مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

نوجوانو!‏ ڈٹ کر اِبلیس کا مقابلہ کریں

نوجوانو!‏ ڈٹ کر اِبلیس کا مقابلہ کریں

‏”‏وہ جنگی لباس پہن لیں جو خدا کی طرف سے ہے تاکہ آپ ڈٹ کر اِبلیس کی چالوں کا مقابلہ کر سکیں۔‏“‏‏—‏اِفسیوں 6:‏11‏۔‏

گیت:‏ 7،‏  55

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ مسیحی نوجوان شیطان اور بُرے فرشتوں کے خلاف جنگ جیتنے کے قابل کیسے ہیں؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟‏

پولُس رسول نے مسیحیوں کو فوجیوں سے تشبیہ دی۔‏ اور واقعی ہم سب ایک جنگ لڑ رہے ہیں۔‏ اِس جنگ میں ہمارے دُشمن اِنسان نہیں بلکہ شیطان اور بُرے فرشتے ہیں۔‏ یہ بُری روحانی مخلوقات ماہر جنگجو ہیں اور اِن کے پاس لڑنے کا کافی تجربہ ہے۔‏ اِس لیے ایسا لگ سکتا ہے کہ اِس جنگ میں ہمارا جیتنا بہت مشکل ہے۔‏ خاص طور پر نوجوانوں کے جیتنے کا اِمکان بہت کم دِکھائی دے سکتا ہے۔‏ کیا نوجوان اِن طاقت‌ور دُشمنوں کے خلاف جنگ جیت سکتے ہیں؟‏ بےشک وہ جیت سکتے ہیں اور جیت بھی رہے ہیں۔‏ وہ ایسا کرنے کے قابل کیسے ہیں؟‏ وہ ہمارے ’‏مالک سے طاقت حاصل کرتے ہیں۔‏‘‏ اِس کے علاوہ وہ اُس ’‏جنگی لباس کو پہن لیتے ہیں جو خدا کی طرف سے ہے‘‏ اور یوں جنگ لڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔‏‏—‏اِفسیوں 6:‏10-‏12 کو پڑھیں۔‏

2 جب پولُس نے مسیحیوں کو فوجیوں سے تشبیہ دی تو شاید اُن کے ذہن میں وہ جنگی لباس تھا جو رومی فوجی پہنتے تھے۔‏ (‏اعمال 28:‏16‏)‏ اِس مضمون میں ہم خدا کی طرف سے ملنے والے جنگی لباس کے ہر حصے پر باری باری بات کریں گے۔‏ جنگی لباس کے ہر حصے پر بات کرتے وقت ہم کچھ نوجوانوں کے بیانات پر غور کریں گے جن میں وہ بتائیں گے کہ اُس حصے کو پہننا کیوں مشکل ہو سکتا ہے اور اِسے پہننے کے کون سے فائدے ہیں۔‏

کیا آپ نے اپنے جنگی لباس کے تمام حصوں کو پہنا ہوا ہے؟‏

‏”‏سچائی کی پیٹی“‏

3،‏ 4.‏ بائبل کی سچائیاں کس لحاظ سے اُس پیٹی کی طرح ہیں جسے رومی فوجی پہنتے تھے؟‏

3 اِفسیوں 6:‏14 کو پڑھیں۔‏ ایک رومی فوجی جو پیٹی باندھتا تھا،‏ اُس میں دھات کی پتریاں لگی ہوتی تھیں۔‏ اِن پتریوں کی وجہ سے فوجی کی کمر کا وہ حصہ محفوظ رہتا تھا جس کے گرد پیٹی بندھی ہوتی تھی۔‏ اِس کے علاوہ پیٹی کی بدولت فوجی کا بھاری بکتر اپنی جگہ پر رہتا تھا۔‏ کچھ پیٹیوں پر تلوار اور خنجر کو لٹکانے کے لیے مضبوط کنڈیاں بھی لگی ہوتی تھی۔‏ اگر فوجی نے اپنی پیٹی کو مضبوطی سے باندھا ہوتا تھا تو وہ اِعتماد کے ساتھ جنگ میں جا سکتا تھا۔‏

