیلی نے سموئیل سے کہا کہ خدا نے اُنہیں جو باتیں کہی ہیں، وہ اُن میں سے کسی بھی بات کو اُن سے نہ چھپائیں۔ اِس پر سموئیل نے فرمانبرداری سے عیلی کو ”رتی رتی حال بتایا۔“
یہوواہ نے ایسی صورتحال پیدا کی جس میں سموئیل کے لیے عیلی کے تابع رہنا اور اُن کا احترام کرنا آسان ہو گیا۔
5 سموئیل کی باتیں سُن کر عیلی زیادہ حیران نہیں ہوئے ہوں گے کیونکہ ”ایک مردِخدا“ پہلے ہی اُنہیں ایسا پیغام سنا چُکا تھا۔ (1-سموئیل 2:27-36) اِس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کتنا دانشمند ہے اور وہ دوسروں کے احساسات اور صورتحال کا کتنا لحاظ رکھتا ہے۔
6. جس طرح سے خدا نے سموئیل کی مدد کی، اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
6 کیا آپ نوجوان یا بچے ہیں؟ اگر ہاں تو یاد رکھیں کہ جیسے یہوواہ، سموئیل کی صورتحال کو سمجھتا تھا، وہ آپ کے مسائل اور احساسات کو بھی سمجھتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ شرمیلے ہیں اور بڑی عمر کے لوگوں کو بادشاہت کا پیغام سنانا مشکل پاتے ہیں۔ یا شاید آپ کے لیے اپنے ہمعمروں سے الگ نظر آنا آسان نہیں ہے۔ لیکن یقین رکھیں کہ یہوواہ آپ کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ اِس لیے اُس سے دُعا کریں اور اُسے کُھل کر اپنے احساسات کے بارے میں بتائیں۔ (زبور 62:8) بائبل میں سے سموئیل اور اُن جیسے خدا کے دیگر کمعمر بندوں کی مثالوں پر سوچ بچار کریں۔ کلیسیا میں ایسے ہمعمروں یا بڑی عمر کے بہن بھائیوں سے بات کریں جنہیں آپ جیسے مسئلوں کا سامنا ہوا ہو۔ وہ آپ کو بتائیں گے کہ یہوواہ نے کیسے اُن کی مدد کی۔ ہو سکتا ہے کہ اُن کے پاس کوئی ایسا تجربہ بھی ہو جب یہوواہ نے کسی ایسے طریقے سے اُنہیں مدد فراہم کی ہو جس کی اُنہیں توقع بھی نہیں تھی۔
یہوواہ نے موسیٰ کے احساسات کا لحاظ رکھا
7، 8. یہوواہ نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ موسیٰ کے احساسات کا بہت لحاظ رکھتا ہے؟
7 جب موسیٰ 80 سال کے تھے تو یہوواہ نے اُنہیں بہت بھاری ذمےداری سونپی۔ موسیٰ نے بنیاِسرائیل کو مصر کی غلامی سے آزاد کروانا تھا۔ (خروج 3:10) اِس ذمےداری کے ملنے پر موسیٰ حیرت میں پڑ گئے ہوں گے کیونکہ وہ پچھلے 40 سال سے مِدیان میں چرواہے کے طور پر کام کر رہے تھے۔ اِس لیے اُنہوں نے خدا سے کہا: ”مَیں کون ہوں جو فرؔعون کے پاس جاؤں اور بنیاِسرائیل کو مصر سے نکال لاؤں؟“ اِس پر یہوواہ نے موسیٰ کو یقین دِلایا: ”مَیں ضرور تیرے ساتھ رہوں گا۔“ (خروج 3:11، 12) اُس نے اُنہیں یہ یقیندہانی بھی کرائی کہ بنیاِسرائیل کے بزرگ اُن کی ”بات مانیں گے۔“ مگر موسیٰ نے خدا سے کہا: ”وہ تو میرا یقین ہی نہیں کریں گے نہ میری بات سنیں گے۔“ (خروج 3:18؛ 4:1) ایسا کہنے سے موسیٰ نے ظاہر کِیا کہ اُنہیں خدا کی بات پر یقین نہیں ہے۔ لیکن یہوواہ، موسیٰ کے ساتھ صبر سے پیش آیا۔ اُس نے تو اُنہیں معجزے کرنے کی طاقت بھی دی۔ دراصل موسیٰ بائبل میں ذکرکردہ وہ پہلے شخص ہیں جنہیں معجزے کرنے کی صلاحیت ملی۔—خروج 4:2-9، 21۔
