کون عزت کے لائق ہے؟
”اُس کی جو تخت پر بیٹھا ہے اور میمنے کی بڑائی اور عزت اور عظمت اور قدرت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہو۔“—مکاشفہ 5:13۔
1. (الف) کچھ لوگوں کی عزت کیوں کی جاتی ہے؟ (ب) ہم اِس مضمون میں کس بات پر غور کریں گے؟
کسی شخص کی عزت کرنے کا مطلب ہے، اُس کا لحاظ کرنا اور اُس کے لیے احترام ظاہر کرنا۔ عام طور پر ہم ایسے لوگوں کی عزت کرتے ہیں جنہوں نے کوئی قابلِتعریف کام کِیا ہو یا جو کوئی اہم عہدہ یا ذمےداری رکھتے ہوں۔ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہمیں کن کی عزت کرنی چاہیے اور یہ عزت کے لائق کیوں ہیں۔
2، 3. (الف) یہوواہ خدا خاص عزت کے لائق کیوں ہے؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔) (ب) مکاشفہ 5:13 میں جس ”میمنے“ کا ذکر ہے، وہ کون ہے؟ اور ہمیں اُس کی عزت کیوں کرنی چاہیے؟
2 مکاشفہ 5:13 میں بتایا گیا ہے کہ ”جو تخت پر بیٹھا ہے“ اور ’میمنا‘ عزت کے لائق ہیں۔ ”جو تخت پر بیٹھا ہے،“ وہ یہوواہ ہے۔ مکاشفہ 4 باب میں بتایا گیا ہے کہ یہوواہ ”جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہے،“ عزت کے لائق کیوں ہے۔ اِس باب کے مطابق آسمان پر موجود 24 بزرگ کہتے ہیں: ”اَے یہوواہ، ہمارے خدا، تُو عظمت اور عزت اور طاقت کے لائق ہے کیونکہ تُو نے سب چیزیں بنائی ہیں اور ساری چیزیں تیری مرضی سے وجود میں آئیں اور بنائی گئیں۔“—مکاشفہ 4:9-11۔
مکاشفہ 5:13 میں جس ”میمنے“ کا ذکر ہے، وہ یسوع مسیح ہیں۔ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں؟ کیونکہ جب یسوع زمین پر تھے تو اُن کے بارے میں کہا گیا کہ ”یہ خدا کا میمنا ہے جو دُنیا کے گُناہ دُور کر دیتا ہے۔“ (یوحنا 1:29) بائبل میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یسوع مسیح ’بادشاہوں کے بادشاہ اور مالکوں کے مالک ہیں اور صرف اُنہیں غیرفانی زندگی دی گئی ہے۔‘ (1-تیمُتھیُس 6:14-16) ذرا سوچیں کہ یسوع مسیح کے سوا کس بادشاہ نے اپنی رعایا کے گُناہوں کا فدیہ ادا کرنے کے لیے اپنی جان دے دی؟ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح تمام اِنسانی بادشاہوں سے افضل ہیں۔ بِلاشُبہ آپ بھی اُن ہزاروں فرشتوں جیسے احساسات رکھتے ہیں جنہوں نے یسوع مسیح کی تعظیم میں یہ گیت گایا: ”جس میمنے کو ذبح کِیا گیا، وہ اِس لائق ہے کہ اُس کو طاقت اور دولت اور دانشمندی اور قوت اور عزت اور عظمت اور برکت ملے۔“—مکاشفہ 5:12۔
34. یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کی تعظیم کرنا دانشمندی کی بات کیوں ہے؟
4 یوحنا 5:22، 23 میں لکھا ہے: ”باپ کسی کی عدالت نہیں کرتا بلکہ اُس نے عدالت کرنے کا کام بیٹے کے سپرد کِیا ہے تاکہ سب اُسی طرح بیٹے کی عزت کریں جیسے وہ باپ کی کرتے ہیں۔ جو کوئی بیٹے کی عزت نہیں کرتا، وہ باپ کی بھی عزت نہیں کرتا جس نے اُسے بھیجا ہے۔“ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح کی عزت کرنا کتنا اہم ہے۔ ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کے لیے یسوع مسیح اور اُن کے آسمانی باپ یہوواہ کی تعظیم کرنا لازمی ہے۔—زبور 2:11، 12 کو پڑھیں۔
