آپبیتی
ہمیں خدا کی عظیم رحمت کے سائے میں بڑی برکتیں ملیں
میرے والد، آرتھر خدا سے بہت پیار کرتے تھے۔ اُن کی خواہش تھی کہ وہ میتھوڈِسٹ چرچ کے پادری بنیں۔ لیکن جب اُنہوں نے بائبل سٹوڈنٹس کی کچھ کتابیں پڑھیں اور اِن کے اِجلاسوں پر جانے لگے تو اُنہوں نے اپنا اِرادہ بدل لیا اور 1914ء میں بائبل سٹوڈنٹ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔ اُس وقت اُن کی عمر 17 سال تھی اور پہلی عالمی جنگ زوروں پر تھی۔ جب اُنہیں کینیڈا کی فوج میں بھرتی ہونے کے لیے بلایا گیا تو اُنہوں نے ہتھیار اُٹھانے سے اِنکار کر دیا جس کی وجہ سے اُنہیں قید میں ڈال دیا گیا۔ جب وہ رِہا ہو گئے تو وہ کُلوقتی طور پر مُنادی کرنے لگے۔
سن 1926ء میں میرے والدین نے شادی کی۔ میری امی کی والدہ 1908ء میں بائبل سٹوڈنٹ بنی تھیں۔ مَیں 24 اپریل 1931ء کو پیدا ہوا۔ ہم چار بہن بھائی تھے اور مَیں دوسرے نمبر پر تھا۔ میرے والد بائبل کا بہت احترام کرتے تھے اور اُنہوں نے ہمارے دل میں بھی اِس کے لیے احترام ڈالا۔ ہماری زندگی میں یہوواہ خدا کی عبادت کرنے سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں تھی۔ ہم سب مل کر باقاعدگی سے گھر گھر مُنادی کرنے جاتے تھے۔—اعمال 20:20۔
مَیں ابو کے نقشِقدم پر چل دیا
سن 1939ء میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی۔ اِس کے اگلے سال کینیڈا میں یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی لگا دی گئی۔ بچوں کو کلاس روم میں قومی پرچم کو سلامی دینا اور قومی ترانہ گانا پڑتا تھا۔ اِس دوران ٹیچر مجھے اور میری بہن ڈوروتھی کو کلاس روم سے باہر بھیج دیا کرتے تھے۔ لیکن ایک بار میری ٹیچر نے میری بےعزتی کرنے کے لیے پوری کلاس کے سامنے مجھے بزدل کہا۔ اُس دن چھٹی کے بعد میرے کچھ ہمجماعتوں نے مجھے دھکا دے کر زمین پر گِرا دیا اور مارا۔ لیکن اِس واقعے سے میرے دل میں اِنسانوں کی بجائے خدا کا کہنا ماننے کا عزم اَور زیادہ مضبوط ہو گیا۔—اعمال 5:29۔
جب مَیں 11 سال کا تھا تو مجھے پانی کی ایک ٹینکی میں بپتسمہ دیا گیا۔ یہ جولائی 1942ء کی بات تھی۔ مَیں سکول کی چھٹیوں میں مددگار پہلکار کے طور پر خدمت کرتا تھا۔ ایک بار چھٹیوں میں مَیں تین بھائیوں کے ساتھ شمالی اونٹاریو کے گھنے جنگلوں میں لکڑہاروں کو خوشخبری سنانے بھی گیا۔
پھر 1 مئی 1949ء کو مَیں پہلکار بن گیا۔ اُس وقت کینیڈا میں بیتایل بن رہا تھا اور مجھے بھی تعمیراتی کام میں حصہ لینے کے لیے بلایا گیا۔ جب بیتایل بن گیا تو مجھے وہاں خدمت کرنے کی دعوت دی گئی۔ مجھے چھاپہخانے میں کام دیا گیا جہاں مَیں نے چھپائی کی مشین کو چلانا سیکھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار ہم نے کئی ہفتوں تک پوری پوری رات کام کِیا کیونکہ ہم ایک پرچہ چھاپ رہے تھے جو کینیڈا کے گواہوں پر ڈھائی جانے والی اذیت کے بارے میں تھا۔