خدا کے کلام کی سچائیاں ہمیں جھوٹی تعلیمات سے محفوظ رکھتی ہیں۔‏

4 خدا کے کلام کی سچائیاں بھی ایک پیٹی کی طرح ہیں۔‏ یہ سچائیاں ہمیں جھوٹی تعلیمات سے محفوظ رکھتی ہیں۔‏ (‏یوحنا 8:‏31،‏ 32؛‏ 1-‏یوحنا 4:‏1‏)‏ ہمارے دل میں اِن سچائیوں کے لیے جتنی زیادہ محبت ہوتی ہے،‏ ہمارے لیے اپنے ”‏بکتر“‏ کو پہننا یعنی خدا کے معیاروں کے مطابق زندگی گزارنا اُتنا آسان ہو جاتا ہے۔‏ (‏زبور 111:‏7،‏ 8؛‏ 1-‏یوحنا 5:‏3‏)‏ اِس کے علاوہ ہم جتنی اچھی طرح اِن سچائیوں کو سمجھتے ہیں اُتنی اچھی طرح ہم اپنے مخالفوں کے سامنے اِن کا دِفاع کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔‏—‏1-‏پطرس 3:‏15‏۔‏

5.‏ ہمیں ہمیشہ سچ کیوں بولنا چاہیے؟‏

5 چونکہ ہم خدا کے کلام میں درج سچائیوں سے محبت کرتے ہیں اِس لیے ہم اِس میں لکھی باتوں پر عمل کرتے ہیں اور ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔‏ دراصل جھوٹ شیطان کے مؤثر ہتھیاروں میں سے ایک ہے۔‏ جھوٹ کا نقصان جھوٹ بولنے والے اور اِس پر یقین کرنے والے دونوں کو ہوتا ہے۔‏ (‏یوحنا 8:‏44‏)‏ اِس لیے عیب‌دار ہونے کے باوجود ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم کبھی جھوٹ نہ بولیں۔‏ (‏اِفسیوں 4:‏25‏)‏ ایسا کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔‏ 18 سالہ ایبی‌گیل کہتی ہیں:‏ ”‏ہو سکتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ سچ بولنا فائدہ‌مند نہ لگے،‏ خاص طور پر تب جب جھوٹ بولنے سے ہم کسی مشکل سے نکل سکتے ہوں۔‏“‏ پھر بھی ایبی‌گیل ہمیشہ سچ بولنے کی کوشش کرتی ہیں۔‏ وہ ایسا کیوں کرتی ہیں؟‏ اُنہوں نے بتایا:‏ ”‏جب مَیں سچ بولتی ہوں تو مَیں پاک ضمیر کے ساتھ یہوواہ کی عبادت کر پاتی ہوں۔‏ اور میرے والدین اور دوستوں کے لیے مجھ پر بھروسا کرنا آسان ہو جاتا ہے۔‏“‏ 23 سالہ وِکٹوریہ کہتی ہیں:‏ ”‏ہو سکتا ہے کہ لوگ آپ کو اُس وقت ڈرائیں دھمکائیں جب آپ سچ بولیں یا اپنے عقیدوں کا دِفاع کریں۔‏ لیکن ایسا کرنے سے آپ کو بہت سے فائدے ہوتے ہیں؛‏ آپ کو اِعتماد حاصل ہوتا ہے،‏ آپ یہوواہ کے اَور قریب محسوس کرتے ہیں اور اُن لوگوں کی نظر میں عزت کماتے ہیں جو آپ سے پیار کرتے ہیں۔‏“‏ بِلاشُبہ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ہمیشہ ”‏سچائی کی پیٹی“‏ باندھے رکھیں۔‏

