مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہم خدا کے کلام کی بدولت منظم ہیں

ہم خدا کے کلام کی بدولت منظم ہیں

‏”‏[‏یہوواہ]‏ نے حکمت سے زمین کی بنیاد ڈالی اور فہم سے آسمان کو قائم کِیا۔‏“‏‏—‏امثا 3:‏19‏۔‏

گیت:‏ 15،‏  16

1،‏ 2.‏ ‏(‏الف)‏ بہت سے لوگوں کو یہ خیال کیسا لگتا ہے کہ خدا کی کوئی تنظیم ہے؟‏ (‏ب)‏ اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟‏

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ خدا کی کوئی تنظیم نہیں ہے۔‏ اُنہیں لگتا ہے کہ ہر شخص اپنے طریقے سے اُس کی عبادت کر سکتا ہے۔‏ لیکن کیا یہ نظریہ درست ہے؟‏

2 اِس مضمون میں اِس بات کے ثبوت پیش کیے جائیں گے کہ خدا ماہر منتظم ہے اور وہ ہر کام منظم انداز میں کرتا ہے۔‏ ہم اِس بات پر بھی غور کریں گے کہ جب یہوواہ کی تنظیم کی طرف سے ہمیں کوئی ہدایت دی جاتی ہے تو ہمارا ردِعمل کیا ہونا چاہیے۔‏ (‏1-‏کُر 14:‏33،‏ 40‏)‏ پہلی صدی عیسوی میں یہوواہ کے بندے اُس کے کلام میں درج ہدایات پر عمل کرتے تھے اور اِس وجہ سے وہ وسیع پیمانے پر بادشاہت کی خوش‌خبری سنا سکے۔‏ اُن کی طرح ہم بھی خدا کے کلام کی رہنمائی کے مطابق چلتے ہیں اور اُن ہدایات پر عمل کرتے ہیں جو ہمیں خدا کی تنظیم کے زمینی حصے کی طرف سے ملتی ہیں۔‏ اِس کے نتیجے میں ہم دُنیا بھر میں خوش‌خبری سنا رہے ہیں اور ہماری کلیسیاؤں میں پاکیزگی،‏ امن اور اِتحاد پایا جاتا ہے۔‏

یہوواہ خدا اعلیٰ درجے کا منتظم ہے

3.‏ اِس بات کے کیا ثبوت ہیں کہ یہوواہ خدا ماہر منتظم ہے؟‏

3 تخلیق میں اِس بات کے بہت سے ثبوت پائے جاتے ہیں کہ خدا اعلیٰ درجے کا منتظم ہے۔‏ بائبل میں لکھا ہے کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ نے حکمت سے زمین کی بنیاد ڈالی اور فہم سے آسمان کو قائم کِیا۔‏“‏ (‏امثا 3:‏19‏)‏ ہم ’‏تو اُس کی راہوں کے فقط کناروں‘‏ سے واقف ہیں۔‏ (‏ایو 26:‏14‏)‏ مثال کے طور پر اِنسان سیاروں،‏ ستاروں اور کہکشاؤں کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتے لیکن جو کچھ اُنہوں نے دریافت کِیا ہے،‏ اِس سے پتہ چلتا ہے کہ کائنات کو بڑی مہارت سے منظم کِیا گیا ہے۔‏ (‏زبور 8:‏3،‏ 4‏)‏ ہر کہکشاں میں لاکھوں ستارے ہوتے ہیں لیکن وہ سب منظم طریقے سے گردش کرتے ہیں۔‏ ذرا نظامِ‌شمسی پر بھی غور کریں۔‏ اِس میں سیارے بڑے نظم‌وضبط سے سورج کے گِرد گردش کرتے ہیں۔‏ کائنات میں ایسا حیرت‌انگیز نظم‌وضبط دیکھ کر ہم میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ہم اُس خدا کی عبادت کریں ”‏جس نے دانائی سے آسمان بنایا۔‏“‏—‏زبور 136:‏1،‏ 5-‏9‏۔‏

