مطالعے کا مضمون نمبر 38
خود کو قابلِبھروسا شخص ثابت کریں
”قابلِاعتماد شخص وہ بھید پوشیدہ رکھتا ہے جو اُس کے سپرد کیا گیا ہو۔“—امثا 11:13، اُردو جیو ورشن۔
گیت نمبر 101: یہوواہ کی خدمت میں یکدل
مضمون پر ایک نظر a
1. ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ ایک شخص قابلِبھروسا ہے یا نہیں؟
ایک قابلِبھروسا شخص اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے اور سچ بولتا ہے۔ (زبور 15:4) ایسے شخص پر لوگ بِلاجھجک بھروسا کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بہن بھائی ہمارے بارے میں بھی ایسا ہی محسوس کریں۔ لیکن ہم اُن کا بھروسا جیتنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
2. ہم کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم ایک قابلِبھروسا شخص ہیں؟
2 ہم دوسروں کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ ہم پر بھروسا کریں۔ بھروسے کو جیتنا پڑتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھروسا پیسے کی طرح ہیں۔ اِسے کمانا بہت مشکل ہے اور کھونا بڑا آسان۔ یہوواہ نے ہمارا بھروسا جیتا ہے۔ ہم ہمیشہ اُس پر آنکھیں بند کر کے بھروسا کر سکتے ہیں کیونکہ ”اُس کے سب کام باوفا ہیں۔“ (زبور 33:4) اور وہ چاہتا ہے کہ ہم بھی اُس کی طرح قابلِبھروسا بنیں۔ (اِفس 5:1) آئیے، یہوواہ کے کچھ ایسے بندوں کی مثال پر غور کرتے ہیں جنہوں نے اپنے آسمانی باپ کی مثال پر عمل کِیا اور ثابت کِیا کہ وہ قابلِبھروسا ہیں۔ ہم پانچ ایسی خوبیوں پر بھی بات کریں گے جو ایک قابلِبھروسا شخص بننے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں۔
یہوواہ کے اُن بندوں سے سیکھیں جو قابلِبھروسا تھے
3-4. (الف) دانیایل نبی نے کیسے ثابت کِیا کہ وہ ایک قابلِبھروسا شخص ہیں؟ (ب) دانیایل کی مثال سے ہمیں کس بات پر غور کرنے کا موقع ملتا ہے؟
3 ایک قابلِبھروسا شخص ہونے کے حوالے سے دانیایل نبی نے بہت اچھی مثال قائم کی۔ حالانکہ بابلی اُنہیں ایک غلام کے طور پر اپنے ساتھ لے گئے تھے لیکن جلد ہی لوگ اُنہیں ایک ایسے شخص کے طور پر جاننے لگے جو بہت ہی قابلِبھروسا تھا۔ لوگوں کا دانیایل پر بھروسا اُس وقت اَور بھی زیادہ بڑھ گیا جب یہوواہ کی مدد سے اُنہوں نے بابل کے بادشاہ نبوکدنضر کے خوابوں کا مطلب بتایا۔ ایک موقعے پر دانیایل کو نبوکدنضر بادشاہ کو یہ بتانا تھا کہ یہوواہ اُن سے ناخوش ہے۔ یہ ایک ایسا پیغام تھا جسے بادشاہ کو سنانے کی جُرأت کوئی بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اور یہ پیغام بادشاہ نبوکدنضر کو بتانے کے لیے تو دانیایل کو بہت زیادہ دلیری کی ضرورت تھی کیونکہ نبوکدنضر بادشاہ بہت ہی گرم دماغ شخص تھا۔ (دان 2:12؛ 4:20-22، 25) اِس کے بہت سالوں بعد دانیایل نے ایک بار پھر سے ثابت کِیا کہ وہ ایک قابلِبھروسا شخص ہیں۔ اُنہوں نے اُس پیغام کا بالکل صحیح صحیح مطلب بتایا جو بابل کے شاہی محل کی دیوار پر لکھا گیا تھا۔ (دان 5:5، 25-29) بعد میں مادی فارس کے بادشاہ دارا اور اُس کے افسروں نے بھی دیکھا کہ دانیایل بہت ہی قابلِبھروسا شخص ہیں اور اُن میں کوئی بُرائی نہیں ہے۔ (دان 6:3، 4) یہ بُتپرست حکمران اور افسر بھی اِس بات کو مانتے تھے کہ وہ یہوواہ کے اِس بندے پر بھروسا کر سکتے ہیں۔
4 دانیایل کی مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم خود سے یہ سوال پوچھ سکتے ہیں: ”کلیسیا سے باہر لوگ مجھے کیسا شخص خیال کرتے ہیں؟ کیا لوگ مجھے ایک ایسے شخص کے طور پر جانتے ہیں جو اپنی ذمےداریوں کو اچھی طرح سے پورا کرتا ہے اور جس پر بھروسا کِیا جا سکتا ہے؟“ خود سے یہ سوال پوچھنا اِتنا ضروری کیوں ہے؟ کیونکہ جب ہم ثابت کرتے ہیں کہ ہم قابلِبھروسا ہیں تو اِس سے یہوواہ کی بڑائی ہوتی ہے۔
5. حنانیاہ کس وجہ سے ایک قابلِبھروسا شخص کے طور پر جانے جاتے تھے؟
5 جب 455 قبلازمسیح میں گورنر نحمیاہ نے یروشلیم کی دیواروں کو دوبارہ سے بنا لیا تو وہ کچھ ایسے قابلِبھروسا آدمیوں کو ڈھونڈنے لگے جو شہر کا اچھے سے خیال رکھ سکیں۔ جن آدمیوں کو نحمیاہ نے چُنا، اُن میں سے ایک قلعے کے حاکم حنانیاہ تھے۔ بائبل میں اُن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ”امانتدار [”قابلِبھروسا،“ ترجمہ نئی دُنیا] اور بہتوں سے زیادہ خداترس“ تھے۔ (نحم 7:2) حنانیاہ یہوواہ سے پیار کرتے تھے اور اُسے ناخوش کرنے سے ڈرتے تھے۔ اِس محبت اور ڈر کی وجہ سے ہی اُنہوں نے ہر اُس ذمےداری کو اچھی طرح سے نبھایا جو اُنہیں دی گئی تھی۔ یہی باتیں ہماری بھی مدد کریں گی کہ ہم یہوواہ کی خدمت کے لیے ملنے والی ہر کام کو پوری ایمانداری سے نبھائیں۔
6. تخِکُس نے کیسے ثابت کِیا کہ وہ پولُس کے سچے اور قابلِبھروسا دوست ہیں؟
6 ذرا تخِکُس کی مثال پر غور کریں جو پولُس رسول کے ایک قابلِبھروسا دوست تھے۔ جب پولُس ایک گھر میں نظربند تھے تو اُنہوں نے تخِکُس پر اپنا بھروسا ظاہر کرتے ہوئے اِفسس کے مسیحیوں سے کہا: ”تخِکُس جو ہمارے مالک کے وفادار خادم ہیں، آپ کو سب کچھ بتائیں گے۔ مَیں اُن کو آپ کے پاس بھیج رہا ہوں تاکہ وہ آپ کو ہمارا حال چال بتائیں اور آپ کے دلوں کو تسلی دیں۔“ (اِفس 6:21، 22) پولُس کو تخِکُس پر پورا بھروسا تھا کہ وہ نہ صرف اِفسس اور کُلسّے کے بہن بھائیوں کو اُن کے خط پہنچائیں گے بلکہ وہ اِن بہن بھائیوں کا حوصلہ بھی بڑھائیں گے اور اُنہیں تسلی دیں گے۔ تخِکُس کی مثال پر غور کرنے سے ہمارے ذہن میں ہمارے وہ وفادار اور قابلِبھروسا بھائی آتے ہیں جو ہمیں وہ سب کچھ دیتے ہیں جن سے ہم یہوواہ کے قریب رہ سکتے ہیں۔—کُل 4:7-9۔
7. آپ قابلِبھروسا بننے کے حوالے سے اپنی کلیسیا کے بزرگوں اور خادموں سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
