مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

بچو اور نوجوانو!‏—‏کیا آپ بپتسمہ لینے کے لیے تیار ہیں؟‏

بچو اور نوجوانو!‏—‏کیا آپ بپتسمہ لینے کے لیے تیار ہیں؟‏

‏”‏فرض کریں کہ آپ میں سے ایک آدمی ایک مینار بنانا چاہتا ہے۔‏ کیا وہ پہلے بیٹھ کر یہ اندازہ نہیں لگا‌ئے گا کہ اُس کے پاس اِسے مکمل کرنے کے لیے کافی پیسے ہیں یا نہیں؟‏“‏—‏لُو 14:‏28‏۔‏

گیت:‏ 6،‏ 34

یہ مضمون اور اگلا مضمون ایسے بچوں اور نوجوانوں کے لیے ہے جو بپتسمہ لینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔‏

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ خدا کے بندوں کو کیا جان کر بہت خوشی ہوتی ہے؟‏ (‏ب)‏ کلیسیا کے بزرگوں اور مسیحی والدین کو بپتسمے کے حوالے سے بچوں کو کیا سمجھانا چاہیے؟‏

کلیسیا کے ایک بزرگ نے 12 سالہ کرِسٹوفر سے کہا:‏ ”‏مَیں آپ کی پیدائش سے آپ کو جانتا ہوں اور یہ سُن کر بہت خوش ہوں کہ آپ بپتسمہ لینا چاہتے ہیں۔‏ ذرا بتائیں کہ آپ نے بپتسمہ لینے کا فیصلہ کیوں کِیا؟‏“‏ اِس بزرگ کا سوال واجب تھا۔‏ بِلا‌شُبہ ہمیں یہ جان کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ ہر سال دُنیا بھر میں ہزاروں بچے اور نوجوان بپتسمہ لے رہے ہیں۔‏ (‏واعظ 12:‏1‏)‏ لیکن جب ایک شخص چھوٹی عمر میں بپتسمہ لینے کا فیصلہ کرتا ہے تو اُس کے والدین اور کلیسیا کے بزرگوں کو اِس بات کا پورا یقین کر لینا چاہیے کہ اُس نے یہ فیصلہ خوب سوچ سمجھ کر کِیا ہے اور اپنی مرضی سے کِیا ہے۔‏

2 پاک کلام سے پتہ چلتا ہے کہ خدا کے لیے  اپنی  زندگی  وقف کرنے اور بپتسمہ لینے سے ایک شخص ایسی راہ پر چلنے لگتا ہے جس میں اُسے یہوواہ کی طرف سے برکتیں ملیں گی لیکن اِس کے ساتھ ساتھ اُسے شیطان کی طرف سے مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔‏ (‏امثا 10:‏22؛‏ 1-‏پطر 5:‏8‏)‏ اِس لیے مسیحیوں کو اپنے بچوں کو یہ سمجھانے کے لیے وقت نکا‌لنا چاہیے کہ مسیح کا شاگرد ہونے میں کیا کچھ شامل ہے۔‏ اور اگر کسی بچے یا نوجوان کے والدین یہوواہ کے گواہ نہیں ہیں تو کلیسیا کے بزرگوں کو اُسے یہ بات سمجھانی چاہیے۔‏ ‏(‏لُوقا 14:‏27-‏30 کو پڑھیں۔‏)‏ جس طرح ایک گھر بنانے سے پہلے حساب کتاب کرنا پڑتا ہے تاکہ اِسے مکمل بھی کِیا جا سکے اِسی طرح بپتسمہ لینے سے پہلے ایک شخص کو کچھ باتیں سمجھنی ہوں گی تاکہ وہ ”‏آخر تک“‏ یہوواہ خدا کا وفادار رہ سکے۔‏ (‏متی 24:‏13‏)‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ نوجوان کیا کر سکتے ہیں تاکہ اُن کے دل میں زندگی بھر یہوواہ کے وفادار رہنے کا عزم پیدا ہو۔‏

3.‏ ‏(‏الف)‏ یسوع مسیح اور پطرس رسول کی باتوں سے ہم بپتسمے کی اہمیت کا اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں؟‏ (‏متی 28:‏19،‏ 20؛‏ 1-‏پطر 3:‏21‏)‏ (‏ب)‏ ہم کن تین سوالوں پر غور کریں گے؟‏ اور ہم اِن پر کیوں غور کریں گے؟‏

