مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 9

قدیم اِسرائیل میں محبت اور اِنصاف کی اہمیت

قدیم اِسرائیل میں محبت اور اِنصاف کی اہمیت

‏”‏وہ صداقت اور اِنصاف کو پسند کرتا ہے۔‏ زمین [‏یہوواہ]‏ کی شفقت سے معمور ہے۔‏“‏‏—‏زبور 33:‏5‏۔‏

گیت نمبر 23‏:‏ یہوواہ خدا ہماری نجات ہے

مضمون پر ایک نظر *

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ ہم سب کیا چاہتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ ہم کس بات پر یقین رکھ سکتے ہیں؟‏

ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ محبت اور اِنصاف سے پیش آیا جائے۔‏ لیکن اگر ہمیں کبھی دوسروں کی طرف سے محبت نہیں ملتی اور بار بار نااِنصافی جھیلنی پڑتی ہے تو شاید ہم احساسِ‌کمتری اور نااُمیدی کا شکار ہو جائیں۔‏

2 یہوواہ جانتا ہے کہ ہم محبت اور اِنصاف کی بےپناہ خواہش رکھتے ہیں۔‏ (‏زبور 33:‏5‏)‏ ہم اِس بات پر پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ ہمارا خدا ہم سے بہت پیار کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہمیں اِنصاف ملے۔‏ اِس بات کا ثبوت ہمیں اُس شریعت پر غور کرنے سے ملتا ہے جو یہوواہ نے موسیٰ کے ذریعے بنی‌اِسرائیل کو دی تھی۔‏ اگر آپ محبت کے بھوکے اور نااِنصافی کے مارے ہیں تو ذرا غور کریں کہ موسیٰ کی شریعت * سے یہوواہ کے بندوں کے لیے اُس کی فکرمندی کیسے جھلکتی ہے۔‏

3.‏ ‏(‏الف)‏ رومیوں 13:‏8-‏10 کی روشنی میں بتائیں کہ موسیٰ کی شریعت کا مطالعہ کرنے سے ہمیں کیا پتہ چلتا ہے۔‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں کن سوالوں کے جواب دیے جائیں گے؟‏

3 موسیٰ کی شریعت کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا شفیق خدا یہوواہ ہمارے لیے کتنے گہرے احساسات رکھتا ہے۔‏ ‏(‏رومیوں 13:‏8-‏10 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس مضمون میں ہم بنی‌اِسرائیل کو دی گئی شریعت میں موجود چند حکموں پر بات کریں گے اور اِن سوالوں پر غور کریں گے:‏ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ شریعت کی بنیاد محبت تھی؟‏ ہمیں کیسے پتہ چلتا ہے کہ شریعت میں لوگوں کو اِنصاف سے کام لینے کی ترغیب دی گئی؟‏ جن لوگوں کو اِختیار دیا گیا تھا،‏ اُنہیں شریعت کو کیسے لاگو کرنا تھا؟‏ اور شریعت کے ذریعے کن لوگوں کو خاص طور پر تحفظ فراہم کِیا گیا؟‏ اِن سوالوں کے جواب حاصل کرنے سے ہمیں تسلی اور اُمید ملے گی اور ہم اپنے شفیق آسمانی باپ کے اَور قریب ہو جائیں گے۔‏—‏اعما 17:‏27؛‏ روم 15:‏4‏۔‏

شریعت کی بنیاد محبت تھی

4.‏ ‏(‏الف)‏ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ موسیٰ کی شریعت کی بنیاد محبت تھی؟‏ (‏ب)‏ متی 22:‏36-‏40 میں یسوع مسیح نے کن حکموں کی اہمیت پر زور دیا؟‏

4 ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ موسیٰ کی شریعت کی بنیاد محبت تھی؟‏ اِس لیے کیونکہ یہوواہ جو بھی کرتا ہے،‏ محبت کی بِنا پر کرتا ہے۔‏ (‏1-‏یوح 4:‏8‏)‏ موسیٰ کی شریعت میں جتنے بھی حکم تھے،‏ وہ اِن دو بنیادی حکموں کے گِرد گھومتے تھے:‏ یہوواہ سے محبت کریں اور اپنے پڑوسی سے محبت کریں۔‏ (‏احبا 19:‏18؛‏ اِست 6:‏5؛‏ متی 22:‏36-‏40 کو پڑھیں۔‏‏)‏ لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ شریعت میں جو 600 سے زیادہ حکم تھے،‏ اُن میں سے ہر حکم میں یہوواہ کی محبت کی جھلک پائی جاتی ہے۔‏ آئیں،‏ اِس کی کچھ مثالوں پر غور کریں۔‏

