کیا آپ نوح، دانیایل اور ایوب کی طرح یہوواہ کو قریب سے جانتے ہیں؟
”شریر عدل سے آگاہ نہیں لیکن [یہوواہ] کے طالب سب کچھ سمجھتے ہیں۔“—امثال 28:5۔
1-3. (الف) ہمیں اِس آخری زمانے میں خدا کے وفادار رہنے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ (ب) اِس مضمون میں ہم کیا سیکھیں گے؟
جیسے جیسے اِس بُری دُنیا کا خاتمہ نزدیک آ رہا ہے، بُرے لوگ ”گھاس کی طرح اُگتے“ جا رہے ہیں۔ (زبور 92:7) لہٰذا اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ بہت سے لوگ خدا کے معیاروں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ ایسے ماحول میں ہم پولُس رسول کی اِس ہدایت پر کیسے عمل کر سکتے ہیں کہ ”بُرائی کے لحاظ سے بچے بنیں مگر سمجھ کے لحاظ سے بالغ بنیں“؟—1-کُرنتھیوں 14:20۔
2 اِس کا جواب ہمیں اِس مضمون کی مرکزی آیت سے ملتا ہے جس میں لکھا ہے: ”[یہوواہ] کے طالب سب کچھ سمجھتے ہیں۔“ (امثال 28:5) اِس کا مطلب ہے کہ ایسے لوگ ہر اُس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جو یہوواہ کو خوش کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اِس کے علاوہ امثال 2:6 میں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ اپنے بندوں کو حکمت یعنی دانشمندی عطا کرتا ہے۔ اِس طرح وہ ’صداقت اور عدل اور راستی کو بلکہ ہر ایک اچھی راہ کو سمجھنے‘ کے قابل ہو جاتے ہیں۔—امثال 2:9۔
3 نوح، دانیایل اور ایوب نے اُس دانشمندی کو حاصل کِیا جو خدا کی طرف سے ملتی ہے۔ (حِزقیایل 14:14) آج بھی خدا کے بندے ایسا ہی کرتے ہیں۔ کیا آپ میں بھی یہ دانشمندی ہے؟ اگر آپ وہ ’سب کچھ سمجھنا‘ چاہتے ہیں جو یہوواہ کو خوش کرنے کے لیے ضروری ہے تو آپ کو اُسے اچھی طرح جاننا چاہیے۔ لہٰذا اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ (1) نوح، دانیایل اور ایوب نے خدا کے بارے میں کیسے سیکھا؟ (2) خدا کے بارے میں سیکھنے سے اُنہیں کیا فائدہ ہوا؟ اور (3) ہم اُن جیسا ایمان کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟
نوح ایک بگڑی ہوئی دُنیا میں خدا کے ساتھ ساتھ چلتے رہے
4. نوح نے یہوواہ کے بارے میں کیسے سیکھا اور اِس سے اُنہیں کیا فائدہ ہوا؟
نوح نے خدا کی بنائی ہوئی چیزوں پر غور کرنے سے اُس کی صفات کے بارے میں سیکھا ہوگا۔
4 نوح نے یہوواہ کے بارے میں کیسے سیکھا؟ اِنسانی تاریخ کے شروع سے ہی خدا کے وفادار بندوں نے تین بنیادی طریقوں سے اُس کے بارے میں سیکھا۔ پہلا، اُس کی بنائی ہوئی چیزوں پر غور کرنے سے؛ دوسرا، خدا کے دیگر وفادار بندوں سے اور تیسرا، خود اِس بات کا تجربہ کرنے سے کہ خدا کے معیاروں پر چلنے سے بڑی برکتیں ملتی ہیں۔ (یسعیاہ 48:18) جب اُنہوں نے خدا کی بنائی ہوئی چیزوں پر غور کِیا ہوگا تو اُنہیں اِس بات کا واضح ثبوت ملا ہوگا کہ خدا واقعی ہے۔ اِس کے علاوہ ایسا کرنے سے اُنہوں نے خدا کی صفات، مثلاً ”اُس کی خدائی اور ابدی طاقت“ کے بارے میں بھی سیکھا ہوگا۔ (رومیوں 1:20) لہٰذا نوح نے نہ صرف خدا کے وجود پر یقین رکھا بلکہ اُس پر اپنے ایمان کو مضبوط بھی کِیا۔
