مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ کی طرح دوسروں کا لحاظ رکھیں

یہوواہ کی طرح دوسروں کا لحاظ رکھیں

‏”‏مبارک ہے وہ جو غریب کا خیال رکھتا ہے۔‏“‏‏—‏زبور 41:‏1‏۔‏

گیت:‏ 35،‏  50

1.‏ یہوواہ کے بندے ایک دوسرے کے لیے اپنی محبت کا ثبوت کیسے دیتے ہیں؟‏

پوری دُنیا میں رہنے والے یہوواہ کے بندے ایک خاندان کی طرح ہیں جس کے افراد ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں۔‏ (‏1-‏یوحنا 4:‏16،‏ 21‏)‏ کبھی کبھار وہ اپنے بہن بھائیوں کے لیے بڑی بڑی قربانیاں دے کر اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہیں جبکہ زیادہ‌تر وہ اِس محبت کو چھوٹے چھوٹے کاموں یا شفقت بھری باتوں سے ظاہر کرتے ہیں۔‏ جب ہم اِس طرح سے دوسروں کے لیے محبت ظاہر کرتے ہیں اور اُن کا لحاظ رکھتے ہیں تو ہم اپنے آسمانی باپ کی مثال پر عمل کرتے ہیں۔‏—‏اِفسیوں 5:‏1‏۔‏

2.‏ یسوع مسیح نے محبت کے سلسلے میں اپنے باپ کی مثال پر کیسے عمل کِیا؟‏

2 یسوع مسیح نے پوری طرح سے اپنے باپ کی مثال پر عمل کِیا اور ہمیشہ دوسروں کے ساتھ پیار اور نرمی سے پیش آئے۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏آپ سب جو محنت‌مشقت کرتے ہیں اور بوجھ تلے دبے ہیں،‏ میرے پاس آئیں۔‏ مَیں آپ کو تازہ‌دم کر دوں گا۔‏“‏ (‏متی 11:‏28،‏ 29‏)‏ جب ہم یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرتے ہوئے ’‏غریب کا خیال رکھتے ہیں‘‏ تو ہمیں یہوواہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور ہم بھی خوش رہتے ہیں۔‏ (‏زبور 41:‏1‏)‏ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم اپنے گھر والوں،‏ کلیسیا کے بہن بھائیوں اور مُنادی کے دوران ملنے والے لوگوں کے احساسات اور صورتحال کا لحاظ کیسے رکھ سکتے ہیں۔‏

اپنے گھر والوں کا لحاظ رکھیں

3.‏ ایک شوہر اپنی بیوی کا لحاظ کیسے رکھ سکتا ہے؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

3 شوہروں کو اپنے گھر والوں کے احساسات کا خیال رکھنے کے سلسلے میں ایک اچھی مثال قائم کرنی چاہیے۔‏ (‏اِفسیوں 5:‏25؛‏ 6:‏4‏)‏ مثال کے طور پر اُنہیں بائبل میں درج اِس نصیحت پر عمل کرنا چاہیے کہ ”‏اپنی بیوی کے ساتھ رہتے ہوئے اُس کا لحاظ رکھیں۔‏“‏ اِس بات کا ترجمہ یوں بھی کِیا جا سکتا ہے کہ ”‏[‏اپنی بیوی]‏ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔‏“‏ (‏1-‏پطرس 3:‏7‏؛‏ فٹ‌نوٹ)‏ جو شوہر اپنی بیوی کو سمجھتا ہے،‏ اُسے پتہ ہوتا ہے کہ اُس کی بیوی کئی حلقوں میں اُس سے فرق تو ہے لیکن کم‌تر نہیں ہے۔‏ (‏پیدایش 2:‏18‏)‏ وہ اُس کے احساسات کی قدر کرتا ہے اور اُسے عزت اور وقار دیتا ہے۔‏ کینیڈا میں رہنے والی ایک بیوی اپنے شوہر کے بارے میں کہتی ہے:‏ ”‏جب مَیں اُن کے سامنے اپنے احساسات کا اِظہار کرتی ہوں تو وہ کبھی مجھ پر تنقید نہیں کرتے اور یہ نہیں کہتے کہ ”‏آپ کو ایسا نہیں محسوس کرنا چاہیے۔‏“‏ اُن کی ایک اَور خوبی یہ ہے کہ وہ توجہ سے میری بات سنتے ہیں۔‏ اگر کسی معاملے کے بارے میں میری رائے صحیح نہیں ہوتی اور اُنہیں مجھے سمجھانا ہوتا ہے تو وہ بڑے پیار سے ایسا کرتے ہیں۔‏“‏

