مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏خوشی سے یہوواہ کی عبادت‘‏ کرنے میں پناہ‌گزینوں کی مدد کریں

‏’‏خوشی سے یہوواہ کی عبادت‘‏ کرنے میں پناہ‌گزینوں کی مدد کریں

‏”‏[‏یہوواہ]‏ پردیسیوں کی حفاظت کرتا ہے۔‏“‏‏—‏زبور 146:‏9‏۔‏

گیت:‏ 25،‏  42

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ ہمارے کچھ بہن بھائی کس مشکل وقت سے گزر رہے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اِس سلسلے میں کون سے سوال اُٹھتے ہیں؟‏

ملک بُرونڈی سے تعلق رکھنے والے بھائی لیجے نے کہا:‏ ”‏جب بُرونڈی میں خانہ‌جنگی شروع ہوئی تو مَیں اپنے گھر والوں کے ساتھ ایک اِجتماع پر تھا۔‏ ہر طرف فائرنگ ہو رہی تھی اور لوگ اپنی جان بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے۔‏ میرے والدین اور ہم 11 بہن بھائی بھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگنے لگے۔‏ آخرکار 1600 کلومیٹر (‏1000 میل)‏ کا سفر طے کرنے کے بعد ہم میں سے کچھ گھر والے تو ملک ملاوی کے ایک پناہ‌گزین کیمپ پہنچ گئے لیکن باقی راستے میں ہی بچھڑ گئے۔‏“‏

2 پوری دُنیا میں 6 کروڑ 50 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو جنگ یا اذیت کی وجہ سے اپنا گھربار چھوڑنا پڑا۔‏ دُنیا میں پہلے کبھی اِتنے زیادہ پناہ‌گزین نہیں تھے۔‏ * اِن میں ہزاروں یہوواہ کے گواہ بھی شامل ہیں۔‏ بہت سے پناہ‌گزین اپنا سب کچھ کھو بیٹھے،‏ یہاں تک کہ اُن کے رشتےداروں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔‏ اِن پناہ‌گزینوں کو اَور کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟‏ ہم اپنے پناہ‌گزین بہن بھائیوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں تاکہ وہ اِن مشکلات کے باوجود ”‏خوشی سے [‏یہوواہ]‏ کی عبادت“‏ کرتے رہیں؟‏ (‏زبور 100:‏2‏)‏ اور پناہ‌گزینوں کو خوش‌خبری سناتے وقت ہمیں کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟‏

پناہ‌گزینوں کی زندگی

3.‏ یسوع اور اُن کے بہت سے شاگردوں کو پناہ‌گزینوں کی زندگی کیوں گزارنی پڑی؟‏

3 یسوع نے بھی کچھ وقت کے لیے مصر میں پناہ‌گزین کی زندگی گزاری۔‏ یہ اُس وقت کی بات ہے جب یہوواہ کے فرشتے نے یوسف کو بتایا کہ بادشاہ ہیرودیس یسوع کو مار ڈالنا چاہتا ہے۔‏ وہ ہیرودیس کی موت تک مصر میں رہے۔‏ (‏متی 2:‏13،‏ 14،‏ 19-‏21‏)‏ اِس کے بہت سال بعد جب یسوع مسیح کے شاگردوں کو اذیت دی گئی تو وہ اپنے اپنے گھر چھوڑ کر ”‏یہودیہ اور سامریہ کے علاقوں میں چلے گئے۔‏“‏ (‏اعمال 8:‏1‏)‏ یسوع مسیح نے پیش‌گوئی کی کہ اُن کے بہت سے شاگردوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑے گا۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏جب وہ آپ کو ایک شہر میں اذیت پہنچائیں تو دوسرے شہر کو بھاگ جائیں۔‏“‏ (‏متی 10:‏23‏)‏ اِس میں کوئی شک نہیں کہ پناہ‌گزینوں کی زندگی کبھی آسان نہیں ہوتی۔‏

