مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 19

بُرائی سے بھری دُنیا میں محبت اور اِنصاف

بُرائی سے بھری دُنیا میں محبت اور اِنصاف

‏”‏تُو ایسا خدا نہیں جو شرارت سے خوش ہو۔‏ بدی تیرے ساتھ نہیں رہ سکتی۔‏“‏‏—‏زبور 5:‏4‏۔‏

گیت نمبر 54‏:‏ اپنے ایمان کو مضبوط رکھو

مضمون پر ایک نظر *

1-‏3.‏ ‏(‏الف)‏ زبور 5:‏4-‏6 کے مطابق یہوواہ بُرائی کو کیسا خیال کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ”‏مسیح کی شریعت“‏ کے خلاف ہے؟‏

یہوواہ خدا کو ہر قسم کی بُرائی سے نفرت ہے۔‏ ‏(‏زبور 5:‏4-‏6 کو پڑھیں۔‏)‏ اُسے بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی سے تو خاص طور پر نفرت ہے جو کہ بہت ہی گھٹیا اور گھناؤنا کام ہے۔‏ یہوواہ کے بندوں کے طور پر ہم بھی اِس کام سے سخت گھن کھاتے ہیں اور اِسے کلیسیا میں قطعی برداشت نہیں کرتے ہیں۔‏—‏روم 12:‏9؛‏ عبر 12:‏15،‏ 16‏۔‏

2 بچوں کے ساتھ کی جانے والی کسی بھی قسم کی زیادتی ”‏مسیح کی شریعت“‏ کے خلاف ہے۔‏ (‏گل 6:‏2‏)‏ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟‏ کیونکہ پچھلے مضمون میں ہم نے سیکھا تھا کہ مسیح کی شریعت محبت کی بنیاد پر قائم ہے اور اِنصاف کو فروغ دیتی ہے۔‏ اِس شریعت میں وہ سب کچھ شامل ہے جو یسوع نے اپنی باتوں اور کاموں سے سکھایا۔‏ چونکہ سچے مسیحی اِس شریعت پر عمل کرتے ہیں اِس لیے وہ بچوں کے ساتھ اِس طرح سے پیش آتے ہیں جس سے اُنہیں حقیقی محبت اور تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔‏ لیکن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ایسا خودغرضانہ اور ناجائز فعل ہے جس سے بچے کے اندر یہ احساس جنم لیتا ہے کہ اُس کی حفاظت کرنے والا اور اُس سے پیار کرنے والا کوئی نہیں۔‏

3 افسوس کی بات ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ایک عالمی وبا ہے اور سچے مسیحیوں نے بھی اِس وبا کی وجہ سے نقصان اُٹھایا ہے۔‏ دراصل ”‏بُرے اور دھوکےباز آدمی“‏ ہر جگہ موجود ہیں اور اِن میں سے کچھ کلیسیا میں داخل ہونے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔‏ (‏2-‏تیم 3:‏13‏)‏ اِس کے علاوہ کچھ ایسے اشخاص نے بھی جو کلیسیا کا حصہ تھے،‏ اپنی بےہودہ جنسی خواہشوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور بچوں کو اپنی ہوس کا شکار بنایا۔‏ لہٰذا آئیں،‏ اِس بات پر غور کریں کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اِتنا سنگین گُناہ کیوں ہے۔‏ اِس کے بعد ہم دیکھیں گے کہ جب کلیسیا میں کوئی سنگین گُناہ سرزد ہوتا ہے جس میں کسی بچے کے ساتھ جنسی زیادتی جیسا نفرت‌انگیز گُناہ بھی شامل ہے تو بزرگ کیا کرتے ہیں اور والدین اپنے بچوں کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں۔‏ *

ایک نہایت سنگین گُناہ

4،‏ 5.‏ یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ کسی بچے کے ساتھ جنسی زیادتی اُس کے خلاف گُناہ ہوتا ہے؟‏

4 جب کسی بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے تو اِس کا اثر نہ صرف اُس پر بلکہ اُن لوگوں پر بھی ہوتا ہے جو اُس سے پیار کرتے ہیں یعنی اُس کے گھر والوں اور کلیسیا کے بہن بھائیوں پر۔‏ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اِنتہائی سنگین گُناہ ہے۔‏

