مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ خدا کے وفادار بندوں سے سیکھیں

یہوواہ خدا کے وفادار بندوں سے سیکھیں

‏”‏یہوواہ تجھ سے کیا چاہتا ہے؟‏ یہی کہ تُو نیکی کرے،‏ وفاداری کو عزیز رکھے اور اپنے خدا کے ساتھ خاکساری سے چلے۔‏“‏—‏میک 6:‏8‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن۔‏

گیت:‏ 18،‏ 43

1،‏ 2.‏ داؤد نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ خدا کے وفادار ہیں؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

رات کے گھپ اندھیرے میں داؤد اور ابیشے دبے پاؤں لشکرگاہ میں گھس گئے جہاں 3000 فوجی نیند کی وادیوں میں تھے۔‏ آخرکار وہ دونوں لشکرگاہ کے عین بیچ پہنچ گئے جہاں بادشاہ ساؤل گہری نیند سو رہے تھے۔‏ ساؤل اِس لیے یہوداہ کے ویرانے میں آئے تھے کہ داؤد کو ڈھونڈ کر مار ڈالیں۔‏ جب ابیشے نے ساؤل کو دیکھا تو اُنہوں نے داؤد سے سرگوشی میں کہا:‏ ”‏اب تُو ذرا مجھ کو اِجازت دے کہ نیزہ کے ایک ہی وار میں اُسے زمین سے پیوند کر دوں اور مَیں اُس پر دوسرا وار کرنے کا بھی نہیں۔‏“‏ اِس پر داؤد نے جو جواب دیا،‏ اِس سے ابیشے بہت حیران ہوئے۔‏ داؤد نے کہا:‏ ”‏اُسے قتل نہ کر کیونکہ کون ہے جو [‏یہوواہ]‏ کے ممسوح پر ہاتھ اُٹھائے اور بےگُناہ ٹھہرے؟‏ .‏ .‏ .‏ [‏یہوواہ]‏ نہ کرے کہ مَیں [‏یہوواہ]‏ کے ممسوح پر ہاتھ چلاؤں۔‏“‏—‏1-‏سمو 26:‏8-‏12‏۔‏

2 داؤد جانتے تھے کہ خدا کا وفادار رہنے میں کیا کچھ شامل ہے۔‏ اُنہوں نے تو ساؤل کو مار ڈالنے کا سوچا تک نہیں۔‏ کیوں نہیں؟‏ کیونکہ خدا نے ساؤل کو اِسرائیل کے بادشاہ کے طور پر مسح کِیا تھا۔‏ اور یہوواہ کے وفادار بندے اُن لوگوں کا احترام کرتے ہیں جنہیں خدا نے مسح کِیا ہوتا ہے۔‏ دراصل یہوواہ اپنے تمام بندوں سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ ’‏وفاداری کو عزیز رکھیں۔‏‘‏‏—‏میکا‌ہ 6:‏8 کو فٹ‌نوٹ سے پڑھیں۔‏  ‏[‏1]‏

3.‏ ابیشے،‏ داؤد کے وفادار کیسے رہے؟‏

3 ابیشے،‏ داؤد کا احترام کرتے تھے۔‏ جب داؤد نے بت‌سبع کے ساتھ زِنا کِیا تو اُنہوں نے اپنے گُناہ کو چھپانے کے لیے ابیشے کے بھائی یوآب سے کہا کہ وہ بت‌سبع کے شوہر اُوریاہ کو جنگ میں مروا ڈالیں۔‏ (‏2-‏سمو 11:‏2-‏4،‏ 14،‏ 15؛‏ 1-‏توا 2:‏16‏)‏ ہو سکتا ہے کہ ابیشے کو اِس افسوس‌ناک بات کی خبر تھی۔‏ لیکن اِس کے باوجود وہ داؤد کا احترام کرتے رہے کیونکہ داؤد خدا کے مسح‌شُدہ بادشاہ تھے۔‏ حالانکہ ابیشے اِسرائیل کی فوج میں ایک بڑے افسر تھے لیکن اُنہوں نے کبھی داؤد کے تخت پر قبضہ جمانے کی کوشش نہیں کی۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے داؤد کو غداروں اور دُشمنوں کے واروں سے بچایا۔‏—‏2-‏سمو 10:‏10؛‏ 20:‏6؛‏ 21:‏15-‏17‏۔‏

4.‏ ‏(‏الف)‏ داؤد نے خدا کے وفادار ہونے کی عمدہ مثال کیسے قائم کی؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟‏

4 جب داؤد نے بادشاہ ساؤل کو مار ڈالنے سے اِنکا‌ر کِیا تو اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ وہ یہوواہ کے وفادار خادم ہیں۔‏ نوجوانی میں داؤد نے فلستی پہلوان جولیت کا مقابلہ کِیا جس نے ”‏زندہ خدا کی فوجوں“‏ کی توہین کی تھی۔‏ (‏1-‏سمو 17:‏23،‏ 26،‏ 48-‏51‏)‏ بادشاہ بننے کے بعد داؤد نے زِنا اور قتل جیسے سنگین گُناہ کیے لیکن جب ناتن نبی نے اُن کی اِصلا‌ح کی تو اُنہوں نے توبہ کر لی۔‏ (‏2-‏سمو 12:‏1-‏5،‏ 13‏)‏ داؤد نے بڑھاپے میں بھی ثابت کِیا کہ وہ خدا کے وفادار ہیں۔‏ مثال کے طور پر اُنہوں نے بڑی دریادلی سے یہوواہ کی ہیکل کی تعمیر کے لیے عطیات دیے۔‏ (‏1-‏توا 29:‏1-‏5‏)‏ یہ سچ ہے کہ داؤد نے بڑی بڑی غلطیاں کیں لیکن اِس کے باوجود وہ خدا کے وفادار رہے۔‏ (‏زبور 51:‏4،‏ 10؛‏ اعما 13:‏36‏)‏ اِس مضمون میں ہم داؤد اور اُن کے زمانے کے کچھ اَور لوگوں کی مثالوں پر غور کریں گے۔‏ ایسا کرتے وقت ہم اِن سوالوں کے جواب حاصل کریں گے:‏ ہمیں سب سے پہلے کس کا وفادار ہونا چاہیے؟‏ اور وفادار رہنے کے لیے ہمیں کن خوبیوں کی ضرورت ہے؟‏

ہمیں سب سے پہلے کس کا وفادار ہونا چاہیے؟‏

5.‏ ہم ابیشے کی غلطی سے کیا سبق سیکھتے ہیں؟‏

5 ابیشے،‏ بادشاہ ساؤل کو اِس لیے مار ڈالنا چاہتے تھے کیونکہ اُنہیں لگتا تھا کہ اِس طرح وہ داؤد سے وفا نبھائیں گے۔‏ لیکن داؤد نے اُنہیں روک لیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ کے ممسوح“‏ پر ہاتھ اُٹھانا غلط ہے۔‏ (‏1-‏سمو 26:‏8-‏11‏)‏ اِس واقعے سے ہم ایک اہم سبق سیکھتے ہیں۔‏ سبق یہ ہے کہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ اشخاص کے وفادار ہونا ممکن ہے لیکن اگر ہمیں یہ فیصلہ کرنا پڑے کہ اِن میں سے کس کا وفادار ہونا ہمارا پہلا فرض ہے تو ہمیں بائبل کے اصولوں کو مدِنظر رکھنا چاہیے۔‏

6.‏ دوستوں اور رشتےداروں سے وفا نبھانے کے سلسلے میں ہمیں کس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے؟‏

6 ہمارا دل ہی ہمیں کسی کا وفادار رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔‏ لیکن یاد رکھیں کہ دل دھوکےباز ہے۔‏ (‏یرم 17:‏9‏)‏ لہٰذا جب ہمارا کوئی قریبی دوست یا رشتےدار غلط کام کرنے لگتا ہے یا یہوواہ کی تنظیم سے مُنہ موڑ لیتا ہے تو شاید ہم اپنے دل کی سنیں اور اُس سے وفا نبھاتے رہیں جبکہ ہمارا پہلا فرض یہ ہے کہ ہم یہوواہ کے وفادار رہیں۔‏‏—‏متی 22:‏37 کو پڑھیں۔‏

