مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏ہر دن ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی کرتے رہیں“‏

‏”‏ہر دن ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی کرتے رہیں“‏

‏”‏اگر آپ کوئی ایسی بات بتانا چاہتے ہیں جس سے لوگوں کی حوصلہ‌افزائی ہو تو ضرور بتائیں۔‏“‏‏—‏اعما 13:‏15‏۔‏

گیت:‏ 53،‏  45

1،‏ 2.‏ دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنا اہم کیوں ہے؟‏

‏”‏مَیں اپنے والدین کے مُنہ سے داد سننے کے لیے ترس گئی ہوں۔‏ وہ ہر وقت مجھ میں نقص نکا‌لتے رہتے ہیں۔‏ وہ کہتے ہیں کہ مَیں موٹی ہوں،‏ بےوقوف ہوں اور مجھے کبھی عقل نہیں آئے گی۔‏ اُن کی باتوں سے میرے دل کو چوٹ لگتی ہے اور مجھے اکثر رونا آتا ہے۔‏ میرا دل چاہتا ہے کہ اُن سے بات ہی نہ کروں۔‏ مجھے لگتا ہے کہ میری کوئی قدر نہیں۔‏“‏ یہ بات کرِسٹین ‏[‏1]‏  نے کہی جو 18 سال کی ہیں۔‏ اُن کی بات سے پتہ چلتا ہے کہ داد اور حوصلہ‌افزائی کے بغیر زندگی بڑی سُونی ہوتی ہے۔‏

2 لیکن کسی کی حوصلہ‌افزائی کرنے سے اُس کی زندگی میں بڑا فرق پڑ سکتا ہے۔‏ رُوبن کہتے ہیں کہ ”‏مَیں بڑے عرصے سے احساسِ‌کمتری کا شکا‌ر رہا ہوں۔‏ مگر ایک بار جب مَیں ایک بزرگ کے ساتھ مُنادی کر رہا تھا تو اُس نے محسوس کِیا کہ مَیں بےحوصلہ ہوں۔‏ اُس کے پوچھنے پر مَیں نے اپنے دل کی بھڑاس نکا‌لی۔‏ اُس نے میری باتیں بڑے غور سے سنیں۔‏ پھر اُس نے مجھے بتایا کہ مَیں جو کچھ کر رہا ہوں،‏ اِس سے دوسروں کو بڑا فائدہ پہنچ رہا ہے۔‏ اُس نے مجھے یاد دِلایا کہ یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ہم بہت سی چڑیوں سے زیادہ اہم ہیں۔‏ مَیں اکثر اِس صحیفے کے بارے میں سوچتا ہوں اور یہ اب بھی میرے دل کو چُھوتا ہے۔‏ اُس بزرگ کی باتوں سے مجھے بڑا حوصلہ ملا۔‏“‏—‏متی 10:‏31‏۔‏

3.‏ ‏(‏الف)‏ پولُس رسول نے حوصلہ‌افزائی کرنے کے سلسلے میں کیا کہا؟‏ (‏ب)‏ ہم اِس مضمون میں کن سوالوں پر غور کریں گے؟‏

3 بائبل میں مسیحیوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ باقاعدگی سے ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی کریں۔‏ پولُس رسول نے لکھا:‏ ”‏بھائیو،‏ خبردار رہیں کہ آپ زندہ خدا سے مُنہ نہ پھیر لیں اور اِس کی وجہ سے آپ کے دل بُرے نہ ہو جائیں اور آپ میں ایمان نہ رہے۔‏ اِس کی بجائے .‏ .‏ .‏ ہر دن ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی کرتے رہیں تاکہ آپ میں سے کسی کا دل گُناہ کی دھوکاباز کشش سے سخت نہ ہو جائے۔‏“‏ (‏عبر 3:‏12،‏ 13‏)‏ شاید آپ کو کوئی ایسا موقع یاد ہو جب کسی نے آپ کی حوصلہ‌افزائی کی تھی اور آپ ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگے۔‏ اِس لیے آئیں،‏ اِن سوالوں پر غور کریں:‏ ہمیں ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی کیوں کرنی چاہیے؟‏ ہم یہوواہ خدا،‏ یسوع مسیح اور پولُس رسول سے حوصلہ‌افزائی کرنے کے متعلق کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏ دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے مؤثر طریقے کیا ہیں؟‏