4.‏ سائنس‌دان بہت سے اہم سوالوں کے جواب کیوں نہیں دے سکتے؟‏

4 سائنس‌دانوں کی دریافتوں سے ہم نے کائنات اور زمین کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے اور اُن کی ایجادات کی وجہ سے ہماری زندگی قدراً سہل ہو گئی ہے۔‏ لیکن سائنس‌دان بہت سے سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے۔‏ مثال کے طور پر وہ ہمیں یہ نہیں بتا سکتے کہ کائنات کیسے وجود میں آئی۔‏ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ صرف زمین پر ہی جان‌دار کیوں ہیں۔‏ اِس کے علا‌وہ وہ ہمیں یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ اِنسانوں کے دل میں ہمیشہ تک زندہ رہنے کی خواہش کیوں ہے۔‏ (‏واعظ 3:‏11‏)‏ یہ تمام سوال بہت اہم ہیں۔‏ پھر سائنس‌دان اِن کے جواب کیوں نہیں دے سکتے ہیں؟‏ اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ خدا کے وجود سے اِنکا‌ر کرتے ہیں اور اِرتقا کے نظریے کو مانتے ہیں۔‏ لیکن یہوواہ خدا نے اپنے کلام میں اِن اہم سوالوں کے جواب دیے ہیں۔‏

5.‏ اِنسانوں کو اِس بات سے کیا فائدہ ہوتا ہے کہ قدرتی قوانین لاتبدیل ہیں؟‏

5 یہوواہ خدا نے قدرتی قوانین بھی قائم کیے ہیں جن سے اِنسانوں کو بڑا فائدہ ہوتا ہے۔‏ الیکٹریشن،‏ پلمبر،‏ انجینئر،‏ پائلٹ اور سرجن وغیرہ صرف اِس لیے اپنے اپنے کام انجام دے سکتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اِن قوانین میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔‏ مثال کے طور پر اگر اِنسانوں کے جسم میں اعضا کی ترتیب ایک جیسی نہ ہوتی تو ایک سرجن کو دل کا آپریشن کرنے سے پہلے مریض کے جسم میں اِسے ڈھونڈنا پڑتا۔‏ یا پھر کششِ‌ثقل کو لیں۔‏ ہم سب جانتے ہیں کہ اگر ہم کسی اُونچی جگہ سے چھلا‌نگ ماریں گے تو ہم مر سکتے ہیں۔‏ اِس لیے ہم کششِ‌ثقل جیسے قدرتی قوانین کا احترام کرتے ہیں۔‏

ماضی میں خدا کے منظم بندے

6.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوواہ چاہتا ہے کہ اُس کے خادم منظم ہوں؟‏

6 جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہوواہ خدا نے کائنات کو کتنے شان‌دار طریقے سے منظم کِیا ہے تو ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ وہ چاہتا ہے کہ اُس کے خادم بھی منظم ہوں۔‏ اِسی لیے تو اُس نے ہمیں اپنا کلام دیا ہے۔‏ اگر ہم اِس میں پائی جانے والی رہنمائی کے مطابق چلیں گے اور خدا کی تنظیم کی ہدایات پر عمل کریں گے تو ہماری زندگی بامقصد ہو جائے گی اور خوشیوں سے بھر جائے گی۔‏

7.‏ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ بائبل میں ترتیب پائی جاتی ہے؟‏

7 کچھ عالموں کا خیال ہے کہ بائبل یہودی اور مسیحی کتابوں کا مجموعہ ہے جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔‏ لیکن سچ تو یہ ہے کہ خدا نے بائبل کی کتابوں کو بڑی ترتیب سے لکھوایا ہے کیونکہ پیدایش سے لے کر مکا‌شفہ کی کتاب تک ایک مرکزی موضوع پایا جاتا ہے۔‏ اِن کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ خدا نے ایک ”‏نسل“‏ کا وعدہ کِیا جو کہ یسوع مسیح ہیں۔‏ اِن کی بادشاہت کے ذریعے زمین کے لیے خدا کا مقصد پورا ہوگا اور یہ ثابت ہو جائے گا کہ یہوواہ خدا ہی سب سے اچھا حکمران ہے۔‏‏—‏پیدایش 3:‏15؛‏ متی 6:‏10؛‏ مکا‌شفہ 11:‏15 کو پڑھیں۔‏

