آپبیتی
یہوواہ نے ہمیشہ ’میرے راستوں کو ہموار‘ کِیا ہے
ایک بار ایک جوان بھائی نے مجھ سے پوچھا: ”آپ کی پسندیدہ آیت کون سی ہے؟“ مَیں نے فوراً اُسے جواب دیا: ”امثال 3 باب کی 5 اور 6 آیتیں جہاں لکھا ہے: ”[یہوواہ] پر اپنے سارے دل سے بھروسا رکھ۔ اور اپنی عقل پر اِعتبار نہ کر۔ اپنی تمام راہوں میں اُس کو پہچان۔ تو وہ تیرے رستوں کو ہموار کر دے گا۔““ (کیتھولک ترجمہ) اور واقعی یہوواہ نے ہمیشہ میرے راستوں کو ہموار کِیا ہے۔ آئیں، مَیں آپ کو بتاتا ہوں کہ کیسے۔
میرے والدین نے صحیح راستہ اپنانے میں میری مدد کی
میرے والدین نے 1920ء کے دہے میں سچائی سیکھی جب اُن کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ مَیں 1939ء میں اِنگلینڈ میں پیدا ہوا۔ جب مَیں چھوٹا تھا تو مَیں اپنے امی ابو کے ساتھ اِجلاسوں پر جاتا تھا اور مَیں نے مسیحی خدمتی سکول میں اپنا نام لکھوایا۔ مجھے وہ وقت آج بھی یاد ہے جب مَیں نے اپنی پہلی تقریر کی۔ اُس وقت مَیں صرف چھ سال کا تھا۔ مَیں لکڑی کے ایک ڈبے پر کھڑا ہوا تھا اور جب مَیں نے پلیٹفارم سے سامعین کو دیکھا تو مَیں بہت گھبرا گیا۔
میرے ابو نے مجھے ایک کارڈ پر ایک سادہ سی پیشکش ٹائپ کر کے دی تاکہ مَیں اِسے مُنادی کرتے ہوئے اِستعمال کر سکوں۔ جب مَیں پہلی بار اکیلے ایک گھر پر مُنادی کرنے کے لیے گیا تو اُس وقت مَیں صرف آٹھ سال کا تھا۔ جب صاحبِخانہ نے میرا کارڈ پڑھا اور کتاب ”خدا سچا ٹھہرے“ قبول کر لی تو میری خوشی کا تو جیسے کوئی ٹھکانا ہی نہیں رہا۔ مَیں یہ بات بتانے کے لیے بھاگا بھاگا اپنے ابو کے پاس گیا جو اُسی گلی میں کام کر رہے تھے۔ مجھے مُنادی کرنے اور اِجلاسوں پر جانے سے بڑی خوشی ملتی تھی اور اِن سے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مَیں کُلوقتی طور پر یہوواہ کی خدمت کروں۔
بائبل کی سچائیاں میرے دل پر اُس وقت اَور بھی زیادہ اثر کرنے لگیں جب ابو نے میرے لیے ”مینارِنگہبانی“ کا رسالہ لگوایا۔ جیسے ہی رسالے کی ڈاک آتی، مَیں فوراً اِسے پڑھنے لگ جاتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہوواہ پر میرا بھروسا بڑھتا گیا اور مَیں نے اُس کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔
سن 1950ء میں مَیں اور میرے گھر والے نیو یارک میں منعقد ہونے والے اِجتماع پر گئے۔ جمعرات، 3 اگست کے لیے یہ موضوع چُنا گیا: ”مشنریوں کا دن۔“ اُس دن بھائی کیری باربر نے بپتسمے کی تقریر کی۔ بھائی کیری بعد میں گورننگ باڈی کا حصہ بن گئے۔ جب بھائی کیری نے تقریر کے آخر پر بپتسمے کے اُمیدواروں سے دو سوال پوچھے تو مَیں نے کھڑے ہو کر ”ہاں“ میں جواب دیا۔ حالانکہ اُس وقت مَیں 11 سال کا تھا لیکن مَیں اِس بات کو اچھی طرح سے
