مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 37

یہوواہ کی تابع‌داری کیوں اور کیسے کریں؟‏

یہوواہ کی تابع‌داری کیوں اور کیسے کریں؟‏

‏”‏کیا یہ زیادہ اہم نہیں کہ ہم اپنے آسمانی باپ کے تابع‌دار ہوں؟‏“‏‏—‏عبر 12:‏9‏۔‏

گیت نمبر 9‏:‏ یہوواہ ہمارا بادشاہ ہے

مضمون پر ایک نظر *

1.‏ ہمیں یہوواہ کی تابع‌داری کیوں کرنی چاہیے؟‏

ہمیں یہوواہ خدا کی تابع‌داری * کرنی چاہیے کیونکہ اُس نے ہمیں خلق کِیا ہے۔‏ خالق ہونے کے ناتے اُسے ہمیں یہ بتانے کا حق ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔‏ (‏مکا 4:‏11‏)‏ لیکن ہمارے پاس یہوواہ کی تابع‌داری کرنے کی ایک اَور بڑی وجہ بھی ہے۔‏ اور وہ وجہ یہ ہے کہ اُس کا حکمرانی کرنے کا طریقہ سب سے اچھا ہے۔‏ اِنسانی تاریخ کے دوران بہت سے ایسے لوگ آئے اور گئے ہیں جن کے ہاتھ اِختیار کی ڈور آئی اور جنہوں نے دوسروں پر حکمرانی کی۔‏ لیکن آج تک نہ تو کوئی ایسا آیا ہے اور نہ ہی آ سکتا ہے جو یہوواہ جتنا دانش‌مند،‏ شفیق،‏ رحم‌دل اور مہربان حکمران ہو۔‏—‏خر 34:‏6؛‏ روم 16:‏27؛‏ 1-‏یوح 4:‏8‏۔‏

2.‏ عبرانیوں 12:‏9-‏11 میں یہوواہ کی تابع‌داری کرنے کی کون سی وجوہات بیان کی گئی ہیں؟‏

2 یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کی فرمانبرداری کریں۔‏ لیکن وہ یہ نہیں چاہتا کہ ہم صرف اُسے ناخوش کرنے کے ڈر سے ایسا کریں۔‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم اُسے اپنا شفیق باپ خیال کر کے محبت کی بِنا پر اُس کے حکم مانیں۔‏ عبرانیوں کے نام اپنے خط میں پولُس نے واضح کِیا کہ ہمیں اِس لیے ”‏اپنے آسمانی باپ کے تابع‌دار“‏ ہونا چاہیے کیونکہ وہ ”‏ہمارے فائدے کے لیے“‏ ہماری تربیت کرتا ہے۔‏‏—‏عبرانیوں 12:‏9-‏11 کو پڑھیں۔‏

3.‏ ‏(‏الف)‏ ہم یہوواہ کی تابع‌داری کیسے کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں کن سوالوں کے جواب دیے جائیں گے؟‏

3 ہم اُس وقت یہوواہ کی تابع‌داری کرتے ہیں جب ہم ہر معاملے میں اُس کے کہے پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق فیصلے کرنے سے گریز کرتے ہیں۔‏ (‏امثا 3:‏5‏)‏ جب ہم یہوواہ کے کاموں کے بارے میں سیکھتے ہیں تو ہمارے لیے اُس کی تابع‌داری کرنا اَور آسان ہو جاتا ہے۔‏ ایسا کیوں ہے؟‏ کیونکہ یہوواہ جو بھی کرتا ہے،‏ اُس سے اُس کی دلکش خوبیاں ظاہر ہوتی ہیں۔‏ ہم یہوواہ کے بارے میں جتنا زیادہ سیکھتے ہیں،‏ ہمارے دل میں اُس کے لیے محبت اُتنی گہری ہوتی جاتی ہے۔‏ اور جب ہمارے دل میں یہوواہ کے لیے محبت ہوتی ہے تو پھر اِس بات کی ضرورت نہیں رہتی کہ ہمیں قوانین کی لمبی چوڑی فہرست دے کر یہ بتایا جائے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔‏ پھر ہم یہوواہ کی طرح اچھائی سے محبت اور بُرائی سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔‏ (‏زبور 97:‏10‏)‏ اِس کے باوجود کبھی کبھار ہمارے لیے یہوواہ کی فرمانبرداری کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔‏ ایسا کیوں ہوتا ہے؟‏ اور بزرگ یہوداہ کے حاکم نحمیاہ سے،‏ والد بادشاہ داؤد سے اور مائیں یسوع کی ماں مریم سے کیا سیکھ سکتی ہیں؟‏ اِس مضمون میں ہم اِن سوالوں پر غور کریں گے۔‏