3 کیا آپ ابھی کم‌عمر ہیں اور بپتسمہ لینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں؟‏ اگر ایسا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔‏ یہوواہ کے گواہ کے طور پر بپتسمہ لینا بہت بڑا اعزاز ہوتا ہے۔‏ یہوواہ خدا اپنے بندوں سے توقع کرتا ہے کہ وہ بپتسمہ لیں۔‏ یہ قدم نجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔‏ (‏متی 28:‏19،‏ 20؛‏ 1-‏پطر 3:‏21‏)‏ بپتسمہ لینے سے آپ ظاہر کریں گے کہ آپ نے پوری زندگی یہوواہ کی خدمت کرنے کا وعدہ کِیا ہے۔‏ بِلا‌شُبہ آپ اِس وعدے کو نبھانا بھی چاہیں گے۔‏ اِس لیے آپ کو بپتسمہ لینے سے پہلے کچھ باتوں پر سوچ بچار کرنی چاہیے تاکہ آپ دیکھ سکیں کہ آیا آپ یہ اہم قدم اُٹھانے کے لیے تیار بھی ہیں یا نہیں۔‏ خود سے یہ تین سوال پوچھیں:‏ (‏1)‏ کیا مَیں اِتنا پُختہ ہوں کہ یہ فیصلہ کر سکوں؟‏ (‏2)‏ کیا مَیں صحیح نیت سے بپتسمہ لینا چاہتا ہوں؟‏ اور (‏3)‏ کیا مَیں سمجھ گیا ہوں کہ یہوواہ کے لیے وقف ہونے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ آئیں،‏ اِن سوالوں پر ایک ایک کر کے غور کرتے ہیں۔‏

کیا آپ پُختہ ہیں؟‏

4،‏ 5.‏ ‏(‏الف)‏ کیا ایک شخص بڑے ہو کر ہی بپتسمہ لے سکتا ہے؟‏ وضاحت کریں۔‏ (‏ب)‏ پُختہ لوگوں کی پہچان کیا ہے؟‏

4 بائبل میں یہ نہیں کہا گیا کہ ایک شخص صرف  بڑے  ہو  کر  ہی بپتسمہ لے سکتا ہے۔‏ امثال 20:‏11 میں لکھا ہے:‏ ”‏بچہ بھی اپنی حرکات سے پہچانا جاتا ہے کہ اُس کے کام نیک‌وراست  ہیں  کہ نہیں۔‏“‏ ایک بچہ بھی اچھے بُرے کی پہچان رکھ سکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے کہ اپنے خالق کے لیے وقف ہونے کا کیا مطلب ہے۔‏ لہٰذا بپتسمہ ایسے بچے یا نوجوان کے لیے بہت ہی اہم اور مناسب قدم ہے جس نے ظاہر کِیا ہے کہ وہ پُختہ ہے اور جس نے اپنی زندگی یہوواہ کے لیے وقف کر لی ہے۔‏—‏ہوس 14:‏9‏۔‏

5 مگر پُختہ لوگوں کی پہچان کیا ہے؟‏ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ پُختہ لوگ وہ ہوتے ہیں جو ”‏اپنی سوچنے سمجھنے کی صلا‌حیت کو اِستعمال کر کے اِسے تیز کرتے ہیں تاکہ اچھے اور بُرے میں تمیز کر سکیں۔‏“‏ (‏عبر 5:‏14‏)‏ لہٰذا پُختہ لوگ جانتے ہیں کہ یہوواہ کی نظر میں کون سے کام صحیح ہیں اور وہ یہی کام کرنے کا پکا عزم کرتے ہیں۔‏ اُنہیں غلط کام کرنے پر آسانی سے اُکسایا نہیں جا سکتا۔‏ اُنہیں اِس بات کی بھی ضرورت نہیں ہوتی کہ کوئی اُنہیں بار بار بتائے کہ وہ صحیح کام کریں۔‏ جب ایک بچہ یا نوجوان بپتسمہ لیتا ہے تو اُس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ تب بھی خدا کے حکموں پر عمل کرے جب اُس کے والدین یا دوسرے بالغ آس پاس نہ ہوں۔‏—‏فِلپّیوں 2:‏12 پر غور کریں۔‏

6،‏ 7.‏ ‏(‏الف)‏ دانی‌ایل کو شہر بابل میں کن مسائل کا سامنا تھا؟‏ (‏ب)‏ دانی‌ایل نے کیسے ثابت کِیا کہ وہ پُختہ ہیں؟‏