سمجھتا تھا کہ مَیں نے ایک اہم قدم اُٹھایا ہے۔ البتہ جب بپتسمہ لینے کی بات آئی تو مَیں ڈرا ہوا تھا کیونکہ مَیں نے ابھی تیرنا نہیں سیکھا تھا۔ میرے انکل میرے ساتھ اُس جگہ گئے جہاں بپتسمے دیے جا رہے تھے۔ اُنہوں نے مجھے دِلاسا دیا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ اور واقعی مجھے پتہ بھی نہیں چلا کہ میرا بپتسمہ ہو گیا۔ ایک بھائی نے مجھے فوراً سے بپتسمہ دیا اور دوسرے نے تالاب سے نکال لیا۔ میرے تو پاؤں بھی زمین پر نہیں لگے۔ اُس اہم دن کے بعد سے یہوواہ ہمیشہ میرے راستوں کو ہموار کرتا رہا۔یہوواہ پر بھروسا کرنے کا فیصلہ
جب مَیں نے سکول ختم کِیا تو مَیں پہلکار بننا چاہتا تھا لیکن میرے اُستادوں نے مجھ پر دباؤ ڈالا کہ مَیں اعلیٰ تعلیم حاصل کروں۔ مَیں اُن کی باتوں میں آ گیا اور یونیورسٹی چلا گیا۔ مگر جلد ہی مجھے یہ احساس ہو گیا کہ مَیں ایک ہی وقت میں اپنی تعلیم پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ خدا کے ساتھ اپنی دوستی مضبوط نہیں رکھ سکتا۔ اِس لیے مَیں نے یونیورسٹی چھوڑنے کا فیصلہ کِیا۔ مَیں نے اِس معاملے کو دُعا میں یہوواہ کے سامنے رکھا اور جب یونیورسٹی میں میرا پہلا سال ختم ہو گیا تو مَیں نے خط میں بڑے احترام سے اپنے اُستادوں کو بتایا کہ مَیں آگے اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ سکتا۔ یہوواہ پر پورا بھروسا کرتے ہوئے مَیں نے فوراً پہلکار کے طور پر خدمت شروع کر دی۔
جولائی 1957ء میں مَیں نے شہر ویلنگ برا میں کُلوقتی خدمت کا آغاز کِیا۔ مَیں نے لندن بیتایل میں بھائیوں سے درخواست کی کہ وہ مجھے کسی ایسے تجربہکار پہلکار بھائی کے بارے میں بتائیں جس کے ساتھ مَیں خدمت کر سکوں۔ اِس پر بھائیوں نے بھائی برٹ ویسی کا نام تجویز کِیا۔ بھائی برٹ نے مجھے بہت سی اچھی باتیں سکھائیں۔ وہ بڑی لگن سے مُنادی کرتے تھے اور اُن کی مدد سے مَیں نے مُنادی کرنے کا ایک اچھا شیڈول قائم کرنا سیکھا۔ جس کلیسیا میں ہمیں بھیجا گیا، وہاں میرے اور بھائی برٹ کے علاوہ بس چھ عمررسیدہ بہنیں تھیں۔ تمام اِجلاسوں کی تیاری کرنے اور اِن میں حصہ لینے سے مجھے یہوواہ پر بھروسا کرنے اور اپنے ایمان کا اِظہار کرنے کے بہت سے موقعے ملے۔
جب ایک بار مجھے فوج میں بھرتی ہونے کو کہا گیا تو مَیں نے اِس سے اِنکار کر دیا جس پر مجھے تھوڑے عرصے کے لیے قید میں ڈال دیا گیا۔ قید سے رِہا ہونے کے کچھ عرصے بعد مَیں بابرا نامی ایک خصوصی پہلکار سے ملا۔ ہم نے 1959ء میں شادی کر لی۔ ہم دونوں ہی یہوواہ کی خدمت کرنے کے لیے کسی بھی جگہ جانے کو تیار تھے۔ سب سے پہلے ہمیں شمال مغربی اِنگلینڈ کے صوبے لنکاشائر میں بھیجا گیا۔ پھر جنوری 1961ء میں مجھے لندن بیتایل میں بادشاہتی خدمتی سکول پر جانے کی دعوت ملی جو کہ ایک مہینے کا کورس تھا۔ مَیں اُس وقت بہت حیران ہوا جب کورس کے آخر پر مجھے سفری نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کے لیے مقرر کِیا گیا۔ مَیں نے دو ہفتے شہر برمنگھم میں ایک تجربہکار حلقے کے نگہبان سے تربیت حاصل کی۔ اُس وقت بابرا بھی میرے ساتھ تھیں۔ اِس کے بعد ہمیں واپس لنکاشائر بھیجا گیا اور مَیں نے وہاں پر اور چیشائر کے صوبے میں سفری نگہبان کے طور پر خدمت کی۔
