مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 22

اَن‌دیکھی نعمتوں کے لیے قدر ظاہر کریں

اَن‌دیکھی نعمتوں کے لیے قدر ظاہر کریں

‏”‏[‏آ پ کی]‏ نظریں اَن‌دیکھی چیزوں پر جمی ہیں کیونکہ جو چیزیں دیکھی جا سکتی ہیں،‏ وہ وقتی ہیں جبکہ اَن‌دیکھی چیزیں ابدی ہیں۔‏“‏‏—‏2-‏کُر 4:‏18‏۔‏

گیت نمبر 45‏:‏ میرے دل کی سوچ بچار

مضمون پر ایک نظر *

1.‏ یسوع مسیح نے آسمانی خزانوں کے بارے میں کیا کہا؟‏

کچھ خزانے ایسے ہوتے ہیں جو نظر آتے ہیں اور کچھ ایسے جو نظر نہیں آتے۔‏ دیکھا جائے تو سب سے اہم خزانے ایسے ہیں جو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں۔‏ یہ کون سے خزانے ہیں؟‏ یسوع مسیح نے اپنے پہاڑی وعظ میں آسمانی خزانوں کی بات کی جو مال‌ودولت سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں۔‏ پھر اُنہوں نے کہا:‏ ”‏جہاں آپ کا خزانہ ہے وہیں آپ کا دل بھی ہوگا۔‏“‏ (‏متی 6:‏19-‏21‏)‏ اگر ہم کسی چیز کو ایک خزانے کی طرح بیش‌قیمت خیال کرتے ہیں تو ہم اِسے حاصل کرنے میں جت جاتے ہیں۔‏ لیکن ہم ”‏آسمان پر خزانے“‏ کیسے جمع کر سکتے ہیں؟‏ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے سے۔‏ اور یسوع مسیح نے کہا کہ ایسے خزانے نہ تو خراب ہوتے ہیں اور نہ ہی چوری ہوتے ہیں۔‏

2.‏ ‏(‏الف)‏ 2-‏کُرنتھیوں 4:‏17،‏ 18 میں پولُس نے کیا نصیحت کی؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم کیا سیکھیں گے؟‏

2 پولُس رسول نے ہمیں نصیحت کی کہ اپنی ’‏نظریں اَن‌دیکھی چیزوں پر جمائے‘‏ رکھیں۔‏ ‏(‏2-‏کُرنتھیوں 4:‏17،‏ 18 کو پڑھیں۔‏)‏ یہ اَن‌دیکھی چیزیں قیمتی خزانوں کی طرح ہیں اور اِن میں وہ نعمتیں شامل ہیں جو ہمیں نئی دُنیا میں ملیں گی۔‏ لیکن کچھ اَن‌دیکھی نعمتیں ایسی بھی ہیں جن سے ہم آج فائدہ حاصل کرتے ہیں جیسے کہ خدا کے ساتھ دوستی،‏ دُعا کرنے کا شرف،‏ پاک روح کی مدد اور مُنادی کے دوران یہوواہ،‏ یسوع اور فرشتوں کی مدد۔‏ اِس مضمون میں ہم اِنہی چار نعمتوں پر بات کریں گے اور سیکھیں گے کہ ہم اِن نعمتوں کے لیے قدر کیسے ظاہر کر سکتے ہیں۔‏

یہوواہ کے ساتھ دوستی

3.‏ ‏(‏الف)‏ خدا کی اَن‌دیکھی نعمتوں میں سب سے اہم نعمت کون سی ہے؟‏ (‏ب)‏ ہم کس بِنا پر یہوواہ کے ساتھ دوستی کر سکتے ہیں؟‏

3 اَن‌دیکھی نعمتوں میں سب سے اہم نعمت یہوواہ کے ساتھ دوستی ہے۔‏ (‏زبور 25:‏14‏)‏ مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ یہوواہ عیب‌دار اِنسانوں سے دوستی کرے لیکن پھر بھی پاک رہے؟‏ یہ یسوع مسیح کی قربانی کی بدولت ممکن ہے جس سے ”‏دُنیا کے گُناہ دُور“‏ ہو جاتے ہیں۔‏ (‏یوح 1:‏29‏)‏ یہوواہ پہلے سے ہی جانتا تھا کہ اِنسانوں کو نجات دِلانے کے سلسلے میں اُس کا مقصد ناکام نہیں ہوگا۔‏ اِس بِنا پر وہ اُن لوگوں سے بھی دوستی کر سکتا تھا جو یسوع کی قربانی سے پہلے زمین پر رہتے تھے۔‏—‏روم 3:‏25‏۔‏

