ایمان اور فرمانبرداری کے سلسلے میں نوح، دانیایل اور ایوب کی مثال پر عمل کریں
”نؔوح اور دانؔیایل اور اؔیوب . . . اپنی صداقت سے فقط اپنی ہی جان بچائیں گے۔“—حِزقیایل 14:14۔
1، 2. (الف) ہمیں نوح، دانیایل اور ایوب کی مثالوں پر غور کرنے سے حوصلہ کیوں مل سکتا ہے؟ (ب) جب حِزقیایل نے حِزقیایل 14:14 کو تحریر کِیا تو اُس وقت خدا کے بندوں کی صورتحال کیسی تھی؟
کیا آپ بیماری، مالی مسائل یا اذیت جیسی مشکلات سے دوچار ہیں؟ کیا کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو خدا کی خدمت کرنے سے خوشی نہیں ملتی؟ اگر آپ ایسا محسوس کرتے ہیں تو نوح، دانیایل اور ایوب کی مثال پر غور کرنے سے آپ کو بہت حوصلہ مل سکتا ہے۔ خدا کے یہ بندے عیبدار تھے اور ویسی ہی مشکلات میں گِھرے ہوئے تھے جن کا آج ہمیں سامنا ہے۔ کبھی کبھار تو اُن کی جان بھی خطرے میں پڑ گئی۔ لیکن وہ یہوواہ کے وفادار رہے اور اِسی وجہ سے یہوواہ اُنہیں ایمان اور فرمانبرداری کی عمدہ مثال خیال کرتا ہے۔—حِزقیایل 14:12-14 کو پڑھیں۔
2 حِزقیایل نے اِس مضمون کی مرکزی آیت 612 قبلازمسیح میں ملک بابل میں نہرِکبار کے کنارے تحریر * (حِزقیایل 1:1؛ 8:1) اِس کے کچھ سال بعد یعنی 607 قبلازمسیح میں یروشلیم کو تباہ کر دیا گیا۔ یروشلیم میں صرف کچھ لوگوں نے ہی نوح، دانیایل اور ایوب کی طرح خدا پر مضبوط ایمان رکھا اور اُس کی فرمانبرداری کی۔ اور یہی لوگ یروشلیم کی تباہی سے بچنے کے لائق ٹھہرے۔ (حِزقیایل 9:1-5) یرمیاہ، باروک، عبدملک اور ریکابی اُن میں سے چند ایک تھے۔
کی۔3. اِس مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟
3 آج بھی صرف وہی لوگ اِس بُری دُنیا کی تباہی سے بچ پائیں گے جنہیں یہوواہ خدا نوح، دانیایل اور ایوب کی طرح صادق اور نیک خیال کرتا ہے۔ (مکاشفہ 7:9، 14) لہٰذا آئیں، اِس بات پر غور کریں کہ یہوواہ نے اپنے اِن بندوں کا حوالہ صداقت کی مثالوں کے طور پر کیوں دیا۔ ہم دیکھیں گے کہ (1) اُن میں سے ہر ایک کو کن مشکلات کا سامنا تھا اور (2) ہم ایمان اور فرمانبرداری کے سلسلے میں اُن کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔
نوح 900 سے زیادہ سال تک خدا کے فرمانبردار رہے
4، 5. (الف) نوح کو کن مشکلات کا سامنا تھا؟ (ب) نوح کی مثال اِتنی شاندار کیوں ہے؟
4 نوح کو کن مشکلات کا سامنا تھا؟ نوح کے پڑدادا حنوک کے زمانے میں لوگ بہت سے بُرے کام کرتے تھے۔ وہ تو یہوواہ کے خلاف ”بےہودہ باتیں“ بھی بکتے تھے۔ (یہوداہ 14، 15) زمین پر ظلموتشدد بڑھتا جا رہا تھا اور نوح کے زمانے تک زمین ’ظلم سے بھر چُکی تھی۔‘ بُرے فرشتے زمین پر آ گئے تھے، اُنہوں نے اِنسانی جسم اپنا لیے تھے اور عورتوں سے شادی کر لی تھی۔ پھر اُن عورتوں نے ایسے بیٹوں کو جنم دیا جو ظالم اور وحشی تھے۔ (پیدایش 6:2-4، 11، 12) لیکن یہ بات کسی کی نظر سے چھپی نہیں تھی کہ نوح اُن سب لوگوں سے فرق ہیں۔ بائبل میں لکھا ہے کہ ”نوؔح [یہوواہ] کی نظر میں مقبول ہوا۔“ اپنے زمانے کے لوگوں کے برعکس نوح نے صحیح کام کیے۔ وہ ’خدا کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔‘—پیدایش 6:8، 9۔