ہم سب کو حوصلہ‌افزائی کی ضرورت ہے

4.‏ کس کس کو حوصلہ‌افزائی کی ضرورت ہے اور آج‌کل بہت سے لوگ دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کیوں نہیں کرتے؟‏

4 سچ تو یہ ہے کہ ہم سب کو حوصلہ‌افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ خاص طور پر بچے حوصلہ‌افزائی کے لیے ترستے ہیں۔‏ اِس سلسلے میں ماہرِتعلیم ٹیموتھی ایونز نے کہا:‏ ”‏بچوں کو حوصلہ‌افزائی کی اُتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی کہ پودوں کو پانی کی۔‏ جب بچوں کی حوصلہ‌افزائی کی جاتی ہے تو اُنہیں احساس ہوتا ہے کہ اُن کی قدر کی جاتی ہے۔‏“‏ افسوس کی بات ہے کہ اِس آخری زمانے میں بہت سے رشتے محبت سے خالی ہیں۔‏ لوگ خودغرض ہیں اور اِس وجہ سے دوسروں کی حوصلہ‌افزائی نہیں کرتے۔‏ (‏2-‏تیم 3:‏1-‏5‏)‏ کچھ والدین اپنے بچوں کو داد نہیں دیتے کیونکہ اُن کے اپنے والدین نے اُن کو کبھی داد نہیں دی تھی۔‏ بالغوں کو بھی حوصلہ‌افزائی کی ضرورت ہے لیکن بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ملا‌زمت پر اُن کی محنت کی قدر نہیں کی جاتی اور اُنہیں داد نہیں دی جاتی۔‏

5.‏ دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

5 دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏ اِس میں کسی کو داد دینا شامل ہے،‏ مثلاً جب اُس نے کوئی کام اچھے طریقے سے کِیا ہو۔‏ ہم دوسروں کی خوبیوں کو بھی سراہ سکتے ہیں۔‏ اِس کے علا‌وہ ہم ”‏بےحوصلہ لوگوں کو تسلی“‏ دینے سے بھی اُن کا حوصلہ بڑھا سکتے ہیں۔‏ (‏1-‏تھس 5:‏14‏)‏ بہن بھائیوں کے ساتھ خدمت کرتے وقت ہمیں اُن کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے بہت سے موقعے ملتے ہیں۔‏ ‏(‏واعظ 4:‏9،‏ 10 کو پڑھیں۔‏)‏ خود سے پوچھیں:‏ ”‏کیا مَیں ہر مناسب موقعے پر دوسروں کو داد دیتا ہوں؟‏ کیا مَیں اُن کو بتاتا ہوں کہ مَیں اُن کی قدر کیوں کرتا ہوں؟‏“‏ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏باموقع بات کیا خوب ہے!‏“‏—‏امثا 15:‏23‏۔‏

6.‏ شیطان ہمیں بےحوصلہ کیوں کرنا چاہتا ہے؟‏ اِس سلسلے میں ایک مثال بتائیں۔‏

6 امثال 24:‏10 میں لکھا ہے:‏ ”‏اگر تُو مصیبت کے دن بےدل ہو جائے تو تیری طاقت بہت کم ہے۔‏“‏ بےحوصلہ لوگ خدا سے دُور ہونے کے خطرے میں ہوتے ہیں۔‏ شیطان یہ بات اچھی طرح جانتا ہے اور اِس لیے وہ ہمیں بےحوصلہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔‏ اُس نے ایوب پر آفتوں اور جھوٹے اِلزامات کی بوچھاڑ کی تاکہ اُن کا حوصلہ پست ہو جائے۔‏ لیکن ایوب خدا کے وفادار رہے اور یوں شیطان کی سازش بُری طرح ناکام ہو گئی۔‏ (‏ایو 2:‏3؛‏ 22:‏3؛‏ 27:‏5‏)‏ اگر ہم اپنے گھر والوں اور مسیحی بہن بھائیوں کی حوصلہ‌افزائی کریں گے تو ہم بھی شیطان کی سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔‏ یوں ہمارا گھر اور ہماری عبادت‌گاہیں امن اور اِطمینان کا گہوارہ بن جائیں گی۔‏

