مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ایمان رکھیں اور اچھے فیصلے کریں

ایمان رکھیں اور اچھے فیصلے کریں

‏’‏ایمان رکھ کر مانگیں اور بالکل شک نہ کریں۔‏‘‏‏—‏یعقوب 1:‏6‏۔‏

گیت:‏ 54،‏  42

1.‏ قائن نے غلط فیصلہ کیوں کِیا اور اِس کا کیا انجام نکلا؟‏

قائن کے سامنے دو راستے تھے۔‏ وہ یا تو اپنے جذبات پر قابو پا سکتے تھے جس کا انجام اچھا نکلتا یا پھر اِن جذبات کے آگے ہتھیار ڈال سکتے تھے جس کا انجام بُرا نکلتا۔‏ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے،‏ قائن نے غلط راستے پر چلنے کا فیصلہ کِیا۔‏ اُنہوں نے اپنے بھائی ہابل کو قتل کِیا جس کے نتیجے میں قائن اپنے خالق سے دُور ہو گئے۔‏—‏پیدایش 4:‏3-‏16‏۔‏

2.‏ اچھے فیصلے کرنا اہم کیوں ہوتا ہے؟‏

2 یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم سب کو زندگی میں بہت سے معاملوں کے بارے میں فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔‏ اِن میں سے کچھ فیصلے اہم ہوتے ہیں جبکہ کچھ اِتنے اہم نہیں ہوتے۔‏ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم جو بھی فیصلے کرتے ہیں،‏ اِن کا ہماری زندگی پر اثر پڑتا ہے۔‏ جب ہم اچھے فیصلے کرتے ہیں تو ہماری زندگی عموماً سہل اور پُرسکون ہو جاتی ہے۔‏ مگر جب ہم بُرے فیصلے کرتے ہیں تو ہمیں مسئلوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏—‏امثال 14:‏8‏۔‏

3.‏ ‏(‏الف)‏ اچھے فیصلے کرنے کے لیے ہمیں کن باتوں پر ایمان رکھنا ہوگا؟‏ (‏ب)‏ ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

3 ہم اچھے فیصلے کیسے کر سکتے ہیں؟‏ ہمیں اِس بات پر ایمان رکھنا چاہیے کہ خدا ہماری مدد کرنا چاہتا ہے اور وہ ہمیں دانش‌مندی عطا کرے گا۔‏ ہمیں اِس بات پر بھی ایمان رکھنا چاہیے کہ خدا کے کلام میں دی گئی ہدایتوں سے ہم بہترین رہنمائی پا سکتے ہیں۔‏ ‏(‏یعقوب 1:‏5-‏8 کو پڑھیں۔‏)‏ جتنا زیادہ ہم یہوواہ خدا کے قریب ہوں گے اور اُس کے کلام سے محبت کریں گے اُتنا ہی اِس بات پر ہمارا ایمان بڑھے گا کہ اُس کی رہنمائی پر چلنے میں ہمارا بھلا ہے۔‏ پھر ہم کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اُس کے کلام سے رہنمائی حاصل کریں گے۔‏ لیکن ہم اچھے فیصلے کرنے کی صلاحیت میں بہتری کیسے لا سکتے ہیں؟‏ اور کیا کسی معاملے کے بارے میں فیصلہ کرنے کے بعد اِس کو بدلنا غلط ہوگا؟‏

فیصلہ کرنے کی ذمےداری

4.‏ آدم نے کیا کرنے کا فیصلہ کِیا اور اِس کے کیا نتیجے نکلے؟‏

4 اِنسانی تاریخ کے شروع سے ہی اِنسانوں کو اہم فیصلے کرنے پڑے۔‏ مثال کے طور پر آدم کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ کس کی سنیں گے،‏ اپنے خالق کی یا اپنی بیوی کی؟‏ آدم نے حوا کی سننے کا فیصلہ کِیا۔‏ یہ بہت بُرا فیصلہ تھا کیونکہ اِس کے نتیجے میں یہوواہ خدا نے اُن کو باغِ‌عدن سے نکال دیا اور بعد میں وہ مر گئے۔‏ اِنسان آج تک آدم کے بُرے فیصلے کے نتائج بھگت رہے ہیں۔‏

