مطالعے کا مضمون نمبر 21
یہوواہ ہماری دُعاؤں کا جواب کیسے دیتا ہے؟
”ہم . . . جانتے ہیں کہ ہمیں وہ چیزیں ملیں گی جو ہم نے مانگی ہیں کیونکہ ہم نے یہ چیزیں اُس سے مانگی ہیں۔“—1-یوح 5:15۔
گیت نمبر 41: سُن میری دُعا
مضمون پر ایک نظر a
1-2. دُعاؤں کے حوالے سے شاید ہمارے ذہن میں کون سی بات آئے؟
کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ پتہ نہیں یہوواہ میری دُعاؤں کا جواب دے رہا ہے یا نہیں؟ اگر ایسا ہے تو آپ اکیلے نہیں ہیں۔ بہت سے بہن بھائیوں کو ایسا ہی لگتا ہے، خاص طور پر اُس وقت جب وہ کسی مشکل سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ جب ہم مشکلوں سے گزر رہے ہوتے ہیں تو شاید ہمیں یہ سمجھنا مشکل لگے کہ یہوواہ ہماری دُعاؤں کا جواب کیسے دیتا ہے۔
2 آئیے، دیکھتے ہیں کہ ہم اِس بات کا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ اپنے بندوں کی دُعاؤں کا جواب دیتا ہے۔ (1-یوح 5:15) ہم اِن سوالوں پر بھی غور کریں گے: کبھی کبھار ہمیں ایسا کیوں لگ سکتا ہے کہ یہوواہ ہماری دُعاؤں کا جواب نہیں دے رہا؟ آج یہوواہ ہماری دُعاؤں کا جواب کن طریقوں سے دیتا ہے؟
شاید یہوواہ اُس طریقے سے ہماری دُعا کا جواب نہ دے جس کی ہم توقع کرتے ہیں
3. یہوواہ کیوں چاہتا ہے کہ ہم اُس سے دُعا کریں؟
3 بائبل میں ہمیں اِس بات کا یقین دِلایا گیا ہے کہ یہوواہ ہم سے بہت محبت کرتا ہے اور ہم اُس کے لیے بہت خاص ہیں۔ (حج 2:7؛ 1-یوح 4:10) اِس لیے وہ چاہتا ہے کہ ہم دُعا میں اُس سے مدد مانگیں۔ (1-پطر 5:6، 7) یہوواہ ہماری مدد کرنا چاہتا ہے تاکہ ہم اُس کے قریب رہ سکیں اور اُن مشکلوں کو برداشت کر سکیں جن کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔
4. ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ اپنے بندوں کی دُعاؤں کا جواب دیتا ہے؟ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
4 ہم بائبل میں اکثر یہ بات پڑھتے ہیں کہ یہوواہ نے اپنے بندوں کی دُعاؤں کا جواب دیا۔ کیا آپ کے ذہن میں اِس کی کوئی مثال آتی ہے؟ ذرا بادشاہ داؤد کے بارے میں سوچیں۔ اُنہوں نے اپنی پوری زندگی بہت سے خطرناک دُشمنوں کا سامنا کِیا اور کئی بار دُعا میں یہوواہ سے مدد مانگی۔ ایک موقعے پر اُنہوں نے یہوواہ سے اِلتجا کرتے ہوئے کہا: ”اَے [یہوواہ]! میری دُعا سُن۔ میری اِلتجا پر کان لگا۔ اپنی وفاداری اور صداقت میں مجھے جواب دے۔“ (زبور 143:1) یہوواہ نے داؤد کی دُعا کا جواب دیا اور اُنہیں اُن کے دُشمنوں سے چھڑایا۔ (1-سمو 19:10، 18-20؛ 2-سمو 5:17-25) اِس لیے داؤد پورے یقین سے یہ بات کہہ سکتے تھے: ”[یہوواہ] اُن سب کے قریب ہے جو اُس سے دُعا کرتے ہیں۔“ ہم بھی اِس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں۔—زبور 145:18۔
5. کیا ماضی میں یہوواہ نے اپنے بندوں کی دُعاؤں کا جواب اُسی طریقے سے دیا جس کی وہ توقع کر رہے تھے؟ ایک مثال دیں۔ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