سچائی کی پیٹی (‏پیراگراف 3-‏5 کو دیکھیں۔‏)‏

‏”‏نیکی کا بکتر“‏

6،‏ 7.‏ یہوواہ کے نیک معیار ایک بکتر کی طرح کیسے ہیں؟‏

6 رومی فوجی کا بکتر اکثر لوہے کی لمبی پتریوں سے بنایا جاتا تھا اور اِنہیں اِس طرح موڑا جاتا تھا کہ یہ اُس کے سینے کو ڈھانپ لیتی تھیں۔‏ اِن پتریوں کو دھات کے کلپوں کی مدد سے چمڑے کے پٹوں کے ساتھ جوڑا جاتا تھا۔‏ فوجی کے کندھے لوہے کی مزید پتریوں سے ڈھکے ہوتے تھے اور یہ پتریاں بھی چمڑے کے پٹوں کے ساتھ جُڑی ہوتی تھیں۔‏ بکتر کو پہننے کی وجہ سے فوجی کے لیے اِدھر اُدھر حرکت کرنا تھوڑا مشکل ہو جاتا تھا۔‏ اِس کے ساتھ ساتھ اُسے وقتاًفوقتاً یہ دیکھنا ہوتا تھا کہ پتریاں اپنی جگہ پر ٹکی ہیں یا نہیں۔‏ لیکن یہ بکتر فوجی کے دل اور دیگر اہم اعضا کو تلوار یا تیر کے وار سے محفوظ رکھتا تھا۔‏

ہم اِتنے دانش‌مند نہیں ہیں کہ خود اپنے دل کی حفاظت کر سکیں۔‏

7 یہوواہ کے نیک معیار بھی ایک بکتر کی طرح ہیں۔‏ یہ ہمارے ”‏دل“‏ کی حفاظت کرتے ہیں جو کہ ہماری ذات اور فطرت کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔‏ (‏امثال 4:‏23‏)‏ ایک فوجی کبھی بھی اپنے بکتر میں لوہے کی بجائے کسی کمزور دھات کی پتریاں نہیں لگاتا تھا۔‏ اِسی طرح ہمیں کبھی بھی یہوواہ کے معیاروں پر چلنے کی بجائے صحیح اور غلط کے سلسلے میں اپنے معیار قائم نہیں کرنے چاہئیں۔‏ ہم اِتنے دانش‌مند نہیں ہیں کہ خود اپنے دل کی حفاظت کر سکیں۔‏ (‏امثال 3:‏5،‏ 6‏)‏ اِس لیے ہمیں باقاعدگی سے اِس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ یہوواہ نے ہمیں جو ”‏بکتر“‏ دیا ہے،‏ کیا اِس پر لگی لوہے کی پتریاں اپنی جگہ پر ٹکی ہیں اور ہمارے دل کی حفاظت کر رہی ہیں۔‏

8.‏ ہمیں یہوواہ کے معیاروں پر کیوں چلنا چاہیے؟‏

8 کیا آپ کو کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ یہوواہ کے معیاروں پر چلنے کی وجہ سے آپ کی آزادی چھن جاتی ہے اور آپ وہ کام نہیں کر پاتے جو آپ کا دل چاہتا ہے؟‏ ڈینئل جن کی عمر 21 سال ہے،‏ کہتے ہیں:‏ ”‏چونکہ مَیں بائبل کے معیاروں کے مطابق زندگی گزارتا ہوں اِس لیے میرے ٹیچر اور ہم‌جماعت میرا مذاق اُڑاتے تھے۔‏ کچھ عرصے کے لیے تو مَیں اپنا اِعتماد کھو بیٹھا اور افسردہ رہنے لگا۔‏“‏ ڈینئل اِس صورتحال سے باہر کیسے نکل پائے؟‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏وقت کے ساتھ ساتھ مَیں نے دیکھا کہ یہوواہ کے معیاروں پر چلنے کے کون سے فائدے ہوتے ہیں۔‏ میرے کچھ ساتھیوں نے منشیات لینی شروع کر دیں اور کچھ نے سکول چھوڑ دیا۔‏ مجھے یہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ وہ اپنی زندگی برباد کر رہے ہیں۔‏ مجھے یقین ہو گیا کہ یہوواہ واقعی ہماری حفاظت کرتا ہے۔‏“‏ 15 سالہ میڈیسن کہتی ہیں:‏ ”‏جب مَیں اپنے ہم‌عمروں کو ایسے کام کرتی دیکھتی ہوں جن سے وہ زندگی کا مزہ لوٹتے ہیں تو میرے لیے یہوواہ کے معیاروں پر چلنا آسان نہیں ہوتا۔‏“‏ میڈیسن اِس کشمکش کا سامنا کیسے کرتی ہیں؟‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏مَیں یہ یاد رکھتی ہوں کہ مَیں یہوواہ کے نام سے کہلاتی ہوں اور آزمائشوں کے ذریعے شیطان مجھ پر وار کرتا ہے۔‏ جب مَیں شیطان کو ہرا دیتی ہوں تو میرا اِعتماد بڑھ جاتا ہے۔‏“‏