8.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ بنی‌اِسرائیل بڑے اچھے طریقے سے منظم تھے؟‏

8 بنی‌اِسرائیل بڑے اچھے طریقے سے منظم تھے۔‏ موسیٰ کی شریعت کے تحت ”‏خدمت گذار عورتیں خیمۂ‌اِجتماع کے دروازہ پر خدمت کرتی تھیں۔‏“‏ (‏خر 38:‏8‏)‏ اِسرائیلی اپنے خیموں اور خیمۂ‌اِجتماع کو ایک خاص ترتیب سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے تھے۔‏ بادشاہ داؤد نے لاویوں اور کاہنوں کو گروہوں میں تقسیم کِیا اور مقرر کِیا کہ ہر گروہ کب خدمت کرے گا۔‏ (‏1-‏توا 23:‏1-‏6؛‏ 24:‏1-‏3‏)‏ جب بنی‌اِسرائیل یہوواہ کے حکموں پر عمل کرتے تھے تو یہوواہ اُن کو برکت دیتا تھا اور اُن میں نظم‌وضبط،‏ امن اور اِتحاد ہوتا تھا۔‏—‏اِست 11:‏26،‏ 27؛‏ 28:‏1-‏14‏۔‏

9.‏ یہ کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی صدی عیسوی کے مسیحی بڑے اچھے طریقے سے منظم تھے؟‏

9 پہلی صدی عیسوی کے مسیحی بھی بڑے اچھے طریقے سے منظم تھے۔‏ ایک گورننگ باڈی اُن کی سربراہی کرتی تھی۔‏ شروع میں یہ گورننگ باڈی 12 رسولوں پر مشتمل تھی لیکن بعد میں اِس میں اَور بھی بھائیوں کو شامل کِیا گیا۔‏ (‏اعما 6:‏1-‏6؛‏ 15:‏6‏)‏ گورننگ باڈی کے کچھ رُکن اور اُن کے ساتھ کام کرنے والے کچھ بھائی خدا کے اِلہام سے کلیسیاؤں کو خط لکھتے تھے جن میں ہدایتیں اور نصیحتیں ہوتی تھیں۔‏ (‏1-‏تیم 3:‏1-‏13؛‏ طط 1:‏5-‏9‏)‏ گورننگ باڈی کی ہدایتوں پر عمل کرنے سے کلیسیاؤں کو کیا فائدہ ہوتا تھا؟‏

10.‏ گورننگ باڈی کی ہدایتوں پر عمل کرنے سے کلیسیاؤں کو کیا فائدہ ہوا؟‏ (‏اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏

10 اعمال 16:‏4،‏ 5 کو پڑھیں۔‏ گورننگ باڈی کچھ بھائیوں کو کلیسیاؤں میں بھیجتی تھی تاکہ وہ بہن بھائیوں کو ’‏اُن حکموں کے بارے میں بتائیں جو یروشلیم کے رسولوں اور بزرگوں نے جاری کیے تھے۔‏‘‏ کلیسیاؤں نے اِن حکموں پر عمل کِیا جس کے نتیجے میں وہ ”‏ایمان میں مضبوط ہوتی گئیں اور شاگردوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی گئی۔‏“‏ آئیں،‏ دیکھیں کہ ہم اِن کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔‏

کیا آپ خدا کی تنظیم کی ہدایتوں پر عمل کرتے ہیں؟‏

11.‏ جب بزرگوں اور خادموں کو خدا کی تنظیم کی طرف سے کوئی ہدایت ملتی ہے تو اُنہیں کیا کرنا چاہیے؟‏

