مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ کے قریبی دوستوں کی مثال پر عمل کریں

یہوواہ کے قریبی دوستوں کی مثال پر عمل کریں

‏”‏[‏یہوواہ]‏ کے راز کو وہی جانتے ہیں جو اُس سے ڈرتے ہیں۔‏“‏—‏زبور 25:‏14‏۔‏

گیت:‏ 27،‏ 21

1-‏3.‏ ‏(‏الف)‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ ہم بھی خدا کے دوست بن سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم خدا کے کن قریبی دوستوں پر غور کریں گے؟‏

بائبل میں ابرہام کو تین بار خدا کا دوست کہا گیا ہے۔‏ (‏2-‏توا 20:‏7؛‏ یسع 41:‏8؛‏ یعقو 2:‏23‏)‏ پاک کلام میں صرف ابرہام ہی کو یہ لقب دیا گیا ہے۔‏ تو کیا اِس کا مطلب ہے کہ تمام اِنسانوں میں سے صرف ابرہام ہی یہوواہ کے دوست تھے؟‏ نہیں۔‏ بائبل سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کا دوست بننا کسی اِنسان کی پہنچ سے باہر نہیں ہے۔‏

2 خدا کے کلام میں بہت سے وفادار مردوں اور عورتوں کا ذکر ہوا ہے جو یہوواہ سے ڈرتے تھے،‏ اُس پر ایمان رکھتے تھے اور اُس کے ہم‌راز یعنی قریبی دوست تھے۔‏ ‏(‏زبور 25:‏14 کو پڑھیں۔‏)‏ پولُس رسول نے ’‏گواہوں کے ایک بڑے بادل‘‏ کا ذکر کِیا۔‏ (‏عبر 12:‏1‏)‏ یقیناً یہ تمام گواہ خدا کے دوست تھے۔‏

3 آئیں،‏ یہوواہ کے اِن تین قریبی دوستوں پر غور کریں:‏ (‏1)‏ رُوت جو موآب سے تھیں اور ایک بیوہ تھیں؛‏ (‏2)‏ حِزقیاہ جو یہوداہ کے نیک بادشاہ تھے اور (‏3)‏ مریم جو یسوع کی ماں تھیں۔‏ اِن تینوں نے یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط کرنے کے لیے کیا کِیا؟‏ اور ہم اِس سلسلے میں اِن سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

‏”‏تیرا خدا میرا خدا ہوگا“‏

4،‏ 5.‏ رُوت کو کون سا فیصلہ کرنا پڑا اور یہ اِتنا مشکل کیوں تھا؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

4 ذرا اِس منظر کا تصور کریں:‏ موآب کے میدانوں کے بیچ سے گزرتی سڑک پر تین بیوائیں کھڑی ہیں۔‏ اِن میں سے ایک کا نام نعومی ہے اور اُن کے ساتھ اُن کی بہوئیں رُوت اور عرفہ ہیں۔‏ عرفہ پلٹ کر موآب کی طرف چلنے لگتی ہیں کیونکہ اُنہوں نے اپنے میکے لوٹ جانے کا فیصلہ کِیا ہے۔‏ لیکن رُوت ابھی بھی اپنی ساس نعومی کے پاس کھڑی ہیں جنہوں نے اپنے دیس اِسرائیل لوٹنے کی ٹھان رکھی ہے۔‏ رُوت کو اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ کرنا ہے۔‏ کیا وہ عرفہ کی طرح موآب میں اپنے میکے لوٹ جائیں گی یا پھر اپنی ساس کے ساتھ بیت‌لحم جائیں گی؟‏—‏رُوت 1:‏1-‏8،‏ 14‏۔‏