نیکی کا بکتر (‏پیراگراف 6-‏8 کو دیکھیں۔‏)‏

‏”‏امن کی خوش‌خبری کے جُوتے“‏

9-‏11.‏ ‏(‏الف)‏ پولُس رسول نے کن جُوتوں کا ذکر کِیا جنہیں مسیحیوں کو پہننا چاہیے؟‏ (‏ب)‏ ہم دوسروں کو زیادہ اِعتماد سے گواہی دینے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟‏

9 اِفسیوں 6:‏15 کو پڑھیں۔‏ اگر ایک رومی فوجی نے جُوتے نہیں پہنے ہوتے تھے تو وہ جنگ لڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تھا۔‏ اُس کے جُوتے چمڑے کی تین تہوں سے بنے ہوتے تھے اِس لیے یہ بہت مضبوط اور آرام‌دہ ہوتے تھے۔‏ اِنہیں پہن کر فوجی اِس اِعتماد کے ساتھ جنگ میں جا سکتا تھا کہ اُس کے پاؤں نہیں پھسلیں گے۔‏

10 رومی فوجی تو جنگ لڑنے کے لیے جُوتے پہنتے تھے۔‏ لیکن جو جُوتے ہمارے جنگی لباس کا حصہ ہیں،‏ ہم وہ اِس لیے پہنتے ہیں تاکہ ”‏امن کی خوش‌خبری“‏ سنا سکیں۔‏ (‏یسعیاہ 52:‏7؛‏ رومیوں 10:‏15‏)‏ البتہ مُنادی کا کام کرنے کے لیے ہمیں دلیری کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ 20 سالہ بو کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں اپنے ہم‌جماعتوں کو گواہی دینے سے گھبراتا تھا۔‏ اِس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے ایسا کرنے میں شرمندگی محسوس ہوتی تھی۔‏ مگر اب جب مَیں اُس وقت کو یاد کرتا ہوں تو مَیں سمجھتا ہوں کہ مجھے شرمندگی محسوس نہیں کرنی چاہیے تھی۔‏ اب مجھے اپنے ہم‌عمروں کو گواہی دینا اچھا لگتا ہے۔‏“‏

11 بہت سے مسیحی نوجوانوں نے دیکھا ہے کہ اگر وہ پہلے سے تیار رہتے ہیں تو وہ زیادہ اِعتماد کے ساتھ دوسروں کو گواہی دے پاتے ہیں۔‏ آپ اِس حوالے سے تیار رہنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‏ 16 سالہ جولیا کہتی ہیں:‏ ”‏مَیں اپنے سکول کے بیگ میں ہماری کتابیں اور رسالے رکھتی ہوں۔‏ اور جب میرے ہم‌جماعت اپنے عقیدوں کے بارے میں بات کرتے ہیں یا کسی معاملے کے حوالے سے اپنی رائے کا اِظہار کرتے ہیں تو مَیں دھیان سے اُن کی بات سنتی ہوں۔‏ پھر مَیں یہ سوچتی ہوں کہ مَیں اُن کو کیسے گواہی دے سکتی ہوں۔‏ جب مَیں پہلے سے تیار رہتی ہوں تو مَیں اُن کے ساتھ ایسے موضوعات پر بات کر پاتی ہوں جو اُن کے لیے فائدہ‌مند ثابت ہو سکتے ہیں۔‏“‏ مکن‌زی جو 23 سال کی ہیں،‏ کہتی ہیں:‏ ”‏اگر آپ اپنے ہم‌عمروں کے ساتھ اچھی طرح پیش آتے ہیں اور توجہ سے اُن کی بات سنتے ہیں تو آپ اُن کی صورتحال کو سمجھ سکتے ہیں۔‏ مَیں کوشش کرتی ہوں کہ اُن سارے مضامین کو پڑھوں جو ہماری تنظیم نوجوانوں کے لیے شائع کرتی ہے۔‏ اِس طرح مَیں اِس قابل ہوتی ہوں کہ اپنے ہم‌عمروں کی توجہ بائبل کی ایسی آیتوں یا jw.org پر کسی ایسے مضمون یا ویڈیو کی طرف دِلا سکوں جو اُن کے لیے مفید ہو سکتی ہے۔‏“‏ اِن بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر آپ دوسروں کو گواہی دینے کے لیے پہلے سے تیاری کرتے ہیں تو آپ ایسے فوجی کی طرح ہوں گے جو آرام‌دہ اور مضبوط جُوتے پہن کر پورے اِعتماد کے ساتھ جنگ میں جانے کے لیے تیار ہوتا ہے۔‏