ایک مسیحی شوہر اپنی بیوی کا وفادار رہتا ہے کیونکہ وہ اُس سے پیار کرتا ہے اور بُرائی سے نفرت کرتا ہے۔‏

4.‏ ایک شوہر دوسری عورتوں کے ساتھ پیش آتے وقت یہ کیسے ظاہر کر سکتا ہے کہ اُسے اپنی بیوی کے احساسات کا خیال ہے؟‏

4 جو شوہر اپنی بیوی کے احساسات کا لحاظ رکھتا ہے،‏ وہ دوسری عورتوں کے ساتھ دل‌لگی نہیں کرتا اور نہ ہی اُنہیں غلط نظر سے دیکھتا ہے۔‏ وہ سوشل میڈیا اور اِنٹرنیٹ کا اِستعمال کرتے وقت بھی اِن باتوں کا دھیان رکھتا ہے۔‏ (‏ایوب 31:‏1‏)‏ وہ اپنی بیوی کا وفادار رہتا ہے اور ایسا صرف اِس وجہ سے نہیں کرتا کیونکہ وہ اُس سے پیار کرتا ہے بلکہ اِس لیے بھی کیونکہ وہ یہوواہ سے پیار کرتا ہے اور بُرائی سے نفرت کرتا ہے۔‏‏—‏زبور 19:‏14؛‏ 97:‏10 کو پڑھیں۔‏

5.‏ ایک بیوی اپنے شوہر کا لحاظ کیسے رکھ سکتی ہے؟‏

5 جب ایک شوہر اپنے سربراہ یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرتا ہے تو اُس کی بیوی کے لیے اُس کا ”‏دل سے احترام“‏ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔‏ (‏اِفسیوں 5:‏22-‏25،‏ 33‏)‏ اور جو بیوی اپنے شوہر کا احترام کرتی ہے،‏ وہ اُس کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے اور اُس کے ساتھ پیار سے پیش آتی ہے۔‏ وہ تب بھی ایسا کرتی ہے جب اُس کا شوہر کلیسیا کے معاملات میں مصروف ہوتا ہے یا جب اُس کے ذہن میں کوئی پریشانی چل رہی ہوتی ہے۔‏ برطانیہ میں رہنے والا ایک شوہر کہتا ہے:‏ ”‏اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میری بیوی میرے چہرے کو دیکھ کر یہ اندازہ لگا لیتی ہے کہ مَیں کسی وجہ سے پریشان ہوں۔‏ ایسی صورت میں وہ امثال 20:‏5 میں درج اصول پر عمل کرتے ہوئے میرے دل کی بات ’‏کھینچ نکالنے‘‏ کی کوشش کرتی ہے۔‏ کبھی کبھار وہ ایسا کرنے کے لیے صبر سے مناسب وقت کا اِنتظار بھی کرتی ہے بشرطیکہ یہ کوئی ایسا معاملہ نہ ہو جسے مجھے رازداری میں رکھنا ہو۔‏“‏

6.‏ والدین اور کلیسیا کے ارکان دوسروں کا لحاظ رکھنے کے سلسلے میں بچوں کی حوصلہ‌افزائی کیسے کر سکتے ہیں اور اِس کا بچوں کو کیا فائدہ ہوگا؟‏