یہوواہ کی تابع‌داری کرنا مشکل کیوں ہو سکتا ہے؟‏

4،‏ 5.‏ رومیوں 7:‏21-‏23 کے مطابق یہوواہ کی تابع‌داری کرنا مشکل کیوں ہو سکتا ہے؟‏

4 یہوواہ کی تابع‌داری کرنا مشکل کیوں ہو سکتا ہے؟‏ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم نے گُناہ کا داغ ورثے میں پایا ہے اور ہم عیب‌دار ہیں۔‏ اِس لیے ہم میں سرکشی کا رُجحان پایا جاتا ہے۔‏ جب آدم اور حوا نے خدا کے خلاف بغاوت کی اور ممنوعہ پھل کھایا تو اُنہوں نے خود اپنے لیے صحیح اور غلط کے معیار قائم کر لیے۔‏ (‏پید 3:‏22‏)‏ آج بھی بہت سے اِنسان یہوواہ کے حکموں پر کان نہیں دھرتے اور خود یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔‏

5 یہوواہ کی تابع‌داری کرنا کبھی کبھار اُن لوگوں کے لیے بھی مشکل ہو سکتا ہے جو اُسے جانتے اور اُس سے پیار کرتے ہیں۔‏ پولُس رسول نے بھی اِس بات کا تجربہ کِیا۔‏ ‏(‏رومیوں 7:‏21-‏23 کو پڑھیں۔‏)‏ پولُس کی طرح ہم بھی وہ کام کرنا چاہتے ہیں جو یہوواہ کی نظر میں صحیح ہے۔‏ لیکن ایسا کرنے کے لیے ہمیں غلط کام کرنے کے رُجحان سے مسلسل لڑنا پڑتا ہے۔‏

6،‏ 7.‏ ہمارے لیے یہوواہ کی تابع‌داری کرنا اَور کس وجہ سے مشکل ہو سکتا ہے؟‏

6 ایک اَور وجہ بھی ہے جو ہمارے لیے یہوواہ کی تابع‌داری کرنا مشکل بنا سکتی ہے۔‏ اور وہ یہ ہے کہ ہم پر اپنے اِردگِرد پھیلے نظریات اور رسم‌ورواج کا بڑا اثر ہو سکتا ہے۔‏ بہت سے اِنسانی نظریات یہوواہ کی سوچ سے ٹکراتے ہیں اِس لیے ہمیں مسلسل کوشش کرنی پڑتی ہے تاکہ ایسے نظریات ہمارے ذہن کو آلودہ نہ کر دیں۔‏ اِس حوالے سے ایک مثال پر غور کریں۔‏

7 کچھ علاقوں میں نوجوانوں پر یہ دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی دوڑ میں لگا دیں۔‏ ماریا * نامی ایک بہن کو اِس مشکل کا سامنا ہوا۔‏ یہوواہ کے بارے میں سیکھنے سے پہلے اُنہوں نے اپنے ملک کی ایک نامور یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔‏ اُن کا خاندان اِس بات پر زور دے رہا تھا کہ وہ کوئی ایسا عزت‌دار پیشہ اِختیار کریں جس میں وہ اچھا خاصہ پیسا کما سکیں۔‏ ماریا بھی ایسا ہی چاہتی تھیں۔‏ لیکن پھر جب اُنہوں نے یہوواہ کے بارے میں سیکھا اور وہ اُس سے محبت کرنے لگیں تو اُن کا منصوبہ بدل گیا۔‏ مگر اُنہوں نے کہا:‏ ”‏کبھی کبھار مجھے ایسے منافع‌بخش کام کرنے کے موقعے ملتے ہیں جن کے ذریعے مَیں بہت سا پیسہ تو کما سکتی ہوں لیکن یہوواہ کی خدمت میں زیادہ حصہ نہیں لے سکتی۔‏ جس ماحول میں میری پرورش ہوئی ہے،‏ اُس کی وجہ سے ابھی بھی مجھے ایسے کاموں سے اِنکار کرنا مشکل لگتا ہے۔‏ مَیں یہوواہ سے مدد کی اِلتجا کرتی ہوں تاکہ مَیں ایسی پیشکشوں کو قبول کرنے کی آزمائش میں نہ پڑوں جو میری توجہ اُس کی خدمت سے ہٹا سکتی ہیں۔‏“‏—‏متی 6:‏24‏۔‏

