آپبیتی
”مَیں نے دوسروں سے واقعی بہت کچھ سیکھا ہے!“
مَیں فرانسیسی فوج میں ایک سپاہی تھا اور کافی جوان تھا۔ ہم فوجیوں نے الجزائر کے پہاڑوں پر اپنے کیمپ لگائے ہوئے تھے۔ اُس وقت الجزائر میں ہونے والی جنگ عروج پر تھی۔ ایک رات جب گھپاندھیرا چھایا ہوا تھا اور مَیں اپنی مشین گن پکڑے ہوئے ریت کی بوریوں کے پیچھے پہرا دے رہا تھا تو اچانک مجھے کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ مَیں ڈر کے مارے بالکل سُن پڑ گیا۔ مَیں نہ تو کسی کی جان لینا چاہتا تھا اور نہ ہی خود مرنا چاہتا تھا۔ اِس لیے مَیں چلّا کر خدا سے مدد کی اِلتجا کرنے لگا۔
اُس خوفناک واقعے نے میری زندگی بدل دی کیونکہ تبھی سے مَیں خدا کو جاننے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن یہ بتانے سے پہلے کہ اُس اندھیری رات کو آگے کیا ہوا، مَیں آپ کو اپنے بچپن کی کچھ ایسی باتیں بتانا چاہتا ہوں جن سے میرے دل میں خدا کو جاننے کی خواہش پیدا ہوئی۔
مَیں نے اپنے ابو سے سیکھا
مَیں 1937ء میں شمالی فرانس کے ایک ایسے شہر میں پیدا ہوا جہاں کان کنی کی جاتی ہے۔ میرے ابو کوئلے کی کان میں کام کرتے تھے۔ اُنہوں نے مجھے محنت سے کام کرنا سکھایا۔ ابو اِنصاف سے کام لینے کو بڑا اہم خیال کرتے تھے اور یہی بات اُنہوں نے مجھے بھی سکھائی۔ ابو نے دیکھا تھا کہ کان میں کام کرنے والے بہت سے مزدوروں کے ساتھ کتنی نااِنصافی کی جاتی ہے اور وہ کتنے بُرے حالات میں کام کرتے ہیں۔ابو اِن لوگوں کی مدد کرنا چاہتے تھے اِس لیے وہ ایسی تنظیموں کا حصہ بن گئے جو کان میں کام کرنے والوں کے حقوق کے لیے لڑتی تھیں۔ ابو کو ہمارے علاقے کے پادریوں کی ریاکاری کو دیکھ کر بھی بڑا غصہ آتا تھا۔ حالانکہ اِن میں سے بہت سے بڑی آسائشوں بھری زندگی گزار رہے تھے لیکن پھر بھی وہ کان میں کام کرنے والے غریب مزدوروں سے کھانے پینے کی چیزیں اور پیسے مانگتے تھے۔ ابو پادریوں کے رویے سے اِس قدر تنگ آ گئے
تھے کہ اُنہوں نے مجھے بائبل کی کوئی تعلیم نہیں دی، یہاں تک کہ ہم خدا کے بارے میں کبھی کوئی بات ہی نہیں کرتے تھے۔جب مَیں بڑا ہوا تو مجھے بھی نااِنصافی سے نفرت ہونے لگی۔ ایک بات جو مجھے سراسر زیادتی لگتی تھی، وہ یہ تھی کہ ہمارے علاقے کے بہت سے لوگ فرانس میں رہنے والے غیرملکیوں سے تعصب کرتے تھے۔ مَیں اِنہی غیرملکیوں کے بچوں کے ساتھ فٹبال کھیلا کرتا تھا جس میں مجھے بڑا مزہ آتا تھا۔میری تو اپنی امی پولینڈ سے تھیں نہ کہ فرانس سے۔ مَیں چاہتا تھا کہ مختلف قوموں کے لوگ مِل جُل کر رہیں اور ایک دوسرے کو برابر سمجھیں۔
مَیں زندگی کے مقصد کے بارے میں اَور سنجیدگی سے سوچنے لگا
جب مَیں فوج میں تھا۔
مجھے حکومت کی طرف سے یہ حکم ملا کہ مَیں 1957ء میں فوج میں بھرتی ہو جاؤں۔ اِسی وجہ سے مَیں اُس اندھیری رات میں الجزائر کے پہاڑوں پر تھا جس کا مَیں نے مضمون کے شروع میں نے ذکر کِیا۔ اور جب مَیں چلّا کر خدا سے مدد کی اِلتجا کر رہا تھا تو مَیں نے دیکھا کہ میرے سامنے کوئی دُشمن فوجی نہیں کھڑا تھا بلکہ وہاں ایک جنگلی گدھا آ گیا تھا۔ اِس پر میری جان میں جان آ گئی۔ لیکن اِس واقعے اور جو جنگ ہو رہی تھی، اُس کی وجہ سے مَیں اِس بات پر اَور زیادہ سنجیدگی سے سوچنے لگا کہ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ کیا خدا کو ہماری فکر ہے؟ اور کیا ہمیں کبھی امن اور سکون بھری زندگی دیکھنے کو ملے گی؟