6 جب والدین ایک دوسرے کا لحاظ رکھتے ہیں تو وہ اپنے بچوں کے لیے اچھی مثال قائم کرتے ہیں۔‏ دراصل والدین کی ذمےداری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو دوسروں کا لحاظ رکھنا سکھائیں۔‏ مثال کے طور پر وہ اپنے بچوں کی تربیت کر سکتے ہیں کہ وہ کنگڈم ہال میں اِدھر اُدھر نہ بھاگیں۔‏ وہ اُنہیں یہ درس بھی دے سکتے ہیں کہ جب وہ کسی شادی‌بیاہ یا دعوت وغیرہ پر ہوں تو پہلے بڑوں کو کھانا لینے دیں۔‏ اصل میں کلیسیا کے سبھی ارکان بچوں کی تربیت کرنے کے سلسلے میں والدین کی مدد کر سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر جب بچہ ہمارے لیے پاس‌ولحاظ دِکھاتے ہوئے کوئی کام کرتا ہے،‏ مثلاً جب وہ ہمارے لیے دروازہ کھولتا ہے تو ہم اُس کی تعریف کر سکتے ہیں۔‏ اِس کا بچے پر اچھا اثر پڑے گا اور وہ یہ سیکھ پائے گا کہ ”‏لینے کی نسبت دینے میں زیادہ خوشی ہے۔‏“‏—‏اعمال 20:‏35‏۔‏

کلیسیا کے بہن بھائیوں کا لحاظ رکھیں

7.‏ یسوع مسیح نے ایک بہرے آدمی کے احساسات کا لحاظ کیسے رکھا اور ہم یسوع کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

7 ایک دن جب یسوع دِکاپُلِس کے علاقوں سے گزر رہے تھے تو ”‏لوگ ایک آدمی کو یسوع کے پاس لائے جو بہرا تھا اور تتلا کر بولتا تھا۔‏“‏ (‏مرقس 7:‏31-‏35‏)‏ یسوع نے اُسے شفا تو دی مگر دوسروں کے سامنے نہیں۔‏ لیکن کیوں؟‏ بہرا ہونے کی وجہ سے وہ آدمی اِتنی بِھیڑبھاڑ میں شاید تھوڑا سہما ہوا تھا۔‏ غالباً یسوع نے اِس بات کو بھانپ لیا اور شاید اِسی لیے اُنہوں نے اُسے ”‏لوگوں سے دُور ایک طرف“‏ لے جا کر شفا دی۔‏ آج ہم معجزے تو نہیں کر سکتے لیکن ہم اپنے بہن بھائیوں کے احساسات اور ضروریات کے بارے میں ضرور سوچ سکتے ہیں اور اُن کا لحاظ رکھ سکتے ہیں۔‏ اِس حوالے سے پولُس رسول نے لکھا:‏ ”‏آئیں،‏ ایک دوسرے کے بارے میں سوچتے رہیں تاکہ محبت اور اچھے کاموں کی ترغیب دے سکیں۔‏“‏ (‏عبرانیوں 10:‏24‏)‏ یسوع مسیح نے اُس بہرے آدمی کے احساسات کو سمجھا اور اُس کا لحاظ رکھا۔‏ اِس طرح اُنہوں نے ہمارے لیے ایک عمدہ مثال قائم کی۔‏

8،‏ 9.‏ ہم عمررسیدہ اور معذور بہن بھائیوں کا لحاظ کیسے رکھ سکتے ہیں؟‏ (‏کچھ مثالیں دیں۔‏)‏

8 عمررسیدہ اور معذور بہن بھائیوں کا لحاظ رکھیں۔‏ جب ہم ایسے بہن بھائیوں کی مدد کرتے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ ہم خدا کی خدمت میں اُتنا وقت صرف نہ کر پائیں جتنا ہم ویسے کر سکتے ہیں۔‏ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ زیادہ کچھ انجام دینا اُتنا ضروری نہیں ہے جتنا دوسروں کے لیے محبت ظاہر کرنا۔‏ (‏یوحنا 13:‏34،‏ 35‏)‏ محبت ہمیں یہ ترغیب دیتی ہے کہ ہم اِجلاسوں میں جانے اور مُنادی کے کام میں حصہ لینے کے سلسلے میں عمررسیدہ اور معذور بہن بھائیوں کی مدد کے لیے جو بھی کر سکتے ہیں،‏ وہ کریں۔‏ ہم تب بھی ایسا کر سکتے ہیں جب اِس کے لیے ہمیں تھوڑی دشواری کا سامنا ہو یا جب وہ بہن یا بھائی خدا کی خدمت میں زیادہ کچھ انجام نہ دے سکتا ہو۔‏ (‏متی 13:‏23‏)‏ مائیکل نامی ایک بھائی چل نہیں سکتے اور ویل‌چیئر اِستعمال کرتے ہیں۔‏ وہ اُس مدد کے لیے بڑے شکرگزار ہیں جو اُنہیں اپنے گھر والوں اور کلیسیا کے بہن بھائیوں کی طرف سے ملتی ہے۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏اُن کی مدد کی وجہ سے مَیں زیادہ‌تر اِجلاسوں میں جا پاتا ہوں اور مُنادی کے کام میں باقاعدگی سے حصہ لینے کے قابل ہوتا ہوں۔‏ مجھے خاص طور پر عوامی جگہوں پر گواہی دینا بہت پسند ہے۔‏“‏

