مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

فدیہ—‏آسمانی باپ کی طرف سے ”‏اچھی نعمت“‏

فدیہ—‏آسمانی باپ کی طرف سے ”‏اچھی نعمت“‏

‏”‏ہر اچھی نعمت اور ہر کامل بخشش اُوپر سے آتی ہے یعنی آسمانی روشنیوں کے باپ سے۔‏“‏‏—‏یعقوب 1:‏17‏۔‏

گیت:‏ 2،‏  18

1.‏ فدیے کی بدولت کیا کچھ ممکن ہوگا؟‏

یسوع مسیح نے جو فدیہ ادا کِیا،‏ اِس کی بدولت ہمیں بہت سی برکتیں ملتی ہیں۔‏ اِس کے ذریعے آدم کے وہ بچے جو نیکی سے محبت کرتے ہیں،‏ خدا کے خاندان کا حصہ بننے کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔‏ اِس کی وجہ سے ہم فردوس میں ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی اُمید بھی رکھ سکتے ہیں۔‏ اِس کے علا‌وہ فدیے کا تعلق ایسے معاملوں سے بھی ہے جو آسمان اور زمین پر سب کے لیے بہت اہم ہیں۔‏—‏عبرانیوں 1:‏8،‏ 9‏۔‏

2.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع مسیح نے دُعا کے نمونے میں کن اہم معاملوں کا ذکر کِیا؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏ (‏ب)‏ ہم اِس مضمون میں کس بات پر غور کریں گے؟‏

2 اپنی موت سے تقریباً دو سال پہلے یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو دُعا کا نمونہ دیتے وقت اِن معاملوں کا ذکر کِیا۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏اَے آسمانی باپ!‏ تیرا نام پاک مانا جائے۔‏ تیری بادشاہت آئے۔‏ تیری مرضی جیسے آسمان پر ہو رہی ہے ویسے ہی زمین پر بھی ہو۔‏“‏ (‏متی 6:‏9،‏ 10‏)‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کا نام،‏ اُس کی بادشاہت اور اُس کی مرضی بہت ہی اہم معاملے ہیں۔‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ اِن تین معاملوں کا فدیے سے کیا تعلق ہے۔‏

‏”‏تیرا نام پاک مانا جائے“‏

3.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ خدا کے نام کا تعلق کن باتوں سے ہے؟‏ (‏ب)‏ شیطان نے خدا کی بدنامی کیسے کی؟‏

3 دُعا کے نمونے میں یسوع مسیح نے سب سے پہلے یہ درخواست کی کہ خدا کا نام پاک مانا جائے یا پاک ثابت ہو۔‏ یہوواہ خدا کے نام کا تعلق اُس کی ذات اور اُس کی عظمت سے ہے۔‏ یسوع مسیح نے یہوواہ کو ”‏مُقدس باپ“‏ بھی کہا۔‏ (‏یوحنا 17:‏11‏)‏ چونکہ یہوواہ خدا مُقدس یعنی پاک ہے اِس لیے اُس کے تمام حکم اور معیار بھی پاک ہیں۔‏ لیکن باغِ‌عدن میں شیطان نے بڑی چالاکی سے اِس بات پر شک ڈالا کہ خدا اِنسانوں کے لیے معیار قائم کرنے کا حق رکھتا ہے۔‏ اُس نے یہوواہ خدا کے بارے میں جھوٹ بولا اور اُس کی بدنامی کی۔‏—‏پیدایش 3:‏1-‏5‏۔‏

4.‏ یسوع مسیح نے کیا کِیا تاکہ خدا کا نام پاک مانا جائے؟‏

4 شیطان کے برعکس یسوع مسیح دل سے خدا کے نام سے محبت کرتے تھے۔‏ (‏یوحنا 17:‏25،‏ 26‏)‏ اُنہوں نے اپنی باتوں سے ظاہر کِیا کہ وہ خدا کے نام کو پاک مانتے ہیں۔‏ ‏(‏زبور 40:‏8-‏10 کو پڑھیں۔‏)‏ اُنہوں نے اپنے نیک چال‌چلن سے ثابت کِیا کہ یہوواہ خدا کے معیاروں پر پورا اُترنے میں اُس کے خادموں کی بھلا‌ئی ہے۔‏ یسوع مسیح اُس وقت بھی اپنے آسمانی باپ کے وفادار رہے جب اُن پر تشدد کِیا گیا اور اُنہیں بڑی بےرحمی سے مار ڈالا گیا۔‏ یوں اُنہوں نے یہ بھی ثابت کِیا کہ ایک بےعیب اِنسان خدا کے معیاروں پر مکمل طور پر پورا اُتر سکتا ہے۔‏