5 اِن الفاظ پر غور کرنے سے ہمیں نوح کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟ نوح طوفان سے پہلے ایک لمبے عرصے تک وفاداری سے خدا کی خدمت کرتے رہے۔ اُنہوں نے ایسا کوئی 70 یا 80 سال تک نہیں بلکہ تقریباً 600 سال تک کِیا۔ (پیدایش 7:11) اِس کے علاوہ نوح کے زمانے میں ہمارے زمانے کی طرح خدا کے بندوں کی کوئی کلیسیا نہیں تھی جس سے وہ مدد اور حوصلہافزائی حاصل کر سکتے۔ ایسا لگتا ہے کہ نوح کے بہن بھائیوں نے بھی اُن کی حمایت نہیں کی تھی۔ *
6. نوح نے دلیری کا مظاہرہ کیسے کِیا؟
6 نوح نے یہ نہیں سوچا کہ محض ایک اچھا اِنسان ہونا کافی ہے۔ اُنہوں نے دلیری سے دوسروں کو یہوواہ خدا پر اپنے ایمان کے بارے میں گواہی دی۔ بائبل میں لکھا ہے کہ نوح ”نیکی کی مُنادی کرتے تھے۔“ (2-پطرس 2:5) پولُس رسول نے نوح کے بارے میں کہا: ”اِسی ایمان کے ذریعے اُنہوں نے دُنیا کو قصوروار ٹھہرایا۔“ (عبرانیوں 11:7) بِلاشُبہ لوگوں نے نوح کی ہنسی اُڑائی ہوگی اور اُنہیں روکنے کی کوشش کی ہوگی۔ ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے نوح کو مارنے پیٹنے کی دھمکی بھی دی ہو۔ لیکن نوح لوگوں سے ڈرے نہیں۔ (امثال 29:25) وہ یہوواہ خدا پر ایمان رکھتے تھے اِس لیے اُس نے اُنہیں دلیری بخشی۔ یہوواہ آج بھی اپنے بندوں کو ایسی ہی دلیری عطا کرتا ہے۔
7. جب نوح نے کشتی بنائی تو اُنہیں کون سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
7 جب نوح کو وفاداری سے یہوواہ خدا کی خدمت کرتے ہوئے پیدایش 5:32؛ 6:14) اِتنی بڑی کشتی بنانا نوح کو کافی مشکل لگا ہوگا۔ وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ جب وہ اِسے بنائیں گے تو لوگ اُن کا اَور زیادہ مذاق اُڑانے لگیں گے اور اُن کا جینا دوبھر کر دیں گے۔ لیکن نوح نے خدا پر ایمان رکھا اور اُس کی فرمانبرداری کی۔ ”نوؔح نے . . . جیسا خدا نے اُسے حکم دیا تھا ویسا ہی عمل کِیا۔“—پیدایش 6:22۔
500 سال سے زیادہ عرصہ ہو چُکا تھا تو خدا نے اُنہیں ایک بڑی کشتی بنانے کا حکم دیا۔ اِس کشتی کے ذریعے خدا نے اِنسانوں اور جانوروں کو بچانا تھا۔ (8. نوح نے اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرنے کے حوالے سے خدا پر بھروسا کیسے ظاہر کِیا؟
8 نوح کے سامنے ایک اَور مشکل بھی تھی۔ اُنہیں اپنے بیوی بچوں کی ضروریات پوری کرنی تھیں۔ طوفان سے پہلے لوگوں کو اناج اُگانے کے لیے بڑی محنتمشقت کرنی پڑتی تھی۔ نوح کو بھی ایسا کرنا پڑا۔ (پیدایش 5:28، 29) لیکن نوح کا سارا دھیان اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کرنے پر نہیں تھا۔ اُن کی نظر میں یہوواہ کی مرضی پر عمل کرنا سب سے اہم تھا۔ حالانکہ نوح شاید 40 سے 50 سال تک کشتی بنانے میں مصروف رہے لیکن اِس عرصے کے دوران بھی اُن کی توجہ یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی مضبوط کرنے پر رہی۔ اور وہ طوفان کے بعد بھی 350 سال تک وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرتے رہے۔ (پیدایش 9:28) نوح کا ایمان اور فرمانبرداری واقعی مثالی تھی!
