آپبیتی
شروع میں مالی لحاظ سے غریب، اب روحانی لحاظ سے مالامال
میری پیدائش امریکہ کی ریاست اِنڈیانا کے ایک چھوٹے سے قصبے لبرٹی میں لکڑی کی ایک جھونپڑی میں ہوئی۔ اُس وقت میرا ایک بڑا بھائی اور دو بڑی بہنیں تھیں۔ بعد میں میرے دو اَور بھائی اور ایک بہن بھی پیدا ہوئی۔
ہمارے قصبے کے زیادہتر لوگ ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ سکول میں جو بچے پہلی جماعت سے میرے ساتھ پڑھ رہے تھے، وہی سکول کی پڑھائی ختم ہونے تک میرے ہمجماعت تھے۔
ہمارے قصبے کے اِردگِرد چھوٹے چھوٹے کھیت تھے اور اِن کھیتوں میں زیادہتر مکئی کی فصل کاشت کی جاتی تھی۔ جب مَیں پیدا ہوا تو میرے ابو ایک مقامی کسان کے پاس کام کرتے تھے۔ پھر جب مَیں نوجوان تھا تو مَیں نے ٹریکٹر چلانا اور کھیتیباڑی کے حوالے سے دیگر کام کرنے سیکھے۔
میری پیدائش کے وقت میرے ابو کی عمر 56 اور امی کی عمر 35 سال تھی۔ اِس عمر میں بھی میرے ابو بڑے تندرست اور توانا تھے۔ وہ بہت محنتی تھے اور اُنہوں نے ہم سب بہن بھائیوں کو بھی محنت سے کام کرنا سکھایا۔ اُن کے پاس زیادہ پیسے تو نہیں ہوتے تھے لیکن اُنہوں نے رہائش، کپڑوں اور کھانے کے حوالے سے ہماری ساری ضرورتوں کو پورا کِیا۔ ابو ہمیشہ ہمارے ساتھ وقت گزارتے تھے۔ اُنہوں نے 93 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اور امی کی وفات 86 سال کی عمر میں ہوئی۔ وہ دونوں یہوواہ کی عبادت نہیں کرتے تھے۔ لیکن میرا ایک بھائی 1972ء سے وفاداری کے ساتھ بزرگ کے طور پر خدا کی خدمت کر رہا ہے۔
میری زندگی کے اِبتدائی سال
میری امی بڑی مذہبی تھیں۔ وہ ہمیں ہر اِتوار کو بپٹسٹ چرچ لے کر جاتی تھیں۔ جب مَیں 12 سال کا تھا تو مَیں نے پہلی بار تثلیث کے عقیدے کے بارے میں سنا۔
مَیں نے امی سے پوچھا: ”یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یسوع ایک ہی وقت میں باپ بھی ہو اور بیٹا بھی؟“ اُنہوں نے کہا: ”بیٹا، یہ ایک بھید ہے اور خدا کی مرضی نہیں ہے کہ ہم اِسے سمجھیں۔“ میرے لیے تو یہ واقعی ایک بھید تھا۔ البتہ جب مَیں تقریباً 14 سال کا تھا تو مجھے ایک مقامی ندی میں بپتسمہ دیا گیا۔ مجھے تین دفعہ پانی میں غوطہ دیا گیا؛ ایک دفعہ باپ کے نام سے، ایک دفعہ بیٹے کے نام سے اور ایک دفعہ پاک روح کے نام سے۔سکول کی پڑھائی کے آخری سالوں کے دوران میرے ایک دوست نے جو باکسر تھا، مجھے بھی باکسر بننے کے لیے منا لیا۔ مَیں نے باکسنگ کی تربیت حاصل کرنی شروع کی اور گولڈن گلووز نامی باکسنگ تنظیم کا حصہ بن گیا۔ لیکن مَیں باکسنگ میں اِتنی اچھی کارکردگی نہیں دِکھا پایا۔ اِس لیے مَیں نے کچھ ہی مرتبہ لڑنے کے بعد باکسنگ چھوڑ دی۔ بعد میں مجھے کچھ عرصے کے لیے امریکی فوج میں بھرتی کر کے جرمنی بھیج دیا گیا۔ جب مَیں وہاں کام کر رہا تھا تو میرے افسروں نے مجھے فوجی اکیڈمی بھیج دیا کیونکہ اُنہیں لگتا تھا کہ مجھ میں فوجی دستوں کی اچھی سربراہی کرنے کی صلاحیت ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ مَیں اپنی زندگی فوج کے لیے وقف کر دوں۔ لیکن مَیں فوج میں نہیں رہنا چاہتا تھا۔ اِس لیے مَیں نے اپنی ملازمت کی دو سالہ مُدت پوری کی اور 1956ء میں فوج کو چھوڑ دیا۔ اِس کے کچھ ہی عرصے بعد مَیں ایک دوسری قسم کی فوج میں شامل ہو گیا۔