5،‏ 6.‏ یہوواہ شادی‌شُدہ لوگوں سے کیا توقع کرتا ہے اور اُسے کس بات کا پورا علم ہوتا ہے؟‏ ایک مثال دیں۔‏

5 اپنے شریکِ‌حیات کے وفادار رہیں اور اپنے بچوں کی دیکھ‌بھال کریں۔‏ یہوواہ چاہتا ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے اِتنی گہری محبت پیدا کریں کہ یہ کبھی ختم نہ ہو۔‏ (‏پید 2:‏24؛‏ متی 19:‏3-‏6‏)‏ زِناکاری سنگین جرائم میں سے ایک ہے۔‏ اِسی لیے دس احکام میں سے ساتویں حکم میں زِنا کرنے سے منع کِیا گیا تھا۔‏ (‏اِست 5:‏18‏)‏ زِنا کرنے سے ایک شخص ”‏خدا کا گنہگار“‏ بنتا ہے اور اپنے شریکِ‌حیات کو سخت دُکھ دیتا ہے۔‏ (‏پید 39:‏7-‏9‏)‏ جس شخص کا شریکِ‌حیات زِنا کرتا ہے،‏ وہ شاید اِس بےوفائی کا درد سالوں تک جھیلتا رہے۔‏

6 یہوواہ کو اِس بات کا پورا علم ہوتا ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں۔‏ بنی‌اِسرائیل کے زمانے میں یہوواہ اِسرائیلی شوہروں سے خاص طور پر یہ چاہتا تھا کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔‏ جو شوہر شریعت کا احترام کرتا تھا،‏ وہ اپنی بیوی سے پیار کرتا تھا اور چھوٹی موٹی وجوہات کی بِنا پر اُسے طلاق نہیں دے دیتا تھا۔‏ (‏اِست 24:‏1-‏4؛‏ متی 19:‏3،‏ 8‏)‏ لیکن اگر کبھی معاملہ اِتنا سنگین ہوتا کہ ایک شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینے کا فیصلہ کرتا تو اُسے بیوی کو طلاق‌نامہ بھی دینا ہوتا تھا۔‏ اِس طلاق‌نامے کی بدولت ایک عورت حرام‌کاری کے اِلزام سے محفوظ رہتی۔‏ اِس کے علاوہ ایسا لگتا ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق‌نامہ دینے سے پہلے شوہر کو شہر کے بزرگوں سے بات کرنی پڑتی تھی۔‏ اِس طرح بزرگوں کو اُس جوڑے کی مدد کرنے کا موقع ملتا تھا تاکہ وہ اپنی شادی کو بچا سکے۔‏ اگر ایک اِسرائیلی شوہر اپنی کسی غرض کی بِنا پر بیوی کو طلاق دیتا تو یہوواہ ہر بار اِسے روکتا نہیں تھا۔‏ لیکن وہ اُن آنسوؤں کو ضرور دیکھتا تھا جو ایک بیوی اِس وجہ سے بہاتی تھی اور اُس کے درد کو سمجھتا تھا۔‏—‏ملا 2:‏13-‏16‏۔‏

یہوواہ چاہتا تھا کہ ماں باپ پیار سے اپنے بچوں کی پرورش اور تربیت کریں تاکہ بچے خوش اور محفوظ رہیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 7،‏ 8 کو دیکھیں۔‏)‏ *

7،‏ 8.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ نے والدین کو کیا حکم دیا؟‏ (‏سرِورق کی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏ (‏ب)‏ ہم نے کیا سیکھا ہے؟‏