5.‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ خدا کا نام پاک مانا جائے؟‏

5 ہم بھی اپنے چال‌چلن سے خدا کے نام کے لیے محبت ظاہر کر سکتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم پاک ہوں۔‏ ‏(‏1-‏پطرس 1:‏15،‏ 16 کو پڑھیں۔‏)‏ پاک ہونے کا مطلب ہے کہ ہم صرف اُسی کی عبادت کریں اور دل سے اُس کے حکموں پر عمل کریں۔‏ ہم اُس وقت بھی یہوواہ کے معیاروں پر قائم رہنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں جب ہمیں اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔‏ خدا کے معیاروں کے مطابق زندگی گزارنے سے ہم اُس کے نام کی بڑائی کرتے ہیں۔‏ (‏متی 5:‏14-‏16‏)‏ خدا کے پاک حکموں پر عمل کرنے سے ہم یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ یہ حکم ہماری بھلا‌ئی کے لیے ہیں اور شیطان کے دعوے جھوٹے ہیں۔‏ اور اگر کبھی ہم سے گُناہ ہو جائے تو ہم دل سے توبہ کرتے ہیں اور ہر اُس کام سے گریز کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں جس سے خدا کی بدنامی ہو۔‏—‏زبور 79:‏9‏۔‏

6.‏ یہوواہ خدا عیب‌دار اِنسانوں کو نیک کیوں خیال کر سکتا ہے؟‏

6 یہوواہ خدا اُن لوگوں کے گُناہوں کو معاف کرتا ہے جو یسوع مسیح کی قربانی پر ایمان ظاہر کرتے ہیں۔‏ وہ اُن سب کو اپنے بندوں کے طور پر قبول کرتا ہے جو خود کو اُس کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا مسح‌شُدہ مسیحیوں کو نیک قرار دے کر اُنہیں اپنے بیٹوں کے طور پر قبول کرتا ہے اور یسوع مسیح کی ’‏اَور بھی بھیڑوں‘‏ کو نیک قرار دے کر اُنہیں اپنے دوستوں کے طور پر قبول کرتا ہے۔‏ (‏یوحنا 10:‏16؛‏ رومیوں 5:‏1،‏ 2؛‏ یعقوب 2:‏21-‏25‏)‏ لہٰذا فدیے کی بدولت ہم عیب‌دار ہونے کے باوجود خدا کی نظر میں نیک ٹھہر سکتے ہیں اور اُس کے نام کو پاک ثابت کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔‏

‏”‏تیری بادشاہت آئے“‏

7.‏ فدیے کی بدولت اِنسانوں کو بادشاہت کی حکمرانی کے دوران کون سی برکتیں ملیں گی؟‏

7 دُعا کے نمونے میں دوسری درخواست یہ تھی:‏ ”‏تیری بادشاہت آئے۔‏“‏ لیکن خدا کی بادشاہت اور فدیے کا آپس میں کیا تعلق ہے؟‏ خدا کی بادشاہت یسوع مسیح اور زمین سے چُنے گئے 1 لاکھ 44 ہزار اِنسانوں پر مشتمل ہے۔‏ فدیے کی بدولت ہی اِن اِنسانوں کو آسمان پر یسوع مسیح کے ساتھ بادشاہوں اور کاہنوں کے طور پر خدمت کرنے کا شرف مل سکتا ہے۔‏ (‏مکا‌شفہ 5:‏9،‏ 10؛‏ 14:‏1‏)‏ یسوع مسیح اور اُن کے ساتھی 1000 سال تک زمین کے باشندوں پر حکمرانی کریں گے۔‏ اُس دوران زمین فردوس بن جائے گی اور اِنسان گُناہ اور عیب سے پاک ہو جائیں گے۔‏ پھر آسمان اور زمین پر خدا کے تمام خادم پوری طرح متحد ہو جائیں گے۔‏ (‏مکا‌شفہ 5:‏13؛‏ 20:‏6‏)‏ یسوع مسیح شیطان کے سر کو کچلیں گے اور اُس کی حکمرانی کے تمام بُرے اثرات کو مٹا دیں گے۔‏—‏پیدایش 3:‏15‏۔‏

8.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں پر بادشاہت کی اہمیت کیسے اُجاگر کی؟‏ (‏ب)‏ ہم خدا کی بادشاہت کی حمایت کیسے کرتے ہیں؟‏

