کیا آپ لکھی ہوئی باتوں سے نصیحت پائیں گے؟
”یہ باتیں ہماری نصیحت کے لیے لکھی گئیں کیونکہ ہم آخری زمانے میں رہ رہے ہیں۔“—1-کُرنتھیوں 10:11۔
1، 2. اِس مضمون میں ہم یہوداہ کے چار بادشاہوں پر کیوں غور کریں گے؟
اگر آپ دیکھتے ہیں کہ آپ سے آگے چلنے والا شخص ایک جگہ پھسل کر گِر جاتا ہے تو یقیناً آپ اُس جگہ سے گزرتے وقت احتیاط برتیں گے۔ اِسی طرح دوسروں کی غلطیوں پر غور کرنے سے ہم اُن جیسی غلطیاں کرنے سے بچ سکتے ہیں۔ بائبل میں کئی لوگوں کی غلطیوں کا ذکر کِیا گیا ہے جن سے ہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔
2 پچھلے مضمون میں ہم نے یہوداہ کے جن چار بادشاہوں کے بارے میں پڑھا، اُن سب نے کامل دل سے یہوواہ کی خدمت کی۔ لیکن اُنہوں نے سنگین غلطیاں بھی کیں۔ بائبل میں اِن کی غلطیوں کا ذکر اِس لیے کِیا گیا ہے تاکہ ہم اِن سے ہدایت پائیں۔ آئیں، دیکھیں کہ ہم اُن کی غلطیوں سے کون سے سبق سیکھ سکتے ہیں اور اُن جیسی غلطیاں کرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں۔—رومیوں 15:4 کو پڑھیں۔
خود پر بھروسا کرنے کے بُرے انجام
3-5. (الف) حالانکہ آسا کا دل یہوواہ کے لیے کامل تھا لیکن اُنہوں نے کون سی غلطی کی؟ (ب) آسا نے شاید کس وجہ سے خود پر اور ارام کے بادشاہ پر بھروسا کِیا؟
3 سب سے پہلے بادشاہ آسا پر غور کریں۔ جب 10 لاکھ کوشی اُن سے جنگ کرنے آئے 2-تواریخ 16:1-3) آسا اِس کام کو روکنا چاہتے تھے اِس لیے اُنہوں نے ارام کے بادشاہ کو سونا اور چاندی دی تاکہ وہ اِسرائیل پر چڑھائی کرے۔ جونہی ارامی فوج نے اِسرائیل کے شہروں پر حملہ کِیا، بعشا نے ”راؔمہ کا بنانا چھوڑا اور اپنا کام بند کر دیا۔“ (2-تواریخ 16:5) شروع شروع میں تو آسا کو لگا ہوگا کہ ارام کے بادشاہ سے مدد مانگ کر اُنہوں نے صحیح قدم اُٹھایا تھا۔
تو اُنہوں نے یہوواہ پر بھروسا کِیا۔ لیکن جب اُنہوں نے اِسرائیلی سلطنت کے بادشاہ بعشا سے جنگ کی تو اُنہوں نے یہوواہ سے مدد نہیں مانگی۔ دراصل بعشا نے شہر رامہ کا دِفاعی نظام مضبوط کرنا شروع کِیا تھا جو اِسرائیل اور یہوداہ کی سرحد پر واقع تھا۔ (4 لیکن یہوواہ خدا کو آسا کا یہ قدم کیسا لگا؟ اُسے یہ بات بہت بُری لگی کہ آسا نے اُس پر بھروسا نہیں کِیا اور اُس نے حنانی نبی کے ذریعے آسا کو بتایا کہ اُن کے اِس قدم کا انجام کیا ہوگا۔ (2-تواریخ 16:7-9 کو پڑھیں۔) حنانی نبی نے آسا سے کہا: ”اب سے تیرے لئے جنگ ہی جنگ ہے۔“ آسا نے اِس موقعے پر تو بعشا کی کارروائی کو روک لیا لیکن اُنہیں اپنے باقی دَورِحکومت میں بہت سی جنگیں لڑنی پڑیں۔