6 کیا بچے بھی اِس قدر پُختہ ہو سکتے ہیں؟‏ اِس سلسلے میں ذرا دانی‌ایل نبی کی مثال پر غور کریں۔‏ ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے نوجوانی کی دہلیز پر قدم ہی رکھا تھا جب اُنہیں اپنے والدین سے چھین کر شہر بابل لے جایا گیا۔‏ وہاں دانی‌ایل کو ایسے لوگوں میں رہنا پڑا جن کے معیار یہوواہ خدا کے معیاروں سے بالکل فرق تھے۔‏ اِس کے ساتھ ساتھ دانی‌ایل کو ایک اَور مسئلے کا سامنا بھی تھا۔‏ دراصل وہ اُن نوجوانوں میں سے ایک تھے جنہیں بابل کے بادشاہ کی خدمت کرنے کے لیے چُنا گیا تھا اور اِس وجہ سے اُن کے ساتھ خاص سلوک کِیا جا رہا تھا۔‏ (‏دان 1:‏3-‏5،‏ 13‏)‏ لہٰذا بابل میں دانی‌ایل کو شہرت اور دولت حاصل کرنے کا ایسا موقع ملا جو اُنہیں اِسرائیل میں کبھی نہ ملتا۔‏

7 اِس صورتحال میں  دانی‌ایل  نے  کیا  کِیا؟‏  کیا  دانی‌ایل  اِس شان‌دار ماحول سے متاثر ہو کر سیدھی راہ سے ہٹ گئے؟‏ کیا وہ اپنی شناخت بھول گئے؟‏ کیا اُن کا ایمان ڈگمگا‌نے لگا؟‏ نہیں بلکہ شہر بابل میں ’‏دانی‌ایل نے اپنے دل میں اِرادہ کِیا کہ وہ اپنے آپ کو ناپاک نہیں کریں گے۔‏‘‏ (‏دان 1:‏8‏)‏ واقعی دانی‌ایل بہت ہی پُختہ تھے۔‏

ایک پُختہ شخص خود کو کنگڈم ہال میں خدا کا دوست اور سکول میں دُنیا کا دوست ظاہر نہیں کرتا۔‏ (‏پیراگراف 8 کو دیکھیں۔‏)‏

8.‏ آپ دانی‌ایل سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

8 آپ دانی‌ایل سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ ایک بات یہ کہ ایک پُختہ شخص مضبوط ایمان کا مالک ہوتا ہے۔‏ وہ گِرگٹ کی طرح نہیں ہوتا جو ماحول کے مطابق رنگ بدلتا رہتا ہے۔‏ وہ خود کو کنگڈم ہال میں خدا کا دوست اور سکول میں دُنیا کا دوست ظاہر نہیں کرتا۔‏ وہ اِدھر اُدھر ہچکولے کھانے کی بجائے آزمائش کے وقت بھی اپنے ایمان پر قائم رہتا ہے۔‏‏—‏اِفسیوں 4:‏14،‏ 15 کو پڑھیں۔‏

9،‏ 10.‏ ‏(‏الف)‏ ایک بچے یا نوجوان کو اِس بات پر سوچ بچار کیوں کرنی چاہیے کہ اُس نے آزمائش کے وقت کیا کِیا؟‏ (‏ب)‏ بپتسمہ لینے سے ایک شخص کیا ظاہر کرتا ہے؟‏

9 چاہے ہم بچے ہوں یا بڑے،‏ ہم سب کبھی کبھار غلطیاں کرتے ہیں۔‏ (‏واعظ 7:‏20‏)‏ لیکن جب آپ بپتسمہ لینے کے بارے میں سوچتے ہیں تو اِس بات کا اندازہ لگا‌نے کی کوشش کریں کہ یہوواہ کے حکموں پر عمل کرنے کا آپ کا عزم کتنا مضبوط ہے۔‏ ایسا کرنے کے لیے خود سے پوچھیں:‏ حال ہی میں جب مجھ پر آزمائشیں آئیں تو مَیں نے کیا کِیا؟‏ کیا مَیں نے ظاہر کِیا کہ مَیں صحیح اور غلط میں فرق کرنے کے قابل ہوں؟‏ اور اگر میرے پاس کوئی خاص ہنر ہے اور کوئی مجھ سے کہے کہ مَیں اِسے شیطان کی دُنیا میں آگے بڑھنے کے لیے اِستعمال کروں تو مَیں کیا کروں گا؟‏ کیا مَیں آئندہ بھی ”‏یہوواہ کی مرضی کو سمجھنے کی کوشش“‏ کروں گا؟‏ کیا مَیں اُس وقت بھی اُس کی بات مانوں گا جب میرا دل کچھ اَور کرنے کو چاہے؟‏—‏اِفس 5:‏17‏۔‏