7 شریعت سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کو بچوں کی بہت فکر ہے اور وہ چاہتا ہے کہ وہ خوش اور محفوظ رہیں۔‏ یہوواہ نے اِسرائیلی والدین کو صرف یہ حکم نہیں دیا تھا کہ وہ بچوں کی ضروریات پوری کریں بلکہ یہ بھی کہ وہ اپنے آسمانی باپ کے قریب جانے میں اُن کی مدد کریں۔‏ والدین کو ہر موقعے پر اپنے بچوں کو یہوواہ کی شریعت کی اہمیت سمجھانی تھی اور اِس سے محبت رکھنا سکھانا تھا۔‏ (‏اِست 6:‏6-‏9؛‏ 7:‏13‏)‏ اِسرائیلیوں کو جو سزا ملی،‏ اُس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُن میں سے کچھ والدین اپنے بچوں کے ساتھ بہت گھناؤنا سلوک کر رہے تھے۔‏ (‏یرم 7:‏31،‏ 33‏)‏ والدین کو یہ نہیں سوچنا تھا کہ اُن کے بچے اُن کی ملکیت ہیں جن کے ساتھ وہ جیسے چاہیں،‏ پیش آ سکتے ہیں۔‏ اِس کی بجائے اُنہیں اپنے بچوں کو یہوواہ کی طرف سے میراث یا تحفہ خیال کرنا تھا۔‏—‏زبور 127:‏3‏۔‏

8 ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ یہوواہ اِس بات پر خاص توجہ دیتا ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں۔‏ وہ چاہتا ہے کہ والدین اپنے بچوں سے پیار کریں اور اگر والدین بچوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں تو وہ اُنہیں اِس کے لیے جواب‌دہ ٹھہراتا ہے۔‏

9-‏11.‏ یہوواہ نے شریعت میں لالچ نہ کرنے کا حکم کیوں دیا؟‏

9 لالچ نہ کریں۔‏ دس احکام میں سے آخری حکم یہ تھا کہ لالچ نہ کِیا جائے یعنی دل میں کسی ایسی چیز کو حاصل کرنے کی خواہش نہ پالی جائے جو دوسرے کی ہے۔‏ (‏اِست 5:‏21؛‏ روم 7:‏7‏)‏ یہوواہ خدا نے اِس حکم کے ذریعے اپنے بندوں کو یہ اہم سبق سکھایا کہ وہ اپنے دل کی حفاظت کریں جس کا اِشارہ ہمارے خیالات اور احساسات کی طرف ہے۔‏ یہوواہ جانتا ہے کہ غلط خیالات اور احساسات غلط کاموں کا سبب بنتے ہیں۔‏ (‏امثا 4:‏23‏)‏ اگر کوئی اِسرائیلی اپنے دل میں غلط خواہشات کو جڑ پکڑنے دیتا تو وہ ایسے کام کر بیٹھتا جس سے دوسروں کو سخت تکلیف اور نقصان پہنچتا۔‏ بادشاہ داؤد نے ایسا ہی کِیا۔‏ ویسے تو وہ ایک اچھے اِنسان تھے لیکن ایک مرتبہ اُنہوں نے دوسرے آدمی کی بیوی کا لالچ کِیا۔‏ اپنی اِس خواہش کی وجہ سے وہ گُناہ کر بیٹھے۔‏ (‏یعقو 1:‏14،‏ 15‏)‏ اُنہوں نے بت‌سبع کے ساتھ حرام‌کاری کی،‏ اُن کے شوہر کو دھوکا دینے کی کوشش کی اور پھر اُسے قتل کروا دیا۔‏—‏2-‏سمو 11:‏2-‏4؛‏ 12:‏7-‏11‏۔‏

10 چونکہ یہوواہ دلوں کو پڑھ سکتا ہے اِس لیے جب بھی کسی اِسرائیلی کے دل میں لالچ سر اُٹھاتا تھا تو یہوواہ اِس بات سے واقف ہوتا تھا۔‏ (‏1-‏توا 28:‏9‏)‏ لالچ نہ کرنے کے حکم کے ذریعے یہوواہ نے اپنے بندوں کو سکھایا کہ اُنہیں ہر ایسی سوچ کو رد کرنا چاہیے جس کی وجہ سے وہ کوئی غلط کام کر سکتے ہیں۔‏ بےشک یہوواہ بہت ہی دانش‌مند اور شفیق باپ ہے۔‏

