مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اِنسانوں کے لیے خدا کا مقصد ضرور پورا ہوگا!‏

اِنسانوں کے لیے خدا کا مقصد ضرور پورا ہوگا!‏

‏”‏مَیں ہی نے یہ کہا اور مَیں ہی اِس کو وقوع میں لاؤں گا۔‏ مَیں نے اِس کا اِرادہ کِیا اور مَیں ہی اِسے پورا کروں گا۔‏“‏‏—‏یسعیاہ 46:‏11‏۔‏

گیت:‏ 46،‏  5

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ خدا نے اِنسانوں کو کیا بتایا ہے؟‏ (‏ب)‏ یسعیاہ 46:‏10،‏ 11 اور 55:‏11 کی بِنا پر ہم کس بات پر یقین رکھ سکتے ہیں؟‏

بائبل کی سب سے پہلی آیت میں بتایا گیا ہے کہ ”‏خدا نے اِبتدا میں زمین‌وآسمان کو پیدا کِیا۔‏“‏ (‏پیدایش 1:‏1‏)‏ یہ سچ ہے کہ اِنسانوں نے کائنات کا چھوٹا ہی حصہ دیکھا ہے اور وہ خلا،‏ روشنی اور کششِ‌ثقل جیسی چیزوں کے بارے میں کم ہی علم رکھتے ہیں۔‏ (‏واعظ 3:‏11‏)‏ لیکن یہوواہ خدا نے اِنسانوں کو یہ ضرور بتایا ہے کہ اُس نے اُن کو اور زمین کو کس مقصد کے لیے بنایا۔‏ اُس کا اِرادہ تھا کہ اِنسان جو اُس کی صورت پر بنائے گئے ہیں،‏ زمین پر زندگی سے لطف اُٹھائیں۔‏ (‏پیدایش 1:‏26‏)‏ وہ چاہتا تھا کہ اِنسان اُس کی اولاد ہوں اور وہ اُن کا آسمانی باپ ہو۔‏

2 پیدایش کے تیسرے باب سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اِس سے پہلے کہ خدا کا مقصد پورا ہوتا،‏ ایک مسئلہ کھڑا ہو گیا۔‏ (‏پیدایش 3:‏1-‏7‏)‏ لیکن کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے خدا حل نہ کر سکے۔‏ خدا اپنے اِرادے ضرور پورے کرتا ہے اور کوئی بھی اُسے روک نہیں سکتا۔‏ (‏یسعیاہ 46:‏10،‏ 11؛‏ 55:‏11‏)‏ اِس لیے ہم پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ صحیح وقت پر زمین اور اِنسانوں کے لیے اپنا مقصد پورا کرے گا۔‏

3.‏ ‏(‏الف)‏ بائبل کے پیغام کو سمجھنے کے لیے کن بنیادی تعلیمات کو جاننا ضروری ہے؟‏ (‏ب)‏ ابھی اِن بنیادی تعلیمات پر غور کرنا موزوں کیوں ہے؟‏ (‏ج)‏ ہم اِس مضمون میں کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

3 بائبل سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خدا نے اِنسان اور زمین کو کس مقصد کے لیے بنایا ہے اور یسوع مسیح اِس مقصد کے پورا ہونے میں کتنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‏ یہ بائبل کی بنیادی تعلیمات ہیں اور لوگ بائبل کورس کرتے وقت عموماً اِنہی کو سب سے پہلے سیکھتے ہیں۔‏ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کو یہ باتیں بتانا چاہتے ہیں اور ابھی ہمارے پاس ایسا کرنے کا خاص موقع بھی ہے کیونکہ ہم لوگوں کو یسوع مسیح کی موت کی یادگاری تقریب پر آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔‏ (‏لُوقا 22:‏19،‏ 20‏)‏ اگر وہ اِس اہم تقریب پر آئیں گے تو وہ یہوواہ کے مقصد کے بارے میں اَور بھی بہت سی باتیں سیکھیں گے۔‏ لہٰذا اچھا ہوگا کہ ہم کچھ ایسے سوال تیار کریں جن پر ہم لوگوں سے بات کر سکیں تاکہ اُنہیں یادگاری تقریب پر آنے کی ترغیب ملے۔‏ اِس مضمون میں ہم اِن تین سوالوں پر غور کریں گے:‏ خدا نے زمین اور اِنسانوں کو کس مقصد کے لیے خلق کِیا؟‏ یہ مقصد فوراً کیوں پورا نہیں ہوا؟‏ اِس مقصد کو پورا کرنے کے لیے یسوع مسیح کی قربانی کیوں ضروری تھی؟‏