9، 10. (الف) ہم ایمان اور فرمانبرداری کے سلسلے میں نوح کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ (ب) اگر آپ نے خدا کے حکموں پر عمل کرنے کا عزم کر رکھا ہے تو آپ کس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں؟
9 ہم ایمان اور فرمانبرداری کے سلسلے میں نوح کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ ہم یہوواہ کے نیک معیاروں پر چلنے، شیطان کی دُنیا کا حصہ نہ بننے اور یہوواہ کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دینے سے ایسا کر سکتے ہیں۔ (متی 6:33؛ یوحنا 15:19) اِن باتوں کی وجہ سے دُنیا ہم سے نفرت کرتی ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم جنسی تعلقات اور شادی کے بارے میں خدا کے حکموں پر ڈٹے رہتے ہیں تو ٹیوی اور اخباروں وغیرہ میں ہمیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ (ملاکی 3:17، 18 کو پڑھیں۔) لیکن نوح کی طرح ہم بھی لوگوں سے ڈرتے نہیں۔ ہم صرف یہوواہ کا خوف مانتے ہیں یعنی دل سے اُس کا احترام کرتے ہیں اور اُسے ناخوش نہیں کرنا چاہتے۔ ہم جانتے ہیں کہ صرف وہی ہمیں ہمیشہ کی زندگی دے سکتا ہے۔—لُوقا 12:4، 5۔
10 خود سے پوچھیں: ”کیا مَیں تب بھی خدا کی مرضی پر چلتا رہوں گا جب دوسرے میرا مذاق اُڑائیں گے یا میری نکتہچینی کریں گے؟ کیا مَیں اِس بات پر بھروسا رکھتا ہوں کہ یہوواہ اُس صورت میں بھی میرے خاندان کی ضروریات پوری کرے گا جب معاشی حالات خراب ہوں گے؟“ اگر آپ نوح کی طرح یہوواہ پر بھروسا رکھتے ہیں اور اُس کی فرمانبرداری کرتے ہیں تو آپ یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ آپ کو سنبھالے گا۔—فِلپّیوں 4:6، 7۔
دانیایل ایک بُرے شہر میں خدا کے فرمانبردار رہے
11. دانیایل اور اُن کے تین دوستوں کو بابل میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
11 دانیایل کو کن مشکلات کا سامنا تھا؟ دانیایل ایک بیگانے شہر یعنی بابل میں اسیر تھے جہاں جھوٹے معبودوں کی پرستش اور جادوگری عام تھی۔ بابلی لوگ یہودیوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ اُن کا مذاق اُڑاتے تھے اور اُن کے خدا کی توہین کرتے تھے۔ (زبور 137:1، 3) اِس سے دانیایل اور دوسرے یہودیوں کا دل بہت دُکھتا ہوگا جو یہوواہ سے پیار کرتے تھے۔ اِس کے علاوہ دانیایل اور اُن کے تین دوست حننیاہ، میساایل اور عزریاہ بہت سے لوگوں کی نظروں میں تھے کیونکہ اُنہیں بادشاہ کے لیے کام کرنے کی تربیت دی جانی تھی۔ اُن کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ شاہی خوراک کھائیں جس میں ایسی چیزیں بھی شامل تھیں جو یہوواہ نے اپنے بندوں کو کھانے سے منع کِیا تھا۔ لیکن دانیایل نے ”اپنے آپ کو شاہی خوراک سے . . . ناپاک“ نہیں کِیا۔—دانیایل 1:5-8، 14-17۔
12. (الف) دانیایل میں کون سی خوبی تھی؟ (ب) یہوواہ دانیایل کو کیسا خیال کرتا تھا؟
12 یہوواہ کے ساتھ دانیایل کی دوستی ایک اَور وجہ سے بھی کمزور پڑ سکتی تھی۔ دانیایل بہت قابل شخص تھے اور اِسی وجہ سے بادشاہ نے اُنہیں خاص عہدے پر فائز کِیا تھا۔ (دانیایل 1:19، 20) لیکن اِختیار حاصل کرنے کے بعد دانیایل مغرور نہیں بنے اور نہ ہی یہ سوچا کہ اُن کی رائے ہمیشہ صحیح ہوتی ہے۔ اِس کی بجائے وہ خاکسار رہے اور اپنی کامیابی کا سہرا یہوواہ کے سر باندھا۔ (دانیایل 2:30) ذرا سوچیں کہ یہوواہ نے نوح اور ایوب کے ساتھ ساتھ دانیایل کا حوالہ بھی ایک مثالی شخص کے طور پر دیا۔ نوح اور ایوب تو عمر بھر وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کر چُکے تھے لیکن دانیایل اُس وقت نوجوان ہی تھے۔ بِلاشُبہ یہوواہ کو دانیایل کی وفاداری پر اِعتماد تھا۔ اور دانیایل نے بھی یہوواہ کو مایوس نہیں کِیا بلکہ زندگی بھر اُس کے فرمانبردار رہے اور اُس پر ایمان ظاہر کرتے رہے۔ جب دانیایل کی عمر 100 سال کے لگ بھگ تھی تو خدا کا فرشتہ اُن کے پاس آیا اور اُنہیں ”عزیز مرد“ کہہ کر مخاطب کِیا۔—دانیایل 10:11۔
13. وہ کون سی خاص وجہ ہو سکتی ہے جس کی بِنا پر یہوواہ نے دانیایل کو اعلیٰ عہدے پر فائز کروایا تھا؟
13 چونکہ یہوواہ دانیایل کے ساتھ تھا اِس لیے دانیایل پہلے بابلی حکومت اور پھر مادی اور فارس کی حکومت میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے۔ (دانیایل 1:21؛ 6:1، 2) شاید یہوواہ نے دانیایل کو اُونچے عہدے پر اِس لیے فائز کروایا تاکہ وہ اُس کے بندوں کی مدد کر سکیں جیسے یوسف نے مصر میں اور آستر اور مردکی نے فارس میں کی تھی۔ * (دانیایل 2:48) ذرا تصور کریں کہ جب حِزقیایل اور دیگر اسیر یہودیوں نے یہ دیکھا ہوگا کہ یہوواہ کیسے دانیایل کے ذریعے اُن کی مدد کر رہا ہے تو اُن کا حوصلہ کتنا بڑھا ہوگا!