5 شاید رُوت کے ذہن میں یہ خیال آ رہے تھے کہ ”‏میرے گھر والے موآب میں ہیں۔‏ وہ میرا خیال رکھ سکتے ہیں اور میری ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔‏ موآب میرا دیس ہے۔‏ وہاں کی ثقافت میری ثقافت ہے اور وہاں کی زبان میری زبان ہے۔‏ اگر مَیں نعومی کے ساتھ بیت‌لحم جاؤں گی تو مجھے اجنبی قوم میں زندگی گزارنی پڑے گی۔‏“‏ نعومی بھی رُوت کو موآب واپس جانے کا مشورہ دے رہی تھیں۔‏ اُنہیں اِس بات کی فکر تھی کہ وہ رُوت کے لیے شوہر کہاں سے ڈھونڈیں گی تاکہ وہ اپنے گھر کی ہو جائیں۔‏ رُوت نے کیا فیصلہ کِیا؟‏ عرفہ تو ”‏اپنے کُنبے اور اپنے دیوتا کے پاس لوٹ“‏ گئی تھیں۔‏ (‏رُوت 1:‏9-‏15‏)‏ کیا رُوت بھی موآب کے جھوٹے دیوتاؤں کے پاس لوٹنا چاہتی تھیں؟‏ نہیں۔‏

6.‏ ‏(‏الف)‏ رُوت نے کون سا اچھا فیصلہ کِیا؟‏ (‏ب)‏ بوعز نے کیوں کہا کہ رُوت نے یہوواہ کے پَروں کے نیچے پناہ لی ہے؟‏

6 لگتا ہے کہ رُوت نے اپنے مرحوم شوہر یا پھر نعومی سے یہوواہ خدا کے بارے میں سیکھا تھا۔‏ رُوت کو معلوم تھا کہ یہوواہ موآب کے دیوتاؤں سے بالکل فرق ہے،‏ وہی سچا خدا ہے اور عبادت اور محبت کا حق‌دار ہے۔‏ لیکن یہ علم کافی نہیں تھا۔‏ رُوت کو اِس علم کی بِنا پر ایک اہم فیصلہ کرنا تھا۔‏ کیا وہ یہوواہ کو اپنا خدا مانیں گی؟‏ اُنہوں نے بہت ہی اچھا فیصلہ کِیا اور نعومی سے کہا:‏ ”‏تیرے لوگ میرے لوگ اور تیرا خدا میرا خدا ہوگا۔‏“‏ (‏رُوت 1:‏16‏)‏ بےشک اپنی ساس کے لیے رُوت کی محبت مثالی تھی لیکن اِس سے زیادہ مثالی وہ محبت تھی جو رُوت کے دل میں یہوواہ خدا کے لیے تھی۔‏ بیت‌لحم کے ایک زمین‌دار بوعز نے رُوت کی تعریف کی کیونکہ رُوت نے یہوواہ کے پَروں کے نیچے پناہ لی تھی۔‏ ‏(‏رُوت 2:‏12 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس بات سے شاید ہمارے ذہن میں ایک عقاب کے بچے کی تصویر آئے جو اپنے ماں باپ کے پَروں کے نیچے پناہ لیتا ہے۔‏ (‏زبور 36:‏7؛‏ 91:‏1-‏4‏)‏ یہوواہ خدا نے ایک عقاب کی طرح رُوت کو اپنے سائے میں پناہ دی اور اُنہیں اُن کے ایمان کا صلہ دیا۔‏ اِس لیے رُوت کو اپنے فیصلے پر کبھی پچھتانا نہیں پڑا۔‏

7.‏ جو لوگ خدا کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کا فیصلہ ٹالتے ہیں،‏ اُنہیں کن باتوں پر غور کرنا چاہیے؟‏

7 بہت سے لوگ یہوواہ کے بارے میں علم تو حاصل کرتے ہیں لیکن اُس کے سائے میں پناہ لینے سے ہچکچاتے ہیں۔‏ وہ خدا کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کا فیصلہ ٹالتے رہتے ہیں۔‏ اگر آپ بھی اِن میں سے ایک ہیں تو خود سے پوچھیں کہ کون سی بات آپ کو روک رہی ہے؟‏ حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص کسی نہ کسی خدا کی خدمت کرتا ہے۔‏ (‏یشو 24:‏15‏)‏ تو پھر کیوں نہ اُس خدا کی خدمت اور عبادت کریں جو واقعی اِس کا حق‌دار ہے؟‏ وہ ہی آپ کو پناہ دے سکتا ہے۔‏ یہوواہ پر ایمان ظاہر کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اُس کے لیے اپنی زندگی وقف کر دیں۔‏ وہ آپ کی مدد کرے گا تاکہ آپ مشکل وقت میں بھی اُس کے وفادار رہ سکیں،‏ بالکل جیسے اُس نے رُوت کی مدد کی تھی۔‏