حوصلہ‌افزائی کرنے والوں کی مثال پر عمل کریں

7،‏ 8.‏ ‏(‏الف)‏ یہوواہ خدا نے دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کیسے کی؟‏ (‏ب)‏ والدین یہوواہ خدا کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

7 یہوواہ خدا کی مثال۔‏ زبورنویس نے کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ شکستہ دلوں کے نزدیک ہے اور خستہ جانوں کو بچاتا ہے۔‏“‏ (‏زبور 34:‏18‏)‏ جب یرمیاہ نبی کا حوصلہ جواب دے گیا تو یہوواہ خدا نے اُنہیں حوصلہ دِلایا۔‏ (‏یرم 1:‏6-‏10‏)‏ جب دانی‌ایل نبی بہت ہی ضعیف تھے اور اُنہیں لگا کہ اُن میں طاقت نہیں رہی تو خدا نے ایک فرشتے کو بھیجا تاکہ وہ اُن کو قوت دے۔‏ اِس فرشتے نے اُنہیں ”‏عزیز مرد“‏ کہہ کر مخاطب کِیا۔‏ ذرا سوچیں کہ جب دانی‌ایل نبی نے سنا کہ وہ خدا کی نظر میں عزیز ہیں تو اُن پر کتنا اچھا اثر پڑا ہوگا۔‏ (‏دان 10:‏8،‏ 11،‏ 18،‏ 19‏)‏ کیا آپ بھی اُن مبشروں،‏ پہل‌کاروں اور عمررسیدہ بہن بھائیوں کی حوصلہ‌افزائی کرتے ہیں جو جسمانی طور پر کمزور پڑ گئے ہیں؟‏

8 یہوواہ خدا اور یسوع مسیح نے اَن‌گنت سال ایک دوسرے کے ساتھ گزارے۔‏ لیکن یہوواہ خدا نے یہ نہیں سوچا کہ ”‏میرے بیٹے کو تو پتہ ہے کہ مَیں اُس سے کتنا پیار کرتا ہوں۔‏ مجھے اُس کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔‏“‏ اِس کی بجائے خدا نے بار بار اپنے بیٹے کو داد دی۔‏ مثال کے طور پر یسوع نے زمین پر اپنے دورِخدمت کے شروع میں اور آخر میں بھی اپنے آسمانی باپ کو یہ کہتے سنا کہ ”‏یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں۔‏“‏ (‏متی 3:‏17؛‏ 17:‏5‏)‏ یوں یہوواہ خدا نے ظاہر کِیا کہ اُسے اپنے بیٹے سے بہت پیار ہے اور وہ اُس سے خوش بھی ہے۔‏ اِس کے علا‌وہ جب یسوع مسیح اپنی موت سے ایک رات پہلے بہت گھبرائے ہوئے تھے تو یہوواہ نے اُن کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے لیے ایک فرشتہ بھیجا۔‏ (‏لُو 22:‏43‏)‏ والدین،‏ کیا آپ یہوواہ خدا کی مثال پر عمل کر رہے ہیں؟‏ باقاعدگی سے اپنے بچوں کی حوصلہ‌افزائی کریں۔‏ جب آپ کے بچے کوئی کام اچھے طریقے سے کرتے ہیں تو اُنہیں داد دیں۔‏ خاص طور پر اُس وقت اپنے بچوں کی ہمت بڑھائیں جب وہ سکول میں آزمائشوں کا سامنا کر رہے ہوں۔‏

9.‏ یسوع مسیح نے رسولوں کے ساتھ جو رویہ اپنایا،‏ اِس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