یہوواہ پر بھروسا کرنے سے کبھی مایوسی نہیں ہوتی
اگست 1962ء میں جب ہم چھٹی پر تھے تو اِس دوران ہمیں برانچ کی طرف سے ایک خط ملا۔ اِس خط کے ساتھ گلئیڈ سکول میں حاضر ہونے کی درخواست بھی تھی۔ ہم نے یہوواہ سے دُعا کی اور اِس کے بعد مَیں نے اور بابرا نے فارم پُر کر کے فوراً برانچ کو بھیج دیے۔ پانچ مہینے بعد ہم گلئیڈ سکول کی 38ویں کلاس پر حاضر ہونے کے لیے شہر نیو یارک کے سفر پر روانہ ہوئے اور وہاں دس مہینے کا کورس کِیا۔
گلئیڈ سکول میں ہم نے صرف خدا کے کلام اور اُس کی تنظیم کے بارے میں
ہی بہت سی اچھی باتیں نہیں سیکھیں بلکہ ہم نے پوری دُنیا میں رہنے والے اپنے بہن بھائیوں کے بارے میں بھی بہت کچھ سیکھا۔ ہماری عمریں 25 کے لگ بھگ تھیں اور ہمیں اپنی کلاس کے دیگر طالبِعلموں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ یہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ مجھے ہر دن بھائی فریڈ رسک کے ساتھ بیتایل میں کام کرنے کا موقع ملا جو کہ ہمارے اُستادوں میں سے ایک تھے۔ بھائی فریڈ جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا کرتے تھے، وہ یہ تھی کہ ہم جب بھی کسی کو مشورہ دیں، اِس بات کا خیال رکھیں کہ یہ بائبل پر مبنی ہو۔ کورس کے دوران جن تجربہکار بھائیوں نے لیکچر دیے، اُن میں بھائی ناتھن نار، بھائی فریڈرک فرینز اور بھائی کارل کلائن شامل تھے۔ اِس کے علاوہ ہم سب نے بھائی میکمِلن کی مثال سے بہت کچھ سیکھا جو بڑے ہی خاکسار تھے۔ اُنہوں نے اپنے لیکچر میں ہمیں یہ بتایا کہ جب بھائی 1914ء سے 1919ء کے عرصے کے دوران مشکل وقت سے گزرے تو یہوواہ نے کیسے اُن کی رہنمائی کی۔نئے ملکوں میں خدمت
جب گلئیڈ سکول کے ختم ہونے میں تھوڑا وقت رہ گیا تھا تو بھائی نار نے مجھے اور بابرا کو بتایا کہ ہمیں افریقہ کے ملک بُرونڈی میں خدمت کرنے کے لیے بھیجا جائے گا۔ ہم فوراً بیتایل کی لائبریری میں گئے جہاں ہم سالانہ کتاب میں یہ ڈھونڈنے لگے کہ بُرونڈی میں اُس وقت کتنے مبشر تھے۔ ہم بڑے حیران ہوئے جب ہمیں کہیں بھی اُن کی تعداد دیکھنے کو نہیں ملی۔ ہمیں یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ہم ایک ایسے ملک میں خدمت کرنے جا رہے ہیں جہاں پہلے کبھی مُنادی نہیں ہوئی تھی۔ اِس کے علاوہ یہ ملک افریقہ میں تھا یعنی ایک ایسے برِاعظم میں جس کے بارے میں ہم زیادہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ ہم بہت گھبرا گئے۔ لیکن بہت دُعائیں کرنے کے بعد ہم تھوڑے پُرسکون ہو گئے۔