4.‏ خدا کے چند ایسے دوستوں کی مثالیں دیں جو یسوع کی قربانی سے پہلے فوت ہو چُکے تھے۔‏

4 آئیں،‏ خدا کے چند ایسے دوستوں کے بارے میں بات کریں جو یسوع کی قربانی سے پہلے فوت ہو چُکے تھے۔‏ اِن میں سے ایک ابراہام تھے جو بہت مضبوط ایمان کے مالک تھے۔‏ ابراہام کی موت کے 1000 سال سے زیادہ عرصے بعد بھی یہوواہ نے اُنہیں اپنا ”‏دوست“‏ کہا۔‏ (‏یسع 41:‏8‏)‏ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ موت بھی اِنسانوں کے ساتھ یہوواہ کی دوستی کو توڑ نہیں سکتی۔‏ ابراہام آج بھی یہوواہ کی نظر میں زندہ ہیں۔‏ (‏لُو 20:‏37،‏ 38‏)‏ خدا کے ایک اَور دوست ایوب تھے۔‏ ایک موقعے پر یہوواہ نے سب فرشتوں کے سامنے بڑے اِعتماد سے ایوب کے بارے میں کہا کہ ”‏زمین پر اُس کی طرح کامل اور راست‌باز آدمی جو خدا سے ڈرتا اور بدی سے دُور رہتا ہو کوئی نہیں۔‏“‏ (‏ایو 1:‏6-‏8‏)‏ ذرا دانی‌ایل کے ساتھ یہوواہ کی دوستی پر بھی غور کریں۔‏ دانی‌ایل تقریباً 80 سال تک بُت‌پرست لوگوں میں رہے لیکن پھر بھی اُنہوں نے وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کی۔‏ یہوواہ نے تین بار اپنے فرشتوں کے ذریعے اُنہیں یقین دِلایا کہ وہ اُسے ”‏بہت عزیز“‏ ہیں۔‏ (‏دان 9:‏23؛‏ 10:‏11،‏ 19‏)‏ ہم یہ بھروسا رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ اپنے اُن دوستوں کو زندہ کرنے کی ”‏دلی آرزو“‏ رکھتا ہے جو فوت ہو چُکے ہیں۔‏—‏ایو 14:‏15‏،‏ ترجمہ نئی دُنیا۔‏

خدا کی اَن‌دیکھی نعمتوں کے لیے قدر ظاہر کرنے کے کچھ طریقے کیا ہیں؟‏ (‏پیراگراف نمبر 5،‏ کو دیکھیں۔‏)‏ *

5.‏ یہوواہ کے ساتھ قریبی دوستی کیسے ممکن ہے؟‏

5 کیا آج بھی عیب‌دار اِنسان یہوواہ کے دوست ہیں؟‏ جی بالکل،‏ لاکھوں لوگ یہوواہ کی دوستی سے لطف اُٹھا رہے ہیں۔‏ ہم ایسا اِس لیے کہہ سکتے ہیں کیونکہ پوری دُنیا میں بہت سے مرد،‏ عورتیں اور بچے اپنی زندگی سے ثابت کر رہے ہیں کہ وہ خدا کے دوست ہیں۔‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ”‏راست‌بازوں کے ساتھ [‏یہوواہ]‏ کی رفاقت ہے۔‏“‏ (‏امثا 3:‏32‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن‏)‏ یہ رفاقت یعنی دوستی یسوع مسیح کی قربانی پر ایمان لانے کی وجہ سے ممکن ہے۔‏ یسوع کے فدیے کی بِنا پر ہم یہوواہ کے لیے اپنی زندگی وقف کر سکتے ہیں اور بپتسمہ لے سکتے ہیں۔‏ جب ہم یہ اہم قدم اُٹھاتے ہیں تو ہم ایسے لاکھوں لوگوں میں شامل ہو جاتے ہیں جو اپنی زندگی یہوواہ کے لیے وقف کر کے اور بپتسمہ لے کے کائنات کی سب سے عظیم ہستی کی ”‏رفاقت“‏ سے لطف اُٹھا رہے ہیں۔‏