7.‏ ایک بہن مشکل صورتحال میں خدا کی وفادار کیسے رہی؟‏

7 جب ہمارا کوئی قریبی رشتےدار کلیسیا سے خارج ہو جاتا ہے تو ہم اِس کشمکش میں پڑ سکتے ہیں کہ ہمیں کس کا وفادار ہونا چاہیے۔‏ ذرا اِس مثال پر غور کریں۔‏ بہن این ‏[‏2]‏ کی ماں کلیسیا سے خارج ہو گئی۔‏ ایک دن اُس نے این کو فون کِیا اور کہا کہ وہ اُن سے ملنا چاہتی ہے۔‏ وہ بہت اُداس تھی کیونکہ اُس کے گھر والوں نے اُس سے ملنا چھوڑ دیا تھا۔‏ این اپنی ماں کی اِلتجا کی وجہ سے پریشان ہو گئیں اور اُس سے کہا کہ وہ خط میں اُسے جواب دیں گی۔‏ خط لکھنے سے پہلے اُنہوں نے بائبل کے کچھ اصولوں پر سوچ بچار کِیا۔‏ (‏1-‏کُر 5:‏11؛‏ 2-‏یوح 9-‏11‏)‏ پھر این نے خط لکھا اور اِس میں بڑے نرم انداز میں اپنی ماں کو یاد دِلایا کہ اصل میں اُسی نے خود کو گھر والوں سے الگ کِیا ہے کیونکہ اُس نے غلط کام کِیا تھا اور توبہ نہیں کی تھی۔‏ پھر این نے لکھا:‏ ”‏اپنی اُداسی کو دُور کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آپ یہوواہ کی طرف لوٹ آئیں۔‏“‏—‏یعقو 4:‏8‏۔‏

8.‏ خدا کے وفادار رہنے کے لیے ہمیں کن خوبیوں کی ضرورت ہے؟‏

8 داؤد سے وفاداری یا بےوفائی کرنے والے لوگوں کی زندگی پر غور کرنے سے ہم دیکھیں گے کہ خدا کے وفادار رہنے کے لیے ہمیں کن خوبیوں کی ضرورت ہے۔‏ اِس سلسلے میں ہم خاکساری،‏ شفقت اور دلیری کی خوبیوں پر غور کریں گے۔‏

خدا کے وفادار رہنے کے لیے خاکساری کی اہمیت

9.‏ ابنیر نے داؤد کو مار ڈالنے کی کوشش کیوں کی؟‏

9 جب داؤد،‏ جولیت کا سر ہاتھ میں لیے بادشاہ ساؤل سے بات کر رہے تھے تو کم سے کم دو آدمی اُن کی باتیں سُن رہے تھے۔‏ اُن میں سے ایک آدمی ساؤل کے بیٹے یونتن تھے جنہوں نے داؤد کے ساتھ دوستی کا عہد باندھا اور دوسرے آدمی فوج کے سپہ‌سالار ابنیر تھے۔‏ (‏1-‏سمو 17:‏57–‏18:‏3‏)‏ بعد میں جب بادشاہ ساؤل،‏ داؤد کو قتل کرنے کے درپے تھے تو ابنیر نے ساؤل کا پورا پورا ساتھ دیا۔‏ اِس لیے داؤد نے لکھا:‏ ”‏سنگ دل لوگ میری جان کے خواہاں ہیں۔‏“‏ (‏زبور 54:‏3‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن؛‏ 1-‏سمو 26:‏1-‏5‏)‏ لیکن یونتن اور ابنیر نے داؤد سے فرق فرق رویہ کیوں اپنایا؟‏ یونتن کی طرح ابنیر بھی جانتے تھے کہ خدا نے داؤد کو اِسرائیل کے بادشاہ کے طور پر چُنا ہے۔‏ ساؤل کی موت کے بعد ابنیر کو خاکساری سے داؤد کی حمایت کرنی چاہیے تھی جس سے ثابت ہوتا کہ وہ خدا کے وفادار ہیں۔‏ لیکن اُنہوں نے ساؤل کے بیٹے اِشبوست کی حمایت کی۔‏ لگتا ہے کہ ابنیر خود بادشاہ بننے کا اِرادہ رکھتے تھے۔‏ یہ بات اُس وقت سامنے آئی جب اُنہوں نے بادشاہ ساؤل کی حرم سے جنسی تعلقات قائم کیے۔‏—‏2-‏سمو 2:‏8-‏10؛‏ 3:‏6-‏11‏۔‏

10.‏ ابی‌سلوم خدا کے وفادار کیوں نہیں رہے؟‏

10 داؤد کے بیٹے ابی‌سلوم میں بھی خاکساری کی کمی تھی اور اِس لیے وہ خدا کے وفادار نہیں رہے۔‏ اُن کے غرور کی تو یہ اِنتہا تھی کہ اُنہوں نے ’‏اپنے لئے ایک رتھ اور گھوڑے اور پچاس آدمی تیار کئے جو اُن کے آگے آگے دوڑیں۔‏‘‏ (‏2-‏سمو 15:‏1‏)‏ ابی‌سلوم نے لوگوں کے دل جیت کر اُنہیں داؤد کے خلا‌ف کر دیا۔‏ ابنیر کی طرح ابی‌سلوم بھی داؤد کو قتل کرنے کی کوشش میں تھے حالانکہ اُنہیں پتہ تھا کہ یہوواہ خدا ہی نے داؤد کو اِسرائیل کے بادشاہ کے طور پر مقرر کِیا ہے۔‏—‏2-‏سمو 15:‏13،‏ 14؛‏ 17:‏1-‏4‏۔‏

