مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 35

یہوواہ اپنے خاکسار بندوں کو بیش‌قیمت خیال کرتا ہے

یہوواہ اپنے خاکسار بندوں کو بیش‌قیمت خیال کرتا ہے

‏”‏[‏یہوواہ]‏ ‏.‏ .‏ .‏ خاکسار کا خیال رکھتا ہے۔‏“‏‏—‏زبور 138:‏6‏۔‏

گیت نمبر 48‏:‏ ہر روز خدا کی رہنمائی پر چلیں

مضمون پر ایک نظر *

1.‏ یہوواہ خاکسار لوگوں کو کیسا خیال کرتا ہے؟‏

یہوواہ خاکسار لوگوں سے محبت کرتا ہے۔‏ وہ صرف اُنہی کو اپنی قُربت میں آنے دیتا ہے جو دل سے خاکسار ہوتے ہیں۔‏ لیکن وہ ”‏مغروروں کی مخالفت کرتا ہے۔‏“‏ (‏1-‏پطر 5:‏5‏)‏ ہم سب کی دلی خواہش ہے کہ ہم یہوواہ خدا کو خوش کریں اور اُس کی محبت کو محسوس کریں۔‏ اِسی لیے ہم خاکسار بننے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔‏

2.‏ اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

2 اِس مضمون میں ہم اِن تین سوالوں کے جواب حاصل کریں گے:‏ (‏1)‏ خاکساری کیا ہے؟‏ (‏2)‏ ہمیں اپنے اندر اِس خوبی کو کیوں پیدا کرنا چاہیے؟‏ اور (‏3)‏ کن صورتحال میں ہماری خاکساری کا اِمتحان ہو سکتا ہے؟‏ ہم دیکھیں گے کہ جب ہم خاکساری کی خوبی پیدا کرتے ہیں تو ہم یہوواہ کے دل کو خوش کرتے ہیں اور ہمیں خود بھی بہت سے فائدے ہوتے ہیں۔‏—‏امثا 27:‏11؛‏ یسع 48:‏17‏۔‏

خاکساری کیا ہے؟‏

3.‏ خاکساری کیا ہے؟‏

3 خاکساری دوسروں کو اپنے سے بہتر سمجھنے اور غرور یا گھمنڈ سے پاک ہونے کا نام ہے۔‏ بائبل کے مطابق ایک خاکسار شخص اپنی ذات کے متعلق مناسب نظریہ رکھتا ہے۔‏ وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہوواہ خدا اُس سے کہیں افضل ہے اور یہ مانتا ہے کہ ہر شخص اُس سے کسی نہ کسی لحاظ سے بہتر ہے۔‏—‏فل 2:‏3،‏ 4‏۔‏

4،‏ 5.‏ کسی شخص کے خاکسار ہونے کا اندازہ اُس کی ظاہری صورت سے کیوں نہیں لگایا جا سکتا؟‏

4 کچھ لوگ جو ظاہری طور پر خاکسار نظر آتے ہیں،‏ اندر سے مغرور ہو سکتے ہیں۔‏ شاید وہ خاموش طبیعت یا شرمیلے ہونے کی وجہ سے خاکسار دِکھائی دیتے ہیں۔‏ یا پھر شاید وہ اپنی ثقافت یا پرورش کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ ادب اور خوش‌اخلاقی سے پیش آتے ہیں اور اِس وجہ سے ہمیں خاکسار لگتے ہیں۔‏ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ایک نہ ایک دن اُن کا اصل چہرہ دوسروں کے سامنے آ ہی جاتا ہے۔‏—‏لُو 6:‏45‏۔‏

5 اِس کے برعکس جو لوگ دِکھنے میں پُراِعتماد اور بےباک ہوتے ہیں،‏ ضروری نہیں کہ وہ مغرور بھی ہوں۔‏ (‏یوح 1:‏46،‏ 47‏)‏ البتہ ایسے لوگوں کو خبردار رہنا چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں پر بھروسا نہ کرنے لگیں۔‏ چاہے ہم پُراعتماد ہوں یا شرمیلے،‏ ہم سب کو دل سے خاکسار بننے کی سخت کوشش کرنی چاہیے۔‏

پولُس رسول خود کو دوسروں سے اہم نہیں سمجھتے تھے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 6 کو دیکھیں۔‏)‏ *

6.‏ پہلا کُرنتھیوں 15:‏10 میں پولُس نے اپنے بارے میں جو کچھ کہا،‏ اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏

6 ذرا پولُس رسول کی مثال پر غور کریں۔‏ یہوواہ خدا نے اُنہیں بڑے ہی زبردست طریقے سے اِستعمال کِیا۔‏ پولُس نے ایک کے بعد ایک شہر میں نئی کلیسیائیں قائم کیں۔‏ خدا کی خدمت میں پولُس نے جتنا کام کِیا،‏ اُتنا شاید ہی یسوع کے کسی اَور رسول نے کِیا ہو۔‏ لیکن پھر بھی اُنہوں نے خود کو اپنے مسیحی بہن بھائیوں سے زیادہ اہم نہیں سمجھا۔‏ اُنہوں نے بڑی خاکساری سے کہا:‏ ”‏میرا مرتبہ تمام رسولوں میں سب سے چھوٹا ہے اور مَیں اِس لائق نہیں کہ مجھے رسول کہا جائے کیونکہ مَیں خدا کی کلیسیا کو اذیت پہنچاتا تھا۔‏“‏ (‏1-‏کُر 15:‏9‏)‏ پھر اُنہوں نے تسلیم کِیا کہ اُنہیں خدا کی خوشنودی اِس لیے حاصل ہے کیونکہ خدا نے اُن پر عظیم رحمت ظاہر کی،‏ نہ کہ اِس لیے کہ وہ بہت خاص ہیں یا اُنہوں نے بڑے بڑے کام انجام دیے ہیں۔‏ ‏(‏1-‏کُرنتھیوں 15:‏10 کو پڑھیں۔‏)‏ جب پولُس نے کُرنتھس کی کلیسیا کے نام خط لکھا تو اُس وقت اُس کلیسیا کے بعض ارکان خود کو اُن سے افضل سمجھتے تھے۔‏ لیکن پھر بھی پولُس نے خط میں اپنے بارے میں ذرا بھی شیخی نہیں ماری۔‏ پولُس واقعی خاکساری کی عمدہ مثال تھے۔‏—‏2-‏کُر 10:‏10‏۔‏

بھائی کارل کلائن گورننگ باڈی کے ایک رُکن تھے اور وہ بہت خاکسار تھے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 7 کو دیکھیں۔‏)‏

7.‏ جدید زمانے میں ایک ذمےدار بھائی نے خاکساری کیسے ظاہر کی؟‏

7 جدید زمانے میں بھی خدا کے بندوں نے خاکساری کی مثال قائم کی۔‏ اِن ہی میں سے ایک بھائی کارل کلائن تھے جو کہ گورننگ باڈی کے ایک رُکن تھے۔‏ بھائی کارل نے اپنی آپ‌بیتی میں بڑی خاکساری سے اپنی اُن خامیوں اور کمزوریوں کے بارے میں بتایا جن کا اُنہیں اپنی زندگی میں سامنا رہا۔‏ مثال کے طور پر 1922ء میں جب اُنہوں نے پہلی بار گھر گھر مُنادی کے کام میں حصہ لیا تو اُنہیں یہ کام اِتنا مشکل لگا کہ اُنہوں نے دو سال تک اِسے پھر نہیں کِیا۔‏ بعد میں جب وہ بیت‌ایل میں خدمت کر رہے تھے تو ایک بار کسی نے اُن کی اِصلاح کی جس پر وہ کچھ عرصے تک اپنے دل میں رنجش پالتے رہے۔‏ اِس کے علاوہ وہ سخت ڈپریشن میں بھی مبتلا ہو گئے جس کی وجہ سے وہ کچھ وقت کے لیے بالکل گھر کے ہو کر رہ گئے۔‏ اِن سب کے باوجود اُنہوں نے خدا کی خدمت میں بہت سی اہم ذمےداریاں نبھائیں۔‏ حالانکہ بھائی کارل کو بہت سے بہن بھائی جانتے تھے لیکن پھر بھی اُنہوں نے کُھل کر اپنی خامیوں کے بارے میں بات کی۔‏ یقیناً ایک خاکسار شخص ہی ایسا کر سکتا ہے۔‏ بہت سے بہن بھائی آج بھی بھائی کارل کو اچھے لفظوں میں یاد کرتے ہیں اور اُن کی آپ‌بیتی نے کئی بہن بھائیوں کے دلوں کو چُھوا ہے۔‏ *

ہمیں خود میں خاکساری کیوں پیدا کرنی چاہیے؟‏

8.‏ پہلا پطرس 5:‏6 سے کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کو خاکساری کی خوبی پسند ہے؟‏