4،‏ 5.‏ ‏(‏الف)‏ پناہ‌گزینوں کو راستے میں کن خطروں کا سامنا ہوتا ہے؟‏ (‏ب)‏ پناہ‌گزین کیمپوں میں لوگوں کو کن خطروں کا سامنا ہوتا ہے؟‏

4 جن لوگوں کو اپنے گھر چھوڑ کر بھاگنا پڑتا ہے یا پھر پناہ‌گزین کیمپوں میں رہنا پڑتا ہے،‏ اُن کو بہت سے خطروں کا سامنا ہوتا ہے۔‏ لیجے کے چھوٹے بھائی گید بتاتے ہیں:‏ ”‏ہم نے کئی ہفتوں تک پیدل سفر کِیا اور راستے میں سینکڑوں لاشیں دیکھیں۔‏ مَیں 12 سال کا تھا۔‏ میرے پاؤں اِتنے سُوجھ گئے تھے کہ مجھ میں اَور چلنے کی ہمت نہیں رہی اور مَیں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ وہ مجھے یہیں چھوڑ جائیں۔‏ لیکن میرے ابو مجھے باغیوں کی فوج کے رحم‌وکرم پر نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔‏ اُنہوں نے مجھے اپنی بانہوں میں اُٹھا کر سفر جاری رکھا۔‏ ہم ہر روز یہوواہ سے مدد مانگتے تھے اور اُس پر بھروسا کر کے آگے بڑھتے تھے۔‏ کبھی کبھار ہمیں راستے میں پیڑوں سے آم توڑ توڑ کر کھانے پڑتے تھے کیونکہ ہمیں کھانے کو کچھ اَور نہیں ملتا تھا۔‏“‏—‏فِلپّیوں 4:‏12،‏ 13‏۔‏

5 بھائی لیجے کے زیادہ‌تر گھر والوں نے کئی سال اقوامِ‌متحدہ کے پناہ‌گزین کیمپوں میں گزارے۔‏ وہاں بھی زندگی خطروں سے خالی نہیں تھی۔‏ بھائی لیجے جو اب حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کر رہے ہیں،‏ وہ کیمپ کے بارے میں بتاتے ہیں:‏ ”‏زیادہ‌تر لوگوں کے پاس کوئی کام‌کاج نہیں تھا۔‏ اِس لیے اُن کا زیادہ‌تر وقت دوسروں کی بُرائیاں کرنے،‏ شراب پینے،‏ جُوا کھیلنے،‏ چوریاں کرنے اور بدکاری کرنے میں گزرتا۔‏“‏ اُس بُرے ماحول سے بچنے کے لیے یہوواہ کے گواہ اپنی کلیسیا کے ساتھ خدا کی خدمت میں مصروف رہتے تھے۔‏ (‏عبرانیوں 6:‏11،‏ 12؛‏ 10:‏24،‏ 25‏)‏ اُنہوں نے اپنے ایمان کو مضبوط رکھنے کے لیے اپنا وقت سمجھ‌داری سے اِستعمال کِیا،‏ یہاں تک کہ بہت سے بہن بھائی پہل‌کار کے طور پر خدمت کرنے لگے۔‏ وہ اِس بات کو ذہن میں رکھتے تھے کہ جس طرح بنی‌اِسرائیل کو ویرانے میں کٹھن زندگی سے چھٹکارا مل گیا اِسی طرح اُنہیں بھی ایک نہ ایک دن پناہ‌گزین کیمپ سے چھٹکارا مل جائے گا۔‏—‏2-‏کُرنتھیوں 4:‏18‏۔‏

پناہ‌گزینوں کے لیے محبت ظاہر کریں

6،‏ 7.‏ ‏(‏الف)‏ اگر ہم ’‏خدا سے محبت کرتے ہیں‘‏ تو ہم ضرورت‌مند بہن بھائیوں سے کیسے پیش آئیں گے؟‏ (‏ب)‏ اِس حوالے سے ایک مثال دیں۔‏