6.‏ ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کی قدر کرتے ہیں؟‏

6 ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کی قدر کرتے ہیں؟‏ جیسے ابراہام اور ایوب سو سال سے زیادہ عرصے تک یہوواہ کے وفادار رہے،‏ ہمیں بھی یہوواہ کے وفادار رہنا چاہیے پھر چاہے ہمیں یہوواہ کی خدمت کرتے کتنے ہی سال کیوں نہ ہو گئے ہوں۔‏ دانی‌ایل کی طرح ہمیں یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کو اپنی زندگی سے زیادہ اہم سمجھنا چاہیے۔‏ (‏دان 6:‏7،‏ 10،‏ 16،‏ 22‏)‏ یہوواہ کی مدد سے ہم ہر طرح کی مشکل کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور یوں اُس کے ساتھ اپنی قریبی دوستی برقرار رکھ سکتے ہیں۔‏—‏فل 4:‏13‏۔‏

دُعا کرنے کا شرف

7.‏ ‏(‏الف)‏ امثال 15:‏8 کے مطابق یہوواہ ہماری دُعاؤں کے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ ہماری دُعاؤں کا جواب کیسے دیتا ہے؟‏

7 خدا کی ایک اَور اَن‌دیکھی نعمت دُعا کرنے کا شرف ہے۔‏ قریبی دوست ایک دوسرے کو اپنے خیالات اور احساسات کے بارے میں بتاتے ہیں۔‏ یہ بات یہوواہ اور ہماری دوستی کے سلسلے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔‏ یہوواہ اپنے کلام کے ذریعے ہم سے بات کرتا ہے اور ہمیں اپنے خیالات اور احساسات کے بارے میں بتاتا ہے۔‏ ہم دُعا کے ذریعے یہوواہ سے بات کرتے ہیں اور اُسے اپنے دل میں چھپے خیالات اور احساسات کے بارے میں بتاتے ہیں۔‏ یہوواہ ہماری دُعاؤں کو سُن کر خوش ہوتا ہے۔‏ ‏(‏امثال 15:‏8 کو پڑھیں۔‏)‏ وہ ایک پُرمحبت دوست کی طرح نہ صرف ہماری دُعاؤں کو سنتا ہے بلکہ اِن کا جواب بھی دیتا ہے۔‏ کبھی کبھی وہ ہماری دُعاؤں کا جواب جلدی دے دیتا ہے۔‏ لیکن کبھی کبھی ہمیں کسی معاملے کے بارے میں بار بار دُعا کرنی پڑتی ہے۔‏ مگر ہم بھروسا رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ صحیح وقت پر اور بہترین طریقے سے ہماری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے۔‏ ہاں،‏ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ وہ ہماری دُعا کا جواب ہماری توقع کے مطابق نہ دے۔‏ مثال کے طور پر شاید وہ ہماری آزمائش دُور کرنے کی بجائے ہمیں دانش‌مندی اور طاقت دے تاکہ ہم اِس آزمائش میں ”‏ثابت‌قدم رہ سکیں۔‏“‏—‏1-‏کُر 10:‏13‏۔‏

‏(‏پیراگراف نمبر 8 کو دیکھیں۔‏)‏ *

8.‏ ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم دُعا جیسی انمول نعمت کی قدر کرتے ہیں؟‏

8 ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم دُعا جیسی انمول نعمت کی قدر کرتے ہیں؟‏ ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم خدا کی اِس ہدایت پر عمل کریں کہ ”‏ہر وقت دُعا کریں۔‏“‏ (‏1-‏تھس 5:‏17‏)‏ یہوواہ ہمیں دُعا کرنے کے لیے مجبور نہیں کرتا۔‏ اُس نے ہمیں اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کی آزادی دی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ہم اُس کی اِس نصیحت پر عمل کرنے کا فیصلہ کریں کہ ”‏دُعا کرنے میں لگے رہیں۔‏“‏ (‏روم 12:‏12‏)‏ لہٰذا ہم دن میں کئی بار یہوواہ سے دُعا کرنے سے اِس نعمت کے لیے قدر ظاہر کر سکتے ہیں۔‏ ظاہر ہے کہ ہم یہوواہ سے دُعا کرتے وقت اُس کا شکریہ ادا کرنا اور اُس کی حمد کرنا نہیں بھولیں گے۔‏—‏زبور 145:‏2،‏ 3‏۔‏

9.‏ ‏(‏الف)‏ ایک بھائی دُعا کرنے کے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہے؟‏ (‏ب)‏ آپ دُعا کرنے کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں؟‏