5. نوح نے اِنسانوں کے سلسلے میں خدا کے مقصد کے بارے میں کیسے سیکھا؟
5 بائبل میں لکھا ہے کہ ”ایک شخص تب ہی ایمان لائے گا جب وہ پیغام کو سنے گا۔“ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم دوسروں سے جو کچھ سنتے ہیں اُس سے ہمارا ایمان بڑھ سکتا ہے۔ (رومیوں 10:17) نوح نے غالباً اپنے عزیزوں سے یہوواہ کے بارے میں سیکھا تھا۔ اِن میں نوح کے والد لمک شامل تھے جو خدا پر مضبوط ایمان رکھتے تھے اور آدم کی وفات سے پہلے پیدا ہوئے تھے۔ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔) اِس کے علاوہ نوح کے زمانے میں اُن کے دادا متوسلح اور متوسلح کے دادا یارِد بھی زندہ تھے جو کہ نوح کی پیدائش کے 366 سال بعد فوت ہوئے۔ * (لُوقا 3:36، 37) بہت ممکن ہے کہ لمک، متوسلح اور یارِد اور شاید اُن کی بیویوں نے بھی نوح کو یہ بتایا ہو کہ یہوواہ نے اِنسانوں کو بنایا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ اِنسان اولاد پیدا کریں، پوری زمین پر پھیل جائیں اور خدا کی عبادت کریں۔ غالباً اُنہوں نے نوح کو یہ بھی بتایا ہوگا کہ آدم اور حوا نے خدا کی نافرمانی کی تھی۔ نوح اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے تھے کہ اِس نافرمانی کے کتنے بُرے نتائج نکلے ہیں۔ (پیدایش 1:28؛ 3:16-19، 24) نوح نے جو کچھ سیکھا، اُسے دل میں بٹھا لیا اور اِس طرح اُنہیں یہ ترغیب ملی کہ وہ یہوواہ کی خدمت کریں۔—پیدایش 6:9۔
6، 7. اُمید کے ذریعے نوح کا ایمان کیسے مضبوط ہوا؟
پیدایش 5:29) لہٰذا نوح یہ اُمید رکھتے تھے کہ خدا زمین کے حالات کو بہتر کر دے گا۔ ہابل اور حنوک کی طرح اُن کا بھی ایمان تھا کہ وہ ”نسل“ جس کا خدا نے وعدہ کِیا تھا، سانپ کے سر کو کچلے گی۔—پیدایش 3:15۔
6 اُمید ہمارے ایمان کو مضبوط کرتی ہے۔ ذرا تصور کریں کہ نوح کا ایمان اُس وقت کتنا مضبوط ہوا ہوگا جب اُنہیں پتہ چلا ہوگا کہ اُن کے نام میں بھی جس کا مطلب ”آرام“ یا ”تسلی“ ہے، اُمید کا پیغام پایا جاتا ہے۔ لمک نے خدا کے اِلہام سے نوح کے بارے میں کہا: ”یہ ہمارے ہاتھوں کی محنت اور مشقت سے جو زمین کے سبب سے ہے جس پر [یہوواہ] خدا نے لعنت کی ہے ہمیں آرام دے گا۔“ (7 نوح پیدایش 3:15 میں درج خدا کے وعدے کو پوری طرح سے نہیں سمجھتے تھے۔ لیکن وہ یہ ضرور سمجھتے تھے کہ اِس وعدے میں مستقبل کے لیے اُمید پائی جاتی ہے۔ حنوک نے جس پیغام کی مُنادی کی، وہ بھی اِسی وعدے سے ملتا جلتا تھا۔ اُنہوں نے لوگوں کو بتایا کہ خدا بُرے کام کرنے والوں کو ختم کر دے گا۔ (یہوداہ 14، 15) حنوک کے پیغام کی مکمل تکمیل تو ہرمجِدّون پر ہوگی لیکن اِس پیغام پر غور کرنے سے نوح کو ضرور اُمید ملی ہوگی اور اُن کا ایمان مضبوط ہوا ہوگا۔