8.‏ ہم آگے کس بات پر غور کریں گے؟‏

8 جیسا کہ ہم دیکھ چُکے ہیں کہ یہوواہ کی تابع‌داری کرنے میں ہمارا بڑا فائدہ ہے۔‏ لیکن جن لوگوں کے پاس اِختیار ہوتا ہے جیسے کہ بزرگ،‏ والد اور مائیں،‏ وہ خدا کی تابع‌داری کرنے سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔‏ آئیں،‏ بائبل سے کچھ مثالوں پر غور کریں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ایک شخص کو اپنے اِختیار کو کیسے اِستعمال کرنا چاہیے تاکہ یہوواہ خوش ہو۔‏

بزرگ نحمیاہ سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

بزرگ دوسروں کے ساتھ مل کر کنگڈم ہال میں کام کرتے ہیں،‏ بالکل جیسے نحمیاہ نے یروشلیم کی دیواریں بنانے میں لوگوں کے ساتھ کام کِیا۔‏ (‏پیراگراف نمبر 9-‏11 کو دیکھیں۔‏)‏ *

9.‏ نحمیاہ کو کن مشکلات کا سامنا تھا؟‏

9 یہوواہ نے کلیسیا کے بزرگوں کو یہ اہم ذمےداری سونپی ہے کہ وہ اُس کے بندوں کی گلّہ‌بانی کریں۔‏ (‏1-‏پطر 5:‏2‏)‏ اِس حوالے سے نحمیاہ نے عمدہ مثال قائم کی۔‏ وہ جس طرح سے خدا کے بندوں کے ساتھ پیش آئے،‏ بزرگ اُس سے اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔‏ یہوداہ کے حاکم کے طور پر نحمیاہ کے پاس خاصا اِختیار تھا۔‏ (‏نحم 1:‏11؛‏ 2:‏7،‏ 8؛‏ 5:‏14‏)‏ ذرا غور کریں کہ اُس وقت یہوداہ کے حالات کیسے تھے۔‏ نحمیاہ کو پتہ چلا تھا کہ لوگ ہیکل کی بےحُرمتی کر رہے ہیں اور شریعت میں درج اِس حکم پر عمل نہیں کر رہے کہ لاویوں کی مالی مدد کی جائے۔‏ یہودی سبت کے حوالے سے دیے گئے حکم کی بھی خلاف‌ورزی کر رہے تھے اور کچھ آدمیوں نے غیرقوم عورتوں سے شادی کر لی تھی۔‏ نحمیاہ کو اِس کٹھن صورتحال سے نمٹنا تھا۔‏—‏نحم 13:‏4-‏30‏۔‏

10.‏ نحمیاہ کو جو مشکلات درپیش تھیں،‏ وہ اُن سے کیسے نمٹے؟‏

10 نحمیاہ نے خدا کے بندوں پر اپنے قاعدے قانون تھوپ کر اِختیار کی دھونس نہیں جمائی۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے بڑی دل‌سوزی سے دُعا میں یہوواہ سے رہنمائی مانگی۔‏ اِس کے علاوہ اُنہوں نے لوگوں کو یہوواہ کی شریعت کی تعلیم بھی دی۔‏ (‏نحم 1:‏4-‏10؛‏ 13:‏1-‏3‏)‏ اور نحمیاہ نے لوگوں کو صرف ہدایات ہی نہیں دیں بلکہ یروشلیم کی دیواریں تعمیر کرنے میں خاکساری سے اُن کا ہاتھ بھی بٹایا۔‏—‏نحم 4:‏15‏۔‏

11.‏ پہلا تھسلُنیکیوں 2:‏7،‏ 8 کی روشنی میں بتائیں کہ بزرگوں کو کلیسیا کے بہن بھائیوں کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہیے۔‏

