مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مطالعے کا مضمون نمبر 20

اپنی دُعاؤں کو اَور بہتر بنائیں

اپنی دُعاؤں کو اَور بہتر بنائیں

‏”‏اپنے دل کا حال اُس کے سامنے کھول دو۔“‏‏—‏زبور 62:‏8‏۔‏

گیت نمبر 45‏:‏ میرے دل کی سوچ بچار

مضمون پر ایک نظر a

ہم ہر روز یہوواہ سے دُعا کر سکتے ہیں اور زند‌گی کے ہر معاملے میں اُس سے رہنمائی مانگ سکتے ہیں۔ (‏پیراگراف نمبر 1 کو دیکھیں۔)‏

1.‏ یہوواہ اپنے بندوں سے کیا چاہتا ہے؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

 ہم تسلی اور رہنمائی کس سے حاصل کر سکتے ہیں؟ اِس سوال کا جواب ہم سبھی جانتے ہیں۔ ہم یہوواہ سے دُعا کر سکتے ہیں۔ اور وہ چاہتا ہے کہ ہم ایسا کر‌یں۔ بائبل میں بھی ہم سے کہا گیا ہے کہ ہم ”‏ہر وقت دُعا کر‌یں۔“‏ (‏1-‏تھس 5:‏17‏)‏ ہم دُعا میں کُھل کر یہوواہ سے بات کر سکتے ہیں اور زند‌گی کے ہر معاملے میں اُس سے رہنمائی مانگ سکتے ہیں۔ (‏امثا 3:‏5، 6‏)‏ یہوواہ کا دل بہت بڑا ہے۔ اِس لیے اُس نے پہلے سے یہ طے نہیں کر دیا ہوا کہ ہم کتنی بار اُس سے دُعا کر سکتے ہیں۔‏

2.‏ اِس مضمون میں ہم کس بات پر غور کر‌یں گے؟‏

2 ہم دُعا کر‌نے کے اعزاز کی بہت قدر کر‌تے ہیں۔ لیکن ہماری زند‌گی بہت مصروف ہے۔ اِس لیے ہو سکتا ہے کہ ہمیں دُعا کر‌نے کے لیے وقت نکالنا مشکل لگے۔ شاید ہمیں یہ بھی محسوس ہو کہ ہمیں اپنی دُعاؤں کو اَور بہتر کر‌نے کی ضرورت ہے۔ لیکن اِس حوالے سے پاک کلام میں بہت اچھے مشورے دیے گئے ہیں۔ اِس مضمون میں ہم یسوع کی مثال پر غور کر کے دیکھیں گے کہ ہم دُعا کر‌نے کے لیے وقت کیسے نکال سکتے ہیں۔ ہم پانچ ایسی باتوں پر بھی غور کر‌یں گے جنہیں اپنی دُعاؤں میں شامل کر کے ہم اپنی دُعاؤں کو اَور بہتر بنا سکتے ہیں۔‏

یسوع نے دُعا کر‌نے کے لیے وقت نکالا

3.‏ یسوع دُعا کے حوالے سے کیا بات جانتے تھے؟‏

3 یسوع جانتے تھے کہ یہوواہ ہماری دُعاؤں کی بہت قدر کر‌تا ہے۔ زمین پر آنے سے کئی سال پہلے یسوع نے دیکھا تھا کہ اُن کا آسمانی باپ اپنے وفادار بندوں کی دُعاؤں کا جواب کیسے دیتا ہے۔ مثال کے طور پر جب یہوواہ نے حنّہ، داؤد، ایلیاہ اور اپنے کچھ اَور بندوں کی دُعاؤں کا جواب دیا تو اُس وقت یسوع اپنے باپ کے ساتھ تھے۔ (‏1-‏سمو 1:‏10، 11،‏ 20؛‏ 1-‏سلا 19:‏4-‏6؛‏ زبور 32:‏5‏)‏ یہی وجہ تھی کہ اُنہوں نے اپنے شاگردوں کو سکھایا کہ وہ پورے یقین سے اور بار بار دُعا کر‌یں۔—‏متی 7:‏7-‏11‏۔‏

