مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مہمان‌نوازی کرنے کی اہمیت اور فائدے

مہمان‌نوازی کرنے کی اہمیت اور فائدے

‏”‏بڑبڑائے بغیر ایک دوسرے کی مہمان‌نوازی کریں۔‏“‏‏—‏1-‏پطرس 4:‏9‏۔‏

گیت:‏ 50،‏  20

1.‏ پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کو کن کٹھن حالات کا سامنا تھا؟‏

پطرس رسول نے 62ء اور 64ء کے درمیان اُن مسافروں کے نام خط لکھا ”‏جو پُنطُس،‏ گلتیہ،‏ کپدُکیہ،‏ آسیہ اور بِتونیہ میں رہتے“‏ تھے۔‏ (‏1-‏پطرس 1:‏1‏)‏ اِن علاقوں میں رہنے والے بہن بھائی ”‏شدید آزمائشوں“‏ یعنی اذیت کا سامنا کر رہے تھے اِس لیے اُنہیں حوصلہ‌افزائی اور رہنمائی کی ضرورت تھی۔‏ اِس کے علاوہ وہ یہودی قوم کی تاریخ کے بہت نازک دَور میں رہ رہے تھے۔‏ دراصل دس سال سے بھی کم عرصے میں یروشلیم تباہ ہونے والا تھا۔‏ لہٰذا پطرس رسول نے لکھا:‏ ”‏سب چیزوں کا خاتمہ نزدیک ہے۔‏“‏ ایسے کٹھن حالات میں مسیحی کہاں سے مدد حاصل کر سکتے تھے؟‏—‏1-‏پطرس 4:‏4،‏ 7،‏ 12‏۔‏

2،‏ 3.‏ پطرس رسول نے بہن بھائیوں کو ایک دوسرے کی مہمان‌نوازی کرنے کی نصیحت کیوں کی؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

2 پطرس رسول نے اپنے خط میں پہلی صدی عیسوی کے اُن مسیحیوں کو کچھ نصیحتیں کیں۔‏ اِن میں ایک نصیحت یہ تھی کہ وہ ”‏ایک دوسرے کی مہمان‌نوازی کریں۔‏“‏ (‏1-‏پطرس 4:‏9‏)‏ یونانی زبان کے جس لفظ کا ترجمہ ”‏مہمان‌نوازی“‏ کِیا گیا ہے،‏ اُس کا لفظی مطلب ”‏اجنبیوں کے لیے محبت اور مہربانی“‏ ظاہر کرنا ہے۔‏ لیکن اِس آیت میں پطرس رسول بہن بھائیوں کو ایک دوسرے کی مہمان‌نوازی کرنے کی نصیحت کر رہے تھے حالانکہ وہ تو پہلے سے ایک دوسرے سے واقف تھے اور مل کر مختلف کام کرتے تھے۔‏ ایک دوسرے کی مہمان‌نوازی کرنے سے اُنہیں کیا فائدہ ہو سکتا تھا؟‏

3 ایسا کرنے سے وہ ایک دوسرے کے قریب آ سکتے تھے۔‏ کیا آپ کو کوئی ایسا وقت یاد ہے جب کسی بہن بھائی نے آپ کو اپنے گھر بلایا اور اُن کے ساتھ آپ کا بہت خوش‌گوار وقت گزرا؟‏ یا شاید جب آپ نے کسی کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی تو اُن کے ساتھ آپ کی دوستی مضبوط ہوئی۔‏ دراصل اپنے بہن بھائیوں کو جاننے کا ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ ہم اُن کی مہمان‌نوازی کریں۔‏ پطرس رسول کے زمانے میں جوں‌جوں حالات خراب ہو رہے تھے،‏ اُس دَور میں رہنے والے مسیحیوں کو ایک دوسرے کے اَور قریب آنے کی ضرورت تھی۔‏ اِس ”‏آخری زمانے“‏ میں ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔‏—‏2-‏تیمُتھیُس 3:‏1‏۔‏

