مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 38

‏’‏میرے پاس آئیں،‏ مَیں آپ کو تازہ‌دم کر دوں گا‘‏

‏’‏میرے پاس آئیں،‏ مَیں آپ کو تازہ‌دم کر دوں گا‘‏

‏”‏آپ سب جو محنت‌مشقت کرتے ہیں اور بوجھ تلے دبے ہیں،‏ میرے پاس آئیں۔‏ مَیں آپ کو تازہ‌دم کر دوں گا۔‏“‏‏—‏متی 11:‏28‏۔‏

گیت نمبر 17‏:‏ مدد کرنے کو تیار

مضمون پر ایک نظر *

1.‏ متی 11:‏28-‏30 میں یسوع نے کیا وعدہ کِیا؟‏

ایک موقعے پر یسوع نے لوگوں کی ایک بِھیڑ سے یہ شان‌دار وعدہ کِیا:‏ ”‏میرے پاس آئیں۔‏ مَیں آپ کو تازہ‌دم کر دوں گا۔‏“‏ ‏(‏متی 11:‏28-‏30 کو پڑھیں۔‏)‏ یہ کوئی کھوکھلا وعدہ نہیں تھا۔‏ اِس سلسلے میں ذرا غور کریں کہ یسوع نے اُس عورت کے لیے کیا کِیا جو ایک تکلیف‌دہ بیماری کا شکار تھی۔‏

2.‏ یسوع نے ایک بیمار عورت کے لیے کیا کِیا؟‏

2 اُس عورت کو مدد کی اشد ضرورت تھی۔‏ وہ بہت سے حکیموں سے علاج کروا چُکی تھی۔‏ لیکن 12 سال تکلیف جھیلنے کے بعد بھی وہ ٹھیک نہیں ہوئی تھی۔‏ شریعت کے مطابق وہ ناپاک تھی۔‏ (‏احبا 15:‏25‏)‏ مگر جب اُس نے سنا کہ یسوع بیماروں کو ٹھیک کر سکتے ہیں تو وہ اُنہیں ڈھونڈنے نکلی۔‏ اور جب یسوع اُسے ملے تو اُس نے چپکے سے اُن کی چادر کی جھالر کو چُھوا اور وہ فوراً ٹھیک ہو گئی۔‏ مگر یسوع نے اُسے شفا ہی نہیں دی بلکہ اُس کی کھوئی ہوئی عزتِ‌نفس کو بھی بحال کِیا۔‏ مثال کے طور پر جب وہ اُس سے بات کر رہے تھے تو اُنہوں نے اُس کے لیے شفقت اور احترام دِکھاتے ہوئے اُسے ”‏بیٹی“‏ کہہ کر مخاطب کِیا۔‏ ذرا سوچیں کہ اِس موقعے پر اُس عورت کے ساتھ جو کچھ ہوا،‏ اُس سے وہ کتنی تازہ‌دم ہو گئی ہوگی!‏—‏لُو 8:‏43-‏48‏۔‏

3.‏ اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

3 غور کریں کہ اُس عورت نے یسوع کے پاس جانے کے لیے خود پہل کی تھی۔‏ ہمیں بھی یسوع کے پاس جانے کے لیے خود پہل کرنی ہوگی۔‏ سچ ہے کہ آج یسوع اپنے ’‏پاس آنے‘‏ والوں کو اُن کی بیماریوں سے معجزانہ طور پر شفا تو نہیں دیں گے لیکن اُن کی یہ دعوت سب کے لیے کُھلی ہے:‏ ”‏میرے پاس آئیں۔‏ مَیں آپ کو تازہ‌دم کر دوں گا۔‏“‏ اِس مضمون میں ہم اِن پانچ سوالوں کے جواب حاصل کریں گے:‏ ہم یسوع کے پاس کیسے جا سکتے ہیں؟‏ یسوع کی اِس بات کا کیا مطلب تھا کہ ”‏میرا جُوا اُٹھا لیں“‏؟‏ ہم یسوع سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ یسوع نے ہمیں جو کام سونپا ہے،‏ وہ تازگی‌بخش کیوں ہے؟‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم یسوع کے جُوئے سے تازگی حاصل کرتے رہیں؟‏