9 ہمیں یہوواہ کی خدمت کرتے ہوئے جتنا زیادہ لمبا عرصہ ہوتا ہے اُتنا ہی ہم یہ دیکھ پاتے ہیں کہ وہ ہماری دُعاؤں کا جواب کس کس طرح سے دیتا ہے۔‏ یوں ہمارے دل میں دُعا کے شرف کے لیے اَور زیادہ قدر بڑھ جاتی ہے۔‏ ذرا کرِس نامی بھائی کے الفاظ پر غور کریں جو 47 سال سے کُل‌وقتی خادم ہیں۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مجھے صبح سویرے اُٹھ کر دُعا کرنا بڑا اچھا لگتا ہے۔‏ مجھے اُس وقت یہوواہ سے بات کر کے بڑی تازگی ملتی ہے جب سورج کی کِرنوں سے شبنم کے قطرے جھلملا رہے ہوتے ہیں۔‏ اِس نظارے کو دیکھ کر میرے دل میں یہوواہ کی تمام نعمتوں کے لیے اُس کا شکریہ ادا کرنے کی خواہش اُبھرتی ہے جن میں دُعا کرنے کا شرف بھی شامل ہے۔‏ اور جب مَیں سونے سے پہلے دُعا کرتا ہوں تو مجھے اِس بات سے بڑا سکون ملتا ہے کہ میرا ضمیر صاف ہے۔‏“‏

پاک روح کی مدد

10.‏ ہمیں پاک روح کی قدر کیوں کرنی چاہیے؟‏

10 خدا کی پاک روح ایک اَور اَن‌دیکھی نعمت ہے جس کی ہمیں قدر کرنی چاہیے۔‏ یسوع مسیح نے ہماری حوصلہ‌افزائی کی کہ ہم خدا سے پاک روح مانگتے رہیں۔‏ (‏لُو 11:‏9،‏ 13‏)‏ پاک روح کے ذریعے یہوواہ ہمیں ایسی قوت دیتا ہے جو ”‏اِنسانی قوت سے بڑھ کر ہے۔‏“‏ (‏2-‏کُر 4:‏7؛‏ اعما 1:‏8‏)‏ پاک روح کی مدد سے ہم ثابت‌قدمی سے ہر مشکل کا سامنا کر سکتے ہیں۔‏

‏(‏پیراگراف نمبر 11 کو دیکھیں۔‏)‏ *

11.‏ پاک روح کس طرح ہماری مدد کر سکتی ہے؟‏

11 پاک روح ہمیں اِس قابل بنا سکتی ہے کہ ہم خدا کی خدمت میں اپنی ذمےداریوں کو نبھا سکیں۔‏ اِس کی مدد سے ہم اپنی مہارتوں اور صلاحیتوں کو نکھار سکتے ہیں۔‏ لہٰذا خدا کی خدمت کے سفر میں ہمیں جو کامیابیاں ملتی ہیں،‏ وہ ہماری اپنی وجہ سے نہیں بلکہ پاک روح کی مدد کی وجہ سے ملتی ہیں۔‏

12.‏ زبور 139:‏23،‏ 24 کے مطابق ہمیں کس مقصد کے لیے پاک روح مانگنی چاہیے؟‏

12 پاک روح کے لیے قدر ظاہر کرنے کا ایک اَور طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی غلط سوچ اور خواہشوں کو بھانپنے کے لیے دُعا میں اِسے مانگیں۔‏ ‏(‏زبور 139:‏23،‏ 24 کو پڑھیں۔‏)‏ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو خدا اپنی پاک روح کے ذریعے ہماری سوچ اور اِرادوں کو پہچاننے میں ہماری مدد ضرور کرتا ہے۔‏ اور جب ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ ہمارے اندر کوئی غلط خواہش ہے تو ہمیں تب بھی پاک روح کے لیے درخواست کرنی چاہیے تاکہ ہم اِس خواہش کے آگے ہتھیار نہ ڈالیں۔‏ اِس طرح ہم ظاہر کریں گے کہ ہم ہر ایسے کام سے بچنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے خدا ہمیں اپنی پاک روح دینا بند کر سکتا ہے۔‏—‏اِفس 4:‏30‏۔‏

