مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

روحانی سوچ رکھنے والے شخص کی پہچان کیا ہے؟‏

روحانی سوچ رکھنے والے شخص کی پہچان کیا ہے؟‏

‏”‏خدا .‏ .‏ .‏ آپ سب کو مسیح یسوع جیسی سوچ عطا کرے۔‏“‏‏—‏رومیوں 15:‏5‏۔‏

گیت:‏ 25،‏  5

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ روحانی سوچ رکھنے کی وجہ سے کچھ بہن بھائیوں کو کون سے فائدے ہوئے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم کن اہم سوالوں کے جواب حاصل کریں گے؟‏

کینیڈا سے تعلق رکھنے والی ایک بہن نے بتایا کہ روحانی سوچ رکھنے کی وجہ سے وہ پہلے سے زیادہ خوش رہتی ہے اور اُسے زندگی کی مشکلات سے نمٹنے میں بھی مدد ملی ہے۔‏ برازیل میں رہنے والا ایک بھائی جس کی شادی کو 23 سال ہو گئے ہیں،‏ کہتا ہے کہ روحانی سوچ رکھنے کی وجہ سے وہ اور اُس کی بیوی اپنی شادی‌شُدہ زندگی کو زیادہ خوش‌گوار بنا پائے ہیں۔‏ فلپائن میں رہنے والا ایک بھائی کہتا ہے کہ روحانی سوچ رکھنے سے اُسے اِطمینان ملا ہے اور وہ فرق فرق پس‌منظر سے تعلق رکھنے والے بہن بھائیوں کے ساتھ صلح صفائی سے رہنے کے قابل ہوا ہے۔‏

2 اِن مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ روحانی سوچ رکھنے سے ہمیں بہت سے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔‏ لہٰذا ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم زندگی کے تمام پہلوؤں میں اَور بہتر طور پر خدا جیسی سوچ اپنا سکیں اور یوں وہ فائدے حاصل کر سکیں جن کا اُوپر ذکر کِیا گیا ہے؟‏ اِس سوال پر غور کرنے سے پہلے ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بائبل میں روحانی سوچ رکھنے والے شخص کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے۔‏ اِس مضمون میں ہم تین اہم سوالوں کے جواب حاصل کریں گے۔‏ (‏1)‏ روحانی سوچ رکھنے والے شخص کی پہچان کیا ہے؟‏ (‏2)‏ کن مثالوں پر غور کرنے سے ہم خدا جیسی سوچ کو اَور بہتر طور پر اپنا پائیں گے؟‏ (‏3)‏ ”‏مسیح کی سوچ“‏ اپنانے سے ہم روحانی سوچ کے مالک کیسے بن سکتے ہیں؟‏

روحانی سوچ رکھنے والے شخص کی پہچان کیا ہے؟‏

3‏.‏ بائبل کے مطابق اِنسانی سوچ رکھنے والے شخص اور روحانی سوچ رکھنے والے شخص میں کیا فرق ہے؟‏

3 پولُس رسول نے واضح طور پر بیان کِیا کہ ”‏روحانی سوچ“‏ رکھنے والے شخص اور ”‏اِنسانی سوچ“‏ رکھنے والے شخص میں کیا فرق ہوتا ہے۔‏ ‏(‏1-‏کُرنتھیوں 2:‏14-‏16 کو پڑھیں۔‏)‏ اِنسانی سوچ کا مالک ”‏اُن باتوں کو قبول نہیں کرتا جو خدا کی روح سے ہیں کیونکہ یہ باتیں اُس کی نظر میں بےوقوفی ہیں۔‏ ایسا شخص اِن باتوں کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔‏“‏ اِس کے برعکس روحانی سوچ کا مالک ”‏سب باتوں کو پرکھتا ہے“‏ اور ”‏مسیح کی سوچ“‏ اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔‏ پولُس رسول نے اپنے خط میں مسیحیوں کی حوصلہ‌افزائی کی کہ وہ روحانی سوچ رکھیں۔‏ اِنسانی سوچ اور روحانی سوچ رکھنے والے لوگ اَور کس لحاظ سے ایک دوسرے سے فرق ہوتے ہیں؟‏

