یہوواہ خدا اپنے بندوں کی رہنمائی کرتا ہے
”راہ یہی ہے اِس پر چل۔“—یسع 30:21۔
1، 2. (الف) کس ہدایت پر عمل کرنے سے بہت سی جانیں بچ گئیں؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔) (ب) یہوواہ خدا اپنے بندوں کی رہنمائی کیسے کرتا ہے؟
”رُکئے! دیکھئے! سنئے!“ تقریباً 100 سال پہلے شمالی امریکہ کے ریلوے پھاٹکوں پر بڑے بڑے بورڈ لگائے گئے جن پر یہ ہدایت لکھی تھی۔ جو لوگ اپنی گاڑیوں میں پھاٹک کراس کرتے وقت اِس ہدایت پر عمل کرتے تھے، وہ ٹرین کے نیچے آنے سے بچ جاتے تھے۔ یوں بہت سی جانیں بچ گئیں۔
2 یہوواہ خدا بھی اپنے بندوں کو خطروں سے آگاہ کرتا ہے۔ وہ ایک مُعلم یعنی اُستاد کی طرح اپنے بندوں کو ہدایت دیتا ہے اور اُنہیں ہمیشہ کی زندگی کی راہ دِکھاتا ہے۔ وہ ایک اچھے چرواہے کی طرح اپنی بھیڑوں کو صحیح راہ بھی بتاتا ہے تاکہ وہ بھٹک نہ جائیں۔—یسعیاہ 30:20، 21 کو پڑھیں۔
اِنسانی تاریخ کے شروع میں خدا کی رہنمائی
3. اِنسانی نسل موت کی راہ پر کیسے چل نکلی؟
3 اِنسانی تاریخ کے شروع ہی سے یہوواہ نے اِنسانوں کے لیے ہدایتیں فراہم کیں۔ مثال کے طور پر اُس نے باغِعدن میں آدم اور حوا کو واضح ہدایتیں دیں جن پر عمل کرنے سے وہ اور اُن کے بچے ہمیشہ تک زمین پر خوشحال زندگی گزار سکتے تھے۔ (پید 2:15-17) اگر آدم اور حوا اِن ہدایتوں پر عمل کرتے تو اُنہیں مشکلات اور دُکھوں بھری زندگی نہ دیکھنی پڑتی اور نہ ہی موت چکھنی پڑتی۔ لیکن خدا کا کہنا ماننے کی بجائے حوا نے ایک ادنیٰ جانور کی بات مان لی اور آدم نے حوا کی بات مان لی جو محض اِنسان تھیں۔ اِس طرح دونوں نے اپنے آسمانی باپ سے مُنہ موڑ لیا اور یوں اِنسانی نسل کو ایک ایسی راہ پر دھکیل دیا جس کی منزل موت تھی۔
4. (الف) طوفان کے بعد نئی ہدایتوں کی ضرورت کیوں پڑی؟ (ب) خدا کے حکموں سے اُس کی سوچ کیسے ظاہر ہوئی؟
4 نوح کے زمانے میں بھی خدا نے اِنسانوں کو ایسی ہدایتیں فراہم کیں جن سے اُن کی زندگی بچ گئی۔ پھر طوفان کے بعد یہوواہ خدا نے اِنسانوں کو خون کے سلسلے میں خاص ہدایت دی۔ اِس کی ضرورت کیوں پڑی؟ کیونکہ صورتحال بدل گئی تھی۔ اب یہوواہ نے اِنسانوں کو جانوروں کا گوشت کھانے کی اِجازت دے دی تھی اور اِس سلسلے میں اُنہیں نئی ہدایات کی ضرورت تھی۔ خدا نے کہا: ”تُم گوشت کے ساتھ خون کو جو اُس کی جان ہے نہ کھانا۔“ (پید 9:1-4) اِس حکم سے خدا کی سوچ ظاہر ہوتی ہے۔ وہ خالق ہے اور زندگی اُس کی ملکیت ہے اِس لیے زندگی کے بارے میں قوانین عائد کرنا اُسی کا حق ہے۔ مثال کے طور پر اُس نے اِنسانوں کو ایک دوسرے کو قتل کرنے سے منع کِیا۔ خدا کے نزدیک زندگی اور خون مُقدس ہیں اور وہ اُن لوگوں کو سزا دے گا جو زندگی اور خون کے بارے میں اُس کے قوانین کو توڑتے ہیں۔—پید 9:5، 6۔
5. اِس مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے اور ہم ایسا کیوں کریں گے؟