10 آپ کو خود سے ایسے سوال کیوں  پوچھنے  چاہئیں؟‏  اِن  کا مقصد یہ ہے کہ آپ سمجھ جائیں کہ بپتسمہ لینا کتنا سنجیدہ قدم ہے۔‏ جیسا کہ ہم پہلے بتا چُکے ہیں،‏ بپتسمہ لینے سے آپ ظاہر کرتے ہیں کہ آپ نے کائنات کے خالق یہوواہ سے ایک وعدہ کِیا ہے۔‏ آپ نے وعدہ کِیا ہے کہ آپ اُس سے محبت کریں گے اور ہمیشہ تک پورے دل سے اُس کی خدمت کریں گے۔‏ (‏مر 12:‏30‏)‏ جو شخص بپتسمہ لیتا ہے،‏ اُسے اِس وعدے کو نبھانے کا پکا عزم کرنا چاہیے۔‏‏—‏واعظ 5:‏4،‏ 5 کو پڑھیں۔‏

کیا آپ صحیح نیت سے بپتسمہ لینا چاہتے ہیں؟‏

11،‏ 12.‏ ‏(‏الف)‏ جو شخص بپتسمہ لینا چاہتا ہے،‏ اُسے کس  مقصد  سے  اپنا جائزہ لینا چاہیے؟‏ (‏ب)‏ آپ بپتسمے کے بارے میں یہوواہ کا نظریہ کیسے اپنا سکتے ہیں؟‏

11 پاک کلام میں لکھا ہے کہ یہوواہ کے بندے جن میں بچے اور نوجوان بھی شامل ہیں،‏ اپنے آپ کو اُس کی خدمت میں ’‏خوشی سے پیش کرتے ہیں۔‏‘‏ (‏زبور 110:‏3‏)‏ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ جو شخص بپتسمہ لینا چاہتا ہے،‏ اُسے اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا یہ واقعی اُس کی اپنی خواہش ہے۔‏ یہ خاص طور پر اُس وقت اہم ہوتا ہے جب آپ نے سچائی میں پرورش پائی ہو۔‏

12 آپ بہت سے ایسے لوگوں کو جانتے ہوں گے  جنہوں  نے یہوواہ کے گواہوں کے طور پر بپتسمہ لیا۔‏ شاید اِن میں آپ کے دوست اور سگے بہن بھائی بھی شامل ہوں۔‏ ایسی صورتحال میں خبردار رہیں کہ آپ صرف اِس وجہ سے بپتسمہ نہ لیں کیونکہ آپ کے ہم‌عمروں نے بپتسمہ لے لیا ہے یا پھر کیونکہ آپ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ آپ بڑے ہو گئے ہیں۔‏ آپ بپتسمے کے بارے میں یہوواہ کا نظریہ کیسے اپنا سکتے ہیں؟‏ اِس بات پر اکثر سوچ بچار کریں کہ بپتسمہ لینا اِتنا اہم کیوں ہے۔‏ آپ کو اِس مضمون میں اور اگلے مضمون میں اِس کی بہت سی وجوہات ملیں گی۔‏

13.‏ آپ یہ اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں کہ آپ صحیح نیت سے بپتسمہ لینا چاہتے ہیں؟‏