‏”‏میرے پاس آئیں“‏

4،‏ 5.‏ یسوع کے پاس جانے کے کچھ طریقے کیا ہیں؟‏

4 یسوع کے پاس جانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم اُن کی باتوں اور کاموں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ سیکھیں۔‏ (‏لُو 1:‏1-‏4‏)‏ اور یہ ایسا کام ہے جو کوئی اَور ہمارے لیے نہیں کر سکتا۔‏ ہمیں خود بائبل سے اُن کے بارے میں سیکھنا ہوگا۔‏ ہم بپتسمہ لینے اور مسیح کے شاگرد بننے سے بھی یسوع کے پاس جاتے ہیں۔‏

5 یسوع کے پاس جانے کا ایک اَور طریقہ یہ ہے کہ ہم کلیسیا کے بزرگوں سے مدد حاصل کرنے کے لیے پہل کریں۔‏ یہ بزرگ ”‏آدمیوں کے رُوپ میں نعمتیں“‏ ہیں جنہیں یسوع اپنی بھیڑوں کی دیکھ‌بھال کرنے کے لیے اِستعمال کرتے ہیں۔‏ (‏اِفس 4:‏7،‏ 8،‏ 11؛‏ یوح 21:‏16؛‏ 1-‏پطر 5:‏1-‏3‏)‏ ہمیں یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ وہ ہمارے دل کو پڑھ کر خود اندازہ لگائیں کہ ہمیں کس طرح کی مدد کی ضرورت ہے۔‏ ذرا جولین نامی بھائی کی مثال پر غور کریں۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏مجھے اپنی صحت کی وجہ سے بیت‌ایل سے آنا پڑا۔‏ میرے ایک دوست نے مجھے مشورہ دیا کہ مَیں بزرگوں سے درخواست کروں کہ وہ میرا حوصلہ بڑھانے کے لیے میرے پاس آئیں۔‏ پہلے تو مَیں نے سوچا کہ مجھے اِس کی ضرورت نہیں ہے۔‏ لیکن بعد میں مَیں نے اُنہیں اپنے گھر آنے کو کہا۔‏ وہ ملاقات میرے لیے ایک بہت بڑی نعمت ثابت ہوئی۔‏“‏ جولین کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ بزرگ ”‏مسیح کی سوچ“‏ کو جاننے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں تاکہ ہم بہتر طور پر مسیح کے نقشِ‌قدم پر چل سکیں۔‏ (‏1-‏کُر 2:‏16؛‏ 1-‏پطر 2:‏21‏)‏ بزرگوں کی طرف سے ملنے والی یہ مدد ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی۔‏

‏”‏میرا جُوا اُٹھا لیں“‏

6.‏ یسوع کی اِس بات کا کیا مطلب تھا کہ ”‏میرا جُوا اُٹھا لیں؟‏“‏

6 جب یسوع نے کہا کہ ”‏میرا جُوا اُٹھا لیں“‏ تو شاید اُن کا مطلب یہ تھا کہ ہم اُن کے اِختیار کو تسلیم کریں۔‏ یا پھر شاید وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ ”‏آئیں،‏ میرے ساتھ جُوئے میں جت جائیں اور ہم مل کر یہوواہ کا کام کرتے ہیں۔‏“‏ دونوں ہی صورتوں میں یسوع کا جُوا اُٹھانے کے لیے کوشش درکار ہے۔‏

7.‏ متی 28:‏18-‏20 کے مطابق ہمیں کیا کام سونپا گیا ہے اور ہم کس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں؟‏

7 جب ہم اپنی زندگی یہوواہ کے لیے وقف کرتے اور بپتسمہ لیتے ہیں تو ہم یسوع کا جُوا اُٹھا لیتے ہیں۔‏ یہ دعوت سب لوگوں کے لیے ہے۔‏ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏ کیونکہ یسوع مسیح کبھی بھی کسی ایسے شخص کو نہیں دھتکاریں گے جو دل سے یہوواہ کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔‏ (‏یوح 6:‏37،‏ 38‏)‏ مسیح کے سب پیروکاروں کو اُس کام میں حصہ لینے کا شرف بخشا گیا ہے جو یہوواہ نے یسوع کو سونپا تھا۔‏ ہم پورا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یسوع مسیح اِس کام کو سرانجام دینے میں ہمیشہ ہمارا ساتھ دیں گے۔‏‏—‏متی 28:‏18-‏20 کو پڑھیں۔‏