9 بہت سے ایسے بیت‌ایل ہیں جن میں بعض بہن بھائی عمررسیدہ اور معذور ہیں۔‏ بیت‌ایل میں جو شعبہ ایسے بہن بھائیوں کی دیکھ‌بھال کرتا ہے،‏ اُس کے نگہبان اُن بہن بھائیوں کے لیے یہ بندوبست کرتے ہیں کہ وہ خط لکھ کر اور ٹیلیفون کے ذریعے دوسروں کو گواہی دے سکیں۔‏ اِس طرح وہ اُن کی صورتحال کا لحاظ رکھتے ہیں۔‏ 86 سالہ بھائی بِل دُوردراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو خط لکھتے ہیں۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏ہم اِس بات کی بڑی قدر کرتے ہیں کہ ہمیں خط کے ذریعے دوسروں کو گواہی دینے کا اعزاز ملتا ہے۔‏“‏ نینسی نامی بہن جن کی عمر 90 سال کے لگ بھگ ہے،‏ کہتی ہیں:‏ ”‏لوگوں کو سچائی سیکھنے کی ضرورت ہے۔‏“‏ وہ سمجھتی ہیں کہ خطوں کے ذریعے دوسروں کو گواہی دینے سے وہ اِس کام میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔‏ بہن ایتھل جن کی پیدائش 1921ء میں ہوئی،‏ بیان کرتی ہیں:‏ ”‏درد تو میری زندگی کا حصہ ہے۔‏ کسی کسی دن تو مجھے کپڑے پہننے میں بھی بڑی دشواری ہوتی ہے۔‏“‏ اِس کے باوجود اُنہیں فون کے ذریعے گواہی دینا بہت پسند ہے اور اُن کی کچھ اچھی واپسی ملاقاتیں بھی ہیں۔‏ 85 سالہ بہن باربرا نے کہا:‏ ”‏اپنی خراب صحت کی وجہ سے میرے لیے گھر گھر مُنادی کرنا کافی مشکل ہے۔‏ لیکن مجھے فون کے ذریعے دوسروں کو گواہی دینے کا موقع ملتا ہے۔‏ یہوواہ،‏ تیرا بڑا شکریہ۔‏“‏ ایک بیت‌ایل میں ہمارے پیارے عمررسیدہ بہن بھائیوں نے ایک سال سے بھی کم عرصے کے دوران مُنادی کے کام میں 1228 گھنٹے صرف کیے،‏ 6265 خط لکھے،‏ 2000 سے زیادہ مرتبہ فون کے ذریعے گواہی دی اور 6315 مطبوعات پیش کیں۔‏ ہمیں یقین ہے کہ اُن کی یہ کوششیں دیکھ کر یہوواہ کا دل خوش ہو جاتا ہے۔‏—‏امثال 27:‏11‏۔‏

10.‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہمارے بہن بھائی اِجلاسوں سے بھرپور فائدہ حاصل کر سکیں؟‏