8 اِس سب کے باوجود موسیٰ نے عُذر پیش کرنا بند نہیں کِیا۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ روانی سے بول نہیں سکتے۔ اِس پر خدا نے فرمایا: ”مَیں تیری زبان کا ذمہ لیتا ہوں اور تجھے سکھاتا رہوں گا کہ تُو کیا کیا کہے۔“ کیا اب موسیٰ خدا کی بات ماننے پر راضی ہو گئے؟ جی نہیں۔ اُنہوں نے خدا سے کہا کہ وہ کسی اَور کو بھیج دے۔ اِس پر یہوواہ غصے میں آ گیا۔ مگر پھر بھی اُس نے موسیٰ کے احساسات کا لحاظ رکھا اور ہارون کو اُن کا ترجمان مقرر کِیا۔—خروج 4:10-16۔
9. جب یہوواہ، موسیٰ کے ساتھ صبر اور مہربانی سے پیش آیا تو اِس کا اُنہیں کیا فائدہ ہوا؟
9 اِس واقعے سے ہمیں یہوواہ کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟ چونکہ گنتی 12:3۔
یہوواہ لامحدود قدرت کا مالک ہے اِس لیے اگر وہ چاہتا تو اپنی طاقت کا مظاہرہ کر کے موسیٰ کے دل میں اپنا خوف بٹھا سکتا تھا اور اُن سے اپنا حکم منوا سکتا تھا۔ لیکن ایسا کرنے کی بجائے اُس نے صبر اور مہربانی کا مظاہرہ کِیا اور اپنے خاکسار بندے موسیٰ کو یہ یقین دِلایا کہ وہ اُن کے ساتھ ہوگا۔ اور یہوواہ کا یہ طریقہ واقعی کام آیا۔ موسیٰ، خدا کے بندوں کے شاندار پیشوا ثابت ہوئے۔ جیسے یہوواہ اُن کے ساتھ پیش آیا تھا، اُنہوں نے بھی دوسروں کے ساتھ پیش آتے وقت نرمی سے کام لیا اور اُن کا لحاظ رکھا۔—10. جب ہم یہوواہ کی طرح دوسروں کے احساسات کا لحاظ رکھتے ہیں تو اِس کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟
10 اِس واقعے میں ہمارے لیے کیا سبق ہے؟ اگر آپ ایک شوہر، ماں یا باپ یا کلیسیا میں بزرگ ہیں تو آپ بھی کسی حد تک دوسروں پر اِختیار رکھتے ہیں۔ اِس لیے یہ ضروری ہے کہ آپ اپنی بیوی، اپنے بچوں اور کلیسیا کے بہن بھائیوں کے احساسات کا لحاظ رکھیں، اُن کے ساتھ صبر اور مہربانی سے پیش آئیں اور یوں یہوواہ کی مثال پر عمل کریں۔ (کُلسّیوں 3:19-21؛ 1-پطرس 5:1-3) اگر آپ یہوواہ خدا کی مثال پر عمل کریں گے اور یسوع مسیح کے نقشِقدم پر چلیں گے جو کہ کئی لحاظ سے موسیٰ سے مشابہت رکھتے ہیں تو اِس کے بہت سے فائدے ہوں گے۔ مثال کے طور پر دوسروں کے لیے آپ سے بات کرنا آسان ہوگا اور آپ کے ساتھ وقت گزارنے سے وہ تازہدم ہو جائیں گے۔ (متی 11:28، 29) اِس کے علاوہ آپ اُن کے لیے ایک اچھی مثال بھی قائم کریں گے۔—عبرانیوں 13:7۔
یہوواہ نے بنیاِسرائیل کو بچاتے وقت اُن کا لحاظ رکھا
11، 12. جب بنیاِسرائیل، مصر سے نکلے تو یہوواہ نے اُنہیں تحفظ کا احساس کیسے دِلایا؟
11 جب بنیاِسرائیل 1513 قبلازمسیح میں مصر سے نکلےتو اُن کی تعداد غالباً 30 لاکھ سے زیادہ تھی۔ اُن لوگوں میں بچے، بوڑھے اور شاید بیمار اور معذور لوگ بھی شامل تھے۔ اِتنے بڑے گروہ کی رہنمائی کرنے کے لیے ایک ایسے پیشوا کی ضرورت تھی جو شفیق ہو اور لوگوں کے احساسات کو سمجھے۔ اور یہوواہ، موسیٰ کے ذریعے ایسا ہی پیشوا ثابت ہوا۔ اِس لیے جب بنیاِسرائیل، مصر سے روانہ ہوئے جہاں وہ اپنی پیدائش سے رہ رہے تھے تو وہ خود کو محفوظ محسوس کر رہے تھے۔—زبور 78:52، 53۔