‏”‏مجھ سے سیکھیں“‏

یسوع کی طرح دوسروں کو تازہ‌دم کریں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 8-‏11 کو دیکھیں۔‏)‏ *

8،‏ 9.‏ ‏(‏الف)‏ خاکسار لوگ یسوع کی طرف کیوں کھنچے چلے آتے تھے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں خود سے کون سے سوال پوچھنے چاہئیں؟‏

8 خاکسار لوگ یسوع کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔‏ (‏متی 19:‏13،‏ 14؛‏ لُو 7:‏37،‏ 38‏)‏ ایسا کیوں تھا؟‏ کیونکہ یسوع مسیح اپنے زمانے کے مذہبی رہنماؤں سے بالکل فرق تھے۔‏ فریسی محبت سے عاری اور مغرور تھے جبکہ یسوع مسیح بہت ہی شفیق اور خاکسار تھے۔‏ (‏متی 12:‏9-‏14‏)‏ فریسی معاشرے میں اُونچا رُتبہ حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو سکھایا کہ وہ خود کو چھوٹا سمجھیں اور دوسروں کی خدمت کریں۔‏ (‏متی 23:‏2،‏ 6-‏11‏)‏ فریسی عام لوگوں کو اپنی مٹھی میں رکھنے کے لیے اُنہیں ڈراتے دھمکاتے تھے۔‏ (‏یوح 9:‏13،‏ 22‏)‏ مگر یسوع مسیح نے اپنی نرم باتوں اور شفقت بھرے کاموں سے دوسروں کو تازہ‌دم کِیا۔‏

9 کیا آپ اِس حوالے سے یسوع کی مثال پر عمل کر رہے ہیں؟‏ خود سے پوچھیں:‏ ”‏کیا دوسرے مجھے ایک خاکسار اور نرم‌مزاج شخص خیال کرتے ہیں؟‏ کیا مَیں دوسروں کی خدمت کرنے کے لیے معمولی کام کرنے کو بھی تیار ہوتا ہوں؟‏ کیا مَیں دوسروں کے ساتھ شفقت سے پیش آتا ہوں؟‏“‏

10.‏ یسوع نے کیا کِیا تاکہ اُن کے شاگرد خوشی سے خدا کی خدمت کر سکیں؟‏

10 یسوع نے خوشی سے اپنے پیروکاروں کی تربیت کی اور اُن کے لیے ایک ایسا پُرسکون ماحول پیدا کِیا جس میں وہ بھی خوشی سے خدا کی خدمت کر سکیں۔‏ (‏لُو 10:‏1،‏ 19-‏21‏)‏ یسوع کی شخصیت ایسی تھی کہ اُن کے شاگرد بِلاجھجک اُن سے سوال پوچھ سکتے تھے۔‏ اِس کے علاوہ یسوع اُنہیں اپنی رائے اور خیالات کا اِظہار کرنے کے لیے بھی کہتے تھے۔‏ (‏متی 16:‏13-‏16‏)‏ جس طرح خراب موسم اور سخت ہواؤں سے محفوظ رکھے جانے والے پودے ہرے بھرے رہتے ہیں اُسی طرح یسوع کے سائے تلے اُن کے شاگرد سرسبزوشاداب رہے۔‏ اُنہوں نے یسوع کی سکھائی باتوں کو اپنے دل میں جذب کر لیا اور اچھے کام کر کے بہت سا پھل لائے۔‏

ملنسار ہوں

لگن سے خدمت کریں

خاکسار اور محنتی ہوں *

11.‏ ہمیں خود سے کون سے سوال پوچھنے چاہئیں؟‏

11 کیا آپ کے پاس کسی حد تک اِختیار ہے؟‏ اگر ایسا ہے تو خود سے پوچھیں:‏ ”‏مَیں اپنے گھر یا کام کی جگہ پر کس قسم کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں؟‏ کیا مَیں امن کی فضا قائم کرتا ہوں؟‏ کیا مَیں ایک ایسا شخص ہوں جس سے لوگ بِلاجھجک سوال پوچھتے ہیں؟‏ اور کیا مَیں اُن کی رائے سننے کو تیار ہوتا ہوں؟‏“‏ بےشک ہم کبھی بھی فریسیوں کی طرح نہیں بننا چاہیں گے جو لوگوں کے سوال پوچھنے پر بھڑک اُٹھتے تھے اور اُن لوگوں کو اذیت دیتے تھے جو اُن سے فرق رائے رکھتے تھے۔‏—‏مر 3:‏1-‏6؛‏ یوح 9:‏29-‏34‏۔‏