‏’‏وہ یہوواہ سے لپٹے رہے‘‏

8.‏ حِزقیاہ نے کیسے ماحول میں پرورش پائی؟‏

8 حِزقیاہ اِسرائیلی قوم سے تھے جو یہوواہ کے لیے وقف تھی۔‏ لیکن سب اِسرائیلی یہوواہ کے وفادار نہیں تھے۔‏ اِس کی ایک مثال حِزقیاہ کے باپ آخز تھے۔‏ آخز یہوداہ کے بادشاہ تھے۔‏ اُنہوں نے ملک میں بڑے پیمانے پر بُت‌پرستی کو فروغ دیا یہاں تک کہ یہوواہ کی ہیکل کی بےحُرمتی بھی کی۔‏ اُنہوں نے تو اپنے کچھ بیٹوں کو قربانی کے طور پر بُتوں کے آگے زندہ بھی جلا دیا۔‏ اِسی ماحول میں حِزقیاہ نے پرورش پائی۔‏ ذرا سوچیں کہ یہ سب کچھ دیکھ کر اُن پر کیا گزری ہوگی۔‏—‏2-‏سلا 16:‏2-‏4،‏ 10-‏17؛‏ 2-‏توا 28:‏1-‏3‏۔‏

9،‏ 10.‏ ‏(‏الف)‏ حِزقیاہ خدا سے ناراض کیوں ہو سکتے تھے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں خدا سے ناراض کیوں نہیں ہونا چاہیے؟‏ (‏ج)‏ ہمیں یہ کیوں نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم اپنی پرورش کی وجہ سے بُرا بننے پر مجبور ہیں؟‏

9 یہ حیرانی کی بات نہ ہوتی اگر حِزقیاہ خدا سے ناراض ہو جاتے اور اُس سے مُنہ موڑ لیتے۔‏ جب کچھ لوگوں پر مصیبتیں آتی ہیں تو وہ ”‏[‏یہوواہ]‏ سے بیزار“‏ ہو جاتے ہیں اور اُس کی تنظیم سے مُنہ پھیر لیتے ہیں حالانکہ اُن کو ایسی آزمائشوں نے چُھوا بھی نہیں ہوتا جو حِزقیاہ پر آئیں۔‏ (‏امثا 19:‏3‏)‏ اور چونکہ کچھ لوگوں کا بچپن بُرا گزرا اِس لیے اُن کو لگتا ہے کہ اُن کے نصیب میں بُرا ہونا ہی لکھا ہے اور وہ اپنے والدین کی غلطیوں کو دُہرانے پر مجبور ہیں۔‏ (‏حِز 18:‏2،‏ 3‏)‏ کیا ایسی سوچ درست ہے؟‏

10 بالکل نہیں۔‏ اِس بات کا ثبوت حِزقیاہ کی زندگی سے ملتا ہے۔‏ اصل میں یہوواہ خدا اِنسانوں پر مصیبتیں اور آزمائشیں نہیں لاتا۔‏ (‏ایو 34:‏10‏)‏ اِس لیے اُس سے ناراض ہونا واجب نہیں ہے۔‏ یہ سچ ہے کہ والدین اپنے بچوں پر اچھا یا بُرا اثر ڈال سکتے ہیں۔‏ (‏امثا 22:‏6؛‏ کُل 3:‏21‏)‏ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ اِنسان اپنی پرورش کی وجہ سے بُرا بننے پر مجبور ہے۔‏ یہوواہ خدا نے ہم سب کو اِنتخاب کرنے کی صلا‌حیت سے نوازا ہے۔‏ اِس صلا‌حیت کی بِنا پر ہم خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہم کس طرح کے شخص بنیں گے اور کیسے کام کریں گے۔‏ (‏اِست 30:‏19‏)‏ حِزقیاہ نے اِس صلا‌حیت کو کیسے اِستعمال کِیا؟‏

بہت سے نوجوان یہوواہ خدا کی عبادت کرتے ہیں حالانکہ اُن کے گھر والے ایسا نہیں کرتے۔‏ (‏پیراگراف 9 اور 10 کو دیکھیں۔‏)‏