ایمان اور دانشمندی ہمیں شیطان کی چالوں اور اِس بُری دُنیا کے اثر سے محفوظ رکھے گی۔
8. خدا کے بارے میں سیکھنے سے نوح کو کیا فائدہ ہوا؟
8 یہوواہ کے بارے میں سیکھنے سے نوح کو کیا فائدہ ہوا؟ خدا کے بارے میں سیکھنے سے نوح کا ایمان مضبوط ہوا اور اُن میں وہ دانشمندی پیدا ہوئی جو خدا کی طرف سے ملتی ہے۔ اِس ایمان اور دانشمندی کے ذریعے نوح ایسے کاموں سے دُور رہ پائے جن سے خدا ناخوش ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر چونکہ نوح خدا کے دوست بننا چاہتے تھے اِس لیے اُنہوں نے ایسے لوگوں سے دوستی نہیں کی جو خدا پر ایمان نہیں رکھتے تھے اور اُس کے معیاروں کو نظرانداز کرتے تھے۔ نوح کے زمانے کے لوگ بُرے فرشتوں کی طاقت کو دیکھ کر بڑے متاثر ہوتے تھے اور شاید اُن کی پوجا بھی کرتے تھے۔ لیکن نوح اِن فرشتوں کے پرستار نہیں بنے۔ (پیدایش 6:1-4، 9) اِس کے علاوہ نوح جانتے تھے کہ یہوواہ نے صرف اِنسانوں کو اولاد پیدا کرنے اور زمین کو بھر دینے کا حکم دیا تھا۔ (پیدایش 1:27، 28) لہٰذا جب بُرے فرشتوں نے عورتوں سے جنسی ملاپ کِیا تو نوح جانتے تھے کہ یہ غلط ہے۔ پھر جب اِس ملاپ سے ایسے بچے پیدا ہوئے جو غیرمعمولی طور پر طاقتور تھے تو یہ بات اَور بھی واضح ہو گئی۔ آخرکار یہوواہ خدا نے نوح کو بتایا کہ وہ ایک طوفان لا کر سب بُرے لوگوں کو ہلاک کر دے گا۔ چونکہ نوح کو خدا کی اِس بات پر پورا یقین تھا اِس لیے وہ کشتی بنانے میں جت گئے اور یوں اپنی اور اپنے گھر والوں کی جان بچائی۔—عبرانیوں 11:7۔
9، 10. ہم نوح جیسا ایمان کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟
9 ہم نوح جیسا ایمان کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟ ہمیں دھیان سے خدا کے کلام کا مطالعہ کرنا چاہیے، اُن باتوں کو دل میں بٹھانا چاہیے جو ہم سیکھتے ہیں، اپنی زندگی میں ضروری تبدیلیاں لانی چاہئیں اور اچھے فیصلے کرنے چاہئیں۔ (1-پطرس 1:13-15) یوں ہمارا ایمان مضبوط ہوگا اور ہمیں خدا سے دانشمندی ملے گی۔ یہ ایمان اور دانشمندی ہمیں شیطان کی چالوں اور اِس بُری دُنیا کے اثر سے محفوظ رکھے گی۔ (2-کُرنتھیوں 2:11) اِس دُنیا میں بہت سے لوگ تشدد اور حرامکاری کو بُرا نہیں سمجھتے اور اپنی غلط خواہشوں کو پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ (1-یوحنا 2:15، 16) جن لوگوں کا ایمان کمزور ہے، وہ اِس بُری دُنیا کے اثر میں آ کر اِس حقیقت کو نظرانداز کرنے لگتے ہیں کہ خدا کا روزِعظیم بہت نزدیک ہے۔ یہ بات قابلِغور ہے کہ جب یسوع مسیح نے ہمارے زمانے کو نوح کے زمانے کی طرح کہا تو اُنہوں نے تشدد اور حرامکاری کا ذکر نہیں کِیا بلکہ یہ واضح کِیا کہ اگر ہمارا دھیان خدا کی خدمت سے ہٹ جاتا ہے تو ہمیں کتنا نقصان ہو سکتا ہے۔—متی 24:36-39 کو پڑھیں۔