6 ہم ’‏خدا سے محبت کرتے ہیں‘‏ اِس لیے ہم اپنے بہن بھائیوں کے لیے بھی محبت ظاہر کرتے ہیں،‏ خاص طور پر اُس وقت جب وہ مشکلات سے گزرتے ہیں۔‏ ‏(‏1-‏یوحنا 3:‏17،‏ 18 کو پڑھیں۔‏)‏ مثال کے طور پر پہلی صدی عیسوی میں جب یہودیہ کے علاقے میں قحط پڑا تو کلیسیا نے وہاں کے بہن بھائیوں کے لیے اِمداد کا اِنتظام کِیا۔‏ (‏اعمال 11:‏28،‏ 29‏)‏ پولُس رسول اور پطرس رسول نے مسیحیوں کی حوصلہ‌افزائی کی کہ وہ ایک دوسرے کی مہمان‌نوازی کریں۔‏ (‏رومیوں 12:‏13؛‏ 1-‏پطرس 4:‏9‏)‏ اگر ہمیں عام صورتحال میں بہن بھائیوں کی مہمان‌نوازی کرنی چاہیے تو ہمیں اُن بہن بھائیوں کی تو اَور بھی زیادہ مہمان‌نوازی کرنی چاہیے جن کی جان خطرے میں ہے یا جن کو اپنے ایمان کی وجہ سے اذیت کا شکار بنایا گیا ہے۔‏ *‏—‏امثال 3:‏27 کو پڑھیں۔‏

7 حال ہی میں مشرقی یوکرین میں ہزاروں یہوواہ کے گواہوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر بھاگنا پڑا کیونکہ وہاں جنگ ہو رہی تھی اور اُن پر اذیت ڈھائی جا رہی تھی۔‏ افسوس کی بات ہے کہ اِن میں سے کچھ مسیحی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔‏ لیکن جو بہن بھائی بچ گئے،‏ اُن کو روس اور یوکرین کے دوسرے علاقوں میں رہنے والے بہن بھائیوں نے اپنے گھروں میں ٹھہرا لیا۔‏ دونوں ملکوں میں بہن بھائی غیرجانب‌دار رہے۔‏ اُنہوں نے ”‏دُنیا کا حصہ“‏ بننے سے اِنکار کر دیا اور وہ ”‏خدا کے کلام کی خوش‌خبری سناتے رہے۔‏“‏—‏یوحنا 15:‏19؛‏ اعمال 8:‏4‏۔‏

پناہ‌گزینوں کے ایمان کو مضبوط کریں

8،‏ 9.‏ ‏(‏الف)‏ نئے ملک میں پناہ‌گزینوں کو کن مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے؟‏ (‏ب)‏ پناہ‌گزین بہن بھائیوں کو ہماری مدد کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟‏

8 کچھ پناہ‌گزینوں کو تو اپنے ہی ملک کے کسی اَور علاقے میں پناہ مل جاتی ہے لیکن بہت سے پناہ‌گزینوں کو اپنا ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑتا ہے۔‏ پردیس میں اُنہیں حکومت کی طرف سے شاید خوراک،‏ کپڑے اور رہائش ملے لیکن پھر بھی اُن کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏ مثال کے طور پر اُن کو جو کھانا مہیا کِیا جاتا ہے،‏ شاید وہ اُس کے عادی نہ ہوں۔‏ کچھ پناہ‌گزین زندگی میں پہلی بار سرد موسم کا تجربہ کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اِس سے نمٹنے کے لیے اُنہیں کیسے کپڑے پہننے چاہئیں۔‏ اور بعض پناہ‌گزینوں کو گھریلو اِستعمال کی مشینیں چلانی نہیں آتیں۔‏