5 آئیں، دیکھتے ہیں کہ خدا نے اِنسانی تاریخ کے دوران اپنے بندوں کو رہنمائی اور ہدایت کیسے فراہم کی۔ ایسا کرنے سے ہمارا یہ عزم مضبوط ہو جائے گا کہ ہم اپنے مُعلم کی ہدایتوں پر چلتے رہیں اور یوں ہمیشہ کی زندگی حاصل کریں۔
بنیاِسرائیل کے لیے خدا کی رہنمائی
6. (الف) موسیٰ کی شریعت کا مقصد کیا تھا؟ (ب) بنیاِسرائیل کو شریعت پر عمل کرنے کی ضرورت کیوں تھی؟
6 موسیٰ کے زمانے میں صحیح چالچلن اور عبادت کے درست طریقے کے سلسلے میں واضح ہدایتوں کی ضرورت پڑی۔ اِس کی کیا وجہ تھی؟ کیونکہ خدا کے بندوں کی صورتحال بدل گئی تھی۔ بنیاِسرائیل تقریباً دو صدیوں تک مصر میں رہے تھے جہاں مُردوں کی پوجا اور بُتپرستی عام تھی اور جہاں کے رسمورواج اور عقیدے خدا کو پسند نہیں تھے۔ لہٰذا جب بنیاِسرائیل مصر کی غلامی سے نکل آئے تو اُنہیں نئی ہدایات کی ضرورت تھی۔ اب وہ ایک بُتپرست قوم کے ماتحت نہیں رہے تھے بلکہ ایک آزاد قوم کے طور پر یہوواہ کے ماتحت تھے۔ اِس لیے یہوواہ نے اُنہیں شریعت دی۔ کچھ لغات کے مطابق جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”شریعت“ کِیا گیا ہے، اُس کا تعلق ایک ایسے لفظ سے ہے جس کا مطلب رہنمائی کرنا، تعلیم دینا اور ہدایت دینا ہے۔ موسیٰ کی شریعت ایک دیوار کی طرح تھی جو بنیاِسرائیل کو باقی قوموں کے جھوٹے مذہبی عقیدوں اور گِرے ہوئے معیاروں سے الگ رکھتی تھی۔ جب بنیاِسرائیل نے خدا کی ہدایتوں پر عمل کِیا تو اُنہیں بہت سی برکتیں ملیں۔ لیکن جب اُنہوں نے خدا کو نظرانداز کِیا تو اُنہیں بہت سی تکلیفیں جھیلنی پڑیں۔—اِستثنا 28:1، 2، 15 کو پڑھیں۔
7. (الف) شریعت کا اَور کیا مقصد تھا؟ (ب) شریعت کس لحاظ سے ایک ”نگران“ تھی؟
7 شریعت کا ایک اَور مقصد بھی تھا۔ اِس کے ذریعے مسیح کے آنے کے لیے راہ ہموار کی گئی۔ شریعت کی وجہ سے بنیاِسرائیل پر یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ وہ عیبدار ہیں اور اُنہیں فدیے کی ضرورت ہے یعنی ایک ایسی قربانی کی جو اُن کے گُناہوں کو مکمل طور پر مٹا سکتی تھی۔ (گل 3:19؛ عبر 10:1-10) اِس کے علاوہ شریعت کے ذریعے مسیح کے سلسلۂنسب کی حفاظت کی گئی اور مسیح کی شناخت کی گئی۔ اِس طرح شریعت ایک ”نگران“ بن گئی جو بنیاِسرائیل کو مسیح تک لے آئی۔—گل 3:23، 24۔
8. مسیحیوں کو موسیٰ کی شریعت میں پائے جانے والے اصولوں پر کیوں غور کرنا چاہیے؟
8 حالانکہ شریعت بنیاِسرائیل کو دی گئی تھی لیکن مسیحی بھی اِس سے متی 5:27، 28۔
فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ کیسے؟ ہم اُن اصولوں پر غور کر سکتے ہیں جن کی بنیاد پر شریعت کے حکم قائم ہیں اور اِن سے اپنی زندگی اور عبادت کے سلسلے میں رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہوواہ خدا نے اِن حکموں کو اپنے کلام میں درج کروایا تاکہ ہم اِن سے سیکھیں، اِن میں پائے جانے والے اصولوں پر عمل کریں اور اِس بات کو سمجھیں کہ یسوع مسیح کی تعلیم موسیٰ کی شریعت سے افضل کیوں ہے۔ مثال کے طور پر یسوع مسیح نے شریعت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ”آپ جانتے ہیں کہ کہا گیا تھا: ”زِنا نہ کرو۔“ لیکن مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ اگر ایک شخص ایک عورت کو ایسی نظر سے دیکھتا رہے کہ اُس کے دل میں اُس عورت کے لیے جنسی خواہش بھڑک اُٹھے تو وہ اپنے دل میں اُس کے ساتھ زِنا کر چُکا ہے۔“ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں نہ صرف زِناکاری سے باز رہنا چاہیے بلکہ اُن خواہشوں سے بھی جو زِناکاری کا باعث بنتی ہیں۔—9. جب مسیح آ گیا تو یہوواہ خدا نے اپنے بندوں کو نئی ہدایتیں کیوں دیں؟
9 پھر جب مسیح آ گیا تو یہوواہ خدا نے اپنے بندوں کو نئی ہدایتیں دیں اور اپنے مقصد کے بارے میں مزید معلومات فراہم کیں۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ ایک بار پھر خدا کے بندوں کی صورتحال بدل گئی تھی۔ 33ء میں یہوواہ خدا نے بنیاِسرائیل کو رد کر دیا تھا اور روحانی اِسرائیل کو اپنی قوم کے طور پر چُن لیا تھا۔
روحانی اِسرائیل کے لیے خدا کی رہنمائی
10. مسیحی کلیسیا کو ایک نئی شریعت کیوں دی گئی؟ اور یہ کس لحاظ سے موسیٰ کی شریعت سے فرق تھی؟
10 موسیٰ کی شریعت ایک ہی قوم کو دی گئی تھی لیکن پہلی صدی عیسوی میں خدا کے بندے یعنی روحانی اِسرائیل صرف ایک ہی قوم سے نہیں بلکہ بہت سی قوموں اور پسمنظروں سے تعلق رکھتے تھے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ”خدا تعصب نہیں کرتا بلکہ وہ ہر قوم سے اُن لوگوں کو قبول کرتا ہے جو اُس کا خوف رکھتے اور اچھے کام کرتے ہیں۔“ (اعما 10:34، 35) روحانی اِسرائیل کے رُکن ایک نئے عہد کے تحت تھے اور یہوواہ خدا نے اُنہیں چالچلن اور عبادت کے سلسلے میں نئی ہدایات دیں۔ اب اُنہیں ”مسیح کی شریعت“ پر عمل کرنا تھا جو پتھر کی تختیوں پر نہیں بلکہ اُن کے دلوں پر نقش کی گئی۔ (گل 6:2) اِس شریعت میں حکموں پر نہیں بلکہ اصولوں پر زور دیا گیا اور مسیحی جہاں کہیں بھی رہتے تھے، اِس پر عمل کر سکتے تھے۔
11. ”مسیح کی شریعت“ میں زندگی کے کن اہم پہلوؤں کے سلسلے میں حکم دیے گئے؟
11 روحانی اِسرائیل کو اُس رہنمائی سے بڑا فائدہ ہوا جو خدا نے اپنے بیٹے کے ذریعے فراہم کی۔ اِس سے پہلے کہ نیا عہد رائج ہوا، یسوع مسیح نے دو اہم حکم دیے۔ ایک حکم مُنادی کے کام کے متعلق تھا جبکہ دوسرا حکم اُس رویے کے بارے میں تھا جو سچے مسیحیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اپنانا تھا۔ یہ حکم تمام مسیحیوں کے لیے ہیں، چاہے وہ آسمان پر جانے کی اُمید رکھتے ہوں یا زمین پر رہنے کی۔
12. مسیحیوں کو کس پیمانے پر بادشاہت کی خوشخبری سنانی تھی؟