‏”‏آپ تازہ‌دم ہو جائیں گے“‏

12-‏14.‏ ہم اُس کام کو کرنے سے تازہ‌دم کیوں ہو جاتے ہیں جو یسوع نے ہمیں سونپا ہے؟‏

12 یسوع نے ہمیں جو کام سونپا ہے،‏ وہ تازگی‌بخش کیوں ہے؟‏ اِس کی بہت سی وجوہات ہیں۔‏ آئیں،‏ اِن میں سے کچھ پر غور کرتے ہیں۔‏

13 ہماری نگہبانی کرنے والے بہترین نگہبان ہیں۔‏ ہمارا عظیم‌ترین نگہبان یہوواہ بڑا رحم‌دل اور قدر کرنے والا ہے۔‏ وہ ہماری اُن کوششوں کی بہت قدر کرتا ہے جو ہم اُس کی خدمت کرنے کے لیے کرتے ہیں۔‏ (‏عبر 6:‏10‏)‏ وہ ہمیں ’‏اپنی ذمےداریوں کا بوجھ اُٹھانے‘‏ کی طاقت دیتا ہے۔‏ (‏2-‏کُر 4:‏7؛‏ گل 6:‏5‏)‏ ہمارے بادشاہ یسوع مسیح بھی ایک اچھے نگہبان ہیں اور اُنہوں نے اِس حوالے سے شان‌دار مثال قائم کی ہے۔‏ (‏یوح 13:‏15‏)‏ اِس کے علاوہ ہماری کلیسیا کے بزرگ جنہیں ہماری دیکھ‌بھال کرنے کی ذمےداری سونپی گئی ہے،‏ وہ ”‏عظیم چرواہے“‏ یسوع کی مثال پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ (‏عبر 13:‏20؛‏ 1-‏پطر 5:‏2‏)‏ وہ ہمیں تعلیم دیتے اور تحفظ فراہم کرتے وقت نرمی،‏ شفقت اور دلیری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‏

14 ہمیں بہترین دوستوں کا ساتھ حاصل ہے۔‏ زمین پر ایسا کوئی گروہ نہیں جس کے ارکان میں محبت کا اُتنا مضبوط بندھن ہو جتنا یہوواہ کے بندوں میں ہے۔‏ اور نہ ہی کوئی ایسا گروہ ہے جس کے پاس اُتنا بامقصد کام ہو جتنا یہوواہ کے بندوں کے پاس ہے۔‏ ذرا سوچیں،‏ ہمیں ایسے لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز ملا ہے جو اِتنے اعلیٰ اخلاقی معیاروں کے مالک ہونے کے باوجود اپنی نیکی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتے۔‏ وہ باصلاحیت ہونے کے باوجود خاکسار ہیں اور دوسروں کو خود سے بہتر سمجھتے ہیں۔‏ وہ ہمیں محض اپنے ساتھ کام کرنے والا ہی نہیں بلکہ اپنا دوست سمجھتے ہیں۔‏ دوستی کا یہ بندھن اِتنا مضبوط ہے کہ ہمارے بہن بھائی خوشی خوشی ہمارے لیے اپنی جان دینے کو بھی تیار ہوتے ہیں۔‏