خدا نے زمین اور اِنسانوں کو کس مقصد کے لیے خلق کِیا؟‏

4.‏ خدا کی بنائی ہوئی چیزیں اُس کا جلا‌ل کیسے ظاہر کرتی ہیں؟‏

4 یہوواہ خدا کائنات کا خالق اور مالک ہے۔‏ اُس نے جو کچھ بنایا،‏ وہ اعلیٰ معیار کا ہے۔‏ (‏پیدایش 1:‏31؛‏ یرمیاہ 10:‏12‏)‏ ہم کائنات میں پائی جانے والی نفاست اور ترتیب کو دیکھ کر کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ یہ کہ یہوواہ خدا نے جتنی بھی چیزیں بنائی ہیں،‏ اُنہیں ایک مقصد کے لیے بنایا ہے۔‏ جب ہم ایک خلیے کی پیچیدگی پر غور کرتے ہیں یا پھر ڈوبتے سورج کے خوب‌صورت نظارے کو دیکھتے ہیں تو ہم کیسا محسوس کرتے ہیں؟‏ بِلا‌شُبہ ہمارے مُنہ سے ”‏واہ،‏ واہ“‏ نکلتی ہے۔‏ یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ خدا نے اِن چیزوں کو اِتنا خوب‌صورت بنانے کے ساتھ ساتھ اِنسانوں کو اِن کی خوب‌صورتی سے لطف اُٹھانے کی صلا‌حیت بھی دی ہے۔‏‏—‏زبور 19:‏1؛‏ 104:‏24 کو پڑھیں۔‏

5.‏ یہوواہ خدا نے کیا کِیا تاکہ کائنات میں سب کچھ سلیقے سے انجام پائے؟‏

5 یہوواہ خدا نے اپنی بنائی ہوئی چیزوں کے لیے حدیں مقرر کیں۔‏ اُس نے قدرتی قوانین اور اخلا‌قی معیار قائم کیے تاکہ کائنات میں سب کچھ سلیقے سے انجام پائے۔‏ (‏زبور 19:‏7-‏9‏)‏ اِن قوانین کے ذریعے کائنات میں نظم‌وضبط رہتا ہے۔‏ کششِ‌ثقل کا قانون ہی لیں۔‏ کششِ‌ثقل کی وجہ سے فضا ایک چادر کی طرح زمین کو ڈھکے رہتی ہے اور سمندر اپنی حدوں میں رہتا ہے۔‏ اِس کشش کے بغیر زمین پر زندگی نہ ہوتی۔‏ کائنات میں پائے جانے والے نظم‌وضبط سے پتہ چلتا ہے کہ خدا نے زمین اور اِنسانوں کو ایک مقصد کے لیے بنایا ہے۔‏ ہمارے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ ہم مُنادی کے کام میں لوگوں کو اِس شان‌دار کائنات کے خالق کے بارے میں بتائیں۔‏—‏مکا‌شفہ 4:‏11‏۔‏

6،‏ 7.‏ یہوواہ خدا نے آدم اور حوا کو کون سی نعمتیں عطا کیں؟‏

6 خدا نے اِنسانوں کو اِس لیے خلق کِیا تاکہ وہ ہمیشہ تک زمین پر زندہ رہیں۔‏ (‏پیدایش 1:‏28؛‏ زبور 37:‏29‏)‏ اُس نے بڑی فراخ‌دلی سے آدم اور حوا کو بےشمار نعمتیں عطا کیں۔‏ ‏(‏یعقوب 1:‏17 کو پڑھیں۔‏)‏ یہوواہ خدا نے اُنہیں فیصلہ کرنے کی آزادی دی اور سمجھ سے کام لینے،‏ محبت کرنے اور دوستیاں قائم کرنے کی صلا‌حیت بھی دی۔‏ یہوواہ نے آدم سے بات کی اور اُنہیں بتایا کہ وہ فرمانبرداری کا ثبوت کیسے دے سکتے ہیں۔‏ آدم نے اپنی ضروریات پوری کرنا،‏ جانوروں کی دیکھ‌بھال کرنا اور زمین کی باغبانی کرنا بھی سیکھا۔‏ (‏پیدایش 2:‏15-‏17،‏ 19،‏ 20‏)‏ یہوواہ خدا نے آدم اور حوا کو چکھنے،‏ چُھونے،‏ دیکھنے،‏ سننے اور سُونگھنے کی صلا‌حیت بھی دی تاکہ وہ اُن چیزوں سے لطف اُٹھا سکیں جو خدا نے بنائی تھیں۔‏ خدا نے اِن دونوں کو بہت سے دلچسپ کام کرنے کو دیے۔‏ اُس نے اُنہیں ہمیشہ تک نئی باتیں سیکھنے اور نئی چیزیں دریافت کرنے کا موقع بھی دیا۔‏