12 یسوع مسیح نے مُنادی کے کام کے سلسلے میں جو حکم دیا، وہ متی 28:19، 20 میں درج ہے۔ (اِن آیتوں کو پڑھیں۔) ماضی میں اگر غیریہودی یہوواہ کی عبادت کرنا چاہتے تھے تو اُنہیں ملک اِسرائیل آنا پڑتا تھا۔ (1-سلا 8:41-43) لیکن یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیا کہ وہ ”جائیں“ اور سب قوموں کے لوگوں کو گواہی دیں۔ 33ء کی عیدِپنتِکُست کے موقعے پر یہوواہ خدا نے واضح طور پر دِکھایا کہ وہ چاہتا ہے کہ بادشاہت کی خوشخبری پوری دُنیا میں سنائی جائے۔ اُس دن نئی نویلی کلیسیا کے تقریباً 120 رُکن پاک روح سے معمور ہو گئے اور فرق فرق زبانوں میں اُن لوگوں سے بات کرنے لگے جو یہودی تھے یا جنہوں نے یہودی مذہب اپنایا تھا۔ (اعما 2:4-11) اِس کے کچھ عرصے بعد مسیحیوں نے سامریوں کو خوشخبری سنانا شروع کر دیا۔ پھر 36ء میں مسیحیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اُن غیریہودیوں کو بھی خوشخبری سنائیں جن کا ختنہ نہیں ہوا تھا۔ یوں سمجھئے کہ مسیحی ایک چھوٹے سے تالاب میں یعنی یہودی دُنیا میں مُنادی کرتے تھے لیکن پھر وہ ایک بڑے سمندر میں یعنی پوری دُنیا میں مُنادی کرنے لگے۔
13، 14. (الف) ’نئے حکم‘ میں کون سا نیا عنصر شامل تھا؟ (ب) ہم محبت کے سلسلے میں یسوع مسیح سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
13 جہاں تک اُس رویے کا تعلق ہے جو سچے مسیحیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اپنانا چاہیے، یسوع مسیح نے ”ایک نیا حکم“ دیا۔ (یوحنا 13:34، 35 کو پڑھیں۔) یوں تو ہمیں اپنے مسیحی بہن بھائیوں سے ہر وقت محبت کرنی چاہیے۔ لیکن یسوع مسیح کے حکم میں ایک نیا عنصر شامل تھا جو شریعت میں نہیں تھا یعنی یہ کہ مسیحیوں کو ایک دوسرے کے لیے جان دینے کو بھی تیار ہونا چاہیے۔—متی 22:39؛ 1-یوح 3:16۔
14 یسوع مسیح نے بےلوث محبت کی بہترین مثال قائم کی۔ وہ اپنے شاگردوں کے لیے جان دینے کو تیار تھے۔ یسوع مسیح اپنے پیروکاروں سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ بھی ایک دوسرے کے لیے ایسی ہی بےلوث محبت ظاہر کریں۔ لہٰذا ہمیں اپنے بہن بھائیوں کے لیے مشکلات سہنے اور جان دینے کے لیے بھی تیار ہونا چاہیے۔—1-تھس 2:8۔
حال اور مستقبل میں خدا کی رہنمائی
15، 16. (الف) جدید زمانے میں خدا کے بندوں کی صورتحال میں کون سی تبدیلیاں آئی ہیں؟ (ب) خدا آجکل کس کے ذریعے اپنے بندوں کی رہنمائی کر رہا ہے؟
15 یسوع مسیح نے ”وفادار اور سمجھدار غلام“ کو مقرر کِیا تاکہ وہ اُن کے پیروکاروں کو صحیح وقت پر روحانی کھانا دے۔ (متی 24:45-47) اِس کھانے میں ایسی ہدایات شامل ہیں جو خدا کے بندوں کی بدلتی صورتحال میں بڑی کارآمد ثابت ہوئی ہیں۔ خدا کے بندوں کی صورتحال میں کون سی تبدیلیاں آئی ہیں؟
16 ہم ”آخری زمانے میں“ رہ رہے ہیں اور ایک ایسی بڑی مصیبت کے منتظر ہیں جو پہلے کبھی نہیں آئی۔ (2-تیم 3:1؛ مر 13:19) شیطان اور اُس کے فرشتوں کو آسمان سے زمین پر پھینک دیا گیا ہے جس کی وجہ سے زمین کے باشندوں کی تکلیفوں میں بڑا اِضافہ ہوا ہے۔ (مکا 12:9، 12) اِس کے علاوہ ہم یسوع مسیح کے حکم کے مطابق پہلے سے کہیں زیادہ قوموں اور زبانوں میں بادشاہت کی مُنادی کر رہے ہیں۔
17، 18. جب ہمیں خدا کی تنظیم کی طرف سے ہدایات ملتی ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
