آپبیتی
یہوواہ خدا نے مجھے کامیابی بخشی
مَیں نے افسر کو بتایا کہ مَیں پہلے بھی قید میں رہ چُکا ہوں کیونکہ مَیں نے جنگ میں حصہ لینے سے اِنکار کِیا تھا۔ مَیں نے اُس سے پوچھا: ”کیا آپ مجھے دوبارہ اِس اذیت سے گزاریں گے؟“ یہ دوسری بار تھا کہ مجھے امریکی فوج میں بھرتی ہونے کے لیے بلایا گیا تھا۔
مَیں 1926ء میں امریکی ریاست اوہائیو کے گاؤں کروکسویل میں پیدا ہوا۔ ہم آٹھ بہن بھائی تھے۔ میرے والدین اگرچہ مذہبی نہیں تھے لیکن وہ ہم بہن بھائیوں کو چرچ جانے کے لیے کہا کرتے تھے۔ اِس لیے مَیں میتھوڈسٹ چرچ جانے لگا۔ جب مَیں 14 سال کا تھا تو مجھے پادری کی طرف سے ایک اِنعام ملا کیونکہ مَیں پورے ایک سال تک ہر اِتوار کو چرچ گیا۔
اِسی دوران ہماری ایک پڑوسن جن کا نام مارگریٹ واکر تھا، میری امی کو بائبل کورس کرانے لگیں۔ مارگریٹ یہوواہ کی گواہ تھیں۔ ایک دن مَیں نے سوچا کہ کیوں نہ مَیں بھی دیکھوں کہ امی کیا سیکھ رہی ہیں۔ اِس لیے مَیں بھی اُن کے ساتھ بیٹھ گیا۔ امی کو لگا کہ مَیں اُن کی باتچیت میں خلل ڈالوں گا اِس لیے اُنہوں نے مجھے باہر جانے کو کہا۔ لیکن مَیں پھر بھی اُن دونوں کی باتچیت سننے کی کوشش کرتا رہا۔ ایک دن مارگریٹ نے مجھ سے پوچھا: ”کیا تمہیں پتہ ہے کہ خدا کا کیا نام ہے؟“ مَیں نے کہا: ”یہ تو سبھی جانتے ہیں، اُس کا نام خدا ہے۔“ اُنہوں نے مجھ سے کہا: ”اپنی بائبل لے کر آؤ اور زبور 83:18 کو دیکھو۔“ مَیں اپنی بائبل لایا۔ آیت پڑھ کر مجھے پتہ چلا کہ خدا کا نام یہوواہ ہے۔ مَیں فوراً اپنے دوستوں کے پاس گیا اور اُن سے کہا: ”شام کو جب تُم لوگ گھر جاؤ گے تو اپنی بائبل میں زبور 83:18 کو پڑھنا اور دیکھنا کہ خدا کا نام کیا ہے۔“ یوں مَیں نے فوراً گواہی دینا شروع کر دی۔
مَیں نے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کورس کرنا شروع کِیا اور 1941ء میں بپتسمہ لے لیا۔ اِس کے کچھ عرصے بعد مجھے کلیسیائی کتابی مطالعہ کرانے کی ذمےداری سونپی گئی۔ مَیں نے اپنی امی اور اپنے بہن بھائیوں کی حوصلہافزائی کی کہ وہ بھی اِس اِجلاس پر آئیں اور میرے کہنے پر وہ سب آنے لگے۔ البتہ ابو کو سچائی میں دلچسپی نہیں تھی۔
گھر میں مخالفت کا سامنا
مجھے کلیسیا میں اَور بھی ذمےداریاں سونپی گئیں۔ مَیں نے یہوواہ کے گواہوں کی بہت سی کتابیں اِکٹھی کی ہوئی تھیں۔ ایک دن ابو نے اِن کتابوں کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا: ”یہ جو تُم نے کتابوں کا ڈھیر لگایا ہوا ہے، اِنہیں میرے گھر سے نکالو اور اِن کے ساتھ خود بھی اِس گھر سے نکل جاؤ۔“ مَیں گھر سے چلا گیا اور شہر زینسویل منتقل ہو گیا۔ یہاں مَیں کرائے کے ایک کمرے میں رہنے لگا۔ لیکن مَیں اکثر اپنے گھر والوں کی حوصلہافزائی کرنے کے لیے اُن کے ہاں آیا جایا کرتا تھا۔