بعد میں جب مَیں چھٹی پر اپنے امی ابو کے ہاں گیا تو میری ملاقات ایک یہوواہ کے گواہ سے ہوئی۔ اُس نے مجھے فرانسیسی زبان میں بائبل کا ایک کیتھولک ترجمہ دیا جسے مَیں نے الجزائر لوٹنے کے بعد پڑھنا شروع کِیا۔ بائبل کی جس آیت نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا، وہ مکاشفہ 21:3، 4 تھی جہاں لکھا ہے: ”خدا کا خیمہ اِنسانوں کے درمیان ہے۔ . . . اور وہ اُن کے سارے آنسو پونچھ دے گا اور نہ موت رہے گی، نہ ماتم، نہ رونا، نہ درد۔ جو کچھ پہلے ہوتا تھا، وہ سب ختم ہو گیا۔“ * مَیں نے پہلے کبھی ایسی بات نہیں پڑھی تھی۔ اِس لیے مَیں خود سے کہنے لگا: ”کیا یہ بات واقعی سچ ہو سکتی ہے؟“ اُس وقت مجھے خدا اور بائبل کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا۔
جب 1959ء میں مَیں نے فوج کو چھوڑ دیا تو مَیں فرانسوا نامی یہوواہ کے ایک گواہ سے ملا جنہوں نے مجھے پاک کلام کی بہت سی سچائیاں سکھائیں۔ مثال کے طور پر اُنہوں نے مجھے بائبل سے دِکھایا کہ خدا کا ذاتی نام یہوواہ ہے۔ (زبور 83:18) اُنہوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ یہوواہ خدا زمین پر اِنصاف قائم کرے گا، وہ اِسے فردوس بنا دے گا اور مکاشفہ 21:3، 4 میں لکھے وعدے کو پورا کرے گا۔
اِن تعلیمات میں بہت وزن تھا اور اِنہوں نے میرے دل کو چُھو لیا۔ مگر مجھے پادریوں پر بڑا غصہ تھا اور مَیں اُنہیں اِس بات پر کھری کھری سنانا چاہتا تھا کہ وہ لوگوں کو ایسی تعلیمات دیتے ہیں جو بائبل میں نہیں ہیں۔ دراصل مجھ پر اُس وقت بھی میرے ابو کی سوچ کا اثر تھا اور مجھ میں صبر کی بھی کافی کمی تھی۔ مَیں فوراً ہی سب کچھ ٹھیک کر دینا چاہتا تھا۔
بھائی فرانسوا نے اور دیگر گواہوں نے جن سے میری دوستی ہو گئی تھی، میری مدد کی تاکہ مَیں اپنے غصے پر قابو پانا سیکھوں۔ اُنہوں نے مجھے سمجھایا کہ مسیحیوں کے طور پر یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم دوسروں کے لیے فیصلہ سنائیں بلکہ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم لوگوں کو بادشاہت کی خوشخبری سنائیں تاکہ اُنہیں اُمید ملے۔ یہی کام یسوع نے کِیا اور اپنے پیروکاروں کو بھی کرنے کا حکم دیا۔ (متی 24:14؛ لُو 4:43) مَیں نے یہ بھی سیکھا کہ مجھے لوگوں کے ساتھ پیار اور سمجھداری سے بات کرنی چاہیے پھر چاہے وہ جن عقیدوں کو بھی مانتے ہوں۔ اور یہی تو خدا کے کلام میں بھی لکھا ہے: ”ہمارے مالک کے غلام کو لڑائی جھگڑا نہیں کرنا چاہیے بلکہ سب کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہیے۔“—2-تیم 2:24۔
امثا 19:14۔