ایک نئی زندگی کی شروعات
سچائی سیکھنے سے پہلے مَیں اصل مردانگی کے بارے میں غلط نظریے کا شکار تھا۔ میری سوچ پر فلموں اور اُن لوگوں کے نظریات کا اثر تھا جن کے ساتھ مَیں اُٹھتا بیٹھتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ جو آدمی دوسروں کو بائبل کی تعلیم دیتے ہیں، اُن میں مردانگی نہیں ہوتی۔ لیکن پھر مَیں نے کچھ ایسی باتیں سیکھیں جن سے میری زندگی بدل گئی۔ ایک دن جب مَیں اپنے قصبے میں اپنی سُرخ رنگ کی چمچماتی گاڑی میں کہیں جا رہا تھا تو دو لڑکیوں نے مجھے اپنی طرف آنے کا اِشارہ کِیا۔ وہ میری بڑی بہن کی نندیں تھیں۔ اُن کا تعلق یہوواہ کے گواہوں سے تھا۔ مَیں پہلے بھی اُن سے ”مینارِنگہبانی“ اور ”جاگو!“ رسالے لے چُکا تھا۔ لیکن مجھے لگتا تھا کہ ”مینارِنگہبانی“ کو سمجھنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ اِس بار اُنہوں نے مجھے کلیسیائی کتابی مطالعے والے اِجلاس میں آنے کی دعوت دی۔ یہ بائبل پر مبنی ایک اِجلاس تھا جو اُن کے گھر پر ہوتا تھا۔ مَیں نے اُنہیں کہا کہ مَیں اِس بارے میں سوچوں گا۔ اُنہوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور مجھ سے کہا: ”وعدہ کریں کہ آپ آئیں گے۔“ مَیں نے کہا: ”مَیں وعدہ کرتا ہوں۔“
بعد میں مجھے اِس پر پچھتاوا تو ہوا لیکن اب مجھے اُن سے کِیا وعدہ پورا کرنا تھا۔ اِس لیے اُس شام میں اِجلاس میں گیا۔ مَیں وہاں بچوں کو دیکھ کر خاص طور پر متاثر ہوا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ بائبل کے بارے میں اِتنا کچھ جانتے تھے۔ حالانکہ مَیں ہر اِتوار امی کے ساتھ چرچ جاتا تھا لیکن پھر بھی مجھے بائبل کے بارے میں بہت کم علم تھا۔ میرے دل میں بائبل کی تعلیمات سیکھنے کا شوق پیدا ہونے لگا۔ اِس لیے مَیں بائبل کورس کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ مَیں نے شروع شروع میں جو باتیں سیکھیں، اُن میں سے ایک بات یہ تھی کہ خدا کا نام یہوواہ ہے۔ کئی سال پہلے جب مَیں نے امی سے یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں پوچھا تھا تو اُنہوں نے کہا تھا: ”وہ کسی بوڑھے آدمی کی عبادت کرتے ہیں جس نام یہوواہ ہے۔“ لیکن اب مَیں حقیقت جان گیا تھا۔