5. ہمیں تمام اِنسانوں کی عزت کیوں کرنی چاہیے؟
5 بائبل میں لکھا ہے کہ ”خدا نے اِنسان کو اپنی صورت پر پیدا کِیا۔“ (پیدایش 1:27) لہٰذا تمام اِنسانوں میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ خود میں ایسی خوبیاں پیدا کریں جیسی خدا میں بھی ہیں۔ مثال کے طور پر اِنسان محبت، رحم اور ہمدردی کی خوبیاں ظاہر کر سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ خدا نے اِنسانوں کو ضمیر بھی عطا کِیا ہے جس کی مدد سے اِنسان صحیح اور غلط اور اچھے اور بُرے میں تمیز کر سکتے ہیں۔ (رومیوں 2:14، 15) زیادہتر لوگ صفائی ستھرائی، خوبصورتی اور امن کو پسند کرتے ہیں۔ اور یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کیونکہ خدا بھی اِنہی چیزوں کو پسند کرتا ہے۔ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ ہر اِنسان کسی نہ کسی لحاظ سے خدا کی خوبیوں کو ظاہر کرتا ہے۔ اور اِس وجہ سے ہمیں تمام اِنسانوں کی عزت کرنی چاہیے۔—زبور 8:5۔
مناسب حد تک عزت ظاہر کریں
6، 7. دوسروں کی عزت کرنے کے سلسلے میں یہوواہ کے گواہ دُنیا کے لوگوں سے کیسے فرق ہیں؟
6 اِس بات کا اندازہ لگانا آسان نہیں کہ ہمیں کس طرح سے اور کس حد تک دوسروں کی عزت کرنی چاہیے۔ یہ اِس لیے مشکل ہے کیونکہ دُنیا کی سوچ ہم پر اثر ڈالتی ہے۔ دُنیا میں لوگ دوسروں کی مناسب حد تک عزت کرنے کی بجائے اُن کے پرستار بن جاتے ہیں۔ وہ مذہبی اور سیاسی رہنماؤں، کھلاڑیوں، فنکاروں اور مشہور ہستیوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اور اُن کی طرح بننے کے لیے اُن کے پہناوے، طورطریقوں اور چال ڈھال کی نقل کرتے ہیں۔
7 یہوواہ کے گواہ اِس حد تک کسی اِنسان کی عزت نہیں کرتے۔ وہ جانتے ہیں کہ تمام اِنسان عیبدار اور گُناہگار ہیں۔ بائبل میں لکھا ہے: ”سب نے گُناہ کِیا ہے اور خدا کی عظمت کو ظاہر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔“ (رومیوں 3:23) صرف یسوع مسیح ہی بےعیب اِنسان تھے اور اُنہوں نے ہمارے لیے بہترین مثال قائم کی۔ (1-پطرس 2:21) کوئی بھی اِنسان اِس لائق نہیں کہ اُس کی پرستش کی جائے۔ اگر ہم اِنسانوں کی حد سے زیادہ تعظیم کریں گے تو یہوواہ خدا خوش نہیں ہوگا۔
8، 9. (الف) یہوواہ کے گواہ حکومت کے اہلکاروں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں؟ (ب) ہم کس صورت میں حکومت کے اہلکاروں کا کہنا نہیں مانتے؟
رومیوں 13:1، 7۔
8 کچھ لوگ اپنے عہدے کی وجہ سے عزت کے لائق ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں حکومت کے اہلکاروں کی عزت کرنی چاہیے۔ وہ ملک میں نظموضبط قائم رکھتے ہیں اور عوام کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ پولُس رسول نے کہا کہ مسیحیوں کو حاکموں کا تابعدار ہونا چاہیے۔ اُنہوں نے یہ بھی نصیحت کی کہ ”سب لوگوں کا حق ادا کریں۔ جو ٹیکس مانگتا ہے، اُسے ٹیکس دیں؛ . . . جو عزت مانگتا ہے، اُسے عزت دیں۔“—9 یہوواہ کے گواہوں کے طور پر ہم حکومت کے اہلکاروں کا بھرپور احترام کرتے ہیں۔ ہم اپنے ملک کی روایتوں کے مطابق اُن کی عزت کرتے ہیں اور اُن کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ لیکن اگر وہ ہم سے کوئی ایسا کام کرنے کو کہیں جو یہوواہ کے حکموں کے خلاف ہے تو ہم اُن کی بات ماننے کی بجائے یہوواہ کے فرمانبردار ہوں گے۔—1-پطرس 2:13-17 کو پڑھیں۔