11 شاید بزرگوں کو نحمیاہ جیسی صورتحال کا سامنا نہ ہو مگر وہ کئی طریقوں سے نحمیاہ کی مثال پر عمل کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر وہ بہن بھائیوں کے فائدے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔‏ اور وہ اپنے اِختیار کو سر پر سوار کر کے دل میں غرور کو جگہ نہیں دیتے۔‏ اِس کی بجائے وہ کلیسیا کے ساتھ نرمی سے پیش آتے ہیں۔‏ ‏(‏1-‏تھسلُنیکیوں 2:‏7،‏ 8 کو پڑھیں۔‏)‏ جب وہ دوسروں سے بات کرتے ہیں تو اُن کی باتوں سے محبت اور خاکساری جھلکتی ہے۔‏ اینڈرو نامی ایک تجربہ‌کار بزرگ کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں نے دیکھا ہے کہ جب بزرگ کلیسیا کے بہن بھائیوں کے ساتھ شفقت اور اپنائیت سے پیش آتے ہیں تو یہ بات بہن بھائیوں کے دل کو چُھو لیتی ہے۔‏ بزرگوں میں یہ خوبیاں دیکھ کر کلیسیا کو اُن سے تعاون کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔‏“‏ کئی سال سے بزرگ کے طور پر خدمت کرنے والے ایک اَور بھائی جن کا نام ٹونی ہے،‏ کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں فِلپّیوں 2:‏3 میں درج ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ہمیشہ دوسروں کو اپنے سے بہتر خیال کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔‏ اِس طرح مَیں دوسروں سے زبردستی اپنا حکم منوانے کی طرف مائل نہیں ہوتا۔‏“‏

12.‏ بزرگوں کو فروتن کیوں ہونا چاہیے؟‏

12 بزرگوں کو یہوواہ کی طرح فروتن ہونا چاہیے۔‏ حالانکہ یہوواہ کائنات کا حاکمِ‌اعلیٰ ہے،‏ لیکن وہ ”‏فروتنی سے آسمان‌وزمین پر نظر کرتا ہے“‏ اور ”‏مسکین کو خاک سے .‏ .‏ .‏ اُٹھا لیتا ہے۔‏“‏ (‏زبور 113:‏6،‏ 7‏)‏ اُسے مغرور لوگوں سے سخت نفرت ہے۔‏—‏امثا 16:‏5‏۔‏

13.‏ ایک بزرگ کے لیے ’‏اپنی زبان پر قابو رکھنا‘‏ کیوں ضروری ہے؟‏

13 جو بزرگ یہوواہ کی تابع‌داری کرتا ہے،‏ وہ ’‏اپنی زبان پر قابو رکھتا‘‏ ہے۔‏ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو شاید وہ کسی کی بدتمیزی پر اینٹ کا جواب پتھر سے دے دے۔‏ (‏یعقو 1:‏26؛‏ گل 5:‏14،‏ 15‏)‏ اینڈرو جن کا پہلے ذکر ہوا ہے،‏ کہتے ہیں:‏ ”‏کبھی کبھار مجھے لگا کہ فلاں بہن بھائی میرے ساتھ بدتمیزی سے پیش آ رہا ہے اور میرا دل چاہا کہ مَیں بھی اُسے دو چار سنا دوں۔‏ لیکن بائبل میں درج خدا کے وفادار بندوں کی مثالوں پر غور کرنے سے مَیں خاکساری ظاہر کرنے کی اہمیت کو سمجھ پایا ہوں۔‏“‏ جب بزرگ کلیسیا کے تمام بہن بھائیوں کے ساتھ جن میں اُن کے ساتھی بزرگ بھی شامل ہیں،‏ محبت اور شفقت سے بات کرتے ہیں تو وہ یہوواہ کی تابع‌داری کرتے ہیں۔‏—‏کُل 4:‏6‏۔‏