5 پچھلے مضمون میں ہم نے دیکھا کہ یہوواہ خدا نے آسا کو اُن لوگوں میں شمار کِیا جنہوں نے کامل دل سے اُس کی خدمت کی۔ (1-سلاطین 15:14) پھر بھی آسا کو اپنے غلط قدم کے نتائج بھگتنے پڑے۔ مگر آسا نے یہوواہ پر بھروسا کرنے کی بجائے خود پر اور ارام کے بادشاہ پر بھروسا کیوں کِیا؟ ہمیں معلوم نہیں۔ شاید اُنہوں نے سوچا ہو کہ وہ جنگی حکمتِعملی کے ذریعے اِس جنگ کو جیت سکتے ہیں۔ یا پھر ہو سکتا ہے کہ اُنہوں ایسے لوگوں کی سنی ہو جنہوں نے اُن کو غلط مشورہ دیا۔
ہمیں اپنے آپ پر بھروسا کرنے کی بجائے ہر صورت میں یہوواہ پر بھروسا کرنا چاہیے۔
6. ہم بادشاہ آسا کی غلطی سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟ اِس سلسلے میں ایک مثال دیں۔
6 ہم بادشاہ آسا کی غلطی سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟ ہمیں اپنے آپ پر بھروسا کرنے کی بجائے ہر صورت میں یہوواہ پر بھروسا کرنا چاہیے۔ چاہے ہمیں چھوٹے یا بڑے مسئلوں کا سامنا ہو، ہمیں ہمیشہ اُس سے مدد کی اِلتجا کرنی چاہیے۔ خود سے پوچھیں: ”کیا مَیں کبھی کبھار ایک مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپنی عقل پر بھروسا کرتا ہوں؟ یا پھر کیا مَیں پہلے یہ دیکھتا ہوں کہ بائبل میں اِس مسئلے کے بارے میں کون سے اصول ہیں اور پھر اِن کی بِنا پر اِسے حل کرتا ہوں؟“ فرض کریں کہ آپ کے گھر والے آپ کی مخالفت کرتے ہیں اور آپ کو اِجلاسوں اور اِجتماعوں پر جانے سے منع کرتے ہیں۔ کیا آپ یہوواہ سے دُعا کریں گے کہ وہ آپ کو اِس صورتحال سے نمٹنے کا بہترین طریقہ دِکھائے؟ یا پھر فرض کریں کہ آپ بہت عرصے سے بےروزگار ہیں اور اب ایک شخص آپ کو ملازمت کی پیشکش کرتا ہے۔ کیا آپ اُسے بتائیں گے کہ ہر ہفتے آپ کے اِجلاس ہوتے ہیں جن پر آپ ضرور جائیں گے؟ خواہ ہمیں کسی بھی مسئلے کا سامنا ہو، ہمیں زبور نویس کی اِس ہدایت پر عمل کرنا چاہیے: ”اپنی راہ [یہوواہ] پر چھوڑ دے اور اُس پر توکل کر۔ وہی سب کچھ کرے گا۔“—زبور 37:5۔
سوچ سمجھ کر دوست چُنیں
7، 8. یہوسفط نے کون سی غلطیاں کیں اور اِن کے کیا نتیجے نکلے؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
7 آئیں، اب آسا کے بیٹے یہوسفط پر غور کریں۔ بادشاہ یہوسفط میں بہت سی خوبیاں تھیں۔ اُنہوں نے یہوواہ خدا پر بھروسا کِیا اور بہت سے اچھے کام کیے۔ لیکن اُنہوں نے کچھ غلط فیصلے بھی کیے۔ مثال کے طور پر اُنہوں نے اپنے بیٹے کی شادی بادشاہ اخیاب کی بیٹی سے کروا کر اِس بُرے بادشاہ ”کے ساتھ ناتا جوڑا۔“ بعد میں یہوسفط نے ارام کے بادشاہ سے جنگ کرنے میں اخیاب کا ساتھ دیا حالانکہ میکایاہ نبی نے اُنہیں ایسا کرنے سے خبردار کِیا تھا۔ اِس جنگ میں یہوسفط مرتے مرتے بچے۔ (2-تواریخ 18:1-32) جنگ کے بعد جب یہوسفط یروشلیم لوٹے تو یاہو نبی نے اُن سے پوچھا: ”کیا مناسب ہے کہ تُو شریروں کی مدد کرے اور [یہوواہ] کے دُشمنوں سے محبت رکھے؟“—2-تواریخ 19:1-3 کو پڑھیں۔