15.‏ ہمیں اُس کام کو کیسا خیال کرنا چاہیے جو ہمیں سونپا گیا ہے؟‏

15 ہمیں بہترین کام سونپا گیا ہے۔‏ ہم لوگوں کو یہوواہ کے بارے میں سچائی بتاتے ہیں اور شیطان کے پھیلائے جھوٹ کو بےنقاب کرتے ہیں۔‏ (‏یوح 8:‏44‏)‏ شیطان لوگوں پر ایسے بھاری بوجھ لادتا ہے جو وہ اُٹھا نہیں سکتے۔‏ مثال کے طور پر وہ اُنہیں یہ احساس دِلانا چاہتا ہے کہ یہوواہ اُن کے گُناہوں کو کبھی معاف نہیں کرے گا اور وہ اُس کی محبت کے لائق نہیں۔‏ یہ بہت بڑا جھوٹ اور ایسا بھاری بوجھ ہے جو لوگوں کو کچل ڈالتا ہے۔‏ حقیقت تو اِس کے بالکل اُلٹ ہے۔‏ مسیح کے پاس جانے سے ہمارے گُناہ معاف ہو جاتے ہیں اور یہوواہ ہم سے دل کی گہرائیوں سے محبت کرتا ہے۔‏ (‏روم 8:‏32،‏ 38،‏ 39‏)‏ ہمیں اُس وقت بڑا اِطمینان ملتا ہے جب ہم یہوواہ پر بھروسا رکھنے میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔‏ اور ہماری خوشی اُس وقت اَور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم لوگوں کو اپنی زندگیوں میں بہتری لاتے دیکھتے ہیں۔‏

یسوع کے جُوئے سے تازگی حاصل کرتے رہیں

16.‏ یسوع نے ہمیں جو بوجھ اُٹھانے کو کہا ہے،‏ وہ دیگر بوجھوں سے کیسے فرق ہے؟‏

16 یسوع نے ہمیں جو بوجھ اُٹھانے کو کہا ہے،‏ وہ دیگر بوجھوں سے فرق ہے۔‏ مثال کے طور پر ملازمت کی جگہ پر ہم سارا دن کام کرنے کے بعد تھک کر چُور ہو جاتے ہیں اور شاید ہمیں اپنی محنت سے اِطمینان نہیں ملتا۔‏ اِس کے برعکس یہوواہ اور یسوع کی خدمت کرنے کے بعد ہم گہری خوشی اور دلی سکون محسوس کرتے ہیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ سارا دن کام کرنے کے بعد ہم اِتنا تھک جائیں کہ ہمارا اِجلاس پر جانے کو دل نہ کرے۔‏ لیکن جب ہم تھکاوٹ کے باوجود اِجلاس پر جاتے ہیں تو اکثر ہم تازہ‌دم ہو کر گھر لوٹتے ہیں۔‏ یہی بات مُنادی کرنے اور ذاتی مطالعہ کرنے کے حوالے سے بھی سچ ہے۔‏ اِن کاموں کو کرنے کے لیے ہم جو بھی محنت کرتے ہیں،‏ وہ اُن فائدوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو ہمیں یہ کام کرنے سے ملتے ہیں۔‏

17.‏ ہمیں کس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے اور کیوں؟‏

17 ہمیں اِس بات کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارے پاس ہر کام کرنے کی طاقت نہیں ہے۔‏ لہٰذا ہمیں دھیان رکھنا چاہیے کہ ہم کن کاموں میں اپنا وقت لگائیں گے۔‏ مثال کے طور پر اگر ہم خبردار نہیں رہیں گے تو ہم اپنی طاقت مال‌ودولت اِکٹھی کرنے میں ضائع کر بیٹھیں گے۔‏ ذرا غور کریں کہ یسوع مسیح نے ایک جوان آدمی سے کیا کرنے کو کہا جس نے اُن سے پوچھا:‏ ”‏مجھے کیا کرنا چاہیے تاکہ مَیں ہمیشہ کی زندگی ورثے میں پاؤں؟‏“‏ وہ آدمی پہلے سے ہی خدا کی شریعت پر عمل کر رہا تھا۔‏ یقیناً وہ ایک اچھا آدمی ہوگا کیونکہ مرقس نے اپنی اِنجیل میں اِس واقعے کو بیان کرتے وقت کہا کہ ”‏یسوع .‏ .‏ .‏ کو اُس پر پیار آیا۔‏“‏ یسوع نے اُس جوان حاکم کو دعوت دیتے ہوئے کہا:‏ ”‏جائیں،‏ اپنا مال بیچ“‏ دیں اور ”‏میرے پیروکار بن جائیں۔‏“‏ وہ آدمی یسوع کی پیروی تو کرنا چاہتا تھا لیکن وہ مال‌ودولت کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔‏ (‏مر 10:‏17-‏22‏)‏ اِس لیے اُس نے یسوع کا جُوا اُٹھانے کی دعوت کو رد کر دیا اور ”‏دولت“‏ کی غلامی کرنا جاری رکھی۔‏ (‏متی 6:‏24‏)‏ اگر آپ اُس امیر آدمی کی جگہ ہوتے تو آپ کیا فیصلہ کرتے؟‏