13 یہ اندازہ لگا‌نے کے لیے کہ آپ کس نیت  سے  بپتسمہ  لینا چاہتے ہیں،‏ اپنی دُعاؤں کا بھی جائزہ لیں۔‏ اگر آپ یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کی دلی خواہش رکھتے ہیں تو یہ آپ کی  دُعاؤں  سے ظاہر ہوگا۔‏ کیا آپ اکثر یہوواہ سے دُعا کرتے ہیں؟‏ کیا آپ دُعا میں یہوواہ کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیتے ہیں؟‏ اگر ایسا ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ یہوواہ کے ساتھ آپ کی دوستی واقعی مضبوط ہے۔‏ (‏زبور 25:‏4‏)‏ یہوواہ خدا اکثر بائبل کے ذریعے ہماری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے۔‏ اِس لیے جس لگن سے آپ بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں،‏ اُس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ یہوواہ خدا کے دوست بننے اور اُس کی خدمت کرنے کی کتنی خواہش رکھتے ہیں۔‏ (‏یشو 1:‏8‏)‏ لہٰذا خود سے پوچھیں:‏ ”‏کیا مَیں دُعا میں یہوواہ کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیتا ہوں؟‏ مَیں کتنی باقاعدگی سے ذاتی طور پر بائبل کا مطالعہ کرتا ہوں؟‏“‏ اگر آپ کے گھر میں خاندانی عبادت ہوتی ہے تو خود سے پوچھیں:‏ ”‏کیا مَیں شوق سے اِس عبادت میں حصہ لیتا ہوں؟‏“‏ اِن سوالوں کے جواب دینے سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کس نیت سے بپتسمہ لینا چاہتے ہیں۔‏

یہوواہ کے لیے وقف ہونے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

14.‏ یہوواہ کے لیے زندگی وقف کرنے اور بپتسمہ لینے میں کیا فرق ہے؟‏

14 کچھ لوگوں کو یہ نہیں پتہ کہ یہوواہ کے  لیے  زندگی  وقف  کرنے اور بپتسمہ لینے میں کیا فرق ہوتا ہے۔‏ مثال کے طور پر کچھ نوجوان کہتے ہیں کہ وہ خود کو یہوواہ کے لیے وقف کر چُکے ہیں لیکن فی‌الحال بپتسمہ لینے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں۔‏ کیا ایسی سوچ صحیح ہے؟‏ نہیں۔‏ جب ایک شخص خود کو یہوواہ کے لیے وقف کرتا ہے تو وہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ تک اُس کی خدمت کرے گا۔‏ پھر جب وہ بپتسمہ لیتا ہے تو وہ دوسرے لوگوں پر ظاہر کرتا ہے کہ اُس نے خدا سے یہ وعدہ کِیا ہے۔‏ لہٰذا بپتسمہ لینے سے پہلے آپ کو یہ سمجھ لینا  چاہیے کہ خود کو یہوواہ کے لیے وقف کرنے میں کیا کچھ شامل ہے۔‏

15.‏ اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لیے وقف کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

15 جب آپ اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لیے وقف کرتے ہیں تو آپ ظاہر کرتے ہیں کہ اب سے آپ اُس کے ہیں۔‏ آپ یہوواہ سے وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ آپ اُس کی مرضی پر چلنے کو سب سے زیادہ اہمیت دیں گے۔‏ ‏(‏متی 16:‏24 کو پڑھیں۔‏)‏ یوں تو ہمیں اپنے ہر وعدے کو نبھانا چاہیے لیکن جو وعدہ ہم نے یہوواہ خدا سے کِیا ہے،‏ اُسے نبھانا تو اَور بھی اہم ہے۔‏ (‏متی 5:‏33‏)‏ آپ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ آپ نے اپنے لیے جینا چھوڑ دیا ہے اور واقعی یہوواہ خدا کے بن گئے ہیں؟‏—‏روم 14:‏8‏۔‏

16،‏ 17.‏ ‏(‏الف)‏ مثال دے کر واضح کریں کہ اپنی زندگی یہوواہ کے لیے وقف کرنے میں کیا کچھ شامل ہے۔‏ (‏ب)‏ خود کو یہوواہ کے لیے وقف کرنے سے ہم دراصل کیا ظاہر کرتے ہیں؟‏

16 اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔‏ تصور کریں کہ آپ کا ایک دوست آپ کو تحفے میں گاڑی دیتا ہے۔‏ وہ آپ کو گاڑی کے کاغذات دیتے وقت کہتا ہے:‏ ”‏یہ گاڑی تمہاری ہے۔‏“‏ لیکن پھر وہ کہتا ہے:‏ ”‏ویسے چابیاں مَیں اپنے پاس رکھوں گا اور مَیں ہی اِسے چلاؤں گا،‏ تُم نہیں۔‏“‏ آپ اِس تحفے کو کیسا خیال کریں گے اور اِس دوست کے بارے میں کیسا محسوس کریں گے؟‏