4.‏ ہم یسوع کی دُعاؤں سے کیا سیکھتے ہیں؟‏

4 یسوع نے دُعا کر‌نے کے سلسلے میں اپنے شاگردوں کے لیے بہت اچھی مثال قائم کی۔ زمین پر یہوواہ کی خدمت کر‌تے ہوئے یسوع نے بار بار دُعا کی۔ وہ اُس وقت بھی دُعا کر‌نے کے لیے وقت نکالتے تھے جب وہ بہت مصروف ہوتے تھے اور لوگوں میں گِھرے ہوتے تھے۔ (‏مر 6:‏31،‏ 45، 46‏)‏ وہ صبح سویرے اُٹھتے تھے تاکہ وہ اکیلے میں یہوواہ سے دُعا کر سکیں۔ (‏مر 1:‏35‏)‏ ایک موقعے پر ایک خاص فیصلہ لینے سے پہلے یسوع نے ساری رات دُعا کی۔ (‏لُو 6:‏12، 13‏)‏ اور اپنی موت سے پہلے کی رات یسوع نے بار بار یہوواہ سے دُعا کی تاکہ وہ اپنی زند‌گی کے سب سے مشکل وقت میں اُس کے وفادار رہ سکیں۔—‏متی 26:‏39،‏ 42،‏ 44‏۔‏

5.‏ ہم یسوع کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏

5 ہم یسوع سے یہ سیکھتے ہیں کہ چاہے ہم کتنے ہی مصروف کیوں نہ ہوں، ہمیں دُعا کر‌نے کے لیے وقت نکالنا چاہیے۔ یسوع کی طرح شاید ہمیں بھی دُعا کر‌نے کے لیے کوئی وقت مقرر کر‌نا پڑے۔ ہو سکتا ہے کہ اِس کے لیے ہمیں صبح جلدی اُٹھنا پڑے یا رات کو تھوڑا دیر سے سونا پڑے۔ ایسا کر‌نے سے ہم ثابت کر‌یں گے کہ ہم دُعا کر‌نے کے اعزاز کی قدر کر‌تے ہیں۔ لین نام کی بہن کو آج بھی یاد ہے کہ جب اُنہیں پہلی بار پتہ چلا کہ دُعا ہمارے لیے کتنا بڑا اعزاز ہے تو اُن کا دل بھر آیا۔ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏جب مجھے پتہ چلا کہ مَیں یہوواہ سے کسی بھی وقت بات کر سکتی ہوں تو مَیں اُس کو اپنا قریبی دوست سمجھنے لگی اور میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مَیں اپنی دُعاؤں کو اَور بہتر بناؤں۔“‏ بےشک ہم میں سے زیادہ‌تر کو ایسا ہی لگتا ہے۔ اِس لیے آئیے، پانچ ایسی باتوں پر غور کر‌یں جنہیں ہم اپنی دُعاؤں میں شامل کر سکتے ہیں۔‏

دُعا کے حوالے سے پانچ خاص باتیں

6.‏ مکاشفہ 4:‏10، 11 کے مطابق یہوواہ کس بات کا حق رکھتا ہے؟‏

6 یہوواہ کی بڑائی کریں۔‏ ایک حیرت‌انگیز رُویا میں یوحنا رسول نے 24 بزرگوں کو دیکھا جو آسمان میں یہوواہ کی عبادت کر رہے تھے۔ وہ یہوواہ کی بڑائی کر رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ وہ ”‏عظمت اور عزت اور طاقت“‏ کا حق‌دار ہے۔ ‏(‏مکاشفہ 4:‏10، 11 کو پڑھیں۔)‏ یہوواہ کے فرشتوں کے پاس بھی اُس کی بڑائی کر‌نے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ وہ آسمان پر اُس کے ساتھ ہیں اور اُسے بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ اُس کے کاموں میں اُس کی خوبیاں صاف طور پر دیکھتے ہیں۔ یہوواہ کے کاموں کو دیکھ کر اُنہیں اُس کی بڑائی کر‌نے کی ترغیب ملتی ہے۔—‏ایو 38:‏4-‏7‏۔‏