10. حکومت کے اہلکاروں کی عزت کرنے کے سلسلے میں ہم خدا کے اُن بندوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں جن کا بائبل میں ذکر ہوا ہے؟
10 ہم حکومت اور اِس کے اہلکاروں کی عزت کرنے کے سلسلے میں خدا کے اُن بندوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جن کا بائبل میں ذکر ہوا ہے۔ یوسف اور مریم نے اِس سلسلے میں بہت اچھی مثال قائم کی۔ جب رومی حاکم نے مردمشماری کرانے کا حکم جاری کِیا تو یوسف اور مریم نے اپنا نام اندراج کرنے کے لیے بیتلحم کا سفر کِیا حالانکہ اُس وقت مریم کے حمل کی مُدت پوری ہونے والی تھی۔ (لُوقا 2:1-5) پولُس رسول بھی حاکموں کا احترام کرتے تھے۔ جب اُن پر جھوٹے اِلزامات لگائے گئے تو اُنہوں نے بادشاہ ہیرودیس اگرِپا اور صوبہ یہودیہ کے حاکم فیستُس کے سامنے بڑے احترام سے اپنی صفائی پیش کی۔—اعمال 25:1-12؛ 26:1-3۔
11، 12. (الف) ہم مذہبی رہنماؤں کے لیے خاص عزت کیوں نہیں ظاہر کرتے؟ (ب) جب آسٹریا میں رہنے والے ایک بھائی نے ایک سیاستدان کے ساتھ احترام سے بات کی تو اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟
11 لیکن یہوواہ کے گواہ مذہبی رہنماؤں کے لیے وہ خاص عزت ظاہر نہیں کرتے جو کہ دُنیا اُن کے لیے ظاہر کرتی ہے۔ دراصل جھوٹے مذاہب کے رہنما خدا اور اُس کے کلام کے بارے میں سچی تعلیم نہیں دیتے۔ یسوع مسیح نے اپنے زمانے کے مذہبی پیشواؤں کے بارے میں کہا کہ وہ ریاکار اور اندھے رہنما ہیں۔ (متی 23:23، 24) اِس وجہ سے ہم عزت ظاہر کرنے کے حوالے سے مذہبی رہنماؤں سے ویسے ہی پیش آتے ہیں جیسے ہم دوسرے اِنسانوں سے پیش آتے ہیں۔ اِس کے برعکس حکومت کے اہلکاروں کے لیے خاص عزت ظاہر کرنے میں کوئی حرج نہیں اور اکثر اِس کے اچھے نتائج بھی نکلتے ہیں۔
12 اِس کی ایک مثال پر غور کریں۔ بھائی لیوپولڈ اینگلاٹنر ملک آسٹریا میں رہتے تھے۔ نازی حکومت کے دَور میں اُنہیں گِرفتار کر لیا گیا۔ جب اُنہیں ٹرین میں بٹھا کر قیدی کیمپ پہنچایا جا رہا تھا تو اُن کی ملاقات ایک اَور قیدی سے ہوئی جس کا نام ہنرک گلائسنر تھا۔ یہ شخص آسٹریا کا ایک سیاستدان تھا جسے نازی حکومت نے گِرفتار کر لیا تھا۔ سفر کے دوران بھائی لیوپولڈ نے بڑے احترام سے اِس سیاستدان کو گواہی دی۔ اِس کا یہ نتیجہ نکلا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اِس سیاستدان نے آسٹریا میں یہوواہ کے گواہوں کی بڑی مدد کی۔ ایسا اکثر ہوا ہے کہ جب سچے مسیحیوں نے حکومت کے اہلکاروں کی عزت کی تو اِس کے اچھے نتیجے نکلے۔
کلیسیا میں دوسروں کی عزت کریں
13. خاص طور پر کون ہماری عزت اور احترام کے لائق ہیں اور اِس کی کیا وجہ ہے؟