8 کیا یہوسفط نے اِس واقعے سے سبق سیکھا؟ نہیں۔ حالانکہ وہ یہوواہ خدا سے محبت کرتے تھے اور اُسے خوش کرنا چاہتے تھے لیکن اُنہوں نے ایک بار پھر سے ایک ایسے آدمی سے دوستی کی جو یہوواہ کی عبادت نہیں کرتا تھا۔ یہ آدمی اخیاب کا بیٹا اخزیاہ تھا۔ یہوسفط نے بادشاہ اخزیاہ کے ساتھ اِتحاد کر کے کچھ تجارتی جہاز بنوائے۔ لیکن یہ جہاز اِستعمال ہونے سے پہلے ہی تباہ ہو گئے۔—2-تواریخ 20:35-37۔
9. ایسے لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنا خطرناک کیوں ہو سکتا ہے جو یہوواہ کی خدمت نہیں کرتے؟
9 بائبل میں لکھا ہے کہ یہوسفط ”اپنے سارے دل سے [یہوواہ] کا طالب رہا۔“ (2-تواریخ 22:9) لیکن اِس کے باوجود وہ ایسے لوگوں کے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے تھے جو یہوواہ سے محبت نہیں کرتے تھے اور اِس وجہ سے یہوسفط کو بہت سے مسئلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا، ایک بار تو اُن کی جان بھی خطرے میں پڑ گئی۔ پاک کلام کی یہ بات کتنی سچی ہے کہ ”وہ جو داناؤں کے ساتھ چلتا ہے دانا ہوگا پر احمقوں کا ساتھی ہلاک کِیا جائے گا۔“ (امثال 13:20) ہمیں بھی محتاط رہنا چاہیے۔ ہم لوگوں کو یہوواہ کے بارے میں سکھانا تو چاہتے ہیں لیکن اگر ہم ایسے لوگوں کے ساتھ میل جول رکھیں گے جو یہوواہ کی خدمت نہیں کرتے تو یہ ہمارے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔
کیا آپ کو اِس بات پر بھروسا ہے کہ خدا آپ کے احساسات سے باخبر ہے اور آپ کی مدد کرے گا؟
10. (الف) یہوسفط کے ساتھ جو کچھ ہوا، اُس سے ہم کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟ (ب) اگر ہم جیون ساتھی کی تلاش میں ہیں تو ہمیں کیا یاد رکھنا چاہیے؟
10 یہوسفط کے ساتھ جو کچھ ہوا، اُس سے ہم کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟ شاید ایک مسیحی کسی ایسے شخص کو چاہنے لگے جو یہوواہ سے محبت نہیں کرتا۔ ہو سکتا ہے کہ اُس کے رشتےدار اُس پر شادی کرنے کا دباؤ ڈال رہے ہوں یا اُسے لگے کہ اُس کی شادی کی عمر نکل رہی ہے۔ پیارومحبت کی خواہش فطری خواہش ہوتی ہے۔ لیکن اگر ہمیں اپنے ہمایمانوں میں کوئی جیون ساتھی نہیں مل رہا تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ایسی صورت میں یہوسفط کی غلطی پر غور کرنا فائدہمند ہوگا۔ عام طور پر اُنہوں نے یہوواہ سے رہنمائی مانگی۔ (2-تواریخ 18:4-6) لیکن جب اُنہوں نے یہوواہ کے دُشمن اخیاب سے دوستی کی تو یہوسفط نے یہوواہ کی آگاہی کو نظرانداز کر دیا۔ اُنہیں یاد رکھنا چاہیے تھا کہ ”[یہوواہ] کی آنکھیں ساری زمین پر پھرتی ہیں تاکہ وہ اُن کی اِمداد میں جن کا دل اُس کی طرف کامل ہے اپنے تیئں قوی دِکھائے۔“ (2-تواریخ 16:9) ہمیں بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہوواہ خدا ہماری مدد کرنا چاہتا ہے۔ وہ ہماری صورتحال کو سمجھتا ہے اور ہم سے محبت کرتا ہے۔ کیا آپ کو اِس بات پر بھروسا ہے کہ خدا آپ کے احساسات سے باخبر ہے اور آپ کی مدد کرے گا؟