9 یسوع مسیح کی مثال۔‏ اپنی موت سے ایک رات پہلے یسوع مسیح نے رسولوں کے پاؤں دھوئے اور اُنہیں خاکساری کی خوبی پیدا کرنے کی ہدایت دی۔‏ لیکن اُن کی ہدایت پر عمل کرنے کی بجائے رسول اِس بات پر بحث کرنے لگے کہ اُن میں سے کس کا درجہ بڑا ہے۔‏ اور پطرس رسول کی باتوں سے ظاہر ہوا کہ اُن کو خود پر کچھ زیادہ ہی اِعتماد تھا۔‏ (‏لُو 22:‏24،‏ 33،‏ 34‏)‏ مگر یسوع مسیح نے رسولوں کی خامیوں پر توجہ نہیں دی۔‏ اِس کی بجائے اُنہوں نے اُن کو داد دی کیونکہ رسولوں نے اُن کا ساتھ دیا تھا۔‏ پھر یسوع مسیح نے پیش‌گوئی کی کہ رسول اُن سے بھی بڑے کام انجام دیں گے اور اُنہیں یقین دِلایا کہ یہوواہ خدا اُن سب سے پیار کرتا ہے۔‏ (‏لُو 22:‏28؛‏ یوح 14:‏12؛‏ 16:‏27‏)‏ خود سے پوچھیں:‏ ”‏کیا مَیں دوسروں اور خاص طور پر اپنے بچوں کی غلطیوں پر حد سے زیادہ دھیان دیتا ہوں؟‏ یا پھر کیا مَیں یسوع مسیح کی طرح اُنہیں اُن کاموں کے لیے داد دیتا ہوں جو وہ اچھی طرح سے کرتے ہیں؟‏“‏

10،‏ 11.‏ پولُس رسول نے کیسے ظاہر کِیا کہ اُن کی نظر میں دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنا بہت اہم ہے؟‏

10 پولُس رسول کی مثال۔‏ اپنے خطوں میں پولُس رسول نے اکثر دوسرے مسیحیوں کی تعریف کی۔‏ وہ اِن مسیحیوں میں سے کچھ کو بہت سالوں سے جانتے تھے اور اِن کے ہم‌سفر بھی رہے تھے۔‏ ظاہری بات ہے کہ پولُس اِن مسیحیوں کی خامیوں اور غلطیوں سے واقف تھے لیکن اُنہوں نے اپنے خطوں میں اِن کی بُرائی نہیں کی بلکہ اِن کے بارے میں اچھی باتیں لکھیں۔‏ مثال کے طور پر اُنہوں نے تیمُتھیُس کے بارے میں لکھا کہ وہ ”‏مالک کے حوالے سے میرے عزیز اور وفادار بیٹے ہیں۔‏“‏ اُنہوں نے یہ بھی لکھا کہ تیمُتھیُس سچے دل سے مسیحیوں کی فکر رکھتے ہیں۔‏ (‏1-‏کُر 4:‏17؛‏ فل 2:‏19،‏ 20‏)‏ پولُس نے طِطُس کے بارے میں لکھا کہ ”‏وہ میرے ساتھی ہیں اور آپ کی خدمت کرنے میں میرے ہم خدمت ہیں۔‏“‏ (‏2-‏کُر 8:‏23‏)‏ ذرا سوچیں کہ جب تیمُتھیُس اور طِطُس نے پولُس کے یہ الفاظ پڑھے تو اُن کی کتنی حوصلہ‌افزائی ہوئی ہوگی۔‏

11 پولُس رسول اور برنباس دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کی خاطر اپنی جان پر کھیلنے کو بھی تیار تھے۔‏ مثال کے طور پر شہر لِسترہ میں اُن کی بہت مخالفت کی گئی اور پولُس کو تو سنگسار بھی کِیا گیا۔‏ لیکن بعد میں وہ اُس شہر کو واپس لوٹے کیونکہ وہ وہاں رہنے والے شاگردوں کی یہ حوصلہ‌افزائی کرنا چاہتے تھے کہ وہ مصیبتوں کے باوجود اپنے ایمان پر قائم رہیں۔‏ (‏اعما 14:‏19-‏22‏)‏ شہر اِفسس میں لوگوں کی بِھیڑ نے پولُس پر دھاوا بول دیا۔‏ کیا وہ اپنی جان بچانے کے لیے فوراً اُس شہر کو چھوڑ کر چلے گئے؟‏ نہیں۔‏ اعمال 20:‏1،‏ 2 میں لکھا ہے:‏ ”‏جب ہنگا‌مہ ختم ہو گیا تو پولُس نے شاگردوں کو بلوایا اور اُن کی حوصلہ‌افزائی کی۔‏ پھر اُنہوں نے اُن کو خدا حافظ کہا اور مقدونیہ کے لیے روانہ ہوئے۔‏ وہاں سے گزرنے اور شاگردوں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے بعد وہ یونان گئے۔‏“‏ اِن واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولُس رسول کی نظر میں دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنا بہت اہم تھا۔‏

ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی کرنے کی اہمیت

12.‏ ہمارے اِجلا‌سوں کا ایک مقصد کیا ہے؟‏

12 بائبل کے مطابق ہمارے اِجلا‌سوں کا ایک مقصد یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی کریں۔‏ ‏(‏عبرانیوں 10:‏24،‏ 25 کو پڑھیں۔‏)‏ یسوع مسیح کے پہلے شاگردوں کی طرح ہم بھی کچھ سیکھنے اور حوصلہ‌افزائی پانے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔‏ (‏1-‏کُر 14:‏31‏)‏ کرِسٹین جن کا پہلے بھی ذکر ہو چُکا ہے،‏ کہتی ہیں:‏ ”‏مجھے اِجلا‌سوں پر جانا بہت اچھا لگتا ہے کیونکہ وہاں میری بڑی حوصلہ‌افزائی ہوتی ہے۔‏ کبھی کبھی میرا دل کسی نہ کسی وجہ سے افسردہ ہوتا ہے۔‏ لیکن جب مَیں کنگڈم ہال میں پہنچتی ہوں تو بہنیں آ کر مجھ سے گلے ملتی ہیں اور مجھے بتاتی ہیں کہ مَیں بہت اچھی لگ رہی ہوں۔‏ وہ مجھ سے کہتی ہیں کہ وہ مجھ سے پیار کرتی ہیں اور مجھے اُن کاموں کے لیے سراہتی ہیں جو مَیں خدا کی خدمت میں کرتی ہوں۔‏ اُن کی باتوں سے میرا دل خوش ہو جاتا ہے۔‏“‏ بےشک ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی کرنے سے ہم سب تازہ‌دم محسوس کرتے ہیں۔‏—‏روم 1:‏11،‏ 12‏۔‏

13.‏ خدا کے تجربہ‌کار بندوں کو بھی حوصلہ‌افزائی کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟‏

13 خدا کے تجربہ‌کار بندوں کو بھی وقتاًفوقتاً حوصلہ‌افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ مثال کے طور پر یشوع بہت سالوں سے یہوواہ خدا کی خدمت کر رہے تھے۔‏ لیکن پھر یہوواہ نے موسیٰ سے کہا:‏ ”‏یشوؔع کو وصیت کر اور اُس کی حوصلہ‌افزائی کر کے اُسے مضبوط کر کیونکہ وہ اِن لوگوں کے آگے پار جائے گا اور وہی اِن کو اُس ملک کا جسے تُو دیکھ لے گا مالک بنائے گا۔‏“‏ (‏اِست 3:‏27،‏ 28‏)‏ یشوع کو حوصلہ‌افزائی کی ضرورت کیوں تھی؟‏ وہ ایک بھاری ذمےداری اُٹھانے والے تھے کیونکہ یہوواہ خدا چاہتا تھا کہ وہ بنی‌اِسرائیل کی پیشوائی کریں اور ملک کنعان پر قبضہ کریں۔‏ اِس ذمےداری کو نبھاتے وقت یشوع کو بہت سی رُکاوٹیں عبور کرنی پڑیں اور ایک بار تو اُنہوں نے دُشمنوں کے ہاتھوں شکست بھی کھائی۔‏ (‏یشو 7:‏1-‏9‏)‏ کلیسیا کے بزرگ اور حلقے کے نگہبان بھی بھاری ذمےداریاں اُٹھاتے ہیں اِس لیے آئیں،‏ اُن کی حوصلہ‌افزائی کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔‏ ‏(‏1-‏تھسلُنیکیوں 5:‏12،‏ 13 کو پڑھیں۔‏)‏ ایک حلقے کے نگہبان نے کہا:‏ ”‏کچھ بہن بھائی ہمیں خط لکھ کر ہمارا شکریہ ادا کرتے ہیں کیونکہ اُنہیں بہت اچھا لگا کہ ہم نے اُن کی کلیسیا کا دورہ کِیا۔‏ ہم اِن خطوں کو سنبھال کر رکھتے ہیں اور جب بھی ہم کسی نہ کسی وجہ سے اُداس ہوتے ہیں تو ہم اِن کو دوبارہ سے پڑھتے ہیں۔‏ اِن سے ہماری بڑی حوصلہ‌افزائی ہوتی ہے۔‏“‏