7 ہم اپنی کلیسیا کے قابلِبھروسا بزرگوں اور خادموں کی دل سے قدر کرتے ہیں۔ دانیایل، حنانیاہ اور تخِکُس کی طرح وہ بھی اپنی ذمےداریوں کو پوری ایمانداری سے نبھاتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب ہم مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس میں جاتے ہیں تو ہمیں اِس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ پتہ نہیں، اِجلاس کے حصے بہن بھائیوں کو مل گئے ہوں گے یا نہیں۔ اور بزرگ اُن بہن بھائیوں کی بہت قدر کرتے ہیں جو پوری ذمےداری سے اِن حصوں کو پیش کرتے ہیں۔ اور ہم بائبل کورس کرنے والوں کو اِجلاس پر آنے کی دعوت دینے سے نہیں ہچکچاتے کیونکہ ہمیں اِس بات کا یقین ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی بھائی نے اِس بات کا بندوبست ضرور بنایا ہوگا کہ عوامی تقریر کرنے کے لیے بھائی موجود ہو۔ ہمیں اِس بات کا بھی بھروسا ہوتا ہے کہ مُنادی کرتے وقت ہمیں جو کتابیں اور ویڈیوز اِستعمال کرنی ہوں گی، وہ ہمیں مل جائیں گی۔ یہ بھائی بڑی اچھی طرح سے ہمارا خیال رکھتے ہیں اور ہم اُن کے لیے یہوواہ کے بہت شکرگزار ہیں۔ لیکن ہم کن طریقوں سے ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم ایک قابلِبھروسا شخص ہیں؟
دوسروں کی باتوں کو اپنے تک رکھیں
8. دوسروں کی ذات میں دلچسپی لیتے وقت ہمیں سمجھداری سے کام کیوں لینا چاہیے؟ (امثال 11:13)
8 ہم اپنے بہن بھائیوں سے بہت پیار کرتے ہیں اور اُن کی بھلائی چاہتے ہیں۔لیکن اِس بات کا لحاظ رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ یہ بہن بھائی اپنی کچھ ذاتی باتوں کو اپنے تک رکھنا چاہتے ہیں۔ پہلی صدی عیسوی کی کلیسیا میں کچھ لوگ ’فضول باتیں کر رہے تھے، دوسروں کے معاملوں میں دخل دے رہے تھے اور نامناسب باتیں کر رہے تھے۔‘ (1-تیم 5:13) بےشک ہم اُن کی طرح نہیں بننا چاہتے۔ لیکن فرض کریں کہ کوئی شخص یہ سوچ کر آپ کو اپنے دل کی بات بتاتا ہے کہ آپ اِسے دوسروں کو نہیں بتائیں گے۔ مثال کے طور پر شاید ایک بہن آپ کو اپنی صحت کے کسی مسئلے یا کسی اَور مشکل کے بارے میں بتائے اور آپ سے کہے کہ آپ اِس بات کو اپنے تک رکھیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اُس کے احساسات کا خیال رکھیں۔ b (امثال 11:13 کو فٹنوٹ سے پڑھیں۔ c) آئیے، اب کچھ اَور ایسی صورتحال پر غور کریں جن سے پتہ چلتا ہے کہ دوسروں کی باتوں کو اپنے تک رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔
9. گھر کے افراد کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ قابلِبھروسا ہیں؟