12 یہوواہ نے اپنے بندوں کو تحفظ کا احساس کیسے دِلایا؟ اُس نے یہ بندوبست کِیا کہ بنیاِسرائیل ملک مصر سے ”صفآرا [یعنی فوجی صفوں کی صورت میں] ہو کر“ نکلیں۔ (خروج 13:18، کیتھولک ترجمہ) اُنہیں جس طرح سے منظم کِیا گیا تھا، اُس کی بدولت وہ یہ صاف دیکھ سکتے تھے کہ ساری صورتحال یہوواہ کے قابو میں ہے۔ یہوواہ ”دن کو بادل“ اور ”رات بھر آگ کی روشنی“ کے ذریعے اُنہیں یہ یقین بھی دِلاتا رہا کہ وہ اُن کے ساتھ ہے اور اُن کی رہنمائی اور حفاظت کر رہا ہے۔ (زبور 78:14) دراصل آگے جو کچھ ہونے والا تھا، اُس کے پیشِنظر بنیاِسرائیل کو اِس یقیندہانی کی بہت ضرورت تھی۔
13، 14. (الف) یہوواہ نے بحرِقلزم والے واقعے میں بنیاِسرائیل کا خیال کیسے رکھا؟ (ب) یہوواہ نے یہ کیسے ظاہر کِیا کہ وہ مصریوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہے؟
13 خروج 14:19-22 کو پڑھیں۔ ذرا تصور کریں کہ آپ بھی اُس گروہ کا حصہ ہیں جو مصر سے نکلا ہے۔ آپ بُری طرح پھنس گئے ہیں۔ آپ کے پیچھے مصری فوج ہے اور آگے بحرِقلزم۔ لیکن پھر یہوواہ کارروائی کرتا ہے۔ بادل کا جو ستون آپ کے سامنے تھا، وہ آپ کے پیچھے کی طرف چلا جاتا ہے اور آپ کے اور مصریوں کے درمیان کھڑا ہو جاتا ہے۔ مصری تو اندھیرے میں ڈوبے ہوئے ہیں لیکن آپ کا لشکر جس جگہ موجود ہے، وہاں ہر طرف روشنی پھیلی ہوئی ہے۔ پھر آپ دیکھتے ہیں کہ موسیٰ بحرِقلزم کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں جس پر مشرق سے تیز ہوا چلنے لگتی ہے۔ یہ ہوا سمندر کے دو ٹکڑے کر کے اِس کے دوسرے سرے تک ایک چوڑا خشک راستہ بنا دیتی ہے۔ پھر آپ، آپ کے گھر والے اور آپ کے جانور باقی لوگوں کے ساتھ بڑے منظم انداز میں اِس راستے پر چلنے لگتے ہیں۔ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ زمین نہ تو دَلدلی ہے اور نہ ہی اِس پر آپ کے پاؤں پھسل رہے ہیں۔ یہ خشک اور سخت ہے اور اِس لیے اِس پر چلنا آسان ہے۔ کرتے کرتے تمام لوگ، یہاں تک کہ وہ بھی جو زیادہ تیز نہیں چل سکتے ہیں، سمندر پار کر جاتے ہیں۔
14 خروج 14:23، 26-30 کو پڑھیں۔ اِسی دوران مغرور اور احمق فرعون آپ کے لشکر کا پیچھا کرنا شروع کر دیتا ہے۔ پھر موسیٰ دوبارہ اپنا ہاتھ سمندر کی طرف بڑھاتے ہیں جس پر پانی کی دو دیواریں آپس میں ٹکرا جاتی ہیں۔ فرعون اور اُس کی فوج سمندر میں غرق ہو جاتی ہے اور اُن میں سے ایک بھی باقی نہیں بچتا۔—خروج 15:8-10۔
15. بحرِقلزم والے واقعے سے ہم یہوواہ کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟
1-کُرنتھیوں 14:33) اِس واقعے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ ایک شفیق چرواہے کی طرح عملی طریقوں سے اپنے بندوں کا خیال رکھتا ہے اور اُنہیں اُن کے دُشمنوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ چونکہ اِس دُنیا کا خاتمہ قریب ہے اِس لیے یہوواہ کے بارے میں اِن باتوں کو یاد رکھنے سے ہمارا بہت حوصلہ بڑھتا ہے۔—امثال 1:33۔
