مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

یہوواہ خدا کے وفادار رہیں

یہوواہ خدا کے وفادار رہیں

‏”‏[‏یہوواہ]‏ میرے اور تیرے درمیان اور میری اور تیری نسل کے درمیان ابد تک رہے۔‏“‏—‏1-‏سمو 20:‏42‏۔‏

گیت:‏ 11،‏ 31

1،‏ 2.‏ یہ حیران‌کُن بات کیوں تھی کہ یونتن زندگی بھر داؤد کے وفادار رہے؟‏

یونتن یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ داؤد نے جولیت کو کتنی دلیری سے مار ڈالا۔‏ اب داؤد اُس ”‏فلستی کا سر“‏ ہاتھ میں لیے بادشاہ ساؤل کے سامنے کھڑے تھے۔‏ (‏1-‏سمو 17:‏57‏)‏ یقیناً یونتن نے داؤد کی دلیری کو سراہا ہوگا۔‏ اِس واقعے سے یونتن پر ظاہر ہو گیا کہ خدا داؤد کے ساتھ ہے اِس لیے ’‏اُن کا دل داؤد کے دل سے مل گیا۔‏‘‏ پھر اُن دونوں نے ”‏باہم عہد کِیا“‏ کیونکہ یونتن،‏ داؤد سے اپنی جان کے برابر محبت رکھتے تھے۔‏ (‏1-‏سمو 18:‏1-‏3‏)‏ یونتن زندگی بھر داؤد کے وفادار رہے۔‏

2 خدا نے داؤد کو اِسرائیل کے اگلے بادشاہ کے طور پر چُنا تھا۔‏ اِس کے باوجود یونتن نے داؤد کے ساتھ دوستی کا عہد باندھا۔‏ جب ساؤل نے داؤد کو قتل کرنے کی ٹھان لی تو یونتن نے داؤد کا ساتھ دیا۔‏ وہ اپنے دوست کا حوصلہ بڑھانے کے لیے یہوداہ کے ویرانے میں گئے جہاں داؤد اپنی جان بچانے کے لیے چھپے ہوئے تھے۔‏ وہاں پہنچ کر یونتن نے ”‏خدا میں [‏داؤد]‏ کا ہاتھ مضبوط کِیا“‏ یعنی اُنہیں خدا پر بھروسا کرنے کو کہا۔‏ یونتن نے اُن سے یہ بھی کہا:‏ ”‏تُو مت ڈر کیونکہ .‏ .‏ .‏ تُو اِؔسرائیل کا بادشاہ ہوگا اور مَیں تجھ سے دوسرے درجے پر ہوں گا۔‏“‏—‏1-‏سمو 23:‏16،‏ 17‏۔‏

3.‏ یونتن کے نزدیک کس کا وفادار رہنا سب سے اہم تھا اور ہم یہ کیسے جانتے ہیں؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

3 تقریباً سب ہی لوگ وفادار لوگوں کو سراہتے ہیں۔‏ لیکن کیا ہمیں یونتن کو صرف اِس لیے سراہنا چاہیے کیونکہ وہ داؤد کے وفادار تھے؟‏ نہیں بلکہ اِس لیے بھی کیونکہ وہ خدا کے وفادار تھے۔‏ دراصل یونتن کے نزدیک خدا کا وفادار رہنا زندگی میں سب سے اہم بات تھی۔‏ اِسی وجہ سے وہ داؤد سے جلنے کی بجائے اُن کے بھی وفادار تھے حالانکہ وہ جانتے تھے کہ داؤد اُن کی جگہ بادشاہ بنیں گے۔‏ یونتن نے تو ’‏خدا میں داؤد کا ہاتھ بھی مضبوط کِیا۔‏‘‏ دونوں دوست یہوواہ خدا کے اور ایک دوسرے کے وفادار رہے۔‏ اُنہوں نے آپس میں یہ عہد باندھا کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ میرے اور تیرے درمیان اور میری اور تیری نسل کے درمیان ابد تک رہے۔‏“‏ اور اُنہوں نے اِس عہد کو نبھایا بھی۔‏—‏1-‏سمو 20:‏42‏۔‏