4.‏ اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

4 ہم کن طریقوں سے ایک دوسرے کی مہمان‌نوازی کر سکتے ہیں؟‏ کون سی باتیں دوسروں کی مہمان‌نوازی کرنے کی راہ میں رُکاوٹ بن سکتی ہیں اور ہم اِن رُکاوٹوں کو کیسے دُور کر سکتے ہیں؟‏ ہم اچھے مہمان کیسے ثابت ہو سکتے ہیں؟‏

مہمان‌نوازی کرنے کے طریقے

5.‏ ہم اِجلاسوں پر دوسروں کی مہمان‌نوازی کیسے کر سکتے ہیں؟‏

5 اِجلاسوں پر:‏ ہم اُن سب لوگوں سے اچھی طرح ملتے ہیں جو ہمارے اِجلاسوں میں آتے ہیں۔‏ (‏رومیوں 15:‏7‏،‏ فٹ‌نوٹ)‏ جو بھی شخص اِجلاسوں میں آتا ہے،‏ وہ یہوواہ خدا اور اُس کی تنظیم کا مہمان ہوتا ہے۔‏ لیکن جب کوئی شخص پہلی بار ہمارے اِجلاسوں میں آتا ہے تو ایک لحاظ سے وہ ہمارا بھی مہمان ہوتا ہے۔‏ لہٰذا ہمیں خاص طور پر اُس کا خیرمقدم کرنا چاہیے،‏ پھر چاہے اُس کا پہناوا وغیرہ جیسا بھی ہو۔‏ (‏یعقوب 2:‏1-‏4‏)‏ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص اکیلا ہی اِجلاس میں آیا ہے تو آپ اُسے اپنے ساتھ بیٹھنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔‏ اگر آپ اِجلاس میں پیش کی جانے والی معلومات کو سمجھنے یا وہاں پڑھے جانے والے صحیفوں کو ڈھونڈنے میں اُس کی مدد کریں گے تو وہ آپ کا شکرگزار ہوگا۔‏ یہ دوسروں کی مہمان‌نوازی کرنے کا ایک بہت اچھا طریقہ ہے۔‏—‏رومیوں 12:‏13‏۔‏

6.‏ ہمیں خاص طور پر کن کی مہمان‌نوازی کرنی چاہیے؟‏

6 چائے شائے یا کھانے پر بلا کر:‏ قدیم زمانے میں لوگ اکثر دوسروں کی مہمان‌نوازی کرنے کے لیے اُنہیں اپنے گھر کھانے پر بلاتے تھے۔‏ ایسا کرنے سے وہ ظاہر کرتے تھے کہ وہ اُن سے دوستی کرنا چاہتے ہیں اور اُن کے ساتھ امن اور صلح سے رہنا چاہتے ہیں۔‏ (‏پیدایش 18:‏1-‏8؛‏ قضاۃ 13:‏15؛‏ لُوقا 24:‏28-‏30‏)‏ ہمیں خاص طور پر کن کی مہمان‌نوازی کرنی چاہیے؟‏ ہمیں خاص طور پر کلیسیا کے بہن بھائیوں کی مہمان‌نوازی کرنی چاہیے۔‏ جیسے جیسے حالات بگڑ رہے ہیں،‏ آنے والے وقت میں ہمیں اپنے بہن بھائیوں کے سہارے کی اور اُنہیں ہمارے سہارے کی اَور زیادہ ضرورت ہوگی۔‏ 2011ء میں گورننگ باڈی نے ریاستہائےمتحدہ امریکہ کے بیت‌ایل میں ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ کے مطالعے کا وقت شام 45:‏6 سے بدل کر 15:‏6 کر دیا۔‏ اِس کی کیا وجہ تھی؟‏ اِس سلسلے میں جو اِعلان کِیا گیا،‏ اُس میں بتایا گیا کہ اگر ‏”‏مینارِنگہبانی“‏ کا مطالعہ جلدی ختم ہوگا تو بہن بھائی آسانی سے ایک دوسرے کی مہمان‌نوازی کر سکیں گے اور دوسروں کی دعوت کو قبول کر سکیں گے۔‏ دوسری برانچوں میں بھی ایسا ہی کِیا گیا۔‏ اِس طرح بیت‌ایل کے بہن بھائیوں کو ایک دوسرے کو اَور قریب سے جاننے کا موقع ملا۔‏