15 اِس واقعے سے ہمیں یہوواہ کے بارے میں ایک خاص بات پتہ چلتی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہوواہ منظم طریقے سے کام کرتا ہے۔ اُس کی اِس خوبی کی وجہ سے ہمارا یہ اِعتماد مضبوط ہوتا ہے کہ ہم اُس کے سائے تلے محفوظ ہیں۔ (16. جب ہم اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ یہوواہ نے بنیاِسرائیل کو کیسے بچایا تو ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟
16 آج بھی یہوواہ اِجتماعی طور پر اپنے بندوں کا خیال رکھتا ہے۔ وہ اُن کی مدد کرتا ہے تاکہ وہ اُس کے قریب رہیں اور اُنہیں اُن کے دُشمنوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہوواہ بڑی مصیبت کے دوران بھی ایسا کرے گا جو بہت جلد آنے والی ہے۔ (مکاشفہ 7:9، 10) اِس لیے خدا کے بندے پھر چاہے وہ جوان ہوں یا بوڑھے، تندرست ہوں یا معذور، بڑی مصیبت کے دوران خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ * اِس کے برعکس وہ پُراعتماد رہیں گے اور یسوع کی اِس بات پر عمل کریں گے: ”سیدھے کھڑے ہو جائیں اور اپنے سر اُٹھائیں کیونکہ آپ کی نجات کا وقت نزدیک ہے۔“ (لُوقا 21:28) یہاں تک کہ جب فرعون سے کہیں زیادہ طاقتور قوموں کا گروہ یعنی جوج، خدا کے بندوں پر حملہ کرے گا تو تب بھی وہ اِس یقین کے ساتھ ڈٹے رہیں گے کہ یہوواہ اُن کی حفاظت کرے گا۔ (حِزقیایل 38:2، 14-16) لیکن اُنہیں یہ یقین کیوں ہوگا؟ کیونکہ یہوواہ بدلتا نہیں ہے۔ ماضی کی طرح مستقبل میں بھی وہ اپنے بندوں کا بچانے والا ثابت ہوگا۔—یسعیاہ 26:3، 20۔
17. (الف) جب ہم بائبل سے ایسے واقعات پڑھتے ہیں جن میں یہوواہ نے اپنے بندوں کا لحاظ رکھا تو ہمیں کیا فائدہ ہوتا ہے؟ (ب) اگلے مضمون میں کس بارے میں بات کی جائے گی؟
17 اِس مضمون میں ہم نے ایسی مثالوں پر غور کِیا ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ اپنے بندوں کی رہنمائی اور حفاظت کرتے وقت اُن کے احساسات اور صورتحال کا لحاظ رکھتا ہے۔ جب آپ بائبل سے ایسے واقعات پر سوچ بچار کرتے ہیں تو ایسی تفصیلات کا جائزہ لیں جن پر آپ نے پہلے غور نہ کِیا ہو تاکہ آپ یہوواہ کے بارے میں نئی باتیں سیکھ سکیں۔ جب آپ یہوواہ کی شاندار خوبیوں سے اَور اچھی طرح واقف ہوں گے تو آپ کے دل میں اُس کے لیے محبت بڑھے گی اور اُس پر آپ کا ایمان مضبوط ہوگا۔ اگلے مضمون میں ہم سیکھیں گے کہ ہم کن طریقوں سے یہوواہ کی مثال پر عمل کرتے ہوئے اپنے گھر والوں، کلیسیا کے بہن بھائیوں اور مُنادی کے دوران ملنے والے لوگوں کا لحاظ رکھ سکتے ہیں۔
^ پیراگراف 3 یہودی تاریخدان یوسیفس کے مطابق اُس وقت سموئیل کی عمر 12 سال تھی۔
^ پیراگراف 16 ایسا لگتا ہے کہ جو لوگ ہرمجِدّون کی جنگ سے بچ جائیں گے، اُن میں کچھ معذور اشخاص بھی شامل ہوں گے۔ جب یسوع زمین پر تھے تو اُنہوں نے ’ہر طرح کے مرض کو ٹھیک کِیا۔‘ اِس سے یہ اِشارہ ملتا ہے کہ یسوع ہرمجِدّون کی جنگ سے بچنے والوں کے لیے کیا کچھ کریں گے۔ (متی 9:35) جہاں تک مُردوں میں سے جی اُٹھنے والوں کی بات ہے، وہ مکمل طور پر تندرستوتوانا جسموں کے ساتھ زندہ ہوں گے۔