اپنے دل میں غرور کو جگہ نہ دیں
11، 12. (الف) یہ کیسے ظاہر ہو گیا کہ حِزقیاہ کے دل میں کیا تھا؟ (ب) یہوواہ نے حِزقیاہ کو معاف کیوں کِیا؟
11 ہم بادشاہ حِزقیاہ سے بھی ایک اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔ ایک موقعے پر یہوواہ نے ظاہر کِیا کہ اُن کے دل میں کیا ہے۔ (2-تواریخ 32:31 کو پڑھیں۔) جب حِزقیاہ بہت بیمار ہوئے تو خدا نے اُنہیں بتایا کہ وہ صحتیاب ہو جائیں گے اور اِس حوالے سے اُنہیں ایک نشان بھی دیا۔ نشان یہ تھا کہ دھوپ گھڑی کا سایہ دس درجے پیچھے گیا۔ لگتا ہے کہ بابل کے حکمران اِس معجزانہ نشان کے بارے میں مزید جاننا چاہتے تھے اور اِس لیے اُنہوں نے حِزقیاہ کے پاس کچھ ایلچی بھیجے۔ (2-سلاطین 20:8-13؛ 2-تواریخ 32:24) یہوواہ نے حِزقیاہ کو نہیں بتایا کہ وہ اِن ایلچیوں کے ساتھ کیسا سلوک کریں۔ پاک کلام میں لکھا ہے کہ ”خدا نے اُسے آزمانے کے لئے چھوڑ دیا تاکہ معلوم کرے کہ اُس کے دل میں کیا ہے۔“ بادشاہ حِزقیاہ نے اِن ایلچیوں کو اپنے سارے خزانے دِکھائے۔ اِس سے کیسے ظاہر ہو گیا کہ حِزقیاہ کے دل میں کیا تھا؟
12 ”حِزقیاؔہ . . . کے دل میں گھمنڈ سما گیا“ تھا۔ وہ اُس احسان کے لیے شکرگزار نہیں تھے جو یہوواہ نے اُن پر کِیا تھا۔ بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ حِزقیاہ مغرور کیوں بن گئے۔ شاید اسوریوں پر فتح اُن کے سر چڑھ گئی تھی یا اُنہیں اِس بات پر بڑا مان تھا کہ یہوواہ نے اُنہیں شفا بخشی تھی۔ یا پھر وہ اپنی ”دولت اور عزت“ کی وجہ سے خود کو بہت بڑا سمجھنے لگے تھے۔ بہرحال کچھ عرصے کے لیے وہ مغرور ہو گئے۔ خوشی کی بات ہے کہ بعد میں حِزقیاہ نے ”اپنے دل کے غرور کے بدلے خاکساری اِختیار کی“ اور خدا نے اُن کو معاف کر دیا۔—2-تواریخ 32:25-27؛ زبور 138:6۔
جب دوسرے ہماری تعریف کرتے ہیں تو ہمارے ردِعمل سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے دل میں کیا ہے۔
13، 14. (الف) کن صورتحال میں ظاہر ہو سکتا ہے کہ ہمارے دل میں کیا ہے؟ (ب) جب ہماری تعریف کی جاتی ہے تو ہمیں کیسا ردِعمل دِکھانا چاہیے؟
13 ہم حِزقیاہ کی غلطی سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟ یاد رہے کہ وہ تب مغرور ہو گئے جب یہوواہ نے اُن کو اسوریوں پر فتح دی اور اُن کو شفا بخشی۔ جب ہمیں برکتیں ملتی ہیں یا دوسرے ہماری تعریف کرتے ہیں تو ہم کیا کرتے ہیں؟ ہمارے ردِعمل سے پتہ چلے گا کہ ہمارے دل میں کیا ہے۔ مثال کے طور پر شاید ایک بھائی بڑی محنت سے ایک تقریر تیار کرتا ہے اور اِسے اِجتماع میں پیش کرتا ہے۔ بعد میں بہت سے بہن بھائی اُس کی تعریف کرتے ہیں۔ اب اُس کا ردِعمل کیا ہوگا؟