ابو نہیں چاہتے تھے کہ امی اِجلاسوں پر جائیں اِس لیے وہ اُنہیں روکنے کی بہت کوشش کرتے تھے۔ کبھی کبھار تو وہ امی کے پیچھے جاتے اور اُنہیں گھسیٹتے ہوئے گھر لاتے۔ لیکن امی دوسرے دروازے سے نکل کر اِجلاس پر آ جاتی تھیں۔ مَیں نے امی سے کہا: ”فکر نہ کریں امی، ایک نہ ایک دن ابو آپ کو روکنا چھوڑ دیں گے۔“ اور واقعی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ابو نے امی کی مخالفت کرنا چھوڑ دی اور امی بِنا کسی رُکاوٹ کے اِجلاسوں پر آ سکیں۔
سن 1943ء میں کلیسیاؤں میں مسیحی خدمتی سکول کا آغاز ہوا۔ اِس سکول میں مجھے طالبِعلم کے طور پر تقریریں پیش کرنے کا موقع ملا۔ تقریروں کے بعد مجھے جو مشورہ دیا جاتا تھا، اُس سے میری مہارت میں بہتری آئی۔
فوج میں بھرتی ہونے سے اِنکار
سن 1944ء میں دوسری عالمی جنگ چل رہی تھی۔ اِس دوران مجھے فوج میں بھرتی ہونے کے لیے شہر کولمبس بلایا گیا۔ وہاں میرا طبی معائنہ کِیا گیا اور مَیں نے کچھ کاغذات پُر کیے۔ مَیں نے افسروں کو بتایا کہ مَیں فوجی نہیں بننا چاہتا۔ اِس پر اُنہوں نے مجھے گھر جانے دیا۔ لیکن کچھ دنوں بعد ایک افسر میرے گھر آیا اور مجھ سے کہا: ”کوروین روبیسن، میرے پاس تمہاری گِرفتاری کا وارنٹ ہے۔“
دو ہفتے بعد عدالت میں جج نے مجھ سے کہا: ”اگر یہ میرے ہاتھ میں ہوتا تو مَیں تمہیں عمر قید کی سزا دیتا۔ کیا تمہیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے؟“ مَیں نے کہا: ”جج صاحب، قانونی طور پر مجھے ایک مذہبی پیشوا کی حیثیت دی جانی چاہیے کیونکہ مَیں لوگوں کے گھروں میں جا کر وعظ دیتا ہوں اور اُنہیں بادشاہت کی خوشخبری سناتا ہوں۔“ جج نے جیوری سے کہا: ”آپ لوگ یہاں یہ فیصلہ کرنے نہیں بیٹھے کہ یہ آدمی مذہبی پیشوا ہے یا نہیں بلکہ یہ فیصلہ کرنے آئے ہیں کہ آیا یہ آدمی فوج میں بھرتی ہونے کو رضامند تھا یا نہیں۔“ آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت میں جیوری نے فیصلہ کر دیا کہ مَیں مُجرم ہوں۔ جج نے مجھے پانچ سال کی سزا سنائی اور مجھے شہر ایشلینڈ کی جیل بھیجنے کا حکم دیا۔
یہوواہ نے جیل میں میری حفاظت کی
سب سے پہلے مَیں دو ہفتے تک شہر کولمبس کی جیل میں رہا۔ پہلے دن مَیں اپنے خانے سے باہر نہیں نکلا۔ مَیں نے یہوواہ سے دُعا کی: ”مَیں پانچ سال تک سلاخوں کے پیچھے نہیں رہ سکتا۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ مَیں کیا کروں!“
اگلے دن سپاہیوں نے مجھے خانے سے باہر نکالا۔ مَیں کھڑکی کے پاس گیا جہاں ایک لمبا چوڑا قیدی کھڑا تھا۔ ہم دونوں کھڑکی سے باہر دیکھنے لگے۔ اِس قیدی کا نام پال تھا۔ اُس نے مجھ سے کہا: ”اَور چھوٹے، تُم کس جُرم میں یہاں آئے ہو؟“ مَیں نے کہا: ”مَیں یہوواہ کا گواہ ہوں۔“ اُس نے کہا: ”واقعی؟ تو پھر تُم یہاں کیا کر رہے