4.‏ ‏(‏الف)‏ ہم کس کے وفادار رہنے سے حقیقی معنوں میں خوش اور مطمئن رہتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہم اِس مضمون میں کن باتوں پر غور کریں گے؟‏

4 مسیحیوں کے طور پر ہم دوسروں کی وفاداری کو تو سراہتے ہیں لیکن اِس کے ساتھ ساتھ ہم خود بھی اپنے رشتےداروں،‏ دوستوں اور مسیحی بہن بھائیوں کے وفادار رہتے ہیں۔‏ (‏1-‏تھس 2:‏10،‏ 11‏)‏ مگر ہمیں کس کا وفادار رہنے کو سب سے اہم خیال کرنا چاہیے؟‏ ظاہر ہے کہ اُس کا جس نے ہمیں زندگی بخشی ہے۔‏ (‏مکا 4:‏11‏)‏ خدا کے وفادار رہنے سے ہم حقیقی معنوں میں خوش اور مطمئن رہتے ہیں۔‏ لیکن خدا سے ہماری وفاداری اُس وقت آزمائی جاتی ہے جب ہم مشکل وقت سے گزرتے ہیں۔‏ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم اِن چار مشکل صورتحال میں یونتن کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں:‏ (‏1)‏ جب ہمیں لگتا ہے کہ اِختیار والے غلط کام کر رہے ہیں؛‏ (‏2)‏ جب ہمیں دو لوگوں سے وفا نبھانی ہوتی ہے؛‏ (‏3)‏ جب ہم بدگمانی یا نااِنصافی کا شکا‌ر ہوتے ہیں اور (‏4)‏ جب ذاتی مفاد کی بات آتی ہے۔‏

جب لگے کہ اِختیار والے غلط کام کر رہے ہیں

5.‏ ساؤل کی حکمرانی کے دوران بنی‌اِسرائیل کے لیے خدا کا وفادار رہنا کیوں مشکل بن گیا؟‏

5 یہوواہ خدا نے یونتن کے باپ ساؤل کو بادشاہ کے طور پر مسح کِیا۔‏ لیکن بعد میں ساؤل نے خدا کا حکم توڑا اور اِس لیے خدا نے اُنہیں ترک کر دیا۔‏ (‏1-‏سمو 15:‏17-‏23‏)‏ مگر خدا نے ساؤل کو فوراً بادشاہ کے عہدے سے نہیں ہٹایا۔‏ ساؤل کے بُرے چال‌چلن کی وجہ سے اُن کی رعایا اور عزیزوں کے لیے مشکل کھڑی ہو گئی کیونکہ وہ خدا کے وفادار رہنا چاہتے تھے مگر اُن کے بادشاہ جو ”‏[‏یہوواہ]‏ کے تخت“‏ پر بیٹھے تھے،‏ سیدھی راہ سے ہٹ گئے تھے۔‏—‏1-‏توا 29:‏23‏۔‏