5 یہوواہ ہمیشہ ہماری دُعاؤں کا جواب اُس طریقے سے نہیں دیتا جس کی ہم نے توقع کی ہوتی ہے۔ایسا ہی کچھ پولُس رسول کے ساتھ بھی ہوا۔ اُنہوں نے خدا سے اِلتجا کی کہ وہ اُس تکلیف کو ہٹا دے ’جو ایک کانٹے کی طرح اُن کے جسم میں چبھتی رہتی ہے۔‘ پولُس نے تین موقعوں پر خاص طور پر اِس مشکل کے بارے میں دُعا کی۔ کیا یہوواہ نے اُن کی دُعاؤں کا جواب دیا؟ جی ہاں۔ لیکن اُس طریقے سے نہیں جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔ یہوواہ نے پولُس کی اِس تکلیف کو ختم تو نہیں کِیا لیکن اُس نے اُنہیں طاقت دی تاکہ وہ وفاداری سے اُس کی خدمت کرتے رہیں۔—2-کُر 12:7-10۔
6. کبھی کبھار ہمیں یہ کیوں لگ سکتا ہے کہ یہوواہ ہماری دُعاؤں کا جواب نہیں دے رہا؟
6 کبھی کبھار شاید یہوواہ ہماری دُعاؤں کا جواب فرق طریقے سے دے۔ لیکن ہم اِس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ جانتا ہے کہ ہماری مدد کرنے کا بہترین طریقہ کیا ہے۔ یہوواہ ”ہمارے لیے اُس سے کہیں زیادہ کر سکتا ہے جو ہم تصور کرتے یا مانگتے ہیں۔“ (اِفس 3:20) اِس وجہ سے کبھی کبھار وہ ہماری دُعاؤں کا جواب ایسے وقت پر یا ایسے طریقے سے دیتا ہے جس کا ہم نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔
7. کبھی کبھار شاید ہمیں اپنی دُعا کو کیوں بدلنا پڑے؟ ایک مثال دیں۔
7 جب ہم یہوواہ کی مرضی کو اَور اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں تو شاید ہمیں اپنی دُعا بدلنی پڑے۔ اِس سلسلے میں بھائی مارٹن پوٹزنگر کی مثال پر غور کریں۔ بھائی مارٹن کو اُن کی شادی کے کچھ وقت بعد ہی نازیوں کے قیدی کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔ شروع میں اُنہوں نے یہوواہ سے دُعا کی کہ وہ اُنہیں اِس کیمپ سے آزادی دِلائے تاکہ وہ اپنی بیوی کا خیال رکھ سکیں اور دوبارہ سے مُنادی کر سکیں۔ لیکن دو ہفتے بعد بھی اُنہیں اِس کیمپ سے نکلنے کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ اِس لیے اُنہوں نے یہوواہ سے یہ دُعا کی: ”یہوواہ میری مدد کریں تاکہ مَیں سمجھ سکوں کہ آپ کی مرضی کیا ہے۔“ پھر بھائی مارٹن یہ سوچنے لگے کہ کیمپ کے دوسرے بھائی کس مشکل سے گزر رہے ہیں۔ اُن میں سے زیادہتر اپنے بیوی بچوں کے لیے پریشان تھے۔ پھر بھائی مارٹن نے یہوواہ سے یہ دُعا کی: ”یہوواہ مجھے یہ ذمےداری دینے کا بہت شکریہ کہ مَیں اپنے بھائیوں کا حوصلہ بڑھاؤں۔“ اور وہ اگلے نو سال تک اُس کیمپ میں اپنے بھائیوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔
8. دُعا کرتے وقت ہمیں کون سی خاص بات یاد رکھنی چاہیے؟