14 یاد رکھیں کہ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ”جب آپ وہ کام کر لیں جو آپ کو دیا گیا ہے تو کہیں: ”ہم نکمّے غلام ہیں۔ ہم نے تو بس اپنا فرض پورا کِیا ہے۔““ (لُوقا 17:10) جب حِزقیاہ کے دل میں غرور سما گیا تو وہ یہوواہ کے احسان کے لیے شکرگزار نہیں رہے۔ تو پھر جب لوگ ہماری کسی تقریر کے لیے ہماری تعریف کرتے ہیں تو ہم خاکسار کیسے رہ سکتے ہیں؟ ہم اِس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ یہوواہ نے کن طریقوں سے ہماری مدد کی ہے۔ اُس نے ہمیں بائبل اور پاک روح دی جس کی بدولت ہم تقریر دے پائے۔ اِس کے علاوہ ہم دوسروں کو بھی بتا سکتے ہیں کہ یہوواہ نے ہماری کتنی مدد کی ہے۔
فیصلہ کرنے سے پہلے یہوواہ کی مرضی دریافت کریں
15، 16. بادشاہ یوسیاہ نے کیا کِیا جس کی وجہ سے وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے؟
15 آخر میں دیکھیں کہ ہم بادشاہ یوسیاہ سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں۔ حالانکہ یوسیاہ ایک اچھے بادشاہ تھے لیکن اُنہوں نے ایک جانلیوا غلطی کی۔ (2-تواریخ 35:20-22 کو پڑھیں۔) دراصل یوسیاہ نے مصر کے بادشاہ نکوہ سے بِلاوجہ جنگ کی۔ نکوہ نے یوسیاہ سے کہا بھی تھا کہ وہ اُن سے لڑنے کے لیے نہیں آئے تھے۔ پاک کلام میں لکھا ہے کہ ”نکوؔہ کی بات . . . خدا کے مُنہ سے نکلی تھی۔“ لیکن یوسیاہ نے پھر بھی نکوہ سے جنگ کی اور مارے گئے۔ یوسیاہ جنگ کرنے سے باز کیوں نہیں آئے؟ بائبل میں اِس کی وجہ نہیں بتائی گئی۔
16 البتہ یوسیاہ کو اِس بات کی تصدیق کرنی چاہیے تھی کہ آیا نکوہ کی 2-تواریخ 35:23، 25) اُنہیں اِس بات کو بھی خاطر میں لانا چاہیے تھا کہ نکوہ یروشلیم پر نہیں بلکہ کرکمیس پر چڑھائی کرنے آئے تھے۔ اِس کے علاوہ اُنہیں یہ بھی سوچنا چاہیے تھا کہ نکوہ نے یہوواہ اور اُس کی قوم کے خلاف کوئی بات نہیں کہی تھی۔ مگر یوسیاہ نے اِن باتوں پر غور کیے بغیر نکوہ سے جنگ کرنے کا فیصلہ کِیا۔ اِس سے ہم کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟ جب ہمیں کسی مسئلے کا سامنا ہو تو کوئی بھی قدم اُٹھانے سے پہلے ہمیں یہ اندازہ لگانا چاہیے کہ اِس سلسلے میں خدا ہم سے کس بات کی توقع کرتا ہے۔
بات واقعی خدا کی طرف سے تھی یا نہیں۔ مثال کے طور پر وہ یرمیاہ نبی سے اِس بارے میں پوچھ سکتے تھے۔ (17. مسئلوں کا سامنا کرتے وقت ہم یوسیاہ جیسی غلطی کرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