10 اِجلاسوں پر دوسروں کے لیے پاس‌ولحاظ دِکھائیں۔‏ جب ہم اپنے بہن بھائیوں کے لیے پاس‌ولحاظ دِکھائیں گے تو وہ اِجلاسوں سے بھرپور فائدہ حاصل کر پائیں گے۔‏ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟‏ اِس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہم وقت پر اِجلاسوں میں جائیں تاکہ ہماری وجہ سے دوسروں کا پروگرام سے دھیان نہ ہٹے۔‏ سچ ہے کہ کبھی کبھار ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں کہ ہمیں اِجلاسوں پر پہنچنے میں دیر ہو جائے۔‏ لیکن اگر دیر سے جانا ہماری عادت بن گئی ہے تو ہمیں اِس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اِس کا بہن بھائیوں پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔‏ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہم اپنے شیڈول میں کیا ردوبدل کر سکتے ہیں تاکہ ہم وقت پر اِجلاسوں میں پہنچ سکیں۔‏ اِس کے علاوہ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اِجلاسوں پر یہوواہ اور یسوع ہمارے میزبان ہوتے ہیں۔‏ (‏متی 18:‏20‏)‏ بےشک ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ ہم اِجلاس میں دیر سے جا کر اُن کے لیے احترام کی کمی ظاہر کریں۔‏

11.‏ جو بھائی اِجلاسوں میں حصے پیش کرتے ہیں،‏ اُنہیں 1-‏کُرنتھیوں 14:‏40 میں درج ہدایت پر کیوں عمل کرنا چاہیے؟‏

11 اگر ہم اپنے بہن بھائیوں کا لحاظ رکھتے ہیں تو ہم بائبل میں درج اِس ہدایت پر بھی عمل کریں گے:‏ ”‏سب باتیں مناسب طریقے سے اور منظم انداز میں کی جائیں۔‏“‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 14:‏40‏)‏ جو بھائی اِجلاسوں میں حصے پیش کرتے ہیں،‏ وہ اپنے حصوں کو وقت پر ختم کرنے سے اِس ہدایت کی پیروی کرتے ہیں۔‏ اِس طرح وہ نہ صرف اگلا حصہ پیش کرنے والے بھائی کا بلکہ سب بہن بھائیوں کا لحاظ رکھتے ہیں۔‏ ذرا سوچیں کہ اگر اِجلاس دیر سے ختم ہو تو اِس کا کیا نقصان ہو سکتا ہے۔‏ کچھ بہن بھائیوں کو گھر جانے کے لیے لمبا سفر کرنا ہوتا ہے؛‏ بعض کو بس یا ٹرین پکڑنی ہوتی ہے اور کچھ بہن بھائی ایسے بھی ہو سکتے ہیں جن کا جیون ساتھی سچائی میں نہ ہو اور اُن سے ایک مخصوص وقت تک گھر پہنچنے کی توقع کرتا ہو۔‏

12.‏ بزرگ ہماری محبت اور عزت کے حق‌دار کیوں ہیں؟‏ (‏بکس ”‏ پیشوائی کرنے والوں کا لحاظ رکھیں‏“‏ کو دیکھیں۔‏)‏

12 بزرگ بڑی محنت سے کلیسیا کی نگہبانی اور مُنادی کے کام کی پیشوائی کرتے ہیں اِس لیے وہ ہماری محبت اور عزت کے حق‌دار ہیں۔‏ ‏(‏1-‏تھسلُنیکیوں 5:‏12،‏ 13 کو پڑھیں۔‏)‏ بےشک آپ اُس ساری محنت کے لیے اُن کے شکرگزار ہوں گے جو وہ آپ کی خاطر کرتے ہیں۔‏ یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ آپ اُن کی محنت کی قدر کرتے ہیں،‏ اُن کے ساتھ تعاون کریں اور اُن کے فرمانبردار رہیں۔‏ یاد رکھیں کہ ”‏وہ یہ جانتے ہوئے آپ کی دیکھ‌بھال کرتے ہیں کہ اُن کو اِس کا حساب دینا ہوگا۔‏“‏—‏عبرانیوں 13:‏7،‏ 17‏۔‏

مُنادی کے دوران دوسروں کا لحاظ رکھیں

13.‏ یسوع مسیح لوگوں کے ساتھ جس طرح سے پیش آئے،‏ اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏

13 یسعیاہ نبی نے یسوع کے بارے میں پیش‌گوئی کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏وہ مسلے ہوئے سرکنڈے کو نہ توڑے گا اور ٹمٹماتی بتی کو نہ بجھائے گا۔‏“‏ (‏یسعیاہ 42:‏3‏)‏ لوگوں کے لیے محبت نے یسوع کو یہ ترغیب دی کہ وہ اُن کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئیں۔‏ اُنہوں نے اُن لوگوں کے احساسات کو سمجھا جو ”‏مسلے ہوئے سرکنڈے“‏ اور ”‏ٹمٹماتی بتی“‏ کی طرح تھے اور اِسی لیے وہ اُن کے ساتھ پیار اور تحمل سے پیش آئے۔‏ یہاں تک کہ بچوں کو بھی یسوع کے ساتھ وقت گزارنا پسند تھا۔‏ (‏مرقس 10:‏14‏)‏ یہ سچ ہے کہ ہم دوسروں کے احساسات کو اُتنی اچھی طرح نہیں سمجھ سکتے جتنی اچھی طرح یسوع مسیح سمجھتے تھے اور نہ ہی ہم یسوع جیسے ماہر اُستاد ہیں۔‏ لیکن پھر بھی ہم اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے پاس‌ولحاظ دِکھا سکتے ہیں۔‏ اِس حوالے سے آئیں،‏ اِن تین سوالوں پر غور کریں:‏ ہمیں لوگوں سے کیسے بات کرنی چاہیے،‏ کس وقت بات کرنی چاہیے اور کتنی دیر کے لیے بات کرنی چاہیے۔‏

لوگوں سے بات کرتے وقت ہمارے الفاظ اور لہجہ ایسا ہونا چاہیے جس سے ہمدردی اور مہربانی ظاہر ہو۔‏

14.‏ ہمیں اِس بات کا خیال کیوں رکھنا چاہیے کہ ہم مُنادی کے دوران لوگوں سے کیسے بات کرتے ہیں؟‏

14 ہمیں لوگوں سے کیسے بات کرنی چاہیے؟‏ آج کروڑوں لوگ اپنے بےرحم آجروں اور ظالم اور رشوت‌خور سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کی وجہ سے ’‏بےبس اور تنگ‘‏ ہیں۔‏ (‏متی 9:‏36‏)‏ اِس لیے وہ کسی پر بھروسا نہیں کرتے اور بالکل نااُمید ہیں۔‏ لہٰذا ایسے لوگوں سے بات کرتے وقت ہمارے الفاظ اور لہجہ ایسا ہونا چاہیے جس سے ہمدردی اور مہربانی ظاہر ہو۔‏ بہت سے لوگ نہ صرف اِس لیے ہمارے پیغام کو سننے کی طرف مائل ہوتے ہیں کیونکہ ہم بڑی مہارت سے بائبل کی تعلیم دیتے ہیں بلکہ اِس لیے بھی کیونکہ ہم اُن کی بھلائی میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اُن کا احترام کرتے ہیں۔‏

15.‏ اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے پاس‌ولحاظ دِکھانے کے کچھ طریقے بتائیں۔‏

15 ہم کئی طریقوں سے اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے پاس‌ولحاظ دِکھا سکتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر جب ہم اُن سے سوال پوچھتے ہیں تو یہ سوال ایسے ہونے چاہئیں جن سے اُن کے لیے شفقت اور احترام ظاہر ہو۔‏ اِس سلسلے میں ایک پہل‌کار کی مثال پر غور کریں۔‏ وہ ایک ایسے علاقے میں خدمت کرتا تھا جہاں بہت سے لوگ اپنی رائے پیش کرنے سے ہچکچاتے تھے۔‏ وہ پہل‌کار جانتا تھا کہ اگر وہ لوگوں سے ایسے سوال پوچھے گا جن کے جواب وہ نہیں جانتے تو اُنہیں شرمندگی ہوگی اور وہ اپنی رائے پیش کرنے سے اَور بھی زیادہ ہچکچائیں گے۔‏ اِس لیے وہ اُن سے ایسے سوال نہیں پوچھتا تھا کہ ”‏کیا آپ کو خدا کا نام پتہ ہے؟‏“‏ یا ”‏کیا آپ جانتے ہیں کہ خدا کی بادشاہت کیا ہے؟‏“‏ اِس کی بجائے وہ اُن سے کچھ یوں کہتا تھا:‏ ”‏مَیں نے بائبل سے سیکھا ہے کہ خدا کا ایک ذاتی نام ہے۔‏ کیا مَیں آپ کو یہ نام دِکھا سکتا ہوں؟‏“‏ اِس بھائی کا یہ طریقہ شاید ہر جگہ کام نہ آئے کیونکہ ہر علاقے کے لوگ اور ثقافت ایک جیسی نہیں ہوتی۔‏ لیکن ہمیں ہمیشہ اپنے علاقے کے لوگوں کا لحاظ رکھنا چاہیے اور اُن کے ساتھ احترام سے پیش آنا چاہیے۔‏ اِس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اُن سے اچھی طرح واقف ہوں۔‏