11 ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ یہوواہ ایک شخص کی صرف اُن باتوں کو نہیں دیکھتا جو نظر آتی ہیں۔‏ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ ہمارے دل میں کیا ہے۔‏ (‏1-‏سمو 16:‏7‏)‏ ہم جو بھی سوچتے ہیں،‏ جیسا بھی محسوس کرتے ہیں یا جو بھی کام کرتے ہیں،‏ اُسے سب پتہ ہوتا ہے۔‏ البتہ وہ ہماری اچھی باتوں پر دھیان دیتا ہے اور ہماری حوصلہ‌افزائی کرتا ہے کہ ہم اپنی خوبیوں کو نکھاریں۔‏ لیکن وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ ہم اپنا جائزہ لیں کہ کہیں ہمارے ذہن میں کوئی غلط خیال تو نہیں پیدا ہو رہا اور اگر ایسا ہو تو ہم فوراً اُس خیال کو اپنے ذہن سے نکال دیں تاکہ ہم کوئی غلط کام نہ کر بیٹھیں۔‏—‏2-‏توا 16:‏9؛‏ متی 5:‏27-‏30‏۔‏

شریعت سے اِنصاف کو فروغ ملا

12.‏ موسیٰ کی شریعت سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟‏

12 موسیٰ کی شریعت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ اِنصاف سے محبت کرتا ہے۔‏ (‏زبور 37:‏28؛‏ یسع 61:‏8‏)‏ اُس نے دوسروں کے ساتھ اِنصاف سے پیش آنے کی بہترین مثال قائم کی ہے۔‏ جب اِسرائیلی،‏ یہوواہ کی شریعت میں درج حکموں پر عمل کرتے تو وہ اُنہیں برکت دیتا۔‏ لیکن جب وہ اُس کے نیک معیاروں کو نظرانداز کرتے تو اُنہیں نقصان اُٹھانا پڑتا۔‏ ذرا شریعت میں موجود دو اَور حکموں پر غور کریں۔‏

13،‏ 14.‏ دس احکام میں سے پہلے دو حکموں کے مطابق بنی‌اِسرائیل کو کیا کرنا تھا اور اِن حکموں پر عمل کرنے سے اُنہیں کیا فائدہ ہو سکتا تھا؟‏

13 صرف یہوواہ کی عبادت کریں۔‏ دس احکام میں سے پہلے دو حکموں کے مطابق بنی‌اِسرائیل کو صرف اور صرف یہوواہ کی بندگی کرنی تھی اور بُتوں کی پرستش سے دُور رہنا تھا۔‏ (‏خر 20:‏3-‏6‏)‏ یہوواہ نے یہ حکم اپنے فائدے کے لیے نہیں دیے تھے بلکہ اِس میں تو اُس کے بندوں کا فائدہ تھا۔‏ جب وہ لوگ یہوواہ کے وفادار رہتے تو اُنہیں برکتیں ملتیں۔‏ مگر جب وہ دوسری قوموں کے معبودوں کی پرستش کرتے تو اُنہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔‏

14 اِس حوالے سے ذرا کنعانیوں کے بارے میں سوچیں۔‏ وہ سچے اور زندہ خدا یہوواہ کی بجائے بےجان بُتوں کی پرستش کرتے تھے۔‏ یوں اُنہوں نے اپنے لیے ذِلت کا سامان پیدا کِیا۔‏ (‏زبور 115:‏4-‏8‏)‏ بُتوں کی پرستش کے دوران وہ اِنتہائی گھٹیا جنسی حرکتیں کرتے اور بچوں کی قربانی جیسے گھناؤنے کام انجام دیتے۔‏ جب بنی‌اِسرائیل یہوواہ سے مُنہ موڑ کر دوسری قوموں کی طرح بُتوں کو پوجنے لگے تو اُنہوں نے بھی اپنے لیے ذِلت کا سامان پیدا کِیا اور اپنے خاندانوں کو تکلیف پہنچائی۔‏ (‏2-‏توا 28:‏1-‏4‏)‏ جن لوگوں کے پاس اِختیار تھا،‏ وہ اِنصاف کے سلسلے میں یہوواہ کے معیاروں کو نظرانداز کرنے لگے۔‏ اُنہوں نے اپنے اِختیار کا غلط اِستعمال کِیا اور کمزور اور بےسہارا لوگوں پر ظلم ڈھایا۔‏ (‏حِز 34:‏1-‏4‏)‏ یہوواہ نے بنی‌اِسرائیل کو بتایا کہ وہ اُن لوگوں کو سزا دے گا جنہوں نے ایسی عورتوں اور بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی ہے جو اپنا دِفاع نہیں کر سکتے۔‏ (‏اِست 10:‏17،‏ 18؛‏ 27:‏19‏)‏ اِس کے برعکس جب یہوواہ کے بندے اُس کے وفادار رہے اور ایک دوسرے کے ساتھ اِنصاف سے پیش آئے تو اُس نے اُنہیں برکت دی۔‏—‏1-‏سلا 10:‏4-‏9‏۔‏