7.‏ ہم کس بات کے لیے یہوواہ کی بڑائی کر سکتے ہیں؟‏

7 ہمیں بھی دُعاؤں میں یہوواہ کی بڑائی کر‌نی چاہیے۔ ایسا کر‌نے کے لیے ہم اُسے بتا سکتے ہیں کہ ہم کس وجہ سے اُس سے محبت اور اُس کا احترام کر‌تے ہیں۔ جب آپ بائبل پڑھتے اور اِس پر سوچ بچار کر‌تے ہیں تو یہوواہ کی ایسی خوبیوں کو دیکھنے کی کوشش کر‌یں جو خاص طور پر آپ کو بہت پسند ہیں۔ (‏ایو 37:‏23؛‏ روم 11:‏33‏)‏ پھر یہوواہ کو بتائیں کہ اِن خوبیوں کے بارے میں آپ کیسا محسوس کر‌تے ہیں۔ ہم اِس بات کے لیے بھی یہوواہ کی بڑائی کر سکتے ہیں کہ وہ ہماری اور ہمارے ہمایمانوں کی مدد کر‌تا ہے۔ وہ لگاتار ہمارا خیال رکھ رہا اور ہماری حفاظت کر رہا ہے۔—‏1-‏سمو 1:‏27؛‏ 2:‏1، 2‏۔‏

8.‏ یہوواہ کا شکریہ ادا کر‌نے کی کچھ وجوہات کون سی ہیں؟ (‏1-‏تھسلُنیکیوں 5:‏18‏)‏

8 یہوواہ کا شکریہ ادا کریں۔‏ دُعا میں یہوواہ کا شکریہ ادا کر‌نے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ‏(‏1-‏تھسلُنیکیوں 5:‏18 کو پڑھیں۔)‏ ہمارے پاس جو بھی اچھی چیز ہے، ہم اُس کے لیے یہوواہ کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں کیونکہ ہر اچھی نعمت اُسی کی طرف سے ملتی ہے۔ (‏یعقو 1:‏17‏)‏ مثال کے طور پر ہم اِس خوب‌صورت زمین اور اُن شان‌دار چیزوں کے لیے یہوواہ کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں جو اُس نے بنائی ہیں۔ ہم اپنی زند‌گی، اپنے گھر والوں، اپنے دوستوں اور اپنی اُمید کے لیے بھی یہوواہ کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں۔ اور ہم اِس بات کے لیے بھی یہوواہ کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں کہ اُس نے ہمیں اپنے ساتھ دوستی کر‌نے کا اعزاز دیا ہے۔‏

9.‏ ہمیں اپنے دل میں یہوواہ کے لیے قدر کیوں بڑھاتے رہنا چاہیے؟‏

9 شاید ہمیں اُن باتوں پر سوچ بچار کر‌نے کے لیے خاص طور پر کوشش کر‌نی پڑے جن کی وجہ سے ہم یہوواہ کے بہت شکرگزار ہیں۔ ہم ایک ایسی دُنیا میں رہتے ہیں جہاں زیادہ‌تر لوگ ناشکرے ہیں۔ اکثر لوگوں کا دھیان اِس بات پر نہیں ہوتا کہ اُن کے پاس جو کچھ ہے، وہ اُس کے لیے خدا کا شکریہ کیسے ادا کر سکتے ہیں بلکہ اُن کا دھیان اِس بات پر ہوتا ہے کہ اُنہیں اَور کیا چاہیے۔ اگر ہماری سوچ بھی ایسی ہوگی تو ہماری دُعائیں درخواستوں کی بس ایک لسٹ بن جائیں گی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو تو ہمیں اپنے دل میں یہوواہ کے اُن کاموں کے لیے قدر بڑھاتے رہنا چاہیے جو وہ ہمارے لیے کر‌تا ہے۔—‏لُو 6:‏45‏۔‏

اگر ہم اُن چیزوں کے لیے یہوواہ کا شکریہ ادا کر‌تے رہیں گے جو وہ ہمیں دیتا ہے تو ہم مشکلوں میں ہمت نہیں ہاریں گے۔ (‏پیراگراف نمبر 10کو دیکھیں۔)‏