5 متاثرہ بچے کے خلاف گُناہ۔‏ کوئی بھی ایسا کام جس سے کسی شخص کو تکلیف اور نقصان پہنچے،‏ ایک گُناہ ہوتا ہے۔‏ جیسا کہ ہم اگلے مضمون میں دیکھیں گے،‏ کسی بچے کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے والا شخص ایسا ہی کرتا ہے۔‏ وہ بچے کو ایسے نقصانات پہنچاتا ہے جو بہت ہی تباہ‌کُن ہوتے ہیں۔‏ وہ اُس کا بھروسا توڑتا ہے اور اُس سے تحفظ کا احساس چھین لیتا ہے۔‏ بچوں کو اِس مکروہ فعل سے بچایا جانا چاہیے اور جو لوگ اِس کا شکار ہوئے ہیں،‏ اُنہیں مدد اور تسلی دی جانی چاہیے۔‏—‏1-‏تھس 5:‏14‏۔‏

6،‏ 7.‏ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ کسی بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والا شخص کلیسیا اور حکومت کے خلاف گُناہ کرتا ہے؟‏

6 کلیسیا کے خلاف گُناہ۔‏ اگر کلیسیا میں سے کوئی شخص کسی بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا ہے تو وہ کلیسیا کی بدنامی کا باعث بنتا ہے۔‏ (‏متی 5:‏16؛‏ 1-‏پطر 2:‏12‏)‏ دُنیا بھر میں لاکھوں مسیحی ہیں جو اپنے ”‏ایمان کے لیے ڈٹ کر لڑنے“‏ کی کوشش کر رہے ہیں۔‏ جب کسی ایک شخص کی وجہ سے اُن سب کی بدنامی ہوتی ہے تو اِن مسیحیوں کے ساتھ بڑی نااِنصافی ہوتی ہے۔‏ (‏یہوداہ 3‏)‏ ہم ایسے اشخاص کو کلیسیا میں ہرگز برداشت نہیں کرتے جو گُناہ کرنے کے بعد توبہ نہیں کرتے اور کلیسیا کا نام خراب کرتے ہیں۔‏

7 حکومت کے خلاف گُناہ۔‏ مسیحیوں کو ”‏حاکموں کا تابع‌دار“‏ رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔‏ (‏روم 13:‏1‏)‏ ہم یہ تابع‌داری اُس وقت ظاہر کرتے ہیں جب ہم حکومت کے بنائے قوانین کی پابندی کرتے ہیں۔‏ اگر کلیسیا میں سے کوئی شخص جُرم کرتا ہے،‏ مثلاً اگر وہ کسی بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا ہے تو وہ حکومت کے خلاف گُناہ کرتا ہے۔‏ (‏اعمال 25:‏8 پر غور کریں۔‏)‏ سچ ہے کہ بزرگوں کے پاس یہ اِختیار نہیں ہوتا کہ وہ کسی مُجرم کو سزا دیں لیکن وہ زیادتی کے مُجرم کو اُس سزا سے بچانے کی بھی کوشش نہیں کرتے جو حکومت نے عائد کی ہوتی ہے۔‏ (‏روم 13:‏4‏)‏ گُناہ کرنے والا شخص اپنے کیے کا نتیجہ بھگتتا ہے۔‏—‏گل 6:‏7‏۔‏

8.‏ یہوواہ اِنسانوں کے خلاف کیے جانے والے گُناہوں کو کیسا خیال کرتا ہے؟‏

8 سب سے بڑھ کر خدا کے خلاف گُناہ۔‏ ‏(‏زبور 51:‏4‏)‏ جب ایک اِنسان دوسرے اِنسان کے خلاف گُناہ کرتا ہے تو وہ یہوواہ کے خلاف بھی گُناہ کرتا ہے۔‏ اِس سلسلے میں بنی‌اِسرائیل کو دی گئی شریعت میں سے ایک مثال پر غور کریں۔‏ شریعت میں کہا گیا تھا کہ جب کوئی شخص اپنے ہمسائے کو لوٹتا ہے یا اُس پر ظلم کر کے اُس کی کوئی چیز چھین لیتا ہے تو وہ ”‏[‏یہوواہ]‏ کا قصور“‏ کرتا ہے۔‏ (‏احبا 6:‏2-‏4‏)‏ یہ بات اُس وقت بھی لاگو کی جا سکتی ہے جب کلیسیا میں سے کوئی شخص کسی بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا ہے۔‏ ایسا شخص دراصل بچے سے تحفظ کا احساس چھین لیتا ہے اور یوں یہوواہ کا قصور کرتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ وہ یہوواہ کی بدنامی کا باعث بنتا ہے۔‏ اِس لیے ہمیں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو خدا کے خلاف ایک مکروہ گُناہ خیال کرنا چاہیے اور اِس کی مذمت کرنی چاہیے۔‏