والد بادشاہ داؤد سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

14.‏ یہوواہ نے والدوں کو کیا اِختیار سونپا ہے اور وہ اُن سے کیا چاہتا ہے؟‏

14 یہوواہ نے والدوں کو خاندان کا سربراہ بنایا ہے اور وہ اُن سے توقع کرتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت اور اِصلاح کریں۔‏ (‏1-‏کُر 11:‏3؛‏ اِفس 6:‏4‏)‏ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک والد اپنے اِختیار کو جیسے چاہے اِستعمال کر سکتا ہے۔‏ وہ اپنے اِختیار کو جس طرح سے کام میں لاتا ہے،‏ اُس کے لیے وہ یہوواہ کے حضور جواب‌دہ ہوتا ہے جس نے ہر خاندان کو وجود دیا ہے۔‏ (‏اِفس 3:‏14،‏ 15‏)‏ جب والد اپنے اِختیار کو ویسے اِستعمال کرتے ہیں جیسے یہوواہ چاہتا ہے تو وہ اُس کی تابع‌داری کرتے ہیں۔‏ بادشاہ داؤد نے اِس حوالے سے والدوں کے لیے بہت اچھی مثال قائم کی۔‏

جب ایک باپ اپنے خاندان کے ساتھ دُعا کرتا ہے تو اِس میں اُس کی خاکساری ظاہر ہونی چاہیے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 15،‏ 16 کو دیکھیں۔‏)‏ *

15.‏ والدوں کو بادشاہ داؤد کی مثال پر کیوں غور کرنا چاہیے؟‏

15 یہوواہ نے داؤد کو نہ صرف اُن کے خاندان بلکہ پوری اِسرائیلی قوم کا سربراہ بنایا۔‏ بادشاہ کے طور پر داؤد کے پاس بہت زیادہ اِختیار تھا۔‏ کچھ موقعوں پر اُنہوں نے اِس اِختیار کا غلط فائدہ اُٹھایا اور سنگین غلطیاں کیں۔‏ (‏2-‏سمو 11:‏14،‏ 15‏)‏ لیکن پھر اُنہوں نے یہوواہ کی اِصلاح کو قبول کرنے سے اُس کی تابع‌داری کی۔‏ اُنہوں نے دُعا میں دل کھول کر یہوواہ کو اپنے احساسات کے بارے میں بتایا۔‏ (‏زبور 51:‏1-‏4‏)‏ داؤد کی ایک اَور خوبی یہ تھی کہ وہ خاکساری سے نہ صرف مردوں بلکہ عورتوں کے مشورے پر بھی غور کرتے تھے۔‏ (‏1-‏سمو 19:‏11،‏ 12؛‏ 25:‏32،‏ 33‏)‏ داؤد نے اپنی غلطیوں سے سیکھا اور یہوواہ کا کام کرنے کو زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دی۔‏

16.‏ والد،‏ داؤد کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

16 ویسے تو والد بادشاہ داؤد سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں لیکن داؤد کی مثال میں اُن کے لیے کچھ سبق یہ ہیں:‏ اُس اِختیار کا غلط اِستعمال نہ کریں جو یہوواہ نے آپ کو سونپا ہے۔‏ اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں اور جب بائبل سے آپ کی اِصلاح کی جاتی ہے تو اِسے قبول کریں۔‏ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کے گھر والے آپ کی خاکساری کو دیکھ کر آپ کی عزت کریں گے۔‏ جب آپ اپنے گھر والوں کے ساتھ دُعا کرتے ہیں تو دل کی گہرائیوں سے یہوواہ کو اپنے احساسات بتائیں تاکہ آپ کے بیوی بچے یہ دیکھ سکیں کہ آپ ہر معاملے میں یہوواہ پر کتنا بھروسا کرتے ہیں۔‏ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہوواہ کی خدمت کو اپنی زندگی کا مرکز بنا لیں۔‏ (‏اِست 6:‏6-‏9‏)‏ جتنا فائدہ آپ اپنے گھر والوں کو اپنی اچھی مثال سے پہنچا سکتے ہیں،‏ اُتنا شاید کسی اَور چیز سے نہیں پہنچا سکتے۔‏

مائیں،‏ مریم سے کیا سیکھ سکتی ہیں؟‏

17.‏ یہوواہ نے ماؤں کو کیا کردار دیا ہے؟‏

17 یہوواہ نے ماؤں کو ایک مُعزز کردار بخشا ہے اور اُنہیں بچوں پر کسی حد تک اِختیار سونپا ہے۔‏ (‏امثا 6:‏20‏)‏ دراصل ایک ماں اپنے بچوں پر گہرا اور دیرپا اثر ڈال سکتی ہے۔‏ (‏امثا 22:‏6‏)‏ ذرا غور کریں کہ مائیں،‏ یسوع کی ماں مریم سے کیا سیکھ سکتی ہیں۔‏