11.‏ ابنیر،‏ ابی‌سلوم اور باروک کی زندگی پر غور کرنے سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

11 ابنیر اور ابی‌سلوم کی مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص بڑا بننے کی خواہش رکھتا ہے تو وہ آسانی سے خدا سے بےوفائی کر بیٹھتا ہے۔‏ ظاہری بات ہے کہ یہوواہ کا کوئی بھی وفادار خادم ایسی بُری روِش نہیں اپنائے گا۔‏ لیکن دولت اور اچھی سے اچھی ملا‌زمت کی جستجو بھی یہوواہ کے خادموں کو اُس سے دُور کر سکتی ہے۔‏ کچھ وقت کے لیے یرمیاہ نبی کے مُنشی باروک کا دھیان بھی خدا کی خدمت سے ہٹ گیا تھا۔‏ اِس پر یہوواہ نے باروک کے لیے یہ پیغام بھجوایا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ یوں فرماتا ہے کہ مَیں نے تمام ملک میں جو کچھ تعمیر کِیا ہے اُسے گِرا دوں گا اور جو کچھ لگا‌یا ہے اُسے اُکھاڑ دوں گا۔‏ کیا تُو اپنے لیے بڑی بڑی چیزیں ڈھونڈ رہا ہے؟‏ اُنہیں مت ڈھونڈ۔‏“‏ (‏یرم 45:‏4،‏ 5‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ باروک نے اِس اِصلا‌ح کو قبول کر لیا اور ہمیں بھی یہوواہ خدا کی اِس بات کو یاد رکھنا چاہیے کیونکہ اِس بُری دُنیا کا خاتمہ جلد آنے والا ہے۔‏

12.‏ مثال دے کر بتائیں کہ اگر ہم اپنی خواہشوں کو پورا کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں تو ہم یہوواہ کے وفادار نہیں رہ سکتے۔‏

12 میکسیکو میں رہنے والے بھائی ڈینئل کو یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ آیا وہ خدا کے وفادار رہیں گے یا اپنی خواہشوں کو پورا کریں گے۔‏ وہ ایک ایسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتے تھے جو یہوواہ کی گواہ نہیں تھی۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏پہل‌کار کے طور پر خدمت شروع کرنے کے بعد بھی مَیں اِس لڑکی سے رابطے میں رہا۔‏ لیکن آخرکار مَیں نے خاکساری سے کام لیا اور کلیسیا کے ایک بزرگ کو بتایا کہ مَیں کس کشمکش میں ہوں۔‏ اِس بزرگ نے مجھے سمجھایا کہ اگر مَیں خدا کا وفادار رہنا چاہتا ہوں تو مجھے اُس لڑکی سے رابطہ ختم کرنا پڑے گا۔‏ مَیں نے بہت دُعائیں کیں اور آنسو بہائے اور آخرکار اُن کے مشورے پر عمل کِیا۔‏ اِس کے بعد مجھے مُنادی کے کام سے زیادہ خوشی ملنے لگی۔‏“‏ کچھ عرصے بعد ڈینئل نے ایک یہوواہ کی گواہ سے شادی کی اور آج وہ حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کر رہے ہیں۔‏

خدا کے وفادار بندے شفیق ہوتے ہیں

اگر آپ کو پتہ چلتا ہے کہ ایک مسیحی بہن یا بھائی غلط روِش پر چل نکلا ہے تو آپ یہوواہ کے وفادار کیسے رہ سکتے ہیں؟‏ (‏پیراگراف 14 کو دیکھیں۔‏)‏