یہوواہ ہم سے پیار کرتا ہے اور جانتا ہے کہ ہمیں کون سی نااِنصافیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 15 کو دیکھیں۔‏)‏

15.‏ ہم نے یہوواہ کے بارے میں کیا سیکھا ہے؟‏

15 ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ جب یہوواہ کی خدمت کرنے کا دعویٰ کرنے والے اُس کے معیاروں کو نظرانداز کرتے ہیں اور اُس کے بندوں کو نقصان پہنچاتے ہیں تو یہوواہ اِس کا قصوروار نہیں ہوتا۔‏ یہوواہ تو ہم سے پیار کرتا ہے اور جب بھی ہمیں کسی نااِنصافی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اِس سے واقف ہوتا ہے۔‏ ایک ماں بھی اپنے بچے کے درد کو اُتنی اچھی طرح محسوس نہیں کر سکتی جتنی اچھی طرح یہوواہ ہمارے درد کو محسوس کرتا ہے۔‏ (‏یسع 49:‏15‏)‏ ہو سکتا ہے کہ وہ فوراً کارروائی نہ کرے لیکن وقت آنے پر وہ اُن لوگوں کو سزا ضرور دیتا ہے جو دوسروں کے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں اور توبہ نہیں کرتے۔‏

شریعت کو کیسے لاگو کِیا جانا تھا؟‏

16-‏18.‏ ‏(‏الف)‏ موسیٰ کی شریعت زندگی کے کون سے حلقوں میں لاگو ہوتی تھی؟‏ (‏ب)‏ ہم نے کون سی باتیں سیکھی ہیں؟‏

16 موسیٰ کی شریعت میں ایک اِسرائیلی کی زندگی کے بہت سے حلقوں کے بارے میں حکم دیے گئے تھے۔‏ لہٰذا یہ بہت ضروری تھا کہ بزرگ یہوواہ کے بندوں کے کسی بھی معاملے کا فیصلہ کرتے وقت اِنصاف سے کام لیں۔‏ اُنہیں نہ صرف ایسے معاملات کو سلجھانے کی ذمےداری دی گئی تھی جن کا تعلق یہوواہ کی عبادت سے تھا بلکہ ایسے معاملات کو بھی جن میں ایک شخص کوئی جُرم کرتا تھا یا کسی کا کسی سے کوئی اِختلاف ہو جاتا تھا۔‏ ذرا اِس حوالے سے کچھ مثالوں پر غور کریں۔‏

17 اگر کوئی اِسرائیلی کسی کا قتل کر دیتا تو اُسے ایسے ہی سزائےموت نہیں دے دی جاتی تھی۔‏ بزرگ پہلے سارے معاملے کی اچھی طرح جانچ‌پڑتال کرتے اور پھر فیصلہ کرتے کہ آیا اُس شخص کو سزائےموت دی جانی چاہیے یا نہیں۔‏ (‏اِست 19:‏2-‏7،‏ 11-‏13‏)‏ اِس کے علاوہ بزرگ روزمرہ زندگی کے مختلف معاملات کے حوالے سے بھی فیصلے کرتے تھے۔‏ اِن معاملات میں زمین جائیداد پر کھڑے ہونے والے اِختلافات سے لے کر ازدواجی زندگی میں پیدا ہونے والے مسائل شامل تھے۔‏ (‏خر 21:‏35؛‏ اِست 22:‏13-‏19‏)‏ جب بزرگ اِنصاف سے کام لیتے اور بنی‌اِسرائیل شریعت پر عمل کرتے تو اِس سے سب کو فائدہ ہوتا اور یہوواہ کے نام کی بڑائی ہوتی۔‏—‏احبا 20:‏7،‏ 8؛‏ یسع 48:‏17،‏ 18‏۔‏