کچھ عرصے بعد مجھے خدمتی شعبے میں کام دیا گیا۔ مجھے اُن پہلکاروں کا اِنٹرویو لینے کی ذمےداری دی گئی جو کینیڈا کے صوبے کیوبیک میں خدمت کرنے کے لیے جا رہے تھے۔ اُس وقت کیوبیک میں یہوواہ کے گواہوں کو شدید اذیت کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ جن پہلکاروں کا مَیں نے اِنٹرویو لیا، اُن میں سے ایک کا نام میری زازولا تھا۔ میری کے والدین آرتھوڈکس چرچ کے رُکن تھے۔ جب میری اور اُن کے بڑے بھائی یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کورس کرنے لگے تو اُن کے والدین نے اُن کی سخت مخالفت کی اور اُنہیں گھر سے نکال دیا۔ اِن دونوں نے جون 1951ء میں بپتسمہ لیا اور چھ مہینے بعد پہلکار کے طور پر خدمت کرنے لگے۔ میری کا اِنٹرویو لیتے وقت مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ یہوواہ سے بہت پیار کرتی ہیں۔ مَیں نے دل ہی دل میں سوچا کہ ”یہی وہ لڑکی ہے جس سے مَیں شادی کروں گا۔“ اِس کے نو مہینے بعد ہم نے 30 جنوری 1954ء کو شادی کر لی۔ شادی کے ایک ہفتے بعد مجھے حلقے کے نگہبان کی ذمےداریاں سنبھالنے کی تربیت دی گئی۔ پھر میری اور مَیں نے دو سال تک شمالی اونٹاریو میں کلیسیاؤں کا دورہ کِیا۔
مُنادی کا کام پوری دُنیا میں تیزی سے پھیل رہا تھا اور اِس وجہ سے اَور زیادہ مشنریوں کی ضرورت پڑی۔ میری اور مَیں نے سوچا کہ اگر ہم کینیڈا میں موسمِسرما کی یخ ٹھنڈ اور موسمِگرما میں مچھروں کی بھرمار کو برداشت کر سکتے ہیں تو ہم کچھ بھی برداشت کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ہم نے گلئیڈ سکول کی 27ویں کلاس سے تربیت حاصل کی جہاں ہمیں جولائی 1956ء میں گریجویشن تقریب پر سند ملی۔ ہمیں مشنری کے طور پر ملک برازیل بھیجا گیا جہاں ہم نومبر 1956ء میں پہنچے۔
برازیل میں خدمت
برازیل بیتایل میں پہنچ کر ہم پُرتگالی زبان سیکھنے لگے۔ ہم نے کچھ جملے سیکھے اور رسالوں کی پیشکش زبانی یاد کر لی۔ ہمیں یہ مشورہ دیا گیا کہ اگر صاحبِخانہ ہمارے پیغام میں دلچسپی لے تو ہم اُسے بائبل سے نئی دُنیا کے بارے میں کوئی آیت پڑھ کر سنائیں۔ جب ہم پہلی بار مُنادی پر گئے تو ایک عورت نے میری بات کو غور سے سنا اِس لیے مَیں نے اُسے مکاشفہ 21:3، 4 پڑھ کر سنائی . . . اور پھر مَیں بےہوش ہو گیا! دراصل مَیں برازیل کی گرمی اور حبس کا عادی نہیں تھا۔ یہ موسم میرے لیے کسی آزمائش سے کم نہیں تھا۔
کچھ عرصے کے بعد ہمیں شہر کامپوس بھیجا گیا جہاں آج 15 کلیسیائیں ہیں۔ لیکن اُس وقت وہاں صرف ایک چھوٹا گروپ اور مشنریوں کے لیے ایک گھر تھا جہاں چار بہنیں رہتی تھیں۔ ہم بھی اُس گھر میں رہنے لگے۔ مجھے کپڑوں کی دُھلائی اور اِستری میں بہنوں کا ہاتھ بٹانے اور کھانا پکانے کے لیے لکڑی جمع کرنے کا کام سونپا گیا۔ ایک بار سوموار کے دن ”مینارِنگہبانی“ کا مطالعہ کرنے کے بعد میری سوفے پر لیٹی تھیں اور ہم گپشپ کر رہے تھے۔ جب اُنہوں نے گدی سے سر اُٹھایا تو گدی کے نیچے سے سانپ نکل آیا۔ بس پھر جو تماشا شروع ہوا . . . مَیں نے سانپ کو مار کر ہی دم لیا!