مَیں اپنی زندگی میں تبدیلیاں لایا اور مَیں نے 1959ء میں حلقے کے ایک اِجتماع پر یہوواہ کے گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔ وہیں میری ملاقات آنجیل نامی گواہ سے ہوئی جو مجھے بڑی اچھی لگیں۔ مَیں اُس کلیسیا میں جانے لگا جہاں وہ جاتی تھیں اور پھر ہم نے 1960ء میں شادی کر لی۔ آنجیل ایک بہت ہی اچھی اِنسان ہیں اور بےمثال بیوی ہیں۔ وہ یہوواہ کی طرف سے میرے لیے ایک بیشقیمت تحفہ ہیں۔—ہماری شادی کی تصویر
مَیں نے سمجھدار اور تجربہکار بھائیوں سے بہت کچھ سیکھا
سالوں کے دوران مَیں نے سمجھدار اور تجربہکار بھائیوں سے بہت سی اہم باتیں سیکھی ہیں۔ اِن میں سے ایک اہم بات یہ تھی: کسی بھی مشکل ذمےداری کو نبھانے کے لیے ہمیں خاکسار ہونے اور امثال 15:22 میں درج اِس بات کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے: ”صلاح کے بغیر اِرادے پورے نہیں ہوتے پر صلاحکاروں کی کثرت سے قیام پاتے ہیں۔“
1965ء میں فرانس میں حلقے کا دورے کرتے ہوئے
سن 1964ءمیں مجھے اِس آیت میں لکھی بات پر عمل کرنے کی واقعی ضرورت پڑی۔ اُس وقت مَیں نے حلقے کے نگہبان کے طور پر خدمت شروع کی۔ مَیں کلیسیاؤں کا دورہ کرنے لگا تاکہ مَیں بہن بھائیوں کی حوصلہافزائی کر سکوں اور یہوواہ کے قریب رہنے میں اُن کی مدد کر سکوں۔ لیکن مَیں صرف 27 سال کا تھا اور اِتنا تجربہکار نہیں تھا۔ اِس لیے مجھ سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں۔ لیکن مَیں نے اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کی۔ اِس کے علاوہ مَیں نے لائق اور تجربہکار بھائیوں سے بہت سی اہم باتیں سیکھیں جو ”صلاحکاروں“ کی طرح ثابت ہوئے۔
ایک بھائی کی بات تو مجھے آج بھی یاد ہے جو اُس نے مجھ سے اُس وقت کہی جب مَیں نیا نیا حلقے کا نگہبان بنا تھا۔ جب مَیں نے پیرس کی ایک کلیسیا میں دورہ کِیا تو اِس تجربہکار بھائی نے بعد میں مجھ سے کہا کہ وہ اکیلے میں مجھ سے کوئی بات کرنا چاہتا ہے۔ مَیں نے اُسے کہا: ”جی ضرور۔“
اُنہوں نے مجھ سے پوچھا: ”بھائی لُوئی! ایک ڈاکٹر کسی کے گھر پر کس کو دیکھنے جاتا ہے؟“
مَیں نے جواب دیا: ”بیمار شخص کو۔“
اُنہوں نے کہا: ”بالکل ٹھیک۔ لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ آپ زیادہتر وقت ایسے بہن بھائیوں کے ساتھ گزارتے ہیں جو روحانی لحاظ سے کافی مضبوط ہیں جیسے کہ کلیسیا کا نگہبان۔ ہماری کلیسیا میں بہت سے ایسے بہن بھائی ہیں جو بےحوصلہ ہیں، نئے نئے گواہ بنے ہیں اور شرمیلے ہیں۔ اگر آپ اُن کے ساتھ وقت گزاریں گے یا اُن کے گھر کھانے پر جائیں گے تو اُن کا بہت حوصلہ بڑھے گا۔“
اُس بھائی کی یہ نصیحت واقعی ٹھیک تھی اور یہ آگے چل کر میرے بڑے کام بھی آئی۔ وہ بھائی یہوواہ کی بھیڑوں کے لیے جو محبت رکھتا تھا، اُس نے میرے دل کو چُھو لیا۔ حالانکہ مجھے اِس بات کو قبول کرنا مشکل لگ رہا تھا کہ مَیں نے