17 اب ذرا سوچیں کہ یہوواہ اُس شخص سے کیا توقع  کرتا  ہے  جس نے اپنی زندگی اُس کے لیے وقف کی ہے یعنی جس نے اُس سے کہا ہے کہ ”‏مَیں تیرا ہوں۔‏ مَیں نے اپنی زندگی تیرے نام کر دی ہے۔‏“‏ اگر ایسا شخص خدا کی نافرمانی کرنے لگے،‏ مثلاً وہ چھپ کر کسی ایسے شخص سے ڈیٹنگ کرے جو یہوواہ کا گواہ نہیں ہے تو یہوواہ کیسا محسوس کرے گا؟‏ اور اگر وہ ایسی ملا‌زمت قبول کرے جس کی وجہ سے وہ مُنادی کے کام میں بھرپور حصہ نہ لے سکے یا باقاعدگی سے اِجلا‌سوں پر نہ جا سکے تو کیا یہ گاڑی کی چابیاں اپنے پاس رکھنے کے برابر نہیں ہوگا؟‏ جو شخص خود کو یہوواہ کے لیے وقف کرتا ہے،‏ ایک طرح سے وہ یہوواہ سے کہتا ہے کہ ”‏اب میری زندگی میری نہیں رہی بلکہ تیری ہو گئی ہے۔‏ اگر میرے دل میں کبھی ایسی خواہش اُبھرے گی جو تیری مرضی کے خلا‌ف ہو تو مَیں اپنی خواہش پوری کرنے کی بجائے تیری مرضی پر چلوں گا۔‏“‏ اِس طرح وہ یسوع مسیح کی سوچ ظاہر کرتا ہے جنہوں نے کہا تھا کہ ”‏مَیں آسمان  سے  اپنی مرضی کرنے نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی پر چلنے آیا ہوں۔‏“‏—‏یوح 6:‏38‏۔‏

18،‏ 19.‏ ‏(‏الف)‏ بہن روز اور بھائی کرِسٹوفر کی باتوں سے کیسے پتہ چلتا ہے کہ بپتسمہ لینے سے بہت سی برکتیں ملتی ہیں؟‏ (‏ب)‏ آپ بپتسمہ لینے کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں؟‏

18 اِن تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بپتسمہ لینا ایک  سنجیدہ  قدم ہے جسے سوچ سمجھ کر اُٹھانا چاہیے۔‏ لیکن اِس کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی یہوواہ کے لیے وقف کرنا اور بپتسمہ لینا ایک بہت بڑا شرف بھی ہوتا ہے۔‏ جو بچے اور نوجوان یہوواہ خدا سے محبت کرتے ہیں اور اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ خدا کے لیے زندگی وقف کرنے کا مطلب کیا ہے،‏ وہ بپتسمہ لینے سے ہچکچاتے نہیں اور نہ ہی اِس بات پر پچھتاتے ہیں کہ اُنہوں نے بپتسمہ لیا ہے۔‏ ایک نوجوان بہن جن کا نام روز ہے،‏ کہتی ہیں:‏ ”‏مَیں یہوواہ خدا سے بہت پیار کرتی ہوں۔‏ مجھے اُس کی خدمت کرنے سے ایسی خوشی ملتی ہے جو کسی اَور کام کرنے سے نہیں مل سکتی۔‏ مجھے پورا یقین ہے کہ بپتسمہ لینے کا فیصلہ بالکل صحیح فیصلہ تھا۔‏“‏

19 اِس مضمون کے شروع میں ہم نے کرِسٹوفر کا ذکر  کِیا  تھا  جنہوں نے 12 سال کی عمر میں بپتسمہ لیا تھا۔‏ آج وہ اپنے اِس فیصلے کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں؟‏ وہ شکرگزار ہیں کہ اُنہوں نے چھوٹی عمر میں اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لیے وقف کی اور بپتسمہ لیا۔‏ وہ 17 سال کی عمر میں پہل‌کار کے طور پر خدمت کرنے لگے،‏ 18 سال کی عمر میں کلیسیا کے خادم کے طور پر مقرر کیے گئے اور آج وہ بیت‌ایل میں خدمت کر رہے ہیں۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏بپتسمہ لے کر مَیں نے صحیح قدم اُٹھایا۔‏ میری زندگی بامقصد ہے کیونکہ مَیں یہوواہ خدا اور اُس کی تنظیم کی خدمت کر رہا ہوں۔‏“‏ اگر آپ بھی بپتسمہ لینے کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ آپ یہ قدم اُٹھانے کے لائق بن جائیں؟‏ اگلے مضمون میں اِسی سوال پر بات کی جائے گی۔‏