18 ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ یہوواہ کی نظر میں ہماری زندگی کا ہر حلقہ اہمیت رکھتا ہے۔‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ محبت اور اِنصاف سے پیش آئیں۔‏ اور ہم جو بھی کہتے یا کرتے ہیں پھر چاہے وہ اکیلے میں ہی کیوں نہ ہو،‏ یہوواہ کی نظروں سے کچھ بھی چھپا نہیں رہتا۔‏—‏عبر 4:‏13‏۔‏

19-‏21.‏ ‏(‏الف)‏ بزرگوں اور قاضیوں کو خدا کے بندوں کے ساتھ کیسے پیش آنا تھا؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ نے لوگوں کو نااِنصافی سے محفوظ رکھنے کے لیے کون سے قوانین دیے؟‏ (‏ج)‏ ہم نے کیا سیکھا ہے؟‏

19 یہوواہ اپنے بندوں کو اِردگِرد کی قوموں کے بُرے اثر سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔‏ اِس لیے وہ بزرگوں اور قاضیوں سے یہ توقع کرتا تھا کہ وہ شریعت میں درج حکموں کو کسی معاملے پر لاگو کرتے وقت غیرجانب‌داری سے کام لیں۔‏ لیکن اُنہیں اِس بات کا بھی خیال رکھنا تھا کہ وہ لوگوں کے ساتھ سختی سے پیش نہ آئیں۔‏ اِس کی بجائے اُنہیں خلوصِ‌دل سے دوسروں کا اِنصاف کرنا تھا۔‏—‏اِست 1:‏13-‏17؛‏ 16:‏18-‏20‏۔‏

20 چونکہ یہوواہ کو اپنے بندوں سے ہمدردی ہے اِس لیے اُس نے ایسے قوانین بنائے جن کے ذریعے لوگوں کو نااِنصافی کا شکار ہونے سے محفوظ رکھا جا سکتا تھا۔‏ مثال کے طور پر شریعت میں جو قوانین دیے گئے تھے،‏ اُن کی وجہ سے اِس بات کا اِمکان بہت کم ہو گیا تھا کہ ایک بےقصور شخص کو مُجرم ٹھہرایا جائے۔‏ ملزم کو یہ جاننے کا حق تھا کہ اُس پر کون اِلزام لگا رہا ہے۔‏ (‏اِست 19:‏16-‏19؛‏ 25:‏1‏)‏ اور کسی شخص کو مُجرم قرار دینے کے لیے کم از کم دو لوگوں کی گواہی لازمی ہوتی تھی۔‏ (‏اِست 17:‏6؛‏ 19:‏15‏)‏ تو پھر اُس صورت میں کیسے فیصلہ کِیا جاتا تھا جب ایک اِسرائیلی کوئی جُرم کرتا اور اُس کا صرف ایک ہی گواہ ہوتا؟‏ وہ اِسرائیلی اِس خوش‌فہمی میں نہیں رہ سکتا تھا کہ وہ بچ جائے گا کیونکہ یہوواہ نے اُس کے جُرم کو دیکھا ہوتا تھا۔‏ اور اگر خاندانوں کی بات کی جائے تو اِن میں والدوں کو اِختیار دیا گیا تھا لیکن اُن کے اِختیار پر بھی حد لگائی گئی تھی۔‏ کچھ گھریلو مسائل ایسے تھے جن کے بارے میں شہر کے بزرگوں کی ذمےداری تھی کہ وہ حتمی فیصلہ کریں۔‏—‏اِست 21:‏18-‏21‏۔‏