9 کچھ ملکوں میں حکومت نے پناہ‌گزینوں کی مدد کرنے کے لیے پروگرام جاری کیے ہیں۔‏ لیکن پناہ‌گزینوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ چند مہینوں بعد اپنی ضروریات خود پوری کریں۔‏ یہ آسان نہیں ہوتا۔‏ ذرا سوچیں کہ اِن پناہ‌گزینوں کو ایک دم سے کتنی نئی باتیں سیکھنی پڑتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر اُنہیں نئی زبان اور رہن‌سہن کے نئے طورطریقے سیکھنے پڑتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ بِلوں اور ٹیکس کی ادائیگی اور بچوں کی تعلیم‌وتربیت کے حوالے سے ہر ملک میں فرق فرق قوانین ہوتے ہیں۔‏ جو بہن بھائی ایسی صورتحال سے دوچار ہیں،‏ اِن کو ہماری مدد کی ضرورت ہے۔‏ کیا آپ بڑے احترام اور پیار سے اُن کی مدد کریں گے؟‏—‏فِلپّیوں 2:‏3،‏ 4‏۔‏

10.‏ جب پناہ‌گزین بہن بھائی ملک میں پہنچتے ہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ اُن کا ایمان مضبوط رہے؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

10 کچھ حکومتیں اپنے ملک میں پناہ لینے والوں پر ایسی حدبندیاں لگاتی ہیں جن کی وجہ سے پناہ‌گزین بہن بھائیوں کے لیے مقامی کلیسیا سے رابطہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔‏ کبھی کبھار جب پناہ‌گزین بہن بھائی کوئی ایسی ملازمت قبول کرنے سے اِنکار کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ باقاعدگی سے اِجلاسوں پر نہیں جا سکیں گے تو سرکاری اِدارے اُن کی اِمداد بند کرنے یا اُنہیں ملک سے نکالنے کی دھمکی دیتے ہیں۔‏ ایسی صورتحال میں کچھ بہن بھائیوں نے بےبسی اور ڈر کے مارے ایسی ملازمت قبول کر لی۔‏ اِس لیے یہ بہت اہم ہے کہ جب یہ بہن بھائی ہمارے ملک میں پہنچتے ہیں تو ہم جلد از جلد اُن سے ملاقات کریں تاکہ اُنہیں احساس ہو کہ ہمیں اُن کی فکر ہے۔‏ ہم اُن کے لیے ہمدردی ظاہر کرنے اور اُن کی عملی مدد کرنے سے اُن کا ایمان مضبوط کر سکتے ہیں۔‏—‏امثال 12:‏25؛‏ 17:‏17‏۔‏

پناہ‌گزینوں کی عملی مدد کریں

11.‏ ‏(‏الف)‏ ہم شروع شروع میں پناہ‌گزین بہن بھائیوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ پناہ‌گزین بہن بھائی شکرگزاری کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

11 اگر ہمارے پناہ‌گزین بہن بھائیوں کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کی جا رہی ہیں تو شروع شروع میں شاید ہم اُن کے لیے کھانا،‏ کپڑے وغیرہ مہیا کر سکتے ہیں۔‏ * چھوٹے سے چھوٹے تحفوں سے بھی اُن کا دل خوش کِیا جا سکتا ہے۔‏ ظاہری بات ہے کہ پناہ‌گزین بہن بھائیوں کو یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ مقامی بہن بھائی اُن کی ہر مُنہ مانگی خواہش پوری کریں۔‏ اِس کی بجائے اُن کو مدد کے لیے شکرگزاری ظاہر کرنی چاہیے۔‏ اِس طرح اُن کی مدد کرنے والے بہن بھائیوں کا بھی دل خوش ہو جائے گا۔‏ لیکن یہ بہت اہم ہے کہ پناہ‌گزین بہن بھائی اپنی ضروریات خود پوری کرنے کے لیے قدم اُٹھائیں۔‏ یوں اُن کی عزتِ‌نفس برقرار رہے گی اور دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ اُن کے تعلقات بھی اچھے رہیں گے۔‏ (‏2-‏تھسلُنیکیوں 3:‏7-‏10‏)‏ مگر اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پناہ‌گزین بہن بھائیوں کو عملی مدد کی ضرورت ہے۔‏ ہم اُن کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏

ہم پناہ‌گزین بہن بھائیوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏ (‏پیراگراف 11-‏13 کو دیکھیں۔‏)‏

12،‏ 13.‏ ‏(‏الف)‏ ہم کن طریقوں سے پناہ‌گزین بہن بھائیوں کی عملی مدد کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اِس حوالے سے ایک مثال دیں۔‏

12 پناہ‌گزین بہن بھائیوں کی عملی مدد کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اُن کے لیے وقت نکالیں اور محبت ظاہر کریں۔‏ مثال کے طور پر آپ اُنہیں بتا سکتے ہیں کہ آپ کے ملک میں ٹرین یا بس سے سفر کرنے کا طریقۂ‌کار کیا ہے۔‏ آپ اُنہیں دِکھا سکتے ہیں کہ وہ کن دُکانوں سے کھانے پینے کی ایسی اشیا خرید سکتے ہیں جو صحت‌بخش ہونے کے ساتھ ساتھ مہنگی بھی نہیں ہیں۔‏ آپ اُنہیں یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ وہ آمدنی کمانے کے لیے سامان کیسے حاصل کر سکتے ہیں،‏ جیسے کہ سلائی مشین یا مالی کا سامان وغیرہ۔‏ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ اُن کی مدد کریں تاکہ وہ مقامی کلیسیا سے گھل مل جائیں۔‏ اگر ممکن ہو تو آپ اُنہیں اپنی گاڑی میں اِجلاسوں پر لے جا سکتے ہیں۔‏ آپ اُن کو بتا سکتے ہیں کہ آپ کے علاقے میں لوگوں کو گواہی دینے کے مؤثر طریقے کیا ہیں اور آپ اُن کے ساتھ مل کر مُنادی بھی کر سکتے ہیں۔‏

13 ایک کلیسیا میں بزرگوں نے چار جوان پناہ‌گزین بھائیوں کی مدد کرنے کے لیے اُنہیں گاڑی چلانا،‏ خط ٹائپ کرنا اور ملازمت کے لیے درخواست دینا سکھایا۔‏ بزرگوں نے اِن بھائیوں کو اپنے وقت کا بہترین اِستعمال کرنا بھی سکھایا تاکہ وہ یہوواہ کی خدمت میں زیادہ وقت صرف کر سکیں۔‏ (‏گلتیوں 6:‏10‏)‏ تھوڑے ہی عرصے بعد یہ چاروں بھائی پہل‌کار کے طور پر خدمت کرنے لگے۔‏ چونکہ بزرگوں نے اِن کی عملی مدد کی اور وہ خود بھی خدا کی خدمت میں آگے بڑھنے کی خواہش رکھتے تھے اِس لیے یہ بھائی روحانی طور پر پُختہ بن گئے اور شیطان کی دُنیا کا لقمہ بننے سے بچ گئے۔‏

14.‏ ‏(‏الف)‏ پناہ‌گزین بہن بھائیوں کو کس بات سے محتاط رہنا چاہیے؟‏ (‏ب)‏ اِس سلسلے میں ایک مثال دیں۔‏

14 پناہ‌گزین بہن بھائیوں کو محتاط رہنا چاہیے کہ وہ مال‌واسباب حاصل کرنے کی جستجو یا پھر پیسہ کمانے کے دباؤ کی وجہ سے یہوواہ سے اپنی دوستی کو داؤ پر نہ لگا دیں۔‏ * جب بھائی لیجے اپنے گھر والوں کے ساتھ پناہ‌گزین کیمپ کا سفر کر رہے تھے تو اُن کے والد نے اُن کو اور اُن کے بہن بھائیوں کو یہوواہ پر بھروسا کرنے کے سلسلے میں ایک اہم سبق سکھایا جو اُنہیں آج تک یاد ہے۔‏ بھائی لیجے بتاتے ہیں کہ ”‏ابو نے اُن چند غیرضروری چیزوں کو ایک ایک کر کے پھینک دیا جو ہمارے پاس تھیں۔‏ پھر اُنہوں نے ہمیں خالی تھیلا دِکھایا اور مسکرا کر کہا:‏ ”‏اِس کے علاوہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے۔‏“‏“‏‏—‏1-‏تیمُتھیُس 6:‏8 کو پڑھیں۔‏