18.‏ ہمیں وقتاًفوقتاً کیا کرنا چاہیے اور کیوں؟‏

18 ہمیں وقتاًفوقتاً اِس بات پر غور کرنا چاہیے کہ ہم کن چیزوں کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دے رہے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے ہم یہ اندازہ لگا سکیں گے کہ آیا ہم اپنی طاقت کو سمجھ‌داری سے اِستعمال کر رہے ہیں یا نہیں۔‏ ذرا مارک نامی جوان آدمی کی بات پر غور کریں۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏بہت سالوں تک مجھے لگا کہ مَیں سادہ زندگی گزار رہا ہوں۔‏ مَیں پہل‌کار کے طور پر خدمت تو کر رہا تھا لیکن مَیں زیادہ پیسے کمانے اور اپنی زندگی کو اَور آرام‌دہ بنانے کی جستجو میں لگا ہوا تھا۔‏ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میری زندگی ایک بوجھ کیوں بنتی جا رہی ہے۔‏ پھر مجھے احساس ہوا کہ مَیں اپنی خواہشوں کو پہلا درجہ دے رہا ہوں اور یہوواہ کو بچا کچا وقت اور طاقت۔‏“‏ مارک اپنی سوچ اور زندگی میں تبدیلیاں لائے اور یہوواہ کی خدمت کو اَور زیادہ وقت دینے لگے۔‏ وہ بتاتے ہیں:‏ ”‏کبھی کبھار مَیں پیسوں کو لے کر فکرمند ہو جاتا ہوں۔‏ لیکن یہوواہ اور یسوع کی مدد سے مَیں اپنا دھیان زیادہ اہم باتوں پر رکھنے کے قابل ہوا ہوں۔‏“‏

19.‏ یہوواہ کی ہدایات پر عمل کرنا کیوں ضروری ہے؟‏

19 یسوع کے جُوئے سے تازگی حاصل کرتے رہنے کے لیے ہم تین کام کر سکتے ہیں۔‏ پہلا یہ کہ یہوواہ کی ہدایات پر عمل کریں۔‏ چونکہ ہم یہوواہ کا کام کر رہے ہیں اِس لیے ہمیں اِسے اُسی کے طریقے سے انجام دینا چاہیے۔‏ یاد رکھیں کہ یہوواہ مالک ہے اور ہم اُس کے غلام ہیں۔‏ (‏لُو 17:‏10‏)‏ اگر ہم اُس کا کام اپنے طریقے سے کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ ایسے ہوگا جیسے ہم یسوع کے جُوئے سے فرق سمت میں جا رہے ہوں۔‏ اِس سلسلے میں ذرا ایک ایسے بیل کی مثال پر غور کریں جس کے اُوپر اُس کے مالک نے جُوا رکھا ہو۔‏ یہ بیل چاہے جتنا بھی طاقت‌ور ہو،‏ اگر وہ اُس سمت میں نہیں جاتا جس سمت میں اُس کا مالک اُسے ہانک رہا ہے تو وہ تھک جائے گا اور خود کو زخمی کر لے گا۔‏ اگر ہم یہوواہ کی ہدایت پر عمل کرتے ہیں تو ہم اپنے راستے میں آنے والی کسی بھی رُکاوٹ پر قابو پا سکیں گے اور ایسے کام بھی کر سکیں گے جن کے بارے میں ہمیں لگتا ہے کہ وہ ہمارے بس میں نہیں۔‏ یاد رکھیں کہ کوئی بھی یہوواہ کو اُس کی مرضی پوری کرنے سے نہیں روک سکتا۔‏—‏روم 8:‏31؛‏ 1-‏یوح 4:‏4‏۔‏