7،‏ 8.‏ ہم مہمان مقرروں کی مہمان‌نوازی کیسے کر سکتے ہیں؟‏

7 کبھی کبھار دوسری کلیسیاؤں سے بھائی،‏ حلقے کے نگہبان یا بیت‌ایل کے نمائندے ہماری کلیسیا میں تقریر کرنے آتے ہیں۔‏ کیا آپ اِن بھائیوں کی مہمان‌نوازی کر سکتے ہیں؟‏ ‏(‏3-‏یوحنا 5-‏8 کو پڑھیں۔‏)‏ اِس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ اُنہیں چائے یا کھانے پر اپنے گھر بلائیں۔‏

8 امریکہ میں رہنے والی ایک بہن نے کہا:‏ ”‏سالوں کے دوران مجھے اور میرے شوہر کو بہت سے مہمان مقرروں اور اُن کی بیویوں کی مہمان‌نوازی کرنے کا موقع ملا۔‏ ہم نے جب بھی ایسے بھائیوں کو اپنے گھر بلایا،‏ ہمیں بہت مزہ آیا اور سب سے بڑھ کر ہمارا ایمان مضبوط ہوا۔‏ ہمیں بہت خوشی ہے کہ ہم نے ایسے موقعوں کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔‏“‏

9،‏ 10.‏ ‏(‏الف)‏ ہم کن کو اپنے گھر میں کچھ عرصے کے لیے ٹھہرا سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ کیا وہ بہن بھائی بھی دوسروں کو اپنے گھر ٹھہرا سکتے ہیں جن کے گھر چھوٹے ہیں؟‏ ایک مثال دیں۔‏

9 دوسروں کو اپنے گھر ٹھہرا کر:‏ قدیم زمانے میں مسافروں کو اپنے گھر ٹھہرانا عام بات تھی۔‏ (‏ایوب 31:‏32؛‏ فلیمون 22‏)‏ ہمیں بھی ایسا کرنے کے موقعے ملتے ہیں۔‏ جب حلقے کے نگہبان کلیسیاؤں کا دورہ کرتے ہیں تو اکثر اُنہیں ٹھہرنے کے لیے جگہ کی ضرورت پڑتی ہے۔‏ اِس کے علاوہ جو بہن بھائی تنظیم کی طرف سے منعقد ہونے والے سکولوں میں جاتے ہیں یا تعمیراتی منصوبوں پر کام کرتے ہیں،‏ اُنہیں بھی کچھ عرصے کے لیے رہائش کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ بعض بہن بھائی کسی قدرتی آفت کی وجہ سے بےگھر ہو جاتے ہیں۔‏ جب تک اُن کے گھر دوبارہ تعمیر نہیں ہو جاتے،‏ اُنہیں بھی رہنے کا کوئی ٹھکانا چاہیے ہوتا ہے۔‏ ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ جن بہن بھائیوں کے گھر بڑے ہیں،‏ صرف وہی اِس سلسلے میں دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں۔‏ وہ تو شاید پہلے بھی بہت بار ایسا کر چُکے ہیں۔‏ کیا آپ دوسروں کو اپنے گھر ٹھہرا سکتے ہیں،‏ پھر چاہے آپ کا گھر چھوٹا ہی کیوں نہ ہو؟‏

10 جنوبی کوریا میں رہنے والا ایک بھائی اُن موقعوں کو یاد کرتا ہے جب تنظیم کے سکولوں سے تربیت پانے والے کچھ بہن بھائی اُس کے گھر پر رُکتے تھے۔‏ اُس نے لکھا:‏ ”‏شروع میں تو مجھے ذرا ہچکچاہٹ ہوئی کیونکہ میرا گھر چھوٹا تھا اور میری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔‏ لیکن جب ہم اُن بہن بھائیوں کو اپنے گھر میں ٹھہراتے تھے تو ہمیں بےحد خوشی ملتی تھی۔‏ ہم نے دیکھا کہ جب شادی‌شُدہ جوڑے مل کر یہوواہ خدا کی خدمت کرتے ہیں تو یہ اُن کے لیے بڑی خوشی کا باعث بن سکتا ہے۔‏“‏