8 خود میں خاکساری پیدا کرنے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہم یہوواہ کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔‏ پطرس رسول نے بھی اِس بات کو واضح کِیا۔‏ ‏(‏1-‏پطرس 5:‏6 کو پڑھیں۔‏)‏ کتاب ‏”‏کم بی مائے فالوور“‏ میں پطرس کے الفاظ پر یوں تبصرہ کِیا گیا ہے:‏ ”‏گھمنڈ زہر کی طرح ہے جس کے اثرات بڑے تباہ‌کُن ہو سکتے ہیں۔‏ اگر ایک شخص میں یہ خصلت پائی جاتی ہے تو بھلے ہی وہ کتنا باصلاحیت ہو،‏ خدا کی نظر میں وہ کسی کام کا نہیں ہوتا۔‏ لیکن جو شخص خاکسار ہوتا ہے،‏ خدا اُسے بھرپور طریقے سے اِستعمال کر سکتا ہے پھر چاہے اُس میں اِتنی صلاحیتیں نہ بھی ہوں۔‏ .‏ .‏ .‏ یہوواہ کو ایک خاکسار شخص کو اجر دے کر بڑی خوشی ملتی ہے۔‏“‏ بھلا ہمارے لیے اِس سے زیادہ اعزاز کی بات اَور کیا ہو سکتی ہے کہ ہم یہوواہ کے دل کو شاد کریں!‏—‏امثا 23:‏15‏۔‏

9.‏ خاکساری کی خوبی دوسروں کو ہمارے قریب کیسے لاتی ہے؟‏

9 خاکساری کی خوبی پیدا کرنے سے ہم یہوواہ کو تو خوش کرتے ہی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں خود بھی بہت سے فائدے ہوتے ہیں۔‏ اگر ہم ایک خاکسار شخص ہیں تو دوسرے ہمارے قریب آنا چاہیں گے۔‏ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏ ذرا سوچیں کہ آپ کن لوگوں کی صحبت میں رہنا پسند کریں گے۔‏ (‏متی 7:‏12‏)‏ ظاہری بات ہے کہ ہم ایسے لوگوں کے قریب پھٹکنا بھی نہیں چاہتے جو ہمیشہ اپنی چلاتے ہیں اور دوسروں کی بات کو بالکل خاطر میں نہیں لاتے۔‏ اِس کے برعکس جب ہمارے ہم‌ایمان ہمارے دُکھ سُکھ میں شریک ہوتے ہیں،‏ ہمارے ساتھ شفقت اور ہمدردی سے پیش آتے ہیں اور خاکساری سے کام لیتے ہیں تو ہم تازہ‌دم ہو جاتے ہیں۔‏ (‏1-‏پطر 3:‏8‏)‏ اگر ہم اُن لوگوں کے قریب رہنا چاہتے ہیں جو خاکسار ہیں تو ظاہری بات ہے کہ دوسرے بھی ہمارے قریب تبھی رہنا چاہیں گے جب ہم خاکسار ہوں گے۔‏

10.‏ خاکساری کی خوبی زندگی کی مشکلوں کو برداشت کرنا آسان کیوں بنا دیتی ہے؟‏

10 خاکساری کی وجہ سے ہمارے لیے زندگی کی مشکلوں کو برداشت کرنا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔‏ شاید کبھی کبھار ہمیں محسوس ہو کہ ہمیں یا پھر کسی اَور شخص کو نااِنصافی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔‏ دانش‌مند بادشاہ سلیمان نے بھی اِس طرح کی نااِنصافی کو محسوس کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏مَیں نے دیکھا کہ نوکر گھوڑوں پر سوار ہو کر پھرتے ہیں اور سردار نوکروں کی مانند زمین پر پیدل چلتے ہیں۔‏“‏ (‏واعظ 10:‏7‏)‏ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ جو لوگ بڑے ذہین اور ہنرمند ہوتے ہیں،‏ اُنہیں اُن کی صلاحیتوں کے لیے سراہا نہیں جاتا جبکہ اُن لوگوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے جو اِتنے باصلاحیت نہیں ہوتے۔‏ لیکن بادشاہ سلیمان نے آگے کہا کہ ہمیں زندگی کی نااِنصافیوں اور مشکلات پر حد سے زیادہ پریشان ہونے کی بجائے اِنہیں برداشت کرنے کو تیار رہنا چاہیے۔‏ (‏واعظ 6:‏9‏)‏ اگر ہم خاکسار ہیں تو ہم زندگی سے شکوہ شکایت کرنے کی طرف مائل نہیں ہوں گے۔‏