11.‏ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ حِزقیاہ،‏ یہوداہ کے سب سے اچھے بادشاہوں میں سے ایک تھے؟‏

11 حالانکہ حِزقیاہ کے باپ ملک یہوداہ کے سب سے بُرے بادشاہوں میں سے ایک تھے لیکن حِزقیاہ خود یہوداہ کے سب سے اچھے بادشاہوں میں شمار ہوتے ہیں۔‏ ‏(‏2-‏سلا‌طین 18:‏5،‏ 6 کو پڑھیں۔‏)‏ یہ سچ ہے کہ حِزقیاہ کے باپ بُرے تھے لیکن اُس زمانے میں اچھے لوگ بھی موجود تھے،‏ مثلاً خدا کے نبی یسعیاہ،‏ میکا‌ہ اور ہوسیع۔‏ حِزقیاہ نے اِن نبیوں کے پیغام پر سوچ بچار کی ہوگی اور یہوواہ کی ہدایتوں اور نصیحتوں کو اپنے دل میں اُتارا ہوگا۔‏ اِس کے نتیجے میں اُنہوں نے اُس بُرائی کو دُور کرنے کی بھرپور کوشش کی جو اُن کے باپ نے ملک میں پھیلا‌ئی تھی۔‏ اُنہوں نے ہیکل کو پاک کِیا،‏ اِسرائیل کے گُناہوں کا کفارہ دیا اور بڑے جوش‌وخروش سے پورے علا‌قے میں بُتوں کو چکنا چُور کِیا۔‏ (‏2-‏توا 29:‏1-‏11،‏ 18-‏24؛‏ 31:‏1‏)‏ پھر جب اسور کا بادشاہ سنحیرب یروشلیم پر حملہ کرنے آیا تو حِزقیاہ نے بڑی دلیری سے کام لیا اور نجات کے لیے یہوواہ پر آس لگا‌ئی۔‏ اِس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے اپنی باتوں اور مثال سے قوم کو ہمت دِلائی۔‏ (‏2-‏توا 32:‏7،‏ 8‏)‏ حِزقیاہ کی زندگی میں ایک وقت آیا جب وہ مغرور بن گئے لیکن جونہی اُن کی اِصلا‌ح کی گئی،‏ اُنہوں نے بڑی خاکساری سے توبہ کر لی۔‏ (‏2-‏توا 32:‏24-‏26‏)‏ بِلا‌شُبہ حِزقیاہ نے بچپن کی تلخ یادوں کو اپنی زندگی پر حاوی نہیں ہونے دیا۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے ثابت کِیا کہ وہ یہوواہ کے قریبی دوست ہیں۔‏ یوں اُنہوں نے ہم سب کے لیے اچھی مثال قائم کی۔‏

12.‏ بہت سے یہوواہ کے گواہ کس صورتحال کے باوجود یہوواہ کے دوست بنے؟‏

12 اِس بےرحم اور محبت سے خالی دُنیا میں بہت سے بچوں کو اپنے ماں باپ کی طرف سے وہ پیار اور تحفظ نہیں ملتا جن کے وہ حق‌دار ہیں۔‏ (‏2-‏تیم 3:‏1-‏5‏)‏ حِزقیاہ کی طرح بہت سے یہوواہ کے گواہوں کا بھی بچپن بُرا گزرا لیکن اِس کے باوجود اُنہوں نے یہوواہ خدا سے قریبی دوستی قائم کی۔‏ یوں اُنہوں نے ثابت کِیا کہ اِنسان بُرے ماحول میں پرورش پانے کے باوجود نیک بن سکتے ہیں۔‏ خدا نے ہمیں اِنتخاب کرنے کی صلا‌حیت عطا کی ہے۔‏ اِس صلا‌حیت کو اِستعمال میں لا کر ہم حِزقیاہ کی طرح یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہم بھی یہوواہ سے لپٹے رہیں گے اور اُس کی تعظیم کریں گے۔‏

‏’‏دیکھ مَیں یہوواہ کی بندی ہوں‘‏

13،‏ 14.‏ مریم کو جو ذمےداری ملی،‏ وہ اُنہیں بھاری کیوں لگی ہوگی؟‏ اِس کے باوجود اُنہوں نے جبرائیل کو کیا جواب دیا؟‏