7 خدا نے اِنسانوں کو اَور کس مقصد کے لیے خلق کِیا؟‏ اُس نے آدم اور حوا کو بےعیب بچے پیدا کرنے کی صلا‌حیت دی۔‏ وہ چاہتا تھا کہ آدم اور حوا کے بچوں کی بھی اولاد ہو اور آخرکار زمین بےعیب اِنسانوں سے بھر جائے۔‏ یہوواہ خدا یہ بھی چاہتا تھا کہ والدین اپنے بچوں سے اُسی طرح محبت کریں جیسے وہ اپنے بےعیب اِنسانی بچوں یعنی آدم اور حوا سے کرتا تھا۔‏ اُس نے زمین اور اِس پر موجود ساری چیزیں اِنسانوں کے سپرد کر دیں۔‏ اِس شان‌دار اور خوب‌صورت زمین کو اِنسانوں کا ابدی ٹھکا‌نا بننا تھا۔‏—‏زبور 115:‏16‏۔‏

خدا کا مقصد فوراً کیوں پورا نہیں ہوا؟‏

8.‏ یہوواہ خدا نے آدم اور حوا کو پیدایش 2:‏16،‏ 17 میں درج حکم کیوں دیا؟‏

8 لیکن خدا نے اِنسانوں کے لیے جو مقصد ٹھہرایا تھا،‏ وہ فوراً پورا نہیں ہوا۔‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ کیا ہوا۔‏ یہوواہ خدا چاہتا تھا کہ آدم اور حوا اپنی آزادی کی حدوں کو جان لیں۔‏ اِس لیے اُس نے اُنہیں یہ حکم دیا:‏ ”‏تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بےروک‌ٹوک کھا سکتا ہے۔‏ لیکن نیک‌وبد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔‏“‏ (‏پیدایش 2:‏16،‏ 17‏)‏ یہ حکم اِتنا مشکل نہیں تھا کہ آدم اور حوا اِسے سمجھ نہ سکیں۔‏ اِس پر عمل کرنا بھی مشکل نہیں تھا کیونکہ باغِ‌عدن میں اَور بھی بہت سے درخت تھے جن کا پھل وہ کھا سکتے تھے۔‏

9،‏ 10.‏ ‏(‏الف)‏ شیطان نے خدا پر کون سا اِلزام لگا‌یا؟‏ (‏ب)‏ آدم اور حوا نے کیا کرنے کا فیصلہ کِیا؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

9 شیطان نے ایک سانپ کے ذریعے حوا کو ورغلا‌یا جس کے نتیجے میں حوا نے اپنے آسمانی باپ کی نافرمانی کی۔‏ (‏پیدایش 3:‏1-‏5 کو پڑھیں؛‏ مکا‌شفہ 12:‏9‏)‏ شیطان نے حوا سے پوچھا:‏ ”‏کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تُم نہ کھانا؟‏“‏ اصل میں وہ حوا کو جتا رہا تھا کہ ”‏تُم اپنی مرضی کی مالک نہیں ہو۔‏“‏ پھر شیطان نے اُن سے کہا:‏ ”‏تُم ہرگز نہ مرو گے“‏ جو کہ سراسر جھوٹ تھا۔‏ اِس کے بعد شیطان نے حوا کو یقین دِلایا کہ اُنہیں خدا کی سننے کی ضرورت نہیں ہے۔‏ اُس نے کہا:‏ ”‏خدا جانتا ہے کہ جس دن تُم اُسے کھاؤ گے تمہاری آنکھیں کُھل جائیں گی۔‏“‏ دراصل شیطان،‏ حوا سے کہہ رہا تھا کہ یہوواہ خدا اُنہیں ایک خاص طرح کے علم سے محروم رکھنا چاہتا ہے اور اِسی وجہ سے اُس نے اُن دونوں کو وہ پھل کھانے سے منع کِیا تھا۔‏ آخرکار شیطان نے حوا سے یہ جھوٹا وعدہ کِیا:‏ ”‏تُم خدا کی مانند نیک‌وبد کے جاننے والے بن جاؤ گے۔‏“‏