8 ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہوواہ کا ایک مقصد ہے جو وہ اپنے طے کیے ہوئے وقت پر پورا کرے گا۔ اِس مقصد میں یہ شامل ہے کہ وہ مکمل طور پر ایسے مسئلوں کو ختم کر دے جن کا آج ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کہ قدرتی آفتیں، بیماری اور موت۔یہوواہ اپنا یہ مقصد اپنی بادشاہت کے ذریعے پورا کرے گا۔ (دان 2:44؛ مکا 21:3، 4) لیکن جب تک وہ وقت نہیں آ جاتا، یہوواہ نے شیطان کو اِس دُنیا پر حکمرانی کرنے کی اِجازت دی ہوئی ہے۔ b (یوح 12:31؛ مکا 12:9) اگر یہوواہ ابھی اِنسانوں کے سب مسئلوں کو ختم کر دے گا تو ایسا لگے گا کہ شیطان بہت اچھے سے اِس دُنیا پر حکمرانی کر رہا ہے۔ اِس لیے ہمیں یہوواہ کے کچھ وعدے پورے ہونے کا اِنتظار کرنا ہوگا۔ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہوواہ نے ہمیں بےسہارا چھوڑ دیا ہے۔ آئیے، کچھ ایسے طریقوں پر غور کرتے ہیں جن کے ذریعے یہوواہ ہماری مدد کرتا ہے۔
کچھ ایسے طریقے جن کے ذریعے یہوواہ ہماری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے
9. جب ہمیں کوئی فیصلہ لینا ہوتا ہے تو یہوواہ ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟ ایک مثال دیں۔
9 یہوواہ ہمیں دانشمندی دیتا ہے۔ یہوواہ نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ ہمیں دانشمندی دے گا تاکہ ہم اچھے فیصلے کر سکیں۔ ہمیں خاص طور پر اُس وقت یہوواہ کی طرف سے دانشمندی کی ضرورت ہوتی ہے جب ہم کوئی ایسا فیصلہ لے رہے ہوتے ہیں جس کا اثر ہماری پوری زندگی پر پڑے گا جیسے کہ کیا ہم شادی کریں گے یا نہیں۔ (یعقو 1:5) اِس سلسلے میں ذرا ایک غیرشادیشُدہ بہن کی مثال پر غور کریں جس کا نام ماریہ ہے۔ c جب بہن ماریہ پہلکار تھیں تو اُن کی ملاقات ایک بھائی سے ہوئی۔ بہن نے بتایا: ”جیسے جیسے ہماری دوستی گہری ہوتی گئی، ہم ایک دوسرے کو اَور زیادہ پسند کرنے لگے۔ مَیں جانتی تھی کہ مجھے کوئی نہ کوئی فیصلہ لینا ہوگا۔ اِس لیے مَیں نے اِس معاملے کے بارے میں یہوواہ سے بہت زیادہ دُعا کی۔ مجھے یہوواہ کی رہنمائی کی ضرورت تھی لیکن مَیں یہ بھی جانتی تھی کہ یہوواہ میرے لیے کوئی فیصلہ نہیں کرے گا۔“ بہن ماریہ کو لگا کہ یہوواہ نے اُنہیں دانشمندی دے کر اُن کی دُعا کا جواب دیا ہے۔ لیکن یہوواہ نے اُنہیں دانشمندی کیسے دی؟ بہن نے ہماری کتابوں اور رسالوں سے تحقیق کی اور اُنہیں کچھ ایسے مضمون ملے جن سے اُنہیں اپنے سوالوں کے جواب مل گئے۔ اُن کی امی یہوواہ کی گواہ تھیں اور اُنہوں نے اپنی امی سے بھی مشورہ کِیا۔ اِس مشورے پر عمل کر کے بہن ماریہ اپنے احساسات کو بہتر طور پر سمجھ پائیں اور ایک اچھا فیصلہ لے پائیں۔
10. فِلپّیوں 4:13 کے مطابق یہوواہ اپنے بندوں کی مدد کرنے کے لیے کیا کرے گا؟ ایک مثال دیں۔ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