9 خاندان میں۔ خاندان کے ہر فرد کی ذمےداری ہے کہ وہ اپنے گھر کی باتوں کو اپنے گھر تک رکھے۔ مثال کے طور پر شاید ایک بیوی میں کوئی ایسی عادت ہے جسے دیکھ کر شوہر کو بہت ہنسی آتی ہے۔ کیا وہ اِسے دوسروں کو بتائے گا حالانکہ اِس سے اُس کی بیوی شرمندہ ہو سکتی ہے؟ بالکل نہیں۔ وہ اپنی بیوی سے پیار کرتا ہے اور وہ کوئی بھی ایسا کام نہیں کرے گا جس سے اُس کی بیوی کو تکلیف ہو۔ (اِفس 5:33) نوجوان چاہتے ہیں کہ اُن کے ساتھ عزت سے پیش آیا جائے۔ اِس لیے ماں باپ کے لیے اِس بات کو یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ وہ کبھی بھی دوسروں کے سامنے اپنے بچوں کی غلطیاں اُچھال کر اُن کی بےعزتی نہ کریں۔ (کُل 3:21) بچوں کو بھی سمجھداری سے کام لینا چاہیے۔ اُنہیں کبھی بھی دوسروں کو اپنے گھر والوں کی ایسی بات نہیں بتانی چاہیے جس سے اُن کے گھر والوں کو شرمندگی ہو۔ (اِست 5:16) جب خاندان کا ہر فرد اپنے گھر کی باتوں کو اپنے تک رکھتا ہے تو اِس سے اُن کا رشتہ مضبوط ہو جاتا ہے۔
10. سچا دوست ہونے کا کیا مطلب ہے؟ (امثال 17:17)
10 دوستوں کے ساتھ۔ کبھی نہ کبھی ہم سب کو اِس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ہم اپنے قریبی دوست کو اپنے دل کی بات بتائیں۔ لیکن ایسا کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ شاید ہمیں کسی کو اپنے دل کی بات بتانے کی عادت نہیں ہے۔ یا شاید ہمیں یہ ڈر ہو کہ اگر ہمیں پتہ چلا کہ ہمارے دوست نے ہمارے دل کی بات کسی اَور کو بتا دی ہے تو ہم سہہ نہیں پائیں گے۔ لیکن ہم یہوواہ کے بہت شکرگزار ہیں کہ اُس نے ہمیں ایسے دوست دیے ہیں جنہیں ہم اپنے دل کی بات بتا سکتے ہیں اور ہمیں پتہ ہے کہ وہ ہماری باتیں کسی دوسرے کو نہیں بتائیں گے۔ وہ ہمارے سچے دوست ہیں!—امثال 17:17 کو پڑھیں۔
11. (الف) بزرگ اور اُن کی بیویاں کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ اُن پر بھروسا کِیا جا سکتا ہے؟ (ب) ہم اُس بزرگ سے کیا سیکھ سکتے ہیں جو ایک ایسے معاملے کو حل کر رہا ہے جسے راز میں رکھا جانا چاہیے اور بعد میں وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ہے؟ (تصویر کو دیکھیں۔)
11 کلیسیا میں۔ جو بزرگ دوسروں کی باتوں کو راز میں رکھتے ہیں، وہ بہن بھائیوں کے لیے ’آندھی سے پناہگاہ کی مانند اور طوفان سے چھپنے کی جگہ‘ ثابت ہوتے ہیں۔ (یسع 32:2) ہم جانتے ہیں کہ ہم اِن بھائیوں سے کُھل کر بات کر سکتے ہیں کیونکہ ہمیں بھروسا ہے کہ ہم اُن سے جو بات کہیں گے، اُسے وہ اپنے تک ہی رکھیں گے۔ ہم اُن پر زور نہیں ڈالتے کہ وہ ہمیں ایسی باتیں بتائیں جنہیں راز میں رکھا جانا چاہیے۔ اِس کے علاوہ ہم بزرگوں کی بیویوں کی بھی بہت قدر کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنے شوہروں سے ایسی باتیں جاننے کی کوشش نہیں کرتیں جنہیں راز میں رکھا جانا چاہیے۔ یہ واقعی ایک بہت بڑی برکت ہے کہ بزرگوں کی بیویوں کو بہن بھائیوں کے ذاتی معاملوں کے بارے میں پتہ نہ ہو۔ ایک بزرگ کی بیوی کہتی ہے: ”مَیں بہت شکرگزار ہوں کہ میرے شوہر مجھے اُن بہن بھائیوں کے بارے میں کوئی بات نہیں بتاتے جن کا حوصلہ بڑھانے کے لیے وہ اُن سے ملنے جاتے ہیں یا جن کی وہ یہوواہ کے قریب ہونے میں مدد کرتے ہیں۔ وہ تو مجھے اِن بہن بھائیوں کے نام تک نہیں بتاتے۔ مَیں اِس بات کی بہت قدر کرتی ہوں کہ میرے شوہر مجھ پر ایسے مسئلوں کا بوجھ نہیں ڈالتے جن کے بارے میں مَیں کچھ نہیں کر سکتی۔ اِس طرح مَیں بِلاجھجک کلیسیا میں ہر بہن بھائی سے بات کر سکتی ہوں۔ اِس کے علاوہ مَیں اِس بات پر بھی پورا بھروسا رکھ سکتی ہوں کہ جب مَیں اپنے شوہر کو اپنے مسئلوں یا اپنے دل کی کوئی بات بتاؤں گی تو وہ اِسے بھی اپنے تک ہی رکھیں گے۔“ بےشک ہم سب ہی یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے ہمیں ایک ایسا شخص سمجھیں جس پر بھروسا کِیا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا کرنے میں کون سی خوبیاں ہمارے کام آ سکتی ہیں؟ آئیے، اِن میں سے پانچ پر غور کریں۔
ایسی خوبیاں پیدا کریں جن سے آپ ایک قابلِبھروسا شخص بن سکیں
12. ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ بھروسے کی بنیاد محبت ہوتی ہے؟ ایک مثال دیں۔
12 محبت بھروسے کی بنیاد ہوتی ہے۔ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ دو سب سے بڑے حکم یہ ہیں کہ ہم یہوواہ سے اور اپنے پڑوسی سے محبت کریں۔ (متی 22:37-39) یہوواہ کے لیے ہماری محبت ہماری مدد کرتی ہے کہ ہم بھی اُس کی طرح قابلِبھروسا بنیں۔ اور بہن بھائیوں کے لیے ہماری محبت ہماری مدد کرتی ہے کہ ہم اُن کے ذاتی معاملوں کو راز میں رکھیں۔ ہم کبھی بھی اِن بہن بھائیوں کے بارے میں دوسروں کو ایسی باتیں نہیں بتائیں گے جن سے اُنہیں نقصان ہو، شرمندگی اُٹھانی پڑے یا تکلیف پہنچے۔—یوح 15:12۔
13. خاکساری کی خوبی کن طریقوں سے قابلِبھروسا شخص بننے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟
13 خاکساری کی خوبی ایک قابلِبھروسا شخص بننے میں ہماری مدد کرے گی۔ جو مسیحی خاکسار ہوتے ہیں، وہ یہ کوشش نہیں کرتے کہ وہ سب سے پہلے دوسروں کو کوئی راز کی بات بتائیں۔ (فل 2:3) وہ یہ بول کر اپنی اہمیت نمایاں نہیں کرتے کہ اُنہیں ایسی راز کی باتیں پتہ ہیں جن کے بارے میں وہ دوسروں کو نہیں بتا سکتے۔ خاکساری کی خوبی کی وجہ سے ہم ایسے معاملوں کے بارے میں اپنی رائے نہیں پھیلائیں گے جن کے بارے میں بائبل یا تنظیم کی کتابوں اور ویڈیوز وغیرہ میں بات نہیں کی گئی۔
14. سمجھداری ایک قابلِبھروسا شخص بننے میں ہماری مدد کیسے کر سکتی ہے؟