یہوواہ نے ہمیں اپنا کلام دیا ہے جس سے ہم اچھے فیصلے کرنا سیکھ سکتے ہیں۔‏

5.‏ ہمیں فیصلہ کرنے کی ذمےداری کو کیسا خیال کرنا چاہیے؟‏

5 کچھ لوگ فیصلہ کرنے سے جان چھڑاتے ہیں۔‏ کیا آپ کو بھی فیصلے کرنا اچھا نہیں لگتا؟‏ یاد رکھیں کہ یہوواہ خدا نے اِنسان کو روبوٹ کی طرح نہیں بنایا جو سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔‏ اُس نے ہمیں اپنا کلام دیا ہے جس سے ہم اچھے فیصلے کرنا سیکھ سکتے ہیں۔‏ ہمیں یہوواہ خدا کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ اُس نے ہمیں فیصلہ کرنے کی آزادی دی ہے۔‏ یہ بڑی اہم ذمےداری ہے جیسا کہ ہم آگے دی گئی مثالوں سے دیکھ سکتے ہیں۔‏

6،‏ 7.‏ بنی‌اِسرائیل کو کون سا فیصلہ کرنا پڑا اور اُنہیں یہ فیصلہ کرنا مشکل کیوں لگا؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

6 جب بنی‌اِسرائیل ملک کنعان پہنچے تو اُنہیں یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ وہ کس کی عبادت کریں گے،‏ یہوواہ خدا کی یا پھر دوسری قوموں کے دیوتاؤں کی؟‏ ‏(‏یشوع 24:‏15 کو پڑھیں۔‏)‏ شاید آپ سوچیں کہ یہ تو کوئی مشکل فیصلہ نہیں تھا۔‏ لیکن دراصل یہ زندگی اور موت کا معاملہ تھا۔‏ افسوس کی بات ہے کہ بنی‌اِسرائیل نے قاضیوں کے زمانے میں بار بار غلط فیصلہ کِیا۔‏ اُنہوں نے یہوواہ سے مُنہ موڑ لیا اور جھوٹے معبودوں کی پرستش کرنے لگے۔‏ (‏قضاۃ 2:‏3،‏ 11-‏23‏)‏ ایلیاہ نبی کے زمانے میں بھی بنی‌اِسرائیل کو یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ آیا وہ یہوواہ کی عبادت کریں گے یا بعل کی۔‏ (‏1-‏سلاطین 18:‏21‏)‏ شاید ہمیں لگے کہ یہ بھی کوئی مشکل فیصلہ نہیں تھا کیونکہ یہوواہ کی عبادت کرنے میں ہی اُن کی بہتری تھی۔‏ بھلا کون سا سمجھ‌دار اِنسان کسی بےجان بُت کی عبادت کرے گا؟‏ لیکن بنی‌اِسرائیل ”‏دو خیالوں میں ڈانواں‌ڈول“‏ تھے اور کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے۔‏ اِس لیے ایلیاہ نبی نے اُنہیں نصیحت کی کہ وہ سچے خدا یہوواہ کی عبادت کرنے کا فیصلہ کریں۔‏

7 بنی‌اِسرائیل کو صحیح فیصلہ کرنا اِتنا مشکل کیوں لگ رہا تھا؟‏ دراصل وہ یہوواہ پر ایمان نہیں رکھتے تھے اور اُس کی سننا نہیں چاہتے تھے۔‏ اُنہیں یہوواہ پر بھروسا نہیں تھا۔‏ اُنہوں نے اُس کے کلام سے صحیح علم حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔‏ اگر وہ ایسا کرتے تو وہ اچھے فیصلے کر پاتے۔‏ (‏زبور 25:‏12‏)‏ اِس کے علاوہ بنی‌اِسرائیل آس‌پاس کی قوموں کے بہکاوے میں بھی آ گئے۔‏ عبادت کے معاملے میں وہ اِن قوموں کی پیروی کرنے لگے اور اِن کے جھوٹے معبودوں کی پرستش کرنے لگے۔‏ یوں اُنہوں نے خود فیصلہ کرنے کی بجائے وہی کِیا جس سے یہوواہ خدا نے اُنہیں خبردار کِیا تھا یعنی اُنہوں نے ’‏بِھیڑ کی پیروی کی۔‏‘‏—‏خروج 23:‏2‏۔‏