10 یہوواہ ہمیں مشکلیں برداشت کرنے کی طاقت دیتا ہے۔ جس طرح یہوواہ نے پولُس رسول کو مشکلیں برداشت کرنے کی طاقت دی اُسی طرح وہ ہمیں بھی مشکلوں کو برداشت کرنے کی طاقت دیتا ہے۔ (فِلپّیوں 4:13 کو پڑھیں۔) ذرا غور کریں کہ یہوواہ نے بینجمن نام کے ایک بھائی کی مدد کیسے کی تاکہ وہ مشکلوں کو برداشت کر سکے۔ بھائی بینجمن اور اُن کے گھر والوں نے اپنی زیادہتر زندگی افریقہ کے پناہگزین کیمپوں میں ہی گزاری۔ بھائی بینجمن نے کہا: ”مَیں بار بار یہوواہ سے دُعا کرتا تھا اور اُس سے کہتا تھا کہ مجھے طاقت دے تاکہ مَیں وہ کام کر سکوں جو اُس کی نظر میں صحیح ہے۔ یہوواہ نے میری دُعاؤں کا جواب دینے کے لیے مجھے ذہنی سکون دیا، مُنادی کرتے رہنے کے لیے دلیری دی اور ہماری تنظیم کی کتابوں اور رسالوں کے ذریعے میری مدد کی تاکہ مَیں اُس کے قریب رہ سکوں۔“ بھائی نے آگے کہا: ”جب مَیں نے اپنے بہن بھائیوں کی آپبیتیاں پڑھیں اور یہ دیکھا کہ یہوواہ نے مشکلوں کو برداشت کرنے میں اُن کی مدد کیسے کی تو مجھے ہمت ملی کہ مَیں اُس کا وفادار رہنے کے اپنے عزم پر قائم رہ سکوں۔“
11-12. یہوواہ ہمارے ہمایمانوں کے ذریعے ہماری دُعاؤں کا جواب کیسے دے سکتا ہے؟ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
11 یہوواہ ہمارے ہمایمانوں کے ذریعے ہماری دُعا کا جواب دیتا ہے۔ یسوع نے اپنی جان قربان کرنے سے پہلے شدت سے یہوواہ سے دُعا کی۔ اُنہوں نے اُس سے اِلتجا کی کہ لوگ اُن کے بارے میں یہ نہ سوچیں کہ اُنہوں نے یہوواہ کے نام کی توہین کی ہے۔ یہوواہ نے اِس طرح سے تو اُن کی دُعا کا جواب نہیں دیا لیکن اُن کی مدد کرنے کے لیے اُس نے اپنے ایک فرشتے کو بھیجا جس نے آ کر یسوع کا حوصلہ بڑھایا۔ (لُو 22:42، 43) آج یہوواہ ہمارے ہمایمانوں کے ذریعے ہماری بھی مدد کرتا ہے۔ شاید ہمارے بہن بھائی ہمارا حوصلہ بڑھانے کے لیے ہمیں کال کریں یا ہم سے ملنے آئیں۔ ہم سب ہی کسی ”اچھی بات“ سے اپنے بہن بھائیوں کا حوصلہ بڑھانے کے موقعوں کی تلاش میں رہ سکتے ہیں۔—امثا 12:25۔
12 ذرا مریم نام کی ایک بہن کی مثال پر غور کریں۔ اُن کے شوہر کی موت کے کچھ ہفتوں بعد وہ گھر پر اکیلی تھیں اور وہ بہت دُکھی اور پریشان تھیں۔ اُن کا دل کر رہا تھا کہ وہ کُھل کر کسی سے بات کریں۔ اُنہوں نے کہا: ”مجھ میں اِتنی طاقت نہیں تھی کہ مَیں کسی کو فون کر سکوں۔ اِس لیے مَیں یہوواہ سے دُعا کرنے لگی۔ جب مَیں روتے روتے یہوواہ سے دُعا کر رہی تھی تو میرا فون بجا۔ وہ فون کلیسیا کے ایک بزرگ نے کِیا تھا۔“ اُس بزرگ اور اُس کی بیوی نے بہن مریم کو بہت تسلی دی۔ اُنہیں اِس بات پر یقین ہو گیا کہ اصل میں یہوواہ نے اُس بزرگ کے دل میں یہ بات ڈالی تھی کہ وہ اُنہیں فون کرے۔
13. ایک مثال دے کر بتائیں کہ یہوواہ اُن لوگوں کے ذریعے ہماری دُعاؤں کا جواب کیسے دیتا ہے جو اُس کی عبادت نہیں کرتے۔