13 حِزقیاہ کے زمانے کے صدیوں بعد ایک جوان یہودی عورت نے یہوواہ سے قریبی دوستی قائم کی۔‏ اِس عورت کا نام مریم تھا اور وہ عیلی کی بیٹی تھیں۔‏ یہوواہ خدا نے مریم کو ایک انوکھی ذمےداری سونپی۔‏ اُنہیں خدا کے اِکلوتے بیٹے کو جنم دینا تھا اور اُس کی پرورش کرنی تھی۔‏ ذرا سوچیں کہ یہوواہ کو مریم پر کتنا بھروسا تھا کہ اُس نے اُنہیں ایسی ذمےداری سونپی!‏ اِس ذمےداری کے بارے میں سُن کر مریم کو شروع میں کیسا لگا ہوگا؟‏

‏’‏دیکھ مَیں یہوواہ کی بندی ہوں۔‏‘‏ (‏پیراگراف 13 اور 14 کو دیکھیں۔‏)‏

14 یہ سچ ہے کہ یہ ذمےداری ایک بہت بڑا شرف تھی لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اِس حوالے سے مریم کو کچھ مسئلوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔‏ مثال کے طور پر خدا کے فرشتے جبرائیل نے اُنہیں یہ تو بتایا کہ وہ معجزانہ طور پر حاملہ ہوں گی لیکن جبرائیل نے یہ نہیں کہا کہ وہ جا کر مریم کے رشتےداروں اور پڑوسیوں کو سمجھائیں گے کہ وہ کیسے حاملہ ہوں گی۔‏ شاید مریم نے سوچا ہو کہ ”‏لوگ میرے بارے میں کیا سوچیں گے؟‏“‏ بِلا‌شُبہ مریم کو یہ فکر بھی تھی کہ وہ اپنے منگیتر یوسف کو کیسے سمجھائیں گی کہ اُنہوں نے اُن سے بےوفائی نہیں کی۔‏ اِس کے علا‌وہ وہ جانتی تھیں کہ خدا تعالیٰ کے اِکلوتے بیٹے کی دیکھ‌بھال اور تربیت کرنا کوئی معمولی ذمےداری نہیں ہے۔‏ ہمیں نہیں پتہ کہ جب جبرائیل مریم سے بات کر رہے تھے تو مریم کے دل میں اَور کون کون سے وسوسے آئے ہوں گے۔‏ لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اُنہوں نے فوراً جواب دیا:‏ ”‏دیکھ مَیں [‏یہوواہ]‏ کی بندی ہوں۔‏ میرے لئے تیرے قول کے موافق ہو۔‏“‏—‏لُو 1:‏26-‏38‏۔‏

15.‏ مریم کا ایمان مثالی کیوں تھا؟‏

15 مریم کا ایمان واقعی مثالی تھا!‏ غور کریں کہ اُنہوں نے خود کو یہوواہ کی بندی یعنی غلا‌م کہا۔‏ ایک غلا‌م اپنے مالک کی ملکیت ہوتا ہے۔‏ لہٰذا مریم نے ظاہر کِیا کہ اُنہوں نے خود کو اپنے مالک یہوواہ کے سپرد کر دیا ہے۔‏ وہ اُس کے لیے ہر کام کرنے کو تیار تھیں،‏ چاہے یہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو۔‏ لیکن اُن کا ایمان اِتنا مضبوط کیسے بنا؟‏ سچ ہے کہ کسی اِنسان میں پیدائشی طور پر ایمان نہیں ہوتا بلکہ اُسے ایمان پیدا کرنے کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے اور خدا کی مدد کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔‏ (‏گل 5:‏22‏)‏ کیا مریم نے اپنے ایمان کو مضبوط بنانے کے لیے محنت کی؟‏ جی ہاں۔‏ غور کریں کہ وہ کن باتوں پر دھیان دیتی تھیں اور کس طرح کی باتیں کرتی تھیں۔‏