فیصلہ کس کو کرنا چاہیے؟‏

8.‏ ہم بنی‌اِسرائیل کی تاریخ سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟‏

8 اِن مثالوں سے ہم بہت اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔‏ سبق یہ ہے کہ ہمیں اپنے لیے خود فیصلے کرنے کی ذمےداری دی گئی ہے اور اچھے فیصلے کرنے کے لیے بائبل کا صحیح علم رکھنا ضروری ہے۔‏ گلتیوں 6:‏5 میں لکھا ہے کہ ”‏ہر کوئی اپنی ذمےداری کا بوجھ اُٹھائے گا۔‏“‏ ہمیں کسی اَور کو ہماری خاطر فیصلہ کرنے کی ذمےداری نہیں دینی چاہیے۔‏ اِس کی بجائے ہمیں یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ خدا کی نظر میں کون سی راہ صحیح ہے اور پھر اِس پر چلنا چاہیے۔‏

اگر ہم دوسروں کو ہمارے لیے فیصلہ کرنے دیں گے تو ہم اُن کی پیروی کر رہے ہوں گے۔‏

9.‏ دوسروں کو ہمارے لیے فیصلہ کرنے کی اِجازت دینا خطرناک کیوں ہوتا ہے؟‏

9 ہم اِس پھندے میں کیسے پڑ سکتے ہیں کہ ہم دوسروں کو ہمارے لیے فیصلہ کرنے دیں؟‏ شاید وہ ہم پر کوئی غلط راہ اِختیار کرنے کا دباؤ ڈالیں۔‏ اگر ہم اُن کے دباؤ میں آئیں گے تو اصل میں ہم اُن کو ہمارے لیے فیصلہ کرنے دیں گے۔‏ (‏امثال 1:‏10،‏ 15‏)‏ یہ بہت ہی خطرناک ہوتا ہے۔‏ دراصل یہ ہماری ذمےداری ہے کہ ہم خدا کے کلام سے اپنے ضمیر کی تربیت کریں اور پھر فیصلے کرتے وقت اِس کی سنیں۔‏ لیکن اگر ہم دوسروں کو ہمارے لیے فیصلہ کرنے دیں گے تو ہم اُن کی پیروی کر رہے ہوں گے جس کا انجام بُرا ہو سکتا ہے۔‏

10.‏ پولُس رسول نے گلتیہ کی کلیسیاؤں کو کن سے خبردار کِیا؟‏

10 پولُس رسول نے گلتیہ کی کلیسیاؤں کو ایسے مسیحیوں سے خبردار کِیا جو دوسروں کے لیے فیصلے کرنا چاہتے تھے۔‏ ‏(‏گلتیوں 4:‏17 کو پڑھیں۔‏)‏ یہ مسیحی کس نیت سے ایسا کر رہے تھے؟‏ وہ خودغرض تھے اور چاہتے تھے کہ بہن بھائی اُن کی پیروی کریں اور رسولوں سے دُور ہو جائیں۔‏ وہ خاکسار نہیں تھے اور اِس بات کا احترام نہیں کرتے تھے کہ اُن کے بہن بھائیوں کو خود فیصلہ کرنے کا حق ہے۔‏

11.‏ جب ایک مسیحی کو کسی ذاتی معاملے کے بارے میں فیصلہ کرنا ہو تو ہم اُس کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏

11 اُن خودغرض مسیحیوں کے برعکس پولُس رسول نے اچھی مثال قائم کی۔‏ وہ جانتے تھے کہ اُن کے بہن بھائیوں کو اپنے لیے فیصلے کرنے کا حق ملا ہے اور وہ اِس حق کا احترام کرتے تھے۔‏ ‏(‏2-‏کُرنتھیوں 1:‏24 کو پڑھیں۔‏)‏ آج کلیسیا کے بزرگ ایک مسیحی کو کسی ذاتی معاملے کے بارے میں مشورہ دیتے وقت پولُس رسول کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں۔‏ وہ اُس مسیحی کو بتا سکتے ہیں کہ اُس کے معاملے کے بارے میں خدا کے کلام میں کیا لکھا ہے۔‏ لیکن بزرگ اُسے خود فیصلہ کرنے دیں گے کہ وہ کیا کرے گا۔‏ اور یہ سمجھ‌داری کی بات بھی ہے کیونکہ آخر میں اُس مسیحی کو ہی اپنے فیصلے کے نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔‏ سبق یہ ہے کہ ہم دوسروں کو یہ تو بتا سکتے ہیں کہ بائبل کے کون سے اصول اُن کی صورتحال پر لاگو ہوتے ہیں۔‏ لیکن فیصلہ کرنا اُن ہی کی ذمےداری اور حق ہے۔‏ اگر وہ اچھا فیصلہ کریں گے تو اُن کو فائدہ ہوگا۔‏ ہمیں کبھی یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم اپنے بہن بھائیوں کی خاطر فیصلے کرنے کا اِختیار رکھتے ہیں۔‏

بزرگ دوسروں کی مدد کرتے ہیں تاکہ وہ ذاتی معاملوں کے بارے میں خود فیصلہ کرنا سیکھیں۔‏ (‏پیراگراف 11 کو دیکھیں۔‏)‏

دل کی نہ سنیں

12،‏ 13.‏ غصے یا بےدلی میں فیصلے کرنا خطرناک کیوں ہوتا ہے؟‏

12 آج‌کل بہت سے لوگ فیصلہ کرتے وقت ”‏دل کی سنو“‏ کے مقولے پر عمل کرتے ہیں۔‏ لیکن یہ خطرناک ہو سکتا ہے اور بائبل کی تعلیم کے خلاف بھی ہے۔‏ بائبل میں ہمیں خبردار کِیا گیا ہے کہ ”‏جو اپنے ہی دل پر بھروسا رکھتا ہے بےوقوف ہے۔‏“‏ (‏امثال 28:‏26‏)‏ دراصل ہمیں اپنے دل کی نہیں سننی چاہیے کیونکہ ”‏دل سب چیزوں سے زیادہ حیلہ‌باز اور لاعلاج ہے۔‏“‏ (‏یرمیاہ 17:‏9‏)‏ خدا کے کلام سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دھوکےباز دل پر بھروسا کرنے کے بُرے نتیجے نکلتے ہیں۔‏ (‏1-‏سلاطین 11:‏9؛‏ یرمیاہ 3:‏17؛‏ 13:‏10‏)‏ فیصلے کرتے وقت دل کی سننا خطرناک کیوں ہوتا ہے؟‏

13 سچ ہے کہ دل کی بڑی اہمیت ہے کیونکہ یہوواہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اُس سے اپنے سارے دل سے محبت کریں اور اپنے پڑوسی سے اُسی طرح محبت کریں جیسے ہم اپنے آپ سے کرتے ہیں۔‏ (‏متی 22:‏37-‏39‏)‏ لیکن ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔‏ پچھلے پیراگراف میں دیے گئے صحیفوں سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے جذبات اور احساسات کے مطابق چلنا کتنا خطرناک ہوتا ہے۔‏ مثال کے طور پر ایسے فیصلوں کے بارے میں سوچیں جو آپ نے غصے کی حالت میں کیے تھے۔‏ کیا یہ اچھے فیصلے تھے؟‏ (‏امثال 29:‏22‏)‏ یا پھر کیا ہم اُس وقت اچھے فیصلے کر سکتے ہیں جب ہم بےدل ہوتے ہیں؟‏ (‏گنتی 32:‏6-‏12؛‏ امثال 24:‏10‏)‏ یاد رکھیں کہ خدا کے کلام میں ہمیں یہ نصیحت کی گئی ہے کہ ’‏ذہن کے لحاظ سے خدا کی شریعت کے غلام ہوں۔‏‘‏ (‏رومیوں 7:‏25‏)‏ لہٰذا ہمیں اپنے جذبات کا غلام بننے کی بجائے خدا کے کلام کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں۔‏

فیصلے بدلنا—‏غلط یا صحیح؟‏

14.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ اپنے فیصلے بدلنا غلط نہیں ہے؟‏