11.‏ ہمیں اُن بہن بھائیوں کی مہمان‌نوازی کیوں کرنی چاہیے جو دوسری کلیسیاؤں سے ہماری کلیسیا میں منتقل ہوتے ہیں؟‏

11 دوسری کلیسیاؤں سے منتقل ہونے والے بہن بھائیوں کا خیال رکھ کر:‏ شاید کچھ بہن بھائی یا خاندان دوسری کلیسیاؤں سے آپ کے علاقے میں منتقل ہو جائیں۔‏ وہ شاید اِس لیے منتقل ہوئے ہوں کیونکہ آپ کی کلیسیا کو مدد کی ضرورت ہے۔‏ ہو سکتا ہے کہ وہ پہل‌کار ہوں جنہیں آپ کی کلیسیا میں بھیجا گیا ہو۔‏ ایسے بہن بھائیوں کو نئی کلیسیا اور نئے علاقے کا عادی بننا پڑتا ہے۔‏ یہ بھی ممکن ہے کہ اُنہیں ایک نئی زبان یا نئی ثقافت سیکھنی پڑے۔‏ کیا آپ اُنہیں چائے یا کھانے پر بلا سکتے ہیں یا اُنہیں اپنے ساتھ کہیں سیروتفریح کے لیے لے جا سکتے ہیں؟‏ اگر آپ ایسا کریں گے تو اُنہیں نئے دوست بنانے اور نئے ماحول کے مطابق ڈھلنے میں مدد ملے گی۔‏

12.‏ کون سے واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہمان‌نوازی کرنے کے لیے بہت زیادہ چیزیں تیار کرنا ضروری نہیں؟‏

12 مہمان‌نوازی کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ بہت زیادہ چیزیں تیار کریں۔‏ ‏(‏لُوقا 10:‏41،‏ 42 کو پڑھیں۔‏)‏ ایک بھائی نے بتایا کہ جب اُس نے اور اُس کی بیوی نے مشنری کے طور پر خدمت شروع کی تو اُن کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا۔‏ اُس نے بتایا:‏ ”‏ہم جوان اور ناتجربہ‌کار تھے اور ہمیں گھر والوں کی یاد بہت ستاتی تھی۔‏ ایک شام میری بیوی گھر والوں سے بہت زیادہ اُداس تھی اور مَیں کسی بھی طرح اُس کا دل نہیں بہلا پا رہا تھا۔‏ پھر شام ساڑھے سات بجے کے قریب ہمارا دروازہ بجا۔‏ بائبل کورس کرنے والی ایک عورت ہمارے لیے تین مالٹے لائی تھی۔‏ وہ ہمارا خیرمقدم کرنے کے لیے آئی تھی۔‏ ہم نے اُسے اندر بلایا اور پانی پلایا۔‏ پھر ہم نے چائے بنائی۔‏ اُس وقت ہمیں سواحلی زبان نہیں آتی تھی اور اُس عورت کو انگریزی نہیں آتی تھی۔‏ اِس تجربے سے ہمیں یہ ترغیب ملی کہ ہم مقامی بہن بھائیوں کے ساتھ دوستی کریں اور ایسا کرنے سے ہمیں بہت خوشی ملی۔‏“‏

مہمان‌نواز بننے کی راہ میں رُکاوٹیں

13.‏ مہمان‌نواز ہونے کے کون سے فائدے ہیں؟‏

13 کیا کبھی ایسا ہوا کہ آپ کو کسی کی مہمان‌نوازی کرنے کا موقع ملا اور آپ نے ایسا نہیں کِیا؟‏ اگر ایسا ہوا ہے تو آپ نے ایک ایسا موقع گنوا دیا جس میں آپ دوسروں کے ساتھ خوش‌گوار وقت گزار سکتے تھے اور پکے دوست بنا سکتے تھے۔‏ دوسروں کی مہمان‌نوازی کرنا تنہائی سے چھٹکارا پانے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔‏ پھر بھی ایسی کون سی وجوہات ہو سکتی ہیں جن کی بِنا پر شاید ایک شخص دوسروں کی مہمان‌نوازی نہ کرے؟‏