جب ہم یہوواہ کے وفادار رہتے ہیں تو وہ ہمیں عزیز خیال کرتا ہے۔ (پیراگراف 14، 15 کو دیکھیں۔)
14، 15. (الف) ہماری صورتحال دانیایل کی صورتحال جیسی کیسے ہے؟ (ب) آجکل والدین دانیایل کے ماں باپ کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
14 ہم ایمان اور فرمانبرداری کے سلسلے میں دانیایل کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ جس دُنیا میں ہم رہتے ہیں، اُس میں حرامکاری اور جھوٹے معبودوں کی پرستش عام ہے۔ لوگوں پر جھوٹے مذہب کا بڑا اثر مکاشفہ 18:2) لیکن جس طرح دانیایل بابل میں پردیسی تھے اُسی طرح ہم بھی اِس دُنیا میں پردیسی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دُنیا کے لوگوں سے فرق نظر آتے ہیں اور اِسی لیے بعض ہمارا مذاق اُڑاتے ہیں۔ (مرقس 13:13) مگر آئیں، یہ عزم کریں کہ ہم بھی دانیایل کی طرح یہوواہ کی قربت میں رہیں گے۔ اگر ہم خاکساری ظاہر کریں گے، یہوواہ پر بھروسا رکھیں گے اور اُس کی فرمانبرداری کریں گے تو وہ ہمیں بھی عزیز خیال کرے گا۔—حجی 2:7۔
ہے جسے بائبل میں بابلِعظیم کہا گیا ہے اور جس میں ”بُرے فرشتے رہتے ہیں۔“ (15 آجکل والدین دانیایل کے ماں باپ کی مثال سے اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔ جب دانیایل ملک یہوداہ میں تھے اور ابھی چھوٹے ہی تھے تو اُن کے اِردگِرد رہنے والے زیادہتر لوگ بُرے کاموں میں پڑے ہوئے تھے۔ لیکن دانیایل کے دل میں یہوواہ کے لیے محبت بڑھتی رہی۔ کیا یہ محبت خودبخود جاگ اُٹھی تھی؟ جی نہیں۔ اُن کے والدین نے ضرور اُنہیں یہوواہ کے بارے میں سکھایا ہوگا۔ (امثال 22:6) دانیایل کے نام کا مطلب ہے: ”خدا میرا منصف ہے۔“ اور اِس نام سے بھی ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کے والدین یہوواہ سے پیار کرتے تھے۔ والدین، آپ بھی اپنے بچوں کو یہوواہ کے بارے میں سکھاتے ہوئے صبر سے کام لیں اور ہمت نہ ہاریں۔ (اِفسیوں 6:4) اپنے بچوں کے ساتھ مل کر دُعا کریں اور اُن کے لیے دُعا کریں۔ جب آپ اپنے بچوں کے دل پر بائبل کی سچائیاں نقش کریں گے تو یہوواہ آپ کو ڈھیروں برکتیں دے گا۔—زبور 37:5۔
ایوب امیری اور غریبی میں خدا کے فرمانبردار رہے
16، 17. ایوب کو اپنی زندگی میں کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
16 ایوب کو کن مشکلات کا سامنا تھا؟ ایوب کی زندگی میں بڑے بڑے اُتارچڑھاؤ آئے۔ ایک وقت تھا جب ایوب ”اہلِمشرق میں . . . سب سے بڑا آدمی تھا۔“ (ایوب 1:3) ایوب بہت امیر تھے اور بہت سے لوگ اُنہیں جانتے تھے اور اُن کی عزت کرتے تھے۔ (ایوب 29:7-16) لیکن اِس کے باوجود اُنہوں نے یہ نہیں سوچا کہ وہ دوسروں سے بہتر ہیں یا اُنہیں خدا کی رہنمائی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ایسا اِس لیے کہہ سکتے ہیں کیونکہ خدا نے ایوب کو ’میرا بندہ‘ کہا اور اُن کے بارے میں فرمایا: ”زمین پر اُس کی طرح کامل اور راستباز آدمی جو خدا سے ڈرتا اور بدی سے دُور رہتا ہو کوئی نہیں۔“—ایوب 1:8۔