9.‏ یہوواہ کی تنظیم نے سالوں کے دوران کون سی معلومات فراہم کی ہیں اور وہ وقتاًفوقتاً اِن پر نظرِثانی کیوں کرتی ہے؟‏

9 سالوں کے دوران یہوواہ کی تنظیم نے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے موضوع پر کافی معلومات فراہم کی ہیں۔‏ مثال کے طور پر ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ اور ‏”‏جاگو!‏“‏ کے مضامین میں بتایا گیا کہ زیادتی کا شکار ہونے والے اشخاص جذباتی تکلیف سے کیسے نمٹ سکتے ہیں،‏ دوسرے لوگ اُنہیں مدد اور حوصلہ کیسے دے سکتے ہیں اور والدین اپنے بچوں کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں۔‏ بزرگوں کو کافی تربیت دے کر یہ سکھایا گیا ہے کہ جب کسی بچے کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے تو اُنہیں کیا کرنا چاہیے۔‏ خدا کی تنظیم وقتاًفوقتاً اُن ہدایات پر نظرِثانی کرتی ہے جو اِس معاملے کے حوالے سے بزرگوں کو دی جاتی ہیں۔‏ وہ ایسا اِس لیے کرتی ہے تاکہ بزرگ ایسی صورتحال میں جو بھی قدم اُٹھائیں،‏ وہ مسیح کی شریعت کے عین مطابق ہوں۔‏

جب کلیسیا میں کوئی سنگین گُناہ ہوتا ہے

10-‏12.‏ ‏(‏الف)‏ جب بزرگوں کو کسی سنگین گُناہ کی خبر ملتی ہے تو وہ کس بات کو یاد رکھتے ہیں اور وہ کن باتوں کے حوالے سے فکرمند ہوتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یعقوب 5:‏14،‏ 15 کو ذہن میں رکھتے ہوئے بتائیں کہ بزرگ کیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏

10 جب کلیسیا میں کوئی سنگین گُناہ ہوتا ہے تو بزرگ یہ یاد رکھتے ہیں کہ اُنہیں مسیح کی شریعت کے مطابق وہی کام کرنا ہے جو خدا کی نظر میں راست ہے اور گلّے کے ساتھ محبت سے پیش آنا ہے۔‏ یہی وجہ ہے کہ جب بزرگوں کو کسی سنگین گُناہ کی خبر ملتی ہے تو وہ مختلف باتوں کے حوالے سے فکرمند ہوتے ہیں۔‏ سب سے پہلے تو اُنہیں خدا کے نام کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کی فکر ہوتی ہے۔‏ (‏احبا 22:‏31،‏ 32؛‏ متی 6:‏9‏)‏ پھر اُنہیں یہ فکر بھی ہوتی ہے کہ کلیسیا کے بہن بھائی روحانی لحاظ سے کمزور نہ پڑیں۔‏ اِس کے علاوہ اُن کے ذہن میں یہ بات بھی چل رہی ہوتی ہے کہ وہ اُس شخص کی مدد کیسے کر سکتے ہیں جسے دوسرے شخص کے گُناہ کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے۔‏

11 اگر گُناہ کرنے والا شخص کلیسیا کا حصہ ہو تو بزرگوں کو ایک اَور بات پر بھی غور کرنا ہوتا ہے۔‏ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ کیا وہ شخص دل سے تائب ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ یہوواہ کے ساتھ رشتہ بحال کرنے میں اُس کی مدد کرتے ہیں۔‏ ‏(‏یعقوب 5:‏14،‏ 15 کو پڑھیں۔‏)‏ جو مسیحی اپنی غلط خواہشوں پر قابو نہیں رکھتا اور سنگین گُناہ کرتا ہے،‏ وہ روحانی لحاظ سے بیمار ہوتا ہے یعنی خدا کے ساتھ اُس کا رشتہ ٹھیک نہیں ہوتا۔‏ * بزرگ روحانی لحاظ سے ڈاکٹر ہوتے ہیں۔‏ وہ کوشش کرتے ہیں کہ ”‏بیمار شخص [‏جس سے گُناہ کرنے والا شخص مُراد ہے]‏ ٹھیک ہو جائے۔‏“‏ بزرگ اُسے پاک کلام سے جو مدد دیتے ہیں،‏ اُس کے ذریعے وہ اُس دراڑ کو بھر سکتا ہے جو یہوواہ کے ساتھ اُس کے رشتے میں آئی ہوتی ہے۔‏ لیکن ایسا صرف اُسی صورت میں ممکن ہے اگر وہ شخص دل سے توبہ کرے۔‏—‏اعما 3:‏19؛‏ 2-‏کُر 2:‏5-‏10‏۔‏