11 جب برانچ یا ملک کی کمیٹیوں،‏ حلقے کے نگہبانوں اور کلیسیا کے بزرگوں کو خدا کی تنظیم کی طرف سے کوئی ہدایت ملتی ہے تو اُنہیں کیا کرنا چاہیے؟‏ خدا کے کلام میں تمام مسیحیوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ فرمانبردار اور تابع‌دار ہوں۔‏ (‏اِست 30:‏16؛‏ عبر 13:‏7،‏ 17‏)‏ جو لوگ خدا کی تنظیم کی طرف سے ملنے والی ہدایتوں میں نقص نکا‌لتے ہیں یا اِن پر بڑبڑاتے ہیں،‏ وہ کلیسیاؤں کی محبت،‏ امن اور اِتحاد کو برباد کرتے ہیں۔‏ ایسے لوگ دیُترِفیس کی طرح ہیں جس نے پیشواؤں کا احترام نہیں کِیا اور یوں ظاہر کِیا کہ وہ خدا کا وفادار نہیں تھا۔‏ ‏(‏3-‏یوحنا 9،‏ 10 کو پڑھیں۔‏)‏ ظاہری بات ہے کہ ہم میں سے کوئی دیُترِفیس کی طرح نہیں ہونا چاہتا۔‏ اِس لیے خود سے پوچھیں:‏ ”‏کیا مَیں خدا کی تنظیم کی طرف سے ملنے والی ہدایتوں پر خوشی سے عمل کرتا ہوں؟‏ کیا مَیں دوسرے بہن بھائیوں کی حوصلہ‌افزائی کرتا ہوں کہ وہ یہوواہ اور اُس کی تنظیم کے وفادار رہیں؟‏“‏

12.‏ حال ہی میں بزرگوں اور خادموں کو مقرر کرنے کے طریقے میں کیا تبدیلی کی گئی ہے؟‏

12 اِس سلسلے میں ذرا گورننگ باڈی کی اُس ہدایت پر غور کریں جو حال ہی میں بزرگوں اور خادموں کو مقرر کرنے کے متعلق دی گئی تھی۔‏ 15 نومبر 2014ء کے مینارِنگہبانی میں ”‏قارئین کے سوال‏“‏ میں بتایا گیا کہ بزرگوں اور خادموں کو مقرر کرنے کے طریقے میں تبدیلی کی گئی ہے۔‏ اِس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی صدی میں سفری نگہبان کلیسیاؤں میں بزرگ اور خادم مقرر کرتے تھے۔‏ لہٰذا 1 ستمبر 2014ء سے حلقے کے نگہبان اِن بھائیوں کو مقرر کرنے لگے۔‏ اِس مضمون میں ہدایت دی گئی تھی کہ حلقے کے نگہبان کو کسی کلیسیا کا دورہ کرتے وقت اُن بھائیوں کو جاننے کی کوشش کرنی چاہیے جن کے نام بزرگ یا خادم کے طور پر تجویز کیے گئے ہیں۔‏ اگر ممکن ہو تو اُسے اِن بھائیوں کے ساتھ مل کر مُنادی بھی کرنی چاہیے۔‏ حلقے کے نگہبان کو اِس بات کو بھی خاطر میں لانا چاہیے کہ اِن بھائیوں کے بیوی بچے مثالی ہیں یا نہیں۔‏ (‏1-‏تیم 3:‏4،‏ 5‏)‏ کسی بھائی کو مقرر کرنے سے پہلے بزرگوں کی جماعت اور حلقے کے نگہبان کو اِس بات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ یہ بھائی بائبل میں درج شرائط پر پورا بھی اُترتا ہے یا نہیں۔‏—‏1-‏تیم 3:‏1-‏10،‏ 12،‏ 13؛‏ 1-‏پطر 5:‏1-‏3‏۔‏