16.‏ مریم کن باتوں کو دھیان سے سنتی تھیں؟‏

16 مریم کن باتوں پر دھیان دیتی تھیں؟‏ بائبل میں یہ ہدایت پائی جاتی ہے:‏ ”‏ہر آدمی سننے میں تیز اور بولنے میں دھیرا .‏ .‏ .‏ ہو۔‏“‏ (‏یعقو 1:‏19‏)‏ مریم کن باتوں کو دھیان سے سنتی تھیں؟‏ بائبل سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خاص طور پر اُن باتوں پر دھیان دیتی تھیں جو وہ یہوواہ خدا کے بارے میں سنتی تھیں اور وہ اِن باتوں پر سوچ بچار کرنے کے لیے وقت بھی نکا‌لتی تھیں۔‏ اِس کی ایک مثال وہ واقعہ ہے جب یسوع کی پیدائش پر چرواہوں نے آ کر مریم کو فرشتوں کا پیغام سنایا۔‏ اور ایک اَور مثال وہ واقعہ ہے جب 12 سالہ یسوع نے ایک ایسی بات کہی جس پر مریم دنگ رہ گئیں۔‏ دونوں موقعوں پر مریم نے اِن باتوں کو غور سے سنا،‏ یاد رکھا اور پھر اُن پر سوچ بچار کِیا۔‏‏—‏لُوقا 2:‏16-‏19،‏ 49،‏ 51 کو پڑھیں۔‏

17.‏ مریم کس طرح کی باتیں کرتی تھیں اور اِس سے اُن کے بارے میں کیا ظاہر ہوتا ہے؟‏

17 مریم کس طرح کی باتیں کرتی تھیں؟‏ بائبل میں مریم کی کم ہی باتیں درج ہیں۔‏ اُن کی سب سے لمبی بات لُوقا 1:‏46-‏55 میں پائی جاتی ہے۔‏ اِن آیتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مریم پاک کلام سے اچھی طرح واقف تھیں۔‏ اُن کے الفاظ کسی حد تک اُس دُعا سے ملتے جلتے ہیں جو سموئیل نبی کی ماں حنّہ نے کی تھی۔‏ (‏1-‏سمو 2:‏1-‏10‏)‏ اِس موقعے پر مریم نے تقریباً 20 بار ایسے جملے بولے جو پاک کلام سے لیے گئے تھے۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا اور اُس کے کلام کے بارے میں بات کرنا پسند کرتی تھیں۔‏ مریم اپنے آسمانی دوست یہوواہ کے بارے میں جو بھی سیکھتیں،‏ اِسے اپنے دل میں ذخیرہ کر لیتیں اور اکثر اِس کا ذکر کرتیں۔‏

18.‏ مریم جیسا ایمان پیدا کرنے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏

18 شاید ہمیں بھی کبھی کبھار یہوواہ کی طرف سے ایسی ذمےداریاں ملیں جو ہمیں مشکل لگیں۔‏ ایسی صورتحال میں آئیں،‏ مریم کی طرح خود کو یہوواہ کے سپرد کریں اور اِس بات پر بھروسا رکھیں کہ وہ جو کچھ بھی کرے گا،‏ ہماری بہتری کے لیے ہوگا۔‏ مریم جیسا ایمان پیدا کرنے کے لیے ہمیں بھی اُن باتوں پر دھیان دینا چاہیے جو ہم یہوواہ کے بارے میں سنتے ہیں،‏ اُن پر سوچ بچار کرنا چاہیے اور دوسروں کو اُن کے بارے میں بتانا چاہیے۔‏—‏زبور 77:‏11،‏ 12؛‏ لُو 8:‏18؛‏ روم 10:‏15‏۔‏

19.‏ اگر ہم یہوواہ کے دوستوں کی مثال پر عمل کریں گے تو ہمیں کون سا اعزاز ملے گا؟‏

19 اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ ابرہام،‏ رُوت،‏ حِزقیاہ اور مریم یہوواہ خدا کے قریبی دوست تھے۔‏ اِن کے علا‌وہ ’‏گواہوں کے ایک بڑے بادل‘‏ کو یہوواہ کے دوست بننے کا شرف حاصل ہوا ہے۔‏ اِن سب نے ایمان کی مثال قائم کی۔‏ دُعا ہے کہ ہم اِن کی مثال پر عمل کرتے رہیں۔‏ (‏عبر 6:‏11،‏ 12‏)‏ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم ہمیشہ تک یہوواہ خدا کے قریبی دوست رہیں گے۔‏ اِس سے بڑا اعزاز کیا ہو سکتا ہے؟‏