21 ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ یہوواہ نے اِنصاف کی بہترین مثال قائم کی ہے۔‏ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے،‏ نااِنصافی سے پاک ہوتا ہے۔‏ (‏زبور 9:‏7‏)‏ جو لوگ اُس کے معیاروں پر چلتے ہیں،‏ وہ اُنہیں اجر دیتا ہے لیکن جو لوگ اپنے اِختیار کا غلط اِستعمال کرتے ہیں،‏ اُنہیں اُس کی طرف سے سزا ملتی ہے۔‏ (‏2-‏سمو 22:‏21-‏23؛‏ حِز 9:‏9،‏ 10‏)‏ کچھ لوگ بُرے کام کرتے ہیں اور سزا سے بچتے دِکھائی دیتے ہیں۔‏ لیکن جب یہوواہ کا وقت آتا ہے تو وہ اُنہیں اِنصاف کے کٹہرے میں ضرور کھڑا کرتا ہے۔‏ (‏امثا 28:‏13‏)‏ اور اگر وہ لوگ توبہ نہیں کرتے تو اُنہیں پتہ چل جاتا ہے کہ ”‏زندہ خدا کے ہاتھوں میں پڑنا بہت ہول‌ناک ہے۔‏“‏—‏عبر 10:‏30،‏ 31‏۔‏

شریعت کے ذریعے کن کو خاص طور پر تحفظ ملا؟‏

اِختلافات کو سلجھاتے وقت بزرگوں کو یہوواہ کی طرح لوگوں کے ساتھ محبت اور اِنصاف سے پیش آنا تھا۔‏ (‏پیراگراف نمبر 22 کو دیکھیں۔‏)‏ *

22-‏24.‏ ‏(‏الف)‏ شریعت کے ذریعے کن لوگوں کو خاص طور پر تحفظ فراہم کِیا گیا؟‏ (‏ب)‏ خروج 22:‏22-‏24 میں کس بات سے خبردار کِیا گیا؟‏

22 شریعت کے ذریعے اُن لوگوں کو خاص طور پر تحفظ فراہم کِیا گیا جو خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتے تھے جیسے کہ یتیموں،‏ بیواؤں اور پردیسیوں کو۔‏ اِسرائیلی قاضیوں کو یہ حکم دیا گیا تھا:‏ ”‏تُو پردیسی یا یتیم کے مُقدمہ کو نہ بگاڑنا اور نہ بیوہ کے کپڑے کو گِرو رکھنا۔‏“‏ (‏اِست 24:‏17‏)‏ یہوواہ نے اُن لوگوں کے لیے خاص فکرمندی ظاہر کی جو بےسہارا تھے۔‏ اور جو لوگ اُن کے ساتھ بدسلوکی کرتے تھے،‏ اُس نے اُنہیں سزا دی۔‏‏—‏خروج 22:‏22-‏24 کو پڑھیں۔‏

23 شریعت میں قریبی رشتےداروں کے درمیان جنسی تعلقات پر پابندی لگائی گئی تاکہ خاندان کے افراد جنسی جرائم سے محفوظ رہیں۔‏ (‏احبا 18:‏6-‏30‏)‏ بنی‌اِسرائیل کے اِردگِرد کی قومیں تو اِس طرح کے جُرم کو نہ صرف برداشت کرتی تھیں بلکہ اِسے جائز بھی قرار دیتی تھیں۔‏ لیکن یہوواہ کے بندوں کو اُس کی طرح ایسی حرکتوں سے گھن کھانی تھی۔‏

24 ہم کیا سیکھتے ہیں؟‏ یہوواہ چاہتا ہے کہ جن اشخاص کے پاس اِختیار ہے،‏ وہ اُن لوگوں کے لیے حقیقی فکرمندی ظاہر کریں جن کی دیکھ‌بھال کی ذمےداری اُس نے اُنہیں سونپی ہے۔‏ اُسے جنسی جرائم سے سخت نفرت ہے اور وہ چاہتا ہے کہ سب لوگوں،‏ خاص طور پر بےسہارا لوگوں کو تحفظ اور اِنصاف ملے۔‏

شریعت—‏’‏آنے والی اچھی چیزوں کا سایہ‘‏

25،‏ 26.‏ ‏(‏الف)‏ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ محبت اور اِنصاف کا تعلق سانس اور زندگی کے تعلق جیسا ہے؟‏ (‏ب)‏ اِس سلسلے کے اگلے مضمون میں کس بارے میں بات کی جائے گی؟‏