جب بچوں کی حوصلہ‌افزائی کی جاتی ہے تو وہ خوش رہتے ہیں اور اُن میں اِعتماد پیدا ہوتا ہے۔‏ (‏پیراگراف 14 کو دیکھیں۔‏)‏

14.‏ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ کسی کی اِصلا‌ح کرتے وقت اُسے داد دینا اور اُس کی حوصلہ‌افزائی کرنا فائدہ‌مند ہوتا ہے؟‏

14 مسیحی والدین اور کلیسیا کے بزرگوں نے دیکھا ہے کہ جب کسی شخص کی اِصلا‌ح کی جاتی ہے اور وہ صحیح کام کرنے لگتا ہے تو اُسے داد دینا اور اُس کی حوصلہ‌افزائی کرنا بہت اہم ہوتا ہے تاکہ وہ آئندہ بھی سیدھی راہ پر چلتا رہے۔‏ ایک بار پولُس رسول کو کُرنتھس کی کلیسیا کی اِصلا‌ح کرنی پڑی لیکن جب اُن بہن بھائیوں نے اپنی غلطی درست کر لی تو پولُس نے اُنہیں داد دی۔‏ یقیناً اِس سے اُن بہن بھائیوں کو صحیح کام کرتے رہنے کی ہمت ملی ہوگی۔‏ (‏2-‏کُر 7:‏8-‏11‏)‏ بھائی اندریاس جن کے دو بچے ہیں،‏ کہتے ہیں:‏ ”‏جب بچوں کی حوصلہ‌افزائی کی جاتی ہے تو اُن میں اِعتماد پیدا ہوتا ہے اور وہ خوشی سے خدا کی خدمت کرتے ہیں۔‏ اگر ہم اپنے بچوں کی اِصلا‌ح کرتے وقت اُن کی حوصلہ‌افزائی بھی کریں گے تو ہماری نصیحت اُن کے دل پر نقش ہو جائے گی۔‏ یہ سچ ہے کہ ہمارے بچے جانتے ہیں کہ اچھے کام کیا ہیں لیکن اُن میں اچھے کام کرنے کی عادت تب ہی پڑے گی جب ہم اُن کو اِن کاموں کے لیے داد بھی دیں گے۔‏“‏

حوصلہ‌افزائی کرنے کے مؤثر طریقے

15.‏ دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کا ایک مؤثر طریقہ کیا ہے؟‏

15 دوسروں کو بتائیں کہ آپ اُن کی خوبیوں اور کاموں کی قدر کرتے ہیں۔‏ ‏(‏2-‏توا 16:‏9؛‏ ایو 1:‏8‏)‏ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح ہماری خدمت کی بڑی قدر کرتے ہیں حالانکہ شاید ہم اپنے حالات کی وجہ سے اِتنا کچھ نہ کر پائیں جتنا کہ ہم کرنا چاہتے ہیں۔‏ ‏(‏لُوقا 21:‏1-‏4؛‏ 2-‏کُرنتھیوں 8:‏12 کو پڑھیں۔‏)‏ بہت سے عمررسیدہ بہن بھائی باقاعدگی سے اِجلا‌سوں پر آتے ہیں اور مُنادی میں جاتے ہیں حالانکہ یہ اُن کے لیے آسان نہیں ہوتا۔‏ کیوں نہ اُن کو بتائیں کہ ہم اُن کی کوششوں کی بڑی قدر کرتے ہیں؟‏

16.‏ جب ہمیں دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کا موقع ملتا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏

16 دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے موقعوں کو ہاتھ سے نکلنے نہ دیں۔‏ اگر ایک شخص کوئی قابلِ‌تعریف کام کرتا ہے تو چپ نہ رہیں بلکہ اُس کو داد دیں۔‏ غور کریں کہ پولُس رسول اور برنباس کے ساتھ پِسدیہ کے شہر انطاکیہ میں کیا ہوا۔‏ جب وہ عبادت‌گاہ میں گئے تو عبادت‌گاہ کے پیشواؤں نے اُن سے کہا:‏ ”‏بھائیو،‏ اگر آپ کوئی ایسی بات بتانا چاہتے ہیں جس سے لوگوں کی حوصلہ‌افزائی ہو تو ضرور بتائیں۔‏“‏ اِس پر پولُس رسول نے ایک حوصلہ‌افزا تقریر دی۔‏ (‏اعما 13:‏13-‏16،‏ 42-‏44‏)‏ اگر ہمیں کسی کا حوصلہ بڑھانے کا موقع ملتا ہے تو ہمیں ضرور اِس کا فائدہ اُٹھانا چاہیے۔‏ جب ہم دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کی عادت ڈالتے ہیں تو ہماری بھی حوصلہ‌افزائی کی جائے گی۔‏—‏لُو 6:‏38‏۔‏