17 جب کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا ہے تو ہمیں پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ بائبل کے کون سے اصول اِس پر لاگو ہوتے ہیں اور ہم اِن کو کیسے کام میں لا سکتے ہیں۔ کچھ صورتحال میں ہم کلیسیا کے کسی بزرگ سے بھی مشورہ لے سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم نے اِس مسئلے کے بارے میں خوب سوچ بچار کی ہے اور اِس سلسلے میں ہماری مطبوعات میں تحقیق بھی کی ہے۔ لیکن یہ بزرگ شاید ہمیں بائبل کے اَور بھی اصولوں کی طرف متوجہ کر سکتا ہے جو ہماری صورتحال پر لاگو ہوتے ہیں۔ ذرا اِس مثال پر غور کریں۔ ایک بہن جس کا شوہر یہوواہ کا گواہ نہیں ہے، وہ ایک دن مُنادی پر جانا چاہتی ہے۔ (اعمال 4:20) مگر اُس کا شوہر اُسے روک لیتا ہے۔ وہ اُس سے کہتا ہے کہ حال ہی میں اُنہوں نے کم وقت ایک ساتھ گزارا ہے اِس لیے وہ اُس کے ساتھ گھومنے پھرنے کے لیے جانا چاہتا ہے۔ اب وہ بہن سوچ رہی ہے کہ بائبل کے کون سے اصول اچھا فیصلہ کرنے میں اُس کے کام آ سکتے ہیں۔ وہ جانتی ہے کہ اُسے یہوواہ کا کہنا ماننا چاہیے۔ اُسے معلوم ہے کہ مسیحیوں کو شاگرد بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ (متی 28:19، 20؛ اعمال 5:29) لیکن وہ یہ بھی جانتی ہے کہ بائبل کے مطابق بیوی کو اپنے شوہر کی تابعدار ہونا چاہیے اور مسیحیوں کو لچکداری سے کام لینا چاہیے۔ (اِفسیوں 5:22-24؛ فِلپّیوں 4:5، فٹنوٹ) کیا اُس کا شوہر اُسے مستقل طور پر مُنادی کرنے سے منع کر رہا ہے یا پھر وہ بس ایک دن کے لیے چاہتا ہے کہ وہ مُنادی پر جانے کی بجائے اُس کے ساتھ وقت گزارے؟ یہوواہ کے خادموں کے طور پر ہمیں سب باتوں کو ناپ تول کر ایسے فیصلے کرنے چاہئیں جن سے خدا خوش ہو۔
پورے دل سے یہوواہ کی خدمت کرتے رہیں
18. یہوداہ کے چار بادشاہوں کی غلطیوں پر غور کرنے سے ہم کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
18 ہم بھی عیبدار ہیں اِس لیے ہم سے بھی ایسی غلطیاں ہو سکتی ہیں جو یہوداہ کے اُن چار بادشاہوں نے کیں جن کی زندگی پر ہم نے غور کِیا ہے۔ شاید ہم بھی (1) خود پر بھروسا کرنے لگیں، (2) سوچے سمجھے بغیر دوست چُنیں، (3) اپنے دل میں غرور کو جگہ دیں یا (4) فیصلہ کرنے سے پہلے یہوواہ کی مرضی دریافت نہ کریں۔ لیکن ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم یہوواہ خدا کو کبھی خوش نہیں کر سکتے۔ وہ ہمارے دل کی اچھائی کو خاطر میں لاتا ہے، بالکل جیسے اُس نے اُن چار بادشاہوں کے ساتھ بھی کِیا۔ وہ جانتا ہے کہ ہم اُس سے بڑی محبت کرتے ہیں اور جوشوجذبے سے اُس کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ اُس نے اپنے کلام میں اپنے بندوں کی غلطیاں درج کرائیں تاکہ ہم اِن سے سبق حاصل کر سکیں۔ آئیں، ہمیشہ یہوواہ کے شکرگزار رہیں جس نے یہ باتیں ہماری نصیحت کے لیے لکھوائی ہیں۔