16،‏ 17.‏ ہم اُس وقت اپنے علاقے کے لوگوں کا لحاظ کیسے رکھ سکتے ہیں:‏ (‏الف)‏ جب ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم کس وقت اُن کے پاس جائیں گے؟‏ (‏ب)‏ جب ہم یہ طے کرتے ہیں کہ ہم اُن سے کتنی دیر کے لیے بات کریں گے؟‏

16 ہمیں لوگوں کے پاس کس وقت جانا چاہیے؟‏ جب ہم گھر گھر مُنادی کے لیے جاتے ہیں تو ہم ایک لحاظ سے بِن‌بلائے مہمان ہوتے ہیں۔‏ لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ایسے وقت پر لوگوں کے پاس جائیں جب اِس بات کا زیادہ اِمکان ہو کہ وہ ہماری بات سنیں گے۔‏ (‏متی 7:‏12‏)‏ مثال کے طور پر کیا آپ کے علاقے کے لوگ چھٹی والے دن دیر تک سونا پسند کرتے ہیں؟‏ اگر ایسا ہے تو آپ شروع میں عوامی جگہوں پر مُنادی کر سکتے ہیں یا ایسے لوگوں سے واپسی ملاقاتیں کر سکتے ہیں جن کے بارے میں آپ کو پتہ ہو کہ وہ اُٹھ گئے ہوں گے۔‏

17 ہمیں لوگوں سے کتنی دیر بات کرنی چاہیے؟‏ آج‌کل بہت سے لوگوں کی زندگی بڑی مصروف ہے اِس لیے یہ اچھا ہوگا کہ ہم اُن کا زیادہ وقت نہ لیں،‏ خاص طور پر شروع شروع میں۔‏ ہمیں زیادہ دیر تک اُن سے بات کرنے کی بجائے اپنے پیغام کو مختصر رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 9:‏20-‏23‏)‏ جب لوگ یہ دیکھیں گے کہ ہم اُن کی مصروفیات کو سمجھتے ہیں تو وہ اگلی ملاقات پر ہم سے بات کرنے کی طرف زیادہ مائل ہوں گے۔‏ اگر ہم اُن خوبیوں کا مظاہرہ کریں گے جو پاک روح سے پیدا ہوتی ہیں تو اِس سے ظاہر ہوگا کہ ہم واقعی ”‏خدا کے ساتھ کام“‏ کرنے والے ہیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ یہوواہ ہمارے ذریعے کسی شخص کو اپنی طرف کھینچ لے۔‏—‏1-‏کُرنتھیوں 3:‏6،‏ 7،‏ 9‏۔‏

18.‏ اگر ہم دوسروں کا لحاظ رکھیں گے تو ہمیں کون سی برکتیں ملیں گی؟‏

18 لہٰذا آئیں،‏ یہ عزم کریں کہ ہم اپنے گھر والوں،‏ کلیسیا کے بہن بھائیوں اور مُنادی کے دوران ملنے والے لوگوں کا لحاظ رکھیں گے۔‏ ایسا کرنے سے ہمیں اب اور مستقبل میں بہت سی برکتیں ملیں گی جیسا کہ زبور 41:‏1،‏ 2 میں لکھا ہے:‏ ”‏مبارک ہے وہ جو غریب کا خیال رکھتا ہے۔‏ [‏یہوواہ]‏ مصیبت کے دن اُسے چھڑائے گا۔‏ [‏یہوواہ]‏ اُسے محفوظ اور جیتا رکھے گا اور وہ زمین پر مبارک ہوگا۔‏“‏