14 ہم سب کو خوب سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے چاہئیں۔‏ لیکن کیا اِس کا مطلب کہ اگر ہم نے کسی معاملے کے بارے میں فیصلہ کر لیا ہے تو ہمیں اِسے کبھی بدلنا نہیں چاہیے؟‏ ذرا اِس سلسلے میں یہوواہ کی مثال پر غور کریں۔‏ یُوناہ نبی کے زمانے میں یہوواہ نے نینوہ کے باشندوں پر عذاب لانے کا فیصلہ کِیا۔‏ لیکن جب نینوہ کے لوگوں نے توبہ کر لی اور اپنی روِش بدل لی تو یہوواہ نے کیا کِیا؟‏ بائبل میں لکھا ہے:‏ ”‏جب خدا نے اُن کی یہ حالت دیکھی کہ وہ اپنی اپنی بُری روِش سے باز آئے تو وہ اُس عذاب سے جو اُس نے اُن پر نازل کرنے کو کہا تھا باز آیا اور اُسے نازل نہ کِیا۔‏“‏ (‏یُوناہ 3:‏10‏)‏ یہوواہ خدا نے اپنا فیصلہ بدل لیا۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بڑا فروتن اور رحم‌دل ہے۔‏ اِس واقعے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ غصے میں کوئی کارروائی نہیں کرتا جیسا کہ بہت سے اِنسان کرتے ہیں۔‏

جب نینوہ کے لوگوں نے توبہ کر کے اپنی روِش بدل لی تو یہوواہ خدا نے اپنا فیصلہ بدل لیا۔‏

15.‏ فیصلے بدلنے کی کچھ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟‏

15 فیصلے بدلنے کی کچھ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟‏ کبھی کبھار ہمیں اپنا فیصلہ اِس لیے بدلنا پڑتا ہے کیونکہ صورتحال بدل گئی ہے۔‏ یہوواہ خدا نے بھی بدلتی صورتحال کی وجہ سے اپنے کچھ فیصلے بدلے۔‏ (‏1-‏سلاطین 21:‏20،‏ 21،‏ 27-‏29؛‏ 2-‏سلاطین 20:‏1-‏5‏)‏ فیصلہ بدلنے کی ایک اَور وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہمیں نئی معلومات ملی ہیں۔‏ اِس سلسلے میں بادشاہ داؤد کی مثال پر غور کریں۔‏ اُنہوں نے غلط معلومات کی بِنا پر ساؤل کے پوتے مفیبوست کے بارے میں ایک فیصلہ کِیا۔‏ لیکن بعد میں جب اُن کو صحیح معلومات ملیں تو اُنہوں نے اپنا فیصلہ بدل لیا۔‏ (‏2-‏سموئیل 16:‏3،‏ 4؛‏ 19:‏24-‏29‏)‏ کبھی کبھار ہمارے لیے بھی ایسا کرنا دانش‌مندی کی بات ہوتی ہے۔‏

16.‏ ‏(‏الف)‏ ہمیں کوئی اہم فیصلہ کرنے سے پہلے کیا کرنا چاہیے؟‏ (‏ب)‏ ہمیں کب کسی فیصلے پر دوبارہ غور کرنا چاہیے اور اگر ہمیں اِس کو بدلنے کی ضرورت ہو تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏

16 خدا کے کلام میں ہمیں خبردار کِیا گیا ہے کہ ہم اہم فیصلے کرتے وقت جلدبازی نہ کریں۔‏ (‏امثال 21:‏5‏)‏ اچھا فیصلہ کرنے کے لیے ہمیں معاملے کے ہر پہلو پر غور کرنا چاہیے۔‏ (‏1-‏تھسلُنیکیوں 5:‏21‏)‏ خاندان کے سربراہوں کو کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے تحقیق کرنی چاہیے کہ بائبل اور ہماری مطبوعات میں اِس معاملے کے بارے میں کیا کہا گیا ہے۔‏ اُنہیں باقی گھر والوں کی رائے کو بھی مدِنظر رکھنا چاہیے۔‏ یاد رکھیں کہ ایک موقعے پر خدا نے ابراہام سے کہا کہ وہ اپنی بیوی کی بات مان لیں۔‏ (‏پیدایش 21:‏9-‏12‏)‏ کلیسیا کے بزرگوں کو بھی کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے بائبل اور ہماری مطبوعات میں تحقیق کرنی چاہیے۔‏ لیکن اُنہیں اُس صورت میں کیا کرنا چاہیے جب وہ کوئی فیصلہ کر لیتے ہیں اور بعد میں اِس سلسلے میں نئی معلومات سامنے آتی ہیں؟‏ ایسے معاملوں کو انا کا مسئلہ بنانے کی بجائے اُنہیں اپنی سوچ اور اپنے فیصلے بدلنے کو تیار ہونا چاہیے۔‏ اِس سے اُن کی سمجھ‌داری اور خاکساری ظاہر ہوگی۔‏ ہم سب کو ایسے بزرگوں کی اچھی مثال پر عمل کرنا چاہیے تاکہ کلیسیا میں امن‌واِتحاد قائم رہے۔‏—‏اعمال 6:‏1-‏4‏۔‏