ہم نے ایک سال تک پُرتگالی زبان سیکھی اور پھر مَیں حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کرنے لگا۔ ہم جن علاقوں میں کلیسیاؤں کا دورہ کرنے گئے، وہاں بجلی نہیں تھی۔ ہم چٹائیوں پر سوتے تھے اور تانگوں پر سفر کرتے تھے۔ ایک بار ہم دونوں کو ایک پہاڑی علاقے میں مُنادی کرنے کے لیے بھیجا گیا جہاں کوئی مبشر نہیں تھا۔ ہم نے وہاں ایک کمرا کرائے پر لے لیا۔ برانچ نے ہمیں ڈاک کے ذریعے 800 رسالے بھیجے جو ڈبوں میں بند تھے۔ اِن ڈبوں کو ڈاک خانے سے اپنے کمرے تک لانے کے لیے ہمیں کئی چکر کاٹنے پڑے۔
سن 1962ء میں برازیل کے کئی شہروں میں بادشاہتی خدمتی سکول منعقد کِیا گیا۔ مجھے یہ ذمےداری دی گئی کہ مَیں چھ مہینوں تک جگہ جگہ جا کر یہ سکول منعقد کروں۔ اِس سفر پر میری کو میرے ساتھ جانے کی اِجازت نہیں تھی۔ جب مَیں شہر مناؤس میں سکول منعقد کر رہا تھا تو مَیں نے وہاں ایک صوبائی اِجتماع کا بھی اِنتظام کِیا۔ ہمیں اِجتماع کے لیے ایک ہال تو مل گیا لیکن کھانا پکانے اور کھانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ملی۔ (اُس زمانے میں اِجتماعوں پر حاضرین کے لیے کھانا پکایا جاتا تھا۔) اِس کے علاوہ بارشوں کی وجہ سے صاف پانی کی سخت قلت تھی۔ مَیں نے ایک فوجی افسر سے ہمارے مسئلے کے بارے میں بات کی۔ اُس نے ہمیں صاف پانی مہیا کِیا اور اپنے کچھ فوجی بھیج کر ہمارے لیے دو بڑے شامیانے کھڑے کروائے۔ یوں ہمیں کھانا پکانے اور کھانا کھانے کے لیے مناسب جگہ مل گئی۔
اِس دوران میری کو ایک ایسے علاقے میں مُنادی کرنے کو بھیجا گیا جہاں پُرتگالی
لوگوں کی بڑی آبادی تھی۔ یہ لوگ پیسہ کمانے کی غرض سے ملک پُرتگال سے برازیل آئے ہوئے تھے۔ اُن کا دھیان بس پیسے کمانے پر تھا اِس لیے اُن میں سے ایک نے بھی میری کے پیغام پر دھیان نہیں دیا۔ ایک بار میری نے تنگ آ کر کچھ بہن بھائیوں سے کہا: ”مَیں تو مر کر بھی پُرتگال میں نہ رہنا چاہوں!“ اِس کے کچھ ہی دن بعد ہمیں ایک خط ملا جس میں ہمیں پُرتگال جا کر خدمت کرنے کو کہا گیا جہاں ہمارے کام پر پابندی تھی۔ میری کو یہ خط پڑھ کر بہت ہی دھچکا لگا لیکن پھر بھی ہم نے پُرتگال جانے کی حامی بھر لی۔پُرتگال میں خدمت کا آغاز
ہم اگست 1964ء میں پُرتگال کے شہر لزبن پہنچے۔ وہاں خفیہ پولیس نے ہمارے بہن بھائیوں کا جینا عذاب کِیا ہوا تھا۔ اِس لیے ہم نے شروع میں مقامی یہوواہ کے گواہوں سے کوئی رابطہ نہیں کِیا۔ پہلے تو ہم نے ایک کمرا کرائے پر لیا۔ پھر جب ہمیں ویزا مل گیا تو ہم نے ایک فلیٹ کرائے پر لے لیا۔ آخرکار پانچ مہینے بعد یعنی جنوری 1965ء میں صورتحال ایسی ہو گئی کہ ہم پُرتگال بیتایل سے رابطہ کر سکتے تھے اور پھر سے اِجلاسوں پر جا سکتے تھے۔ اِس پر ہم بہت ہی خوش تھے۔