13.‏ ہم اپنے دل میں پاک روح کے لیے قدر کیسے بڑھا سکتے ہیں؟‏

13 ہم اِس بات پر غور کرنے سے اپنے دل میں پاک روح کے لیے قدر بڑھا سکتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں اِس کے ذریعے کیا کچھ انجام دیا جا رہا ہے۔‏ یسوع مسیح نے آسمان پر جانے سے پہلے اپنے شاگردوں سے کہا:‏ ”‏جب پاک روح آپ پر نازل ہوگی تو آپ کو قوت ملے گی اور آپ .‏ .‏ .‏ زمین کی اِنتہا تک میرے گواہ ہوں گے۔‏“‏ (‏اعما 1:‏8‏)‏ یسوع کی یہ بات بڑے زبردست طریقے سے پوری ہو رہی ہے۔‏ پاک روح کی بدولت دُنیا کے ہر کونے سے تقریباً پچاسی لاکھ لوگ یہوواہ کی تنظیم میں شامل ہو چُکے ہیں۔‏ ہم روحانی فردوس سے بھی لطف اُٹھا رہے ہیں کیونکہ پاک روح کے ذریعے ہم اپنے اندر ”‏محبت،‏ خوشی،‏ اِطمینان،‏ تحمل،‏ مہربانی،‏ اچھائی،‏ ایمان،‏ نرم‌مزاجی اور ضبطِ‌نفس“‏ پیدا کر رہے ہیں جو ’‏روح کے پھل‘‏ کے مختلف پہلو ہیں۔‏ (‏گل 5:‏22،‏ 23‏)‏ بےشک پاک روح ایک بیش‌قیمت نعمت ہے!‏

مُنادی کے کام میں یہوواہ،‏ یسوع اور فرشتوں کی مدد

14.‏ جب ہم مُنادی کرتے ہیں تو ہم کن کے ساتھ کام کر رہے ہوتے ہیں؟‏

14 ایک اَور اَن‌دیکھی نعمت یہ ہے کہ ہم یہوواہ خدا اور اُس کی تنظیم کے آسمانی حصے کے ساتھ کام کرتے ہیں۔‏ (‏2-‏کُر 6:‏1‏)‏ ہم اُس وقت ایسا کرتے ہیں جب ہم شاگرد بنانے کا کام کرتے ہیں۔‏ پولُس رسول نے اپنے اور اِس کام میں حصہ لینے والے دوسرے لوگوں کے بارے میں کہا کہ ”‏ہم خدا کے ساتھ کام کرتے ہیں۔‏“‏ (‏1-‏کُر 3:‏9‏)‏ جب ہم مُنادی کرتے ہیں تو ہم یسوع کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں۔‏ ہم ایسا اِس لیے کہہ سکتے ہیں کیونکہ جب یسوع نے اپنے پیروکاروں کو یہ حکم دیا کہ ”‏سب قوموں کے لوگوں کو شاگرد بنائیں“‏ تو اِس کے بعد اُنہوں نے کہا کہ ”‏مَیں .‏ .‏ .‏ آپ کے ساتھ رہوں گا۔‏“‏ (‏متی 28:‏19،‏ 20‏)‏ ہم اِس بات کے لیے بھی بڑے شکرگزار ہیں کہ فرشتے بھی ”‏زمین کے باشندوں“‏ کو ”‏ابدی خوش‌خبری“‏ سنانے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔‏—‏مکا 14:‏6‏۔‏

15.‏ بائبل سے ایک مثال دے کر واضح کریں کہ یہوواہ ہمارے مُنادی کے کام کے سلسلے میں کون سا اہم کردار ادا کرتا ہے۔‏

15 یہوواہ،‏ یسوع اور فرشتوں کی مدد سے کیا کچھ انجام پا رہا ہے؟‏ جب ہم مُنادی کے دوران بیج بوتے ہیں یعنی بادشاہت کا پیغام سناتے ہیں تو کچھ لوگوں کے دل میں یہ بیج بڑھنے لگتا ہے۔‏ (‏متی 13:‏18،‏ 23‏)‏ لیکن کون اِس بیج کو بڑھاتا اور پھل‌دار بناتا ہے؟‏ یسوع نے کہا:‏ ”‏کوئی شخص میرے پاس نہیں آ سکتا جب تک کہ باپ اُسے میرے پاس نہ لائے۔‏“‏ (‏یوح 6:‏44‏)‏ اِس کی ایک مثال بائبل میں درج وہ واقعہ ہے جب پولُس نے شہر فِلپّی کے باہر کچھ عورتوں کو خوش‌خبری سنائی۔‏ غور کریں کہ بائبل میں اُن عورتوں میں سے ایک کے بارے میں جس کا نام لِدیہ تھا،‏ لکھا ہے:‏ ”‏یہوواہ نے اُن کا دل کھولا اور اُنہوں نے اُن باتوں کو قبول کِیا جو پولُس کہہ رہے تھے۔‏“‏ (‏اعما 16:‏13-‏15‏)‏ جس طرح یہوواہ خدا لِدیہ کو اپنے پاس لایا ویسے ہی وہ لاکھوں لوگوں کو اپنے پاس لے آیا ہے۔‏