اپنے فیصلوں پر عمل کریں

17.‏ ہم اچھے فیصلے کیسے کر سکتے ہیں؟‏

17 کچھ فیصلے دوسرے فیصلوں کی نسبت زیادہ اہم ہوتے ہیں،‏ مثلاً شادی کرنے کا فیصلہ اور جیون ساتھی کا اِنتخاب۔‏ ایک اَور اہم فیصلہ یہ ہے کہ ہم کب اور کیسے کُل‌وقتی خدمت شروع کریں گے۔‏ ایسے فیصلے کرنے میں وقت لگتا ہے۔‏ لیکن ہمیں یہوواہ خدا پر بھروسا رکھنا چاہیے،‏ اُس کی ہدایات پر دھیان دینا چاہیے اور اُس کی رہنمائی پر چلنا چاہیے۔‏ یہوواہ خدا نے اپنے کلام میں ”‏درست مشورت“‏ فراہم کی ہے۔‏ (‏امثال 1:‏5‏)‏ اِس لیے ہمیں اُس کے کلام پر غور کرنا چاہیے اور اُس کی مدد کے لیے دُعا کرنی چاہیے۔‏ وہ ہمیں ایسے فیصلے کرنے کی صلاحیت دے سکتا ہے جو اُس کی مرضی کے مطابق ہوں۔‏ جب بھی ہمیں کسی اہم معاملے کے بارے میں فیصلہ کرنا ہو تو ہمیں خود سے ایسے سوال پوچھنے چاہئیں:‏ ”‏کیا میرے فیصلے سے ظاہر ہوگا کہ مَیں یہوواہ سے محبت کرتا ہوں؟‏ کیا اِس فیصلے سے میرے گھر والوں کو خوشی اور سکون ملے گا؟‏ کیا اِس سے ظاہر ہوگا کہ مَیں صابر اور رحم‌دل ہوں؟‏“‏

18.‏ یہوواہ خدا کیوں چاہتا ہے کہ ہم خود فیصلے کریں؟‏

18 یہوواہ خدا ہمیں اُس سے محبت کرنے اور اُس کی خدمت کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔‏ اُس نے ہمیں فیصلہ کرنے کی آزادی دی ہے۔‏ لہٰذا یہ ہماری ذمےداری اور ہمارا حق ہے کہ ہم اِس معاملے میں خود اِنتخاب کریں۔‏ یہوواہ ہمارے اِس حق احترام کرتا ہے۔‏ (‏یشوع 24:‏15؛‏ واعظ 5:‏4‏)‏ لیکن جب ہم اُس کی رہنمائی کی بِنا پر کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو وہ اِس بات کی توقع کرتا ہے کہ ہم اِس پر عمل بھی کریں۔‏ خدا کی رہنمائی پر بھروسا کرنے اور اُس کے کلام میں درج اصولوں پر عمل کرنے سے ہم اچھے فیصلے کر سکتے ہیں۔‏ یوں ظاہر ہو جائے گا کہ ہم ’‏دودِلے اور اپنے ہر کام میں ڈانواں‌ڈول‘‏ نہیں ہیں بلکہ ہمارے قدم مضبوطی سے اُس کی راہ پر جمے ہیں۔‏—‏یعقوب 1:‏5-‏8؛‏ 4:‏8‏۔‏