امن کی خوش‌خبری کے جُوتے (‏پیراگراف 9-‏11 کو دیکھیں۔‏)‏

‏”‏ایمان کی بڑی ڈھال“‏

12،‏ 13.‏ شیطان آپ پر کون سے ’‏جلتے تیر‘‏ پھینک سکتا ہے؟‏

12 اِفسیوں 6:‏16 کو پڑھیں۔‏ ایک رومی فوجی کے ہاتھ میں بڑی اور لمبی ڈھال ہوتی تھی۔‏ یہ ڈھال اُسے کندھوں سے گھٹنوں تک ڈھک دیتی تھی اور اُسے تلوار،‏ تیر اور بھالے کے وار سے محفوظ رکھتی تھی۔‏

13 شیطان آپ پر کون سے ’‏جلتے تیر‘‏ پھینک سکتا ہے؟‏ وہ آپ کے ذہن میں یہوواہ کے بارے میں جھوٹی باتیں بھر کر آپ پر حملہ کر سکتا ہے۔‏ شیطان آپ کو یہ احساس دِلانا چاہتا ہے کہ یہوواہ کو آپ کی فکر نہیں ہے اور آپ کسی کی محبت کے لائق نہیں ہیں۔‏ 19 سالہ آئڈا کہتی ہیں:‏ ”‏یہ احساس اکثر مجھ پر حاوی ہو جاتا ہے کہ یہوواہ مجھ سے بہت دُور ہے اور وہ میرا دوست نہیں بننا چاہتا۔‏“‏ آئڈا ایسے احساسات پر کیسے قابو پاتی ہیں؟‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏اِجلاسوں کی بدولت میرا ایمان بہت مضبوط ہوتا ہے۔‏ پہلے جب مَیں اِجلاسوں میں جاتی تھی تو مَیں کوئی جواب نہیں دیتی تھی۔‏ مَیں سوچتی تھی کہ کوئی بھی میری بات سننا نہیں چاہتا۔‏ مگر اب مَیں تیاری کر کے اِجلاسوں میں جاتی ہوں اور دو سے تین جواب دینے کی کوشش کرتی ہوں۔‏ ایسا کرنا مشکل ہے لیکن ایسا کرنے کے بعد مجھے بڑا اچھا محسوس ہوتا ہے۔‏ اور بہن بھائی بھی میری بہت حوصلہ‌افزائی کرتے ہیں۔‏ مَیں جب بھی اِجلاسوں سے واپس آتی ہوں تو اِس یقین کے ساتھ آتی ہوں کہ یہوواہ مجھ سے پیار کرتا ہے۔‏“‏

14.‏ آئڈا کی مثال سے کیا بات واضح ہوتی ہے؟‏

14 ایک فوجی کی ڈھال کی لمبائی چوڑائی کم زیادہ نہیں ہوتی تھی۔‏ لیکن آئڈا کی مثال سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارا ایمان کم یا زیادہ ہو سکتا ہے۔‏ اب یہ ہم پر ہے کہ ہمارا ایمان کتنا مضبوط ہے۔‏ (‏متی 14:‏31؛‏ 2-‏تھسلُنیکیوں 1:‏3‏)‏ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ’‏ایمان کی ڈھال‘‏ ہماری حفاظت کرے تو ہمیں اِس ڈھال کو بڑا اور مضبوط بناتے رہنا چاہیے۔‏