مَیں جانتا تھا کہ مجھے سچائی مل گئی ہے اِس لیے مَیں نے فوراً ایسے اِقدام اُٹھانے شروع کیے جو خدا کے لیے زندگی وقف کرنے کے لیے ضروری تھے۔ پھر مارچ 1957ء میں یعنی پہلے اِجلاس پر جانے کے صرف نو مہینے بعد مَیں نے بپتسمہ لے لیا۔ اُس وقت تک میری سوچ بدل گئی تھی۔ مجھے اِس بات کی بڑی خوشی ہے کہ مجھے بائبل سے یہ سیکھنے کا موقع ملا کہ اصل مرد کیسا ہوتا ہے۔ یسوع مسیح ایک کامل مرد تھے۔ جتنی طاقت اُن کے پاس تھی اُتنی کسی اَور آدمی کے پاس نہیں ہو سکتی۔ پھر بھی اُنہوں نے لوگوں کے ساتھ مارکٹائی نہیں کی۔ اِس کی بجائے پیشگوئی کے مطابق ’جب اُنہیں ستایا گیا تو اُنہوں نے برداشت کی۔‘ (یسعیاہ 53:2، 7) مَیں نے سیکھ لیا کہ یسوع مسیح کے سچے پیروکار کو ”سب کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہیے۔“—2-تیمُتھیُس 2:24۔
اگلے سال یعنی 1958ء میں مَیں نے پہلکار کے طور پر خدمت کرنی شروع کر دی۔ لیکن اِس کے تھوڑی ہی دیر بعد مجھے کچھ عرصے کے لیے یہ خدمت چھوڑنی پڑی۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ مَیں نے شادی کرنے کا فیصلہ کِیا۔ میری شادی گلوریا سے ہوئی جو کہ اُن دو لڑکیوں میں سے ایک تھیں جنہوں نے مجھے کتابی مطالعے پر بلایا تھا۔ مجھے اِس بات کی بڑی خوشی ہے کہ مجھے گلوریا جیسا جیون ساتھی ملا۔ گلوریا لاکھوں میں ایک ہیں۔ وہ میرے لیے اِتنی بیشقیمت ہیں کہ دُنیا کا سب سے قیمتی ہیرا بھی اُن کے سامنے کچھ نہیں۔ اب ذرا گلوریا کی زبانی اُن کے بارے میں جانئے:
”ہم 17 بہن بھائی تھے۔ میری امی وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرتی تھیں۔ جب مَیں 14 کی تھی تو وہ فوت ہو گئیں۔ اِس کے بعد میرے ابو نے بائبل کورس کرنا شروع کر دیا۔ اُس وقت میری بڑی بہن کا سکول کا آخری سال چل رہا تھا۔ ابو نے سکول کے پرنسپل سے یہ اِجازت مانگی کہ ایک دن میری بہن اور ایک دن مَیں سکول جا سکوں۔ اِس طرح ہم دونوں میں سے ایک گھر پر رُک کر چھوٹے بہن بھائیوں کا دھیان رکھ سکتا تھا اور ابو کے کام سے گھر آنے سے پہلے رات کا کھانا تیار کر سکتا تھا۔ پرنسپل نے اِجازت دے دی اور یہ سلسلہ تب تک چلتا رہا جب تک میری بہن نے سکول کی پڑھائی ختم نہ کر لی۔ دو گواہ خاندانوں نے ہمیں بائبل کورس کرایا اور ہم میں سے 11 بہن بھائی یہوواہ کے گواہ بن گئے۔ مجھے مُنادی کا کام کرنے میں بڑا مزہ آتا تھا حالانکہ مَیں شروع سے ہی شرمیلی ہوں۔ میرے شوہر نے بیتے سالوں کے دوران شرمیلےپن پر قابو پانے میں میری بہت مدد کی ہے۔“
گلوریا کے ساتھ میری شادی فروری 1959ء میں ہوئی۔ ہمیں اِکٹھے پہلکار کے طور پر خدمت کرنا بہت اچھا لگتا تھا۔ اُسی سال جولائی میں ہم نے بیتایل میں خدمت کے لیے درخواست بھیجی۔ ہماری بڑی خواہش تھی کہ ہم مرکزی دفتر میں خدمت کریں۔ اِس حوالے سے بھائی سائمن کریکر نے ہمارا اِنٹرویو کِیا۔ اُنہوں نے ہمیں بتایا کہ فیالحال بیتایل میں شادیشُدہ جوڑوں کو نہیں بلایا جا رہا۔ پھر بھی ہمارے دل میں بیتایل جانے کی تمنا ختم نہیں ہوئی۔ مگر اِس خواہش کے پورا ہونے میں کئی سال لگے۔