10.‏ یہوواہ کی نعمتوں کے لیے اُس کا شکریہ ادا کر‌تے رہنے کی وجہ سے ایک بہن مشکلوں میں بھی ہمت کیوں نہیں ہاری؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

10 جب ہم اُن چیزوں کے لیے یہوواہ کا شکریہ ادا کر‌تے رہیں گے جو اُس نے ہمیں دی ہوئی ہیں تو ہم مشکلوں میں بھی ہمت نہیں ہاریں گے۔ اِس سلسلے میں ذرا ایک بہن کی مثال پر غور کر‌یں جس کا نام کیونگ سُوک ہے۔ اُن کے بارے میں 15 جنوری 2015ء کے ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ میں بتایا گیا تھا۔ بہن کو پتہ چلا کہ اُنہیں پھیپھڑوں کا کینسر ہے۔ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏جب مجھے میری بیماری کے بارے میں پتہ چلا تو میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ مجھے لگا کہ مَیں نے سب کچھ کھو دیا ہے۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا۔“‏ اِس مشکل وقت میں بھی کس چیز نے بہن کی مدد کی تاکہ وہ ہمت نہ ہاریں؟ اُنہوں نے بتایا کہ وہ ہر رات سونے سے پہلے اپنے گھر کی چھت پر جاتی ہیں اور اُونچی آواز میں یہوواہ سے دُعا کر‌تی ہیں۔ وہ دُعا میں اُن پانچ برکتوں کے لیے یہوواہ کا شکریہ ادا کر‌تی ہیں جو اُس دن یہوواہ نے اُنہیں دی ہوتی ہیں۔ اِس وجہ سے وہ زیادہ پریشان نہیں ہوتیں اور اُن کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ یہوواہ کے لیے اپنی محبت کا اِظہار کر‌یں۔ اُنہوں نے دیکھا ہے کہ جب یہوواہ کے بندے مشکلوں سے گزر رہے ہوتے ہیں تو وہ اُن کی مدد کیسے کر‌تا ہے۔ اور وہ یہ سمجھ گئی ہیں کہ یہ مشکلیں اُن برکتوں کے آگے کچھ بھی نہیں جو یہوواہ ہمیں دیتا ہے۔ بہن کیونگ سُوک کی طرح ہمارے پاس بھی یہوواہ کا شکریہ ادا کر‌نے کی بہت سی وجوہات ہیں، اُس وقت بھی جب ہم کسی مشکل سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ دُعا میں یہوواہ کا شکریہ ادا کر‌نے سے ہم مشکلوں میں ہمت نہیں ہارتے اور پُرسکون رہتے ہیں۔‏

11.‏ یسوع کے آسمان پر چلے جانے کے بعد اُن کے شاگردوں کو دلیری کی ضرورت کیوں تھی؟‏

11 مُنادی کرنے کے لیے یہوواہ سے دلیری مانگیں۔‏ آسمان پر جانے سے کچھ دیر پہلے یسوع نے اپنے شاگردوں کو یاد دِلایا کہ اُن کی ذمےداری ہے کہ وہ ”‏یروشلیم میں، سارے یہودیہ اور سامریہ میں اور زمین کی اِنتہا تک“‏ بادشاہت کی خوش‌خبری سنائیں۔ (‏اعما 1:‏8؛‏ لُو 24:‏46-‏48‏)‏ اِس کے کچھ ہی وقت بعد یہودی مذہبی رہنماؤں نے پطرس اور یوحنا کو گِرفتار کر لیا اور اُنہیں عدالتِ‌عظمیٰ کے سامنے لائے۔ اُنہوں نے اِن وفادار رسولوں کو یہ حکم دیا کہ وہ مُنادی کر‌نا بند کر دیں، یہاں تک کہ اُنہیں ڈرایا دھمکایا بھی۔ (‏اعما 4:‏18،‏ 21‏)‏ اِس پر پطرس اور یوحنا نے کیا کِیا؟‏