17 لیکن پھر اچانک ایوب کی زندگی میں بھونچال آ گیا۔ اُن کا سب کچھ چھن گیا اور وہ اِس حد تک مایوسی میں ڈوب گئے کہ موت کی آرزو کرنے لگے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ ایوب کی مصیبتوں کے پیچھے شیطان کا ہاتھ تھا۔ اُس کا دعویٰ تھا کہ ایوب صرف اپنے فائدے کے لیے یہوواہ کی خدمت کرتے ہیں۔ (ایوب 1:9، 10 کو پڑھیں۔) یہوواہ کے نزدیک یہ بہت اہم تھا کہ شیطان کا یہ دعویٰ جھوٹا ثابت ہو۔ اُس نے شیطان کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کیا کِیا؟ اُس نے ایوب کو یہ موقع دیا کہ وہ اُس کے لیے اپنی وفاداری کو ثابت کریں اور یہ ظاہر کریں کہ وہ محبت کی بِنا پر اُس کی خدمت کرتے ہیں۔
18. (الف) آپ کو ایوب کے بارے میں کون سی بات متاثر کرتی ہے؟ (ب) جس طرح سے یہوواہ ایوب کے ساتھ پیش آیا، اُس سے ہمیں یہوواہ کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟
18 شیطان نے اِتنی آسانی سے ایوب کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ وہ بڑی بےرحمی سے ایوب پر ایک کے بعد ایک مصیبت لایا اور اُنہیں یہ تاثر دیا کہ یہ مصیبتیں خدا کی طرف سے آ رہی ہیں۔ (ایوب 1:13-21) پھر ایوب کے تین جھوٹے دوستوں نے بھی اُن سے تلخ باتیں کہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ایوب نے بُرے کام کیے ہیں اور خدا اُنہیں اِن کاموں کی سزا دے رہا ہے۔ (ایوب 2:11؛ 22:1، 5-10) اِس سب کے باوجود ایوب یہوواہ کے وفادار رہے۔ سچ ہے کہ ایوب نے کبھی کبھار کچھ باتیں بِلا سوچے سمجھے بھی کہیں۔ (ایوب 6:1-3) لیکن یہوواہ یہ جانتا تھا کہ ایوب نے یہ باتیں اِس لیے کہی تھیں کیونکہ وہ دُکھی اور پریشان تھے۔ یہوواہ نے اِس بات پر توجہ دی کہ ایوب نے اُسے کبھی نہیں چھوڑا حالانکہ شیطان ایک وحشی درندے کی طرح اُنہیں نوچنے پر تُلا ہوا تھا اور بار بار اُن پر جھوٹے اِلزام لگا رہا تھا۔ جب ایوب کی مصیبتیں ختم ہو گئیں تو یہوواہ نے اُنہیں اُس سب کا دُگنا عطا کِیا جو اُن کے پاس پہلے تھا اور مزید 140 سال کی زندگی بھی بخشی۔ (یعقوب 5:11) اِس عرصے کے دوران بھی ایوب پورے دل سے خدا کی خدمت کرتے رہے۔ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں؟ کیونکہ ہماری مرکزی آیت یعنی حِزقیایل 14:14 ایوب کی وفات کے سینکڑوں سال بعد لکھی گئی۔
19، 20. (الف) ہم ایمان اور فرمانبرداری کے سلسلے میں ایوب کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ (ب) ہم یہوواہ کی طرح دوسروں کے ساتھ ہمدردی سے کیسے پیش آ سکتے ہیں؟
19 ہم ایمان اور فرمانبرداری کے سلسلے میں ایوب کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ چاہے ہماری زندگی میں جیسے بھی حالات ہوں، ہمیں ہمیشہ یہوواہ کو سب سے زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ ہمیں اُس پر مکمل ایمان اور بھروسا رکھنا چاہیے اور پورے دل سے اُس کے حکموں پر عمل کرنا چاہیے۔ ایوب کے پاس یہوواہ کی فرمانبرداری کرنے کی جتنی وجوہات تھیں، ہمارے پاس ایسا کرنے کی اُس سے بھی زیادہ وجوہات ہیں۔ ذرا سوچیں کہ آج ہم شیطان اور اُس کی چالوں کے بارے میں کتنا کچھ جانتے ہیں جو ایوب نہیں جانتے تھے۔ (2-کُرنتھیوں 2:11) بائبل اور خاص طور پر ایوب کی کتاب سے ہم سیکھ چُکے ہیں کہ خدا ہم پر مصیبتیں کیوں آنے دیتا ہے۔ دانیایل کی پیشگوئی پر غور کرنے سے ہم یہ جان گئے ہیں کہ خدا کی بادشاہت ایک حقیقی حکومت ہے جس کے بادشاہ یسوع مسیح ہیں۔ (دانیایل 7:13، 14) اِس کے علاوہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ بادشاہت بہت جلد پوری زمین پر حکمرانی کرے گی اور ہماری ساری مصیبتوں کا نامونشان مٹا دے گی۔