ہم نے مرکزی دفتر کو خط لکھا اور کسی ایسے علاقے میں جا کر خدمت کرنے کی اِجازت مانگی جہاں مبشروں کی زیادہ ضرورت تھی۔ اُنہوں نے ہمیں امریکہ کی ریاست آرکنساس کے شہر پائن بلف جانے کے لیے کہا۔ اُن دنوں پائن بلف میں صرف دو کلیسیائیں تھیں۔ ایک کلیسیا میں سفیدفام جبکہ دوسری میں سیاہفام مبشر تھے۔ ہمیں سیاہفام بہن بھائیوں والی کلیسیا میں بھیجا گیا جہاں صرف 14 مبشر تھے۔
نسلپرستی کی وجہ سے کھڑی ہونے والی مشکلات
شاید آپ حیران ہوں کہ یہوواہ کے گواہوں نے سفیدفام اور سیاہفام مبشروں کو علیٰحدہ کیوں کِیا تھا۔ اِس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اُن دنوں میں بھائیوں کے پاس کوئی اَور چارہ نہیں تھا۔ مختلف نسلوں کے عوامی جگہوں پر جمع ہونے پر پابندی تھی۔ ایک اَور مسئلہ یہ تھا کہ جب مختلف نسلوں کے لوگ اِکٹھے ہوتے تھے تو اُن پر تشدد کِیا جاتا تھا۔ کئی علاقوں میں بھائیوں کو اِس بات کا ڈر تھا کہ اگر سفیدفام اور سیاہفام بہن بھائی ایک کنگڈم ہال میں عبادت کے لیے جمع ہوئے تو اُس کنگڈم ہال کو تباہ کر دیا جائے گا۔ دراصل کچھ ایسے واقعات ہو بھی چُکے تھے۔ اگر سیاہفام گواہ اپنے آس پڑوس کے ایسے علاقوں میں مُنادی کرتے جہاں سفیدفام لوگ رہ رہے ہوتے تو اُن گواہوں کو گِرفتار کر لیا جاتا اور کبھی کبھار تو اُن پر تشدد بھی کِیا جاتا۔ لہٰذا مُنادی کے کام کو جاری رکھنے کے لیے ہم نے قانون کی پابندی کی اور حالات بہتر ہونے کی اُمید رکھی۔
مُنادی کا کام ہمیشہ آسان نہیں ہوتا تھا۔ جب ہم سیاہفام لوگوں کے علاقے میں مُنادی کر رہے ہوتے تو کبھی کبھار ہم غلطی سے سفیدفام لوگوں کے دروازے پر دستک دے دیتے۔ اُس وقت ہمیں فوراً یہ فیصلہ کرنا ہوتا کہ ہم اُس گھر میں بائبل کا مختصر سا پیغام سنائیں یا معذرت کر کے اگلے گھر چلے جائیں۔
پہلکاروں کے طور پر خدمت کے دوران ہمیں اپنا پیٹ پالنے کے لیے کام بھی کرنا تھا۔ ہم جو کام کرتے تھے، اُن سے ہم عموماً دن میں تین ڈالر کما پاتے تھے۔ گلوریا لوگوں کے گھروں میں فرق فرق کام کرتی تھیں۔ ایک گھر میں مجھے بھی اُن کے ساتھ کام کرنے کی اِجازت مل گئی تاکہ وہ اپنا کام جلدی نمٹا سکیں۔ اُس خاندان نے ہمیں دوپہر کا کھانا دیا جسے مَیں نے اور گلوریا نے وہاں سے نکلنے سے پہلے کھایا۔ گلوریا ہر ہفتے ایک خاندان کے کپڑے اِستری کرتی تھیں۔ مَیں اُس گھر میں مالی کا کام کرتا، کھڑکیاں صاف کرتا اور گھر کے دوسرے چھوٹے موٹے کام کرتا۔ اِس کے علاوہ ہم ایک سفیدفام خاندان کے گھر کی کھڑکیاں بھی صاف کرتے۔ گلوریا اِنہیں اندر سے اور مَیں باہر سے صاف کرتا۔ ہمیں اِس کام میں پورا دن لگ جاتا اِس لیے گھر والے ہمیں دوپہر کا کھانا دیتے۔ گلوریا یہ کھانا گھر کے اندر لیکن گھر والوں سے الگ کھاتیں۔ مجھے باہر گیراج میں کھانا کھانا پڑتا۔ لیکن مجھے اِس میں کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ کھانا بہت مزےدار ہوتا تھا۔ اُس گھر کے لوگ بڑے اچھے تھے بس وہ اپنے اِردگِرد کے لوگوں کی سوچ سے متاثر تھے۔ مجھے ایک اَور واقعہ یاد ہے جب ہم اپنی گاڑی میں پٹرول بھروانے کے لیے ایک پٹرول پمپ پر رُکے تھے۔ جب وہاں آدمی نے پٹرول بھر دیا تو مَیں نے اُس سے پوچھا کہ کیا میری بیوی باتھ