13 بِلاشُبہ ہمارے مسیحی بہن بھائی عزت اور احترام کے لائق ہیں، خاص طور پر ایسے بھائی جو ہماری پیشوائی کرتے ہیں جیسے کہ کلیسیا کے بزرگ، حلقے کے نگہبان، برانچ کی کمیٹی کے رُکن اور گورننگ باڈی کے رُکن۔ (1-تیمُتھیُس 5:17 کو پڑھیں۔) ہم اِن بھائیوں کی بڑی عزت کرتے ہیں، چاہے وہ کسی بھی قوم سے تعلق رکھتے ہوں؛ پڑھے لکھے ہوں یا کم تعلیمیافتہ ہوں اور اُن کی مالی اور معاشرتی حیثیت کچھ بھی ہو۔ بائبل میں اِن بھائیوں کو ”آدمیوں کے رُوپ میں نعمتیں“ کہا گیا ہے اور یہوواہ خدا اِن کے ذریعے اپنے بندوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ (اِفسیوں 4:8) پہلی صدی کے مسیحیوں کی طرح ہم بھی اُن بھائیوں کا بڑا احترام کرتے ہیں جو ہماری پیشوائی کرتے ہیں۔ ہم اِن خاکسار بھائیوں کی محنت اور خدمت کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ لیکن ہم اِن کی اِس حد تک تعظیم نہیں کرتے کہ یہ پرستش کے برابر ہو۔—2-کُرنتھیوں 1:24؛ مکاشفہ 19:10 کو پڑھیں۔
14، 15. ہماری کلیسیاؤں کے بزرگ دوسرے مذہبی پیشواؤں سے کیسے فرق ہیں؟
14 ہماری کلیسیاؤں کے بزرگ بڑی خاکساری سے کلیسیا کی گلّہبانی کرتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ بہن بھائی اُن کے ساتھ ویسا سلوک کریں جیسا کہ دُنیا مشہور ہستیوں کے ساتھ کرتی ہے۔ وہ ہمارے زمانے اور یسوع مسیح کے زمانے کے مذہبی پیشواؤں سے بالکل فرق ہیں جن کے بارے میں یسوع مسیح نے متی 23:6، 7۔
کہا: ”وہ عبادتگاہوں میں اگلی کُرسیوں اور دعوتوں میں سب سے اہم جگہوں پر بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بازاروں میں لوگ اُنہیں سلام کریں اور اُنہیں ربّی کہیں۔“—بزرگوں کی خاکساری کو دیکھ کر کلیسیا کے بہن بھائی اُن سے محبت کرتے ہیں اور اُن کی عزت اور قدر کرتے ہیں۔
15 اِس کے برعکس کلیسیا کے بزرگ یسوع مسیح کی اِس ہدایت پر عمل کرتے ہیں: ”آپ ربّی نہ کہلائیں کیونکہ آپ کا اُستاد ایک ہے اور آپ سب بھائی ہیں۔ زمین پر کسی کو باپ نہ کہیں کیونکہ آپ کا باپ ایک ہے جو آسمان پر ہے۔ آپ رہنما بھی نہ کہلائیں کیونکہ آپ کا رہنما ایک ہے یعنی مسیح۔ لیکن جو آپ میں سب سے بڑا ہے، اُسے آپ کا خادم بننا چاہیے۔ جو اپنے آپ کو بڑا خیال کرتا ہے، اُس کو چھوٹا کِیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو چھوٹا خیال کرتا ہے، اُس کو بڑا کِیا جائے گا۔“ (متی 23:8-12) اِن بزرگوں کی خاکساری کو دیکھ کر کلیسیا کے بہن بھائی اُن سے محبت کرتے ہیں اور اُن کی عزت اور قدر کرتے ہیں۔
16. بائبل میں دوسروں کی عزت کرنے کے حوالے سے جو کچھ بتایا گیا ہے، اِس پر غور کرنا اور عمل کرنا اہم کیوں ہے؟
16 اِس بات کو سیکھنے میں وقت لگتا ہے کہ ہمیں کس کی عزت کرنی چاہیے اور کس حد تک ایسا کرنا چاہیے۔ پہلی صدی کے مسیحیوں کو بھی یہ بات سیکھنی پڑی۔ (اعمال 10:22-26؛ 3-یوحنا 9، 10) لیکن بائبل میں دوسروں کی عزت کرنے کے حوالے سے جو کچھ بتایا گیا ہے، اِس پر عمل کرنے کے بہت سے فائدے ہوتے ہیں۔ آئیں، اِن میں سے کچھ پر غور کریں۔
دوسروں کی عزت کرنے کے فائدے
17. اِختیار والوں کا احترام کرنے سے کون سے اچھے نتیجے نکلتے ہیں؟