12 لہٰذا یہ واضح ہے کہ بزرگوں کی ذمےداری بہت بھاری ہوتی ہے۔‏ اُنہیں اُس گلّے کی گہری فکر ہوتی ہے جو خدا نے اُن کے سپرد کِیا ہے۔‏ (‏1-‏پطر 5:‏1-‏3‏)‏ وہ چاہتے ہیں کہ بہن بھائی کلیسیا میں خود کو محفوظ محسوس کریں۔‏ یہی وجہ ہے کہ جب بزرگوں کو کسی سنگین گُناہ کی خبر ملتی ہے جس میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی بھی شامل ہے تو وہ فوراً کارروائی کرتے ہیں۔‏ ذرا اِس حوالے سے  پیراگراف 13‏،‏  15 اور  17 کے شروع میں دیے گئے سوالوں پر غور کریں۔‏

13،‏ 14.‏ کیا بزرگ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے اِلزام کی رپورٹ لکھوانے کے حوالے سے ملک کے قانون کی پابندی کرتے ہیں؟‏ وضاحت کریں۔‏

 13 اگر ملک میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے اِلزام کی رپورٹ لکھوانے کے حوالے سے کوئی قانون ہو تو کیا بزرگ اِس قانون کی پابندی کرتے ہیں؟‏ جی ہاں،‏ اگر ملک میں ایسا قانون موجود ہے تو بزرگ اُس کے مطابق چلتے ہیں۔‏ (‏روم 13:‏1‏)‏ یہ کوئی ایسا قانون نہیں جو خدا کے قوانین سے ٹکرائے۔‏ (‏اعما 5:‏28،‏ 29‏)‏ لہٰذا جب بزرگوں کو کسی بچے کے ساتھ زیادتی کی خبر ملتی ہے تو وہ فوراً برانچ سے رابطہ کر کے یہ دریافت کرتے ہیں کہ وہ اِس حوالے سے حکومت کے بنائے قوانین کی پابندی کیسے کر سکتے ہیں۔‏

14 بزرگ متاثرہ بچے،‏ اُس کے والدین اور اِس معاملے کی خبر رکھنے والے دیگر لوگوں کو بتاتے ہیں کہ اُنہیں زیادتی کی رپورٹ درج کروانے کا حق حاصل ہے۔‏ لیکن اگر زیادتی کرنے والا شخص کلیسیا کا حصہ ہو اور رپورٹ لکھوانے سے یہ بات لوگوں کے سامنے آ جائے تو پھر؟‏ ایسی صورت میں کیا رپورٹ لکھوانے والے مسیحی کو یہ سوچنا چاہیے کہ اُس کے ایسا کرنے سے خدا کی بدنامی ہوئی ہے؟‏ بالکل نہیں۔‏ دراصل یہ زیادتی کرنے والا شخص ہے جو خدا کے نام کی بدنامی کا باعث بنا ہے۔‏

15،‏ 16.‏ ‏(‏الف)‏ 1-‏تیمُتھیُس 5:‏19 کی روشنی میں بتائیں کہ بزرگوں کے عدالتی کارروائی شروع کرنے سے پہلے کم از کم دو گواہوں کی شہادت کیوں ضروری ہوتی ہے۔‏ (‏ب)‏ جب کلیسیا سے تعلق رکھنے والے کسی شخص پر کسی بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کا اِلزام لگایا جاتا ہے تو بزرگ کیا کرتے ہیں؟‏