13.‏ جب داؤد نے گُناہ کِیا تو ناتن نبی اُن کے اور یہوواہ کے وفادار کیسے رہے؟‏

13 یہوواہ خدا کے وفادار رہنے کی خواہش ہمیں دوسروں کا وفادار رہنے کی ترغیب دیتی ہے۔‏ ناتن نبی کے بارے میں بھی یہ سچ تھا۔‏ اُنہیں پتہ چلا کہ داؤد نے ایک عورت کے ساتھ زِناکاری کی اور پھر اُس عورت کے شوہر کو جنگ میں مروایا۔‏ پھر جب یہوواہ نے ناتن کو داؤد کی درستی کرنے کے لیے بھیجا تو ناتن نے بڑی دلیری سے خدا کا کہنا مانا اور یوں ثابت کِیا کہ وہ داؤد کے بھی وفادار ہیں۔‏ ناتن نے داؤد کی درستی کرتے وقت دانش‌مندی سے کام لیا اور بڑا شفیق انداز اپنایا۔‏ وہ داؤد کو یہ احساس دِلانا چاہتے تھے کہ اُنہوں نے کتنے سنگین گُناہ کیے ہیں۔‏ اِس لیے ناتن نے داؤد کو ایک امیر آدمی کی کہانی سنائی جس نے ایک غریب آدمی کی بھیڑ چھین لی۔‏ جب داؤد کو اُس امیر آدمی پر غصہ آیا تو ناتن نے اُن سے کہا:‏ ”‏وہ شخص تُو ہی ہے۔‏“‏ داؤد،‏ ناتن کی بات فوراً سمجھ گئے۔‏—‏2-‏سمو 12:‏1-‏7،‏ 13‏۔‏

14.‏ آپ اپنے رشتےدار یا دوست کے وفادار رہنے کے ساتھ ساتھ یہوواہ کے وفادار کیسے رہ سکتے ہیں؟‏

14 شفقت کی خوبی اُس وقت بھی آپ کے کام آئے گی جب آپ کو یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ آپ کس کے وفادار رہیں گے۔‏ مثال کے طور پر شاید ایک یہوواہ کا گواہ غلط روِش پر چل نکلا ہے۔‏ اگر وہ آپ کا قریبی دوست یا رشتےدار ہے تو آپ کے دل میں یہ خواہش ضرور ہوگی کہ آپ اُس کے وفادار رہیں۔‏ لیکن اگر آپ اُس سے وفاداری نبھانے کی خاطر اُس کے گُناہ پر پردہ ڈالیں گے تو آپ یہوواہ خدا سے بےوفائی کر رہے ہوں گے۔‏ ظاہری بات ہے کہ آپ کو سب سے پہلے یہوواہ خدا کا وفادار ہونا چاہیے۔‏ اِس لیے ناتن نبی کی مثال پر عمل کریں اور اپنے دوست یا رشتےدار سے اُس کے گُناہ کے بارے میں بات کریں مگر شفقت بھرے انداز میں۔‏ اُس سے کہیں کہ وہ جا کر کلیسیا کے بزرگوں سے بات کرے۔‏ اگر کچھ وقت گزرنے کے بعد بھی وہ ایسا نہیں کرتا تو آپ خود جا کر بزرگوں سے بات کریں۔‏ ایسا کرنے سے آپ ظاہر کریں گے کہ آپ یہوواہ خدا کے وفادار ہیں اور اپنے دوست یا رشتےدار کی بہتری چاہتے ہیں کیونکہ کلیسیا کے بزرگ اُس کی اِصلا‌ح کرنے کی کوشش کریں گے۔‏‏—‏احبار 5:‏1؛‏ گلتیوں 6:‏1 کو پڑھیں۔‏

خدا کے وفادار رہنے کے لیے دلیری کی اہمیت

15،‏ 16.‏ حوسی کو خدا کے وفادار رہنے کے لیے دلیری کی ضرورت کیوں تھی؟‏

15 بادشاہ داؤد کے دوست حوسی کو خدا کا وفادار رہنے کے لیے دلیری کی ضرورت تھی۔‏ یوں تو حوسی،‏ داؤد کے وفادار تھے لیکن جب ابی‌سلوم نے داؤد کے خلا‌ف سازش کی اور اُن سے تخت چھیننے کی کوشش کی تو حوسی کی وفاداری آزمائی گئی۔‏ (‏2-‏سمو 15:‏13؛‏ 16:‏15‏)‏ ابی‌سلوم نے یروشلیم پر قبضہ کر لیا تھا اِس لیے داؤد کو شہر سے بھاگنا پڑا۔‏ اِس صورتحال میں حوسی نے کیا کِیا؟‏ کیا اُنہوں نے ابی‌سلوم کی حمایت کرنے کا فیصلہ کِیا؟‏ یا پھر کیا وہ اُس بوڑھے بادشاہ کے وفادار رہے جو اپنی جان بچانے کو بھاگ رہا تھا؟‏ حوسی نے اُس بادشاہ کی حمایت کرنے کا فیصلہ کِیا جسے خدا نے مقرر کِیا تھا۔‏ اِس لیے وہ کوہِ‌زیتون پر داؤد سے ملنے گئے۔‏—‏2-‏سمو 15:‏30،‏ 32‏۔‏