نئی جگہ پر خدمت کرتے وقت ہمیں نئی نئی باتوں کا تجربہ ہوا، مثلاً نئے موسم کا، نئی ثقافت کا اور نئی زبان کا۔ یہاں ہمیں فرانسیسی زبان سیکھنی تھی اور رہنے کے لیے جگہ بھی ڈھونڈنی تھی۔ ہمارے یہاں آنے کے دو دن بعد بھائی ہیری آرنوٹ جو کہ گلئیڈ سکول میں ہماری کلاس میں تھے، ہم سے ملنے کے لیے آئے۔ اُس وقت وہ زمبیا واپس جا رہے تھے جہاں اُنہیں خدمت کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اُنہوں نے ایک فلیٹ ڈھونڈنے میں ہماری مدد کی جو کہ ہمارا پہلا مشنری ہوم بنا۔ لیکن جلد ہی حکومت نے ہماری مخالفت کرنی شروع کر دی۔ وہ یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی تھی۔ ہمیں ابھی نئی خدمت کو کرنے میں مزہ آنے ہی لگا تھا کہ افسروں نے ہمیں بتایا کہ ہم تب تک ملک میں نہیں رہ سکتے جب تک ہمارے پاس کام کرنے کا اِجازتنامہ نہ ہو۔ لہٰذا ہمیں بُرونڈی چھوڑ کر ایک نئے ملک جانا پڑا۔ اِس بار یہ ملک یوگنڈا تھا۔
ہم بڑے ڈرے ہوئے تھے کیونکہ ہم بغیر ویزے کے یوگنڈا جا رہے تھے۔ لیکن یہوواہ پر بھروسا کر کے ہم اپنی منزل کی طرف چل پڑے۔ یوگنڈا میں کینیڈا کا ایک بھائی تھا جو وہاں خدمت کرنے کے لیے گیا ہوا تھا۔ اُس نے امیگریشن
کے افسر کو ہماری صورتحال بتائی۔ اُس افسر نے ہمیں اِجازت دے دی کہ جب تک ہمیں ویزا نہیں مل جاتا، ہم کچھ مہینے تک وہاں رہ سکتے ہیں۔ اِس سے ہمیں یقین ہوا کہ یہوواہ ہماری مدد کر رہا ہے۔یوگنڈا میں خدمت کرنا بُرونڈی میں خدمت کرنے سے بالکل فرق تھا۔ یوگنڈا میں پہلے سے ہی مُنادی کا کام ہو رہا تھا حالانکہ اُس پورے ملک میں صرف 28 گواہ تھے۔ جس علاقے میں ہم خدمت کر رہے تھے، وہاں بہت سے لوگ انگریزی بول سکتے تھے۔ لیکن جلد ہی ہمیں یہ احساس ہوا کہ اگر ہم نئے لوگوں کی شاگرد بننے میں مدد کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کم از کم ایک مقامی زبان تو ضرور سیکھنی پڑے گی۔ ہم نے شہر کمپالا میں مُنادی کرنی شروع کر دی جہاں بہت سے لوگ لوگینڈہ زبان بولتے تھے۔ اِس لیے ہم نے سوچا کہ ہم اِسی زبان کو سیکھیں گے۔ حالانکہ اِس زبان کو روانی سے بولنے میں ہمیں کئی سال لگے لیکن اِس کا ہمارے مُنادی کے کام پر بہت اچھا اثر پڑا۔ ہم یہ سمجھ پائے کہ ہم اپنے طالبِعلموں کی روحانی طور پر مدد کیسے کر سکتے ہیں۔ جب ہمارے طالبِعلموں نے دیکھا کہ ہمیں اُن کی کتنی فکر ہے تو وہ ہم سے کُھل کر اپنے جذبات کا اِظہار کرنے لگے اور یہ بتانے لگے کہ اُنہیں وہ باتیں کیسی لگتی ہیں جو وہ سیکھ رہے ہیں۔
مختلف ملکوں کا دورہ
ہمیں لوگوں کو پاک کلام کی سچائیاں سکھا کر بہت خوشی ملتی تھی اور یہ خوشی اُس وقت دوبالا ہو گئی جب مجھے ملک کے مختلف علاقوں میں سفری نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کو کہا گیا۔ کینیا برانچ کی ہدایت کے مطابق ہم نے پورے ملک میں ایسے علاقے ڈھونڈے جہاں خصوصی پہلکاروں کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ اِس دوران کئی بار ایسے لوگوں نے ہماری بڑی مہماننوازی کی جو پہلے کبھی یہوواہ کے گواہوں سے نہیں ملے تھے۔ اُنہوں نے ہمیں اپنے گھروں کے اندر بلایا، یہاں تک کہ ہمارے لیے کھانا بھی بنایا۔