 15 اِس سے پہلے کہ بزرگ عدالتی کارروائی شروع کریں،‏ کم از کم دو گواہوں کی شہادت کیوں ضروری ہوتی ہے؟‏ کیونکہ بائبل کے مطابق یہ بات اِنصاف کے تقاضوں میں شامل ہے۔‏ اگر ایک شخص اپنے گُناہ کا اِعتراف نہیں کرتا تو کم از کم دو ایسے گواہ ہونے چاہئیں جو اُس پر لگائے گئے اِلزام کی تصدیق کریں۔‏ اِس کے بعد ہی عدالتی کمیٹی تشکیل دی جا سکے گی۔‏ (‏اِست 19:‏15؛‏ متی 18:‏16؛‏ 1-‏تیمُتھیُس 5:‏19 کو پڑھیں۔‏‏)‏ کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ سرکاری حکام کو جنسی زیادتی کے اِلزام کی رپورٹ بھی تبھی لکھوائی جا سکتی ہے اگر اِس کے دو گواہ ہوں؟‏ جی نہیں۔‏ جنسی زیادتی ایک جُرم ہے اور یہ بات جُرم کی رپورٹ لکھوانے پر لاگو نہیں ہوتی پھر چاہے یہ رپورٹ بزرگ لکھوائیں یا کوئی اَور۔‏

16 جب بزرگوں کو کلیسیا سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اُس نے فلاں بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے تو پہلے تو وہ اِس معاملے کی رپورٹ لکھوانے کے حوالے سے حکومت کے بنائے قوانین پر عمل کرتے ہیں اور پھر بائبل کے اصولوں کی روشنی میں اِس کی جانچ‌پڑتال کرتے ہیں۔‏ اگر ملزم اپنے اُوپر لگائے گئے اِلزام کی تردید کرتا ہے تو بزرگ گواہوں کی شہادت پر غور کرتے ہیں۔‏ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے،‏ عدالتی کمیٹی تشکیل دینے کے لیے کم از کم دو گواہ ہونے چاہئیں؛‏ ایک تو وہ جس نے اِلزام لگایا ہے اور دوسرا وہ جو اِس اِلزام کی تصدیق کرے یا ملزم کے کوئی اَور ایسے واقعات بتائے جب اُس نے بچوں کو جنسی زیادتی کا شکار بنایا تھا۔‏ * بزرگ اِس بات کو سمجھتے ہیں کہ اگر کسی گُناہ کی تصدیق کے لیے دو گواہ نہیں ہیں تو اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ گُناہ نہیں ہوا اور اِس سے دوسروں کو تکلیف نہیں پہنچی۔‏ بزرگ اُس بچے کو اور اُس کے عزیزوں کو مدد فراہم کرتے رہتے ہیں جسے معلومات کے مطابق زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔‏ اِس کے علاوہ بزرگ زیادتی کے ملزم پر نظر رکھتے ہیں تاکہ کلیسیا کے ارکان کو کسی ممکنہ نقصان سے محفوظ رکھ سکیں۔‏—‏اعما 20:‏28‏۔‏

17،‏ 18.‏ عدالتی کمیٹی کا کیا کام ہوتا ہے؟‏

 17 عدالتی کمیٹی کا کیا کام ہوتا ہے؟‏ لفظ ”‏عدالتی“‏ سے یہ مُراد نہیں کہ اِس کمیٹی میں شامل بزرگ زیادتی کے ملزم کی عدالت کرتے ہوئے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا اُسے سرکاری قانون کی خلاف‌ورزی کرنے پر سزا دی جانی چاہیے یا نہیں۔‏ بزرگ کسی بھی جُرم کے سلسلے میں حکومت کی قانونی کارروائیوں میں دخل نہیں دیتے بلکہ سرکاری حکام کو فیصلہ کرنے دیتے ہیں۔‏ (‏روم 13:‏2-‏4؛‏ طط 3:‏1‏)‏ بزرگوں کی عدالتی کمیٹی دراصل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ آیا جُرم کرنے والا شخص کلیسیا کا حصہ رہ سکتا ہے یا نہیں۔‏