12.‏ اعمال 4:‏29،‏ 31 کے مطابق شاگردوں نے کیا کِیا؟‏

12 یہودی مذہبی رہنماؤں کی دھمکیوں کے باوجود بھی پطرس اور یوحنا نے کہا:‏”‏اگر آپ سمجھتے ہیں کہ خدا کی نظر میں یہ مناسب ہے کہ ہم اُس کی بات ماننے کی بجائے آپ کی بات مانیں تو یہ آپ کی رائے ہے۔ لیکن جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ہم اُن باتوں کے بارے میں چپ نہیں رہ سکتے جو ہم نے دیکھی اور سنی ہیں۔“‏ (‏اعما 4:‏19، 20‏)‏ جب پطرس اور یوحنا کو رِہا کر دیا گیا تو سب شاگردوں نے مل کر یہوواہ سے دُعا کی تاکہ وہ اُس کی مرضی کو پورا کر سکیں۔ اُنہوں نے دُعا میں یہوواہ سے یہ کہا:‏ ”‏اپنے غلاموں کو توفیق دے کہ دلیری سے تیرا کلام سناتے رہیں۔“‏ یہوواہ نے اُن کی اِس دُعا کا جواب دیا۔‏‏—‏اعمال 4:‏29،‏ 31 کو پڑھیں۔‏

13.‏ ہم بھائی جن‌یوک سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

13 جب ہم اُس وقت بھی مُنادی کر‌تے رہتے ہیں جب حکومت ہمیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم مُنادی کر‌نا بند کر دیں تو ہم یسوع کے شاگردوں کی مثال پر عمل کر رہے ہوتے ہیں۔ ذرا جن‌یوک نام کے بھائی کی مثال پر غور کر‌یں۔ اُنہیں اِس وجہ سے جیل میں ڈال دیا گیا تھا کیونکہ اُنہوں نے فوج میں بھرتی ہونے سے اِنکار کر دیا تھا۔ جیل میں اُن سے کہا گیا کہ وہ ایسے قیدیوں تک کھانا اور دوسری چیزیں پہنچایا کر‌یں جنہیں قیدِتنہائی میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن اُنہیں یہ اِجازت نہیں تھی کہ وہ اپنے کام سے ہٹ کر اُن سے کوئی بات کر‌یں۔ وہ اُن سے بائبل کے بارے میں بات نہیں کر سکتے تھے۔ اُنہوں نے یہوواہ سے دلیری اور سمجھ‌داری مانگی تاکہ وہ موقع ملنے پر دوسروں کو اُس کے بارے میں بتا سکیں۔ (‏اعما 5:‏29‏)‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏یہوواہ نے مجھے دلیری اور سمجھ‌داری دینے سے میری دُعا کا جواب دیا اور مَیں بہت سے قیدیوں کو پانچ پانچ منٹ کے لیے بائبل کورس شروع کر‌ا سکا۔ رات میں مَیں خط لکھا کر‌تا تھا تاکہ مَیں اگلے دن دوسرے قیدیوں کو اِن کے ذریعے گواہی دے سکوں۔“‏ بھائی جن‌یوک کی طرح ہم بھی یہوواہ سے دلیری اور سمجھ‌داری مانگ سکتے ہیں۔ہم اِس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ مُنادی کر‌نے میں ہماری بھی مدد کر‌ے گا۔‏

14.‏ جب ہم مشکلوں سے گزر رہے ہوتے ہیں تو کیا چیز ہماری مدد کر سکتی ہے؟ (‏زبور 37:‏3،‏ 5‏)‏

14 مشکلوں کو برداشت کرنے کے لیے یہوواہ سے مدد مانگیں۔‏ ہم میں سے بہت سے لوگ کسی بیماری، شدید پریشانی، کسی عزیز کی موت، خاند‌ان میں کسی مشکل، اذیت یا کسی اَور مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں۔ اور اگر وبائیں پھیل جائیں یا جنگیں شروع ہو جائیں تو ہو سکتا ہے کہ ہمیں ایسی مشکلوں کا سامنا ہو جنہیں برداشت کر‌نا اِتنا آسان نہ ہو۔ جب ایسا ہوتا ہے تو دل کھول کر یہوواہ سے دُعا کر‌یں۔ اُسے اپنی صورتحال کے بارے میں بالکل ایسے ہی بتائیں جیسے آپ اپنے کسی قریبی دوست کو بتائیں گے۔ اور اِس بات کا یقین رکھیں کہ وہ آپ کی مدد کر‌نے کے لیے”‏سب کچھ کر‌ے گا۔“‏‏—‏زبور 37:‏3،‏ 5 کو پڑھیں۔‏