بعد میں ہم نے اَور ملکوں کا سفر بھی کِیا۔ مَیں نے شہر کمپالا سے ٹرین میں دو دن کا سفر کِیا اور کینیا کے شہر ممباسا پہنچا۔ پھر وہاں سے مَیں ایک بحری جہاز سے سیشلز گیا جو بحرِہند میں واقع کچھ جزیرے ہیں۔ 1965ء سے لے کر 1972ء تک بابرا بھی میرے ساتھ باقاعدگی سے سیشلز کا دورہ کرنے لگیں۔ شروع شروع میں وہاں صرف دو مبشر تھے۔ لیکن بعد میں وہاں ایک گروپ قائم ہو گیا اور پھر ایک کلیسیا بن گئی۔ اِن جگہوں کے علاوہ مَیں نے ایریٹریا، ایتھیوپیا اور سوڈان کا بھی دورہ کِیا۔
اُس عرصے میں ملک یوگنڈا میں فوجی حکومت نے اِختیار سنبھالا اور اِس وجہ سے ملک میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں آنے لگیں۔ اِن کٹھن سالوں میں ہم نے سیکھا کہ بائبل کی اِس ہدایت پر عمل کرنا واقعی دانشمندی کی بات ہے: ”جو چیزیں قیصر کی ہیں، قیصر کو دیں۔“ (مر 12:17) ایک وقت تو ایسا آیا کہ ملک یوگنڈا کی حکومت نے تمام غیرملکیوں کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنے گھر کی سب سے قریبی پولیس چوکی میں جا کر اپنا نام درج کرائیں۔ ہم نے ایسا کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی۔ اِس کے کچھ دن بعد جب مَیں اور ایک اَور مشنری کمپالا میں گاڑی چلا کر کہیں جا رہے تھے تو خفیہ پولیس نے ہمیں روک لیا۔ ہمارے دل زورزور سے دھڑکنے لگے۔ اُنہوں نے ہم پر جاسوس ہونے کا اِلزام لگایا اور ہمیں اپنے مرکزی تھانے لے گئے جہاں ہم نے اُنہیں یہ یقین دِلانے کی کوشش کی کہ ہم امنپسند مشنری ہیں۔ حالانکہ ہم نے اُنہیں بتایا کہ ہم نے اپنے نام پولیس چوکی میں لکھوائے ہوئے ہیں لیکن اُنہوں نے ہماری بات کو بالکل اَنسنا کر دیا۔ اُنہوں نے ہمیں گِرفتار کر لیا اور اُسی پولیس چوکی میں لے گئے جو مشنریوں کے گھر کے نزدیک تھی۔ وہاں ایک ایسا افسر تھا جو ہمیں پہچانتا تھا اور یہ جانتا تھا کہ ہم نے اپنے نام درج کروائے ہوئے ہیں۔ اِس لیے اُس نے پولیس سے کہا کہ وہ ہمیں رِہا کر دیں۔ اُس کی بات سُن کر ہماری جان میں جان آئی۔
اُن دنوں ہمیں اکثر فوجی چیک پوائنٹ پر روکا جاتا تھا اور ہر بار وہاں سے گزرتے وقت ہماری جان سُولی پر اٹکی ہوتی تھی، خاص طور پر اُس وقت جب ہمیں ایسے فوجی روکتے تھے جو شراب کے نشے میں دُھت ہوتے تھے۔ ہم ہر بار دُعا کرتے اور ہمیں اُس وقت بڑا ہی سکون ملتا جب وہ ہمیں جانے کی
اِجازت دے دیتے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ 1973ء میں تمام غیرملکی مشنریوں کو یوگنڈا چھوڑنے کو کہا گیا۔اب ہمیں ایک بار پھر ایک نئے ملک میں جا کر خدمت کرنے کو کہا گیا۔ اِس بار یہ مغربی افریقہ کا ملک آئیوری کوسٹ تھا۔ ہماری زندگی میں ایک مرتبہ پھر بڑی تبدیلی آنے والی تھی۔ ہمیں ایک بالکل نئی ثقافت کو سیکھنا تھا اور پھر سے فرانسیسی زبان بولنی تھی۔ اِس کے علاوہ ہمیں مختلف ملکوں سے آئے مشنریوں کے ساتھ رہنا تھا۔ لیکن جب ہم نے دیکھا کہ مُنادی میں خاکسار لوگ کتنے خلوص سے بادشاہت کے پیغام کو قبول کر رہے ہیں تو ہمیں دوبارہ محسوس ہوا کہ یہوواہ ہماری رہنمائی کر رہا ہے۔ مَیں نے اور بابرا نے دیکھا کہ یہوواہ پر بھروسا کرنے سے ہمارے راستے ہموار ہوئے ہیں۔