20 ایوب کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے ہم یہ بھی سیکھتے ہیں کہ ہمیں اُن بہن بھائیوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنا چاہیے جو کسی مصیبت سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایوب کی طرح وہ بھی کچھ باتیں بِلا سوچے سمجھے کہہ دیں۔ (واعظ 7:7) لیکن ہمیں اُن کے بارے میں غلط رائے قائم نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی اُن پر یہ اِلزام لگانا چاہیے کہ اُنہوں نے کوئی بُرا کام کِیا ہے۔ اِس کی بجائے ہمیں اُن کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم اپنے آسمانی باپ یہوواہ کی مثال پر عمل کریں گے جو نہایت رحیم اور شفیق ہے۔—زبور 103:8۔
یہوواہ ”آپ کو طاقت بخشے گا“
21. پہلا پطرس 5:10 میں درج الفاظ ہمیں نوح، دانیایل اور ایوب کی یاد کیوں دِلاتے ہیں؟
21 نوح، دانیایل اور ایوب مختلف دَور میں رہتے تھے اور فرق فرق صورتحال سے گزرے تھے۔ لیکن اُن سب نے اپنی مشکلات کا ثابتقدمی سے مقابلہ کِیا۔ اُن کی مثالوں پر غور کرنے سے ہمارے ذہن میں پطرس کے یہ الفاظ آتے ہیں: ”جب آپ تھوڑی دیر کے لیے تکلیف اُٹھا لیں گے تو خدا جو عظیم رحمت کا مالک ہے . . . وہ آپ کی اچھی طرح تربیت کر لے گا۔ وہ آپ کو مضبوط بنائے گا۔ وہ آپ کو طاقت بخشے گا۔ وہ آپ کو قائم کرے گا۔“—1-پطرس 5:10۔
22. اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟
22 پہلا پطرس 5:10 کے الفاظ ہمارے زمانے میں بھی خدا کے بندوں پر لاگو ہوتے ہیں۔ یہوواہ اپنے بندوں کو یقین دِلاتا ہے کہ وہ اُنہیں مضبوط بنائے گا اور قائم رکھے گا۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ یہوواہ ہمیں طاقت بخشے اور ہم اُس کے وفادار رہیں۔ اِسی لیے ہم ایمان اور فرمانبرداری کے سلسلے میں نوح، دانیایل اور ایوب کی مثال پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ خدا کے یہ بندے اُس پر مضبوط ایمان اِس لیے ظاہر کر پائے کیونکہ وہ اُسے قریب سے جانتے تھے۔ دراصل یہ تینوں وہ ”سب کچھ سمجھتے“ تھے جو یہوواہ اُن سے چاہتا تھا۔ (امثال 28:5) یہ بات آپ کے سلسلے میں بھی سچ ثابت ہو سکتی ہے۔
^ پیراگراف 2 حِزقیایل کو 617 قبلازمسیح میں غلامی میں لے جایا گیا۔ اُنہوں نے حِزقیایل 8:1–19:14 میں درج الفاظ غلامی میں جانے کے ”چھٹے برس“ یعنی 612 قبلازمسیح میں لکھے۔
^ پیراگراف 5 نوح کے والد لمک خدا پر ایمان رکھتے تھے لیکن وہ طوفان سے تقریباً 5 سال پہلے فوت ہو گئے تھے۔ اگر نوح کی ماں یا بہن بھائی اُس وقت زندہ تھے جب طوفان آیا تو وہ اِس میں مر گئے ہوں گے۔
^ پیراگراف 13 ممکن ہے کہ یہوواہ نے حننیاہ، میساایل اور عزریاہ کے سلسلے میں بھی ایسا اِس لیے کِیا ہو تاکہ وہ اُس کے بندوں کی مدد کر سکیں۔—دانیایل 2:49۔