15.‏ ”‏مصیبتوں میں ثابت‌قدم“‏ رہنے میں دُعا ہماری مدد کیسے کر سکتی ہے؟ ایک مثال دیں۔‏

15 اگر ہم دُعا کر‌نے میں لگے رہیں گے تو ہم ”‏مصیبتوں میں ثابت‌قدم“‏ رہ پائیں گے۔ (‏روم 12:‏12‏)‏ یہوواہ جانتا ہے کہ اُس کے بندے کیا کچھ سہہ رہے ہیں اور ”‏وہ اُن کی فریاد“‏ سنتا ہے۔ (‏زبور 145:‏18، 19‏)‏ 29 سال کی ایک پہل‌کار بہن کو بھی ایسا ہی لگتا ہے۔ اُس کا نام کرِ‌سٹی ہے۔ بہن کرِ‌سٹی کو اچانک صحت کے مسئلے شروع ہو گئے اور اِس وجہ سے وہ شدید ڈپریشن میں چلی گئیں۔ بعد میں اُنہیں پتہ چلا کہ اُن کی امی کو ایک ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے وہ زیادہ دیر زند‌ہ نہیں رہ پائیں گی۔ بہن نے کہا:‏ ”‏مَیں نے شدت سے یہوواہ سے دُعا کی کہ وہ ہر دن مجھے ہمت دے۔ یہوواہ کے قریب رہنے کے لیے مَیں باقاعدگی سے اِجلاسوں میں جاتی تھی اور ذاتی مطالعہ کر‌تی تھی۔“‏ بہن نے یہ بھی کہا:‏ ”‏اِس مشکل کا سامنا کر‌تے وقت دُعا کر‌نے سے مجھے بہت ہمت ملی۔ مَیں جانتی تھی کہ یہوواہ ہمیشہ میرے ساتھ ہے اور اِس وجہ سے مجھے بہت تسلی ملتی تھی۔ سچ ہے کہ میری صحت فوراً ٹھیک تو نہیں ہو گئی لیکن یہوواہ نے میری دُعا کا جواب دینے کے لیے مجھے دلی سکون دیا۔“‏ بہت اچھا ہوگا کہ ہم یہ کبھی نہ بھولیں کہ ”‏یہوواہ اپنے بندوں کو آزمائش کے وقت“‏ بچاتا ہے۔—‏2-‏پطر 2:‏9‏۔‏

آزمائشوں سے لڑنے کے لیے (‏1)‏ یہوواہ سے مدد کی اِلتجا کر‌یں، (‏2)‏ ایسے کاموں سے بچیں جن کی وجہ سے آپ آزمائش میں پڑ سکتے ہیں اور (‏3)‏ یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی مضبوط کر‌یں۔ (‏پیراگراف نمبر 16-‏17کو دیکھیں۔)‏

16.‏ آزمائشوں سے لڑنے کے لیے ہمیں یہوواہ کی مدد کی ضرورت کیوں ہے؟‏

16 آزمائشوں سے لڑنے کے لیے یہوواہ سے مدد مانگیں۔‏ عیب‌دار ہونے کی وجہ سے ہمیں ہر روز غلط کام کر‌نے کی آزمائشوں سے لڑنا پڑتا ہے۔ شیطان سرتوڑ کوشش کر رہا ہے کہ وہ اِس لڑائی کو اَور مشکل بنا دے۔ وہ غلط تفریح کے ذریعے ہماری سوچ کو خراب کر‌تا ہے۔ غلط تفریح ہمارے ذہن کو گندے خیالات سے بھر سکتی ہے۔ ایسے خیالات کی وجہ سے ہم یہوواہ کی نظر میں ناپاک ہو سکتے ہیں اور کسی سنگین گُناہ میں پڑ سکتے ہیں۔—‏مر 7:‏21-‏23؛‏ یعقو 1:‏14، 15‏۔‏