روم اِستعمال کر سکتی ہے۔ اُس نے غصے سے میری طرف دیکھا اور کہا: ”باتھ روم بند ہے۔“ہمارے لیے بہن بھائیوں کی مہربانی
اِس سب کے برعکس ہمیں بہن بھائیوں کے ساتھ وقت گزارنا بہت اچھا لگا اور مُنادی کے کام میں بڑا مزہ آیا۔ جب ہم پہلی بار پائن بلف گئے تو ہم اُس بھائی کے گھر ٹھہرے جو اُس وقت کلیسیا کا نگہبان تھا۔ اُس کی بیوی تب یہوواہ کی گواہ نہیں تھی اِس لیے گلوریا اُسے بائبل کورس کرانے لگیں۔ مَیں نے اُس بھائی کی بیٹی اور اُس کے شوہر کو بائبل کورس شروع کرایا۔ اُس بھائی کی بیوی اور بیٹی نے یہوواہ کی خدمت کرنے کا فیصلہ کِیا اور بپتسمہ لے لیا۔
سفیدفام بہن بھائیوں والی کلیسیا میں ہمارے بہت سے اچھے دوست تھے۔ وہ ہمیں کھانے پر اپنے گھر بلاتے لیکن ہم صرف اندھیرا ہونے کے بعد ہی اُن کے گھر جا سکتے تھے تاکہ کوئی ہمیں ساتھ میں دیکھ نہ لے۔ اُن دنوں میں کو کلکس کلان (کے کے کے) نامی تنظیم نے اپنی سرگرمیاں بڑی تیز کی ہوئی تھیں۔ یہ تنظیم نسلپرستی اور تشدد کو فروغ دیتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ہیلووین کی ایک رات مَیں نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنے برآمدے میں بڑی اکڑ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اُس نے سفید رنگ کا ٹوپی والا چوغہ پہنا ہوا تھا جو اُس تنظیم کے رُکن لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے پہنتے تھے۔ لیکن ایسے حالات کے باوجود بھی بہن بھائیوں نے ایک دوسرے کے لیے مہربانی ظاہر کرنا بند نہیں کی۔ ایک سال گرمی کے موسم میں ہمیں اِجتماع پر جانے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی۔ اِس لیے ہم نے ایک بھائی کو اپنی گاڑی بیچ دی۔ ایک مہینے کے بعد ایک دن ہم گرمی میں مُنادی کرنے اور بہت سے بائبل کورس کرانے کے بعد تھکے ہارے گھر واپس آئے۔ ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جو گاڑی ہم نے بیچ دی تھی، وہ ہمارے گھر کے سامنے کھڑی تھی۔ اُس کے سامنے والے شیشے پر ایک خط پڑا ہوا تھا جس پر لکھا تھا: ”آپ اپنی گاڑی کو میری طرف سے تحفہ سمجھ کر واپس لے لیں۔ آپ کا بھائی۔“
مَیں آپ کو ایک اَور واقعہ بتاتا ہوں جس میں ایک بہن کی مہربانی نے میرے دل کو چُھو لیا۔ 1962ء میں مجھے نیو یارک کے علاقے ساؤتھ لانسنگ میں منعقد ہونے والے بادشاہتی خدمتی سکول سے تربیت پانے کی دعوت دی گئی۔ یہ سکول ایک مہینے کا تھا اور اِس میں کلیسیا کی پیشوائی کرنے والے بھائیوں، حلقے کے نگہبانوں اور صوبائی نگہبانوں کو تربیت دی جانی تھی۔ اُس وقت مَیں بےروزگار تھا اور ہمارے پاس زیادہ پیسے بھی نہیں تھے۔ البتہ مَیں نے پائن بلف کی ایک ٹیلیفون کمپنی میں نوکری کے لیے اِنٹرویو دیا ہوا تھا۔ اگر وہ مجھے نوکری پر رکھتے تو مَیں اُس کمپنی میں پہلا سیاہفام ملازم ہوتا۔ آخرکار مجھے نوکری پر رکھ لیا گیا۔ مَیں بڑی کشمکش میں پڑ گیا۔ میرے پاس نیو یارک جانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ اِس لیے مَیں سوچنے لگا کہ مَیں نوکری کو قبول کر لیتا ہوں اور سکول جانے کے لیے منع کر دیتا ہوں۔ مَیں بس بیتایل میں بھائیوں کو خط لکھنے ہی والا تھا کہ کچھ ایسا ہوا جسے مَیں کبھی بھول نہیں پاؤں گا۔
ہماری کلیسیا کی ایک بہن نے جس کا شوہر یہوواہ کا گواہ نہیں تھا، ایک صبح ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اُس نے مجھے ایک لفافہ دیا جو پیسوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ بہن اور اُس کے بچے پچھلے کچھ ہفتوں سے صبح سویرے مکئی کے کھیتوں میں جا کر خود بخود اُگنے والی جھاڑیوں کو کاٹ رہے تھے۔ وہ ایسا اِس لیے کر رہے تھے تاکہ پیسے کما کر مجھے دے سکیں اور مَیں نیو یارک جا سکوں۔ اُس بہن نے مجھ سے کہا: ”سکول کے لیے جائیں؛ جتنا سیکھ سکتے ہیں، سیکھیں اور واپس آ کر ہمیں سکھائیں۔“ بعد میں مَیں نے ٹیلیفون کمپنی سے پوچھا کہ کیا مَیں پانچ ہفتے بعد کام شروع کر سکتا ہوں۔ کمپنی نے صاف اِنکار
کر دیا۔ لیکن مجھے اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ مَیں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مَیں سکول ضرور جاؤں گا۔ اور مجھے اِس بات کی بڑی خوشی ہے کہ مَیں نے وہ نوکری نہیں کی۔گلوریا پائن بلف میں گزرے ہمارے وقت کو اِن لفظوں میں یاد کرتی ہیں: ”مجھے اُس علاقے میں مُنادی کرنا بہت پسند تھا۔ مَیں 15 سے 20 بائبل کورس کرا رہی تھی۔ صبح کے وقت ہم گھر گھر مُنادی کرتے اور باقی دن کے دوران لوگوں کو بائبل کورس کراتے۔ کبھی کبھار تو ہمیں بائبل کورس کراتے کراتے رات کے 11 بج جاتے۔ سچ کہوں تو مَیں نہیں چاہتی تھی کہ ہمیں وہاں سے منتقل کر کے کلیسیاؤں کا دورہ کرنے کے لیے بھیجا جائے۔ لیکن یہوواہ خدا کچھ اَور ہی چاہتا تھا۔“ اور گلوریا کی بات واقعی سچ ہے۔
سفری نگہبان کے طور پر خدمت
جب ہم پائن بلف میں پہلکاروں کے طور پر خدمت کر رہے تھے تو ہم نے خصوصی پہلکار بننے کے لیے درخواست دی۔ ہمیں توقع تھی کہ ہماری درخواست پوری ہو جائے گی کیونکہ ہمارا صوبائی نگہبان چاہتا تھا کہ ہم ٹیکساس (امریکہ کی ایک ریاست) کی ایک کلیسیا میں خصوصی پہلکاروں کے طور پر خدمت کریں۔ ہمیں یہ خیال اچھا لگا۔ لہٰذا ہم بےتابی سے اپنی درخواست کے جواب کا اِنتظار کرتے رہے۔ کافی عرصہ تو ہمیں بیتایل کی طرف سے کوئی خط نہیں ملا لیکن پھر ایک دن ایک خط آیا۔ ہم یہ جان کر حیران رہ گئے کہ ہمیں کلیسیاؤں کا دورہ کرنے کی ذمےداری دی گئی تھی۔ یہ جنوری 1965ء کا مہینہ تھا۔ اُسی مہینے میں بھائی لیون ویور کو بھی حلقے کا نگہبان مقرر کِیا گیا۔ بھائی لیون اب امریکہ کی برانچ کی کمیٹی کے منتظم کے طور پر خدمت کر رہے ہیں۔