17 خدا کی تنظیم ہمیں مُنادی کے کام کو انجام دینے کے لیے بہت سی سہولتیں فراہم کرتی ہے۔ کیا آپ اِن کا بھرپور اِستعمال کر رہے ہیں؟ جب ہمارے اِجلاسوں پر اِن سہولیات کو اِستعمال کرنے کے سلسلے میں ہدایات دی جاتی ہیں تو کیا آپ توجہ سے سنتے ہیں اور اِن پر عمل کرتے ہیں؟ کیا آپ کو اِن ہدایتوں میں خدا کی رہنمائی نظر آتی ہے؟
18 خدا کی برکت حاصل کرنے کے لیے ہمیں کلیسیا کے ذریعے دی گئی ہر ہدایت پر عمل کرنا چاہیے۔ اگر ہم ابھی فرمانبردار ہیں تو ہمارے لیے ”بڑی مصیبت“ کے دوران فرمانبردار رہنا زیادہ آسان ہوگا جب شیطان کے پورے نظام کو ختم کر دیا جائے گا۔ (متی 24:21) اِس کے بعد نئی دُنیا آئے گی جو شیطان کے اثر سے پاک ہوگی۔ اُس بدلی ہوئی صورتحال میں ہمیں نئی ہدایات کی ضرورت ہوگی۔
19، 20. نئی دُنیا میں کون سی کتابیں کھولی جائیں گی اور اِن سے لوگوں کو کیا فائدہ ہوگا؟
19 موسیٰ کے زمانے میں بنیاِسرائیل کو نئی ہدایات کی ضرورت پڑی اِس لیے خدا نے اُنہیں شریعت دی۔ اور جب مسیحی کلیسیا وجود میں آئی تو اُسے ”مسیح کی شریعت“ کی پابندی کرنی تھی۔ اِسی طرح نئی دُنیا میں ایسی کتابیں کھولی جائیں گی جن میں نئی ہدایات ہوں گی۔ (مکاشفہ 20:12 کو پڑھیں۔) اُس وقت مُردوں کو بھی زندہ کِیا جائے گا۔ اِن نئی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے زمین پر رہنے والے تمام لوگ جان سکیں گے کہ خدا اُن سے کیا چاہتا ہے۔ یوں وہ خدا کی سوچ کو بہتر طور پر سمجھ جائیں گے۔ اِس کے ساتھ ساتھ اُس وقت لوگ بائبل میں پائی جانے والی باتوں کو بھی بہتر طور پر سمجھ جائیں گے جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے ساتھ عزتواحترام سے پیش آئیں گے اور زمین پر محبت کا راج ہوگا۔ (یسع 26:9) تب بادشاہ یسوع مسیح کی نگرانی میں لوگ خود بھی خدا کی راہوں کے بارے میں سیکھیں گے اور دوسروں کو بھی سکھائیں گے۔
20 جو لوگ ”اُن کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں“ پر عمل کریں گے، اُنہیں ہمیشہ کی زندگی ملے گی۔ یسوع مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے بعد آخری اِمتحان ہوگا۔ جو لوگ اِس میں یہوواہ کے وفادار رہیں گے، اُن کا نام مستقل طور پر ”زندگی کی کتاب“ میں لکھا جائے گا۔ ہم بھی ہمیشہ کی زندگی حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اِس کے لیے ہمیں بھی ”رُکئے! دیکھئے! سنئے!“ والی ہدایت پر عمل کرنا ہوگا۔ اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں زندگی کی بھاگ دوڑ میں رُک کر خدا کے کلام پر سوچ بچار کرنی ہوگی، ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اِس میں لکھی باتیں ہمارے لیے کیا اہمیت رکھتی ہیں اور ہمیں خدا کی سننی ہوگی۔ یوں ہم بڑی مصیبت سے بچ نکلیں گے اور ہمیشہ تک یہوواہ خدا کے بارے میں سیکھ سکیں گے جس کی محبت اور دانشمندی کی اِنتہا نہیں۔—واعظ 3:11؛ روم 11:33۔