پناہ‌گزینوں کی سب سے اہم ضرورت

15،‏ 16.‏ ‏(‏الف)‏ ہم پناہ‌گزین بہن بھائیوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں تاکہ وہ روحانی طور پر مضبوط رہیں؟‏ (‏ب)‏ ہم اُنہیں تسلی کیسے دے سکتے ہیں؟‏

15 پناہ‌گزین بہن بھائیوں کو صرف خوراک اور کپڑوں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اُنہیں روحانی طور پر مضبوط رہنے کے لیے بھی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ اِس کے علاوہ اُنہیں حوصلہ‌افزائی اور تسلی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔‏ (‏متی 4:‏4‏)‏ کلیسیا کے بزرگ اِن بہن بھائیوں کے لیے اُن کی زبان میں ہماری تنظیم کی مطبوعات منگوا سکتے ہیں اور اُن کا تعارف ایسے بہن بھائیوں سے کرا سکتے ہیں جو اُن کے ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔‏ ایسا کرنا بہت اہم ہے کیونکہ پناہ‌گزین بہن بھائیوں کو اپنی ہر جانی پہچانی چیز چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا۔‏ وہ اپنے رشتےداروں،‏ دوستوں اور اپنی سابقہ کلیسیا کو یاد کرتے ہیں۔‏ اِس لیے اُنہیں اپنے بہن بھائیوں کے رویے سے احساس ہونا چاہیے کہ یہوواہ اُن کی صورتحال کو سمجھتا ہے اور اُن سے بہت پیار کرتا ہے۔‏ اگر یہ بہن بھائی کلیسیا میں ایسا پیار اور توجہ محسوس نہیں کرتے تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اُن ہم‌وطنوں سے سہارا لیں جو یہوواہ کی عبادت نہیں کرتے۔‏ (‏1-‏کُرنتھیوں 15:‏33‏)‏ لیکن جب ہم اُن کو اپنی محبت کا احساس دِلاتے ہیں تو ہم ”‏پردیسیوں کی حفاظت“‏ کرنے میں یہوواہ کا ساتھ دیتے ہیں۔‏—‏زبور 146:‏9‏۔‏

16 یسوع اور اُن کے والدین اُس وقت تک اپنے دیس واپس نہیں لوٹ سکے جب تک کہ وہ حکمران فوت نہیں ہوا جو اُن کی جان کے درپے تھا۔‏ ہمارے بعض پناہ‌گزین بہن بھائیوں کی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے۔‏ لیکن کچھ پناہ‌گزین بہن بھائی اپنے وطن واپس لوٹنے کے خیال سے ہی گھبراتے ہیں۔‏ بھائی لیجے اِس کی وجہ یوں بتاتے ہیں:‏ ”‏وہ اُس ملک میں اپنے بچوں کو واپس نہیں لے جانا چاہتے جس میں اُنہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے رشتےداروں کی عزت لٹتے اور اُنہیں قتل ہوتے دیکھا ہے۔‏“‏ جو بہن بھائی ایسی دل دہلانے والی مصیبتوں سے گزرے ہیں،‏ اُنہیں تسلی کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ لہٰذا اگر آپ کی کلیسیا میں پناہ‌گزین بہن بھائی ہیں تو ’‏اُن کے دُکھ سُکھ میں شریک ہوں،‏ اُن سے شفقت اور ہمدردی سے پیش آئیں اور خاکساری سے کام لیں۔‏‘‏ (‏1-‏پطرس 3:‏8‏)‏ کچھ پناہ‌گزین بہن بھائی اپنے ملک میں اذیت سہنے کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ ملنے جلنے سے کتراتے ہیں۔‏ وہ اپنے ماضی کے ہول‌ناک واقعات کے بارے میں بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں،‏ خاص طور پر اپنے بچوں کی موجودگی میں۔‏ خود سے پوچھیں:‏ ”‏اگر مجھ پر ایسا وقت گزرا ہوتا تو مَیں دوسروں سے کیسا سلوک چاہتا؟‏“‏—‏متی 7:‏12‏۔‏