ایمان کی بڑی ڈھال (‏پیراگراف 12-‏14 کو دیکھیں۔‏)‏

‏”‏نجات کا ہیلمٹ“‏

15،‏ 16.‏ ہماری اُمید کس لحاظ سے ہیلمٹ کی طرح ہے؟‏

15 اِفسیوں 6:‏17 کو پڑھیں۔‏ ایک رومی فوجی ہیلمٹ بھی پہنتا تھا جس سے اُس کا سر،‏ گردن اور چہرہ محفوظ رہتا تھا۔‏ کچھ ہیلمٹ ایسے ہوتے تھے جن کے ساتھ ایک ہینڈل لگا ہوتا تھا تاکہ فوجی اِنہیں آسانی سے ہاتھ میں پکڑ سکیں۔‏

16 جس طرح ہیلمٹ ایک فوجی کے دماغ کو محفوظ رکھتا تھا اُسی طرح ہماری ”‏نجات کی اُمید“‏ ”‏تمیز“‏ یعنی ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو محفوظ رکھتی ہے۔‏ (‏1-‏تھسلُنیکیوں 5:‏8؛‏ امثال 3:‏21‏)‏ اُمید کی وجہ سے ہم اپنا دھیان خدا کے وعدوں پر رکھ پاتے ہیں اور مشکلات آنے پر بےحوصلہ نہیں ہوتے۔‏ (‏زبور 27:‏1،‏ 14؛‏ اعمال 24:‏15‏،‏ فٹ‌نوٹ)‏ لیکن اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ”‏ہیلمٹ“‏ ہماری حفاظت کرے تو ہمیں اِسے ہاتھ میں پکڑنے کی بجائے سر پر پہننا چاہیے۔‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں اپنی اُمید کو مضبوط بناتے رہنا چاہیے۔‏

17،‏ 18.‏ ‏(‏الف)‏ شیطان ہمیں اپنا ہیلمٹ اُتارنے پر کیسے اُکسا سکتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم یہ کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم شیطان کے دھوکے میں نہیں آئے ہیں؟‏

17 شیطان ہمیں اپنا ہیلمٹ اُتارنے پر کیسے اُکسا سکتا ہے؟‏ ذرا غور کریں کہ اُس نے یسوع مسیح کے ساتھ کیا کِیا تھا۔‏ شیطان جانتا تھا کہ یسوع دُنیا پر حکمرانی کریں گے۔‏ لیکن اِس سے پہلے یسوع کو اذیت اور موت کا سامنا کرنا تھا۔‏ اور پھر اُنہیں یہوواہ کے مقررہ وقت تک بادشاہ بننے کے لیے اِنتظار کرنا تھا۔‏ اِس لیے شیطان نے یسوع کو وقت سے پہلے حکمرانی حاصل کرنے کی پیشکش کی۔‏ اُس نے یسوع سے وعدہ کِیا کہ اگر وہ اُسے ایک بار سجدہ کریں گے تو وہ فوراً اُنہیں دُنیا کا حکمران بنا دے گا۔‏ (‏لُوقا 4:‏5-‏7‏)‏ شیطان ہمارے بارے میں بھی یہ جانتا ہے کہ یہوواہ نے ہمیں نئی دُنیا میں اچھی اچھی چیزیں دینے کا وعدہ کِیا ہے۔‏ لیکن اِس وعدے کے پورا ہونے سے پہلے ہمیں اِنتظار کرنا ہے اور اِنتظار کے اِس وقت کے دوران ہمیں بہت سے مسئلوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔‏ اِس لیے شیطان ہمیں ابھی ایک پُرآسائش زندگی کی پیشکش کرتا ہے۔‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم خدا کی بادشاہت کی بجائے آرام‌وآسائش کو اپنی زندگی میں پہلے درجے پر رکھیں۔‏—‏متی 6:‏31-‏33‏۔‏

18 بہت سے مسیحی نوجوان شیطان کے اِس دھوکے میں نہیں آئے ہیں۔‏ اِن میں سے ایک 20 سالہ کیانا ہیں۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏مَیں جانتی ہوں کہ ہم صرف خدا کی بادشاہت پر ہی یہ اُمید لگا سکتے ہیں کہ وہ ہمارے سارے مسئلوں کو حل کر دے گی۔‏“‏ اِس اُمید کا کیانا کی سوچ اور طرزِزندگی پر کیا اثر ہوتا ہے؟‏ اِس کی بدولت وہ یہ یاد رکھ پاتی ہیں کہ اِس دُنیا کی چیزیں عارضی ہیں۔‏ اِس لیے وہ اپنا وقت اور توانائی دُنیا میں اچھا پیشہ اِختیار کرنے پر لگانے کی بجائے یہوواہ کی خدمت میں لگاتی ہیں۔‏