10 خود سے پوچھیں: ”کیا میرے طرزِزندگی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مَیں واقعی یہوواہ کو جانتا ہوں؟ کیا میرے ایمان کی بدولت مجھے یہ ترغیب ملتی ہے کہ مَیں نہ صرف خود خدا کے معیاروں پر چلوں بلکہ دوسروں کو بھی اِن کے بارے میں بتاؤں؟“ اِن سوالوں پر غور کرنے سے آپ یہ جان پائیں گے کہ کیا آپ بھی نوح کی طرح خدا کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔
دانیایل نے بُتپرست شہر بابل میں دانشمندی کا مظاہرہ کِیا
11. (الف) دانیایل نے نوجوانی میں یہوواہ کے لیے جیسی محبت ظاہر کی، اُس سے اُن کے والدین کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟ (ب) آپ دانیایل کی کون سی خوبیاں اپنے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں؟
11 دانیایل نے یہوواہ کے بارے میں کیسے سیکھا؟ اُن کے ماں باپ نے ضرور اُنہیں یہوواہ اور اُس کے کلام سے محبت کرنا سکھایا ہوگا۔ دانیایل نے اِس محبت کو ساری زندگی اپنے دل میں رکھا۔ یہاں تک کہ بڑھاپے میں بھی وہ دھیان سے صحیفوں کا مطالعہ کِیا کرتے تھے۔ (دانیایل 9:1، 2) دانیایل یہوواہ کو قریب سے جانتے تھے اور اِس بات سے واقف تھے کہ یہوواہ نے بنیاِسرائیل کے لیے کیا کچھ کِیا تھا۔ یہ بات دانیایل 9:3-19 میں درج دانیایل کی دُعا سے ظاہر ہوتی ہے جو اِنتہائی خلوص اور خاکساری سے کی گئی تھی۔ اِس دُعا کو پڑھیں اور اِس پر سوچ بچار کریں۔ خود سے پوچھیں: ”اِس دُعا سے مجھے دانیایل کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟“
12-14. (الف) دانیایل نے کیسے ظاہر کِیا کہ اُنہیں خدا کی طرف سے دانشمندی ملی ہے؟ (ب) یہوواہ نے دانیایل کو اُن کی دلیری اور وفاداری کا کیا اجر دیا؟
12 یہوواہ کے بارے میں سیکھنے سے دانیایل کو کیا فائدہ ہوا؟ بابل جیسے بُتپرست شہر میں اُن یہودیوں کے لیے زندگی آسان نہیں تھی جو خدا سے پیار کرتے تھے۔ مثال کے طور پر خدا نے یہودیوں کو حکم دیا تھا کہ ”اُس شہر کی سلامتی کے طالب رہو جس میں مَیں تمہیں جلاوطن کر کے لے گیا ہوں۔“ (یرمیاہ 29:7، اُردو جیو ورشن) لیکن ساتھ ہی ساتھ خدا نے یہ حکم بھی دیا تھا کہ صرف اُسی کی عبادت کی جائے۔ (خروج 34:14) دانیایل نے اِن دونوں حکموں کو ایک ساتھ کیسے مانا؟ خدا نے اُنہیں دانشمندی بخشی ہوئی تھی جس کی بدولت وہ یہ سمجھ پائے کہ اُنہیں پہلے خدا کی فرمانبرداری کرنی ہے اور پھر اِنسانی حکمرانوں کی۔ دانیایل کے زمانے کے سینکڑوں سال بعد یسوع مسیح نے بھی اپنے پیروکاروں کو یہی اصول سکھایا۔—لُوقا 20:25۔