17.‏ کسی کو بس شاباشی دینے کی بجائے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‏

17 دوسروں کو بتائیں کہ اُن میں کون کون سی باتیں قابلِ‌تعریف ہیں۔‏ کسی کو بس شاباشی دینے کی بجائے اُسے بتائیں کہ آپ اُس کو کن کاموں کے لیے شاباشی دے رہے ہیں۔‏ یسوع مسیح نے شہر تھواتیرہ کے مسیحیوں کو بتایا کہ اُن کی کون کون سی خوبیاں اور کام قابلِ‌تعریف تھے۔‏ ‏(‏مکا‌شفہ 2:‏18،‏ 19 کو پڑھیں۔‏)‏ ہم یسوع مسیح کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟‏ شاید ہم اپنے بچوں کو اُن کاموں کے لیے شاباشی دے سکتے ہیں جو وہ خدا کی خدمت میں کر رہے ہیں۔‏ یا اگر ہم ایک ایسی بہن کو جانتے ہیں جو اکیلے اپنے بچوں کی پرورش کر رہی ہے تو ہم اُسے بچوں کی تربیت کرنے کے کسی ایسے پہلو کے لیے داد دے سکتے ہیں جس میں وہ اچھی کارکردگی دِکھا رہی ہے۔‏ جب ہم اِس طرح سے دوسروں کی حوصلہ‌افزائی کرتے ہیں تو اُن کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔‏

18،‏ 19.‏ ہم سیدھی راہ پر چلتے رہنے میں ایک دوسرے کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏

18 یہوواہ خدا نے موسیٰ سے کہا تھا کہ وہ یشوع کی حوصلہ‌افزائی کریں لیکن آج وہ ہم سے نہیں کہتا کہ ”‏جا کر فلا‌ں شخص کی حوصلہ‌افزائی کرو۔‏“‏ البتہ جب ہم اپنی طرف سے دوسروں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوتا ہے۔‏ (‏امثا 19:‏17؛‏ عبر 12:‏12‏)‏ مثال کے طور پر جب ایک بھائی آپ کی کلیسیا میں تقریر دینے آتا ہے تو آپ اُسے بتا سکتے ہیں کہ اُس کی تقریر کی وجہ سے آپ کو کسی مشکل سے نمٹنے کا حوصلہ ملا ہے یا پھر آپ ایک صحیفے کو اچھی طرح سے سمجھ گئے ہیں۔‏ ایک بہن نے ایک بزرگ کو خط میں لکھا کہ ”‏جب آپ ہماری کلیسیا میں تقریر دینے آئے تو ہم نے زیادہ دیر تک بات نہیں کی لیکن آپ نے میرے دل کا بوجھ جان لیا اور مجھے تسلی دی اور تازہ‌دم کر دیا۔‏ تقریر دیتے وقت اور مجھ سے بات کرتے وقت آپ کا لہجہ اِتنا شفیق تھا کہ آپ مجھے یہوواہ کی طرف سے ایک نعمت لگے۔‏“‏

19 پولُس رسول نے مسیحیوں کو نصیحت کی کہ ”‏ایک دوسرے کو تسلی دیتے رہیں اور ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے رہیں جیسے آپ کر رہے ہیں۔‏“‏ (‏1-‏تھس 5:‏11‏)‏ ہمیں اِس نصیحت پر عمل کرنے کا پکا عزم کرنا چاہیے۔‏ یوں ہم سیدھی راہ پر چلتے رہنے میں ایک دوسرے کی مدد کر سکیں گے۔‏ اگر ہم ”‏ہر دن ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی کرتے رہیں“‏ گے تو یہوواہ خدا بہت خوش ہوگا۔‏

^ ‏[‏1]‏ ‏(‏پیراگراف 1)‏ کچھ نام فرضی ہیں۔‏