13.‏ جب بزرگ ہمیں بائبل سے کوئی ہدایت دیتے ہیں تو ہمارا ردِعمل کیا ہونا چاہیے؟‏

13 جب بزرگ ہمیں کوئی ہدایت دیتے ہیں تو ہمیں اِس پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ وہ خدا کے کلام میں پائی جانے والی ”‏صحیح“‏ یا ”‏فائدہ‌مند“‏ تعلیم کے مطابق ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔‏ (‏1-‏تیم 6:‏3‏؛‏ فٹ‌نوٹ)‏ پہلی صدی میں کچھ مسیحی ’‏کام کرنے کی بجائے ایسے معاملوں میں دخل دے رہے تھے جن سے اُن کا کوئی تعلق نہیں تھا۔‏‘‏ بزرگوں نے اُن کی اِصلا‌ح کی تھی لیکن اُنہوں نے بزرگوں کی بات کو نظرانداز کِیا تھا۔‏ پولُس رسول نے ہدایت دی کہ کلیسیا کو ایسے ہٹ‌دھرم شخص کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہیے۔‏ اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏اُس سے خبردار رہیں اور اُس سے میل جول رکھنا بند کر دیں۔‏“‏ لیکن اِس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے یہ ہدایت بھی دی کہ ایسے شخص کو ”‏دُشمن نہ سمجھیں۔‏“‏ (‏2-‏تھس 3:‏11-‏15‏)‏ ہمارے زمانے میں بھی کچھ مسیحی ایسی روِش اِختیار کرتے ہیں جس سے کلیسیا کی بدنامی ہو سکتی ہے۔‏ شاید ایک مسیحی کسی ایسے شخص سے شادی کرنے کے لیے قدم اُٹھا رہا ہے جو یہوواہ کا گواہ نہیں ہے۔‏ (‏1-‏کُر 7:‏39‏)‏ اِس صورت میں بزرگ اُس کی اِصلا‌ح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ لیکن اگر وہ اِس روِش کو نہیں چھوڑتا تو بزرگ ایک تقریر پیش کر سکتے ہیں جس میں وہ کلیسیا کو اِس طرح کی روِش سے خبردار کرتے ہیں۔‏ ایسی تقریر سُن کر آپ کا ردِعمل کیا ہوگا؟‏ اگر آپ کو پتہ ہے کہ تقریر میں کس شخص کے بارے میں بات کی گئی ہے تو کیا آپ اُس کے ساتھ وقت گزارنے سے گریز کریں گے؟‏ اگر آپ ایسا کریں گے تو شاید اُسے احساس ہو جائے کہ اُسے اپنی روِش بدلنے کی ضرورت ہے۔‏  ‏[‏1]‏ 

پاکیزگی،‏ امن اور اِتحاد کو برقرار رکھیں

14.‏ ہم کلیسیا کی پاکیزگی کو کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں؟‏

14 ہم خدا کے کلام میں درج ہدایتوں پر عمل کرنے سے کلیسیا کو پاک صاف رکھ سکتے ہیں۔‏ ذرا اُس صورتحال پر غور کریں جو شہر کُرنتھس کی کلیسیا میں پیدا ہوئی تھی۔‏ پولُس رسول کی اَن‌تھک محنت کی وجہ سے اُس شہر میں بہت سے لوگ یسوع مسیح کے پیروکار بن گئے۔‏ (‏1-‏کُر 1:‏1،‏ 2‏)‏ پولُس رسول کو اِن بہن بھائیوں سے بہت پیار تھا۔‏ ذرا سوچیں کہ اُس وقت اُن پر کیا گزری ہوگی جب اُنہوں نے سنا کہ اُس کلیسیا میں ایک شخص کی حرام‌کاری کو نظرانداز کِیا جا رہا ہے۔‏ پولُس رسول نے وہاں کے بزرگوں کو ہدایت دی کہ وہ اُس شخص کو شیطان کے حوالے کر دیں یعنی کلیسیا سے خارج کر دیں۔‏ اُنہیں کلیسیا کو ”‏خمیر“‏ سے پاک کرنے کی ضرورت تھی۔‏ (‏1-‏کُر 5:‏1،‏ 5-‏7،‏ 12‏)‏ جب بزرگ ایک شخص کو کلیسیا سے خارج کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ہم اُس سے تعلق توڑ کر کلیسیا کی پاکیزگی کو برقرار رکھتے ہیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ ہمارے ردِعمل سے اِس شخص کو اپنی بُری روِش سے توبہ کرنے اور خدا سے معافی مانگنے کی ترغیب ملے۔‏