مَیں حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت کرنے کے حوالے سے گھبرا رہا تھا۔ تقریباً ایک سال پہلے صوبائی نگہبان بھائی جیمز تھامسن نے بڑے پیار سے مجھے بتایا تھا کہ حلقے کے نگہبان میں کون سی خوبیاں ہونی چاہئیں اور مجھے کن خوبیوں میں نکھار لانے کی ضرورت ہے۔ جب مَیں نے یہ خدمت شروع کی تو اِس کے تھوڑی ہی دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ بھائی جیمز نے مجھے جو مشورے دیے تھے، اُن کی مجھے کتنی ضرورت تھی۔ مَیں نے حلقے کے نگہبان کے طور پر سب سے پہلے جس صوبائی نگہبان کے ساتھ کام کِیا، وہ بھائی جیمز ہی تھے۔ مَیں نے اُن سے بہت کچھ سیکھا ہے۔
اُن دنوں میں حلقے کے نگہبانوں کو زیادہ تربیت نہیں دی جاتی تھی۔ حلقے کے ایک نگہبان نے میرے ساتھ ایک کلیسیا کا دورہ کِیا اور مَیں نے دیکھا کہ دورے کے دوران سارے کام کیسے کیے جاتے ہیں۔ پھر اُس نے میرے ساتھ ایک اَور کلیسیا کا دورہ کِیا۔ وہاں سارے کام مَیں نے کیے اور اُس نے مجھے ضرورت کے مطابق مشورے دیے۔ اِس کے بعد ہم اُس بھائی کے بغیر ہی کلیسیاؤں کا دورہ کرنے لگے۔ مَیں نے گلوریا سے کہا: ”کیا واقعی اب ہمیں اکیلے کلیسیاؤں کا دورہ کرنا پڑے گا؟“ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مجھے ایک اہم بات سمجھ آ گئی۔ ایسے بھائی تو ہمیشہ ہوتے ہیں جو آپ کی اچھی مدد کر سکتے ہیں لیکن آپ کو فائدہ تبھی ہوگا جب آپ اُن کی مدد کو قبول کریں گے۔ مَیں نے تجربہکار بھائیوں، مثلاً بھائی جیمز براؤن اور بھائی فریڈ رسک سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ بھائی جیمز اُس وقت سفری نگہبان تھے اور بھائی فریڈ بیتایل میں تھے۔ مَیں آج بھی اِس بات کی بڑی قدر کرتا ہوں کہ اُنہوں نے میری اِتنی مدد کی تھی۔
اُن دنوں میں نسلپرستی کی وبا ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ ایک دفعہ کے کے کے تنظیم نے اُس قصبے میں جلوس نکالا جس میں ہم کلیسیاؤں کا دورہ کر رہے تھے۔ ایک اَور
مرتبہ کی بات ہے کہ ہم مُنادی کے دوران چھوٹے سے وقفے کے لیے ایک ہوٹل میں گئے۔ جب مَیں باتھ روم کی طرف جا رہا تھا تو ایک آدمی میرے پیچھے پیچھے آنے لگا۔ وہ بڑے غصے میں لگ رہا تھا اور اُس نے اپنے جسم پر ایسے ٹیٹو بنوائے ہوئے تھے جن سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ نسلپرست ہے۔ لیکن پھر ایک سفیدفام بھائی جو ہم دونوں سے زیادہ لمبا چوڑا تھا، وہاں آ گیا۔ اُس نے مجھ سے پوچھا: ”سب ٹھیک ہے، بھائی ہرڈ؟“ وہ آدمی اُس بھائی کو دیکھ کر باتھ روم اِستعمال کیے بغیر ہی وہاں سے چلا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ میں نے دیکھا ہے کہ نسلپرستی کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ لوگوں کا رنگ فرق ہے بلکہ یہ ہے کہ اِنسانوں میں گُناہ موجود ہے۔ مَیں نے یہ بھی سیکھا ہے کہ ہمارے سب ہمایمان ہمارے بھائی ہیں پھر چاہے اُن کا رنگ کالا ہو یا گورا۔ اور یہ بھائی ضرورت پڑنے پر ہمارے لیے جان بھی دے سکتے ہیں۔روحانی لحاظ سے مالامال