16 داؤد نے حوسی سے درخواست کی کہ وہ یروشلیم واپس جائیں،‏ خود کو ابی‌سلوم کے دوست ظاہر کریں اور اُن کے مشیر اخیتفل کے مشوروں کو ناکام بنانے کی کوشش کریں۔‏ حوسی یہوواہ کے وفادار تھے اِس لیے اُنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر داؤد کی درخواست پر عمل کِیا۔‏ داؤد کی دُعا کے عین مطابق حوسی کی دلیری رنگ لائی اور وہ اخیتفل کے مشوروں کو ناکام بنا سکے۔‏—‏2-‏سمو 15:‏31؛‏ 17:‏14‏۔‏

17.‏ ہمیں خدا کے وفادار رہنے کے لیے دلیری کی ضرورت کیوں ہے؟‏

17 ہمیں بھی یہوواہ کے وفادار رہنے کے لیے دلیری کی ضرورت ہے۔‏ یہوواہ کے بہت سے بندوں نے اُس کے وفادار رہنے کی خاطر اپنے رشتےداروں،‏ ساتھی کارکنوں یا سرکاری افسروں کی ناراضگی مول لی۔‏ اِس سلسلے میں بھائی ٹارو کی مثال پر غور کریں جو جاپان میں رہتے ہیں۔‏ وہ بچپن سے اپنے والدین کے بہت ہی فرمانبردار اور وفادار بیٹے تھے۔‏ وہ محض فرض ادا کرنے کے لیے فرمانبردار نہیں تھے بلکہ اُنہیں واقعی اپنے ماں باپ کی خوشی عزیز تھی۔‏ جب بھائی ٹارو یہوواہ کے گواہوں سے بائبل کی تعلیم حاصل کرنے لگے تو اُن کے والدین نے اُن کی شدید مخالفت کی۔‏ بھائی ٹارو کو اپنے والدین کو یہ بتانا بہت مشکل لگا کہ اب سے وہ مسیحی اِجلا‌سوں پر جائیں گے۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏میرے والدین مجھ سے اِتنے ناراض تھے کہ اُنہوں نے مجھے گھر میں داخل ہونے سے منع کر دیا۔‏ مَیں نے دُعا کی کہ خدا مجھے اپنے عزم پر قائم رہنے کی توفیق دے۔‏ کئی سال بعد میرے والدین کے رویے میں نرمی آئی اور اب مَیں باقاعدگی سے اُن سے ملنے جاتا ہوں۔‏“‏‏—‏امثال 29:‏25 کو پڑھیں۔‏

18.‏ آپ نے اِس مطالعے سے کیا سیکھا ہے؟‏

18 دُعا ہے کہ داؤد،‏ یونتن،‏ ناتن اور حوسی کی طرح ہم بھی اُس خوشی اور سکون کو محسوس کریں جو یہوواہ کے وفادار رہنے سے ملتا ہے۔‏ اور آئیں،‏ ہم ابنیر اور ابی‌سلوم کی بُری مثال سے عبرت حاصل کریں۔‏ یقیناً داؤد کی طرح ہم بھی یہوواہ خدا کی قربت میں رہنا چاہتے ہیں۔‏ یہ سچ ہے کہ گُناہ‌گار اِنسانوں کے طور پر ہم غلطیاں کرتے ہیں لیکن اِس کے باوجود ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ یہوواہ کا وفادار رہنا ہماری زندگی میں سب سے اہم ہے۔‏

^ ‏[‏1]‏ ‏(‏پیراگراف 2)‏ میکا‌ہ 6:‏8 ‏(‏نیو ورلڈ ٹرانسلیشن)‏‏:‏ ”‏اَے اِنسان!‏ اُس نے تجھے بتایا ہے کہ بھلا کیا ہے۔‏ یہوواہ تجھ سے کیا چاہتا ہے؟‏ یہی کہ تُو نیکی کرے،‏ وفاداری کو عزیز رکھے اور اپنے خدا کے ساتھ خاکساری سے چلے۔‏“‏

^ ‏[‏2]‏ ‏(‏پیراگراف 7)‏ کچھ نام فرضی ہیں۔‏