15.‏ ہم کلیسیا میں امن‌واِتحاد کو کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں؟‏

15 کُرنتھس کی کلیسیا میں ایک اَور مسئلہ کھڑا ہو گیا تھا۔‏ کچھ بھائی ایک دوسرے پر مُقدمے چلا رہے تھے۔‏ پولُس رسول نے اُن سے کہا:‏ ”‏کیا اِس سے بہتر یہ نہیں کہ جب کوئی آپ کو نقصان پہنچائے یا آپ کو دھوکا دے تو آپ اِسے برداشت کر لیں؟‏“‏ (‏1-‏کُر 6:‏1-‏8‏)‏ آج بھی کبھی کبھار مسیحیوں میں لڑائی جھگڑے ہو جاتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر اگر دو مسیحی مل کر کاروبار کریں اور کسی نہ کسی وجہ سے ایک مسیحی کا مالی نقصان ہو جائے تو شاید وہ اپنے بھائی پر دھوکےبازی کا اِلزام لگا‌ئے۔‏ اِس طرح کے معاملوں کی وجہ سے کچھ مسیحی اپنے ہم‌ایمان بھائی یا بہن پر مُقدمہ دائر کرتے ہیں۔‏ لیکن پولُس رسول نے خدا کے اِلہام سے یہ ہدایت دی کہ خدا کی نیک‌نامی اور کلیسیا کے امن کی خاطر ہمیں مالی نقصان اُٹھا لینا چاہیے۔‏ ‏[‏2]‏  ظاہری بات ہے کہ مسیحیوں کو اُن ہدایات پر عمل کرنا چاہیے جو یسوع مسیح نے سنگین نوعیت کے اِختلا‌فات کو سلجھانے کے سلسلے میں دی تھیں۔‏ ‏(‏متی 5:‏23،‏ 24؛‏ 18:‏15-‏17 کو پڑھیں۔‏)‏ اِن ہدایتوں پر عمل کرنے سے ہم یہوواہ کے بندوں میں امن‌واِتحاد کو فروغ دیتے ہیں۔‏

16.‏ یہوواہ خدا کے بندوں میں اِتحاد کیوں پایا جاتا ہے؟‏

16 زبور نویس نے لکھا:‏ ”‏دیکھو!‏ کیسی اچھی اور خوشی کی بات ہے کہ بھائی باہم مل کر رہیں۔‏“‏ (‏زبور 133:‏1‏)‏ جب بنی‌اِسرائیل نے خدا کی ہدایتوں پر عمل کِیا تو اُن میں نظم‌وضبط اور اِتحاد تھا۔‏ یہوواہ خدا نے پیش‌گوئی کی تھی کہ اُس کے بندوں میں اِتحاد ہوگا۔‏ میکا‌ہ نبی کے ذریعے اُس نے کہا:‏ ”‏مَیں اُن کو .‏ .‏ .‏ بھیڑوں اور چراگاہ کے گلّہ کی مانند اِکٹھا کروں گا۔‏“‏ (‏میک 2:‏12‏)‏ اور صفنیاہ نبی کے ذریعے اُس نے کہا:‏ ”‏مَیں اُس وقت لوگوں کے ہونٹ پاک کر دوں گا [‏یعنی اُن کو اپنے کلام کی سچائیوں کی تعلیم دوں گا]‏ تاکہ وہ سب [‏یہوواہ]‏ سے دُعا کریں اور ایک دل ہو کر اُس کی عبادت کریں۔‏“‏ (‏صفن 3:‏9‏)‏ کیا ہم اِس شرف کے لیے شکرگزار نہیں کہ ہم یہوواہ خدا کی عبادت میں متحد ہیں؟‏