پولیس ہر روز بہن بھائیوں کے گھروں پر چھاپا مارتی تھی۔ چونکہ کنگڈم ہال بند کر دیے گئے تھے اِس لیے اِجلاس بھائیوں کے گھروں میں منعقد ہوتے تھے۔ پولیس سینکڑوں بہن بھائیوں کو تھانے لے جا کر اُن سے پوچھگچھ کرتی تھی اور اِس دوران اُن پر تشدد ڈھاتی تھی۔ پولیس خاص طور پر اُن بھائیوں کے نام جاننے کی کوشش کرتی تھی جو اِجلاس منعقد کرتے تھے۔ اِس لیے بہن بھائی ایک دوسرے کا خاندانی نام اِستعمال کرنے کی بجائے صرف ذاتی نام اِستعمال کرتے تھے۔ لہٰذا ہم نے بھی ایسا ہی کِیا۔
ہمارے نزدیک سب سے اہم بات یہ تھی کہ بہن بھائیوں کو روحانی کھانا ملتا رہے تاکہ وہ اِس مشکل وقت میں ثابتقدم رہ سکیں۔ میری ”مینارِنگہبانی“ کے مطالعے کے مضامین اور کچھ اَور مطبوعات ایک خاص کاغذ پر ٹائپ کرتی تھیں جس سے بہن بھائیوں کے لیے بہت سی نقلیں تیار کی جا سکتی تھیں۔
عدالتوں میں خوشخبری کا دِفاع
جون 1966ء میں لزبن کی ایک پوری کلیسیا کے خلاف مُقدمہ ہوا۔ اِس کلیسیا کے 49 بہن بھائیوں پر یہ اِلزام لگایا گیا تھا کہ وہ کسی کے گھر پر ایک غیرقانونی اِجلاس پر گئے تھے۔ میری ذمےداری یہ تھی کہ مَیں اِن بہن بھائیوں کو مُقدمے کے لیے تیار کروں۔ اِس سلسلے میں مَیں نے فرضی وکیلِاِستغاثہ بن کر اُن سے پوچھگچھ کی۔ ہمیں معلوم تھا کہ ہم اِس مُقدمے کو ہار جائیں گے لیکن ہمیں یہ بھی پتہ تھا کہ اِس کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گواہی ملے گی۔ ہمارے وکیل نے اپنی دلیل پیش کرتے وقت بڑی دلیری سے بائبل میں درج گملیایل کے الفاظ کا ذکر کِیا۔ (اعمال 5:33-39) اِس مُقدمے کو اخباروں میں بھی خوب اُچھالا گیا۔ البتہ جیسا ہم نے سوچا تھا، بالکل ویسا ہی ہوا اور اُن 49 بہن بھائیوں کو 45 دن سے ساڑھے پانچ مہینے کی قید سنائی گئی۔ مگر ہم یہ دیکھ کر خوش تھے کہ ہمارے وکیل نے بائبل کورس کی پیشکش قبول کر لی۔ اپنی موت سے پہلے وہ ہمارے اِجلاسوں پر بھی آنے لگا۔
دسمبر 1966ء میں مجھے برانچ کے نگہبان کے طور پر مقرر کِیا گیا۔ میرا زیادہتر وقت قانونی کاموں میں لگ جاتا تھا۔ ہم پُرتگال میں یہوواہ کے گواہوں کو قانونی حیثیت دِلانے کی پوری کوشش کر رہے تھے تاکہ ہم آزادی سے عبادت کر سکیں۔ (فِلپّیوں 1:7) آخرکار 18 دسمبر 1974ء کو ہمارے کام سے پابندی ہٹا لی گئی۔ اِس خوشی میں ہم نے شہر پورٹو اور لزبن میں ایک بہت بڑا اِجتماع منعقد کِیا جس کی کُل حاضری 46 ہزار 870 تھی۔ ہماری خوشی میں شریک ہونے کے لیے مرکزی دفتر سے بھائی ناتھن نار اور بھائی فریڈرک فرینز اِجتماع پر آئے۔