13 ذرا اُس وقت کے بارے میں سوچیں جب یہ قانون نافذ ہوا کہ 30 دن تک کوئی بھی شخص بادشاہ کے سوا کسی معبود یا اِنسان سے دُعا نہ کرے۔ (دانیایل 6:7-10 کو پڑھیں۔) اِس قانون کے لاگو ہونے پر دانیایل یہ سوچ سکتے تھے کہ ”مجھے ساری زندگی کے لیے تو ایسا نہیں کرنا، بس 30 ہی دن کی تو بات ہے۔“ لیکن دانیایل نے کسی بھی اِنسانی قانون کو خدا کی عبادت پر ترجیح نہیں دی۔ دانیایل چاہتے تو کسی پوشیدہ جگہ میں خدا سے دُعا کر سکتے تھے۔ لیکن وہ جانتے تھے کہ بہت سے لوگ ہر روز اُنہیں دُعا کرتے دیکھتے ہیں۔ لہٰذا جان کا خطرہ ہونے کے باوجود بھی دانیایل ایسی جگہ پر دُعا کرتے رہے جہاں لوگ اُنہیں دیکھ سکیں۔ دراصل اُنہوں نے ایسا اِس لیے کِیا تاکہ لوگ یہ نہ سوچنے لگیں کہ اُنہوں نے یہوواہ کی عبادت کرنی چھوڑ دی ہے۔
دانیایل 6:25-27۔
14 یہوواہ نے دانیایل کو اُن کی دلیری اور وفاداری کا اجر دیا۔ اُس نے معجزانہ طور پر شیروں سے اُن کی جان بچائی۔ یوں مادی اور فارس کی سلطنت کے کونے کونے تک لوگوں کو یہوواہ کے بارے میں پتہ چل گیا۔—15. ہم دانیایل جیسا ایمان کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟
15 ہم دانیایل جیسا ایمان کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟ مضبوط ایمان پیدا کرنے کے لیے صرف خدا کے کلام کو پڑھنا کافی نہیں ہے۔ ہمیں اِسے سمجھنا بھی چاہیے۔ (متی 13:23) ہم چاہتے ہیں کہ ہم مختلف معاملات کے بارے میں یہوواہ کی سوچ اور احساسات سے واقف ہوں۔ اِس لیے ہمیں اُن باتوں پر گہرائی سے سوچ بچار کرنی چاہیے جو ہم پڑھتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہمیں باقاعدگی سے دُعا کرنی چاہیے، خاص طور پر تب جب ہم مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ ہم پورا یقین رکھ سکتے ہیں کہ اگر ہم دُعا میں یہوواہ سے دانشمندی اور طاقت مانگیں گے تو وہ بڑی فیاضی سے ہمیں یہ چیزیں عطا کرے گا۔—یعقوب 1:5۔
ایوب ہر طرح کے حالات میں خدا کے اصولوں پر چلتے رہے
16، 17. ایوب نے یہوواہ کے بارے میں کیسے سیکھا؟
16 ایوب نے یہوواہ کے بارے میں کیسے سیکھا؟ ایوب اِسرائیلی نہیں تھے۔ لیکن وہ ابراہام، اِضحاق اور یعقوب کے دُور کے رشتےدار تھے جنہیں خدا نے اپنے بارے میں اور اپنے مقصد کے بارے میں بتایا تھا۔ ایوب بھی کسی نہ کسی طرح اِن بیشقیمت سچائیوں سے واقف ہو گئے تھے۔ (ایوب 23:12) اُنہوں نے یہوواہ سے کہا: ”مَیں نے تیری خبر کان سے سنی تھی۔“ (ایوب 42:5) یہوواہ نے خود بھی ایوب کے متعلق فرمایا کہ اُنہوں نے اُس کے بارے میں سچائی بیان کی۔—ایوب 42:7، 8۔
17 ایوب نے یہوواہ کی بنائی ہوئی چیزوں پر غور کرنے سے بھی اُس کی صفات کے بارے میں سیکھا۔ (ایوب 12:7-9، 13) اِنہی چیزوں کا حوالہ دے کر یہوواہ اور اِلیہو نے ایوب کو سمجھایا کہ اِنسان خدا کی عظمت کے مقابلے میں کتنے چھوٹے ہیں۔ (ایوب 37:14؛ 38:1-4) یہوواہ کی باتوں نے ایوب کے دل کو چُھو لیا اور اُنہوں نے عاجزی کے ساتھ خدا سے کہا: ”مَیں جانتا ہوں کہ تُو سب کچھ کر سکتا ہے اور تیرا کوئی اِرادہ رُک نہیں سکتا۔ . . . مَیں خاک اور راکھ میں توبہ کرتا ہوں۔“—ایوب 42 : 2، 6۔