نجات کا ہیلمٹ (‏پیراگراف 15-‏18 کو دیکھیں۔‏)‏

‏”‏روح کی تلوار“‏

19،‏ 20.‏ آپ خدا کے کلام کو اِستعمال کرنے کی مہارت کو کیسے نکھار سکتے ہیں؟‏

19 رومی فوجی جو تلوار اِستعمال کرتے تھے،‏ وہ تقریباً 50 سینٹی‌میٹر (‏20 اِنچ)‏ لمبی ہوتی تھی۔‏ وہ فوجی تلوار چلانے میں بڑی مہارت رکھتے تھے کیونکہ وہ ہر روز اِسے چلانے کی مشق کرتے تھے۔‏

20 پولُس رسول نے کہا کہ خدا کا کلام ایک تلوار کی طرح ہے جو یہوواہ نے ہمیں دی ہے۔‏ ہمیں اِسے اپنے عقیدوں کی وضاحت کرنے یا ضرورت پڑنے پر اپنی سوچ کو درست کرنے کے لیے مہارت سے اِستعمال کرنا سیکھنا چاہیے۔‏ (‏2-‏کُرنتھیوں 10:‏4،‏ 5؛‏ 2-‏تیمُتھیُس 2:‏15‏)‏ آپ خدا کے کلام کو اِستعمال کرنے کی مہارت کو کیسے نکھار سکتے ہیں؟‏ 21 سالہ سباسٹیان کہتے ہیں:‏ ”‏جب مَیں بائبل پڑھتا ہوں تو مَیں ہر باب میں سے اپنی پسند کی کوئی ایک آیت لکھ لیتا ہوں۔‏ اِس طرح مَیں اپنی پسندیدہ آیتوں کی ایک فہرست بنا رہا ہوں۔‏ ایسا کرنے سے مَیں اِس قابل ہوتا ہوں کہ یہوواہ کی سوچ کو اَور بہتر طور پر سمجھ سکوں۔‏“‏ ڈینئل جن کا ذکر پہلے کِیا گیا ہے،‏ کہتے ہیں:‏ ”‏بائبل پڑھتے وقت مَیں ایسی آیتوں پر غور کرتا ہوں جن کے متعلق مجھے لگتا ہے کہ وہ مُنادی کے دوران ملنے والے لوگوں کے لیے فائدہ‌مند ثابت ہو سکتی ہیں۔‏ مَیں نے اِس بات کا تجربہ کِیا ہے کہ لوگ اُس وقت بڑا اچھا ردِعمل دِکھاتے ہیں جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ آپ شوق سے بائبل کے بارے میں بات کرتے ہیں اور اُن کی مدد کرنے کے لیے سخت کوشش کر رہے ہیں۔‏“‏

روح کی تلوار (‏پیراگراف 19،‏ 20 کو دیکھیں۔‏)‏

21.‏ ہمیں شیطان اور بُرے فرشتوں سے ڈرنے کی ضرورت کیوں نہیں ہے؟‏

21 اِس مضمون میں نوجوانوں کے جو بیانات دیے گئے ہیں،‏ اُن سے واضح ہوتا ہے کہ ہمیں شیطان اور بُرے فرشتوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‏ سچ ہے کہ وہ طاقت‌ور ہیں لیکن اُن کی طاقت یہوواہ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔‏ اور وہ ہمیشہ زندہ نہیں رہیں گے۔‏ وہ مسیح کی ہزار سالہ بادشاہت میں قید کر دیے جائیں گے اور کسی کو نقصان نہیں پہنچا پائیں گے۔‏ اِس کے بعد اُنہیں نیست کر دیا جائے گا۔‏ (‏مکاشفہ 20:‏1-‏3،‏ 7-‏10‏)‏ ہم اپنے دُشمن کے بارے میں جانتے ہیں اور اُس کے اِرادوں اور چالوں سے واقف ہیں۔‏ یہوواہ خدا کی مدد سے ہم ڈٹ کر اُس کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔‏