مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 21

دُنیا کی دانش‌مندی کے اثر سے بچیں!‏

دُنیا کی دانش‌مندی کے اثر سے بچیں!‏

‏”‏اِس دُنیا کی دانش‌مندی خدا کی نظر میں بےوقوفی ہے۔‏“‏‏—‏1-‏کُر 3:‏19‏۔‏

گیت نمبر 37‏:‏ خدا کا پاک کلام

مضمون پر ایک نظر *

1.‏ خدا کے کلام میں ہمیں کیا سکھایا گیا ہے؟‏

یہوواہ ہمارا عظیم اُستاد ہے۔‏ اِس لیے ہم زندگی میں آنے والی کسی بھی مشکل کا حل ڈھونڈ سکتے ہیں۔‏ (‏یسع 30:‏20،‏ 21‏)‏ اُس نے اپنے کلام کے ذریعے ہمیں وہ تمام باتیں سکھائی ہیں جو ’‏ہر لحاظ سے قابل ہونے اور ہر اچھے کام کے لیے تیار ہونے‘‏ میں ہماری مدد کر سکتی ہیں۔‏ (‏2-‏تیم 3:‏17‏)‏ جب ہم بائبل کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارتے ہیں تو ہم اُن لوگوں سے زیادہ دانش‌مند بن جاتے ہیں جو ”‏اِس دُنیا کی دانش‌مندی“‏ کے حامی ہیں۔‏—‏1-‏کُر 3:‏19؛‏ زبور 119:‏97-‏100‏۔‏

2.‏ اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟‏

2 جیسے کہ ہم اِس مضمون میں دیکھیں گے،‏ دُنیا کی دانش‌مندی اکثر ہمارے دل کو بہت بھاتی ہے۔‏ اِس لیے ہمیں اُن لوگوں جیسی سوچ اور کاموں سے دُور رہنا مشکل لگ سکتا ہے جو اِس دُنیا کا حصہ ہیں۔‏ تبھی تو بائبل میں ہمیں یہ نصیحت کی گئی ہے:‏ ”‏خبردار رہیں کہ کوئی آپ کو ایسے فلسفوں اور فضول باتوں کا شکار نہ بنا لے جو اِنسانی روایتوں اور دُنیا کے بنیادی اصولوں کے مطابق ہیں۔‏“‏ (‏کُل 2:‏8‏)‏ اِس مضمون میں ہم دو ایسے معاملوں پر غور کریں گے جن کے بارے میں یہ دُنیا فضول نظریات کا شکار ہے۔‏ دونوں معاملوں پر غور کرتے وقت ہم دیکھیں گے کہ یہ نظریات مقبول کیسے ہوئے،‏ دُنیا کی دانش‌مندی کو قبول کرنے کا کیا نتیجہ نکلا ہے اور پاک کلام میں پائی جانے والی دانش‌مندی دُنیا کی دانش‌مندی سے افضل کیوں ہے۔‏

جنسی معاملات کے حوالے سے گِرتے معیار

3،‏ 4.‏ بیسویں صدی کے اِبتدائی حصے میں ریاستہائے متحدہ امریکہ میں جنسی معاملات کے حوالے سے لوگوں کی سوچ میں کیا تبدیلی آئی؟‏

3 جب بیسویں صدی عیسوی کا اِبتدائی دَور چل رہا تھا تو ریاستہائے متحدہ امریکہ میں جنسی معاملات کے حوالے سے لوگوں کی سوچ میں بہت بڑی تبدیلی آئی۔‏ اِس سے پہلے بہت سے لوگوں کا ماننا تھا کہ جنسی تعلقات صرف شادی‌شُدہ لوگوں کے بیچ میں ہی ہونے چاہئیں اور یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر کُھلے عام بات نہیں کی جانی چاہیے۔‏ لیکن اِن معیاروں نے دم توڑ دیا اور اِن کی جگہ آزاد خیالی کا رُجحان عام ہو گیا۔‏