8 یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں پر بادشاہت کی اہمیت کیسے اُجا گر کی؟‏ اُنہوں نے بپتسمہ لینے کے فوراً بعد ”‏خدا کی بادشاہت کی خوش‌خبری“‏ سنانا شروع کر دی۔‏ (‏لُوقا 4:‏43‏)‏ اُنہوں نے اپنے شاگردوں کو بھی یہ حکم دیا کہ وہ ”‏زمین کی اِنتہا تک“‏ اُن کے بارے میں گواہی دیں۔‏ (‏اعمال 1:‏6-‏8‏)‏ آج بھی بادشاہت کی مُنادی پوری دُنیا میں کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو فدیے کے بارے میں جاننے اور خدا کی بادشاہت کی رعایا بننے کا موقع ملتا ہے۔‏ اِس کام میں مسیح کے بھائیوں کا ہاتھ بٹانے سے ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم بھی خدا کی بادشاہت کی حمایت کرتے ہیں۔‏—‏متی 24:‏14؛‏ 25:‏40‏۔‏

‏”‏تیری مرضی .‏ .‏ .‏ ہو“‏

9.‏ ہم اِس بات پر پکا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ خدا اِنسانوں کے لیے اپنا مقصد ضرور پورا کرے گا؟‏

9 دُعا کے نمونے میں تیسری درخواست یہ تھی:‏ ”‏تیری مرضی جیسے آسمان پر ہو رہی ہے ویسے ہی زمین پر بھی ہو۔‏“‏ یہوواہ خدا خالق ہے۔‏ جب وہ ایک کام کا اِرادہ کر لیتا ہے تو وہ اِسے ضرور پورا کرتا ہے۔‏ (‏یسعیاہ 55:‏11‏)‏ اُس نے شیطان کی بغاوت کی وجہ سے اپنے اِرادے ترک نہیں کیے۔‏ خدا کی مرضی یہ تھی کہ زمین آدم اور حوا کی بےعیب اولاد سے بھر جائے۔‏ (‏پیدایش 1:‏28‏)‏ اگر آدم اور حوا بےاولاد مر جاتے تو خدا کا وہ مقصد پورا نہ ہوتا کہ اُن ہی کی اولاد سے زمین بھر جائے۔‏ اِس لیے جب آدم اور حوا نے گُناہ کِیا تو خدا نے اُنہیں کچھ عرصے کے لیے زندہ رہنے دیا تاکہ اُن کے بچے ہو سکیں۔‏ آدم کی اولاد میں سے جتنے لوگ فدیے پر ایمان ظاہر کرتے ہیں،‏ خدا اُنہیں بےعیب بننے اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا موقع دے گا۔‏ یہوواہ خدا کو اِنسانوں سے محبت ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اِنسان ہمیشہ تک خوب‌صورت زندگی کا لطف اُٹھائیں۔‏

10.‏ فدیے کی بدولت اُن لوگوں کو کیا موقع ملے گا جو فوت ہو گئے ہیں؟‏

10 لیکن اُن اربوں لوگوں کا کیا بنے گا جو یہوواہ خدا کو جاننے سے پہلے فوت ہو گئے؟‏ فدیے کی بدولت اِن کو زندہ کِیا جائے گا۔‏ یوں اُنہیں یہوواہ خدا کے بارے میں سیکھنے اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔‏ (‏اعمال 24:‏15‏)‏ یہوواہ زندگی کا سرچشمہ ہے۔‏ جب وہ کسی کو زندہ کرتا ہے تو وہ اُس کا باپ بن جاتا ہے۔‏ (‏زبور 36:‏9‏)‏ اِسی لیے تو دُعا کے نمونے میں یسوع مسیح نے ہمیں یہوواہ خدا کو یوں مخاطب کرنے کو کہا:‏ ”‏اَے آسمانی باپ!‏“‏ (‏متی 6:‏9‏)‏ یہوواہ خدا نے مُردوں کو زندہ کرنے کی ذمےداری یسوع مسیح کو سونپی ہے۔‏ اِس لیے یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏مَیں وہ ہوں جو زندہ کرتا ہوں اور زندگی دیتا ہوں۔‏“‏—‏یوحنا 6:‏40،‏ 44؛‏ 11:‏25‏۔‏