18،‏ 19.‏ مائیں،‏ مریم کی مثال سے کیا سیکھ سکتی ہیں؟‏

18 مریم صحیفوں سے اچھی طرح واقف تھیں۔‏ وہ یہوواہ کا گہرا احترام کرتی تھیں اور اُنہوں نے اُس کے ساتھ گہری دوستی قائم کی ہوئی تھی۔‏ وہ اُس وقت بھی یہوواہ کی رہنمائی پر چلنے کو تیار تھیں جب ایسا کرنے کی وجہ سے اُن کی پوری زندگی بدل جانی تھی۔‏—‏لُو 1:‏35-‏38،‏ 46-‏55‏۔‏

اگر ایک ماں تھکی ہوئی ہو یا اُسے کسی بات پر غصہ چڑھ رہا ہو تو ایسی صورت میں اُسے اپنے گھر والوں کے ساتھ محبت سے پیش آنے کے لیے سخت کوشش کرنی پڑ سکتی ہے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 19 کو دیکھیں۔‏)‏ *

19 مائیں،‏ مریم سے کافی کچھ سیکھ سکتی ہیں۔‏ سب سے پہلے تو یہ کہ بائبل کا ذاتی مطالعہ اور دُعا کرنے کے ذریعے یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط رکھیں۔‏ اور دوسرا یہ کہ اپنی زندگی میں ایسی تبدیلیاں لانے کے لیے تیار رہیں جن سے یہوواہ خوش ہو۔‏ مثال کے طور پر ہو سکتا ہے کہ آپ کے والدین بہت جلدی آپے سے باہر ہو جاتے تھے اور بچوں کے ساتھ بڑی سختی سے بات کرتے تھے۔‏ اِس لیے شاید آپ کو شروع سے ہی یہ لگتا ہو کہ بچوں کی پرورش کرنے کا یہی صحیح طریقہ ہے۔‏ ہو سکتا ہے کہ یہوواہ کے بارے میں سیکھنے کے بعد بھی آپ کو اپنے بچوں کے ساتھ صبروتحمل سے پیش آنا مشکل لگے،‏ خاص طور پر تب جب آپ تھکی ہوں اور وہ آپ کی بات نہ سنیں۔‏ (‏اِفس 4:‏31‏)‏ ایسی صورت میں یہ اَور بھی ضروری ہوگا کہ آپ دُعا میں یہوواہ سے مدد مانگیں۔‏ لڈیا نامی ایک ماں کہتی ہیں:‏ ”‏جب میرا بیٹا میری بات نہیں سنتا تو کبھی کبھار مجھے بڑی شدت سے یہوواہ سے یہ دُعا کرنی پڑتی ہے کہ وہ غصے سے باز رہنے میں میری مدد کرے۔‏ بعض اوقات تو مَیں آدھا جملہ کہہ کر رُک جاتی ہوں اور پھر دل ہی دل میں یہوواہ سے مدد کے لیے اِلتجا کرنے لگتی ہوں۔‏ دُعا کرنے سے مجھے اپنے غصے پر قابو رکھنے میں مدد ملتی ہے۔‏“‏—‏زبور 37:‏5‏۔‏

20.‏ بعض ماؤں کو کیا کرنا مشکل لگتا ہے اور وہ اِس مشکل پر کیسے قابو پا سکتی ہیں؟‏

20 کچھ ماؤں کو ایک اَور مسئلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔‏ شاید اُنہیں اپنے بچوں کے لیے محبت کا اِظہار کرنا مشکل لگے۔‏ (‏طط 2:‏3،‏ 4‏)‏ بعض عورتوں کی پرورش ایسے گھرانوں میں ہوئی ہوتی ہے جن میں اُن کے ماں باپ اُن کے اِتنے قریب نہیں ہوتے۔‏ اگر آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے تو اپنے والدین کی غلطی کو نہ دُہرائیں۔‏ جو ماں یہوواہ کی تابع‌داری کرتی ہے،‏ اُسے اپنے بچوں کے لیے محبت کا اِظہار کرنا سیکھنا ہوگا۔‏ شاید اُس کے لیے اپنی سوچ،‏ احساسات اور رویے کو بدلنا آسان نہ ہو۔‏ لیکن ایسا کرنا ممکن ہے اور اِس سے اُسے اور اُس کے خاندان کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔‏

یہوواہ کی تابع‌داری کرتے رہیں

21،‏ 22.‏ یسعیاہ 65:‏13،‏ 14 کے مطابق یہوواہ کی تابع‌داری کرنے سے ہمیں کون سے فائدے ہوتے ہیں؟‏

21 بادشاہ داؤد جانتے تھے کہ یہوواہ کی تابع‌داری کرنے کا کتنا فائدہ ہوتا ہے۔‏ اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کے قوانین راست ہیں۔‏ وہ دل کو فرحت پہنچاتے ہیں۔‏ [‏یہوواہ]‏ کا حکم بےعیب ہے۔‏ وہ آنکھوں کو روشن کرتا ہے۔‏ نیز اُن سے تیرے بندے کو آگاہی ملتی ہے۔‏ اُن کو ماننے کا اجر بڑا ہے۔‏“‏ (‏زبور 19:‏8،‏ 11‏)‏ جو لوگ یہوواہ کی تابع‌داری کرتے ہیں اور جو اُس کی شفقت بھری اِصلاح کو رد کرتے ہیں،‏ اُن میں فرق بالکل واضح ہے۔‏ یہوواہ نے اُن لوگوں کے بارے میں کیا خوب کہا ہے جو اُس کی تابع‌داری کرتے ہیں:‏ ”‏میرے بندے دل کی خوشی سے گائیں گے۔‏“‏‏—‏یسعیاہ 65:‏13،‏ 14 کو پڑھیں۔‏

22 جب بزرگ،‏ والد اور مائیں یہوواہ کی تابع‌داری کرتی ہیں تو اُن کی زندگی اَور اچھی ہو جاتی ہے،‏ اُن کے گھر کا ماحول اَور خوش‌گوار ہو جاتا ہے اور کلیسیا کا اِتحاد اَور بڑھ جاتا ہے۔‏ اور سب سے بڑی اور خوشی کی بات یہ ہے کہ اِس سے یہوواہ کا دل خوش ہوتا ہے۔‏—‏امثا 27:‏11‏۔‏

گیت نمبر 123‏:‏ تابع‌دار ہوں

^ پیراگراف 5 اِس مضمون میں بتایا جائے گا کہ ہمیں یہوواہ کی تابع‌داری کیوں کرنی چاہیے۔‏ اِس میں یہ بھی واضح کِیا جائے گا کہ بزرگ،‏ والد اور مائیں اُس اِختیار کو کیسے اِستعمال کر سکتی ہیں جو یہوواہ نے اُنہیں سونپا ہے۔‏ ہم غور کریں گے کہ اِس سلسلے میں بزرگ یہوداہ کے حاکم نحمیاہ سے،‏ والد بادشاہ داؤد سے اور مائیں یسوع کی ماں مریم سے کیا سیکھ سکتی ہیں۔‏

^ پیراگراف 1 اِصطلاح کی وضاحت:‏ اِس مضمون میں لفظ تابع‌داری جس طرح سے اِستعمال ہوا ہے،‏ اُس میں مجبوری سے حکم ماننے کا خیال نہیں پایا جاتا۔‏ خدا کے بندے اپنی خوشی سے اُس کی تابع‌داری کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 7 اِس مضمون میں کچھ فرضی نام اِستعمال کیے گئے ہیں۔‏

^ پیراگراف 62 تصویروں کی وضاحت‏:‏ ایک بزرگ اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر کنگڈم ہال میں مرمت کا کام کر رہا ہے،‏ بالکل ویسے ہی جیسے نحمیاہ نے لوگوں کے ساتھ مل کر یروشلیم کی دیواریں بنائی تھیں۔‏

^ پیراگراف 64 تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک باپ اپنے خاندان کے ساتھ بڑی دل‌سوزی سے دُعا کر رہا ہے۔‏

^ پیراگراف 66 تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک بچہ گھنٹوں سے ویڈیو گیم کھیل رہا ہے اور اُس نے اپنا ہوم ورک بھی مکمل نہیں کِیا ہے۔‏ اُس کی ماں تھکی ہاری کام سے واپس آئی ہے لیکن وہ طیش میں آنے یا سختی سے بات کرنے کی بجائے نرمی سے اُس کی اِصلاح کر رہی ہے۔‏