10 اب آدم اور حوا کو ایک اہم فیصلہ کرنا تھا۔‏ کیا وہ خدا کے فرمانبردار ہوں گے یا شیطان کی سنیں گے؟‏ افسوس کی بات ہے کہ اُنہوں نے شیطان کی سننے کا فیصلہ کِیا۔‏ اُس کا ساتھ دینے سے اُنہوں نے اپنے آسمانی باپ سے تعلق توڑ دیا اور اُس کے سائے سے محروم ہو گئے۔‏—‏پیدایش 3:‏6-‏13‏۔‏

11.‏ یہوواہ خدا آدم اور حوا کے گُناہ کو نظرانداز کیوں نہیں کر سکتا تھا؟‏

11 یہوواہ خدا کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے آدم اور حوا میں عیب آ گیا۔‏ اِس کے ساتھ ساتھ وہ خدا کے دُشمن بن گئے کیونکہ خدا کو بُرائی سے نفرت ہے۔‏ اُس کی ”‏آنکھیں ایسی پاک ہیں کہ [‏وہ]‏ بدی کو دیکھ نہیں سکتا۔‏“‏ (‏حبقوق 1:‏13‏)‏ اگر یہوواہ خدا آدم اور حوا کے گُناہ کو نظرانداز کرتا تو کائنات کی باقی مخلوقات پر بُرا اثر پڑتا کیونکہ فرشتے اور آئندہ پیدا ہونے والے اِنسان اِس بات پر شک کرنے لگتے کہ خدا بات کا پکا اور قابلِ‌بھروسا ہے۔‏ لیکن یہوواہ خدا جو معیار قائم کرتا ہے،‏ وہ خود بھی اُن کی پابندی کرتا ہے اور کبھی اُن کے خلا‌ف نہیں جاتا۔‏ (‏زبور 119:‏142‏)‏ یہ سچ ہے کہ آدم اور حوا کو خود فیصلہ کرنے کی آزادی ملی تھی لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اُنہیں خدا کے حکموں کو توڑنے کی چُھوٹ مل گئی تھی۔‏ لہٰذا اُنہیں خدا کی نافرمانی کرنے کے نتائج بھگتنے پڑے۔‏ وہ مر گئے اور خاک میں لوٹ گئے۔‏—‏پیدایش 3:‏19‏۔‏

12.‏ آدم کے گُناہ کی وجہ سے اُن کے بچوں پر کیا اثر پڑا؟‏

12 جب آدم اور حوا نے یہوواہ خدا کی نافرمانی کی تو اُس نے اُن سے ناتا توڑ دیا۔‏ اب آدم اور حوا اُس کے خاندان کا حصہ نہیں رہے۔‏ یہوواہ خدا نے اُنہیں باغِ‌عدن سے ہمیشہ کے لیے نکا‌ل دیا۔‏ (‏پیدایش 3:‏23،‏ 24‏)‏ یوں اُس نے اِنصاف‌پسندی سے کام لیا اور اُنہیں اُن کے فیصلے کے بُرے نتائج بھگتنے دیے۔‏ ‏(‏اِستثنا 32:‏4،‏ 5 کو پڑھیں۔‏)‏ چونکہ آدم اور حوا میں عیب آ گیا تھا اِس لیے وہ یہوواہ کی صفات کو مکمل طور پر ظاہر نہیں کر سکتے تھے۔‏ آدم نے نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے بچوں کے لیے بھی ایک شان‌دار مستقبل کھو دیا۔‏ وہ اپنے بچوں کو ورثے میں صرف گُناہ اور موت دے سکتے تھے۔‏ (‏رومیوں 5:‏12‏)‏ اُنہوں نے اپنے بچوں سے ہمیشہ تک زندہ رہنے کا موقع چھین لیا۔‏ اب نہ تو آدم بےعیب اولاد پیدا کر سکتے تھے اور نہ ہی اُن کے ہونے والے بچے۔‏ جب سے شیطان آدم اور حوا کو گمراہ کرنے میں کامیاب رہا ہے،‏ وہ تمام اِنسانوں کو ورغلا‌نے کی کوشش کرتا ہے۔‏—‏یوحنا 8:‏44‏۔‏