مگر پھر اچانک ہمیں یہ پتہ چلا کہ بابرا کو کینسر ہے۔ ہم اُن کے علاج کے لیے کئی بار یورپ آئے۔ لیکن 1983ء میں ہمیں پوری طرح سے یہ احساس ہو گیا کہ اب ہمارے لیے افریقہ میں خدمت جاری رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ ہم دونوں کو ہی اِس بات کا بہت دُکھ تھا۔
حالات کا رُخ بدل گیا
جب ہم لندن بیتایل میں خدمت کر رہے تھے تو بابرا کا کینسر بگڑ گیا اور وہ فوت ہو گئیں۔ دُکھ کی اِس گھڑی میں بیتایل کے بہن بھائیوں نے مجھے بڑا سہارا دیا۔ خاص طور پر ایک جوڑے نے نئے حالات کے مطابق ڈھلنے اور یہوواہ پر اپنے بھروسے کو مضبوط رکھنے میں میری بہت مدد کی۔ کچھ عرصے بعد میری ملاقات این نامی بہن سے ہوئی جو بیتایل میں کچھ دن کام کرنے کے لیے آتی تھیں۔ وہ پہلے خصوصی پہلکار کے طور پر خدمت کر چُکی تھیں اور یہوواہ سے بہت پیار کرتی تھیں۔ ہم نے 1989ء میں شادی کر لی اور تب سے ہم برطانیہ برانچ میں خدمت کر رہے ہیں۔
سن 1995ء سے لے کر 2018ء تک مجھے مرکزی دفتر کے نمائندے کے طور پر خدمت کرنے کا اعزاز ملا۔ مَیں نے تقریباً 60 ملکوں میں ہماری برانچوں کا دورہ کِیا۔ ہر دورے پر مَیں نے اِس بات کا واضح ثبوت دیکھا کہ یہوواہ اپنے بندوں کا ہر حال میں خیال رکھتا ہے۔
سن 2017ء مَیں مجھے مرکزی دفتر کے نمائندے کے طور پر افریقہ بھیجا گیا۔ مجھے این کو بُرونڈی لے جا کر بہت خوشی ملی۔ ہم دونوں ہی یہ دیکھ کر بڑے حیران ہوئے کہ وہاں کتنے سارے لوگوں نے سچائی قبول کر لی ہے۔ جس گلی میں مَیں نے 1964ء میں گھر گھر مُنادی کی تھی، اب وہاں بیتایل کی خوبصورت عمارت ہے جہاں سے 15 ہزار 500 سے زیادہ مبشروں کے کام کی نگرانی کی جاتی ہے۔
جب مجھے اُن ملکوں کی فہرست ملی جن میں مَیں نے 2018ء میں دورہ کرنا تھا تو اِسے دیکھ کر مَیں بہت خوش ہوا۔ فہرست میں آئیوری کوسٹ کا ملک بھی شامل تھا۔ جب ہم آئیوری کوسٹ کے دارالحکومت آبیدجان گئے تو مجھے ایسے لگا جیسے مَیں اپنے ملک واپس آ گیا ہوں۔ بیتایل میں رہتے ہوئے جب مَیں نے وہاں کے فون کی ڈائریکٹری دیکھی تو میری نظر ایک ایسے بھائی کے نام پر پڑی جس کا کمرا ہمارے کمرے کے برابر تھا۔ اُس کا نام سوسُو تھا۔ مجھے یاد آیا کہ وہ کون تھا۔ جب مَیں پہلے آبیدجان میں تھا تو وہ وہاں شہر کے نگہبان کے طور پر خدمت کر رہا تھا۔ لیکن مجھے غلطفہمی ہو گئی تھی۔ یہ وہ سوسُو نہیں تھا جس کے بارے مَیں سوچ رہا تھا بلکہ یہ اُسی بھائی کا بیٹا تھا۔
یہوواہ اپنی بات کا سچا ثابت ہوا ہے۔ مَیں نے اپنی زندگی میں جو مشکل وقت دیکھے، اُن سے مَیں نے یہ جانا کہ جب ہم یہوواہ پر بھروسا کرتے ہیں تو وہ واقعی ہمارے راستوں کو ہموار کرتا ہے۔ میرا عزم ہے کہ مَیں نہ صرف اب بلکہ نئی دُنیا میں بھی اِس راستے پر چلتا رہوں گا۔ اُس وقت یہ راستہ اَور بھی روشن ہوگا۔—امثا 4:18۔