14.‏ اگر ہمارے پاس دوسروں کی مہمان‌نوازی کرنے یا اُن کی دعوت قبول کرنے کے لیے وقت اور توانائی نہیں ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏

14 اگر آپ کے پاس وقت اور توانائی کم ہے:‏ یہوواہ کے بندوں کو بہت سی ذمےداریاں نبھانی ہوتی ہیں اور اِس وجہ سے وہ بہت مصروف ہوتے ہیں۔‏ شاید بعض کو لگے کہ اُن کے پاس دوسروں کی مہمان‌نوازی کرنے کے لیے نہ تو وقت ہے اور نہ ہی توانائی۔‏ اگر آپ بھی ایسا ہی محسوس کرتے ہیں تو کیوں نہ اپنے معمول میں کچھ ردوبدل کریں تاکہ آپ دوسروں کی مہمان‌نوازی کر سکیں اور جب دوسرے آپ کی مہمان‌نوازی کرنا چاہیں تو آپ اُن کی دعوت کو قبول کر سکیں۔‏ ایسا کرنا ضروری ہے کیونکہ بائبل میں ہمیں نصیحت کی گئی ہے کہ ہم مہمان‌نواز بنیں۔‏ (‏عبرانیوں 13:‏2‏)‏ لیکن اِس نصیحت پر عمل کرنے کے لیے آپ کو یہ کوشش کرنی ہوگی کہ آپ ایسے کاموں میں کم سے کم وقت صرف کریں جو زیادہ اہم نہیں ہیں۔‏

15.‏ بعض لوگوں کو یہ کیوں لگ سکتا ہے کہ وہ دوسروں کی مہمان‌نوازی کرنے کے لائق نہیں ہیں؟‏

15 اگر آپ خود کو دوسروں کی مہمان‌نوازی کرنے کے لائق نہیں سمجھتے:‏ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ نے کسی کی مہمان‌نوازی کرنے کا سوچا لیکن پھر آپ کو لگا کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے؟‏ شاید آپ شرمیلے ہیں یا آپ کو یہ خدشہ ہے کہ آپ کے مہمان بور ہو جائیں گے۔‏ یا شاید آپ کے پاس بہت زیادہ پیسے نہیں ہیں اور آپ کو لگتا ہے کہ آپ اُس طرح سے اپنے مہمانوں کی خاطرتواضع نہیں کر سکیں گے جیسے دوسرے بہن بھائی کر سکتے ہیں۔‏ لیکن یاد رکھیں کہ دوسروں کی مہمان‌نوازی کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ کا گھر بہت عالیشان ہو۔‏ دراصل آپ کے مہمانوں کو خوشی اِس بات سے ملے گی کہ آپ ایک ملنسار میزبان ہیں اور آپ کا گھر صاف ستھرا ہے۔‏

16،‏ 17.‏ اگر آپ اِس حوالے سے فکرمند ہیں کہ آپ دوسروں کی اچھی طرح مہمان‌نوازی نہیں کر سکتے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏

16 اگر آپ اِس حوالے سے فکرمند ہیں کہ آپ دوسروں کی اچھی طرح مہمان‌نوازی نہیں کر سکتے تو آپ اکیلے نہیں ہیں۔‏ برطانیہ میں رہنے والے ایک بزرگ نے کہا:‏ ”‏جب ہم مہمانوں کو بلاتے ہیں تو شاید ہم تھوڑے بہت فکرمند ہوں۔‏ لیکن جس طرح خدا کے دیگر حکموں پر عمل کرنے سے ہمیں خوشی ملتی ہے اُسی طرح اِس حکم پر عمل کرنے سے بھی ہمیں اِتنے فائدے اور خوشی ملتی ہے کہ ہم اُس ساری گھبراہٹ کو بھول جاتے ہیں جو ہم مہمانوں کے آنے سے پہلے محسوس کرتے ہیں۔‏ مَیں نے دیکھا ہے کہ مہمانوں کے ساتھ بیٹھ کر بس کافی پینے اور گپ‌شپ لگانے میں بھی بڑا لطف آتا ہے۔‏“‏ جب آپ دوسروں کو اپنے گھر بلاتے ہیں تو یہ اچھا ہوگا کہ آپ اُن کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں۔‏ (‏فِلپّیوں 2:‏4‏)‏ زیادہ‌تر لوگوں کو اپنی زندگی میں پیش آنے والے تجربات کے بارے میں بات کرنا اچھا لگتا ہے۔‏ اور اُن کے تجربات سننے کا ایک اچھا موقع تب ہوتا ہے جب ہم اُن کو اپنے گھر بلاتے ہیں۔‏ ایک اَور بزرگ نے لکھا:‏ ”‏کلیسیا کے بہن بھائیوں کو گھر بلانے سے مجھے اُن کو اَور اچھی طرح جاننے میں مدد ملتی ہے۔‏ مجھے اُن کے حالات اور پس‌منظر کو بہتر طور پر سمجھنے اور خاص طور پر یہ جاننے کا موقع ملتا ہے کہ وہ سچائی میں کیسے آئے۔‏“‏ اگر آپ اِن طریقوں سے اپنے مہمانوں میں دلچسپی ظاہر کریں گے تو یقیناً سب لوگ اِس موقعے سے لطف اُٹھائیں گے۔‏

17 ایک پہل‌کار بہن اکثر اُن بہن بھائیوں کو اپنے گھر پر ٹھہراتی تھی جو تنظیم کے مختلف سکولوں سے تربیت پا رہے ہوتے تھے۔‏ اُس نے بتایا:‏ ”‏شروع میں مَیں اِس وجہ سے تھوڑی فکرمند تھی کہ میرا گھر بہت سادہ ہے اور اِس میں رکھا فرنیچر اِستعمال‌شُدہ ہے۔‏ لیکن پھر سکول میں تربیت دینے والے ایک بھائی کی بیوی نے مجھ سے کچھ ایسا کہا کہ میری یہ پریشانی دُور ہو گئی۔‏ اُس نے کہا کہ ”‏جب مَیں اور میرا شوہر مختلف کلیسیاؤں کا دورہ کرتے ہیں تو ہمیں سب سے زیادہ مزہ تب آتا ہے جب ہم روحانی سوچ رکھنے والے بہن بھائیوں کے گھر ٹھہرتے ہیں۔‏ ایسے بہن بھائیوں کے پاس شاید زیادہ پیسے اور چیزیں نہیں ہوتیں لیکن ہماری طرح وہ بھی سادہ زندگی گزارتے ہیں اور اپنا دھیان خدا کی خدمت پر رکھتے ہیں۔‏“‏ اُس بہن کی بات سے مجھے میری امی کے وہ الفاظ یاد آئے جو وہ ہم بہن بھائیوں سے کہا کرتی تھیں کہ ”‏محبت والے گھر میں ذرا سا ساگپات .‏ .‏ .‏ بہتر ہے۔‏“‏“‏ (‏امثال 15:‏17‏)‏ لہٰذا اگر ہم محبت کی بِنا پر دوسروں کی مہمان‌نوازی کرتے ہیں تو پھر ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‏

18،‏ 19.‏ مہمان‌نواز بننے سے ہمیں دوسروں کے بارے میں اپنے منفی احساسات پر قابو پانے میں مدد کیسے مل سکتی ہے؟‏

18 اگر آپ کسی کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہیں:‏ کیا آپ کی کلیسیا میں کوئی ایسی بہن یا بھائی ہے جس کے ساتھ آپ کی نہیں بنتی؟‏ اگر آپ اُس شخص کے حوالے سے اپنی سوچ تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے تو اُس کے ساتھ آپ کا رشتہ کبھی اچھا نہیں ہو پائے گا۔‏ اگر آپ کو کسی شخص کی عادتیں پسند نہیں ہیں تو غالباً آپ اُسے اپنے گھر بھی بلانا نہیں چاہیں گے۔‏ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ماضی میں کلیسیا کے کسی رُکن نے آپ کو ٹھیس پہنچائی تھی اور آپ اب تک اُس واقعے کو بھول نہیں پائے ہیں۔‏