25 محبت اور اِنصاف کا تعلق ایسے ہی ہے جیسے سانس اور زندگی کا تعلق۔‏ دونوں ہی ایک دوسرے کے بغیر قائم نہیں رہ سکتیں۔‏ جب ہمیں اِس بات کا پورا یقین ہوتا ہے کہ یہوواہ ہمارے ساتھ اِنصاف سے پیش آتا ہے تو اُس کے لیے ہماری محبت بڑھتی ہے۔‏ اور جب ہم خدا اور اُس کے نیک معیاروں سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں دوسروں کے ساتھ محبت اور اِنصاف سے پیش آنے کی ترغیب ملتی ہے۔‏

26 موسیٰ کی شریعت کے ذریعے جو عہد باندھا گیا،‏ اُس نے بنی‌اِسرائیل اور یہوواہ کے رشتے میں جان ڈال دی۔‏ لیکن پھر جب یسوع نے شریعت کو پورا کِیا تو خدا کے بندے شریعت کے پابند نہیں رہے اور اِس کی جگہ بہتر چیز نے لے لی۔‏ (‏روم 10:‏4‏)‏ پولُس رسول نے بتایا کہ ”‏شریعت آنے والی اچھی چیزوں کا محض سایہ“‏ تھی۔‏ (‏عبر 10:‏1‏)‏ اِس سلسلے کے اگلے مضمون میں اِن میں سے کچھ ”‏اچھی چیزوں“‏ پر بات کی جائے گی اور بتایا جائے گا کہ مسیحی کلیسیا میں محبت اور اِنصاف کی کیا اہمیت ہے۔‏

گیت نمبر 25‏:‏ سچے مسیحیوں کی پہچان

^ پیراگراف 5 یہ مضمون اُن چار مضامین میں سے پہلا ہے جن میں ہمارے اِس یقین کو مضبوط کِیا جائے گا کہ یہوواہ کو ہماری فکر ہے۔‏ باقی تین مضامین ”‏مینارِنگہبانی“‏ کے مئی 2019ء کے شمارے میں شائع کیے جائیں گے۔‏ اُن مضامین کے عنوان یہ ہوں گے:‏ ”‏مسیحی کلیسیا میں محبت اور اِنصاف کی اہمیت‏،‏“‏ ”‏بُرائی سے بھری دُنیا میں محبت اور اِنصاف‏“‏ اور ”‏زیادتی کا شکار ہونے والوں کو تسلی کیسے دیں؟‏‏“‏

^ پیراگراف 2 اِصطلاح کی وضاحت:‏ یہوواہ نے موسیٰ کے ذریعے بنی‌اِسرائیل کو 600 سے زیادہ حکم دیے۔‏ اِن حکموں کو ”‏شریعت،‏“‏ ‏”‏موسیٰ کی شریعت“‏ اور ”‏موسوی شریعت“‏ کہا جاتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ بائبل کی پہلی پانچ کتابوں (‏پیدایش سے اِستثنا)‏ کو بھی اکثر شریعت کہا جاتا ہے۔‏ لفظ شریعت کبھی کبھار تمام عبرانی صحیفوں کا حوالہ دینے کے لیے بھی اِستعمال کِیا جاتا ہے۔‏

^ پیراگراف 60 تصویر کی وضاحت‏:‏ قدیم زمانے میں ایک اِسرائیلی ماں کھانا پکانے کی تیاری کرتے وقت اپنی بیٹیوں کے ساتھ خوش‌گوار ماحول میں بات‌چیت کر رہی ہے۔‏ تصویر میں پیچھے باپ اپنے بیٹے کو بھیڑوں کی دیکھ‌بھال کرنا سکھا رہا ہے۔‏

^ پیراگراف 64 تصویر کی وضاحت‏:‏ شہر کے پھاٹک پر قدیم اِسرائیل کے بزرگ بڑی شفقت سے ایک ماں اور اُس کے بیٹے کی بات سُن رہے ہیں جن کے ساتھ ایک مقامی تاجر نے نااِنصافی کی ہے۔‏