کن صورتحال میں ہماری خاکساری کا اِمتحان ہو سکتا ہے؟‏

اِس طرح کی صورتحال میں ہماری خاکساری کا اِمتحان کیسے ہو سکتا ہے؟‏ (‏پیراگراف نمبر 11،‏ 12 کو دیکھیں۔‏)‏ *

11.‏ جب ہماری اِصلاح کی جاتی ہے تو ہمارا ردِعمل کیا ہونا چاہیے؟‏

11 ہمیں ہر دن خاکساری سے کام لینے کے بےشمار موقعے ملتے ہیں۔‏ ذرا کچھ صورتحال پر غور کریں۔‏ جب ہماری اِصلاح کی جاتی ہے۔‏ جب کوئی شخص ہمت جٹا کر ہماری اِصلاح کرتا ہے تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ شاید ہماری غلطی اِتنی معمولی نہیں ہے جتنی کہ ہم سمجھ رہے ہیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ اِصلاح ملنے پر ہمارا فوری ردِعمل یہ ہو کہ ہم اِسے رد کر دیں۔‏ شاید ہم اِصلاح کرنے والے شخص پر یا اُس کے اِصلاح کرنے کے طریقے پر تنقید کرنے لگیں۔‏ لیکن اگر ہم خاکسار ہیں تو ہم اِصلاح ملنے پر مناسب رویہ رکھنے کی کوشش کریں گے۔‏

12.‏ امثال 27:‏5،‏ 6 کے مطابق ہمیں دوسروں کی طرف سے ملنے والی اِصلاح کی قدر کیوں کرنی چاہیے؟‏

12 ایک خاکسار شخص دوسروں کی طرف سے ملنے والی اِصلاح کی قدر کرتا ہے۔‏ اِس سلسلے میں ذرا اِس مثال پر غور کریں۔‏ فرض کریں کہ آپ اِجلاس پر گئے ہیں۔‏ کئی بہن بھائیوں کے ساتھ بات کرنے کے بعد ایک بہن یا بھائی آپ کو دوسری طرف لے جا کر بتاتا ہے کہ آپ کے دانت میں کھانا پھنسا ہوا ہے۔‏ ظاہری بات ہے کہ آپ کو شرمندگی محسوس ہوگی۔‏ لیکن کیا آپ اُس بہن یا بھائی کے شکرگزار نہیں ہوں گے؟‏ بےشک۔‏ بلکہ آپ تو یہ سوچیں گے کہ کاش کسی نے پہلے آپ کو اِس کے بارے میں بتا دیا ہوتا۔‏ اِسی طرح اگر کوئی بہن یا بھائی بڑی ہمت کر کے ہماری اِصلاح کرتا ہے تو ہمیں اِس کے لیے اُس کا شکرگزار ہونا چاہیے اور خاکساری سے اِسے قبول کرنا چاہیے۔‏ ہمیں اُس شخص کو اپنا دُشمن نہیں بلکہ اپنا دوست خیال کرنا چاہیے۔‏‏—‏امثال 27:‏5،‏ 6 کو پڑھیں؛‏ گل 4:‏16‏۔‏

جب دوسروں کو خدا کی خدمت کے حوالے سے اعزاز ملتے ہیں تو ہمیں خاکساری ظاہر کرنے کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟‏ (‏پیراگراف نمبر 13،‏ 14 کو دیکھیں۔‏)‏ *

13.‏ جب دوسروں کو خدا کی خدمت کے حوالے سے شرف ملتے ہیں تو ہم خاکساری کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