غلط کِیا ہے لیکن پھر مَیں غرور کو ایک طرف رکھ کر اُس بھائی کی بات پر عمل کرنے لگا۔ مَیں ایسے بھائیوں کے لیے یہوواہ کا واقعی بڑا شکرگزار ہوں!سن 1969ء اور 1973ء میں مجھے پیرس میں منعقد ہونے والے بینالاقوامی اِجتماعوں پر کھانا تیار کرنے والے شعبے کا نگہبان مقرر کِیا گیا۔ 1973ء کے اِجتماع پر ہمیں تقریباً 60 ہزار لوگوں کے لیے پانچ دنوں تک کھانے کا بندوبست کرنا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ہم یہ سب کچھ کیسے کر پائیں گے۔ لیکن اِس بار بھی مَیں نے امثال 15:22 پر عمل کرتے ہوئے دوسرے بھائیوں سے صلاح مشورہ کِیا۔ مَیں نے ایسے پُختہ بھائیوں سے مشورہ لیا جو گوشت کاٹنے، سبزیاں اُگانے، کھانے پکانے اور خریداری کرنے میں کافی تجربہ رکھتے تھے۔ ایک دوسرے کی وجہ سے ہم اِس مشکل ذمےداری کو نبھا پائے۔
سن 1973ء میں مجھے اور آنجیل کو فرانس کے بیتایل میں خدمت کرنے کی دعوت ملی۔ وہاں جا کر مجھے جو سب سے پہلی ذمےداری ملی، اُسے پورا کرنا مجھے بڑا مشکل لگا۔ مجھے افریقہ کے ملک کیمرون میں ہمارے بہن بھائیوں کو کتابیں اور رسالے وغیرہ بھیجنے کی ذمےداری دی گئی جہاں ہمارے کام پر 1970ء سے 1993ء تک پابندی لگی تھی۔ اِس بار بھی مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ مَیں یہ کام کیسے کر پاؤں گا۔ لیکن ایک بھائی نے جو اُس وقت فرانس میں ہمارے کام کی نگرانی کر رہا تھا، دیکھ لیا کہ مجھے یہ کام کرنا مشکل لگ رہا ہے۔ اِس لیے اُس نے مجھ سے کہا: ”کیمرون میں ہمارے بہن بھائیوں کو روحانی کھانے کی بڑی ضرورت ہے۔ آئیں، اُن کی اِس ضرورت کو پورا کریں۔“ اور ہم نے ایسا ہی کِیا۔
سن 1973ء میں نائیجیریا میں کیمرون کے بہن بھائیوں کے ساتھ ایک خاص اِجلاس میں
مَیں کیمرون کے بزرگوں سے ملنے کے لیے کئی بار ایسے ملکوں میں گیا جو اِس کے آسپاس تھے۔ یہ بھائی بہت سمجھدار اور دلیر تھے۔ اُنہوں نے میری مدد کی کہ مَیں کن کن طریقوں سے اُن تک ہماری کتابیں اور رسالے وغیرہ پہنچا سکتا ہوں تاکہ کیمرون میں بہن بھائیوں کو باقاعدگی سے روحانی کھانا مل سکے۔ یہوواہ نے ہماری کوششوں پر برکت ڈالی۔ دراصل تقریباً 20 سال سے ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ کیمرون میں رہنے والے بہن بھائیوں کو ”مینارِنگہبانی“ کا شمارہ اور ”ہماری بادشاہتی خدمتگزاری“ نہ ملی ہو۔
سن 1977ء میں آنجیل اور مَیں نے کیمرون سے تعلق رکھنے والے حلقے کے نگہبانوں اور اُن کی بیویوں کے ساتھ نائیجیریا کا دورہ کِیا۔
مَیں نے اپنی بیوی سے بہت کچھ سیکھا
شادی سے پہلے مَیں نے آنجیل کے ساتھ جو وقت گزارا، اُس میں مجھے یہ اندازہ ہوا کہ وہ یہوواہ خدا سے کتنی محبت کرتی ہیں۔ شادی کے بعد تو یہ بات اَور زیادہ نظر آنے لگی۔ مثال کے طور پر جس دن ہماری شادی ہوئی، اُس شام اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ مَیں یہ دُعا کروں کہ یہوواہ ہماری اِس خواہش کو پورا کرے کہ ہم مل کر اُس کی خدمت کر سکیں۔ اور یہوواہ نے ہماری دُعا کا جواب دیا۔
آنجیل نے یہوواہ خدا پر مکمل بھروسا رکھنے میں بھی میری مدد کی۔ مثال کے طور پر جب 1973ء میں ہمیں بیتایل میں خدمت کرنے کے لیے بلایا گیا تو مَیں وہاں جانے سے ہچکچا رہا تھا۔ لیکن آنجیل نے مجھے یاد دِلایا کہ ہم نے اپنی زندگیاں یہوواہ کے لیے وقف کر دی ہیں۔ اِس لیے کیا ہمیں وہ نہیں کرنا چاہیے جو اُس کی تنظیم ہم سے چاہتی ہے؟ (عبر 13:17) بھلا مَیں اِس بات سے کیسے اِنکار کر سکتا تھا؟ لہٰذا ہم بیتایل چلے گئے۔ مجھے واقعی ایک سمجھدار بیوی ملی ہے جو یہوواہ سے بہت محبت کرتی ہے۔ آنجیل کی اِن خوبیوں کی وجہ سے ہمارا رشتہ مضبوط ہوا ہے اور ہم بہت سے اچھے فیصلے کر پائے ہیں۔