4،‏ 5.‏ ہم اِنسانی سوچ رکھنے والے شخص کو کیسے پہچان سکتے ہیں؟‏

4 ہم اِنسانی سوچ رکھنے والے شخص کو کیسے پہچان سکتے ہیں؟‏ ایسا شخص دُنیا کی سوچ اپنا لیتا ہے جو لوگوں کو اپنی من‌مانی کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔‏ پولُس رسول نے دُنیا کی سوچ کے بارے میں کہا:‏ ”‏یہ روح اب نافرمانی کے بیٹوں پر اثر کر رہی ہے۔‏“‏ (‏اِفسیوں 2:‏2‏)‏ اِس روح یعنی سوچ کی وجہ سے زیادہ‌تر لوگ وہی کام کرنے لگتے ہیں جو وہ اپنے اِردگِرد لوگوں کو کرتے دیکھتے ہیں۔‏ وہ خدا کے معیاروں کو خاطر میں نہیں لاتے اور بس وہ کام کرتے ہیں جو اُنہیں ٹھیک لگتے ہیں۔‏ اِنسانی سوچ رکھنے والے شخص کی نظر میں اُس کا مرتبہ اور مال‌ودولت سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے اور وہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔‏

5 اِس کے علاوہ اِنسانی سوچ رکھنے والا شخص اکثر ایسے کام کرتا ہے جنہیں بائبل میں ”‏جسم کے کام“‏ کہا گیا ہے۔‏ (‏گلتیوں 5:‏19-‏21‏)‏ کُرنتھس کی کلیسیا کے نام اپنے پہلے خط میں پولُس رسول نے کچھ اَور کاموں کا ذکر کِیا جن سے اِنسانی سوچ رکھنے والے لوگوں کی پہچان ہوتی ہے۔‏ ایسے لوگ اِختلافات کی صورت میں طرف‌داری کرتے ہیں؛‏ لوگوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں؛‏ دوسروں کو بغاوت کرنے پر اُکساتے ہیں؛‏ ایک دوسرے کو عدالتوں میں گھسیٹتے ہیں؛‏ کلیسیا میں سربراہی کو تسلیم نہیں کرتے اور کھانے پینے کو زندگی میں بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔‏ جب ایسے لوگوں کو غلط کام کرنے پر اُکسایا جاتا ہے تو وہ فوراً ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔‏ (‏امثال 7:‏21،‏ 22‏)‏ یسوع مسیح کے شاگرد یہوداہ نے اپنے خط میں یہ ظاہر کِیا کہ جو مسیحی اِنسانی سوچ اپنا لیتے ہیں،‏ وہ خدا کی پاک روح سے محروم ہو سکتے ہیں۔‏—‏یہوداہ 18،‏ 19‏۔‏

6.‏ ہم روحانی سوچ رکھنے والے شخص کو کیسے پہچان سکتے ہیں؟‏

6 اِنسانی سوچ رکھنے والے شخص کے برعکس روحانی سوچ رکھنے والا شخص خدا کے ساتھ اپنی دوستی کو بہت عزیز رکھتا ہے۔‏ وہ خدا کی پاک روح کی رہنمائی میں چلنے اور یہوواہ کی مثال پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‏ (‏اِفسیوں 5:‏1‏)‏ اُس کی نظر میں یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ وہ یہوواہ کی سوچ کو جانے اور مختلف معاملات کو اُس کی نظر سے دیکھے۔‏ جو شخص روحانی سوچ کا مالک ہوتا ہے،‏ وہ زندگی کے ہر پہلو میں خدا کے معیاروں کے مطابق چلتا ہے۔‏ (‏زبور 119:‏33؛‏ 143:‏10‏)‏ وہ ”‏جسم کے کام“‏ نہیں کرتا بلکہ اپنے اندر ”‏روح کا پھل“‏ پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔‏—‏گلتیوں 5:‏22،‏ 23‏۔‏

7.‏ بائبل میں روحانی سوچ رکھنے کے کیا فائدے بتائے گئے ہیں؟‏

7 متی 5:‏3 میں یسوع مسیح نے روحانی سوچ رکھنے والے لوگوں کے بارے میں کہا:‏ ”‏وہ لوگ خوش رہتے ہیں جن کو احساس ہے کہ اُنہیں خدا کی رہنمائی کی ضرورت ہے کیونکہ آسمان کی بادشاہت اُن کی ہے۔‏“‏ اِس کے علاوہ رومیوں 8:‏6 میں درج بات سے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ کی سوچ اپنانے کا کیا فائدہ ہوتا ہے۔‏ اِس میں لکھا ہے:‏ ”‏جسمانی چیزوں پر دھیان دینے کا انجام موت ہے لیکن پاک روح پر دھیان دینے کا انجام زندگی اور صلح ہے۔‏“‏ لہٰذا اگر ہم روحانی سوچ رکھیں گے تو خدا کے ساتھ ہماری صلح رہے گی،‏ ہمیں اِطمینان حاصل ہوگا اور ہمیں ہمیشہ کی زندگی کی اُمید بھی ملے گی۔‏