6.‏ یونتن نے کیسے ثابت کِیا کہ وہ خدا کے وفادار ہیں؟‏

6 یونتن نے دیکھا کہ اُن کے باپ،‏ ساؤل سیدھی راہ سے ہٹ رہے ہیں لیکن وہ خود خدا کے وفادار رہے۔‏ (‏1-‏سمو 13:‏13،‏ 14‏)‏ سموئیل نبی نے کہا تھا کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ اپنے بڑے نام کے باعث اپنے لوگوں کو ترک نہیں کرے گا۔‏“‏ (‏1-‏سمو 12:‏22‏)‏ یونتن نے ثابت کِیا کہ وہ اِس بات پر پکا یقین رکھتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر ایک بار فلستیوں کی بہت بڑی فوج اِسرائیل کے خلا‌ف چڑھ آئی۔‏ اُن کے 30 ہزار جنگی رتھ تھے جبکہ ساؤل کے لشکر میں صرف 600 فوجی تھے اور اِن میں سے صرف ساؤل اور یونتن کے پاس ہتھیار تھے۔‏ اِس کے باوجود یونتن نے کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کے لئے بہتوں یا تھوڑوں کے ذریعہ سے بچانے کی قید نہیں۔‏“‏ پھر اُنہوں نے اپنے سلا‌ح‌بردار کے ساتھ فلستیوں کی ایک چوکی پر حملہ کِیا۔‏ اِن دو آدمیوں نے چوکی پر موجود تقریباً 20 فلستی فوجیوں کو مار ڈالا۔‏ پھر یہوواہ کی طرف سے ”‏زلزلہ آیا“‏ اور دُشمن کے لشکر میں خوف‌وہراس پھیل گیا اور وہ ایک دوسرے کو مار ڈالنے لگے۔‏ چونکہ یونتن نے خدا پر بھروسا کِیا اِس لیے اِسرائیلیوں نے فتح حاصل کی۔‏—‏1-‏سمو 13:‏5،‏ 15،‏ 22؛‏ 14:‏1،‏ 2،‏ 6،‏ 14،‏ 15،‏ 20‏۔‏

7.‏ یونتن اپنے باپ کے ساتھ کیسے پیش آئے؟‏

7 حالانکہ ساؤل خدا سے دُور ہوتے گئے لیکن پھر بھی یونتن نے جہاں تک ممکن تھا،‏ اُن کے ساتھ تعاون کِیا۔‏ مثال کے طور پر جب ساؤل خدا کے دُشمنوں کے خلا‌ف جنگ کرتے تھے تو یونتن اُن کا ساتھ دیتے تھے۔‏—‏1-‏سمو 31:‏1،‏ 2‏۔‏

8،‏ 9.‏ اِختیار والوں کا احترام کرنے سے ہم یہوواہ کے وفادار کیوں رہتے ہیں؟‏

8 یونتن کی طرح ہم بھی جہاں تک ممکن ہے،‏ حاکموں اور اِختیار والوں کی تابع‌داری کرتے ہیں۔‏ اِس طرح ہم یہوواہ خدا کے وفادار رہتے ہیں کیونکہ اُس نے حاکموں کو حکمرانی کرنے کی اِجازت دی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ہم اِن کا احترام کریں۔‏ ‏(‏رومیوں 13:‏1،‏ 2 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس وجہ سے ہمیں اُن سرکاری افسروں کا بھی احترام کرنا چاہیے جو بددیانت اور بُرے ہیں۔‏ اصل میں تو ہمیں ہر اُس شخص کا احترام کرنا چاہیے جسے یہوواہ خدا کی طرف سے اِختیار ملا ہے۔‏—‏1-‏کُر 11:‏3؛‏ عبر 13:‏17‏۔‏

اگر آپ کا جیون ساتھی یہوواہ کا گواہ نہیں ہے تو اُس کا احترام کرنے سے ثابت کریں کہ آپ یہوواہ کے وفادار ہیں۔‏ (‏پیراگراف 9 کو دیکھیں۔‏)‏

9 اولگا ‏[‏1]‏ جنوبی امریکہ میں رہتی ہیں۔‏ اُن کا شوہر یہوواہ کا گواہ نہیں ہے۔‏ کئی سالوں تک اُس نے اُن کے لیے طرح طرح کی مشکلیں کھڑی کیں لیکن اِس کے باوجود اولگا نے اُس کا احترام کِیا اور یوں یہوواہ خدا کی وفادار رہیں۔‏ مثال کے طور پر اولگا کا شوہر اُن کو بُرا بھلا کہتا،‏ اُن سے بات نہیں کرتا اور اُنہیں چھوڑنے اور اُن سے بچے چھیننے کی دھمکی دیتا۔‏ لیکن اولگا نے بُرائی کے بدلے بُرائی نہیں کی بلکہ ثابت کِیا کہ وہ ایک اچھی بیوی ہیں۔‏ وہ اپنے شوہر کے لیے کھانا پکا‌تیں،‏ اُن کے کپڑوں کا خیال رکھتیں اور سُسرالیوں کی دیکھ‌بھال کرتیں۔‏ (‏روم 12:‏17‏)‏ جب مناسب ہوتا تو وہ اپنے شوہر کے ساتھ اُن کے رشتےداروں یا دوستوں سے ملنے کے لیے جاتیں۔‏ ایک بار جب اُن کا شوہر اپنے باپ کے جنازے کے لیے ایک اَور شہر جانا چاہتا تھا تو اولگا نے بچوں کو تیار کِیا اور سفر کے لیے سامان باندھا۔‏ وہاں پہنچ کر وہ چرچ میں تو نہیں گئیں لیکن چرچ سے باہر اپنے شوہر کا اِنتظار کِیا۔‏ بہت سالوں بعد اولگا کا صبر اور احترام رنگ لایا اور اُن کے شوہر کا دل پگھلنے لگا۔‏ آج تو وہ اولگا کو اِجلا‌س پر جانے کو کہتا ہے،‏ اُن کو کنگڈم ہال چھوڑنے جاتا ہے اور کبھی کبھار تو خود بھی اِجلا‌س پر آتا ہے۔‏—‏1-‏پطر 3:‏1‏۔‏