اگر ایک مسیحی کوئی غلط قدم اُٹھاتا ہے تو بزرگ اُس کی مدد کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔‏ (‏پیراگراف 17 کو دیکھیں۔‏)‏

17.‏ کلیسیا کی پاکیزگی اور اِتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے بزرگوں کو کیا کرنا چاہیے؟‏

17 کبھی کبھار ایک مسیحی کوئی سنگین گُناہ کرتا ہے۔‏ اِس صورت میں بزرگوں کو جلد سے جلد اُس کی اِصلا‌ح کرنی چاہیے تاکہ کلیسیا کی پاکیزگی اور اِتحاد خطرے میں نہ پڑے۔‏ لیکن اُنہیں پُرمحبت انداز میں ایسا کرنا چاہیے۔‏ پولُس رسول جانتے تھے کہ خدا بُرے کاموں کو نظرانداز نہیں کرتا۔‏ (‏امثا 15:‏3‏)‏ اِس لیے اُنہوں نے کُرنتھس کی کلیسیا کو پہلا خط لکھا جس میں اُنہوں نے بڑے پیار سے مگر صاف لفظوں میں اُن کی اِصلا‌ح کی۔‏ اُس کلیسیا کے بزرگوں نے پولُس رسول کی ہدایت پر عمل کِیا۔‏ اِس لیے پولُس نے کچھ مہینوں بعد اِس کلیسیا کو دوسرا خط لکھا جس میں اُنہوں نے وہاں کے بہن بھائیوں کو داد دی۔‏ اِسی طرح اگر کوئی مسیحی انجانے میں کوئی غلط قدم اُٹھاتا ہے تو بزرگوں کو نرمی سے اُس کی اِصلا‌ح کرنی چاہیے۔‏—‏گل 6:‏1‏۔‏

18.‏ ‏(‏الف)‏ پہلی صدی کے مسیحیوں کو خدا کے کلام میں پائی جانے والی ہدایتوں پر عمل کرنے سے کیا فائدہ ہوا؟‏ (‏ب)‏ اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟‏

18 پہلی صدی کے مسیحی خدا کے کلام میں پائی جانے والی ہدایتوں پر عمل کرنے سے اپنی کلیسیاؤں میں پاکیزگی،‏ امن اور اِتحاد کو برقرار رکھ سکے۔‏ (‏1-‏کُر 1:‏10؛‏ اِفس 4:‏11-‏13؛‏ 1-‏پطر 3:‏8‏)‏ اِس کے نتیجے میں وہ بہت بڑے پیمانے پر بادشاہت کی مُنادی کر پائے،‏ یہاں تک کہ پولُس رسول نے لکھا:‏ ”‏خوش‌خبری .‏ .‏ .‏ کی مُنادی آسمان کے نیچے ہر جگہ کی گئی۔‏“‏ (‏کُل 1:‏23‏)‏ آج بھی سچے مسیحی متحد ہیں اور منظم طریقے سے پوری دُنیا میں خدا کی بادشاہت کی خوش‌خبری سنا رہے ہیں۔‏ اگلے مضمون میں ہم اِس بات کے ثبوت دیکھیں گے کہ یہوواہ کے بندے بائبل کا بڑا احترام کرتے ہیں اور اپنے عظیم خدا کی بڑائی کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔‏—‏زبور 71:‏15،‏ 16‏۔‏

^ ‏[‏1]‏ ‏(‏پیراگراف 13)‏ 15 جولائی 1999ء کے مینارِنگہبانی کے صفحہ 29-‏31 پر ”‏سوالات از قارئین“‏ کو دیکھیں۔‏

^ ‏[‏2]‏ ‏(‏پیراگراف 15)‏ یہ دیکھنے کے لیے کہ کن صورتحال میں ایک مسیحی کے لیے کسی ہم‌ایمان بھائی یا بہن پر مُقدمہ دائر کرنا غلط نہیں ہوتا،‏ کتاب خدا کی محبت میں قائم رہیں کے صفحہ 223 پر پہلے فٹ‌نوٹ کو دیکھیں۔‏