8.‏ ہمارے لیے روحانی سوچ کو پیدا کرنا اور اِسے برقرار رکھنا مشکل کیوں ہو سکتا ہے؟‏

8 ہم ایک بُری دُنیا میں رہتے ہیں جس میں ہر طرف ایسے لوگ ہیں جو یہوواہ جیسی سوچ نہیں رکھتے۔‏ اِس لیے ہمیں اِن لوگوں کے بُرے اثر سے بچنے کے لیے پوری کوشش کرنی چاہیے۔‏ اگر ہم یہوواہ جیسی سوچ نہیں اپنائیں گے تو یہ دُنیا ہمارے ذہن کو دُنیاوی سوچ سے آلودہ کر دے گی۔‏ ہم اِس دُنیا کی سوچ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟‏ اور ہم روحانی لحاظ سے اَور مضبوط کیسے بن سکتے ہیں؟‏

روحانی سوچ رکھنے والوں کی مثال پر عمل کریں

9.‏ ‏(‏الف)‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم روحانی سوچ کے مالک بن سکیں؟‏ (‏ب)‏ ہم کون سی اچھی مثالوں پر غور کریں گے؟‏

9 جس طرح ایک بچے کو اپنے ماں باپ سے سیکھنے اور اُن کی مثال پر عمل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اُسی طرح ہمیں بھی اُن لوگوں سے سیکھنا اور اُن کی مثال پر عمل کرنا چاہیے جو خدا کے قریبی دوست ہیں۔‏ ایسا کرنے سے ہم روحانی سوچ کے مالک بن جائیں گے۔‏ اِس کے علاوہ ہم اِنسانی سوچ رکھنے والے لوگوں کی زندگی پر غور کرنے سے عبرت حاصل کر سکتے ہیں۔‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 3:‏1-‏4‏)‏ بائبل میں اچھے لوگوں کی مثالیں بھی پائی جاتی ہیں اور بُرے لوگوں کی بھی۔‏ آئیں،‏ ہم یعقوب،‏ مریم اور یسوع مسیح کی اچھی مثالوں پر غور کریں۔‏

ہم یعقوب کی مثال پر غور کرنے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ (‏پیراگراف 10 کو دیکھیں۔‏)‏

10.‏ یعقوب نے یہ کیسے ظاہر کِیا کہ وہ روحانی سوچ کے مالک ہیں؟‏

10 ہم میں سے زیادہ‌تر کی طرح یعقوب کی زندگی بھی مشکلوں سے بھری تھی۔‏ اُن کا اپنا بھائی عیسو اُن کی جان کا دُشمن بنا ہوا تھا۔‏ اُن کے سُسر نے بار بار اُنہیں دھوکا دیا۔‏ لیکن اپنے اِردگِرد کے لوگوں کے برعکس یعقوب روحانی سوچ کے مالک تھے۔‏ وہ یہوواہ کے اُس وعدے پر مضبوط ایمان رکھتے تھے جو اُس نے ابراہام سے کِیا تھا۔‏ یعقوب جانتے تھے کہ اُن کی اولاد اِس شان‌دار وعدے کی تکمیل میں اہم کردار ادا کرے گی اِس لیے اُنہوں نے اپنے گھر والوں کو ہر لحاظ سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔‏ (‏پیدایش 28:‏10-‏15‏)‏ مثال کے طور پر جب یعقوب کو اپنے بھائی کی طرف سے جان کا خطرہ تھا تو اُنہوں نے یہوواہ سے اِلتجا کی کہ وہ اُن کی حفاظت کرے اور یہ دُعا کی:‏ ”‏یہ تیرا ہی فرمان ہے کہ مَیں تیرے ساتھ ضرور بھلائی کروں گا اور تیری نسل کو دریا کی ریت کی مانند بناؤں گا۔‏“‏ (‏پیدایش 32:‏6-‏12‏)‏ یعقوب یہوواہ کے وعدوں پر مضبوط ایمان رکھتے تھے اور اُنہوں نے یہ بات اپنے طرزِزندگی سے بھی ثابت کی۔‏