18 عدالتی کمیٹی میں شامل بزرگ صرف کسی معاملے کے مذہبی پہلوؤں کے حوالے سے فیصلہ کرتے ہیں۔‏ وہ صحیفوں کی روشنی میں یہ جائزہ لیتے ہیں کہ زیادتی کا ملزم تائب ہے کہ نہیں۔‏ اگر وہ تائب نہ ہو تو اُسے کلیسیا سے خارج کر دیا جاتا ہے اور کلیسیا کے سامنے اِس کا اِعلان کِیا جاتا ہے۔‏ (‏1-‏کُر 5:‏11-‏13‏)‏ البتہ اگر وہ شخص توبہ کرے تو وہ کلیسیا کا حصہ رہ سکتا ہے۔‏ لیکن ایسی صورت میں بزرگ اُسے بتائیں گے کہ وہ بہت سالوں تک یا شاید اپنی پوری زندگی کلیسیا میں کوئی ذمےداری نہیں نبھا پائے گا۔‏ اِس کے علاوہ بچوں کی حفاظت کے پیشِ‌نظر بزرگ اُن کے والدین کو اکیلے میں خبردار کرتے ہیں کہ اگر وہ شخص اُن کے بچے کے آس‌پاس ہو تو وہ اُس پر نگاہ رکھیں۔‏ ایسے اِقدام اُٹھاتے وقت بزرگ اِس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ وہ دوسروں کو زیادتی کا شکار ہونے والے بچے کا نام نہ بتائیں۔‏

اپنے بچوں کی حفاظت کریں

والدین اپنے بچوں کو جنسی زیادتی سے محفوظ رکھنے کے لیے اُنہیں اُن کی عمر کے حساب سے جنسی معاملات کے بارے میں معلومات دے رہے ہیں۔‏ ایسا کرنے کے لیے وہ تنظیم کی فراہم‌کردہ مطبوعات کو اِستعمال کر رہے ہیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 19-‏22 کو دیکھیں۔‏)‏

19-‏22.‏ والدین اپنے بچوں کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں؟‏ (‏سرِورق کی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

19 بچوں کو خطروں سے محفوظ رکھنے کی ذمےداری کس کی ہوتی ہے؟‏ بےشک والدین کی۔‏ * والدین!‏ آپ کے بچے آپ کے لیے ”‏[‏یہوواہ]‏ کی طرف سے میراث“‏ ہیں۔‏ (‏زبور 127:‏3‏)‏ یہ آپ کی ذمےداری ہے کہ آپ اِس میراث کی حفاظت کریں۔‏ آپ اپنے بچوں کو جنسی زیادتی کا شکار ہونے سے کیسے بچا سکتے ہیں؟‏

20 جنسی زیادتی کے بارے میں اپنا شعور بڑھائیں۔‏ یہ جانیں کہ کس طرح کے لوگ بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں اور وہ بچوں کو پھسلانے کے لیے کون سے حربے اِستعمال کرتے ہیں۔‏ ایسی صورتحال سے آگاہ رہیں جن میں بچوں کو خطرہ ہو سکتا ہے۔‏ (‏امثا 22:‏3؛‏ 24:‏3‏)‏ یاد رکھیں کہ زیادہ‌تر صورتوں میں بچوں کے ساتھ زیادتی ایسے لوگ کرتے ہیں جنہیں وہ جانتے ہیں اور جن پر وہ بھروسا کرتے ہیں۔‏

21 بچوں سے کُھل کر بات کریں اور اُنہیں احساس دِلائیں کہ وہ آپ سے ہر بات کر سکتے ہیں۔‏ ‏(‏اِست 6:‏6،‏ 7‏)‏ اِس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اُن کی بات توجہ سے سنیں۔‏ (‏یعقو 1:‏19‏)‏ یاد رکھیں کہ بچے اکثر اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں بتانے سے ہچکچاتے ہیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ بچے کو یہ ڈر ہو کہ اُس کی بات پر یقین نہیں کِیا جائے گا یا ہو سکتا ہے کہ زیادتی کرنے والے نے اُسے ڈرا دھمکا کر یہ کہا ہو کہ وہ اِس بارے میں کسی کو نہ بتائے۔‏ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے بچے کے ساتھ کچھ غلط ہوا ہے تو سچ جاننے کے لیے نرمی سے اُس سے سوال پوچھیں اور پھر صبر سے اُس کے جوابوں کو سنیں۔‏

22 اپنے بچوں میں شعور پیدا کریں۔‏ بچوں کو اُن کی عمر کے حساب سے جنسی معاملات کے بارے میں معلومات دیں۔‏ اُنہیں سکھائیں کہ اگر کوئی اُنہیں نامناسب طریقے سے چُھونے کی کوشش کرے تو وہ کیا کہیں گے اور کیا کریں گے۔‏ بچوں کی حفاظت کے حوالے سے تنظیم کی فراہم‌کردہ معلومات کو اِستعمال کریں۔‏—‏بکس ”‏ جنسی زیادتی کے حوالے سے شعور‏“‏ کو دیکھیں۔‏