جب دو لوگوں سے وفا نبھانی ہوتی ہے

10.‏ یونتن نے یہ فیصلہ کیسے کِیا کہ وہ کس کے وفادار رہیں گے؟‏

10 ساؤل نے داؤد کو مار ڈالنے کی ٹھان لی تھی۔‏ اِس صورتحال میں یونتن کو فیصلہ کرنا پڑا کہ وہ کس کے وفادار رہیں گے۔‏ یونتن،‏ داؤد کے ساتھ اپنا عہد نبھانا چاہتے تھے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے باپ کے بھی تابع‌دار رہنا چاہتے تھے۔‏ مگر وہ جانتے تھے کہ خدا ساؤل کے ساتھ نہیں بلکہ داؤد کے ساتھ ہے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے داؤد کا وفادار رہنے کو زیادہ اہم خیال کِیا۔‏ اُنہوں نے داؤد کو اپنے باپ کے اِرادوں سے آگاہ کِیا اور بعد میں ساؤل کے سامنے داؤد کی تعریف کی۔‏‏—‏1-‏سموئیل 19:‏1-‏6 کو پڑھیں۔‏

11،‏ 12.‏ جب ہمیں فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ ہم کس کے وفادار رہیں گے تو خدا کے لیے محبت ہمارے کام کیسے آتی ہے؟‏

11 ایلس آسٹریلیا میں رہتی ہیں۔‏ اُنہیں بھی فیصلہ کرنا پڑا کہ وہ کس کی وفادار ہوں گی۔‏ جب اُنہوں نے بائبل کورس شروع کِیا تو وہ اپنے رشتےداروں کو اُن باتوں کے بارے میں بتانے لگیں جو وہ سیکھ رہی تھیں۔‏ پھر ایک دن اُنہوں نے اپنے رشتےداروں کو بتایا کہ وہ آئندہ کرسمس نہیں منائیں گی اور کیوں نہیں منائیں گی۔‏ یہ سُن کر اُن کے رشتےدار آگ‌بگولا ہو گئے۔‏ اُنہیں لگا کہ ایلس نے اُن سے مُنہ پھیر لیا ہے۔‏ ایلس کہتی ہیں کہ ”‏میری امی نے تو مجھ سے رشتہ ہی توڑ دیا۔‏ مجھے بہت دُکھ ہوا کیونکہ مجھے اپنے رشتےداروں سے بہت پیار ہے۔‏ لیکن مَیں نے عزم کِیا کہ مَیں یہوواہ خدا اور اُس کے بیٹے کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دوں گی اور اِس لیے مَیں نے اگلے ہی اِجتماع پر بپتسمہ لے لیا۔‏“‏—‏متی 10:‏37‏۔‏