13 جب دوسروں کو خدا کی خدمت کے حوالے سے شرف ملتے ہیں۔‏ ذرا جیسن نامی بزرگ کی بات پر غور کریں۔‏ وہ تسلیم کرتے ہیں:‏ ”‏جب مَیں دوسروں کو خدا کی خدمت میں شرف حاصل کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو کبھی کبھار مَیں سوچتا ہوں کہ مجھے یہ شرف کیوں نہیں دیا گیا۔‏“‏ کیا آپ کو بھی کبھی ایسا محسوس ہوا ہے؟‏ یہ اچھی بات ہے کہ ہم خدا کی خدمت کے حوالے سے اَور ذمےداری نبھانے کے لائق بننے کی خواہش رکھیں۔‏ ‏(‏1-‏تیم 3:‏1‏)‏ لیکن اگر ہم محتاط نہیں رہیں گے تو غرور ہمارے دل میں سر اُٹھا سکتا ہے۔‏ مثال کے طور پر ایک مسیحی یہ سوچنے لگ سکتا ہے کہ وہ کلیسیا میں فلاں ذمےداری کو سب سے اچھی طرح نبھا سکتا ہے۔‏ یا ایک مسیحی بیوی اِس سوچ کا شکار ہو سکتی ہے کہ ”‏میرا شوہر فلاں کام کو اُس بھائی سے زیادہ اچھی طرح انجام دے سکتا ہے۔‏“‏ لیکن اگر ہم خاکسار ہیں تو ہم ایسی سوچ سے کنارہ کریں گے۔‏

14.‏ جب دیگر آدمیوں کو خدا کی خدمت کے حوالے سے اعزاز ملے تو اِس پر موسیٰ کا کیا ردِعمل تھا اور اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏

14 غور کریں کہ جب موسیٰ کے زمانے میں بعض اشخاص کو خدا کی خدمت کے حوالے سے کچھ اعزاز ملے تو اِس پر موسیٰ کا کیا ردِعمل رہا۔‏ موسیٰ کو بنی‌اِسرائیل کی پیشوائی کرنے کی ذمےداری دی گئی تھی جس کی وہ دل سے قدر کرتے تھے۔‏ لیکن جب یہوواہ نے کچھ آدمیوں کو وہ کام کرنے کی صلاحیت بخشی جنہیں اب تک صرف موسیٰ کرتے آ رہے تھے تو موسیٰ کا کیا ردِعمل تھا؟‏ اُنہوں نے بالکل حسد نہیں کِیا۔‏ (‏گن 11:‏24-‏29‏)‏ اور جب لوگوں کا اِنصاف کرنے کی بات آئی تو موسیٰ خاکساری سے کچھ ذمےداریاں دوسرے آدمیوں کو بانٹنے کے لیے تیار تھے۔‏ (‏خر 18:‏13-‏24‏)‏ یوں اِسرائیلیوں کے معاملات کا فیصلہ کرنے کے لیے اَور زیادہ آدمی مقرر ہو گئے۔‏ اِس کا فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں کو اِنصاف پانے کے لیے زیادہ دیر اِنتظار نہیں کرنا پڑتا تھا۔‏ موسیٰ کے یہ قدم اُٹھانے سے ظاہر ہوا کہ اُن کی نظر میں اپنے رُتبے سے زیادہ لوگوں کی بھلائی اہم تھی۔‏ اُنہوں نے ہمارے لیے واقعی بڑی عمدہ مثال قائم کی۔‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہوواہ ہمیں اپنی خدمت کے لیے اِستعمال کرے تو ہمیں اپنی صلاحیتوں پر فخر کرنے کی بجائے خود میں خاکساری کی خوبی پیدا کرنی چاہیے۔‏ یاد رکھیں،‏ یہوواہ اگرچہ ”‏بلندوبالا“‏ ہے لیکن وہ ”‏خاکساروں کو عظیم رحمت عطا کرتا ہے۔‏“‏—‏زبور 138:‏6؛‏ 1-‏پطر 5:‏5‏۔‏

15.‏ بہت سے بہن بھائیوں کو کن نئی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا؟‏

15 جب ہم نئی صورتحال کا سامنا کرتے ہیں۔‏ حالیہ سالوں میں خدا کی خدمت کے حوالے سے بہت سے بہن بھائیوں کی ذمےداری بدل دی گئی جسے وہ سالوں سے نبھا رہے تھے۔‏ مثال کے طور پر 2014ء میں تنظیم نے کہا کہ اب سے صوبائی نگہبان نہیں ہوں گے۔‏ لہٰذا اِس خدمت کو انجام دینے والے بھائیوں اور اُن کی بیویوں کو کُل‌وقتی خدمت میں کوئی اَور ذمےداری نبھانے کو کہا گیا۔‏ اِسی سال سے تنظیم نے یہ فیصلہ بھی کِیا کہ جب حلقے کا کوئی نگہبان 70 سال اور بزرگوں کی جماعت کا کوئی منتظم 80 سال کا ہو جائے تو وہ اپنی خدمت کسی اَور کو سونپ دے۔‏ اِس کے علاوہ پچھلے کئی سالوں کے دوران بیت‌ایل میں خدمت کرنے والے بہت سے بہن بھائیوں کو پہل‌کار کے طور پر خدمت کرنے کو کہا گیا۔‏ دیگر کو صحت کے مسئلوں،‏ خاندانی فرائض یا پھر کسی اَور وجہ سے خصوصی کُل‌وقتی خدمت چھوڑنی پڑی۔‏