19 بائبل میں بتایا گیا ہے کہ اگر ہم مہمان‌نواز بنیں گے تو دوسروں،‏ یہاں تک کہ ہمارے دُشمنوں کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے۔‏ ‏(‏امثال 25:‏21،‏ 22 کو پڑھیں۔‏)‏ اگر ہم کسی ایسے شخص کو اپنے گھر بلاتے ہیں جس کے ساتھ ہماری نہیں بنتی تو ہمیں اُس کے بارے میں اپنے منفی احساسات پر قابو پانے اور اُس کے ساتھ صلح صفائی سے رہنے میں مدد مل سکتی ہے۔‏ شاید آپ کو اُس میں وہی خوبیاں نظر آنے لگیں جنہیں دیکھ کر یہوواہ نے اُس شخص کو سچائی کی طرف کھینچا تھا۔‏ (‏یوحنا 6:‏44‏)‏ جب ہم ایسے شخص کو محبت کی بِنا پر اپنے گھر بلاتے ہیں تو یہ ایک اچھی دوستی کی شروعات ہو سکتی ہے۔‏ لیکن ہم ایسے شخص کے لیے محبت کیسے بڑھا سکتے ہیں؟‏ اِس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم فِلپّیوں 2:‏3 میں درج نصیحت پر عمل کریں۔‏ اِس میں لکھا ہے:‏ ”‏خاکسار ہوں اور دوسروں کو اپنے سے بڑا سمجھیں۔‏“‏ ہمیں ایسی باتوں پر غور کرنا چاہیے جن میں ہمارے بہن بھائی ہم سے بہتر ہیں۔‏ شاید ہم مضبوط ایمان،‏ ثابت‌قدمی یا کسی اَور خوبی کے حوالے سے اُن سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‏ اُن کی خوبیوں پر غور کرنے سے اُن کے لیے ہماری محبت بڑھے گی اور ہمارے دل میں اُن کی مہمان‌نوازی کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔‏

اچھے مہمان ثابت ہوں

میزبان اپنے مہمانوں کی خاطرتواضع کرنے کے لیے اکثر خوب محنت کرتے ہیں۔‏ (‏پیراگراف 20 کو دیکھیں۔‏)‏

20.‏ ‏(‏الف)‏ اگر ہم کسی کے گھر جانے کی حامی بھرتے ہیں تو ہمیں اپنی بات پر قائم کیوں رہنا چاہیے؟‏ (‏ب)‏ ہم اپنے میزبان کے لیے محبت اور احترام کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

20 زبورنویس داؤد نے خدا سے پوچھا:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏ تیرے خیمہ میں کون رہے گا؟‏“‏ (‏زبور 15:‏1‏)‏ اِس کے بعد داؤد نے ایسی خوبیوں کا ذکر کِیا جو خدا چاہتا ہے کہ اُس کے خیمے میں مہمانوں کے طور پر رہنے والوں میں ہوں۔‏ اِن میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ ہم اپنی بات کے پکے رہیں کیونکہ خدا کے خیمے میں وہی شخص رہ سکے گا ”‏جو قسم کھا کر بدلتا نہیں خواہ نقصان ہی اُٹھائے۔‏“‏ (‏زبور 15:‏4‏)‏ اگر ہم نے کسی کے گھر جانے کی حامی بھری ہے تو ہمیں کسی معمولی سی وجہ کی بِنا پر وہاں جانے سے اِنکار نہیں کرنا چاہیے۔‏ شاید میزبان ہمارے لیے ساری تیاری کر چُکا ہے اور اگر ہم دعوت میں نہیں جائیں گے تو اُس کی محنت ضائع ہو جائے گی۔‏ (‏متی 5:‏37‏)‏ بعض لوگوں کو جب کوئی دعوت پر بلاتا ہے تو وہ پہلے تو اِسے قبول کر لیتے ہیں مگر پھر جب اُنہیں کسی اَور جگہ سے بھی دعوت ملتی ہے جسے وہ زیادہ بہتر سمجھتے ہیں تو وہ پہلی دعوت میں جانے سے منع کر دیتے ہیں۔‏ لیکن کیا وہ اِس سے میزبان کے لیے محبت اور احترام ظاہر کرتے ہیں؟‏ ہمارا میزبان ہمیں جو کچھ بھی پیش کرتا ہے،‏ ہمیں اُس کے لیے اُس کا شکرگزار ہونا چاہیے۔‏ (‏لُوقا 10:‏7‏)‏ اگر آپ کسی مجبوری کی وجہ سے دعوت پر نہیں جا سکتے تو جلد از جلد میزبان کو بتا دیں۔‏ ایسا کرنے سے آپ اُس کے لیے محبت اور احترام ظاہر کریں گے۔‏

21.‏ اچھے مہمان بننے کے لیے مقامی ثقافت کا احترام کرنا کیوں ضروری ہے؟‏

21 مہمان‌نوازی کے سلسلے میں اپنے علاقے کی ثقافت کا احترام کرنا بھی ضروری ہے۔‏ بعض ملکوں میں اگر آپ بغیر بتائے ہی کسی کے ہاں چلے جاتے ہیں تو لوگ بُرا نہیں مناتے۔‏ لیکن کچھ ملکوں میں کسی کے گھر جانے سے پہلے اُنہیں اِطلاع دینا مناسب سمجھا جاتا ہے۔‏ بعض جگہوں پر مہمانوں کو کھانے کا بہترین حصہ پیش کِیا جاتا ہے جبکہ بعض ملکوں میں مہمان اور میزبان ایک جیسا کھانا کھاتے ہیں۔‏ کچھ ثقافتوں میں جب مہمان کسی کے ہاں جاتے ہیں تو وہ خالی ہاتھ نہیں جاتے۔‏ لیکن بعض ثقافتوں میں میزبان یہ توقع نہیں کرتے کہ مہمان اُن کے گھر کچھ لے کر آئے۔‏ کچھ ملکوں میں جب کوئی شخص کسی کو اپنے ہاں بلاتا ہے تو وہ پہلی یا دوسری دفعہ بڑی نرمی سے منع کرتا ہے۔‏ لیکن کچھ ملکوں میں اِس بات کو اچھا نہیں سمجھا جاتا کہ وہ شخص پہلی دفعہ ہی اِنکار کر دے۔‏ مہمانوں کے طور پر ہمیں اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہمارے میزبان کو اِس بات سے خوشی ملے کہ اُس نے ہمیں اپنے گھر بلایا ہے۔‏

22.‏ ‏”‏ایک دوسرے کی مہمان‌نوازی“‏ کرنا اِتنا اہم کیوں ہے؟‏

22 پطرس رسول نے لکھا:‏ ”‏سب چیزوں کا خاتمہ نزدیک ہے۔‏“‏ (‏1-‏پطرس 4:‏7‏)‏ بہت جلد ہم ایک ایسی بڑی مصیبت کا سامنا کرنے والے ہیں جو پہلے کبھی نہیں آئی۔‏ جیسے جیسے اِس دُنیا کے حالات بگڑتے جائیں گے،‏ ہمیں اپنے بہن بھائیوں کے لیے اپنی محبت کو اَور زیادہ گہرا کرنے کی ضرورت ہوگی۔‏ ہمیں پطرس رسول کی اِس نصیحت پر پہلے سے بھی زیادہ عمل کرنا چاہیے کہ ”‏ایک دوسرے کی مہمان‌نوازی کریں۔‏“‏ (‏1-‏پطرس 4:‏9‏)‏ بِلاشُبہ دوسروں کی مہمان‌نوازی کرنا بہت اہم ہے۔‏ ایسا کرنے سے ہمیں نہ صرف اب بلکہ ہمیشہ تک خوشی اور فائدہ حاصل ہوگا۔‏