پناہ‌گزینوں کو گواہی دیتے وقت کن باتوں کا خیال رکھیں؟‏

17.‏ مُنادی کے کام کے ذریعے پناہ‌گزینوں کو تسلی کیوں ملتی ہے؟‏

17 بہت سے پناہ‌گزین ایسے ملکوں سے آتے ہیں جہاں ہمارے کام پر پابندی لگی ہوتی ہے۔‏ لیکن یہوواہ کے گواہوں کی اَن‌تھک محنت کی وجہ سے اِن پناہ‌گزینوں کو ”‏بادشاہت کے بارے میں کلام“‏ سننے کا موقع مل رہا ہے۔‏ (‏متی 13:‏19،‏ 23‏)‏ ایسے لوگ طرح طرح کے ”‏بوجھ تلے دبے“‏ ہوتے ہیں لیکن جب وہ ہمارے اِجلاسوں پر آتے ہیں تو اُنہیں تسلی ملتی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ”‏خدا واقعی آپ کے درمیان ہے!‏“‏—‏متی 11:‏28-‏30؛‏ 1-‏کُرنتھیوں 14:‏25‏۔‏

18،‏ 19.‏ پناہ‌گزینوں کو گواہی دیتے وقت ہم ہوشیاری اور سمجھ‌داری کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

18 پناہ‌گزینوں کو گواہی دیتے وقت ہمیں ہوشیاری اور سمجھ‌داری سے کام لینا چاہیے۔‏ (‏متی 10:‏16؛‏ امثال 22:‏3‏)‏ جب یہ لوگ آپ کے سامنے اپنا دل ہلکا کرتے ہیں تو اُن کی بات کو دھیان سے سنیں لیکن سیاسی بحث‌وتکرار میں نہ پڑیں۔‏ اُن ہدایات پر عمل کریں جو ہمیں پناہ‌گزینوں کے سلسلے میں اپنی برانچ اور حکومت کے اہلکاروں کی طرف سے دی جاتی ہیں تاکہ آپ نہ تو خود کو اور نہ ہی کسی اَور کو خطرے میں ڈالیں۔‏ چونکہ پناہ‌گزین فرق فرق ثقافتوں اور مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں اِس لیے اُن کے نظریات اور احساسات کے بارے میں سیکھیں اور اِن کا احترام کریں۔‏ مثال کے طور پر کچھ پناہ‌گزین ایسے ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کے لوگ عورتوں کے لباس کے حوالے سے کٹر نظریات رکھتے ہیں۔‏ ایسے لوگوں میں مُنادی کرتے وقت ہمیں اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہمارا پہناوا اُن کے لیے خوش‌خبری قبول کرنے میں رُکاوٹ نہ بنے۔‏

19 اُس رحم‌دل سامری کی طرح جس کی یسوع مسیح نے کہانی سنائی،‏ ہم بھی مصیبت‌زدہ لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔‏ اِن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو یہوواہ کے گواہ نہیں ہیں۔‏ (‏لُوقا 10:‏33-‏37‏)‏ ایسے لوگوں کی مدد کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اُن کو بادشاہت کی خوش‌خبری سنائیں۔‏ ایک بزرگ جس نے بہت سے پناہ‌گزینوں کی مدد کی ہے،‏ کہتا ہے:‏ ”‏یہ بہت اہم ہے کہ ہم اُن کو فوراً بتائیں کہ ہم یہوواہ کے گواہ ہیں اور ہم اُن کی مالی مدد کرنے کے لیے نہیں بلکہ اُنہیں خدا کے کلام سے تعلیم دینے کے لیے آئے ہیں،‏ ورنہ کچھ لوگ صرف مالی مدد کی اُمید سے ہمارے اِجلاسوں پر آئیں گے۔‏“‏