16.‏ ہمارے بہن بھائیوں نے نئے حالات کے مطابق ڈھلتے وقت خاکساری کیسے ظاہر کی؟‏

16 ہمارے اِن بہت سے بہن بھائیوں کے لیے اپنی بدلتی صورتحال کے مطابق ڈھلنا آسان نہیں تھا۔‏ بےشک اُنہیں اپنی سابقہ ذمےداری سے بڑا لگاؤ تھا۔‏ بہت سے بہن بھائی ایسے تھے جو کئی سالوں سے اپنی اُس ذمےداری کو نبھا رہے تھے۔‏ کچھ بہن بھائیوں پر شروع شروع میں مایوسی کے بادل چھا گئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے خود کو نئے حالات کے مطابق ڈھال لیا۔‏ وہ ایسا کیوں کر پائے؟‏ یہوواہ سے محبت کی بِنا پر۔‏ وہ یاد رکھتے ہیں کہ اُنہوں نے خود کو یہوواہ کے لیے وقف کِیا ہے،‏ نہ کہ کسی کام یا رُتبے کے لیے۔‏ (‏کُل 3:‏23‏)‏ وہ خاکساری سے ہر اُس خدمت کو نبھانے کے لیے تیار ہیں جو اُنہیں سونپی گئی ہے۔‏ وہ ”‏اپنی ساری پریشانیاں [‏یہوواہ]‏ پر ڈال“‏ دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اُسے اُن کی فکر ہے۔‏—‏1-‏پطر 5:‏6،‏ 7‏۔‏

17.‏ ہم کیوں شکرگزار ہیں کہ بائبل میں ہمیں خاکساری کی خوبی پیدا کرنے کو کہا گیا ہے؟‏

17 ہم اِس بات کے لیے بڑے شکرگزار ہیں کہ خدا کے کلام میں ہمیں خاکساری کی خوبی پیدا کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔‏ جب ہم اِس دلکش خوبی کو ظاہر کرتے ہیں تو نہ صرف ہمیں بلکہ ہمارے اِردگِرد لوگوں کو بھی بہت فائدہ ہوتا ہے؛‏ ہم زندگی کی مشکلوں کو بہتر طور پر برداشت کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر ہم اپنے آسمانی باپ کے اَور زیادہ قریب ہو جاتے ہیں۔‏ یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ ہمارا آسمانی باپ یہوواہ اِتنا ”‏عالی اور بلند“‏ ہونے کے باوجود اپنے خاکسار بندوں سے محبت کرتا اور اُن کی قدر کرتا ہے!‏—‏یسع 57:‏15‏۔‏

گیت نمبر 45‏:‏ میرے دل کی سوچ بچار

^ پیراگراف 5 یہ بہت ضروری ہے کہ ہم خود میں خاکساری کی خوبی پیدا کریں۔‏ خاکساری کیا ہے؟‏ ہمیں اپنے اندر اِس خوبی کو کیوں پیدا کرنا چاہیے؟‏ اور کن صورتحال میں ہماری خاکساری کا اِمتحان ہو سکتا ہے؟‏ یہ مضمون اِن اہم سوالوں پر روشنی ڈالے گا۔‏

^ پیراگراف 7 بھائی کارل کی آپ‌بیتی ‏”‏دی واچ‌ٹاور،‏“‏ 1 اکتوبر 1984ء میں شائع ہوئی تھی۔‏

^ پیراگراف 52 تصویر کی وضاحت‏:‏ پولُس رسول ایک مسیحی کے گھر ہیں اور خاکساری ظاہر کرتے ہوئے سب سے بات کر رہے ہیں،‏ یہاں تک کہ بچوں سے بھی۔‏

^ پیراگراف 56 تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک بھائی اپنے سے چھوٹی عمر کے بھائی کی طرف سے ملنے والی اِصلاح کو سُن رہا ہے۔‏

^ پیراگراف 58 تصویر کی وضاحت‏:‏ وہ عمررسیدہ بھائی اُس جوان بھائی کو کلیسیا میں ذمےداریاں نبھاتے ہوئے دیکھ کر اُس سے حسد نہیں کر رہا۔‏