13 یہوواہ اُن لوگوں کے ذریعے ہماری دُعا کا جواب دیتا ہے جو اُس کی عبادت نہیں کرتے۔ (امثا 21:1) یہوواہ کبھی کبھار ہماری دُعاؤں کا جواب ایسے لوگوں کے ذریعے دیتا ہے جو اُس کی عبادت نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر اُس نے بادشاہ ارتخششتا کے دل میں یہ بات ڈالی کہ وہ نحمیاہ کو یروشلیم واپس جانے کی اِجازت دیں تاکہ وہ شہر کو دوبارہ بنا سکیں۔ (نحم 2:3-6) آج بھی یہوواہ ایسے لوگوں کے دل میں ہماری مدد کرنے کی خواہش ڈال سکتا ہے جو اُس کی عبادت نہیں کرتے۔
14. بہن سُوہن کے واقعے سے آپ کا حوصلہ کیسے بڑھا ہے؟ (تصویر کو بھی دیکھیں۔)
14 سُوہن نام کی ایک بہن کو لگتا تھا کہ یہوواہ نے اُن کے ڈاکٹر کے ذریعے اُن کی مدد کی ہے۔ اُن کے بیٹے کو بچپن سے ہی بہت ساری ذہنی بیماریاں تھیں۔ جب وہ تھوڑا بڑا ہوا تو وہ ایک اُونچی جگہ سے گِر گیا اور شدید زخمی ہو گیا۔ اُس کی دیکھبھال کرنے کے لیے بہن سُوہن اور اُن کے شوہر کو اپنی نوکری چھوڑنی پڑی۔ اِس وجہ سے اُنہیں پیسوں کی تنگی ہونے لگی۔ بہن سُوہن کو لگ رہا تھا کہ اب اُن کی ہمت ٹوٹتی جا رہی ہے۔ اُنہوں نے دل کھول کر یہوواہ سے دُعا کی اور اُس سے مدد مانگی۔ بہن سُوہن کے بیٹے کے ڈاکٹر نے اُن کے گھر والوں کی مدد کرنے کا ایک طریقہ نکالا۔ اُس ڈاکٹر کی وجہ سے اُنہیں حکومت کی طرف سے مدد ملی اور رہنے کے لیے ایک مناسب گھر بھی ملا۔ بہن سُوہن نے کہا:”ہم نے یہوواہ کی مدد کو محسوس کِیا ہے۔ وہ واقعی ’دُعا کا سننے والا‘ ہے۔“—زبور 65:2۔
اپنی دُعا کا جواب ڈھونڈنے اور اِسے قبول کرنے کے لیے ایمان چاہیے
15. کس چیز نے ایک بہن کی یہ سمجھنے میں مدد کی کہ یہوواہ اُس کی دُعاؤں کا جواب دے رہا ہے؟
15 یہوواہ ہمیشہ ہماری دُعاؤں کا جواب کسی زبردست طریقے سے نہیں دیتا۔ لیکن وہ ہماری دُعاؤں کا جو جواب دیتا ہے، وہ اُس کے وفادار رہنے کے لیے بالکل صحیح ہوتا ہے۔ اِس لیے یہ دیکھتے رہیں کہ یہوواہ آپ کی دُعاؤں کا جواب کیسے دے رہا ہے۔ یوکو نام کی ایک بہن کو لگتا تھا کہ یہوواہ اُن کی دُعاؤں کا جواب نہیں دے رہا۔ لیکن پھر اُنہوں نے ایک ڈائری میں اُن باتوں کے بارے میں لکھنا شروع کر دیا جن کے لیے اُنہوں نے یہوواہ سے دُعا کی تھی۔ جب کچھ وقت گزر گیا اور اُنہوں نے اپنی ڈائری کو دیکھا تو وہ یہ سمجھ گئیں کہ یہوواہ نے اُن کی زیادہتر دُعاؤں کا جواب دیا ہے، کچھ ایسی دُعاؤں کا بھی جنہیں وہ بھول چُکی تھیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم باقاعدگی سے اِس بارے میں سوچ بچار کریں کہ یہوواہ ہماری دُعاؤں کا جواب کیسے دے رہا ہے۔—زبور 66:19، 20۔
16. ہم دُعا کرنے کے ساتھ ساتھ اَور کس طرح ایمان ظاہر کر سکتے ہیں؟ (عبرانیوں 11:6)