ہو؟“ مَیں نے کہا: ”دراصل یہوواہ کے گواہ جنگ میں حصہ نہیں لیتے کیونکہ وہ کسی کا خون نہیں کرنا چاہتے۔“ اُس نے کہا: ”تمہیں اِس لیے قید میں ڈالا گیا ہے کیونکہ تُم کسی کا خون نہیں کرنا چاہتے جبکہ دوسروں کو اِس لیے قید میں ڈالا گیا ہے کیونکہ وہ قاتل ہیں۔ کتنی بےتکی سی بات ہے نا؟“ مَیں نے کہا: ”ہاں، بےتکی تو ہے۔“پھر پال نے کہا: ”یہاں آنے سے پہلے مَیں 15 سال کسی اَور قیدخانے میں تھا۔ وہاں مَیں نے تُم لوگوں کی کتابیں پڑھی تھیں۔“ یہ سنتے ہی مَیں نے دُعا کی: ”یہوواہ، میری مدد کر تاکہ یہ آدمی میرا ساتھ دے۔“ اُسی وقت پال نے مجھ سے کہا: ”اگر اِن لوگوں میں سے کوئی تمہیں چُھونے کی بھی کوشش کرے تو بس مجھے آواز دے دینا۔ مَیں اِن سے نمٹ لوں گا۔“ لہٰذا جب تک مَیں اُس جیل میں رہا، مجھے کسی قیدی کی طرف سے مسئلے کا سامنا نہیں ہوا حالانکہ قیدخانے کے جس حصے میں مَیں تھا، وہاں 50 قیدی تھے۔
جب افسروں نے مجھے ایشلینڈ کی جیل میں منتقل کِیا تو وہاں کچھ پُختہ بھائی پہلے سے قید تھے۔ اُنہوں نے میری اور دوسرے گواہوں کی بہت مدد کی تاکہ ہمارا ایمان مضبوط رہے۔ یہ بھائی ہر ہفتے بائبل کے کچھ ابواب کا اِنتخاب کرتے تھے اور ہم سب اِن کو پڑھتے تھے۔ ہم لوگ اِجلاس کے لیے سوال اور جواب بھی تیار کِیا کرتے تھے۔ ایک بھائی کی یہ ذمےداری تھی کہ وہ اِس بات کا بندوبست کرے کہ کون سا بھائی کن کن قیدیوں کو گواہی دے گا۔ ہم ایک بہت بڑے خانے میں رہتے تھے جہاں بستر دیوار کے ساتھ جُڑے ہوئے تھے۔ اُس بھائی نے مجھ سے کہا: ”روبیسن، تُم فلاں اور فلاں بستر والے قیدی کو گواہی دو گے۔ ایک طرح سے یہ بستر تمہارا علاقہ ہیں۔ خیال رکھنا کہ اِن قیدیوں کے جانے سے پہلے تُم اِنہیں گواہی ضرور دو۔“ ہم اِس طرح منظم طریقے سے مُنادی کرتے تھے۔
رِہائی کے بعد زندگی
سن 1945ء میں دوسری عالمی جنگ ختم ہو گئی۔ لیکن مَیں اِس کے بعد بھی کچھ عرصے تک جیل میں رہا۔ مجھے اپنے گھر والوں کی بہت فکر تھی کیونکہ ابو نے مجھ سے کہا تھا کہ ”اگر مَیں تمہیں اِس گھر سے نکال دوں گا تو مَیں باقیوں کو تمہارے اِجلاسوں پر جانے سے روک پاؤں گا۔“ جب مَیں رِہا ہوا تو مجھے یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ ابو کی مخالفت کے باوجود گھر کے سات افراد اِجلاسوں پر جاتے رہے اور میری ایک بہن نے بپتسمہ بھی لے لیا۔
سن 1950ء میں ملک کوریا میں جنگ چھڑ گئی۔ ایک بار پھر مجھے فوج میں بھرتی ہونے کے لیے کولمبس بلایا گیا۔ وہاں میری صلاحیتوں کو پرکھنے کے لیے میرا اِمتحان لیا گیا۔ اِمتحان کے بعد افسر نے مجھ سے کہا: ”تُم نے اپنے گروپ میں سب سے اچھے نمبر لیے ہیں۔“ مَیں نے افسر سے کہا: ”وہ تو ٹھیک ہے لیکن مَیں فوج میں بھرتی نہیں ہوں گا۔“ پھر مَیں نے 2-تیمُتھیُس 2:3 کا حوالہ دیا اور کہا: ”دراصل مَیں مسیح کا فوجی ہوں۔“ ایک لمبی خاموشی کے بعد افسر نے کہا: ”تُم جا سکتے ہو۔“