11.‏ ‏”‏بڑی بِھیڑ“‏ کے سلسلے میں خدا کی مرضی کیا ہے؟‏

11 یہوواہ خدا کی عبادت کرنے کی دعوت صرف چند ہی خاص لوگوں کو نہیں دی گئی۔‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏جو بھی خدا کی مرضی پر چلتا ہے،‏ وہی میرا بھائی،‏ میری بہن اور میری ماں ہے۔‏“‏ (‏مرقس 3:‏35‏)‏ خدا کی مرضی ہے کہ سب قوموں،‏ قبیلوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اُس کی عبادت کریں۔‏ بائبل میں اِن لوگوں کو ”‏ایک بڑی بِھیڑ“‏ کہا گیا ہے ”‏جسے کوئی گن نہیں سکتا۔‏“‏ چونکہ یہ لوگ فدیے پر ایمان ظاہر کرتے ہیں اور خدا کے حکموں پر عمل کرتے ہیں اِس لیے وہ کہہ سکیں گے کہ ”‏ہم اپنی نجات کے لیے اپنے خدا کے احسان‌مند ہیں جو تخت پر بیٹھا ہے اور میمنے کے بھی۔‏“‏—‏مکا‌شفہ 7:‏9،‏ 10‏۔‏

12.‏ ہم دُعا کے نمونے سے خدا کے مقصد کے بارے میں کیا سیکھتے ہیں؟‏

12 جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے،‏ دُعا کے نمونے میں ایسے معاملوں کا ذکر ہوا ہے جن کا خدا کے مقصد سے گہرا تعلق ہے۔‏ پہلی درخواست کے مطابق ہمیں اپنے چال‌چلن سے خدا کے نام کو پاک ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔‏ (‏یسعیاہ 8:‏13‏)‏ یسوع مسیح کے نام کا مطلب ہے:‏ ”‏یہوواہ نجات ہے“‏ اور جب ہمیں اُن کی قربانی کی بدولت نجات ملے گی تو یہوواہ خدا کے نام کی بڑائی ہوگی۔‏ دوسری درخواست سے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ خدا اپنی بادشاہت کے ذریعے ہمیں وہ تمام برکتیں دے گا جو فدیے کی وجہ سے ممکن ہوئیں۔‏ تیسری درخواست سے ہمیں یہ یقین دِلایا جاتا ہے کہ خدا کی مرضی ضرور ہوگی اور کوئی بھی اِسے روک نہیں سکے گا۔‏—‏زبور 135:‏6؛‏ یسعیاہ 46:‏9،‏ 10‏۔‏

فدیے کی قدر کریں

13.‏ ہم بپتسمہ کیوں لیتے ہیں؟‏

13 جو لوگ فدیے کی قدر کرتے ہیں،‏ وہ اپنی زندگی یہوواہ کے لیے وقف کر دیتے ہیں اور بپتسمہ لیتے ہیں۔‏ بپتسمہ لینے سے وہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ”‏یہوواہ کے ہیں“‏ اور فدیے پر ایمان رکھتے ہیں۔‏ (‏رومیوں 14:‏8‏)‏ جب ایک شخص بپتسمہ لیتا ہے تو وہ ”‏خدا سے اچھے ضمیر کی درخواست“‏ کرتا ہے۔‏ (‏1-‏پطرس 3:‏21‏)‏ یہوواہ خدا اِس درخواست کو قبول کرتا ہے اور اپنے بیٹے کے بہائے گئے خون کی بِنا پر اُس شخص کے گُناہ معاف کرتا ہے۔‏ ہم اِس بات پر پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمیں وہ ساری چیزیں دے گا جن کا اُس نے وعدہ کِیا ہے۔‏—‏رومیوں 8:‏32‏۔‏

ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم فدیے کی قدر کرتے ہیں؟‏ (‏پیراگراف 13،‏ 14 کو دیکھیں۔‏)‏

14.‏ پڑوسی سے محبت کرنے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟‏

14 ہم اَور کس طرح سے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم فدیے کی قدر کرتے ہیں؟‏ یہوواہ خدا جو کچھ کرتا ہے،‏ محبت کی بِنا پر کرتا ہے۔‏ اِس لیے وہ چاہتا ہے کہ اُس کے تمام بندے دوسروں کے لیے محبت ظاہر کریں۔‏ (‏1-‏یوحنا 4:‏8-‏11‏)‏ جب ہم اپنے پڑوسی سے محبت کرتے ہیں تو ہم ثابت کرتے ہیں کہ ہم ”‏اپنے آسمانی باپ کے بیٹے“‏ بننا چاہتے ہیں۔‏ (‏متی 5:‏43-‏48‏)‏ یہوواہ سے محبت کرنے کے حکم کے بعد پڑوسی سے محبت کرنے کا حکم سب سے بڑا ہے۔‏ (‏متی 22:‏37-‏40‏)‏ پڑوسی سے محبت ظاہر کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو خدا کی بادشاہت کی خوش‌خبری سنائیں۔‏ اگر ہم اپنے پڑوسی اور خاص طور پر اپنے مسیحی بہن بھائیوں سے محبت کرنے کے حکم پر عمل کریں گے تو ہم یہوواہ کی ’‏محبت مکمل طور پر ظاہر کریں گے۔‏‘‏—‏1-‏یوحنا 4:‏12،‏ 20‏۔‏