16.‏ جب بھی ہمیں مُنادی کے کام میں کوئی کامیابی ملتی ہے تو ہمیں اِس کا سہرا کس کے سر باندھنا چاہیے؟‏

16 جب بھی ہمیں مُنادی کے کام میں کوئی کامیابی ملتی ہے تو ہمیں اِس کا سہرا کس کے سر باندھنا چاہیے؟‏ اِس سوال کا جواب ہمیں پولُس رسول کے اُن الفاظ سے ملتا ہے جو اُنہوں نے کُرنتھس کی کلیسیا کے نام لکھے۔‏ اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏مَیں نے پودا لگایا،‏ اپلّوس نے اِسے پانی دیا لیکن خدا نے اِسے بڑھایا۔‏ لہٰذا نہ تو پودا لگانے والا اہم ہے اور نہ ہی پانی دینے والا۔‏ اہم تو خدا ہے جو اِسے بڑھاتا ہے۔‏“‏ (‏1-‏کُر 3:‏6،‏ 7‏)‏ لہٰذا پولُس رسول کی طرح ہمیں بھی مُنادی کے کام میں ملنے والی ہر کامیابی کا سہرا یہوواہ کے سر باندھنا چاہیے۔‏

17.‏ ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم یہوواہ،‏ یسوع اور فرشتوں کے ساتھ کام کرنے کے اعزاز کی قدر کرتے ہیں؟‏

17 ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم یہوواہ،‏ یسوع اور فرشتوں کے ساتھ کام کرنے کے اعزاز کی قدر کرتے ہیں؟‏ ہم دوسروں کو خوش‌خبری سنانے کے موقعے ڈھونڈنے سے ایسا کر سکتے ہیں۔‏ دوسروں کو خوش‌خبری سنانے کے کئی طریقے ہیں جیسے کہ ”‏عوامی جگہوں پر .‏ .‏ .‏ اور گھر گھر“‏ جا کر مُنادی کرنا۔‏ (‏اعما 20:‏20‏)‏ بہت سے بہن بھائی غیرمنظم گواہی بھی دیتے ہیں۔‏ جب وہ کسی اجنبی سے ملتے ہیں تو وہ دوستانہ انداز میں اُسے سلام کرتے ہیں اور اُس سے بات‌چیت شروع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ اگر وہ شخص مثبت ردِعمل ظاہر کرتا ہے تو وہ سمجھ‌داری سے بات‌چیت کا رُخ بادشاہت کے پیغام کی طرف موڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏

‏(‏پیراگراف نمبر 18 کو دیکھیں۔‏)‏ *

18،‏ 19.‏ ‏(‏الف)‏ ہم سچائی کے بیج کو پانی کیسے دیتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ یہوواہ نے بائبل کورس کرنے والے ایک شخص کی مدد کیسے کی کہ وہ اپنی سوچ اور خیالات کو بدل سکے؟‏

18 ‏”‏خدا کے ساتھ کام“‏ کرنے والوں کے طور پر ہمیں نہ صرف لوگوں کے دل میں سچائی کا بیج بونا چاہیے بلکہ اِسے پانی بھی دینا چاہیے۔‏ جب کوئی شخص ہمارے پیغام میں دلچسپی لیتا ہے تو ہمیں اُس کے ساتھ بائبل کورس شروع کرنے کے اِرادے سے یا تو خود اُس سے دوبارہ ملنا چاہیے یا پھر کسی بہن بھائی سے اُس کی ملاقات کرانی چاہیے۔‏ جب بائبل کورس آگے بڑھتا ہے اور یہوواہ اُس شخص کی مدد کر تا ہے کہ وہ اپنی سوچ اور خیالات کو بدلے تو ہمیں بڑی خوشی ہوتی ہے۔‏