خوش‌کُن نتائج

20،‏ 21.‏ ‏(‏الف)‏ پناہ‌گزینوں کے لیے محبت ظاہر کرنے کے کیا نتائج نکلتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

20 جب ہم ”‏پردیسیوں“‏ کے لیے محبت ظاہر کرتے ہیں تو اِس کے بہت اچھے نتائج نکلتے ہیں۔‏ بہن الگانیش کی مثال ہی لیجئے جو ملک ایریٹریا سے ہیں۔‏ جب اُن کا شوہر فوت ہو گیا تو وہ اپنے چھ بچوں کو لے کر اپنے ملک سے بھاگ گئیں کیونکہ وہاں ہمارے بہن بھائیوں کو اذیت دی جا رہی تھی۔‏ آٹھ دن تک ریگستان میں سفر کرنے کے بعد وہ آخرکار ملک سوڈان پہنچ گئے۔‏ بہن الگانیش کہتی ہیں کہ ”‏وہاں کے بہن بھائیوں نے ہمارے ساتھ سگے رشتےداروں جیسا سلوک کِیا۔‏ اُنہوں نے ہمیں اپنے گھر ٹھہرایا اور ہمیں کھانا،‏ کپڑے اور بس کا کرایہ دیا۔‏ بھلا یہوواہ کے گواہوں کے علاوہ اَور کون اجنبیوں کو بس اِس لیے اپنے ہاں ٹھہراتا ہے کیونکہ وہ اُس کے ہم‌مذہب ہیں؟‏“‏‏—‏یوحنا 13:‏35 کو پڑھیں۔‏

21 جب لوگ کسی اَور ملک سے ہمارے ملک آتے ہیں تو اکثر وہ اپنے بچوں کو بھی ساتھ لاتے ہیں۔‏ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم اِن بچوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں تاکہ وہ خوشی سے یہوواہ کی خدمت کرتے رہیں۔‏

^ پیراگراف 2 اِس مضمون میں لفظ ”‏پناہ‌گزین“‏ ایسے لوگوں کی طرف اِشارہ کرتا ہے جو اذیت،‏ جنگ یا قدرتی آفتوں کی وجہ سے بےگھر ہو گئے ہیں۔‏ اِن لوگوں کو شاید کسی اَور ملک میں پناہ لینی پڑی یا پھر اپنے ہی ملک کے کسی اَور علاقے میں۔‏ اقوامِ‌متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے مطابق دُنیا بھر میں 113 میں سے 1 شخص پناہ‌گزین ہے۔‏

^ پیراگراف 6 مینارِنگہبانی،‏ اکتوبر 2016ء،‏ صفحہ 8-‏12 پر مضمون ”‏اجنبیوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آنا نہ بھولیں“‏ کو دیکھیں۔‏

^ پیراگراف 11 جب ایک پناہ‌گزین بہن یا بھائی ہمارے ملک میں پہنچتا ہے تو بزرگوں کو جلد از جلد اُس کی سابقہ کلیسیا سے اُس کا پبلشر ریکارڈ کارڈ اور تعارفی خط حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‏ دوسرے ملک کی کسی کلیسیا سے رابطہ کرنے کے لیے بزرگ jw.org پر اپنی برانچ کو لکھ سکتے ہیں۔‏ جب تک اُن کو جواب نہیں ملتا،‏ بزرگ اُس بہن یا بھائی سے باتوں باتوں میں اُس کی سابقہ کلیسیا اور مُنادی کے کام کے حوالے سے کچھ سوال پوچھ سکتے ہیں تاکہ وہ اِس بات کا اندازہ لگا سکیں کہ خدا کی خدمت میں اُس کی کارکردگی کیسی رہی ہے۔‏