16 صرف یہوواہ سے دُعا کرنے سے ہی ہم اپنا ایمان ظاہر نہیں کرتے بلکہ یہوواہ اِس دُعا کا جو جواب دیتا ہے، اُسے قبول کرنے سے بھی ہمایمان ظاہر کرتے ہیں۔ (عبرانیوں 11:6 کو پڑھیں۔) ذرا بھائی مائیک اور اُن کی بیوی کرِیسی کی مثال پر غور کریں۔ وہ بیتایل میں خدمت کرنا چاہتے تھے۔ بھائی مائیک نے کہا: ”ہم نے کئی سال تک بیتایل میں خدمت کرنے کے لیے درخواست ڈالی اور اِس حوالے سے بار بار یہوواہ سے دُعا کی۔ لیکن ہمیں بیتایل نہیں بُلایا گیا۔“ بھائی مائیک اور بہن کرِیسی کو پورا یقین تھا کہ یہوواہ یہ جانتا ہے کہ وہ اُس کی خدمت میں زیادہ اچھی طرح کیا کر سکتے ہیں۔ بھائی مائیک اور اُن کی بیوی وہ کام کرتے رہے جو وہ کر سکتے تھے۔ اُنہوں نے پہلکاروں کے طور پر ایسے علاقوں میں خدمت کی جہاں مبشروں کی زیادہ ضرورت تھی اور اُنہوں نے تنظیم کے تعمیراتی کاموں میں بھی حصہ لیا۔ اب بھائی مائیک ایک حلقے کے نگہبان ہیں۔ اُنہوں نے کہا: ”یہوواہ نے ہمیشہ ہماری دُعاؤں کا جواب اُس طریقے سے نہیں دیا جس کی ہم توقع کر رہے تھے۔ لیکن اُس نے اِن کا جواب ضرور دیا ہے۔ کبھی کبھار تو اُس نے ہماری دُعاؤں کا جواب اِتنے بہترین طریقے سے دیا جس کا ہم نے تصور بھی نہیں کِیا تھا۔“
17-18. زبور 86:6، 7 کے مطابق ہم کس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں؟
17 زبور 86:6، 7 کو پڑھیں۔ داؤد کو اِس بات کا یقین تھا کہ یہوواہ اُن کی دُعاؤں کو سنتا ہے اور اِن کا جواب دیتا ہے۔ آپ بھی اِس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں۔ اِس مضمون میں جو مثالیں دی گئی ہیں، اُن سے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ مشکلوں کو برداشت کرنے میں ہماری مدد کرنے کے لیے ہمیں دانشمندی اور طاقت دے سکتا ہے۔ شاید وہ کلیسیا کے بہن بھائیوں یا ایسے لوگوں کے ذریعے ہماری مدد کرے جو فیالحال اُس کی عبادت نہیں کر رہے۔
18 ہو سکتا ہے کہ یہوواہ ہمیشہ ہماری دُعاؤں کا جواب اُس طریقے سے نہ دے جس کی ہم توقع کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ وہ ہماری دُعاؤں کا جواب ضرور دے گا۔ وہ ہمیں صحیح وقت پر وہ سب کچھ دے گا جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ اِس لیے دُعا کرتے رہیں اور اِس بات کا یقین رکھیں کہ یہوواہ آپ کی دُعا سنے گا۔ وہ اب بھی آپ کا خیال رکھے گا اور نئی دُنیا میں وہ ’ہر جاندار کی خواہش پوری کرے گا۔‘—زبور 145:16۔
گیت نمبر 46: ہم تیرے شکرگزار ہیں!
a یہوواہ ہمیں اِس بات کا یقین دِلاتا ہے کہ اگر ہماری دُعائیں اُس کی مرضی کے مطابق ہوں گی تو وہ اِن کا جواب ضرور دے گا۔ جب ہم مشکلوں سے گزر رہے ہوتے ہیں تو ہم اِس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہماری مدد کرے گا تاکہ ہم اُس کے وفادار رہ سکیں۔ آئیے، دیکھتے ہیں کہ یہوواہ ہماری دُعاؤں کا جواب کیسے دیتا ہے۔
b اِس بارے میں اَور جاننے کے لیے کہ یہوواہ نے شیطان کو اِس دُنیا پر حکمرانی کرنے کی اِجازت کیوں دی ہوئی ہے، ”مینارِنگہبانی،“ جون 2017ء میں مضمون ”کائنات کے سب سے اہم معاملے پر دھیان رکھیں“ کو دیکھیں۔
c کچھ نام فرضی ہیں۔
d تصویر کی وضاحت: ایک ماں اور بیٹی پناہگزینوں کے طور پر کسی دوسرے ملک آئے ہیں۔ اُن کے ہمایمان بڑی خوشی سے اُن سے مل رہے ہیں اور اُن کی مدد کر رہے ہیں۔