فرانس کے بیتایل کے باغ میں اپنی بیوی آنجیل کے ساتھ
اب ہم بوڑھے ہو گئے ہیں۔ اور آنجیل ابھی بھی میرا بھرپور ساتھ دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں تنظیم کے مختلف سکولوں میں جانے کا اعزاز ملا ہے جن میں سے زیادہتر انگریزی میں ہوتے ہیں۔ اِس لیے آنجیل اور مَیں اِس زبان کو اَور اچھی طرح سے سیکھنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایسا کرنے کے لیے ہم انگریزی زبان والی ایک کلیسیا کا حصہ بن گئے حالانکہ اُس وقت ہماری عمریں 75 کے لگ بھگ تھیں۔ چونکہ مَیں فرانس کے بیتایل میں برانچ کی کمیٹی کے ایک رُکن کے طور پر ذمےداریاں نبھا رہا ہوں اِس لیے میرے لیے ایک نئی زبان سیکھنے کے لیے وقت نکالنا آسان نہیں ہے۔ لیکن آنجیل اور مَیں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ حالانکہ اب ہماری عمریں 80 سے اُوپر ہیں لیکن ہم ابھی بھی اِجلاسوں کی تیاری انگریزی اور فرانسیسی دونوں زبانوں میں کرتے ہیں۔ ہم ابھی بھی اِجلاسوں میں حصہ لینے اور اپنی کلیسیا کے ساتھ مل کر مُنادی کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ ہم نے انگریزی سیکھنے کے لیے جو کوششیں کی ہیں، اُس میں یہوواہ نے بہت برکت ڈالی ہے۔
ایک شاندار برکت تو ہمیں 2017ء میں ملی۔ مجھے اور آنجیل کو ریاست نیو یارک کے شہر پیٹرسن میں یہوواہ کے گواہوں کے تعلیمی مرکز میں ایک سکول میں شامل ہونے کا اعزاز ملا۔ یہ سکول برانچ کی کمیٹی کے رُکنوں اور اُن کی بیویوں کے لیے تھا۔
یہوواہ خدا واقعی عظیم مُعلم ہے۔ (یسع 30:20) لہٰذا اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ اُس کے تمام بندے، چاہے وہ بوڑھے ہوں یا جوان، بہترین تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ (اِست 4:5-8) مَیں نے دیکھا ہے کہ جو جوان بہن بھائی یہوواہ خدا اور تجربہکار بہن بھائیوں کی بات سنتے ہیں، وہ اپنی زندگی میں اچھے فیصلے کر پاتے ہیں اور یہوواہ کے وفادار بندے ثابت ہوتے ہیں۔ امثال 9:9 میں لکھی یہ بات واقعی سچ ہے: ”دانا کو تربیت کر اور وہ اَور بھی دانا بن جائے گا۔ صادق کو سکھا اور وہ علم میں ترقی کرے گا۔“
کبھی کبھار مَیں 60 سال پہلے اُس اندھیری رات کے بارے میں سوچتا ہوں جب مَیں الجزائر کے پہاڑ پر تھا۔ اُس وقت تو مجھے یہ پتہ بھی نہیں تھا کہ میری زندگی میں اِتنی زیادہ خوشیاں آئیں گی۔ مَیں نے دوسروں سے واقعی بہت کچھ سیکھا ہے! یہوواہ خدا نے مجھے اور آنجیل کو بہت برکتیں دی ہیں۔ اِس لیے ہم نے یہ عزم کِیا ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے آسمانی باپ اور اُن سمجھدار اور تجربہکار بہن بھائیوں سے سیکھتے رہیں گے جو اُس سے محبت کرتے ہیں۔
^ پیراگراف 11 ”کتابِمُقدس—ترجمہ نئی دُنیا۔“