فدیے کی وجہ سے خدا کے ساتھ دوستی ممکن ہو گئی

13.‏ یہوواہ خدا اِنسانوں کے لیے کیا چاہتا ہے؟‏

13 حالانکہ آدم اور حوا نے خدا سے مُنہ موڑ لیا تھا لیکن خدا نے اِنسانوں سے مُنہ نہیں موڑا۔‏ اُسے اِنسانوں سے محبت تھی اِس لیے وہ آدم اور حوا کے ہونے والے بچوں کو اپنی قربت میں آنے کا موقع دینا چاہتا تھا۔‏ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی بھی شخص ہلا‌ک ہو۔‏ (‏2-‏پطرس 3:‏9‏)‏ لہٰذا خدا نے فوراً ہی ایسا حل نکا‌لا جس سے اِنسان اُس سے دوستی کا رشتہ قائم کر سکیں۔‏ لیکن وہ اپنے معیاروں کے خلا‌ف جائے بغیر یہ کیسے کر سکتا تھا؟‏ آئیں،‏ دیکھتے ہیں۔‏

جب آدم اور حوا نے خدا سے مُنہ موڑ لیا تو خدا نے فوراً ایسا حل نکا‌لا جس سے اِنسان اُس سے دوستی کا رشتہ قائم کر سکیں۔‏

14.‏ ‏(‏الف)‏ یوحنا 3:‏16 کے مطابق یہوواہ خدا نے اِنسانوں کو نجات دِلانے کے لیے کیا کِیا؟‏ (‏ب)‏ ہم لوگوں کو کس اہم سوال کا جواب دے سکتے ہیں؟‏

14 یوحنا 3:‏16 کو پڑھیں۔‏ بہت سے لوگ جنہیں ہم یسوع مسیح کی موت کی یادگاری تقریب پر آنے کی دعوت دیتے ہیں،‏ وہ اِس آیت سے واقف ہیں۔‏ لیکن یسوع مسیح کی قربانی کے ذریعے اِنسانوں کو ہمیشہ کی زندگی کیسے مل سکتی ہے؟‏ اِس اہم سوال کا جواب ہم لوگوں کو اُس وقت دے سکتے ہیں جب ہم اُنہیں یادگاری تقریب پر آنے کی دعوت دیتے ہیں،‏ جب ہم تقریب کے موقعے پر اُن سے ملتے ہیں اور اِس کے بعد جب ہم اُن سے دوبارہ ملا‌قات کرتے ہیں۔‏ فدیے کے بارے میں سیکھنے سے لوگ سمجھ جائیں گے کہ یہوواہ اِنسانوں سے کتنی محبت کرتا ہے اور وہ کتنا دانش‌مند ہے۔‏ لیکن ہم لوگوں کو فدیے کے بارے میں کیا کچھ بتا سکتے ہیں؟‏

15.‏ یسوع اور آدم میں کیا فرق تھا؟‏

15 یہوواہ خدا نے ایک بےعیب اِنسان فراہم کِیا جو اپنی جان فدیے کے طور پر دے سکے۔‏ یہ ضروری تھا کہ یہ بےعیب اِنسان یہوواہ کا وفادار رہے اور اِنسانوں کے لیے اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہو۔‏ (‏رومیوں 5:‏17-‏19‏)‏ یہوواہ خدا نے اپنے اِکلوتے بیٹے یسوع کی زندگی آسمان سے زمین پر ایک عورت کے رحم میں منتقل کر دی۔‏ (‏یوحنا 1:‏14‏)‏ یوں یسوع،‏ آدم کی طرح ایک بےعیب اِنسان بن گئے۔‏ لیکن آدم کے برعکس یسوع مسیح خدا کے معیاروں پر مکمل طور پر پورا اُترے۔‏ اُنہوں نے مشکل‌ترین صورتحال میں بھی خدا کے حکموں کو نہیں توڑا۔‏

16.‏ فدیہ ایک بیش‌قیمت نعمت کیوں ہے؟‏

16 بےعیب اِنسان کے طور پر اپنی جان دینے سے یسوع مسیح اِنسانوں کو گُناہ اور موت سے نجات دِلا سکتے تھے۔‏ ‏(‏1-‏تیمُتھیُس 2:‏6‏)‏ آدم کے برعکس یسوع مسیح فرمانبرداری اور وفاداری کے لحاظ سے خدا کی توقعات پر پورا اُترے۔‏ اُنہوں نے اپنی جان فدیے کے طور پر دے دی تاکہ ہر اِنسان کو ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا موقع ملے۔‏ (‏متی 20:‏28‏)‏ سچ تو یہ ہے کہ یسوع مسیح کی قربانی کے ذریعے ہی خدا کا مقصد پورا ہو سکتا ہے۔‏—‏2-‏کُرنتھیوں 1:‏19،‏ 20‏۔‏