18، 19. ایوب نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ یہوواہ کو قریب سے جانتے ہیں؟
18 یہوواہ کے بارے میں سیکھنے سے ایوب کو کیا فائدہ ہوا؟ ایوب یہوواہ کو قریب سے جانتے تھے۔ وہ اُس کے اصولوں کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور اِن کے مطابق زندگی گزارتے تھے۔ مثال کے طور پر ایوب یہ سمجھتے تھے کہ اگر وہ دوسروں کے ساتھ شفقت سے پیش نہیں آئیں گے تو وہ خدا سے محبت کرنے کا دعویٰ نہیں کر پائیں گے۔ وہ یہ نہیں سوچتے تھے کہ وہ دوسروں سے بہتر ہیں۔ اِس کی بجائے وہ سب لوگوں کے ساتھ پھر چاہے وہ امیر ہوں یا غریب، اچھا سلوک کرتے تھے۔ دوسرے اِنسانوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا: ”کیا وہی اُس کا بنانے والا نہیں جس نے مجھے بطن میں بنایا؟“ (ایوب 31:13-22) یہاں تک کہ جب ایوب کے پاس بڑی دولت اور اِختیار تھا تو تب بھی وہ مغرور نہیں بنے اور نہ ہی دوسروں کو کمتر خیال کِیا۔ ایوب کی سوچ آجکل کے بہت سے امیر اور بااِختیار لوگوں کی سوچ سے بالکل فرق تھی۔
19 ایوب نہیں چاہتے تھے کہ مالودولت یا کوئی اَور چیز اُن کی زندگی میں یہوواہ سے زیادہ اہم بن جائے۔ وہ جانتے تھے کہ ایسا کرنا ”خدا کا جو عالمِبالا پر ہے،“ اِنکار کرنے کے برابر ہوگا۔ (ایوب 31:24-28 کو پڑھیں۔) اِس کے علاوہ ایوب یہ مانتے تھے کہ شادی ایک آدمی اور ایک عورت کے درمیان مُقدس بندھن ہے۔ اُنہوں نے اپنے آپ سے یہ وعدہ کِیا ہوا تھا کہ وہ کسی بھی عورت کو گندی نظر سے نہیں دیکھیں گے۔ (ایوب 31:1) ذرا غور کریں کہ اُس زمانے میں خدا نے مردوں کو ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرنے کی اِجازت دی ہوئی تھی۔ لہٰذا اگر ایوب چاہتے تو وہ دوسری شادی کر سکتے تھے۔ لیکن وہ اِس بات سے واقف تھے کہ یہوواہ نے باغِعدن میں ایک آدمی اور ایک عورت کو شادی کے بندھن میں باندھا تھا۔ (پیدایش 2:18، 24) اِسی وجہ سے اُنہوں نے بھی صرف ایک ہی عورت سے شادی کی تھی۔ * دراصل یسوع مسیح نے بھی تقریباً 1600 سال کے بعد یہی اصول سکھایا کہ ایک آدمی کو صرف ایک ہی عورت سے شادی کرنی چاہیے اور اُسی سے جنسی تعلق قائم کرنا چاہیے۔—متی 5:28؛ 19:4، 5۔
20. یہوواہ اور اُس کے معیاروں کے بارے میں جاننے سے ہم اچھے دوستوں اور اچھی تفریح کا اِنتخاب کرنے کے قابل کیسے بن سکتے ہیں؟