17 جب ہم اِختیار والوں کا احترام کرتے ہیں تو اِس کا زیادہ اِمکان ہوتا ہے کہ وہ مُنادی کرنے کے ہمارے حق کی حمایت کریں گے۔ شاید وہ ہمارے اِس کام سے خوش ہوں کیونکہ اُنہوں نے دیکھا ہے کہ اِس میں معاشرے کا فائدہ ہے۔ کچھ سال پہلے جرمنی میں ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ جب بہن برگٹ جو پہلکار ہیں، اپنی بیٹی کے سکول کی ایک تقریب پر گئیں تو اساتذہ نے اُنہیں بتایا کہ اُن کو یہوواہ کے گواہوں کے بچوں کو پڑھانا بہت اچھا لگتا ہے۔ اِن اساتذہ کا خیال تھا کہ یہوواہ کے گواہوں کے بچے سکول کے باقی بچوں پر اچھا اثر ڈالتے ہیں۔ بہن برگٹ نے اُن سے کہا: ”ہم اپنے بچوں کو خدا کے معیاروں پر چلنے کی تربیت دیتے ہیں اِس لیے وہ اپنے ٹیچروں کی عزت کرتے ہیں۔“ ایک ٹیچر نے کہا: ”اگر تمام بچے آپ لوگوں کے بچوں کی طرح ہوتے تو یہ سکول جنت ہوتا۔“ اِس کے کچھ ہفتے بعد اِن میں سے ایک ٹیچر ہمارے ایک اِجتماع پر بھی آئی۔
18، 19. یہ کیوں اہم ہے کہ ہم مناسب طریقے سے کلیسیا کے بزرگوں کی عزت کریں؟
18 خدا کے کلام میں پائے جانے والے اصولوں پر غور کرنے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کلیسیا کے بزرگوں کے لیے احترام ظاہر کرنے کا مناسب طریقہ کیا ہے۔ (عبرانیوں 13:7، 17 کو پڑھیں۔) ہمیں بزرگوں کو اُن کی محنت اور خدمت کے لیے داد دینی چاہیے۔ ہمیں اُن کی ہدایتوں پر عمل کرنا چاہیے تاکہ وہ خوشی سے کلیسیا کی خدمت کریں۔ بائبل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہمیں اُن جیسا ایمان پیدا کرنا چاہیے۔ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کسی بزرگ کی طرح بننے کے لیے اُس کے پہناوے، چال ڈھال اور تقریر دینے کے انداز کی نقل کریں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم مسیح کی پیروی نہیں بلکہ کسی اِنسان کی پیروی کر رہے ہوں گے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بزرگ بھی ہماری طرح خطاکار ہیں۔
19 جب ہم مناسب طریقے سے کلیسیا کے بزرگوں کی عزت کریں گے اور اُن کے ساتھ ایسے پیش نہیں آئیں گے جیسے دُنیا کے لوگ مشہور ہستیوں کے ساتھ پیش آتے ہیں تو اِن بزرگوں کو فائدہ ہوگا۔ کس لحاظ سے؟ اُن کے لیے خاکسار رہنا زیادہ آسان ہوگا اور اُن کو یہ تاثر نہیں ملے گا کہ وہ دوسروں سے افضل ہیں اور ہمیشہ صحیح ہیں۔
20. دوسروں کی عزت کرنے سے ہمیں کون سے فائدے ہوتے ہیں؟
20 دوسروں کی عزت کرنے سے ہمیں بھی فائدہ ہوتا ہے کیونکہ ہم خودپرست بننے سے بچ جاتے ہیں اور جب دوسرے لوگ ہماری تعریف کرتے ہیں تو ہم مغرور نہیں بنتے۔ مناسب طریقے سے دوسروں کی عزت کرنے سے ہم یہوواہ کی تنظیم کی مثال پر بھی عمل کرتے ہیں جو کسی شخص کی حد سے زیادہ تعظیم نہیں کرتی، چاہے وہ یہوواہ کا گواہ ہو یا نہ ہو۔ اِس طرح ہم اُس وقت بھی خدا سے لپٹے رہیں گے جب کوئی ایسا شخص ہمیں مایوس کرے جس کی ہم عزت کرتے ہیں۔
21. دوسروں کی مناسب طریقے سے عزت کرنے کا سب سے بڑا فائدہ کیا ہے؟
21 دوسروں کی مناسب طریقے سے عزت کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہم یہوواہ خدا کو خوش کرتے ہیں اور کوئی ایسا کام نہیں کرتے جس کی وجہ سے شیطان، خدا کو طعنے دے سکے۔ (امثال 27:11) دُنیا میں زیادہتر لوگ یہ نہیں جانتے کہ اُنہیں کس کی عزت کرنی چاہیے اور کس حد تک ایسا کرنا چاہیے۔ لیکن ہم نے یہوواہ کے کلام سے دوسروں کی عزت کرنے کا مناسب طریقہ سیکھ لیا ہے جس کے لیے ہم اُس کے بےحد شکرگزار ہیں۔