17.‏ جب ہم کسی آزمائش سے بچنے کے لیے یہوواہ سے مدد مانگتے ہیں تو اِس کے بعد ہمیں کیا کر‌نا چاہیے؟ (‏تصویر کو بھی دیکھیں۔)‏

17 غلط کام کر‌نے کی آزمائش سے بچنے کے لیے ہمیں یہوواہ کی مدد کی ضرورت ہے۔ یسوع نے یہ بات اُس دُعا میں شامل کی جو اُنہوں نے دُعا کا طریقہ سکھاتے ہوئے کی تھی۔ اُنہوں نے کہا تھا:‏ ”‏آزمائش کے وقت ہمیں کمزور نہ پڑنے دے بلکہ ہمیں شیطان سے بچا۔“‏ (‏متی 6:‏13‏)‏ یہوواہ ہماری مدد کر‌نے کے لیے تیار کھڑا ہے۔ لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اُس سے مدد مانگیں۔ یہوواہ سے مدد مانگنے کے بعد ہمیں ہر اُس چیز سے بچنا چاہیے جو ہمیں آزمائش میں ڈال سکتی ہے۔ ہم پوری کوشش کر سکتے ہیں کہ ہم ایسی غلط باتیں نہ تو پڑھیں اور نہ ہی سنیں جو شیطان کی دُنیا میں بہت عام ہیں۔ (‏زبور 97:‏10‏)‏ ہم بائبل پڑھنے اور اِس پر سوچ بچار کر‌نے سے اپنے ذہن کو اچھے خیالات سے بھر سکتے ہیں۔ اور اِجلاسوں میں جانے اور مُنادی کر‌نے سے بھی ہم اپنی سوچ کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ یہوواہ نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ ہمیں کبھی بھی کسی ایسی آزمائش میں نہیں پڑنے دے گا جو ہماری برداشت سے باہر ہو۔—‏1-‏کُر 10:‏12، 13‏۔‏

18.‏ دُعا کے حوالے سے ہم سب کو کیا کر‌نے کی ضرورت ہے؟‏

18 اِس آخری زمانے میں یہوواہ کا وفادار رہنے کے لیے ہمیں پہلے سے بھی زیادہ دُعا کر‌نے کی ضرورت ہے۔ ہر دن یہوواہ سے دُعا کر‌نے کے لیے وقت نکالیں۔ یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم دُعا میں ’‏اپنے دل کا حال اُس کے سامنے کھول دیں۔‘‏ (‏زبور 62:‏8‏)‏ یہوواہ کی بڑائی کر‌یں اور جو کچھ وہ آپ کے لیے کر‌تا ہے، اُس کے لیے اُس کا شکریہ ادا کر‌یں۔ دلیری سے مُنادی کر‌نے کے لیے اُس سے مدد مانگیں۔ مشکلوں سے نمٹنے اور آزمائشوں سے بچنے کے لیے اُس سے اِلتجا کر‌یں۔ کسی بھی چیز یا شخص کو اِجازت نہ دیں کہ وہ آپ کو دُعا کر‌نے سے روکے۔ لیکن یہوواہ ہماری دُعاؤں کا جواب کیسے دیتا ہے؟ اِس اہم سوال کا جواب ہم اگلے مضمون میں حاصل کر‌یں گے۔‏

گیت نمبر 42‏:‏ خدا کے خادموں کی دُعا

a ہم چاہتے ہیں کہ ہماری دُعائیں ایک ایسے خط کی طرح ہوں جو ہم اپنے کسی قریبی دوست کو لکھتے ہیں۔ لیکن دُعا کر‌نے کے لیے وقت نکالنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ اور یہ جاننا بھی مشکل ہوتا ہے کہ ہم دُعا میں کن باتوں کا ذکر کر سکتے ہیں۔ اِس مضمون میں ہم اِن دونوں چیزوں پر بات کر‌یں گے۔‏