23.‏ ‏(‏الف)‏ ہم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو کیسا خیال کرتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ اگلے مضمون میں کس سوال پر بات کی جائے گی؟‏

23 یہوواہ کے گواہوں کے طور پر ہم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کو نہایت سنگین گُناہ اور اِنتہائی گھٹیا فعل خیال کرتے ہیں۔‏ چونکہ ہم مسیح کی شریعت پر عمل کرتے ہیں اِس لیے ہماری کلیسیاؤں میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کو اُن کے گُناہ کے نتائج سے بچانے کی بالکل بھی کوشش نہیں کی جاتی۔‏ لیکن ہم اُن بہن بھائیوں کی مدد کرنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں جنہیں جنسی زیادتی کی وجہ سے گہرے گھاؤ لگے ہیں؟‏ اِس سوال پر اگلے مضمون میں بات کی جائے گی۔‏

گیت نمبر 42‏:‏ کمزوروں کی مدد کرو

^ پیراگراف 5 اِس مضمون میں ہم غور کریں گے کہ بچوں کو جنسی زیادتی کا شکار ہونے سے کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔‏ ہم یہ بھی سیکھیں گے کہ جب کلیسیا میں کسی بچے کے ساتھ جنسی زیادتی ہوتی ہے تو بزرگ کون سے اِقدام اُٹھاتے ہیں اور والدین اپنے بچوں کو اِس خطرے سے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 3 اِصطلاح کی وضاحت:‏ جب کوئی بالغ شخص کسی بچے کو اپنی جنسی ہوس کی تسکین کے لیے اِستعمال کرتا ہے تو وہ اُس کے ساتھ جنسی زیادتی کرتا ہے۔‏ جنسی زیادتی میں جنسی ملاپ کرنا؛‏ مُنہ کے ذریعے جنسی اعضا کی چھیڑچھاڑ کرنا؛‏ مقعد کے ذریعے جنسی عمل کرنا؛‏ جنسی اعضا،‏ چھاتیوں یا کولہوں کو سہلانا یا دیگر غیراخلاقی حرکتیں کرنا شامل ہے۔‏ یاد رہے کہ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے بچے کا اِس میں کوئی قصور نہیں ہوتا کیونکہ اُس کا تو فائدہ اُٹھایا گیا ہوتا ہے۔‏ جس بچے کے ساتھ ایسا شرم‌ناک فعل کِیا جاتا ہے،‏ اُسے اِس کی وجہ سے سخت نقصانات پہنچتے ہیں۔‏ زیادہ‌تر صورتوں میں لڑکیاں جنسی زیادتی کا نشانہ بنتی ہیں لیکن بہت سے لڑکوں کو بھی اِس کا شکار بنایا جاتا ہے۔‏ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے زیادہ‌تر اشخاص مرد ہوتے ہیں لیکن کچھ عورتیں بھی اِس ناپاک فعل کے ذریعے اپنی ہوس پوری کرتی ہیں۔‏

^ پیراگراف 11 اگر کوئی مسیحی روحانی لحاظ سے بیمار ہے تو وہ اِس بات کو سنگین گُناہ کرنے کا بہانہ نہیں بنا سکتا۔‏ وہ پوری طرح سے اپنے گُناہ کا ذمےدار ہے اور یہوواہ کے حضور جواب‌دہ ہے۔‏—‏روم 14:‏12‏۔‏

^ پیراگراف 16 متاثرہ بچے سے یہ ہرگز نہیں کہا جاتا کہ وہ زیادتی کے ملزم کی موجودگی میں بزرگوں سے بات کرے۔‏ والدین میں سے کوئی یا کوئی اَور قابلِ‌بھروسا شخص بزرگوں کو بچے کے دیے ہوئے بیان کے بارے میں بتا سکتا ہے۔‏ اِس طرح بچے کو مزید کرب سے بچایا جا سکتا ہے۔‏

^ پیراگراف 19 اِس مضمون میں دی جانے والی ہدایات والدین کے علاوہ بچوں کی سرپرستی کرنے والوں پر بھی لاگو ہوتی ہیں۔‏