19 ذرا رفالالانی کی مثال پر غور کریں جو جنوبی افریقہ میں ایک عامل تھے۔‏ اُنہیں وہ باتیں بڑی اچھی لگتی تھیں جو وہ بائبل کورس سے سیکھ رہے تھے۔‏ لیکن جب اُنہوں نے سیکھا کہ بائبل میں جادوگری اور مُردوں سے رابطہ کرنے سے منع کِیا گیا ہے تو اُنہیں اِس بات کو قبول کرنا کافی مشکل لگا۔‏ (‏اِست 18:‏10-‏12‏)‏ لیکن آہستہ آہستہ وہ اِس معاملے میں یہوواہ کی سوچ اپنانے لگے۔‏ آخرکار اُنہوں نے عامل کے طور پر کام کرنا چھوڑ دیا حالانکہ اِس کی وجہ سے اُن کا روزگار چلا گیا۔‏ اب رفالالانی کی عمر 60 سال ہے اور وہ کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں یہوواہ کے گواہوں کا بڑا شکرگزار ہوں کہ اُنہوں نے مختلف طریقوں سے میری مدد کی جیسے کہ نوکری ڈھونڈنے میں۔‏ سب سے بڑھ کر مَیں یہوواہ کا شکرگزار ہوں کہ اُس نے میری مدد کی کہ مَیں اپنی زندگی میں تبدیلیاں لا سکوں اور ایک بپتسمہ‌یافتہ گواہ کے طور پر دوسروں کو خوش‌خبری سنا سکوں۔‏“‏

20.‏ آپ نے کیا عزم کِیا ہے؟‏

20 اِس مضمون میں ہم نے خدا کی چار اَن‌دیکھی نعمتوں پر غور کِیا ہے۔‏ سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ ہم خدا کے قریبی دوست بن سکتے ہیں۔‏ اِس نعمت کی بدولت ہم خدا کی دوسری اَن‌دیکھی نعمتوں سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں یعنی ہم دُعا کر سکتے ہیں،‏ خدا کی پاک روح حاصل کر سکتے ہیں اور مُنادی کے کام میں یہوواہ،‏ یسوع اور فرشتوں کی مدد کا تجربہ کر سکتے ہیں۔‏ آئیں،‏ یہ عزم کریں کہ ہم اِن اَن‌دیکھی نعمتوں کی اَور زیادہ قدر کریں گے اور ہمیشہ اِس بات کے لیے یہوواہ کے شکرگزار رہیں گے کہ اُس نے ہمیں اپنا دوست بننے کا اعزاز دیا ہے۔‏

گیت نمبر 145‏:‏ فردوس کا وعدہ

^ پیراگراف 5 پچھلے مضمون میں ہم نے خدا کی چند ایسی نعمتوں پر بات کی جنہیں ہم دیکھ سکتے ہیں۔‏ لیکن اِس مضمون میں ہم خدا کی کچھ ایسی نعمتوں پر غور کریں گے جو ہمیں دِکھائی نہیں دیتیں۔‏ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ ہم اِن نعمتوں کے لیے قدر کیسے ظاہر کر سکتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ اِس مضمون سے ہمارے دل میں یہوواہ خدا کے لیے قدر پیدا ہوگی جس نے ہمیں یہ نعمتیں عطا کی ہیں۔‏

^ پیراگراف 58 تصویر کی وضاحت‏:‏ ‏(‏1)‏ ایک بہن یہوواہ کی بنائی ہوئی چیزوں کو دیکھ رہی ہے اور اِس بارے میں سوچ رہی ہے کہ یہوواہ کے ساتھ اُس کی دوستی کتنی مضبوط ہے۔‏

^ پیراگراف 60 تصویر کی وضاحت‏:‏ ‏(‏2)‏ وہی بہن یہوواہ سے دُعا کر رہی ہے کہ وہ اُسے گواہی دینے کی ہمت دے۔‏

^ پیراگراف 62 تصویر کی وضاحت‏:‏ ‏(‏3)‏ اُس بہن کو پاک روح نے یہ ہمت دی ہے کہ وہ غیرمنظم گواہی دے سکے۔‏

^ پیراگراف 64 تصویر کی وضاحت‏:‏ ‏(‏4)‏ بہن اُس عورت کو بائبل کورس کرا رہی ہے جسے اُس نے غیرمنظم گواہی دی تھی۔‏ بہن فرشتوں کی مدد کی بدولت مُنادی اور شاگرد بنانے کا کام کر پا رہی ہے۔‏