اِس کے کچھ عرصے بعد مَیں شہر سنسیناٹی میں منعقد ہونے والے اِجتماع پر گیا۔ وہاں مَیں اُس اِجلاس میں گیا جو اُن بہنبھائیوں کے لیے کِیا جاتا ہے جو بیتایل میں خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ بھائی ملٹن ہینشل نے ہمیں بتایا کہ اگر ایک بھائی خدا کی بادشاہت کے لیے سخت محنت کرنے پر راضی ہے تو وہ بیتایل میں ہماری تنظیم کے بہت کام آ سکتا ہے۔ مَیں نے بیتایل میں خدمت کرنے کے لیے درخواست دی اور اگست 1954ء میں مجھے بروکلن بیتایل میں بلایا گیا۔ تب سے مَیں یہیں خدمت کر رہا ہوں۔
بیتایل میں کام کی کمی نہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میرے پاس کوئی کام کرنے کو نہ ہو۔ مَیں نے کئی سال تک چھاپہخانے اور دفتروں کی عمارتوں میں بوائیلر چلانے کا کام کِیا۔ مَیں نے مشینوں کو چلانے اور تالوں کی مرمت کرنے کا کام بھی کِیا۔ میں نے شہر نیو یارک میں اِجتماعوں کے لیے ہالوں میں بھی کام کِیا ہے۔
مجھے بیتایل کا روزمرہ معمول بہت پسند ہے جس میں صبح کی عبادت، مینارِنگہبانی کا مطالعہ اور اپنی کلیسیا کے ساتھ مل کر مُنادی کرنا شامل ہے۔ دیکھا جائے تو یہ کام یہوواہ کے گواہوں کے ہر خاندان کا معمول ہونے چاہئیں۔ جب ماں باپ اپنے بچوں کے ساتھ مل کر روزانہ کی آیت پر غور کرتے ہیں، باقاعدگی سے خاندانی عبادت کرتے ہیں، اِجلاسوں پر جاتے ہیں اور مُنادی کے کام میں مگن رہتے ہیں تو خاندان کا ہر فرد روحانی طور پر مضبوط رہتا ہے۔
مَیں نے بیتایل اور کلیسیا میں بہت سے دوست بنائے ہیں۔ اِن میں سے کچھ ممسوح مسیحی تھے جو آسمان پر جا چُکے ہیں اور کچھ ایسے بہن بھائی بھی ہیں جو زمین پر ہمیشہ کی زندگی پانے کی اُمید رکھتے ہیں۔ لیکن خدا کے تمام بندے عیبدار ہیں جن میں بیتایل میں خدمت کرنے والے بہن بھائی بھی شامل ہیں۔ اِس لیے اگر کبھی میرا کسی بھائی سے کوئی اِختلاف ہو جاتا ہے تو مَیں اُس کے ساتھ صلح کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔ مَیں متی 5:23، 24 کو ذہن میں رکھتا ہوں جس میں بتایا گیا ہے کہ ہمیں دوسروں کے ساتھ اِختلافات کیسے حل کرنے چاہئیں۔ سچ ہے کہ معافی مانگنا آسان نہیں ہوتا لیکن ایسا کرنے سے عموماً مسئلے حل ہو جاتے ہیں۔
میری خدمت کا صلہ
اگرچہ بڑھتی عمر کی وجہ سے میرے لیے گھر گھر جا کر مُنادی کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے لیکن مَیں نے ہمت نہیں ہاری۔ مَیں نے چینی زبان کے کچھ الفاظ سیکھے ہیں اور مَیں عوامی جگہوں پر چینی لوگوں کو گواہی دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ کبھی کبھار تو مَیں ایک ہی صبح میں لوگوں میں 30 سے 40 رسالے بانٹتا ہوں۔