فدیے کے دائمی فائدے

15.‏ ‏(‏الف)‏ فدیے کی بِنا پر اِنسانوں کو ابھی کون سے فائدے ہو رہے ہیں؟‏ (‏ب)‏ فدیے کی بِنا پر اِنسانوں کو مستقبل میں کون سے فائدے ہوں گے؟‏

15 جو لوگ یسوع مسیح کی قربانی پر ایمان لاتے ہیں،‏ یہوواہ خدا اُن کے گُناہوں کو مٹا دیتا ہے یعنی اُنہیں مکمل طور پر معاف کر دیتا ہے۔‏ ‏(‏اعمال 3:‏19-‏21 کو پڑھیں۔‏)‏ جیسا کہ ہم دیکھ چُکے ہیں،‏ فدیے کی بِنا پر یہوواہ خدا مسح‌شُدہ مسیحیوں کو گود لیتا ہے۔‏ (‏رومیوں 8:‏15-‏17‏)‏ جہاں تک مسیح کی ’‏اَور بھی بھیڑوں‘‏ کا تعلق ہے،‏ یہوواہ نے اُنہیں گود لینے کے لیے ایک طرح سے کاغذات تیار کر لیے ہیں۔‏ لیکن وہ اِن پر اُس وقت دستخط کرے گا جب یہ لوگ بےعیب بن جائیں گے اور آخری اِمتحان میں اُس کے وفادار ثابت ہوں گے۔‏ پھر یہ لوگ بھی اُس کے بیٹے بیٹیاں بن جائیں گے۔‏ (‏رومیوں 8:‏20،‏ 21؛‏ مکا‌شفہ 20:‏7-‏9‏)‏ یہوواہ اپنے بچوں سے ہمیشہ تک پیار کرے گا اور فدیے کے فائدے بھی ہمیشہ تک رہیں گے۔‏ (‏عبرانیوں 9:‏12‏)‏ کوئی بھی اِس اچھی نعمت کو ہم سے چھین نہیں سکتا۔‏

16.‏ یسوع مسیح کی قربانی کی وجہ سے ہم کس مفہوم میں آزاد ہو گئے ہیں؟‏

16 شیطان اُن لوگوں کو خدا کے خاندان کا حصہ بننے سے نہیں روک سکتا جو دل سے اپنے گُناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔‏ یسوع مسیح نے ”‏ایک ہی بار“‏ جان دی اور ہمارے لیے ہمیشہ کے لیے فدیہ ادا کِیا۔‏ (‏عبرانیوں 9:‏24-‏26‏)‏ آدم کی وجہ سے اِنسانوں کو گُناہ اور موت کا ورثہ ملا لیکن یسوع مسیح کی قربانی کی وجہ سے ہمیں ہمیشہ کی زندگی ملے گی۔‏ اِس قربانی کی بدولت ہم شیطان کی دُنیا اور موت کے ڈر کی غلا‌می سے آزاد ہو گئے ہیں۔‏—‏عبرانیوں 2:‏14،‏ 15‏۔‏

17.‏ آپ یہوواہ کی محبت کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں؟‏

17 ہم اِس بات پر پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ خدا کے وعدے پورے ہوں گے۔‏ جس طرح قدرتی قوانین لاتبدیل ہیں اِسی طرح یہوواہ خدا بھی لاتبدیل ہے۔‏ وہ ہمیں کبھی مایوس نہیں کرے گا۔‏ (‏ملا‌کی 3:‏6‏)‏ لیکن یہوواہ نے ہمیں صرف زندگی کی نعمت نہیں دی بلکہ وہ ہمیں اپنی محبت سے بھی سرشار کرتا ہے۔‏ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏ہم جان گئے ہیں کہ خدا ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اِس بات پر یقین بھی رکھتے ہیں۔‏ خدا محبت ہے۔‏“‏ (‏1-‏یوحنا 4:‏16‏)‏ بہت جلد یہ زمین ایک فردوس بن جائے گی اور تمام اِنسان یہوواہ کی مثال پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے سے محبت کریں گے۔‏ اُس وقت آسمان اور زمین پر خدا کے تمام خادم مل کر خدا کی حمد کریں گے اور کہیں گے:‏ ”‏ہمارے خدا کی بڑائی اور عظمت اور دانش‌مندی اور شکرگزاری اور عزت اور طاقت اور قوت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہو۔‏ آمین۔‏“‏—‏مکا‌شفہ 7:‏12‏۔‏