ہم مریم کی مثال پر غور کرنے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ (‏پیراگراف 11 کو دیکھیں۔‏)‏

11.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ مریم روحانی سوچ رکھتی تھیں؟‏

11 اب مریم کی مثال پر غور کریں۔‏ یہوواہ خدا نے اُنہیں یسوع کی ماں بننے کا اعزاز بخشا کیونکہ وہ روحانی سوچ کی مالک تھیں۔‏ ذرا اُن باتوں پر غور کریں جو مریم نے اُس وقت کہیں جب وہ اپنے رشتےداروں زکریاہ اور الیشبع سے ملنے گئیں۔‏ ‏(‏لُوقا 1:‏46-‏55 کو پڑھیں۔‏)‏ اِن باتوں پر غور کرنے سے ہم جان جاتے ہیں کہ مریم خدا کے کلام سے محبت کرتی تھیں اور عبرانی صحیفوں سے اچھی طرح واقف تھیں۔‏ (‏1-‏سموئیل 2:‏1-‏10؛‏ ملاکی 3:‏12‏)‏ حالانکہ مریم اور یوسف کی شادی ہو چُکی تھی لیکن پھر بھی اُنہوں نے اُس وقت تک جنسی تعلق قائم نہیں کِیا جب تک یسوع پیدا نہیں ہوئے۔‏ اُن کے نزدیک اپنی خواہشات کو پورا کرنے سے کہیں زیادہ اہم وہ اعزاز تھا جو یہوواہ نے اُنہیں دیا تھا۔‏ (‏متی 1:‏25‏)‏ اِس کے علاوہ مریم نے یسوع کی زندگی میں ہونے والے واقعات پر دھیان دیا،‏ اُن کی تعلیمات کو غور سے سنا اور ”‏اِن سب باتوں کو یاد رکھا۔‏“‏ (‏لُوقا 2:‏51‏)‏ بِلاشُبہ مریم مسیح کے حوالے سے خدا کے وعدوں میں دلچسپی لیتی تھیں۔‏ کیا ہم مریم کی مثال پر عمل کرتے ہوئے ہمیشہ وہ کام کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں جو خدا ہم سے چاہتا ہے؟‏

12.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع مسیح نے اپنے باپ کی مثال پر عمل کیسے کِیا؟‏ (‏ب)‏ ہم یسوع مسیح کی مثال پر عمل کیسے کر سکتے ہیں؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

12 روحانی سوچ رکھنے کے حوالے سے یسوع مسیح نے بہترین مثال قائم کی۔‏ زمین پر اپنی زندگی اور خدمت کے دوران اُنہوں نے یہ ثابت کِیا کہ وہ اپنے باپ کی مثال پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔‏ یسوع مسیح کی سوچ،‏ احساسات اور کام بالکل یہوواہ جیسے تھے۔‏ اُنہوں نے خدا کی مرضی اور اُس کے معیاروں کے مطابق زندگی گزاری۔‏ (‏یوحنا 8:‏29؛‏ 14:‏9؛‏ 15:‏10‏)‏ مثال کے طور پر ذرا غور کریں کہ یسعیاہ نے یہوواہ کی ہمدردی کی خوبی کو کیسے بیان کِیا اور پھر اِس کا موازنہ یسوع مسیح کے احساسات سے کریں جنہیں مرقس نے اپنی اِنجیل میں بیان کِیا۔‏ ‏(‏یسعیاہ 63:‏9 کو فٹ‌نوٹ سے پڑھیں *‏؛‏ مرقس 6:‏34 کو پڑھیں۔‏)‏ کیا ہم ایسے لوگوں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آنے کے سلسلے میں یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کسی مشکل میں ہیں؟‏ کیا یسوع مسیح کی طرح ہمارا پورا دھیان بھی دوسروں کو بادشاہت کی خوش‌خبری سنانے اور اُنہیں بائبل کی تعلیم دینے پر رہتا ہے؟‏ (‏لُوقا 4:‏43‏)‏ روحانی سوچ رکھنے والے لوگ دوسروں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آتے ہیں اور اُن کی مدد کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔‏

13،‏ 14.‏ ‏(‏الف)‏ ہم روحانی سوچ رکھنے والے بہن بھائیوں کی مثال پر غور کرنے سے کیا سیکھتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اِس حوالے سے ایک مثال دیں۔‏

13 آج ہمارے بہت سے بہن بھائی روحانی سوچ رکھتے ہیں اور یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔‏ شاید آپ نے دیکھا ہو کہ وہ مُنادی کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں،‏ مہمان‌نواز ہوتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ ہمدردی سے پیش آتے ہیں۔‏ عیب‌دار ہونے کے باوجود وہ اپنے اندر مسیح جیسی خوبیاں پیدا کرنے اور یہوواہ کی مرضی کے مطابق چلنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔‏ برازیل میں رہنے والی بہن ریچل بتاتی ہیں:‏ ”‏مجھے نئے نئے فیشن کے کپڑے پہننے کا جنون تھا۔‏ اِس لیے میرا لباس حیادار نہیں ہوتا تھا۔‏ لیکن سچائی سیکھنے سے مجھے یہ ترغیب ملی کہ مَیں روحانی سوچ اپنانے کی کوشش کروں۔‏ یہ سچ ہے کہ اپنی زندگی میں تبدیلیاں لانا اِتنا آسان نہیں تھا مگر ایسا کرنے سے میری زندگی پہلے سے زیادہ خوش‌گوار اور بامقصد ہو گئی ہے۔‏“‏

14 ریلین نامی بہن کا تعلق ملک فلپائن سے ہے۔‏ اُنہیں ایک فرق قسم کے مسئلے کا سامنا تھا۔‏ حالانکہ وہ یہوواہ کی ایک گواہ تھیں لیکن پھر بھی اُن کی توجہ اعلیٰ تعلیم اور اچھی نوکری حاصل کرنے پر تھی۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏آہستہ آہستہ میری زندگی میں یہوواہ کی خدمت کی اہمیت کم ہونے لگی۔‏ لیکن پھر مجھے یہ احساس ہوا کہ میری زندگی میں ایک ایسی چیز کی کمی ہے جو میری نوکری سے کہیں زیادہ اہم ہے۔‏“‏ ریلین نے اپنی سوچ کو بدلا اور یہوواہ کی خدمت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیا۔‏ اب اُنہیں متی 6:‏33،‏ 34 میں درج یہوواہ کے وعدے پر پورا بھروسا ہے۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏مجھے پورا یقین ہے کہ یہوواہ مجھے سنبھالے گا۔‏“‏ ہو سکتا ہے کہ آپ کی کلیسیا میں بھی ایسے بہن بھائی ہوں جنہوں نے روحانی سوچ اپناتے ہوئے اپنی زندگی میں بہت سی تبدیلیاں کی ہیں۔‏ جب ہم ایسے بہن بھائیوں کو مسیح کی مثال پر عمل کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہمیں بھی اُن کی مثال پر عمل کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔‏—‏1-‏کُرنتھیوں 11:‏1؛‏ 2-‏تھسلُنیکیوں 3:‏7‏۔‏

‏”‏مسیح کی سوچ“‏ اپنائیں

15،‏ 16.‏ ‏(‏الف)‏ ہمیں یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرنے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟‏ (‏ب)‏ یسوع مسیح جیسی سوچ اپنانے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏

15 ہم یسوع مسیح کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏ 1-‏کُرنتھیوں 2:‏16 میں بتایا گیا ہے کہ ہمیں ”‏مسیح کی سوچ“‏ اپنانے کی ضرورت ہے۔‏ رومیوں 15:‏5 میں ہماری حوصلہ‌افزائی کی گئی ہے کہ ہم ”‏مسیح یسوع جیسی سوچ“‏ اپنائیں۔‏ یسوع کی مثال پر عمل کرنے کے لیے ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ کیسی سوچ رکھتے تھے اور اُن کی شخصیت کیسی تھی۔‏ پھر ہی ہم اُن کے نقشِ‌قدم پر چل سکیں گے۔‏ یسوع مسیح کے نزدیک یہوواہ کے ساتھ اُن کی دوستی کسی بھی اَور چیز سے زیادہ اہم تھی۔‏ لہٰذا مسیح کی مثال پر عمل کرنے سے ہم ایک لحاظ سے یہوواہ کی مثال پر عمل کر رہے ہوں گے۔‏ اِس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم یسوع مسیح جیسی سوچ اپنائیں۔‏