20.‏ ہمیں کس نیت سے یسوع کا جُوا اُٹھانا چاہیے؟‏

20 دوسرا یہ کہ صحیح نیت سے کام کریں۔‏ ہم اِس مقصد سے یسوع کا جُوا اُٹھاتے ہیں کہ اپنے شفیق آسمانی باپ کی بڑائی کر سکیں۔‏ پہلی صدی میں جن لوگوں نے لالچ اور خودغرضی کی بِنا پر یسوع کا جُوا اُٹھایا،‏ اُنہوں نے جلد ہی اپنی خوشی کھو دی اور اِس جُوئے کو اپنے اُوپر سے اُتار پھینکا۔‏ (‏یوح 6:‏25-‏27،‏ 51،‏ 60،‏ 66؛‏ فل 3:‏18،‏ 19‏)‏ اُن کے برعکس جو لوگ خدا اور پڑوسی سے بےلوث محبت کی بِنا پر یسوع کے جُوئے میں جتے،‏ اُنہوں نے اپنی پوری زمینی زندگی کے دوران خوشی سے یسوع کے جُوئے کو اُٹھائے رکھا۔‏ اگر ہم صحیح نیت سے یسوع کا جُوا اُٹھائے رکھیں گے تو ہم بھی خوش رہیں گے۔‏

21.‏ متی 6:‏31-‏33 کے مطابق ہمیں یہوواہ پر بھروسا کیوں کرنا چاہیے؟‏

21 تیسرا یہ کہ یہوواہ پر پورا بھروسا رکھیں۔‏ ہم نے اپنے لیے ایک ایسی زندگی چُنی ہے جس کے لیے محنت اور قربانی کا جذبہ درکار ہے۔‏ یسوع نے ہمیں آگاہ کِیا کہ ہمیں اذیت دی جائے گی۔‏ لیکن ہم بھروسا رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمیں ہر مشکل کو برداشت کرنے کی طاقت دے گا۔‏ ہم جتنا زیادہ ثابت‌قدم رہیں گے،‏ اُتنا ہی ہم مضبوط ہوتے جائیں گے۔‏ (‏یعقو 1:‏2-‏4‏)‏ ہم اِن باتوں کا بھی یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہماری ضروریات پوری کرے گا،‏ ہمارے عظیم چرواہے یسوع ہماری گلّہ‌بانی کریں گے اور ہمارے بہن بھائی ہمارا حوصلہ بڑھائیں گے۔‏ ‏(‏متی 6:‏31-‏33 کو پڑھیں؛‏ یوح 10:‏14؛‏ 1-‏تھس 5:‏11‏)‏ مشکلوں میں ثابت‌قدم رہنے کے لیے بھلا ہمیں اِس سے زیادہ اَور کیا چاہیے!‏

22.‏ ہمیں کس بات کی خوشی ہے؟‏

22 یسوع نے جس عورت کو شفا دی،‏ وہ اُس وقت تو تازہ‌دم ہو گئی تھی لیکن اُسے دائمی تازگی تبھی مل سکتی تھی اگر وہ یسوع کی شاگرد بنتی۔‏ آپ کے خیال میں اُس عورت نے کیا کِیا ہوگا؟‏ اگر اُس نے یسوع کی دعوت قبول کرتے ہوئے اُن کا جُوا اُٹھا لیا ہوگا تو ذرا سوچیں کہ اُسے کتنا بڑا اعزاز مل سکتا تھا یعنی یسوع کے ساتھ آسمان پر خدمت کرنے کا اعزاز!‏ یسوع کا پیروکار بننے کے لیے اُس نے جو بھی قربانیاں دی ہوں گی،‏ وہ اِس اعزاز کے آگے بالکل پھیکی پڑ گئی ہوں گی۔‏ چاہے ہم آسمان پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی اُمید رکھتے ہوں یا زمین پر،‏ ہمیں اِس بات کی بےحد خوشی ہے کہ ہم نے یسوع کی اِس دعوت کو قبول کِیا ہے:‏ ”‏میرے پاس آئیں۔‏“‏

گیت نمبر 13‏:‏ مسیح کی عمدہ مثال

^ پیراگراف 5 یسوع ہمیں اپنے پاس آنے کی دعوت دیتے ہیں۔‏ لیکن اِس دعوت کو قبول کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ اِس مضمون میں اِس سوال کا جواب دیا جائے گا۔‏ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ مسیح کے ساتھ کام کرنے سے ہم تازہ‌دم کیسے ہو سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 60 تصویر کی وضاحت‏:‏ یسوع مسیح نے کئی طریقوں سے دوسروں کو تازہ‌دم کِیا۔‏

^ پیراگراف 66 تصویر کی وضاحت‏:‏ یسوع مسیح کی طرح ایک بھائی فرق فرق صورتحال میں دوسروں کو تازہ‌دم کر رہا ہے۔‏