20 ہم ایوب جیسا ایمان کیسے پیدا کر سکتے ہیں؟ ہمیں یہوواہ زبور 5:6؛ 11:5 کو پڑھیں۔) خود سے پوچھیں: ”اِن آیتوں سے مجھے یہوواہ کی سوچ کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟ یہوواہ کی سوچ کو جاننے کے بعد مجھے کس چیز کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دینی چاہیے؟ اِن آیتوں میں درج اصول کے مطابق مجھے اِنٹرنیٹ پر کون سی چیزیں نہیں دیکھنی چاہئیں، کن لوگوں سے دوستی نہیں کرنی چاہیے اور کس قسم کی تفریح سے دُور رہنا چاہیے؟“ اِن سوالوں پر غور کرنے سے آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ یہوواہ کو کتنی اچھی طرح جانتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے کہ ہم اِس بُری دُنیا کے اثر میں نہ آئیں تو ہمیں ”اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت“ کو تیز کرنا چاہیے۔ اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں نہ صرف صحیح اور غلط کے فرق کو سمجھنا چاہیے بلکہ یہ بھی جاننا چاہیے کہ کون سے کاموں سے عقلمندی کا ثبوت ملتا ہے اور کون سے کاموں سے بےوقوفی ظاہر ہوتی ہے۔—عبرانیوں 5:14؛ اِفسیوں 5:15۔
کو قریب سے جاننا چاہیے اور اُن باتوں پر عمل کرنا چاہیے جو ہم سیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر بائبل میں لکھا ہے کہ یہوواہ کو ”دغاباز آدمی سے کراہیت ہے“ اور ”ظلم دوست سے . . . نفرت ہے۔“ (21. ہم وہ ’سب کچھ سمجھنے‘ کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں جو یہوواہ کو خوش کرنے کے لیے ضروری ہے؟
21 نوح، دانیایل اور ایوب نے یہوواہ کو قریب سے جاننے کی پوری کوشش کی۔ اِس طرح خدا کے یہ بندے وہ ’سب کچھ سمجھنے‘ کے قابل ہوئے جو یہوواہ کو خوش کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اُن کی مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہوواہ کے معیاروں پر چلنے سے حقیقی کامیابی ملتی ہے۔ (زبور 1:1-3) خود سے پوچھیں: ”کیا مَیں یہوواہ کو اُتنی اچھی طرح جانتا ہوں جتنی اچھی طرح نوح، دانیایل اور ایوب جانتے تھے؟“ دراصل ہم یہوواہ کو اُن کی نسبت زیادہ اچھی طرح جان سکتے ہیں کیونکہ آج ہمارے پاس یہوواہ کے بارے میں زیادہ معلومات ہیں۔ (امثال 4:18) لہٰذا دھیان سے بائبل کا مطالعہ کریں، اِس میں لکھی باتوں پر سوچ بچار کریں اور پاک روح کے لیے دُعا کریں۔ یوں آپ اپنے آسمانی باپ کے اَور قریب ہو جائیں گے۔ اِس کے علاوہ آپ اِس بُری دُنیا کے اثر سے محفوظ رہیں گے اور یہ ظاہر کریں گے کہ آپ کو وہ دانشمندی حاصل ہے جو خدا اپنے وفادار بندوں کو دیتا ہے۔—امثال 2:4-7۔
^ پیراگراف 5 نوح کے پڑدادا حنوک بھی ’خدا کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔‘ لیکن وہ نوح کی پیدائش سے 69 سال پہلے فوت ہو گئے۔—پیدایش 5:23، 24۔
^ پیراگراف 19 نوح نے بھی ایک ہی بیوی رکھنے کا فیصلہ کِیا حالانکہ باغِعدن میں ہونے والی بغاوت کے تھوڑی دیر بعد ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا رواج عام ہو گیا تھا۔—پیدایش 4:19۔