مینارِنگہبانی اور جاگو! رسالے دیے۔ اُس نے مجھے بتایا کہ اُس کا نام کیتھی ہے۔ اِس کے بعد سے وہ جب بھی مجھے دیکھتی تھی، میرے پاس آ کر مجھ سے ضرور بات کرتی تھی۔ مَیں نے اُسے انگریزی میں کچھ پھلوں اور سبزیوں کے نام سکھائے۔ وہ اِن ناموں کو میرے بعد دُہراتی تھی۔ مَیں نے اُس کے ساتھ بائبل کی کچھ آیتوں کے بارے میں بات کی اور اُسے کتاب پاک صحائف کی تعلیم بھی دی۔ لیکن کچھ ہفتے بعد وہ لڑکی غائب ہو گئی۔
مَیں نے تو چین میں ایک واپسی ملاقات بھی کی ہے! ایک دن ایک بہت خوشمزاج چینی لڑکی میرے پاس آئی اور مجھے اپنے پھلوں کے سٹال کا اِشتہار دیا۔ مَیں نے اُسے چینی زبان میںپھر کچھ مہینے بعد مَیں نے ایک اَور چینی لڑکی کو رسالے دیے جو اِشتہار تقسیم کر رہی تھی۔ اِس کے اگلے ہفتے جب وہ مجھ سے ملی تو اُس نے مجھے اپنا موبائل پکڑا دیا اور کہا: ”چین سے فون ہے، آپ بات کریں۔“ مَیں نے اُس سے کہا: ”مَیں تو چین میں کسی کو بھی نہیں جانتا ہوں۔“ لیکن اُس نے بہت اِصرار کِیا اِس لیے مَیں نے اُس کا موبائل لیا اور بات کرنے لگا: ”ہیلو، مَیں روبیسن بات کر رہا ہوں۔“ دوسری طرف سے مجھے یہ آواز آئی: ”روبیسن، مَیں کیتھی بات کر رہی ہوں۔ مَیں چین واپس آ گئی ہوں۔“ مَیں نے کہا: ”چین؟“ کیتھی نے جواب دیا: ”ہاں روبیسن، جس لڑکی نے آپ کو فون دیا ہے، وہ میری بہن ہے۔ آپ نے مجھے بہت اچھی باتیں سکھائی ہیں۔ پلیز آپ اُسے بھی یہ باتیں سکھائیں۔“ مَیں نے اُس سے کہا: ”مَیں اپنی طرف سے پوری کوشش کروں گا۔ شکریہ کہ آپ نے مجھے بتایا کہ آپ کہاں ہیں۔“ اِس کے بعد مَیں چند ایک بار کیتھی کی بہن سے ملا اور پھر وہ بھی مجھے دوبارہ دِکھائی نہیں دی۔ اُمید ہے کہ یہ لڑکیاں جہاں کہیں بھی ہوں، یہوواہ خدا کے بارے میں سیکھ رہی ہوں۔
مَیں 73 سال سے یہوواہ کی خدمت کر رہا ہوں۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ مَیں یہوواہ کی مدد سے فوج میں بھرتی نہیں ہوا اور قید میں بھی اُس کا وفادار رہا۔ میری امی اور میرے چھ بہن بھائیوں نے آخرکار بپتسمہ لے لیا۔ وہ مجھے بتاتے ہیں کہ اُنہیں اِس بات سے بڑا حوصلہ ملا کہ مَیں نے ابو کی مخالفت کے باوجود ہمت نہیں ہاری۔ ابو کے رویے میں بھی نرمی آتی گئی اور اپنی موت سے پہلے وہ چند بار اِجلاسوں پر بھی گئے۔
اگر یہ یہوواہ کی مرضی ہے تو میرے گھر کے افراد اور دوست نئی دُنیا میں دوبارہ زندہ ہوں گے۔ ذرا سوچیں کہ وہ کتنی خوشی کا وقت ہوگا جب ہم اپنے عزیزوں کے ساتھ مل کر ہمیشہ تک یہوواہ کی عبادت کریں گے۔ *
^ پیراگراف 32 جب یہ مضمون تیار کِیا جا رہا تھا تو بھائی کوروین روبیسن فوت ہو گئے۔ وہ مرتے دم تک یہوواہ خدا کے وفادار رہے۔