12 اگر ہم محتاط نہیں رہیں گے تو ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے ملک،‏ سکول یا کسی ٹیم کی اِس حد تک حمایت کرنے لگیں کہ ہم خدا سے وفا نبھانا بھول جائیں۔‏ اِس سلسلے میں ہنری کی مثال پر غور کریں۔‏ وہ شطرنج کھیلنے کے شیدائی ہیں۔‏ ہنری اِس کھیل میں اچھی کارکردگی دِکھانا چاہتے تھے کیونکہ اُن کے سکول کی ٹیم ہمیشہ شطرنج کے مقابلوں میں جیتتی تھی۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏اپنی ٹیم سے وفا نبھاتے نبھاتے مَیں خدا کا وفادار رہنا بھول گیا۔‏ مَیں ہفتے اِتوار کو شطرنج کے مقابلوں میں حصہ لیتا تھا جس کی وجہ سے میرے پاس مُنادی کے کام اور اِجلا‌سوں کے لیے وقت نہیں ہوتا تھا۔‏ اِس لیے مَیں نے شطرنج کی ٹیم چھوڑنے کا فیصلہ کِیا۔‏“‏—‏متی 6:‏33‏۔‏

13.‏ جب ہمیں رشتےداروں کی وجہ سے مسئلوں کا سامنا ہوتا ہے تو خدا کے وفادار رہنے کا عزم ہمارے کام کیسے آتا ہے؟‏

13 کبھی کبھار رشتےداروں میں اِختلا‌فات ہوتے ہیں اور اِس صورتحال میں اُن سب سے وفا نبھانا مشکل ہو سکتا ہے۔‏ مثال کے طور پر بھائی کین کہتے ہیں:‏ ”‏میری ماں بوڑھی ہیں اور مَیں باقاعدگی سے اُن سے ملنا چاہتا تھا اور مَیں یہ بھی چاہتا تھا کہ وہ کچھ عرصے کے لیے ہمارے ہاں ٹھہریں۔‏ لیکن میری ماں اور میری بیوی کی آپس میں نہیں بنتی۔‏ یہ میرے لیے بہت بڑا مسئلہ تھا کیونکہ جب مَیں ایک کو خوش کرتا تو دوسری ناراض ہو جاتی۔‏ پھر مجھے احساس ہوا کہ سب سے پہلے تو میری بیوی کا مجھ پر حق ہے۔‏ اُس کے وفادار رہنے میں یہ بھی شامل ہے کہ مَیں اُس کا ساتھ دوں۔‏ اِس لیے مَیں نے ایک ایسا حل نکا‌لا جس پر وہ راضی تھی۔‏“‏ کین خدا کے وفادار تھے اور اُس کے کلام پر عمل کرنا چاہتے تھے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے اپنی بیوی کو سمجھایا کہ وہ اُن کی ماں کے ساتھ پیار سے پیش آئے اور اپنی ماں کو سمجھایا کہ وہ اُن کی بیوی سے احترام سے پیش آئے۔‏‏—‏پیدایش 2:‏24؛‏ 1-‏کُرنتھیوں 13:‏4،‏ 5 کو پڑھیں۔‏

جب ہم بدگمانی یا نااِنصافی کا شکا‌ر ہوتے ہیں

14.‏ ساؤل نے اپنے بیٹے یونتن سے کیسا سلوک کِیا؟‏

14 جب کوئی اِختیار والا شخص کسی غلط‌فہمی کی وجہ سے ہم سے بدگمان ہو جاتا ہے تو یہوواہ خدا کا وفادار رہنا آسان نہیں ہوتا۔‏ ہو سکتا ہے کہ یونتن کو ایسی ہی مشکل کا سامنا تھا۔‏ خدا کے مسح‌شُدہ بادشاہ ساؤل جانتے تھے کہ یونتن،‏ داؤد کے دوست ہیں لیکن وہ اِس کی وجہ نہیں سمجھتے تھے۔‏ اِس لیے ساؤل نے ایک بار کُھلے عام یونتن کی بےعزتی کی۔‏ لیکن یونتن نے اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دیا۔‏ وہ نہ صرف خدا کے وفادار رہے بلکہ داؤد کے بھی جو اِسرائیل کے ہونے والے بادشاہ تھے۔‏—‏1-‏سمو 20:‏30-‏41‏۔‏

15.‏ اگر کوئی بھائی ہم سے نااِنصافی کرے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏

15 یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیاؤں میں پیشوائی کرنے والے بھائیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی سے نااِنصافی نہ کریں۔‏ لیکن یہ بھائی بھی عیب‌دار ہیں اور اُن سے غلطیاں ہوتی ہیں۔‏ اِس لیے ہو سکتا ہے کہ کبھی کبھار وہ ہمیں غلط سمجھ بیٹھیں۔‏ (‏1-‏سمو 1:‏13-‏17‏)‏ اگر آپ کے ساتھ ایسا ہو تو پھر بھی یہوواہ خدا کے وفادار رہیں۔‏

جب ذاتی مفاد کی بات آتی ہے

16.‏ کچھ ایسی صورتحال بتائیں جن میں ہمیں خدا کا وفادار رہنے کی خاطر اپنے ذاتی مفاد کو قربان کرنے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔‏

16 ساؤل چاہتے تھے کہ یونتن اپنے مفاد کا سوچیں اور بادشاہ بننے کے لیے قدم اُٹھائیں۔‏ (‏1-‏سمو 20:‏31‏)‏ لیکن یونتن یہوواہ خدا سے محبت کرتے تھے اور اُس کے وفادار تھے۔‏ اِس لیے اُنہوں نے بڑی بےغرضی سے داؤد سے دوستی کی اور اُس عہد کو نبھایا جو اُنہوں نے اُن سے باندھا تھا۔‏ جو شخص یہوواہ سے محبت کرتا ہے اور اُس کا وفادار ہوتا ہے،‏ وہ ”‏قسم کھا کر بدلتا نہیں خواہ نقصان ہی اُٹھائے۔‏“‏ (‏زبور 15:‏4‏)‏ لہٰذا چاہے یہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو،‏ ہم اپنے وعدے پورے کرتے ہیں کیونکہ ہم خدا کے وفادار رہنا چاہتے ہیں اور اُس کے کلام کا احترام کرتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر اگر ہم نے کوئی کاروباری معاہدہ کِیا ہے یا کوئی ٹھیکا لیا ہے تو ہم تب بھی اِسے پورا کریں گے جب ایسا کرنا ہمارے لیے مشکل ہو جائے۔‏ اور اگر ہماری ازدواجی زندگی میں مسئلے کھڑے ہو جاتے ہیں تو ہم اپنے جیون ساتھی کے وفادار رہیں گے کیونکہ ہم یہوواہ خدا سے محبت کرتے ہیں۔‏‏—‏ملا‌کی 2:‏13-‏16 کو پڑھیں۔‏

جب ہمیں کوئی معاہدہ پورا کرنا مشکل لگتا ہے تو خدا کے لیے ہماری وفاداری آزمائی جاتی ہے۔‏ (‏پیراگراف 16 کو دیکھیں۔‏)‏

17.‏ آپ نے اِس مطالعے سے کیا سیکھا ہے؟‏

17 یونتن کی مثال پر غور کرنے سے ہمارے دل میں بھی خدا کا وفادار رہنے کی خواہش اُبھرتی ہے۔‏ آئیں،‏ یونتن کی طرح بےغرضی سے خدا سے وفا نبھائیں۔‏ اُس وقت بھی خدا کے بندوں کے وفادار رہیں جب وہ آپ کو مایوس کریں کیونکہ اِس طرح آپ ثابت کریں گے کہ آپ خدا کے وفادار ہیں۔‏ جب ہم ہر صورت میں یہوواہ خدا کے وفادار رہتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوتا ہے اور یہ جان کر ہمیں بھی خوشی ملتی ہے۔‏ (‏امثا 27:‏11‏)‏ ہم اِس بات پر پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہماری وفاداری کا اجر ضرور دے گا۔‏ اگلے مضمون میں ہم کچھ ایسے لوگوں کی زندگی پر غور کریں گے جنہوں نے داؤد سے یا تو وفاداری یا پھر بےوفائی کی۔‏

^ ‏[‏1]‏ ‏(‏پیراگراف 9)‏ کچھ نام فرضی ہیں۔‏