مَیں نے 12 سال حلقے کے نگہبان کے طور پر اور 21 سال صوبائی نگہبان کے طور پر خدمت کی۔ اِن سالوں کے دوران یہوواہ نے ہمیں برکتوں سے مالامال کِیا اور ہمیں بہت سے اچھے تجربے ہوئے۔ لیکن یہوواہ ہمیں ایک اَور برکت سے بھی نوازنے والا تھا۔ اگست 1997ء میں ہمارا سالوں پُرانا خواب سچ ہو گیا۔ ہمیں امریکہ کے بیتایل میں خدمت کرنے کی دعوت دی گئی۔ یہ دعوت ہمیں بیتایل کے لیے پہلی بار فارم پُر کرنے کے 38 سال بعد ملی۔ اگلے مہینے ہم نے بیتایل میں خدمت شروع کی۔ میرا خیال تھا کہ بھائیوں نے ہمیں تھوڑے عرصے کے لیے بیتایل بلایا ہے لیکن ایسا نہیں تھا۔
مجھے سب سے پہلے خدمتی شعبے میں کام کرنے کی ذمےداری دی گئی۔ میں نے وہاں بہت کچھ سیکھا۔ اُس شعبے کے بھائیوں کو ایسے حساس اور پیچیدہ معاملات کے حوالے سے ہدایات دینی ہوتی تھیں جن کے بارے میں بزرگوں کی جماعتیں اور حلقے کے نگہبان اُنہیں خط لکھتے تھے۔ مَیں اُن بھائیوں کا بہت شکرگزار ہوں کہ اُنہوں نے بڑے صبر اور محنت سے میری تربیت کی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر مجھے دوبارہ اُس شعبے میں کام کرنے کا موقع دیا جائے تو مجھے اب بھی اُن بھائیوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
مجھے اور گلوریا کو بیتایل میں خدمت کرنا بہت پسند ہے۔ ہمیں ہمیشہ سے ہی صبح سویرے اُٹھنے کی عادت ہے اور یہ عادت بیتایل میں ہمارے بڑے کام آتی ہے۔ بیتایل آنے کے تقریباً ایک سال بعد مَیں نے گورننگ باڈی کی خدمتی کمیٹی کے مددگار کے طور پر کام کرنا شروع کِیا۔ پھر 1999ء میں مجھے گورننگ باڈی کا رُکن مقرر کِیا گیا۔ مَیں نے اِس ذمےداری کو نبھاتے ہوئے بہت کچھ سیکھا ہے۔ سب سے اہم بات مَیں نے یہ سیکھی ہے کہ کلیسیا کا سربراہ کوئی آدمی نہیں بلکہ یسوع مسیح ہیں۔
جب مَیں بیتے سالوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میری زندگی عاموس نبی جیسی ہے۔ عاموس ایک ایسا کام کرتے تھے جسے لوگ بہت ادنیٰ خیال کرتے تھے۔ وہ گُولر یعنی اِنجیر کی ایک ایسی قسم کے پھل بٹورتے تھے جو صرف غریب لوگ کھاتے تھے۔ لیکن خدا نے عاموس کو ایک نبی مقرر کِیا اور اُنہیں اُن کی خدمت کے دوران بےشمار برکتوں سے نوازا۔ (عاموس 7:14، 15) اِسی طرح یہوواہ نے مجھ پر بھی نظرِکرم کی جو کہ ایک چھوٹے سے قصبے کے ایک غریب کسان کا بیٹا تھا۔ یہوواہ نے مجھ پر اِتنی برکتیں نچھاور کی ہیں کہ مَیں یہاں اُن کا ذکر نہیں کر سکتا۔ (امثال 10:22) سچ ہے کہ شروع میں مَیں مالی لحاظ سے غریب تھا لیکن یہوواہ نے اب مجھے روحانی لحاظ سے اِتنا مالامال کِیا ہے کہ مَیں نے کبھی اِس کا تصور بھی نہیں کِیا تھا!