یہوواہ خدا اُن جزیروں پر بھی ہمارے کام پر برکت دے رہا تھا جہاں پُرتگالی زبان بولی جاتی ہے، مثلاً ازورس، ساؤ ٹومے اور پرنسپا، کیپورڈے اور مدیرا۔ چونکہ اِن جزیروں پر مبشروں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی تھی اِس لیے ہمیں زیادہ بڑے بیتایل کی ضرورت پڑی۔ جب یہ بیتایل بن گیا تو 23 اپریل 1988ء کو اِسے مخصوص کرنے کے لیے ایک تقریب منعقد کی گئی جس پر بھائی ملٹن ہینشل نے مرکزی دفتر سے آ کر تقریر دی۔ اِس تقریب پر 45 ہزار 522 بہن بھائی آئے۔ اِن میں 20 ایسے بہن بھائی بھی شامل تھے جنہوں نے ایک زمانے میں پُرتگال میں مشنری کے طور پر خدمت کی تھی۔
وفادار بھائیوں کی اچھی مثال
میری اور مَیں نے اُن بھائیوں سے بہت کچھ سیکھا جو وفاداری سے یہوواہ خدا کی خدمت کر رہے تھے۔ ایک بار مَیں بھائی تھیوڈور جیرس کے ساتھ کسی اَور ملک میں ایک برانچ کا دورہ کر رہا تھا۔ اُس برانچ میں ایک بہت بڑا مسئلہ چل رہا تھا اور وہاں کی برانچ کی کمیٹی نے اِسے حل کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔ اُنہیں بڑا افسوس تھا کہ وہ اِس مسئلے کو حل نہیں کر پائے۔ یہ دیکھ کر بھائی جیرس نے اُن سے کہا: ”اب ہمیں معاملے کو پاک روح پر چھوڑ دینا چاہیے۔“ مَیں بھائی فرینز کی اُس بات کو بھی نہیں بھولوں گا جو اُنہوں نے اُس وقت کہی تھی جب میری اور مَیں بروکلن میں اُن کے ساتھ ایک دعوت پر تھے۔ اُنہوں نے کہا: ”میرا مشورہ ہے کہ ہر اچھے اور بُرے وقت میں یہوواہ کی تنظیم کا ساتھ دیں۔ صرف یہی وہ تنظیم ہے جو یسوع مسیح کے حکم کے مطابق خدا کی بادشاہت کی مُنادی کر رہی ہے۔“
میری اور مَیں نے اِس مشورے پر عمل کِیا جس سے ہمیں بڑی خوشی ملی۔ ہم دونوں کو بہت سے ملکوں میں برانچوں کا دورہ کرنے کا شرف بھی ملا۔ اِن موقعوں پر ہمیں ہر عمر کے بہن بھائیوں سے ملاقات کرنا بہت اچھا لگتا تھا۔ ہم اُنہیں اِس بات کا یقین دِلاتے کہ یہوواہ خدا اُن کی خدمت کی بڑی قدر کرتا ہے اور اُن کی حوصلہافزائی کرتے کہ وہ جوش سے اُس کی خدمت کرتے رہیں۔
اب ہم دونوں کی عمر 80 سے زیادہ ہے اور میری کی صحت کافی خراب رہتی ہے۔ (2-کُرنتھیوں 12:9) ہم نے اپنی زندگی میں طرح طرح کی آزمائشیں اور مشکلات جھیلی ہیں۔ لیکن اِن کی وجہ سے ہمارا ایمان اَور مضبوط ہوا ہے اور یہوواہ کا وفادار رہنے کا ہمارا عزم بھی زیادہ پکا ہو گیا ہے۔ جب ہم اپنی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہمیں خدا کی عظیم رحمت کے سائے میں رہ کر کتنی برکتیں ملی ہیں۔ *
^ پیراگراف 29 جب یہ مضمون تیار کِیا جا رہا تھا تو بھائی ڈگلس گیسٹ 25 اکتوبر 2015ء کو فوت ہو گئے۔ وہ مرتے دم تک یہوواہ خدا کے وفادار رہے۔