14 سمجھداری کی وجہ سے ایک مسیحی کو پتہ ہوتا ہے کہ ”چپ رہنے کا ایک وقت ہے اور بولنے کا ایک وقت ہے۔“ (واعظ 3:7) کچھ ثقافتوں میں یہ بات بڑی مشہور ہے کہ ”بولنا چاندی کی طرح ہے اور چپ رہنا سونے کی طرح ہے۔“ دوسرے لفظوں میں کہیں تو کچھ موقعے ایسے ہوتے ہیں جن میں خاموش رہنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ اِسی لیے امثال 11:12 میں لکھی یہ بات بالکل صحیح ہے: ”سمجھدار آدمی خاموش رہتا ہے۔“ (اُردو جیو ورشن) اِس سلسلے میں ذرا ایک تجربہکار بزرگ کی مثال پر غور کریں جو اکثر دوسری کلیسیا کے مسئلوں کو سلجھانے میں اُن کی مدد کرتا ہے۔ اُس کی کلیسیا کے ایک دوسرے بزرگ نے اُس کے بارے میں کہا: ”وہ ہمیشہ اِس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ دوسری کلیسیاؤں کی راز کی باتیں کسی کو نہ بتائیں۔ اُن کی سمجھداری کی وجہ سے اُن کی اپنی کلیسیا کے بزرگ اُن کی بہت عزت کرتے ہیں۔ اِن بھائیوں کو پکا یقین ہے کہ وہ بزرگ اُن کی کلیسیا کے اُن معاملوں کے بارے میں کسی کو نہیں بتائیں گے جو راز میں رکھے جانے چاہئیں۔“
15. ایک مثال دیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ایمانداری دوسروں کا بھروسا جیت سکتی ہے۔
15 ایک قابلِبھروسا شخص بننے کے لیے ایمانداری کی خوبی پیدا کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ لوگ ایک ایماندار شخص پر بھروسا کرتے ہیں کیونکہ اُنہیں پتہ ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ سچ بولے گا۔ (اِفس 4:25؛ عبر 13:18) فرض کریں کہ آپ اپنی تعلیم دینے کے مہارتوں میں بہتری لانا چاہتے ہیں۔ اِس لیے آپ کسی سے کہتے ہیں کہ وہ آپ کی تقریر سنے اور آپ کو بتائے کہ آپ کو کہاں پر بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ اِس کے لیے آپ کیسے شخص کو چُنیں گے؟ کیا ایسے شخص کو جو بس آپ کی تعریفیں کرے گا یا ایک ایسے شخص کو جو آپ کو سچ سچ بتائے گا کہ آپ کو کہاں پر بہتری لانی چاہیے؟ یقیناً ایسے شخص کو جو آپ کو سچ بتائے گا۔ بائبل میں لکھا ہے: ”چھپی محبت سے کُھلی ملامت بہتر ہے۔ جو زخم دوست کے ہاتھ سے لگیں پُروفا ہیں۔“ (امثا 27:5، 6) شاید شروع میں ہمیں وہ سچ سننا اچھا نہ لگے جو ہمارا دوست ہمیں ہمارے بارے میں بتاتا ہے۔ لیکن اِس کا آگے چل کر ہمیں بہت فائدہ ہوتا ہے۔
16. امثال 10:19 سے ضبطِنفس کی اہمیت کیسے پتہ چلتی ہے؟
16 دوسروں کا بھروسا جیتنے کے لیے ضبطِنفس کی خوبی بہت ضروری ہے۔ اِس خوبی کی وجہ سے ہم اُس وقت اپنے ”ہونٹوں کو قابو“ میں رکھیں گے جب ہمارا دل کر رہا ہوگا کہ ہم کسی کو وہ بات بتائیں جس کے بارے میں ہمیں کہا گیا ہے کہ ہم اِسے راز میں رکھیں۔ (امثال 10:19 کو پڑھیں۔) ضبطِنفس سے کام لینا خاص طور پر اُس وقت بہت مشکل ہوتا ہے جب ہم سوشل میڈیا اِستعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر ہم محتاط نہیں رہیں گے تو شاید ہم انجانے میں بہت سے لوگوں کو کوئی ایسی بات بتا دیں گے جسے راز میں رکھا جانا چاہیے۔ ایک بار جب ہم کوئی بات اِنٹرنیٹ پر پھیلا دیتے ہیں تو یہ ہمارے ہاتھ میں نہیں رہتا کہ لوگ اِس معلومات کو کیسے اِستعمال کریں گے اور اِس سے کتنے نقصان ہوں گے۔ ضبطِنفس کی خوبی کی وجہ سے ہم اُس وقت بھی خاموش رہیں گے جب ہمارے مخالف بڑی چالاکی سے ہم سے ایسی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے جس سے ہمارے بہن بھائیوں کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ایسا شاید اُس وقت ہو سکتا ہے جب کسی ایسے ملک کی پولیس ہم سے پوچھگچھ کرے جہاں ہمارے کام پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ اِس طرح کی صورتحال میں ہم بائبل کے اِس اصول پر عمل کریں گے: ”مَیں اپنے مُنہ کو لگام دئے رہوں گا۔“ (زبور 39:1) ہمیں ایک ایسا شخص بننا چاہیے جس پر ہر کوئی بھروسا کر سکے پھر چاہے یہ ہمارے گھر کے لوگ ہوں، ہمارے دوست ہوں، ہمارے ہمایمان ہوں یا پھر کوئی اَور۔ اور ایسا شخص بننے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم میں ضبطِنفس ہو۔
17. ہم اپنی کلیسیا میں ایسا ماحول کیسے قائم کر سکتے ہیں جس میں بہن بھائی ایک دوسرے پر بھروسا کر سکیں؟
17 ہم یہوواہ کے کتنے شکرگزار ہیں کہ وہ ہمیں ایسے بہن بھائیوں کے قریب لے آیا ہے جو ہم سے اِتنا پیار کرتے ہیں اور اِتنے بھروسےمند ہیں۔ یہ ہم سب کی ذمےداری ہے کہ ہم اپنے بہن بھائیوں کا بھروسا جیتیں۔ جب ہم محبت، خاکساری، سمجھداری، ایمانداری اور ضبطِنفس ظاہر کرتے ہیں تو ہم کلیسیا میں ایک ایسا ماحول قائم کرتے ہیں جس میں بہن بھائی ایک دوسرے پر بھروسا کر سکتے ہیں۔ ہم سب کو مسلسل ثابت کرتے رہنا ہوگا کہ ہم قابلِبھروسا ہیں۔ دُعا ہے کہ ہم اپنے خدا یہوواہ کی مثال پر عمل کریں اور خود کو ایک قابلِبھروسا شخص ثابت کرتے رہیں۔
گیت نمبر 123: تابعدار ہوں
a اگر ہم چاہتے ہیں کہ دوسرے ہم پر بھروسا کریں تو پہلے ہمیں ثابت کرنا ہوگا کہ ہم ایک قابلِبھروسا شخص ہیں۔ اِس مضمون میں ہم اِس بات کی دُہرائی کریں گے کہ ایک دوسرے پر بھروسا کرنا اِتنا ضروری کیوں ہے اور یہ بھی دیکھیں گے کہ کون سی خوبیاں ہماری مدد کر سکتی ہیں تاکہ ہم ایک ایسے شخص ثابت ہوں جس پر دوسرے بھروسا کر سکیں۔
b اگر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کلیسیا میں کسی شخص نے بہت بڑا گُناہ کِیا ہے تو ہمیں اُس سے کہنا چاہیے کہ وہ اِس بارے میں بزرگوں کو بتائے۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو ہمیں یہوواہ اور کلیسیا سے اپنی وفاداری ثابت کرنی چاہیے اور بزرگوں کو اِس کے بارے میں بتانا چاہیے۔
c امثال 11:13 (اُردو جیو ورشن): ”تہمت لگانے والا دوسروں کے راز فاش کرتا ہے، لیکن قابلِاعتماد شخص وہ بھید پوشیدہ رکھتا ہے جو اُس کے سپرد کیا گیا ہو۔“
d تصویر کی وضاحت: ایک بزرگ ایک معاملے کو حل کر رہا ہے لیکن گھر آ کر وہ اپنے گھر والوں کو اُس کے بارے میں نہیں بتا رہا۔