نجات کا راستہ

17.‏ فدیے کی بدولت کیا کچھ ممکن ہوگا؟‏

17 فدیہ فراہم کرنے کے لیے یہوواہ خدا کو بڑی قیمت چُکا‌نی پڑی۔‏ (‏1-‏پطرس 1:‏19‏)‏ اُسے اِنسانوں سے اِتنی محبت ہے کہ اُس نے ہمارے لیے اپنے عزیز بیٹے کو قربان کر دیا۔‏ (‏1-‏یوحنا 4:‏9،‏ 10‏)‏ اِس طرح یسوع مسیح ایک لحاظ سے آدم کی جگہ ہمارے باپ بن گئے۔‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 15:‏45‏)‏ فدیہ ادا کرنے سے یسوع مسیح نے ہمیں نہ صرف ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا موقع دیا بلکہ ایک نہ ایک دن خدا کے خاندان کا حصہ بننے کا موقع بھی دیا۔‏ فدیے کی بدولت اِنسان عیب سے پاک ہو سکیں گے۔‏ پھر یہوواہ اپنے معیاروں کے خلا‌ف جائے بغیر اُنہیں اپنے خاندان میں شامل کر سکے گا۔‏ وہ کتنا شان‌دار وقت ہوگا جب خدا کے تمام وفادار خادم بےعیب ہوں گے!‏ تب خدا کے خاندان کا آسمانی حصہ اور زمینی حصہ پوری طرح متحد ہو جائیں گے اور ہم سب ”‏خدا کی اولاد“‏ ہوں گے۔‏—‏رومیوں 8:‏21‏۔‏

18.‏ خدا کب ”‏سب کا حاکم“‏ ہوگا؟‏

18 حالانکہ آدم اور حوا نے اپنے خالق سے مُنہ پھیر لیا تھا لیکن یہوواہ خدا کے دل سے اِنسانوں کے لیے محبت ختم نہیں ہوئی اور اُس نے اُنہیں نجات دِلانے کے لیے فدیہ فراہم کِیا۔‏ ہم عیب‌دار ہیں لیکن پھر بھی ہم یہوواہ کے وفادار رہ سکتے ہیں۔‏ فدیے کی بدولت یہوواہ خدا ہمیں گُناہ سے مکمل طور پر پاک کر دے گا۔‏ ذرا اُس وقت کا تصور کریں جب اُن سب کو ہمیشہ کی زندگی ملے گی جو ’‏بیٹے کو قبول کرتے ہیں اور اُس پر ایمان ظاہر کرتے ہیں۔‏‘‏ (‏یوحنا 6:‏40‏)‏ اُس وقت ہمارا شفیق آسمانی باپ ہمارے تمام عیب مٹا دے گا اور زمین پر صرف بےعیب اِنسان ہوں گے جو کہ شروع سے ہی خدا کا مقصد تھا۔‏ پھر ”‏خدا سب کا حاکم“‏ ہوگا۔‏—‏1-‏کُرنتھیوں 15:‏28‏۔‏

19.‏ ‏(‏الف)‏ اگر ہم فدیے کی نعمت کے لیے شکرگزار ہیں تو ہم کیا کریں گے؟‏ (‏بکس ”‏ دعوت‌ناموں کا بھرپور اِستعمال کریں‏“‏ کو دیکھیں۔‏)‏ (‏ب)‏ اگلے مضمون میں کس موضوع پر غور کِیا جائے گا؟‏

19 اگر ہم فدیے کی نعمت کے لیے شکرگزار ہیں تو ہم دوسروں کو بھی اِس کے بارے میں بتائیں گے۔‏ تمام لوگوں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یہوواہ خدا فدیے کی بدولت اِنسانوں کو ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا موقع دے رہا ہے۔‏ لیکن فدیہ صرف اِسی مقصد کے لیے فراہم نہیں کِیا گیا۔‏ یہ اِس لیے بھی فراہم کِیا گیا تاکہ اُن دعووں کو جھوٹا ثابت کِیا جائے جو شیطان نے باغِ‌عدن میں کیے تھے۔‏ اِس موضوع پر اگلے مضمون میں غور کِیا جائے گا۔‏