16 لیکن ہم یسوع مسیح جیسی سوچ کیسے اپنا سکتے ہیں؟‏ یسوع مسیح کے شاگردوں نے اُنہیں معجزے کرتے،‏ لوگوں کو تعلیم دیتے اور ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے دیکھا تھا۔‏ اُنہوں نے یہ بھی دیکھا تھا کہ یسوع مسیح ہر معاملے میں یہوواہ کے معیاروں کے مطابق چلتے ہیں۔‏ شاگردوں نے کہا:‏ ”‏ہم اُن سب کاموں کے گواہ ہیں۔‏“‏ (‏اعمال 10:‏39‏)‏ آج ہم یسوع مسیح کو دیکھ تو نہیں سکتے لیکن ہمارے پاس اناجیل ہیں جن کو پڑھنے سے ہم یسوع مسیح کی شخصیت سے اچھی طرح واقف ہو سکتے ہیں۔‏ جب ہم متی‏،‏ مرقس‏،‏ لُوقا اور یوحنا کی کتابوں کو پڑھتے اور اِن پر سوچ بچار کرتے ہیں تو ہم یسوع مسیح کی سوچ کو اَور اچھی طرح جان جاتے ہیں۔‏ یوں ہم یسوع مسیح کے ”‏نقشِ‌قدم“‏ پر چلنے اور ’‏اُن جیسی سوچ‘‏ اپنانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔‏—‏1-‏پطرس 2:‏21؛‏ 4:‏1‏۔‏

17.‏ یسوع مسیح جیسی سوچ رکھنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟‏

17 یسوع مسیح جیسی سوچ رکھنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟‏ جس طرح صحت‌بخش غذا کھانے سے ہمارا جسم مضبوط ہو جاتا ہے،‏ بالکل اُسی طرح یسوع مسیح جیسی سوچ اپنانے سے ہم روحانی لحاظ سے مضبوط ہو جاتے ہیں۔‏ وقت کے ساتھ ساتھ ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ یسوع مسیح فلاں صورتحال میں کیا کرتے۔‏ یوں ہم ایسے فیصلے کر پاتے ہیں جن سے نہ صرف خدا خوش ہوتا ہے بلکہ ہمارا ضمیر بھی صاف رہتا ہے۔‏ واقعی ہمارے پاس ”‏مالک یسوع مسیح کی مثال پر عمل“‏ کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔‏—‏رومیوں 13:‏14‏۔‏

18.‏ اِس مضمون سے ہم نے روحانی سوچ رکھنے کے حوالے سے کیا سیکھا ہے؟‏

18 اِس مضمون کے ذریعے ہم نے سیکھ لیا ہے کہ روحانی سوچ رکھنے والے شخص کی پہچان کیا ہوتی ہے۔‏ ہم نے ایسے لوگوں کی مثالوں پر غور کِیا جو روحانی سوچ کے مالک تھے۔‏ ہم نے یہ بھی سیکھا کہ ”‏مسیح کی سوچ“‏ رکھنے سے ہم یہوواہ جیسی سوچ اپنانے کے قابل ہوتے ہیں اور یوں اُس کے اَور قریب ہو جاتے ہیں۔‏ اگلے مضمون میں ہم اِن سوالوں پر غور کریں گے:‏ ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ ہم کس حد تک روحانی سوچ کے مالک ہیں؟‏ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم خدا جیسی سوچ کو اَور بہتر طور پر اپنا سکیں؟‏ اور ہم اپنی روزمرہ زندگی میں یہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم روحانی سوچ کے مالک ہیں؟‏

^ پیراگراف 12 یسعیاہ 63:‏9 ‏(‏اُردو جیو ورشن)‏:‏ ‏”‏وہ اُن کی تمام مصیبت میں شریک ہوا،‏ اور اُس کے حضور کے فرشتے نے اُنہیں چھٹکارا دیا۔‏ وہ اُنہیں پیار کرتا،‏ اُن پر ترس کھاتا تھا،‏ اِس لیے اُس نے عوضانہ دے کر اُنہیں چھڑایا۔‏ ہاں،‏ قدیم زمانے سے آج تک وہ اُنہیں اُٹھائے پھرتا رہا۔‏“‏