4 بیسویں صدی کے تیسرے دہے میں معاشرے میں بہت بڑی تبدیلی آئی۔‏ ایک تحقیق‌دان نے کہا:‏ ”‏فلموں،‏ ڈراموں،‏ گانوں،‏ کتابوں اور اِشتہاروں میں جنسی مواد کی بھرمار شروع ہو گئی۔‏“‏ اُس دہے میں بعض لوگ ایسا ڈانس کرنے لگے جس سے شہوت‌انگیزی جھلکتی تھی اور کپڑوں کا ایسا سٹائل اپنانے لگے جو اِتنا حیادار نہیں تھا۔‏ یہ سب بائبل میں درج اِس پیش‌گوئی کے عین مطابق تھا کہ آخری زمانے میں لوگ ”‏موج مستی سے پیار کریں گے۔‏“‏—‏2-‏تیم 3:‏4‏۔‏

یہوواہ کے بندے دُنیا کے گِرتے ہوئے اخلاقی معیاروں کو نہیں اپناتے۔‏ (‏پیراگراف نمبر 5 کو دیکھیں۔‏)‏ *

5.‏ سن 1960ء سے اخلاقی معیاروں میں کیا تبدیلی آئی ہے؟‏

5 سن 1960ء کے دہے میں ہم‌جنس‌پرستی،‏ شادی کیے بغیر اِکٹھے رہنا اور طلاق لینا اَور زیادہ عام ہو گیا۔‏ فلموں،‏ گانوں اور ڈراموں وغیرہ میں فحاشی کو کُھل کر دِکھایا جانے لگا۔‏ حالیہ سالوں میں اِن گِرتے ہوئے اخلاقی معیاروں کے نقصان‌دہ اثرات صاف دِکھائی دیے ہیں۔‏ ایک مصنف کے مطابق اخلاقی معیاروں سے مُنہ موڑنے کی وجہ سے بہت سے خاندان ٹوٹے ہیں،‏ لوگوں کو جذباتی گھاؤ لگے ہیں اور کئی فحش مواد دیکھنے کی لت میں مبتلا ہوئے ہیں۔‏ اخلاقی معیاروں کو رد کرنے کے اَور بھی افسوس‌ناک نتائج نکلتے ہیں جیسے کہ لوگوں کو بہت سی جنسی بیماریاں لگتی ہیں،‏ مثلاً ایڈز۔‏ کیا اِس سب سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ دُنیا کی دانش‌مندی دراصل بےوقوفی ہے؟‏—‏2-‏پطر 2:‏19‏۔‏

6.‏ شیطان جنسی معاملات کے متعلق دُنیا کے نظریے سے کیوں خوش ہے؟‏

6 یہ دُنیا جنسی معاملات کے متعلق جو سوچ رکھتی ہے،‏ اُس سے شیطان کی مرضی پوری ہوتی ہے۔‏ بِلاشُبہ شیطان کو اُس وقت بہت خوشی ملتی ہے جب لوگ جنسی معاملات کے حوالے سے خدا کے معیاروں کی بےقدری کرتے ہیں اور یوں شادی کی نعمت کی بےحُرمتی کرتے ہیں۔‏ (‏اِفس 2:‏2‏)‏ جو لوگ بدکاری کرتے ہیں،‏ وہ جنسی تعلقات کو ایک پاک نعمت خیال نہیں کرتے جس کے ذریعے اِنسان اولاد پیدا کر سکتا ہے بلکہ وہ اِسے بس اپنی ہوس مٹانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔‏ جب لوگ جنسی معاملات کے متعلق دُنیا کی دانش‌مندی پر چلتے ہیں تو شیطان اِس لیے بھی خوش ہوتا ہے کیونکہ ایسے لوگ ہمیشہ کی زندگی کے وارث بننے سے محروم رہ سکتے ہیں۔‏—‏1-‏کُر 6:‏9،‏ 10‏۔‏

جنسی معاملات کے متعلق خدا کا نظریہ

7،‏ 8.‏ بائبل میں جنسی تعلقات کے حوالے سے جو نظریہ پیش کِیا گیا ہے،‏ وہ دُنیا کے نظریے سے بہتر کیوں ہے؟‏

7 جو لوگ دُنیا کی دانش‌مندی کے مطابق چلتے ہیں،‏ وہ جنسی معاملوں کے متعلق خدا کے معیاروں کا مذاق اُڑاتے ہیں اور اِنہیں دقیانوسی خیال کرتے ہیں۔‏ ایسے لوگ شاید کہیں:‏ ”‏اگر خدا چاہتا کہ ہم اپنی جنسی خواہشیں پوری نہ کریں تو وہ ہم میں یہ خواہشیں ڈالتا ہی نہیں۔‏“‏ دراصل یہ لوگ اِس غلط‌فہمی کا شکار ہیں کہ اِنسان کو اپنی ہر خواہش ضرور پوری کرنی چاہیے۔‏ لیکن پاک کلام کی تعلیم اِس کے بالکل برعکس ہے۔‏ اِس کے مطابق خدا نے ہمیں عزت بخشتے ہوئے خود یہ فیصلہ کرنے کا اِختیار دیا ہے کہ ہم اپنی بُری خواہشات کے آگے سر جھکائیں گے یا اِن سے لڑیں گے۔‏ (‏کُل 3:‏5‏)‏ اِس کے علاوہ یہوواہ نے شادی کے بندھن کا بندوبست کِیا ہے تاکہ ہم اپنی جنسی خواہشات کو جائز طور پر پورا کر سکیں۔‏ (‏1-‏کُر 7:‏8،‏ 9‏)‏ یوں شوہر اور بیوی بغیر کسی پریشانی اور پچھتاوے کے جنسی تعلقات سے لطف اُٹھا سکتے ہیں جو کہ عموماً اُس صورت میں نہیں ہوتا جب ایک شخص حرام‌کاری کرتا ہے۔‏

8 بائبل میں جنسی معاملات کے حوالے سے مناسب نظریہ پیش کِیا گیا ہے جسے اپنانے سے لوگ خود کو اور دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے بچ سکتے ہیں۔‏ اِس میں بتایا گیا ہے کہ اِنسان جنسی تعلقات سے لطف اُٹھا سکتا ہے۔‏ (‏امثا 5:‏18،‏ 19‏)‏ لیکن اِس میں یہ نصیحت بھی کی گئی ہے:‏ ”‏آپ میں سے ہر ایک کو پتہ ہونا چاہیے کہ اپنے جسم کو کیسے قابو میں رکھے تاکہ آپ پاک اور باعزت زندگی گزاریں اور اُن قوموں کی طرح نہ بنیں جو اپنی بےلگام جنسی خواہشوں کو پورا کرنے کے جنون میں مبتلا ہیں اور خدا کو نہیں جانتیں۔‏“‏—‏1-‏تھس 4:‏4،‏ 5‏۔‏

9.‏ ‏(‏الف)‏ بیسویں صدی عیسوی کے اِبتدائی حصے میں یہوواہ کے بندوں کی یہ حوصلہ‌افزائی کیسے کی گئی کہ وہ اُس کے کلام میں پائی جانے والی دانش‌مندی کے مطابق چلیں؟‏ (‏ب)‏ 1-‏یوحنا 2:‏15،‏ 16 میں ہمیں کیا نصیحت کی گئی ہے؟‏ (‏ج)‏ رومیوں 1:‏24-‏27 میں ہمیں کن بےحیا کاموں سے دُور رہنے کے لیے کہا گیا ہے؟‏

9 بیسویں صدی عیسوی کے اِبتدائی حصے میں یہوواہ کے بندے اُن لوگوں کے فضول نظریات کا شکار نہیں ہوئے جنہوں نے ”‏شرم‌وحیا کی حد پار“‏ کر دی تھی۔‏ (‏اِفس 4:‏19‏)‏ اُنہوں نے پوری طرح سے خدا کے معیاروں پر ڈٹے رہنے کی کوشش کی۔‏ 15 مئی 1926ء کے ‏”‏واچ‌ٹاور“‏ میں بتایا گیا کہ ”‏ایک مرد یا عورت کی سوچ اور کام پاکیزہ ہونے چاہئیں،‏ خاص طور پر اُس وقت جب مخالف جنس کی بات آتی ہے۔‏“‏ بھلے اُس وقت دُنیا کے معیاروں میں تیزی سے تبدیلی آ رہی تھی مگر خدا کے بندے اُس کے کلام میں پائی جانے والی دانش‌مندی کے مطابق چل رہے تھے۔‏ ‏(‏1-‏یوحنا 2:‏15،‏ 16 کو پڑھیں۔‏)‏ بےشک ہم سب خدا کے کلام کے لیے اُس کے بےحد شکرگزار ہیں۔‏ ہم اِس بات کے لیے بھی یہوواہ کے شکرگزار ہیں کہ وہ ہمیں وقت پر روحانی خوراک فراہم کرتا ہے جس کی مدد سے ہم جنسی معاملات کے متعلق دُنیا کی سوچ اپنانے سے بچ جاتے ہیں۔‏‏—‏رومیوں 1:‏24-‏27 کو پڑھیں۔‏

خودپسندی کا بڑھتا رُجحان

10،‏ 11.‏ بائبل میں آخری زمانے کے حوالے سے کی گئی پیش‌گوئی میں کس بات سے آگاہ کِیا گیا تھا؟‏

10 بائبل میں پیش‌گوئی کی گئی تھی کہ آخری زمانے میں لوگ ”‏خودغرض“‏ ہوں گے۔‏ (‏2-‏تیم 3:‏1،‏ 2‏)‏ لہٰذا ہم یہ دیکھ کر حیران نہیں ہوتے کہ یہ دُنیا خودپسندی کو ہوا دیتی ہے۔‏ ایک اِنسائیکلوپیڈیا میں بتایا گیا کہ 1970ء کے دہے میں ایسی کتابوں میں تیزی سے اِضافہ ہوا جن میں کامیاب زندگی گزارنے کے مشورے دیے گئے تھے۔‏ اِن میں سے کچھ کتابوں میں لوگوں کا حوصلہ بڑھایا گیا کہ ”‏آپ جیسے ہیں ویسے ہی اچھے ہیں۔‏ آپ کو خود کو بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔‏“‏ ایک کتاب میں یہ اِقتباس لکھی تھی:‏ ”‏آپ دُنیا کے سب سے خوب‌صورت،‏ زندہ دل اور قابل شخص ہیں اِس لیے خود پر ناز کریں!‏“‏ اِس کتاب میں خودپرستی کو بڑھاوا دیتے ہوئے کہا گیا:‏ ”‏ایک شخص کو خود یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ کیسا برتاؤ رکھے گا۔‏ اُسے وہی کرنا چاہیے جو اُسے ٹھیک لگتا ہے اور جو اُس کے لیے آسان ہے۔‏“‏

11 کیا یہ بات سُن کر آپ کو وہ الفاظ یاد نہیں آتے جو شیطان نے حوا سے کہے تھے؟‏ اُس نے حوا سے کہا تھا کہ وہ ’‏خدا کی مانند نیک‌وبد کی جاننے والی بن جائیں گی۔‏‘‏ (‏پید 3:‏5‏)‏ آج بھی بہت سے لوگ خود کو اِس قدر اہم سمجھتے ہیں کہ اُنہیں لگتا ہے کہ کسی کو بھی اُنہیں یہ بتانے کا حق نہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط،‏ یہاں تک کہ خدا کو بھی نہیں۔‏ اِس نظریے نے خاص طور پر شادی کے حوالے سے لوگوں کی سوچ پر گہرا اثر ڈالا ہے۔‏

ایک مسیحی اپنی ضرورتوں سے زیادہ دوسروں کی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے،‏ خاص طور پر اپنے جیون ساتھی کی۔‏ (‏پیراگراف نمبر 12 کو دیکھیں۔‏)‏ *

12.‏ دُنیا شادی کے حوالے سے کس نظریے کو فروغ دیتی ہے؟‏

12 بائبل میں شوہروں اور بیویوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کی عزت کریں اور اُن عہدوپیمان پر قائم رہیں جو اُنہوں نے شادی کے دن کیے تھے۔‏ اِس میں شادی‌شُدہ جوڑوں کی حوصلہ‌افزائی کی گئی ہے کہ وہ شادی کے بندھن کو عمر بھر کا بندھن خیال کریں۔‏ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی بیوی سے ملا رہے گا اور وہ ایک تن ہوں گے۔‏“‏ (‏پید 2:‏24‏)‏ البتہ دُنیا کی دانش‌مندی کو قبول کرنے والے لوگ اِس نظریے کو فروغ دیتے ہیں کہ ایک شوہر یا بیوی کو صرف اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔‏ طلاق کے بارے میں ایک کتاب میں لکھا ہے:‏ ”‏شادی کی تقریبات پر دُلہا دُلہن عموماً یہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ زندگی بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھائیں گے۔‏ لیکن بعض تقریبات میں اِس وعدے کو بدل کر دُلہا دُلہن یہ کہتے ہیں کہ جب تک وہ ایک دوسرے سے محبت کریں گے،‏ وہ ایک دوسرے کا ساتھ نبھائیں گے۔‏“‏ شادی کے بارے میں ایسا نظریہ رکھنے کی وجہ سے لاتعداد گھرانے ٹوٹے ہیں اور بہت سے لوگوں کو جذباتی طور پر ٹھیس لگی ہے۔‏ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ شادی کے متعلق دُنیا کا نظریہ سراسر بےوقوفانہ ہے۔‏

13.‏ یہوواہ کے مغرور لوگوں سے نفرت کرنے کی ایک وجہ کیا ہے؟‏

13 بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏ہر ایک سے جس کے دل میں غرور ہے [‏یہوواہ]‏ کو نفرت ہے۔‏“‏ (‏امثا 16:‏5‏)‏ یہوواہ کو مغرور لوگوں سے اِتنی نفرت کیوں ہے؟‏ اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جو لوگ خود کو بہت اہم سمجھتے ہیں اور خودپرستی کے رُجحان کو فروغ دیتے ہیں،‏ وہ شیطان کی ذات کا عکس پیش کر رہے ہوتے ہیں۔‏ ذرا سوچیں،‏ شیطان اِتنا مغرور ہے کہ اُسے لگتا تھا کہ یسوع مسیح جن کے ذریعے یہوواہ نے تمام چیزیں بنائیں،‏ اُنہیں بھی اُس کے سامنے گھٹنے ٹیک کر سجدہ کرنا چاہیے۔‏ (‏متی 4:‏8،‏ 9؛‏ کُل 1:‏15،‏ 16‏)‏ جو لوگ شیطان کی طرح خود کو بہت اہم سمجھتے ہیں،‏ وہ اِس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں کہ دُنیا کی دانش‌مندی دراصل بےوقوفی ہے۔‏

خودپسندی کے متعلق خدا کا نظریہ

14.‏ رومیوں 12:‏3 کی مدد سے ہم اپنی ذات کے متعلق مناسب نظریہ کیسے اپنا سکتے ہیں؟‏

14 بائبل کی مدد سے ہم اپنی ذات کے متعلق مناسب نظریہ اپنا سکتے ہیں۔‏ اِس میں بتایا گیا ہے کہ کسی حد تک خود سے محبت کرنا غلط نہیں ہے۔‏ یسوع مسیح نے کہا کہ ”‏اپنے پڑوسی سے اُسی طرح محبت کرو جس طرح تُم اپنے آپ سے کرتے ہو۔‏“‏ (‏متی 19:‏19‏)‏ اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک شخص کو مناسب حد تک اپنی ضرورتیں پوری کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔‏ البتہ بائبل میں ہمیں اِس بات سے خبردار کِیا گیا ہے کہ ہم خود کو دوسروں سے زیادہ اہم نہ سمجھیں۔‏ اِس میں لکھا ہے:‏ ”‏جھگڑالو اور اناپرست نہ ہوں بلکہ خاکسار ہوں اور دوسروں کو اپنے سے بڑا سمجھیں۔‏“‏—‏فل 2:‏3؛‏ رومیوں 12:‏3 کو پڑھیں۔‏

15.‏ اِس ہدایت پر عمل کرنا کیوں فائدہ‌مند ہے کہ ”‏دوسروں کو اپنے سے بڑا سمجھیں“‏؟‏

15 ایسے بہت سے لوگ جنہیں یہ دُنیا دانش‌مند خیال کرتی ہے،‏ بائبل کی اِس ہدایت کا مذاق اُڑاتے ہیں کہ ہمیں دوسروں کو اپنے سے بڑا سمجھنا چاہیے۔‏ اُن کا کہنا ہے کہ اگر ہم ایسا کریں گے تو لوگ ہمیں کمزور جانیں گے اور ہمارا فائدہ اُٹھائیں گے۔‏ لیکن ذرا سوچیں،‏ خودپرستی کے متعلق شیطان کی دُنیا کی پھیلائی ہوئی سوچ کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟‏ کیا خودغرض لوگ خوش رہتے ہیں؟‏ کیا اُن کے گھر کے افراد خوش رہتے ہیں؟‏ کیا وہ سچے دوست بناتے ہیں؟‏ کیا خدا کے ساتھ اُن کی قریبی دوستی ہوتی ہے؟‏ آپ خود سوچیں کہ کس کی دانش‌مندی پر چلنے کے اچھے نتائج نکلتے ہیں؛‏ اِس دُنیا کی یا خدا کی؟‏

16،‏ 17.‏ ہم کس بات کے لیے شکرگزار ہیں اور کیوں؟‏

16 جو لوگ اِس دُنیا کے دانش‌مندوں کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں،‏ وہ اُس مسافر کی طرح ہوتے ہیں جو کسی ایسے مسافر سے راستہ پوچھتا ہے جو خود بھی بھٹکا ہوا ہے۔‏ یسوع مسیح نے اپنے زمانے کے دانش‌مندوں کے بارے میں کہا:‏ ”‏اگر ایک اندھا،‏ دوسرے اندھے کی رہنمائی کرے گا تو وہ دونوں گڑھے میں گِر جائیں گے۔‏“‏ (‏متی 15:‏14‏)‏ واقعی اِس دُنیا کی دانش‌مندی،‏ دانش‌مندی نہیں بلکہ بےوقوفی ہے۔‏

خدا کے بندوں کو وہ لمحے یاد کر کے اِطمینان ملتا ہے جو وہ اُس کی خدمت میں گزارتے ہیں۔‏ (‏پیراگراف نمبر 17 کو دیکھیں۔‏)‏ *

17 بائبل کی دانش‌مندانہ نصیحت ہمیشہ ”‏تعلیم دینے،‏ اِصلاح کرنے،‏ معاملوں کو سدھارنے اور خدا کے معیاروں کے مطابق تربیت کرنے کے لیے فائدہ‌مند“‏ ثابت ہوتی ہے۔‏ (‏2-‏تیم 3:‏16‏)‏ ہم یہوواہ کے بےحد شکرگزار ہیں کہ اُس نے اپنی تنظیم کے ذریعے ہمیں اِس دُنیا کی دانش‌مندی سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔‏ (‏اِفس 4:‏14‏)‏ وہ ہمیں جو روحانی خوراک فراہم کرتا ہے،‏ اُس سے ہمارا یہ عزم مضبوط ہوتا ہے کہ ہم بائبل میں درج معیاروں سے لپٹے رہیں گے۔‏ یہ ہمارے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ یہوواہ نے اپنے کلام میں ہمیں وہ دانش‌مندی عطا کی ہے جو سب سے زیادہ قابلِ‌بھروسا ہے۔‏

گیت نمبر 32‏:‏ سچائی کی راہ پر قائم رہو

^ پیراگراف 5 اِس مضمون کے ذریعے ہمارے اِس اِعتماد کو مضبوط کِیا جائے گا کہ صرف یہوواہ ہی قابلِ‌بھروسا رہنمائی فراہم کر سکتا ہے۔‏ اِس کے ذریعے ہم یہ بھی سیکھ جائیں گے کہ دُنیا کی دانش‌مندی کے مطابق چلنا کتنا نقصان‌دہ ہے اور خدا کی دانش‌مندی کو عمل میں لانے سے ہمیں کتنا فائدہ ہو سکتا ہے۔‏

^ پیراگراف 49 تصویر کی وضاحت‏:‏ ایک شادی‌شُدہ جوڑے کی زندگی کے کچھ لمحے۔‏ 1960ء کے دہے کے آخر میں وہ مُنادی کے کام میں حصہ لے رہے ہیں۔‏

^ پیراگراف 51 تصویر کی وضاحت‏:‏ 1980ء کے دہے میں بھائی اپنی بیمار بیوی کی دیکھ بھال کر رہا ہے اور اُن کی بیٹی اُنہیں دیکھ رہی ہے۔‏

^ پیراگراف 53 تصویر کی وضاحت‏:‏ اب وہ میاں بیوی اُن لمحوں کو یاد کر کے خوش ہو رہے ہیں جو اُنہوں نے خدا کی خدمت میں گزارے تھے۔‏ اُن کے ساتھ اُن کی بیٹی بھی ہے جو اب جوان ہو گئی ہے۔‏ وہ اپنے شوہر اور بچے کے ساتھ اپنے ماں باپ کی تصویریں دیکھ رہی ہے۔‏